• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید میلاد النبی اور کرسمس

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جائز ومباح کہنے والوں کو ہر گز دلیل کی حاجت نہیں
آپ موصوف نے معمولات کا انحصار مباح ہونے پر رکھا ہے۔جس میں فعلاً و ترکا ً کوئی ثواب نہیں بلکہ خواہ مخواہ کا التزام ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جو شخص جس چیز یا فعل کو ناجائز کہتا ہے، اُس پر واجب ہے کہ اپنے دعویٰ پر دلیل شرعی قائم کرے،اور جائز ومباح کہنے والوں کو ہر گز دلیل کی حاجت نہیں ،کیونکہ اُس چیز کی ممانعت پر کوئی دلیل شرعی نہ ہونا ہی جواز کی دلیل ہے، جامع ترمذی وسنن ابن ماجہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !
’’ حلال وہ ہے جو خدا نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جو خدا نے اپنی کتاب میں حرام کیا ،اور جس پر سکوت فرمایا وہ اللہ کی طرف سے معاف ہے ،یعنی اس کے کرنے پر کچھ گناہ نہیں ‘‘۔
لہذا ہمیں جواز پر دلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ،شرع سے ممانعت ثابت نہ ہونا ہی ہمارے لئے دلیل ہے،آپ اگر ان معمولات کو روکنا چاہتے ہیں تو ممانعت کی ایک آیت یا ایک حدیث پیش کریں
جس میں یہ لکھا ہو کہ خبردار یہ معمولات نہ کرنا۔
عرض ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کا تعلق بھی لباس و معاملات سے ہے۔ انہوں نے پنیر ، گھی اور کپڑوں وغیرہ کے بارے میں سوال کیا تھا ۔

عبادات میں اصل حرمت ہے۔ یعنی جب تک عبادت بجا لانے کی شرعی دلیل نہ مل جائے ، تب تک وہ عبادت حرام رہے گی۔
اور معاملات میں اصل مباح ہے۔ یعنی جب تک ممانعت کی دلیل شریعت سے نہ مل جائے تب تک اس کا کرنا جائز ہے۔ ۔

اب اگر عید میلاد کو آپ معاملات اور دنیاوی رسوم یا عادی امور وغیرہ سمجھتے ہیں تو آپ کا ہم سے ممانعت کی خاص دلیل طلب کرنا جائز ہے۔ اور اگر آپ اسے عبادت سمجھ کر بجا لاتے ہیں، تو ہمارا آپ سے اس عباد ت کو بجا لانے کی خاص دلیل کا مطالبہ کرنا درست ہے۔

ویسے اگر شرع سے ممانعت ثابت نہ ہونا ہی آپ کی دلیل ہے تو چھٹی نماز یا ایک رکعت میں تین سجدے، چھ رکعت نفل ایک سلام سے پڑھنے والے کو آپ کس دلیل سے قائل کریں گے کہ یہ عمل درست نہیں؟ کام تو بظاہر یہ بھی اچھے ہی ہیں۔
 
شمولیت
جنوری 27، 2015
پیغامات
381
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
94
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
میرے پاس ایک ویڈیو ہے شاید ملتان کی ہے جس میں لوگ جنازے کے ساتھ خوب ڈھول،باجے اور بھنگڑا ڈالتے ہوئے اسے تدفین کیلئے لے کے جا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے بعض علاقوں میں لوگ قرآن مجید کے ساتھ بچیوں کی شادی بھی کرتے رہے ہیں۔

یہ لوگ بھی شاید اسی فلسفلے کے تحت ایسا کرتے رہے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے منع تو نہیں کیا نا، کہ جنازے کیساتھ ڈھول باجے نہ بجاؤ یا قرآن مجید کے ساتھ شادی نہ کرو۔

