• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خود ساختہ عید میلاد النبی کی حقیقت

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
السلام علیکم ۔ مجھے اس وسوسے کے دلائل چاہیے۔ جو کہ اک بریلوی بھائی کی طرف سے اٹھائے گے ہیں۔


Sent from my SM-G570F using Tapatalk
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
۱۔ سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ بارہ ربیع الاول کو جو مبینہ عید میلاد النبی صلی الہ علیہ وسلم منائی جاتی ہے، یہ ایک "مذہبی تہوار"، یا "مذہبی دن" کے طور پر منائی جاتی ہے۔ یہ یوم پاکستان، یوم فضائیہ یا عالمی یوم محنت وغیرہ کی طرح کوئی "غیر مذہبی" دن نہیں ہے۔

۲۔ دوسری بات یاد رکھئے کہ دین اسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مکمل ہوگیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ تو اس دین میں کوئی اضافہ کیا جاسکتا ہے اور نہ کمی۔

۳۔ تیسری اور آخری بات یہ کہ آج ہم جو عید میلاد النبی صلہ اللہ علیہ وسلم "مذہبی جوش و جذبے" سے مناتے ہیں۔ اسے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں منایا۔ نہ منانے کا حکم دیا۔ اسی طرح خلفائے راشدین میں سے کسی نے بھی یہ عید میلاد النبی نہیں منایا۔

اگر آپ ان تین باتوں کو سمجھ لیں گے تو جان جائیں گے کہ دین اسلام میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا حقیقت ہے۔ یہ ایک بدعت ہے۔ اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ باقی ساری باتیں ضمنی اور بے بنیاد ہیں۔ دین میں مکالمہ بنیادی باتوں پر اور قرآن و سنت کے حوالہ سے کیا جاتا ہے۔ ادھر اُدھر کی غیر متعلق باتوں پر نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب
 

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
۱۔ سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ بارہ ربیع الاول کو جو مبینہ عید میلاد النبی صلی الہ علیہ وسلم منائی جاتی ہے، یہ ایک "مذہبی تہوار"، یا "مذہبی دن" کے طور پر منائی جاتی ہے۔ یہ یوم پاکستان، یوم فضائیہ یا عالمی یوم محنت وغیرہ کی طرح کوئی "غیر مذہبی" دن نہیں ہے۔

۲۔ دوسری بات یاد رکھئے کہ دین اسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مکمل ہوگیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ تو اس دین میں کوئی اضافہ کیا جاسکتا ہے اور نہ کمی۔

۳۔ تیسری اور آخری بات یہ کہ آج ہم جو عید میلاد النبی صلہ اللہ علیہ وسلم "مذہبی جوش و جذبے" سے مناتے ہیں۔ اسے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں منایا۔ نہ منانے کا حکم دیا۔ اسی طرح خلفائے راشدین میں سے کسی نے بھی یہ عید میلاد النبی نہیں منایا۔

اگر آپ ان تین باتوں کو سمجھ لیں گے تو جان جائیں گے کہ دین اسلام میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا حقیقت ہے۔ یہ ایک بدعت ہے۔ اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ باقی ساری باتیں ضمنی اور بے بنیاد ہیں۔ دین میں مکالمہ بنیادی باتوں پر اور قرآن و سنت کے حوالہ سے کیا جاتا ہے۔ ادھر اُدھر کی غیر متعلق باتوں پر نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب
جزاک اللہ بھائی۔۔

لیکن مجھے یہ جو حوالے دئے گئے تصویر میں ان کا پتہ کرنا ہے کہ یہ کہاں تک معتبر ییں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
عید میلاد النبیﷺ کی شرعی حیثیت

ڈاکٹر فضل الرحمن المدنی
جامعہ محمدیہ منصورہ، مالیگاؤں

الحمد للہ کفیٰ وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ ، امابعد!
ربیع الاول کا مہینہ وہ مہینہ ہے ،جس میں آقائے نامدار، تاجدار مدینہ ،احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی،اس اعتبار سے یقیناً یہ مہینہ خوشی ومسرت کا مہینہ ہے لیکن اسی مہینہ میں آپﷺ کا انتقال بھی ہوا ،اس اعتبار سے یہ مہینہ ایک طرح سے غم کا مہینہ ہے ۔ اس واسطے ہمیں اپنی رائے اور مرضی سے کچھ کرنے کے بجائے کتاب وسنت اور عمل صحابہ کی روشنی میں دیکھنا چا ہئے کہ اس مہینہ میں جو بہت سے مسلمان عید میلاد النبی اور بارہ وفات مناتے ہیں ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگر ان کا ثبوت کتاب وسنت سے ہو تو انہیں منا نا چا ہئے اور اگر کتاب وسنت وغیرہ ادلہ شرعیہ سے ان کا ثبوت نہ ہو تو بلا کسی تردد کے انھیں ترک کر دینا چا ہئے۔
اسلام ایک جامع اور مکمل دین ہے
اللہ جل شانہ نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے بہت سے انبیاء ورسل کو مبعوث فرمایا اور سب سے آخر میں ان کی ہدایت ورہنمائی اور ان کو ایک جامع اور مکمل نظام حیات عطا کر نے کے لئے سید المرسلین وخاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا، جنہوں نے تیئس سال کی مدت میں اللہ کے پیغام کو مکمل طور سے ہم تک پہونچا دیا اور اِنس وجن کے لئے جتنی بھی مفید اور بہتر چیزیں تھیں اور جن جن چیزوں میں ان کی مصلحت اور بھلائی تھی اور دنیا و آخرت میں ان کا فائدہ تھا۔ان تمام چیزوں کو کھول کھول کر بیان کر دیا۔اور جن جن چیزوں میں ان کا نقصان تھا اور دنیا یا دین میں ان کے لئے جو چیزیں مضر تھیں ان سب سے لو گوں کو متنبہ کر دیا۔کیونکہ اللہ جل شانہ کی جانب سے تمام انبیاء ﷩ کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ، جیسا کہ رسو ل اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:”إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِىٌّ قَبْلِى إِلاَّ كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ “ (انظر صحیح مسلم:3/1473 ]١٨٤٤[) وسنن ابن ماجہ :2/1306 (٣٩٥٦) مجھ سے پہلے جتنے بھی انبیاء آئے ان پر واجب تھا کہ اپنی امت کی رہنمائی ہر اس چیز کی جانب کریں جس کے بارے میں انھیں معلوم ہو کہ اس میں ان کے لئے خیر اور بھلائی ہے۔اور انھیں ہر اس چیز سے ڈرائیں جس کے بارے میں انھیں معلوم ہو کہ اس میں ان کے لئے برائی اور نقصان ہے۔
ٌ اور طبرانی میں بسند صحیح مروی ہے کہ رسو ل اللہﷺ نے فر ما یا: ”مَا تَرَكْتُ شَيْئًا مِمَّا أَمَرَكُمُ اللَّهُ بِهِ إِلاَّ وَقَدْ أَمَرْتُكُمْ بِهِ وَلاَ تَرَكْتُ شَيْئًا مِمَّا نَهَاكُمُ اللَّهُ عَنْهُ إِلاَّ وَقَدْ نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ“(السنن الكبرى للبيہقي :7/ 76، السلسلۃ الصحيحۃ :4/ 302)جتنے بھی امور اللہ کی رضا وقربت کا ذریعہ تھے وہ سب میں نے تمہیں بتا دئیے ہیں اور جتنے بھی امور اللہ سے دوری اور اس کی نا راضگی کا ذریعہ تھے ان سب سے ہم نے تمہیں روک دیا ہے۔(ضعیف وموضوع روایات: ص ٩)
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺنے اپنی امت کو عبادات ،معاملات ،عقائد اور اخلاق وعادات وغیرہ تمام امور کے متعلق اللہ کے احکام کو تفصیل کے ساتھ بتا دیا۔
اور یہ ایک نا قابل انکار حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تعلیم و تبلیغ کی جو ذمہ داری آپﷺپر ڈالی تھی اس کو آپ نے مکمل طور سے ادا فر ما یا اور چھوٹی بڑی تمام مفید چیزوں کے بارے میں امت کو بتایاحتی کہ غیر مسلم حضرات صحابہ کرام ؓ سے کہا کر تے تھے : ”قَدْ عَلَّمَكُمْ نَبِيُّكُمْ كُلَّ شَىْءٍ حَتَّى الْخِرَاءَةَ “تمہارے نبی نے تو تمہیں ہر چیز کی تعلیم دی ہے حتی کہ قضائے حاجت کا طریقہ بھی بتا دیا ہے،
حضرت سلمان فارسیؓ سے کسی نے یہی بات کہی تو انھوں نے فر مایا:”أَجَلْ لَقَدْ نَهَانَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ لِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِىَ بِالْيَمِينِ أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِىَ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلاَثَةِ أَحْجَارٍ أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِىَ بِرَجِيعٍ أَوْ بِعَظْمٍ“
ہاں ہمارے رسول اللہ(ﷺ )نے ہم کو سب چیزوں کی تعلیم دی ہے اور قضائے حاجت کے آداب کے سلسلہ میں بھی ہمیں بتایا ہے،آپ نے ہمیں پیشاب وپاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف رخ کر نے سے منع فرمایا ،اور ہمیں حکم دیا کہ داہنے ہاتھ سے استنجا نہ کریں،اور تین پتھر سے کم سے استنجا نہ کریں ،اور جانوروں کی مینگنی اورہڈی سے استنجا نہ کریں ۔(رواہ مسلم واصحاب السنن الاربعۃ ، انظر صحیح مسلم: 1/223 ]٢٦٢[ وسنن ابی داؤد:1/17 ] ٧[)وسنن الترمذی:1/24 ] ١٦ [وسنن النسائی:1/8 ] ٤١[ وابن ماجہ:1/115 ] ٣١٦ [)

بہر حال اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ایک ایسا جامع اور مکمل دین عطا فرمایا جس میں کوئی نقص نہیں ،جیسا کہ ارشاد باری ہے:﴿ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ﴾ (المآئدة:٣)
ترجمہ : آج ہم نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کر دی ہیں اور تمہارے لئے اسلام کو بطوردین پسند کر لیا ہے۔
رسول اللہ ﷺنے مکمل دین امت تک پہنچا دیا
رسول اللہ ﷺنے اپنی امت کی خیر خواہی اور دین کی تبلیغ میں کوئی کوتاہی نہیں کی،بلکہ پوری دیانت داری سے اس فریضہ کو ادافرمایا، حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے جو عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا اس میں آپ نے لوگوں سے تین مرتبہ پوچھا:” أَلاَ هَلْ بَلَّغْتُ، أَلاَ هَلْ بَلَّغْتُ ، أَلاَ هَلْ بَلَّغْتُ “اے لوگو بتاؤ کیا میں نے اللہ کے دین کو تم تک پہونچا دیاہے؟لوگو! کیا میں نے تبلیغ ورسالت کے حق کو ادا کر دیا ہے؟لوگو!کیا میں نے اپنی ذمہ داری ادا کردی ہے؟لوگوں نے کہا’’نَعَمْ‘‘ ہاں،تو آپ نے اللہ کو گواہ بناتے ہوئے فرمایا:”اللَّهُمَّ اشْهَدْ ثَلاَثًا“اے اللہ تو گواہ رہ،اے اللہ تو گواہ رہ،اے اللہ تو گواہ رہ ۔ (انظر صحیح البخاری : 5/223سنن ابن ماجہ:2/1015 ] ٣٠٥٥ [)
کتاب وسنت سے عید میلاد کا ثبوت نہیں
اب جب کہ آپ نے جان لیا کہ رسول اللہ ﷺ کی دنیا سے رحلت سے پہلے یہ دین مکمل ہو چکا ہے اور اس میں کوئی کمی نہیں رہ گئی اور رسول اللہﷺ نے بھی اس دین کو امت تک پوری امانتداری سے پہونچا دیا اور صحابہ کرام اور اللہ تعالیٰ کو اس پر گواہ بھی بنالیا ہے،تو آئیے دیکھیں کہ اس مہینے میں بعض لوگ جو عید میلاد النبی منانے کا اہتمام کر تے ہیں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
آپ قرآن کریم کا از ابتداء تا انتہاء بغور مطالعہ کر جائیے، آپ کو کسی آیت میں عید میلاد النبی کا تذکرہ اور ثبوت نہیں ملے گا،رسول اللہ ﷺ کی تیئیس سالہ زندگی کی سیرت مبارکہ اور آپ کے اقوال،اعمال اور تقریرات کا جائزہ لے لیجئے،آپ تفسیر ،حدیث اور سیرت کی کسی معتبر کتاب میں صحیح سند سے یہ نہیں پا سکتے کہ رسول اللہ ﷺنے اپنے زندگی میں اپنی ولادت کی مناسبت سے ربیع الاول میں کبھی کوئی عید یا جشن منایا ہے،یا اپنے جاں نثار صحابہ کرام کو اس کا حکم دیا یا ترغیب دی ہے۔
اگر عید میلاد النبی کی کوئی شرعی حیثیت ہو تی،اس کی کوئی فضیلت ہو تی،اس کا کوئی اجرو ثواب ہو تا تو جیسے اللہ اور اس کے رسول ﷺنے رمضان المبارک اور شب قدر کے فضائل کو بیان فرمایا ویسے ربیع الاول کے فضائل بھی بیان فرماتے۔
جیسے آپ ﷺنے رمضان المبارک میں نماز تراویح،تلاوت قرآن کریم،شب بیداری وغیرہ عبادات کا اہتمام فرمایا اسی طرح ربیع الاول میں عید میلاد النبی کا اہتمام فرماتے۔
جیسے آپ نے ذی الحجہ، محرم اور شعبان کے فضائل کو بیان کیا اور ان مہینوں کے خصوصی ایام اور ان کی فضیلت والی عبادتوں کی جانب امت کی توجہ دلائی،اس مہینہ کی فضیلتوں کو بھی آپ بیان فرماتے۔
اگر اس ماہ میں عید میلاد النبی منانے،اس کا جلوس نکالنے اور چراغاں کر نے میں کوئی اجرو ثواب ہوتا، ان کی کوئی اہمیت ہوتی تو آپ ضرور بیان فرماتے۔لیکن جب نبیﷺ سے ان چیزوں کا ثبوت نہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ شریعت اسلامیہ میں ان کی کوئی اہمیت نہیں اور جو لوگ ان کو شرعی امور اور اجر و ثواب کا کام بتاتے ہیں گویا کہ وہ زبان حال سے کہتے ہیں کہ دین اسلام ناقص تھا اس کو ہم مکمل کررہے ہیں اور رسول اللہﷺ نے بہت سے اجروثواب کے کام کو امت کو نہیں بتایا،اب ہم بتا رہے ہیں،حالانکہ ایسا سوچنا بھی ایمان واسلام کے منافی ہے۔اور اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا﴾(الحشر :7) جو رسول نے تم کو دیا ہے اس کو لے لو اور جس سے انھوں نے منع فرمایا ہے اس سے باز آجاؤ۔
آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عید میلاد نہیں منائی اور نہ صحابہ کرام کو اس کی ترغیب دی، نہ کسی کو اس کا حکم دیا۔اس لئے یہ آپ کا عطا کر دہ نہیں۔لہذا جو لوگ اس کا اہتمام کرتے ہیں وہ رسول اللہﷺ کے طریقے کوچھوڑ کر ایک نئی چیز کو دین میں داخل کرتے ہیں ۔ حالانکہ کتاب وسنت میں اس کی سخت ممانعت ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾(النور:63)
جو لوگ رسول اللہﷺ کے فرمان اور حکم کی مخالفت کر تے ہیں انھیں ڈرنا چاہئے،وہ کسی فتنہ اور آزمائش میں مبتلا کر دئے جائیں گے یا انھیں درد ناک عذاب لاحق ہو گا ۔
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا﴾(الاحزاب :21)
ا لبتہ تمہارے لئے رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ میں بہترین اسوہ اور نمونہ ہے، اس کیلئے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا بکثر ت ذکر کرتا ہے۔
دین میں نئی چیز داخل کرنا ممنوع
رسول اللہﷺنے فرمایا:”مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ“ (انظرصحیح البخاری:5/301 ] ٢٦٩٧ [،وصحیح مسلم:3/1343 ] ١٧١٨ [ ،ومسند احمد:6/270) جس نے ہمارے اس دین میں کسی نئی چیز کو ایجاد کیا،جو اس میں سے نہیں ہے تو اس کی یہ نئی ایجاد کردہ چیز مردود اور ناقبل قبول ہے۔
ایک د وسری حدیث میں آپ نے فرمایا:”فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ“ (سنن أبی داود : 5/ 14-15]4607[ ,سنن الترمذ ی : 5/ 44] ٢٦٧٦ [ وقال: حديث حسن صحيح، وسنن ابن ماجہ:1/16 ] ٤٢[)
تم میری سنت اور طریقے کو لازم پکڑو اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقے کو لازم پکڑو،اس کو اچھی طرح تھام لو،اور دانتوں سے دبا کر خوب مضبوطی سے پکڑے رہو،اور دین میں نئی پیدا کردہ چیزوں سے دور رہو، اسواسطے کہ دین میں ہر نئی ایجاد کردہ چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
بدعات ومحدثات کی قباحتیں،برائیاں اور گناہ اس قدر ہیں اور یہ انسان کے دین و ایمان کے لئے اس قدر نقصان دہ ہیں کہ رسول اللہﷺعموماً اپنے ہر خطبہ میں ان کے بیان کر نے کا اہتمام فرماتے تھے اور ہمیشہ اپنے خطبۂ مبارکہ میں فرماتے: ”أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ “الحدیث (صحيح مسلم:2/592]867[، ابن ماجہ :1/17 ]45[)
بیشک سب سے بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہترین طریقہ حضرت محمد(ﷺ) کا طریقہ ہے اور تمام امور میں سب سے بُری وہ چیز یں ہیں جو دین میں نئی نکالی گئی ہوں اور دین میں نکالی گئی ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی نار جہنم میں لے جانے والی ہے۔
صحابہ کرام ﷢نے عید میلاد النبی نہیں منائی ، کیوں؟
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین جنہیں رسول اللہﷺ کے فر امین وارشادات کا سب سے زیادہ علم تھا اور جو آپﷺ سے سب سے زیادہ محبت کر نے والے اور شریعت اسلامیہ کی سب سے زیادہ پابندی کر نے والے تھے۔انھوں نے کبھی بھی عید میلاد النبیﷺ کا اہتمام نہیں کیا،نہ کبھی عید میلاد النبی کا جلوس نکالا،نہ بارہ ربیع الاول کو چراغاں کیا اور نہ کوئی جشن منایا، کیوں؟کیا ان کے دور میں ربیع الاول کا مہینہ نہیں آیا؟یا آپ کی ولادت کی تاریخ نہیں آئی؟یا ان کو آج کے عید میلاد النبیﷺ منانے والوں کی طرح رسول اللہﷺ سے عقیدت ومحبت نہیں تھی؟یا بخیلی اور دنیاوی کا موں میں مشغولیت کی وجہ سے انھوں نے یہ جشن نہیں منا یا؟حاشا وکلا، ایسا ہرگز نہیں تھا۔صحابہ کرام﷢ سے زیادہ آپﷺ سے محبت کر نے والا کو ئی نہیں ،انھوں نے تو آپ سے اپنی جان ،اپنے والدین اور اہل وعیال سے بھی زیادہ محبت کی ، فرمان نبوی: ’’ لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ‘‘(انظر صحیح البخاری :۱؍۵۸ ]۱۵ [ ،صحیح مسلم:۱ ؍۷ ۶]۷۰[)تم میں سے کوئی اس وقت تک مو من نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ ہمیشہ ان کے مدنظر رہا۔