آج آپ امام ابن حجر کی باتیں بطور دلیل پیش کر رہے ہیں کل کو لوگ محمد الیاس قادری کی باتیں بطور دلیل پیش کریں گے دین کس قدر تبدیل ہوتا رہے گا!!۔

اس لئے تو رسول اللہﷺ نے فرما دیا تھا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہ ہو تو وہ مردود ہے۔﴿رواہ مسلم﴾

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
دین میں نئے نئے طریقہ ء کار اختیار کرنے سے بچو،اس لئے کہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ۔﴿رواہ ترمذی﴾

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
دین میں ہر نيا ايجاد کردہ کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی آگ ميں ہے۔﴿سنن النسائي﴾

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے، اور راستوں میں بہترین راستہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، اور بد ترین باتیں دین میں نئی نکالی ہوئی باتیں ہیں اور (دین میں) ہر نئی نکالی ہوئی بات گمراہی ہے ۔﴿رواہ مسلم﴾
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جو شخص جس چیز یا فعل کو ناجائز کہتا ہے، اُس پر واجب ہے کہ اپنے دعویٰ پر دلیل شرعی قائم کرے،اور جائز ومباح کہنے والوں کو ہر گز دلیل کی حاجت نہیں ،کیونکہ اُس چیز کی ممانعت پر کوئی دلیل شرعی نہ ہونا ہی جواز کی دلیل ہے، جامع ترمذی وسنن ابن ماجہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !
’’ حلال وہ ہے جو خدا نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جو خدا نے اپنی کتاب میں حرام کیا ،اور جس پر سکوت فرمایا وہ اللہ کی طرف سے معاف ہے ،یعنی اس کے کرنے پر کچھ گناہ نہیں ‘‘۔
لہذا ہمیں جواز پر دلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ،شرع سے ممانعت ثابت نہ ہونا ہی ہمارے لئے دلیل ہے،آپ اگر ان معمولات کو روکنا چاہتے ہیں تو ممانعت کی ایک آیت یا ایک حدیث پیش کریں
جس میں یہ لکھا ہو کہ خبردار یہ معمولات نہ کرنا۔
دین اسلام میں دو تہوار ہیں - عید الفطر و عید الاضحی - تیسرا تہوار عید میلاد النبی دین میں اضافہ ہے - دین میں اضافہ بدعت ہے - اور بدعت کی ممانعت احادیث نبوی سے ثابت ہے اب مزید کس ممانعت کا ثبوت یا دلیل چاہیے آپ کو ؟؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !


عید میلاد النبی - اسراف و تبذیر

غلغلہ اسراف کا خیر البشر کے نام پر
میں سمجھتا ہوں‌ نئی افتاد ہے اسلام پر

جھنڈیوں کے جھرمٹوں میں‌ قمقموں کا پیچ و تاب
زاوئیے بُنتی ہوئی رعنائیاں ہر گام پر

یار لوگوں میں نئے عنوان سے چندے کی طلب
حیف اس انداز پر افسوس ان ایام پر

مسجد نبوی کی نقلیں‌ کوچہ و بازار میں
دیدہ و دل نقش بر دیوار ہیں‌ اصنام پر

بج رہے ہیں‌ ڈھول ، تماشے ، تالیاں ، چمٹے ، رباب
کس مزے سے عید میلاد النبی کے نام پر

دینِ قیم سرنگوں نالہ بلب روحِ حچاز
مفتیان دین بازاری کے ذوقِ خام پر

کٹ کھنوں کے ہاتھ میں‌ میرِ اُمم کا تذکرہ
عرشِ اعظم کانپتا ہے اس مذاقِ عام پر

اینڈے پھرتے ہیں ، شورش واعظِ بے لگام
کھینچ کر تنسیخ کا خط شرع کا احکام پر


شاعر: شورش کاشمیری
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
زیادہ بحث سے کوئی فائدہ نہیں، محدثین کی درج ذیل آراء پڑھ لیں :
g.jpg
h.jpg
i.jpg
 
Top