حضرت علی اپنی جان کی پرواہ نہ کر تے ہوئے شب ہجرت آپ کے بسترپر سوئے۔حضرت ابو بکر نے سفر ہجرت میں جس طرح آپ کا ساتھ دیا اور غار ثور میں آپ کے عیش وآرام کا انتظام کیا،غزوۂ احد وغیرہ میں صحابہ کرام ﷢ نے جس طرح آپ پراپنی فدائیت کا مظاہرہ کیا ، اورصلح حدیبیہ کے مو قع پر آپ سے ان کی محبت واطاعت اور قر بانی وفدائیت کے جو عجیب مناظر دیکھنے میں آئے، جس کا آپ کے مخالفین اہل مکہ نے بھی اعتراف کیا وہ سب تاریخ وسیرت کی کتا بوں میں محفوظ ہیں۔اسی طرح حضرت ابوبکر،حضرت عثمان اور دیگر ذی ثروت صحابہ کرام﷢ نے مالی قربانی کے جو نمونے پیش کئے ہیں وہ بھی تاریخ کے صفحات میں زریں حروف سے لکھے ہوئے ہیں ۔
یہاں سوال پیدا ہو تا ہے کہ آپ کے ان فدا کار وجاں نثار صحابہ کرام نے آپ کا جشن ولادت (عید میلاد النبیﷺ)کیوں نہیں منا یا ؟ حالانکہ حضرت ابو بکروعمر ﷠آپ کے خسر تھے، حضرت عثمان اور حضرت علی ﷠آپ کے داماد تھے ۔حضرت فاطمہ﷞ آپ کی صاحبزادی تھیں، حضرت عائشہ اور حفصہ﷠ وغیرہ آپ کی ازدواج مطہرات تھیں۔حضرت حسن اور حسین﷠ آپ کے نواسے تھے۔
کیا ان میں سے کسی کو بھی آپﷺ سے ویسی محبت نہیں تھی جیسی محبت آج عید میلاد النبیﷺ منانے والوں کو ہے؟یا یہ کہ انھوں نے اس کو بد عت اور غیر شرعی امر سمجھ کر اس سے احتراز کیا اور چونکہ رسول اللہﷺ نے نہ کبھی اپنی ولادت کا جشن منایا تھا،نہ کسی کو اس کی تر غیب دی تھی،نہ اس کی جانب کوئی اشارہ کیا تھا اس واسطے ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﴾(الاحزاب :21) پر عمل کر تے ہوئے انھوں نے اس طرح کے جشن کا اہتمام نہیں کیا۔یقینا آخری بات ہی درست ہے،اس واسطے جب عہد نبوی،عہد خلفاء راشدین، عہد صحابہ وتابعین اور عہد ائمہ اربعہ میں اس کاوجودنہیں تھا اور خیر القرون کے مسلمانوں اور ہمارے اسلاف کرام نے اسے کبھی نہیں منایا تو یقیناً یہ بدعت ہے۔ اس سے تمام مسلمانوں کو اجتناب کرنا چاہئے۔
آج جو لوگ بارہ ربیع الاول کو جشن میلاد النبیﷺ منانے اور اس رات کو خوب چراغاں کرنے اور جلوس نکالنے وغیرہ کی مسلمانوں کو ترغیب دیتے ہیں اور اخبارات واشتہارات اور دیگر وسائل اعلام کے ذریعہ اس کا اعلان کر تے ہیں،انھیں یہ ثابت کر نا چاہئے کہ سرکار دو عالمﷺ نے بھی اس کا اسی طرح اعلان کیا اور مسلمانوں کو اس کی ترغیب دی ہے۔اور آپﷺ نے اور آپ کے صحابہ کرام نے یہ جشن منایا ہے۔
عید میلاد کی ایجاد فاطمیوں نے کی
یقین جانئے کہ اس کا ثبوت رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام﷢ سے ہر گز ہر گز پیش نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ اسے سب سے پہلے فاطمیوں نے ایجاد کیا جو شیعہ تھے اور اپنے عقیدے کی بگاڑ اور اہل سنت والجماعت کی مخالفت میں مشہورومعروف تھے۔بعض لوگوں نے کہا کہ اس کا موجدملا عمر بن محمد ہے اور اس کی ابتداء تکمیل دین کی کئی صدیوں کے بعد ٦٠٤ ھ میں ہوئی، اس کے بعد اس کی ترویج عراق کے شہر اربل کے ایک عیاش، اور فضول خرچ حاکم ابو سعید علی بن سبکتگین کے ذریعہ ہوئی جو مظفر الدین کے نام سے مشہور تھا۔
بہر حال اس کی ایجاد خیرالقرون کے بہت بعد ہوئی اور اس کی کوئی فضیلت کتاب وسنت میں وارد نہیں ہے،اور نہ اس میں کوئی اجروثواب ہی ہے۔
عید میلاد کے نقصانات
صرف یہی نہیں کہ عید میلاد النبی کا کوئی ثبوت اور فا ئدہ نہیں اوراس کی فضیلت اور اجر وثواب میں کوئی نص شرعی نہیں،بلکہ اس کے بہت سے دینی ودنیاوی نقصانات ہیں ۔جن میں سے چند یہ ہیں:
(١) بدعت کا ارتکاب :اس کو کرنے والے ایک بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں اور بدعت کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ ‘‘ (انظر صحیح مسلم:۲؍ ۵۹۲ ] ۸۶۷[،ابن ماجہ:١٧١ ]٤٥ [)
ہر بدعت ،ضلالت وگمراہی ہے اورہر ضلالت نار جہنم میں داخل کر نے والی ہے۔
اسی واسطے علامہ احمد بصری اپنی کتاب ”قول معتمد“میں فرماتے ہیں:” قد اتفق علماء المذاهب الاربعة علی ذم العمل به“چاروں مذاہب کے علماء عمل میلاد کی مذمت پر متفق ہیں۔
(٢) عیسائیوں کی مشابہت :یہ لوگ عیسائیوں کی مشابہت اختیار کرنے والے ہیں،کیونکہ جس طرح عیسائی حضرت عیسیٰ  کی ولادت کی تاریخ کو کرسمس ڈے مناتے ہیں اسی طرح یہ لوگ رسول اللہﷺ کی تاریخ ولادت کو عید میلاد النبیﷺ مناتے ہیں،حالانکہ رسول اللہﷺ نے یہودونصاریٰ اورمشرکین واعاجم کی مشابہت اختیار کر نے سے روکتے ہوئے فرمایا: ’’ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ‘‘ (انظر مسند احمد:۲؍۵۰، سنن ابی داود:۴؍۳۱۴ ]۱ ۴۳[)
جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے۔
اوراللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿ وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴾ (النساء:١١٥)
اور جو ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہﷺ کا خلاف کرے گا اور غیر مومنوں کا طریقہ اختیار کرے گا ہم اس کو اسی راہ پر جانے دیں گے جس کو اسلام سے اعراض کر کے اس نے اختیار کیا ہے اور پھر اس کو جہنم میں داخل کردیں گے جو بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔
(٣) رسول اللہﷺ کی شان میں مبالغہ آرائی: عید میلاد النبی کی مجلسوں میں عموماً رسول اللہﷺ کی شان میں مبالغہ آرائی کی جاتی ہے اور آپ کو ایسے اوصاف سے متصف کیا جاتا ہے جن کا کوئی ثبوت نہیں ۔بلکہ ان میں بہت سی شرکیہ اور کفریہ باتیں کہی جاتیں ہیں اور نبوت ورسالت کے مرتبہ سے اٹھا کر آپﷺ کو الوہیت وربوبیت کے مقام پر فائز کیا جاتا ہے اور آپ سے مختلف چیزوں کے لئے درخواست اور دعاء کی جاتی ہے،حالانکہ رسول اللہﷺ نے اس سے بڑی سختی سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے: لاَ تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه ‘‘ (انظرصحیح البخاری: ۶؍۴۷۸ ] ۳۴۴۵[)، ومسنداحمد :۱؍۲۳-۲۴، وسنن الدارمی:۲؍۳۲۰)
جیسے نصاریٰ نے عیسٰی بن مریم کے بارے میں مبالغہ آرائی کی اور ان کا درجہ حد سے زیادہ بڑھایا اس طرح تم لوگ میرا مرتبہ حد سے زیادہ نہ بڑھانا،میرے بارے میں مبالغہ آرائی نہ کرنا،میں اللہ کا ایک بندہ ہوں،اس واسطے مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہنا۔اسی کو علامہ حالی﷫ اپنے الفاظ میں یوں کہا ہے ؂
تم اوروں کے مانند دھوکا نہ کھانا کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا
مری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کوگھٹانا
سب انسان ہیں جس طرح واں سر فگندہ اسی طرح ہوں میں بھی اک اس کا بندہ
ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا:”إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ ، فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ‘‘(انظر مسند احمد:۱؍۲۱۵،۳۴۷، النسائی:۲؍۴۲ ] ۳۰۵۹[،ابن ماجہ:۲؍۱۰۰۸ ] ۳۰۲۹[)
تم لوگ دین میں غلو کرنے سے اجتناب کرنا، اس واسطے کہ تم سے پہلی امتوں کو غلو فی الدین نے ہی ہلاک کیا۔
مگر افسوس کہ مسلمانوں نے آپ کے اس حکم کو پس پشت ڈالدیا اور یہو دونصاریٰ کے طریقے پر چلتے ہوئے غلو فی الدین کے مرتکب ہوئے اور رسول اللہﷺ کی شان میں مبالغہ آرائی اور حد سے تجاوز کرنے لگے۔ اس طرح اپنی ہلاکت وبربادی کا سامان خود تیار کرنے لگے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
عید میلادالنبی ﷺ کی شرعی حیثیت حصہ دوم

(٤)رسول اللہﷺ کی تشریف آوری کا عقیدہ اور قیام تعظیمی: میلاد کی مجلسوں میں لوگ یہ عقیدہ رکھ کر قیام کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایسی مجلسوں میں بذات خود تشریف لاتے اور حاضر ہوتے ہیں،حالانکہ یہ عقیدہ بالکل باطل اور نصوص شرعیہ کے خلاف ہے،کیونکہ رسول اللہﷺ کا جسد اطہر آپ کی وفات کے بعد آپ کے روضۂ مبارکہ میں ہے اور قیامت تک اسی میں رہے گا،ارشاد باری ہے:﴿ ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ (15) ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ﴾ (المؤمنون:١٥- ١٦)
پھر تم لوگ اس کے بعد مرنے والے ہو اور پھر قیامت کے دن دوبارہ اٹھائے جاؤ گے۔
اور رسول اللہ ﷺنے فرمایا:”أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ‘‘ (انظر صحیح مسلم:۴؍۱۷۸۲ ]۲۲۷۸[)
میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا اورسب سے پہلے میری قبر شق ہو گی اور میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی۔
پھر یہ بھی غور فرمائے کہ میلاد کرنے والے بیک وقت دنیا میں بے شمار مقامات پر میلاد کی مجلسیں منعقد کر تے ہیں،اب اگر رسول اللہﷺ ہر مجلس میلاد میں تشر یف لے جائیں تو بتائے کہ رسول اللہﷺ کی کتنی روحیں اور اجسام ہیں کہ آپ ہر مجلس میلاد میں بیک وقت شرکت فرمالیتے ہیں؟ بہر حال اس عقیدہ سے رسول اللہﷺ کے لئے تعدد ارواح واجسام کا وجود لازم آتا ہے، جو بدیہی طور سے باطل ہے،اور اس کا بطلان ہر ذی عقل سمجھ سکتا ہے۔
نیز اللہ کے سوا کسی کی تعظیم کے لئے قیام کر نا جائز نہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ﴾ (البقرة:2٣٨) صرف اللہ کے لئے ہی قیام باادب کیا کرو۔
اور رسول اللہﷺ اپنی حیات مبارکہ میں بھی صحابہ کرام﷢ کو اپنی تعظیم کے لئے کھڑے ہونے سے منع فرماتے تھے، چنانچہ حضرت ابو امامہ﷜ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ اپنے ہاتھ میں چھڑی لئے ہوئے ہمارے مجمع میں تشریف لائے،ہم آپ کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے توآپﷺ ناراض ہوئے،اور فرمایا:”لاَ تَقُومُوا كَمَا تَقُومُ الأَعَاجِمُ يُعَظِّمُ بَعْضُهَا بَعْضًا‘‘ (انظر مسند احمد:۵؍۲۵۳،وابوداود:۵؍۳۹۸]۵۲۳۰[)
جیسے عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوا کرتے ہیں اس طرح مجھے دیکھ کر تم لوگ کھڑے نہ ہوا کرو۔
اورحضرت انس﷜ فرماتے ہیں کہ ہم کو رسول اللہﷺ سے سب سے زیادہ محبت تھی لیکن چونکہ ہمیں معلوم تھا کہ آپﷺ کو دیکھ کر کھڑا ہو نا سخت ناپسند ہے اور آپﷺ نے ہمیں ا س سے منع فرمایا تھااس لئے ہم آپ کو دیکھ کر کبھی کھڑے نہیں ہوئے تھے۔ (انظر جامع الترمذی:5/90]5230[)
خلیفہ ٔ اول حضرت ابو بکر﷜ ایک مرتبہ ایک مجلس میں تشریف لائے ،ان کودیکھ کر ایک شخص تعظیم میں کھڑا ہو گیا ،تو آپ اس پر ناراض ہوئے اور فرمایا: ’’إِنَّ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم نَهَى عَنْ ذَا‘‘ (رواہ ابوداود:4/406ا، ونظر اسلامی خطبات:1/654)رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔
ایک مرتبہ حضرت معاویہ﷜ باہر نکلے،وہاں ابان ابن زبیر اور ابن عامر تھے،آپ کو دیکھ کر ابن عامر کھڑے ہو گئے اور ابن زبیر بیٹھے رہے ،یہ صورت حال دیکھ کر حضرت معاویہ﷜ نے ابن عامرسے فرمایا: ’’اجْلِسْ فَإِنِّى سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَمْثُلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ‘‘(رواہ ابوداود:۵؍۳۹۸ ]۵۲۲۹[، والترمذی: ۵؍۹۰]۲۷۵۵[،وقال:حدیث حسن)بیٹھ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:جسے یہ بات پسند ہو کہ لوگ اس کے لئے کھڑے ہوں یا اس کے سامنے کھڑے رہیں اسے چاہئے کہ اپناٹھکانہ جہنم کی آگ میں بنالے۔
علماء نے بھی ایسے قیام کو بے اصل اور باطل قرار دیا ہے چنانچہ تحفۃ القضاة میں ہے:”ويقومون عند تولده @ ويزعمون ان روحه تجئي وحاضرة ، فزعمهم باطل، بل هذا الاعتقاد شرک ، وقد منع الائمة عن مثل هذا‘‘ (انظر اسلامی خطبات: ۱؍۵۵ ۶)
بعض لوگ آپ کی ولادت کا ذکر سن کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت آپ کی روح تشریف لاتی ہے اور آپ حاضر ہو تے ہیں،حالانکہ ان کا یہ خیال باطل ہے، بلکہ یہ عقیدہ شرک ہے اور ائمہ کرام نے اس قسم کی چیزوں سے منع فرمایا ہے۔
اس عقیدہ کے بارے میں ایک دوسرے ناحیہ سے بھی غور فرمائے، رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: ’’إِنَّ لِلَّهِ مَلائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الأَرْضِ يُبَلِّغُونِي عَنْ أُمَّتِي السَّلامَ ‘‘ (انظر مسنداحمد:۱؍۳۸۷،۴۴۱،۴۵۲،وسنن النسائی:۱؍۱۵۰،باب التسلیم علی النبی(۱۲۸۳)، وسنن الدارمی:۲؍۳۱۷،کتاب الرقائق،باب فی فضل الصلاۃ علی النبیﷺ)
اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جو زمین میں گشت کرتے رہتے ہیں،اور میری امت کے درود وسلام کو مجھ تک پہنچا یا کرتے ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کی عزت افزائی فرماتے ہوئے ایسے فرشتوں کو مقرر فرمایا ہے جو پوری دنیا سے درود وسلام کا تحفہ آپ کے پاس پہونچاتے رہتے ہیں ،مگرلوگوں نے آپﷺ کی اس طرح اہانت کی کہ یہ عقیدہ رکھنے لگے کہ رسول اللہﷺ ہی ہر جگہ تشریف لے جاتے ہیں ،اس طرح انھوں نے آپ کو مخدوم کے بجائے خاد م بنادیا اور پھر یہ خیال کرنے لگے کہ چند ٹکوں کے بتاشے منگا کرکچھ ملاؤں کو جمع کر لیں گے اور ایک مجلس میلاد منعقد کر کے ہم رسول اللہﷺ کو بلالیں گے اور چاہے جیسی بدعت وخرافات کی مجلس ہو اور اس میں جیسے بھی مرد وزن کا اختلاط اور خلاف شرع باتیں ہوں آپﷺ ضرور تشریف لائیں گے۔
(٥) موضوع روایتوں اور من گھڑت واقعات کا بیان:اس قسم کی مجلسوں میں عموماً موضوع اور من گھڑت قسم کی روایتیں اور حدیثیں بیان کی جاتی ہیں اور نہ معلوم کہاں کہاں کے سنے سنائے واقعات اور قصے بیان کئے جاتے ہیں ۔ ان موضوع روایات اور بے سرو پا واقعات کا ایک ہلکا سا نمونہ دیکھنا ہو تو رسول رحمت ص(٢٨-٥٢) میں مولانا ابو الکلام آزاد کا مقالہ ”میلاد نبوی اورموضوع روایات “ کا مطالعہ کیجئے،یہ مقالہ مولانا کے رسالہ ولادت نبوی (ص٦١-١٠١) میں بھی ہے۔حالانکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: ’’كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ‘‘ (رواہ مسلم فی صحیحہ:۱؍۱۰ ]۵[)آدمی کے جھوٹا ہو نے کے لئے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کرے۔
اور ایک روایت میں ہے: ’’كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ‘‘ (رواہ ابوداود: ۵؍۲۶۶ (۴۹۹۲)آدمی کے گناہ کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کرے۔
اور حضرت عمر بن خطاب اور عبد اللہ بن مسعود﷠ کا فرمان ہے: ’’ بِحَسْبِ الْمَرْءِ مِنَ الْكَذِبِ أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ‘‘(رواہ مسلم فی مقدمۃ صحیحہ:۱؍۱۱)
آدمی کے جھوٹ کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جو کچھ بھی سنے اسے بیان کردے۔
اور ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ‘‘(رواہ البخاری : ۱؍۳۰۲ ]۱۱۰[ ومسلم:۴؍ ۲۲۹۹]۳۰۰۴[ وابوداود: ۴؍۶۳ ]۳۶۵۱[)
جس نے مجھ پر کذب بیانی کی اور میری جانب کسی ایسی بات کی نسبت کی جو میں نے بیان نہیں فرمائی اسے چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔
(٦) فرائض ووجبات کا ترک :اس جشن عید میلاد النبی اور اس کے جلوس کی وجہ سے بے شمار لوگ فرائض وواجبات کو ترک کر دیتے ہیں ، وہ نماز وغیرہ کو چھوڑ کر اسٹیج، گیٹ اور کھمبوں وغیرہ کی تزئین اور قمقموں و مختلف قسم کی لائٹوں کو لگانے میں اور جلوس کی تیاری اور اس کے ہنگاموں میں مشغول رہتے ہیں۔جو بڑے خسارے کی بات اور ایک عظیم گناہ ہے۔
(٧) مردوں اورعورتوں کا اختلاط :ا ن محفلوںاور جلوسوں میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہو تا ہے اور بسا اوقات اخلاق وشرافت اور عفت وعصمت کا پردہ تار تار کیا جاتا اور بڑی بے حیائیاں اور فحش کاریاں ہو تی ہیں۔
(٨) بینڈ باجوں کا استعمال: بہت سارے جلوس میں بینڈ باجے اور لہو ولعب کی دوسری بہت سی غیر مشروع چیزیں ہو تی ہیں۔حالانکہ یہ تمام چیزیں شریعت اسلامیہ کے مزاج سے میل نہیں کھاتیں۔ اور ان کی کتاب وسنت میں ممانعت وارد ہے مگر لوگ انھیں اجرو ثواب سمجھ کر کرتے ہیں۔
(٩)اسراف اور فضول خرچیاں:اس قسم کے جلوس اورمحفلوں پر بے شمار پیسے خرچ کئے جاتے ہیں اور اسراف وفضول خرچیاں کی جاتی ہیں، حالانکہ اسلام نے فضول خرچی کو حرام قرار دیا ہے۔ اور اسراف کرنے والوں کو شیطان کابھائی کہا ہے چنانچہ ارشاد باری ہے:﴿إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ﴾ (الاسراء:٢٧)فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔
غور کیجئے کہ اس موقع پر مختلف قسم کے گیٹوں اور محرابوں کے بنانے، بینر وغیرہ کے تیار کرنے اور قمقموں اور جھنڈیوں سے گھروں ،گلی کوچوں اور سڑکوں اور اسٹیج وغیرہ کو مزین کرنے میں کس قدر رقم صرف کی جاتی ہے اور اگر اسی رقم کو جمع کر کے مسلمانوں کی تعلیمی یا اقتصادی ترقی کے لئے خرچ کیا جائے تو اس سے مسلمانوں کو کتنا فائدہ ہو گا اور اس سے مسلمانوں کی حالت میں کس قدر سدھار اور تبدیلی پیدا ہو گی۔
(١٠)عید میلاد میں سیاست کا دخل :عید میلاد النبی کے جلوس کو آج ایک سیاسی عمل بنالیا گیاہے اور اس کے بہانے اسلام دشمن لیڈر مسلمانوں کو بے قوف بناتے ہیں، وہ اس قسم کے جلوس میں شرکت کر کے مسلمانوں کے ہمدرد اور بہی خواہ ہونے کا اظہار کرتے اور ان کا ووٹ حاصل کرتے ہیں اور جب کرسیٔ وزارت تک پہونچ جاتے ہیں تو ان کو دھوکا دیتے ہیں اور مسلمانوں کاایک کام بھی نہیں کرتے۔
آج بکثرت دیکھنے میں آتا ہے کہ ان جلوسوں کی قیادت کافر،بے دین اور ملحد لیڈران کرتے ہیں،جن کے اخراجات سفر،استقبال اور قیام وطعام وغیرہ پر بڑی بڑی رقمیں خرچ کی جاتی ہیں،ان کی زبان سے سیرت نبوی سے متعلق چند تعریفی کلمات اور مسلمانوں کے تعلق سے چند ہمدردی کے الفاظ سن کر عام مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے بڑے بہی خواہ ہیں اور اگر انھیں ووٹ دیکر کامیاب کردیں تو مسلمانوں کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ حالانکہ کرسیٔ وزارت تک پہونچنے کے بعد نہ انھیں مسلمان یاد رہتے ہیں،نہ اسلام۔
یاد رکھئے اسلام اور مسلمانوں کے اگر کوئی کام آسکتا ہے تو وہ ان کا پرور دگار اور ان کی شریعت اسلامیہ کی صحیح اتباع ہے۔امام دار الہجرت حضرت امام مالک﷫ نے سچ فرمایا: ’’لن يصلح آخر هذه الأمة إلا بما صلح به أولها ‘‘اس امت کے آخری لوگوں کی اصلاح اور کامیابی وترقی اسی سے ہو گی جس سے پہلے مسلمانوں اور ہمارے اسلاف کی اصلاح وترقی ہوئی تھی۔
ایک کافر اور ملحد وبے دین اور سیرت نبوی اور عید میلاد النبی کے جلوس کی قیادت ؟ یعنی ابو جہل اور ابو لہب اور جلسۂ سیرت النبیﷺ کی صدارت اور اس کے جلوس میں مسلمانوں کی امامت اور قیادت؟ سمجھ میں نہیں آتاکہ مسلمانوں کی ضمیر اور غیرت کیسے اس کو گوارہ اور برداشت کرتی ہے۔
اگر ان ملحدوں اور کافروں کو واقعی اسلام اور رسول اسلام سے عقیدت ومحبت ہے اور یہ اسلام کے سچے خیر خواہ ہیں تو پھر اسلام قبول کیوں نہیں کرلیتے؟ اور اپنے شرک وکفر اور اپنی بد اعمالیوں کو چھوڑ کر سچے پکے مسلمان کیوں نہیں بن جاتے؟
حقیقت یہ ہے کہ انھیں اسلام اور رسولِ اسلام سے کوئی محبت نہیں،یہ تو اپنا الو سیدھا کرنے اور مسلمانوں کو اُلو بنانے آتے ہیں اور مسلمانوں کے دین وایمان کے ساتھ ان کی عزت وکرامت اور سیاسی واقتصادی قوت کو بھی نقصان پہونچاتے ہیں۔
محبت نبوی اورسیرت کے بیان کو موسمی نہ بنائیے
رسول اللہﷺ کی سیرت مبارکہ کے پڑھنے اور سننے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ۔ ہمارے نزدیک تو ہر مسلمان کو آپ کی صحیح سیرت کا اتنا مطالعہ کرنااور اس کو اتنا بیان کرنا اور سننا چاہئے کہ اسے آپ کی زندگی کا ایک ایک واقعہ اور ایک ایک لمحہ مستحضر رہے اور پھراسی کے مطابق سب کو اپنی زندگی گذارنی چاہئے۔لیکن اسے کسی خاص د ن ا ور مہینہ کے ساتھ خاص نہ کیجئے، کیونکہ محبت رسول ، اتباع کتاب وسنت اورسیرت نبوی کا پڑھنا اور سننا موسمی چیز یں نہیں، بلکہ یہ دائمی اورسال بھر کرنے کی چیزیں ہیں۔
مسنون درود وسلام سے اپنی زبان تر رکھئے
اسی طرح رسول اللہﷺ پر مسنون طریقے پر بکثرت درود وسلام بھیجئے، آپ پر درودوسلام بھیجنا بڑا ہی نیک عمل اور اللہ کے تقرب کا بہترین ذریعہ ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو اس کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا:﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ (الاحزاب:٥٦)
بیشک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو!تم بھی ان پر درودوسلام بھیجو۔
اور رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ مَنْ صَلَّى عَلَىَّ وَاحِدَةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا ‘‘ (مسنداحمد:۳؍۱۰۲،صحیح مسلم:۱؍۳۰۶ ]۴۰۸[، ابوداود:۲؍۱۸۴ (۱۵۳۰)ترمذی:۲؍۳۵۵)
جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ اپنی رحمت کا نزول فرمائے گا۔
اس واسطے مسلمانوں کی زبان ہر وقت درودو سلام سے تر رہنی چاہئے ، انہیں اسے کسی مخصوص مہینہ اور دن کے ساتھ خاص نہیں کرنا چاہئے ،اورانہیں کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ اور سیرت نبوی کا تحقیقی اور سمجھ کر مطالعہ کرنا چاہئے اور قرآن کریم اور کتب احادیث کو چھوڑ کر دوسری کتابوں کے پڑھنے پڑھانے اور کتاب وسنت پر دوسروں کے اقوال کو ترجیح دینے سے احتراز کرنا چاہئے اور ان کا کوئی عمل اسوۂنبوی کے خلاف نہیں ہو نا چاہئے ،یہی رسول اللہﷺ کی سچی محبت ہے اور یہی آپ کی اتباع اور آپ پر ایمان کا تقاضہ ہے۔
مگر افسوس کہ مسلمانوں نے سیرت نبوی کے تحقیقی مطالعہ کو ترک کر کے اور رسول اللہﷺ کے اسوۂ حسنہ اور سنت مبارکہ کو چھوڑ کر،نماز،روزہ،اور دیگر فرائض اسلام کو غفلت کی نذر کر کے،من گھڑت درود وسلام،بدعی اعمال وعقائد اور میلاد النبی کی غیر شرعی مجلسوں اور جلوسوں پر اکتفا کرلیا ہے۔
اس طرح وہ رسول اللہﷺ ،صحابہ کرام ،تابعین عظام اور ائمہ اربعہ وغیرہ کے منہج سے بہت دور جا پڑے ہیں۔
اللہ تعالیٰ انھیں صراط مستقیم اور صحیح دین کی ہدایت عطا فرمائے،رسول اللہﷺ کا صحیح متبع بنائے اور ہر قسم کی بدعات وخرافات سے محفوظ رکھے۔آمین

عید میلاد النبیﷺ
چند قابل غور باتیں
ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو تے بلکہ قریب آتے ہی ہر جگہ عید میلاد النبیﷺ کا چرچا شروع ہو جاتا ہے ،اس کے لئے میٹنگیں ہوتی ،کمیٹیاں بنتی اور لوگوں میں مختلف ڈیوٹیاں تقسیم ہو تی ہیں اور جس کو جو ڈیوٹی مل جاتی ہے وہ اس میں جٹ جاتا ہے ،اس کے لئے چندے ہوتے ہیں، لوگ اسے ایک بڑا کار ثواب سمجھ کر بڑی بڑی رقمیں چندے میں دیتے ہیں ۔ چھوٹے بڑے ہر قسم کے خوبصورت اور رنگین پوسٹر چھاپے جا تے ہیں ،گلی کوچوں اور سڑکوں کو خوبصورت گیٹوں ، برقی قمقموں ،مرکری لائٹوں ،رنگ برنگی جھنڈیوں اور جھو مروں سے سجا یا جاتا ہے ، بڑے بڑے مقرروں ،خوش الحان قاریوں اور نعت خوانوں کے علاوہ مسلم وغیر مسلم سیاسی لیڈروں اور نیتا و ٔں کو بھی دعوت دی جاتی ہیں ۔اور ان کی آمد و رفت ،استقبال اور قیام وطعام کا عالیشان انتظام کیا جاتا ہے ،اور نذرانوں وغیرہ سے بھی تکریم کی جاتی ہے۔نیز اسٹیج کو اس تقریب کے شایان شان بنانے اور سجانے کیلئے مقام اور اس کام کے ماہرین کا انتخاب بڑے غور وفکر کے بعد کیا جاتا ہے ۔
پھربارہ ربیع الاول کے پروگراموں کو کامیاب بنانے کے لئے اور خاص طور سے جلوس کے لئے بڑی محنت اورتیاری کی جاتی ہے ،نعروں اور جھنڈوں کا انتخاب ہو تا ہے ،اونٹوں ، گھوڑوں ، کاروں، بسوں اور ٹرکوں کے متعدد قافلے تیار کئے جاتے ہیں ،ان کی قیادت کرنے والوں اور خاص خاص سواریوں پر بیٹھنے والوں کاانتخاب بھی بہت سوچ سمجھ کر اور مشورے کے بعدکیا جاتا ہے ۔ گھروں میں بھی اس کے لئے تیاریاں کم نہیں ہوتیں ۔ہر چیز کی صفائی ستھرائی ،کپڑوں،زیورات ودیگر سامان زینت اور نوع بنوع کھانوں اور دعوتوں وغیرہ کی تیاریاں قابل دید ہوتی ہیں ۔
غرضیکہ عید میلاد النبیﷺاور اس کے مختلف پروگراموں کے لئے مسلمان بڑی محنت کرتے اور وقت اور مال وغیرہ سب کی بڑی قربانیاں دیتے ہیں ،کتنے لوگ تو ہفتہ عشرہ پہلے سے ہی اپنے کاروبار کو چھوڑ کر اس کی تیاریوں میں لگ جا تے ہیں ۔پھر12/ ربیع الاول کو عام تعطیل ہوتی ہے اور تمام کاروبار اور اسکول وکالج وغیرہ بند رہتے ہیں ۔اور یہ تمام امور مسلمان بڑے اجر وثواب کا کام اور دین کی عظیم خدمت سمجھ کر کرتے ہیں ۔سرکار دوعالم،تاجدار مدینہ، خاتم النبیین،سید المرسلین اور رحمۃ للعالمین حضرت محمدﷺ فداہ ابی وامی کی محبت کی بنا پر کرتے تھے،مگر اس عظیم تقریب کے انعقاد اور اس کے لئے اتنی ساری محنت اور جدو جہد کرنے اور قربانی دینے سے پہلے آئیے اس کی دینی حیثیت ،اہمیت وفضیلت اور افادیت ونقصانات وغیرہ کے بارے میں سنجید گی اور گہرائی سے غور کریں ،تاکہ ہم جو کچھ کریں علیٰ وجہ البصیرت کریں اور ایسا نہ ہو کہ اتنی ساری محنت کرنے اور قربانیاں دینے کے بعد ہمیں خسارہ اٹھانا اور پچھتانا پڑے۔
رسول اللہﷺ کی محبت جزوایما ن ہے مگر
اس میں شبہ نہیں کہ رسول اللہﷺ کی محبت ہر مسلمان پر واجب ہے ،اس کے بغیر کسی کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا، حضرت ابو ہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : : ’’ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ ‘‘ (رواہ البخاری:۱؍۵۸]۱۴[) اس ذات پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اس کی اولاد سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔
اور حضرت انس﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ‘‘(صحیح بخاری: ۱؍ ۵۸)تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
حضرت انس ﷜کی ایک دوسری روایت میں ہے:”لاَ يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ‘‘(صحیح مسلم:۱؍۶۷ [ ۴۴) کوئی بندہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے اہل وعیال ، مال ومتاع اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔
نیز جب تک کسی کے دل میں اللہ اور اس کے رسول ﷺکی محبت دوسروں کی محبت سے فزوں تر نہ ہو اس وقت تک وہ ایمان کا حقیقی لطف او ر اس کی شیرینی حاصل نہیں کر سکتا ۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’ثَلاَثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلاَوَةَ الإِيمَانِ أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا ، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لاَ يُحِبُّهُ إِلاَّ لِلَّهِ ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ ‘‘ (صحیح البخاری: ۱؍۶۰]۱ ۶[، صحیح مسلم:۱؍۶۶) جس شخص میں تین چیزیں پائی جائیں گی وہ ایمان کی شیرینی پائے گا ،پہلی چیز یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں ،دوسری چیز یہ ہے کہ وہ کسی شخص سے محبت کرے تو صرف اللہ کے واسطے کرے،تیسری چیز یہ ہے کہ وہ کفر سے نجات پانے کے بعد دوبارہ اس میں لوٹ جانے کو اس طرح ناپسند کرے جس طرح آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتا ہے۔
اس واسطے ہر مسلمان کا دل رسو ل اللہﷺ کی محبت سے لبریز ہونا چا ہئے ،لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی حقیقی محبت کیا ہے ؟وہ کس طرح کی اور کون سی محبت ہے جو جزو ایمان ہے اور جس کے بغیر کو ئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا ؟آیا اس سلسلہ میں ہر شخص کو اختیار ہے کہ جس عمل کو چاہے محبت رسول قرار دے لے،یا اس کا کوئی طر یقہ ،کوئی معیار اور علامت کتاب وسنت میں وارد ہے ۔
رسول اللہﷺ کی حقیقی محبت آپ کی اتباع
رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’مَنْ أَحَبَّ سُنَّتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي وَمَنْ أَحَبَّنِي كَانَ مَعِي فِي الْجَنَّةِ“ (رواه الترمذی وقال:حديث حسن غريب،وذکر هذا اللفظ فی مشکوة المصابيح: 1/26 ، وقال المبارکفوری :’’فالظاهر انہ قد وقع فی بعض نسخ الترمذی هکذا والله تعالیٰ اعلم ‘‘ انظر تحفۃ الا حوذی:۳؍۳۷۹)
قلت :فی سندہ علی بن زید بن جدعان وھو ضعیف لکن معناہ صحیح تؤیدہ أدلۃ اخری.
جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی،اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔
اس حدیث سے صاف طور سے معلوم ہو تا ہے کہ رسول اللہ کی سنتوں اور آپ کی احادیث سے محبت رکھنا ،ان کو حرز جان بنانا،ان کا پڑھنا پڑھانا، ان پر خود عمل کرنا اور دوسروں کو عمل کرنے کی تر غیب دینا ،اور ان کی نشر واشاعت کرنا آپﷺ سے حقیقی محبت ہے اور آپ سے اور آپ کی سنتوں سے اس طرح محبت کر نے والوں کو جنت میں آپ کی معیت میں رہنے کا شرف حاصل ہو گا ۔
اور اگر کوئی آپ کی احادیث مبارکہ اور سنتوں کا شیدائی نہیں ،بلکہ آپ کے ارشادات وفرامین کو چھوڑ کر دوسروں کے اقوال وفتاؤں پر عمل کرتا ہے ،دین میں نئی نکالی گئی چیزوں سے محبت رکھتا ہے تووہ سچا محب رسول نہیں ،کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:
تَعْصِي الإِله وَأنْتَ تُظْهِرُ حُبَّهُ هذا محالٌ في القياس بديعُ
لَوْ كانَ حُبُّكَ صَادِقاً لأَطَعْتَهُ إنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ يُحِبُّ مُطِيعُ
تو اللہ کی نافرمانی کرتا اور پھر اس کی محبت کا دعوے دار ہے ،میرے رب کی قسم عقل وقیاس میں یہ بڑی عجیب بات ہے ،اگر تیری محبت سچی ہو تی تو اس کا فرماں بردار ہو تا ، بیشک ہر محب اپنے محبوب کا اطاعت گذار ہو تا ہے۔
معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ سے سچی محبت آپ کی اتباع ہے ،اسی سے ایمان کامل ہو تا ہے اور اس کی شیرینی حاصل ہوتی ہے ،اتنے ہی نہیں بلکہ رسول اللہﷺ کی اتباع کے بغیر اللہ تعالیٰ کی محبوبیت بھی حاصل نہیں ہوسکتی ، ارشاد باری ہے:﴿قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ (آل عمران:٣١)
اے نبی! لوگوں سے کہدیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری اور اتباع کرو،اللہ تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا اور تمہاری خطائیں معاف فرمادے گا ،اللہ بڑا معاف کرنے والا اوربہت رحم والا ہے ۔
رسول اللہﷺ کی محبت کے نمونے دیکھنا ہوتوصحابہ کرام کی سیرتوں کا مطالعہ کیجئے۔حضرت عائشہ﷞ سے روایت ہے کہ ایک صحابی رسول اللہﷺ کے پاس تشریف لائے اور عرض کیا : یا رسول اللہ !میں آپ کو اپنی جان اور اہل وعیال سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں ،میں گھر میں اپنے بال بچوں میں رہتا ہوں ،اور آپ کو یا د کرتا ہوں تو جب تک آپ کو دیکھ نہیں لیتا ہوں مجھے قرار نہیں آتا ، اس لئے سب کو چھوڑ چھاڑ کر آپ کے پاس دوڑا ہوا آتا ہوں اور آپ کی دیدار کا شرف حاصل کرتا ہوں ،تب تسلی ہو تی ہے ۔لیکن جب میں اپنی اور آپ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو میں جان لیتا ہوں کہ جب آپ جنت میں داخل ہوں گے تو نبیوں کے ساتھ بڑے بڑے درجات میں ہوں گے۔ اور اگر میں جنت میں داخل ہوا بھی تو خدشہ ہے کہ آپ کو نہیں دیکھ سکوں گا،اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی : ﴿ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا﴾ (سورةالنساء :٦٩) جن لوگوں نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی وہ ا ن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایایعنی نبیوں ،صدیقوں ،شہیدوں اور صالحین کے ساتھ اور یہ بہترین ساتھی ہیں ۔ (تفسیر ابن کثیر :1/523)
دیکھئے انہیں رسول اکرمﷺ سے کتنی محبت تھی کہ اہل وعیال میں ہوتے ہوئے بھی آپ کی محبت دل سے نہیں نکلتی اور جب تک آپ کو آکر دیکھ نہیں لیتے سکون نہیں ملتا،پھر یہ غم ہے کہ آخرت میں آپ انبیاء کرام کے ساتھ اعلیٰ درجات میں ہوں گے جہاں تک میری رسائی نہیں ہو سکی گی اور آپ کی دیدار سے محروم رہوں گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالاآیت نازل فرمائی کہ رسول اللہﷺ کی جنت میں رفاقت اور دیدار کا شرف حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔
محبت رسول کا حقیقی اور اعلیٰ نمونہ دیکھنا ہو تو حضرت سعد بن معاذ﷜ کے وہ زرین کلمات پڑھئے جو انھوں نے غزوۂ بدر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقد س میں عرض کئے تھے، انہوں نے فرمایا :”یا رسول اللہ ہم آپ پر ایمان لائے ہیں ،ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے اور یہ گواہی دی ہے کہ آپ جو کچھ لیکر آئیں ہیں سب حق ہے ،اس پر ہم نے آپ کو اپنے سمع واطاعت کا عہد ومیثاق دیا ہے ۔لہذا اے اللہ کے رسولﷺ آپ کا جو ارادہ ہے اس کے لئے پیش قدمی فرما یئے، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ،اگر آپ ہمیں ساتھ لیکر اس سمندر میں کودنا چاہیں تو ہم اس میں آپ کے ساتھ کود پڑیں گے۔ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہیں رہے گا ۔ہمیں قطعاً کوئی تردد ہچکچا ہٹ نہیں کہ آپ ہمارے ساتھ دشمن سے ٹکرا جائیں ہم جنگ میں پا مرد اور لڑنے میں جو اں مرد ہیں ، ممکن ہے اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارا وہ جوہر دکھلائے جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں ۔ پس آپ ہمیں ہمراہ لے کر چلیں ،اللہ برکت دے۔
غالباً آپ کو اندیشہ ہے کہ انصار اپنا یہ فرض سمجھتے ہیں کہ وہ آپ کی مدد محض اپنے دیار میں کریں ،اس لئے میں انصار کی طرف سے بول رہا ہوں اور ان کی طرف سے جواب دے رہا ہوں ۔ عرض ہے کہ آپ جہاں چاہیں تشریف لے جائیں ،جس سے چاہیں تعلق استوار کریں اور جس سے چاہیں تعلق کاٹ لیں،ہمارے مال میں سے جو چاہیں لے لیں اور جو چاہیں دیدیں اور آپ جو لے لیں گے وہ ہمارے نزدیک اس سے زیادہ پسندیدہ ہو گا جسے آپ چھوڑ دیں گے اور اس معاملے میں آپ کا جو بھی فیصلہ ہو گا ،ہمارا فیصلہ بہر حال اس کے تابع ہو گا ۔خدا کی قسم اگر آپ پیش قدمی کرتے ہوئے برک غماد تک جائیں تو ہم آپ کے ساتھ چلیں گے اور اگر آپ ہمیں لے کر اس سمندر میں کودنا چاہیں تو ہم اس میں کود جائیں گے۔
آپ کی سچی محبت کو سمجھنے کے لئے حضرت مقداد﷜ کا یہ کلام سنئے:”اے اللہ کے رسولﷺ!اللہ نے آپ کو جو راہ دکھلائی ہے ،اس پر رواں دواں رہئے ،ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ خدا کی قسم ہم آپ سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے موسی  سے کہا تھا کہ :﴿ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ﴾ (المائدة:٢٤)تم اور تمہارا رب جاؤ اور لڑو ،ہم یہیں بیٹھے ہیں۔ بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کے پرور دگار چلیں اور لڑیں اور ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں ۔اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر آپ ہم کو برک غماد تک لے چلیں گے تو راستے والوں سے لڑتے بھڑتے آپ کے ساتھ وہاں بھی چلیں گے۔
حقیقی محبت کو جاننے کے لئے احد کا وہ واقعہ یاد کیجئے جب دو انصاری نوجوانوں نے یہ سن کر کہ ابو جہل رسول اللہﷺ کو بُرا بھلا کہتا ہے اس کا پتہ لگا یا اوراسے دیکھتے ہی اپنی تلواریں لیکر جھپٹ پڑے اور اس کا کام تمام کر کے ہی دم لیا ۔
اسی غزوہ میں حضرت ابودجانہ انصاری ، طلحہ بن عبیداللہ،سید الشہداء حمزہ بن عبد المطلب،علی بن ابی طالب ،انس بن نضر اور سعد بن الربیع ﷢وغیرہ نے رسول اللہﷺ پر جاں نثاری اور فدائیت کے جو بے مثال کارنامے پیش کئے ہیں انہیں ملاحظہ کیجئے تب پتہ چلے گا کہ محبت رسول کیا ہے؟
شب ہجرت حضرت علی ﷜کا آپ کے بستر پر سونا،سفر ہجرت میں حضرت ابو بکر﷜ کی قدم قدم پر محبت بھری خدمت وحفاظت،شراب کی حرمت کا نزو ل ہوتے ہی صحابہ کرام کاجام وسبو توڑ دینا اوریکلخت شراب کا چھوڑ دینا،پردہ کا حکم ہوتے ہی انصاریہ عورتوں کا اس طرح اس کا اہتمام کر کے باہر نکلنا کہ گویا ان کے سر پرکوے بیٹھے ہیں ۔ حضرت انس بن مالک﷜ کا کدو صرف اس بناپر پسند فرمانا کہ رسول اللہﷺ کو یہ بہت مرغوب تھا ،اور خود فرمانا:اے کدو تو رسول اللہﷺ کوپسند اور محبوب تھا اس واسطے تومجھے اس قدر محبوب ہے۔( سنن الترمذی:4/ 284) یہ ہیں رسول اللہ سے سچی محبت وعقیدت کے نمونے۔
رسول اللہﷺ سے کا محبت مشاہدہ کرنا ہو تو عر وہ بن مسعود ﷜کا وہ بیان پڑھئے جو اس نے صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضری کے بعد اپنی قوم میں جاکر دیا تھا۔اس نے کہا: اے میری قوم کے لوگو!میں بہت سے بادشاہوں کے پاس جا چکا ہوں ،میں قیصر وکسری اور نجاشی کے پاس بھی گیا ہوں، مگر اللہ کی قسم میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ماننے والے لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمدﷺ کی تعظیم ان کے اصحاب کرتے ہیں ۔ اللہ کی قسم اگر وہ تھوکتے ہیں تو ان کا تھوک کسی نہ کسی شخص کے ہاتھ میں گرتا ہے اور وہ اسے تبرکاً اپنے منہ اور بدن پر مل لیتا ہے ،وہ جب کوئی حکم دیتے ہیں تو سب کے سب لپک کر ان کے حکم کو بجالاتے ہیں ۔ وہ جب وضو کرتے ہیں تو ان کے وضو کے پانی کو لینے کے لئے چھینا چھپٹی کرتے ہیں۔یہاں تک کہ لڑنے جھگڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور جب وہ بات کرتے ہیں تو ان کے ساتھی اپنی آوازیں پست کر کے خاموش ہو جاتے ہیں اور ادب وتعظیم کی وجہ سے وہ ان کو گھور کر نہیں دیکھتے۔
غرضیکہ محبت رسول کیلئے شرط ہے کہ عقائد ،عبادات،معاملات،اخلاق و عادات ، لباس ،شکل وصورت ،کھانے پینے اورضع قطع و غیرہ تمام امور میں آپ کی تعلیمات پر عمل کیا جائے ۔ہر وقت آپ کی عظمت ومحبت دل میں رہے ، اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کی حفاظت کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہیں ۔اور﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ پر اس طرح عمل ہوکہ کسی بھی معاملے میں بدعت پر عمل اور سنت سے اعراض نہ پایا جائے۔
سنت نبوی سے اعراض پر سخت وعید
رسول اللہﷺ کی سنت سے اعراض کرنے والوں کے لئے بڑی سخت وعید ہے، آپﷺ فرماتے ہیں:”مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي‘‘ (رواہ البخاری: ۹؍۱۰۴ [۵۰۶۳ ] ، صحیح مسلم:۲؍۱۰۲۰ [۱۴۰۱])
جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ میری امت ا ور جماعت میں سے نہیں ہے۔ ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:”كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَنْ أَبَى قَالُوا : يَا رَسُولَ اللهِ ، وَمَنْ يَأْبَى قَالَ مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى‘‘(رواہ البخاری : ۱۳؍۲۴۹ [۷۲۸۰])
میری تمام امت جنت میں داخل ہوگی مگر جو انکار کرے ،لوگوں نے پوچھا: انکاری کون ہے؟آپﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں گیا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کردیا۔
اسلام ایک مکمل اور جامع دین ہے
یہ بات آپ سب کو اور ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ اسلام ایک کامل ،مکمل اور جامع دین ہے ۔جسے اللہ تعالیٰ نے تمام انس وجن کے لئے قیامت تک کے واسطے منتخب فرمایا ہے، اس میں عقائد ، عبادات ،معاملات،اخلاقیات اور خوشی وغمی وغیرہ تمام امور کے متعلق احکامات موجود ہیں۔اس میں نماز ،روزہ،حج ،زکاة اور صدقہ وخیرات کے مسائل بھی ہیں اور بیع، شراء، رہن، اجارہ ، مزارعہ،مساقاة،لقطہ،ہبہ،قسم اور نذر کے مسائل بھی ،اس میں اطعمہ،اشربہ،ذبح اور شکارکے مسائل بھی ہیں اور فرائض،وصیت،حدود،لعان ،جنایات، قضاء اور جہاد وغیرہ کے مسائل بھی ۔ غرضیکہ حیات انسانی میں پیش آنے والے تمام مسائل کا اس میں بیان ہے،اور اس میں کسی قسم کا نقص نہیں، آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ عیدیں اور تہوار بھی انسانی زندگی کا ایک اہم مسئلہ ہیں،ہر انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ سال میں ایک دو دن کاروبار بند کر کے وہ عید اور خوشیاں منائے،مرد،عورتیں،بچے سبھی لوگ صاف ستھرے کپڑے پہن کر کسی میدان میں جمع ہوں، وہاں کوئی پرو گرام ہو جس میں سب شریک ہوں ، اس دن سب لوگ اچھے اچھے کھانے کھائیں،کچھ کھیل کود اور سیرو تفریح ہو،دعوتیں ہوں اورایک دوسرے کو مبارک بادی دیں۔
چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ ہر قوم ومذہب میں عیدیں اور تہوار موجود ہیں ، یہودیوں کے یہاں بھی عیدیں ہیں اور عیسائیوں کے یہاں بھی،ہندؤں کے بھی تہوار ہیں اور مجوسیوں ، جینیوں اور دوسری اقوام کے یہاں بھی۔
اسلام میں شرعی عیدیں
اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اسلام جو ایک مکمل اور جامع دین ہے کیا اس میں عید وں اور تہواروں کے متعلق احکام وتعلیمات نہیں ہیں؟اگر ہیں تو اس میں کتنی عیدیں ہیں؟ اور کب کب ہیں؟اور کیا کوئی عید ربیع الاول میں بھی ہے ؟
ہم اس سلسلہ میں جب کتاب وسنت کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے اس معاملے میں فطرت انسانی کی بھر پور رعایت کی ہے اور اپنے متبعین کے لئے دو سالانہ عیدیں مقرر کی ہیں، جو بڑی ہی پاکیزہ اور دین ودنیا کی جامع ہیں،ان میں عبادت وروحانیت کے ساتھ مباح کھیل کود اور معاشرہ کی خدمت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے اور یہ دونوں عیدیں عید الفطر اور عید الاضحیٰ ہیں۔
حضرت انس ﷜ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:”قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا فَقَالَ : ”مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ“ ، قَالُوا كُنَّا نَلْعَبُ فِيهِمَا فِى الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ @:” إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الأَضْحَى وَيَوْمَ الْفِطْرِ“ (رواہ ابو داود : [۱۱۳۴]، واسنادہ صحیح کما قال الالبانی فی تعلیقہ علی المشکوٰۃ)
رسول اللہﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت اہل مدینہ کے یہاں دو دن تھے جن میں وہ تہوار مناتے اور کھیل کود کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا یہ دونوں دن کیسے ہیں ؟ لوگوں نے کہا دور جاہلیت میں ہم ان دنوں میں کھیل کود کرتے تھے ۔(بس اسی رواج کے مطابق آج بھی ہم ان دونوں دنوں میں کھیلتے کودتے ہیں) رسول اللہﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے تم کو ان دونوں دنوں کے عوَض ان سے بہتر دو دن عطا کئے ہیں ،عید الفطر اور عید الاضحیٰ۔
یہ دو دن جن میں اہل مدینہ عید منایا کرتے تھے ،نو روز اور مہرجان تھے ستاروں کی گردش کے لحاظ سے تبدیلیٔ موسم کی خوشی میں یہ لوگ ان میں عید اور خوشیاں منایا کرتے تھے۔ ان کی ابتداء ایرانیوں سے ہوئی اور عربوں اور ایرانیوں کے میل جول سے رفتہ رفتہ یہ عیدیں عربوں میں رائج ہو گئیں۔
غور کیجئے کہ اس حدیث میں کہیں اس کا تذکرہ نہیں ہے کہ اہل مدینہ ان عیدوں میں شرک وکفر کا کوئی عمل کرتے تھے ،ا س میں صرف اتنا تذکرہ ہے کہ دور جاہلیت کی رسم ورواج اور عادت کے مطابق وہ اس میں کھیلتے کودتے اور خوشیاں مناتے تھے۔مگر اس کے باوجودرسول اللہﷺ نے اہل جاہلیت کی موافقت کو مناسب نہیں سمجھا اور دور جاہلیت کی ان عیدوں کو برقرار رکھنے کے بجائے انہیں بدل ڈالا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں ،عید الفطر اور عید الاضحیٰ۔
اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ عیدوں اور تہواروں کے معاملے میں بھی مسلمانوں کو دوسری قوموں کی تقلید اورمتابعت و موافقت نہیں کرنی چاہئے۔بلکہ اپنی شرعی عیدوں پر اکتفاء کرنا چاہئے،کیونکہ دوسری اقوام کی عیدوں میں بہت سی غیر شرعی باتیں ہو تی ہیں، جن کے مرورایام کے ساتھ مسلمانوں میں پھیلنے کا خطرہ رہتا ہے۔نیز ان کی موافقت بذات خود ایک فتنہ ہے، جس میں بہت سے نقصانات ہیں ،اسی بنا پر رسول اللہﷺ نے ان کی موافقت ومشابہت سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘(رواہ احمد: 2/ 50وابوداود: 4/ 78، وصحح اسنادہ احمد شاکرو الألبانی،وقال:إسنادہ صحیح) جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انھیں میں سے ہے ۔
عیدین کے سوا باقی ساری عیدیں غیر شرعی
دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ اسلام میں شرعی عیدیں صرف دو ہیں ، عید الفطر اور عید الاضحیٰ۔ان کے علاوہ جتنی عیدیں اور تہواریں مسلمانوں میں رائج اور موجود ہیں وہ سب غیر شرعی اور غلط ہیں۔اور انھیں میں سے عید میلاد النبی بھی ہے،اسی واسطے محدثین کرام اور فقہاء عظام نے اپنی کتابوں میں ”عیدین“ کا باب قائم کیا ہے ،عید میلاد النبی کا باب نہ آپ کو حدیث کی کتابوں میں ملے گا ، نہ فقہ کی کتابوں میں اور نہ کتاب وسنت اور خیر القرون میں ہی اس کا تذکرہ پائیں گے۔
ایام تشریق، یوم جمعہ اور یوم عرفہ کو احادیث میں عید کہا گیا ہے مگر
ایام تشریق کو احادیث میں ”ایام عید“کہا گیاہے ۔صحیح بخاری:2/474 مع الفتح، باب اذا فاتہ العید یصلی رکعتین) میں ہے ،کہ انصار کی دو بچیاں حضرت عائشہ﷞ کے کمرے میں عید کی مناسبت سے گیت گارہی تھیں، رسول اللہﷺ اپنے رخ انور پر چادر ڈالے آرام فرمارہے تھے۔اتنے میں حضرت ابو بکر﷜ تشریف لائے تو ناراض ہوئے اوربچیوں کو گیت گانے سے منع کیا ۔رسول اللہﷺ نے رخ انور سے چادر ہٹائی اورفرمایا : ”دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ فَإِنَّهَا أَيَّامُ عِيدٍ وَتِلْكَ الأَيَّامُ أَيَّامُ مِنًى“اے ابو بکر!ان دونوں بچیوں کو گیت گانے دو ، یہ عید کے ایام ہیں۔ اور یہ ایام منی کے ایام (یعنی ایام تشریق) تھے۔
جمعہ کے دن کو بھی عید کا دن کہا گیا ہے، مسند احمد:(۲؍۳۰۳،۵۳۲)میں حضرت ابوہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:”إِنَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ يَوْمُ عِيدٍ ، فَلاَ تَجْعَلُوا يَوْمَ عِيدِكُمْ يَوْمَ صِيَامِكُمْ ، إِلاَّ أَنْ تَصُومُوا قَبْلَهُ أَوْ بَعْدَهُ“جمعہ کا دن عید کا دن ہے ،اس واسطے تم اپنے عید کے دن کو اپنے روزے کا دن نہ بناؤ الا یہ کہ تم اس سے پہلے یا بعد میں روزہ رکھو۔
ظاہر ہے کہ ان ایام کو ان کے بار بار لوٹ کر آنے اور ان میں مسلمانوں کے اجتماع کی وجہ سے ایام عید کہا گیا ہے،ورنہ یہ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی طرح تہوار کے ایام نہیں ہیں ۔ اسی واسطے مسلمان ان ایام میں عیدین کی طرح تہوار نہیں مناتے ہیں ۔
حضرت عمر ﷜سے بعض یہودیوں نے کہا کہ امیر ا لمؤمنین آپ لوگوں کی کتاب (قرآن کریم) میں ایک ایسی آیت ہے جسے آپ لوگ پڑھتے ہیں ،اگر وہ آ یت ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنالیتے،حضرت عمر ﷜ نے فرمایا:وہ کون سی آیت ہے ؟اس نے کہا :﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ (المائدہ :3)حضرت عمر﷜ نے فرمایا:ہم اس دن کواوراس مقام کو جانتے ہیں جس میں رسول اللہﷺ پر اس کا نزول ہوا ،وہ جمعہ کا دن تھا اور آپ ﷺعرفہ میں قیام فرما تھے۔اور بعض روایتوں میں ہے کہ یہ جمعہ اور عرفہ کے دن نازل ہوئی اور بحمد للہ یہ دونوں دن ہماری عید کے دن ہیں۔(انظرصحیح بخاری وشرحہ الفتح:۱؍۱۰۵(۴۵)،صحیح مسلم: ۱۸؍۱۵۴۱۵۳،جامع الترمذی: ۵؍۰ ۲۵)
اورحضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ آیت کریمہ: :﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ﴾ کی تلاوت کی ،آپ کے پاس ایک یہودی بیٹھا ہوا تھا ، اس نے کہا اگر یہ آیت ہم لوگوں (یہودیوں)پر نازل ہوئی ہو تی تو ہم اس دن کو جس میں یہ آیت نازل ہوئی ہے یوم عید بنالتے ۔حضرت ابن عباس﷠ نے فرمایا:”فَإِنَّهَا نَزَلَتْ فِي يَوْمِ عِيدَيْنِ اثْنَيْنِ: جُمُعَةٍ , وَيَوْمِ عَرَفَةَ“(رواہ الترمذی:۴؍۶۹،مع التحفۃ وقال:ھذاحدیث حسن غریب، وقال الألبانی:ھو صحیح،وانظر ایضاً فتح الباری:۱؍۱۰۵ )
یعنی یہ آیت کریمہ دو عیدوں کے دن نازل ہوئی،جمعہ کے دن اور عرفہ کے دن۔
حضرت عمر اور حضرت ابن عباس﷢ نے آیت کریمہ: ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ﴾ الخ کے نا زل ہونے کے دن کو یوم جمعہ اور یوم عرفہ ہونے کی وجہ سے عید کا دن کہا،کیونکہ ان میں لوگوں کا اجتما ع ہو تا ہے اور یہ بار بار لوٹ کر آتے ہیں ،مگر انہوں نے اس دن الگ سے کوئی تہوار اور عید نہیں منائی اور نہ مسلمانوں نے ہی آج تک اسے جشن اور عید کا دن بنایا۔حالانکہ یہودیوں کے کہنے کا مقصد یہی تھا کہ اگر تکمیل دین،اتمام نعمت اور اسلام کا اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ دین ہونے کی بشارتوں پر مشتمل یہ عظیم آیت ہم لوگوں پر نازل ہوتی تو ہم اس خوشی میں اس کے نازل ہو نے کے دن کو ایک یاد گار اور اپنی عید وتہوار کا دن بنالیتے۔
مگر مسلمانوں نے اس کوجشن اور عید کا دن نہیں بنایا، اوریہودیوں کے جواب میں حضرت عمر اور حضرت ابن عباس ﷢نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے خود اس آیت کریمہ کو ایک ایسے دن میں نازل فرمایا ہے جو ایک نہیں دودو عیدوں پر مشتمل تھا۔اس لئے ہمیں الگ سے اسے یاد گار دن یا عید اور جشن کا دن بنانے کی ضرورت نہیں ۔غرضیکہ کہ ان ایام کے لئے عید کا لفظ احادیث میں وارد ہونے کے باوجود صحا بہ کرام اور دیگر مسلمانوں نے کبھی بھی انہیں تہوار کا دن نہیں بنایا۔
رسول اللہﷺ کی تاریخ پیدائش کو یوم عید کہنا ثابت نہیں
آج لوگ 12/ربیع الاول کو رسول اللہﷺ کی تاریخ پیدائش سمجھ کر عید میلاد النبی مناتے ہیں، جلوس نکالتے ہیں ،تمام کاروبار بند رکھتے اور چھٹی مناتے ہیں۔جبکہ اس کے لئے کتاب وسنت میں کہیں عید کا لفظ وارد نہیں ہے ،صحابہ کرام،تابعین عظام اوراسلاف میں سے کسی نے بھی اسے یوم عید قرار نہیں دیا ہے ۔
یوم ولادت لائق جشن یا یوم نزول وحی اور تکمیل دین
اس نکتہ پرغور کیجئے تو آپ کی تاریخ ولادت سے زیادہ آپ پر وحی کے نزول کا دن اور دین کی تکمیل کا دن جشن اور خوشی منانے کے لائق ہے۔کیونکہ جس دن آپ پر وحی کا نزول ہوا آپ کو نبوت ورسالت کاعظیم شرف ومنصب عطا کیا گیا۔آپ سید الانبیاء،خاتم المرسلین ورحمۃ للعالمین قرار پائے،اور وہ دن آپ کی حیات کا بڑا مبارک دن ہے ،اگر آپ کو یہ مبارک د ن نہ ملتا اور آپ پر وحی کا نزول نہ ہو تا تو آپ بھی عام انسانوں کی طرح ایک انسان ہوتے۔
اسی طرح شریعت اسلامیہ کی تکمیل اور ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ﴾کے نزول کا دن بھی بڑا عظیم دن تھا۔جیسا کہ یہودیوں نے اس کا اظہار بھی کیا مگر ان سب کے باوجود بھی جب ان تاریخوں کو یوم جشن اور یوم عید نہیں بنایا گیا۔تو پھر تاریخ ولادت کو یوم عید منانے کا کیا معنی ہے؟ آپ ربیع الاول کی 12/تاریخ یا9/تاریخ یا مطلق آپ کے یوم ولادت کے بارے میں نصوص شرعیہ کا جائزہ لیجئے ۔کہیں آپ کو اس کے لئے ” یوم عید“ کا لفظ نہیں ملے گا ۔ پھر اس دن کو یوم عید میلاد النبی کہنا اور اسے تہوار کی حیثیت دینا کیسے صحیح ہو گا ؟
ماہ ربیع الاول اور9/یا12/ربیع الاول کی کوئی فضیلت نہیں
جب ہم سال کے بارہ مہینوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں کتاب وسنت میں ماہ رمضان ، اس کے صیام و قیام ،شب قدر اور آخری عشرہ کے فضائل ملتے ہیں ۔شوال کے چھ روزوں اور عید الفطر کے فضائل ومسائل بھی ملتے ہیں، ذی قعدہ بھی ا شھرالحرم میں سے ہے ،ذی الحجہ کے عشرۂ اولی ، یوم النحر اور ایام تشریق کے متعلق بھی بہت سے احکام وفضائل کا بیان احادیث نبویہ میں ہے ۔ ماہ محرم اور یوم عاشوراء کے روزوں کے فضائل بھی وارد ہیں ،صفر کا تذکرہ بھی حدیث: ” لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ وَلاَ صَفَرَ وَلاَ هَامَةَ “ (سنن أبی داود:4/ 24)میں ہے۔رجب کا ذکر ”اشہر الحرم“ میں آیا ہے ، ماہ شعبان کے روزوں کے فضائل حدیثوں میں وارد ہیں ۔مگر ربیع الاول اور خاص طور سے9/یا12/ربیع الاول کے فضائل کا کتاب وسنت میں کوئی تذکرہ نہیں ۔چہ جائیکہ اس دن جشن اور عید منانے کا حکم ہو۔
صرف پیر کے دن کا روزہ ثابت ہے
رسول اللہﷺ کی ولادت کے تعلق سے جو بات صحیح احادیث سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت پیر کے دن ہوئی اور رسول اللہﷺ پیر کے دن روزہ رکھتے تھے اور جب آپ سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فر ما یا : ”ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ وَيَوْمٌ بُعِثْتُ أَوْ أُنْزِلَ عَلَىَّ فِيهِ “(رواہ مسلم:۸؍۵۲مع شرح النووی) اسی دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی کا نزول ہوا ۔حا لا نکہ پیر کے روزہ کے بارے میں حدیثوں میں دیگر علتوں کا بھی ذکر ہے۔مثلاً حضرت ابو ہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فر ما یا : ”تُعْرَضُ الأَعْمَالُ يَوْمَ الاِثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ فَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَمَلِى وَأَنَا صَائِمٌ“ (رواہ الترمذی: 3/ 122،انظر مشكاة المصابيح :1/ 465) پیر اور جمعرات کو (بندوں کے)اعمال پیش کئے جا تے ہیں لہذا میں چا ہتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں پیش کئے جائیں کہ میں روزے سے ہوں ۔
اور ایک روایت میں ہے کہ نبی پیر اور جمعرات کے روزے رکھتے تھے ،آپ سے کہا گیا کہ یا رسول اللہﷺ آپ پیر اور جمعرات کے روزے (کیوں) رکھتے ہیں ؟آپ نے فر مایا:پیر اور جمعرات کے دن اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کی مغفرت فر ما تا ہے سوائے دو قطع رحمی کر نے والوں کے ، ان کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے: ان دونوں کو چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ صلح کر لیں ۔۔(رواہ احمد وابن ماجہ بسند صحیح. انظر مشکاۃ:۱؍۶۳۹،فقہ السنۃ:۱؍۴۵۳)
بہر حال رسول اللہﷺ کی ولادت کے تعلق سے صرف یہ ثابت ہے کہ وہ پیر کا دن ہے اور پیر کو رسول اللہ ﷺ روزہ رکھتے تھے اور تمام مسلمانو ں کے لئے بھی اس دن کا روزہ رکھنا مستحب ہے۔مگر یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ اس میں بھی ماہ ربیع الاول اور اس کی 9/یا12/ تاریخ کی کوئی قید یا خصوصیت نہیں بلکہ یہ حکم ہر ہفتہ کے پیر کے لئے ہے۔
عید میلاد النبی کی نفی کی ایک اور دلیل
یہاں یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ عید کے دن روزہ رکھنا ممنوع ہے،اور جب رسول اللہﷺ نے اپنی پیدائش کے دن خود روزہ رکھا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ دن عید کا دن نہیں ہے اور اس دن کو عید میلاد النبی منانا درست نہیں ہے۔
عید میلاد النبی منانا مقصود ہوتاتو آپ کی تاریخ ولادت میں اختلاف نہیں ہوتا
اس منا سبت سے ایک بات اور قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی تاریخ ولادت متفق علیہ نہیں ہے ،اس سلسلہ میں ائمہ کرام اور علماء عظام سے لگ بھگ دس اقوال منقول ہیں۔(دیکھئے الطبقات الکبریٰ لابن سعد :۱؍۱۰۰-۱۰۱)البدایۃ والنہایۃ لا بن کثیر : ۲؍۲۴۲-۲۴۴)
اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اگر آپﷺ کی تاریخ ولادت کو عید میلاد النبی منانا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کومنظورومقصود تھا تو آپ کی تاریخ ولادت میں یہ اختلاف کیوں ہے؟ایسی صورت میں تو کسی ”قطعی الثبوت والدلالۃ النص“ سے اس کی تعیین ہو جا نی چا ہئے ، تاکہ اس دن آپ کے امتی اطمینان سے جشن ولادت اور عید میلاد النبی مناتے ۔ مگر حقیقت پر نظر ڈالئے تو معلوم ہو تا ہے کہ اس سلسلہ میں کوئی صریح وصحیح نص موجود نہیں ہے؟ جس کی بنا پر اس کے بارے میں کافی اختلاف ہے ۔اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا منشا یہ ہرگز نہیں ہے کہ لوگ آپ کی ولادت کی تاریخ کو جشن ولادت یا عید میلاد النبی منائیں۔
غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ سے پہلے کی امتیں اور قومیں اپنے نبیوں اور بزرگوں کے بارے میں غلو کی وجہ سے گمراہ ہو ئیں۔اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اور رسول اللہﷺ اپنی شفقت ورحمت کی وجہ سے یہ نہیں چا ہتے تھے کہ کوئی ایسی چیز مشروع قرا ر دیں جس سے امت محمدیہ بھی اپنے نبی کے بارے میں غلو کا شکار ہو، اور ضلالت وگمراہی کے دلدل میں پھنسے ۔اسی بنا پر رسول اللہﷺ نے اپنے بارے میں غلو سے روکا اور فر مایا : ”لاَ تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه ‘‘ (رواہ البخاری:۶؍۴۷۸]۳۴۴۵[)
جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم کے بارے میں مبالغہ آرائی کی اس طرح تم لوگ میرے بارے میں مبالغہ آرائی نہ کرنا، میں صرف ایک بندہ ہوں اس واسطے مجھ کو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہنا ۔
اور خاص طورسے اپنی قبر پر عیداور جشن وعرس منانے سے منع کیا ،حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فر مایا:”لاَ تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا وَلاَ تَجْعَلُوا قَبْرِى عِيدًا وَصَلُّوا عَلَىَّ فَإِنَّ صَلاَتَكُمْ تَبْلُغُنِى حَيْثُ كُنْتُمْ“ (رواہ ابوداؤد:۲؍۵۳۴ (۲۰۴۲)اپنے گھروں کو تم قبریں نہ بناؤ ،اور میری قبر کو تم عید (اور جشن کا مقام ) نہ بناؤ اور مجھ پر درود پڑھو ،اس لئے کہ تم چا ہے جہاں ہو تمہارا درود مجھ تک پہنچا یا جاتا ہے ۔
خیر القرون میں عید میلاد النبی کا وجود نہ تھا
اگر عید میلاد النبی منانا جائز یا مستحب ہو تا تو رسول اللہﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام﷢ نے اس کا ضرور اہتمام کیا ہوتا اور اگر رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام﷢ نے اس کا اہتمام کیا ہوتا تو آپ کی تاریخ ولادت میں یہ اختلا ف نہیں ہوتا ۔اور جب رسول اللہ ﷺ،خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کرام بلکہ خیر القرون کے مسلمانوں سے اس کا ثبوت نہیں تو ظا ہر ہے کہ یہ بدعت ہے ۔
راجح تا ریخ ولادت کے بارے میں علماء کے اقوال
ابھی یہ بات گزر چکی ہے کہ رسول اللہﷺ کی تا ریخ ولادت کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے اور اس سلسلہ میں تقریباً دس اقوال ہیں مگر زیادہ مشہور دو قول ہیں ،ایک نَو ربیع الاول کا، دوسرا بارہ ربیع الاول کا ،اوران دونوں اقوال میں محققین کے نزدیک ٩/ربیع الاول کا قول زیادہ قوی اور راجح ہے ۔
قاضی محمد سلیمان منصور پوری فر ماتے ہیں :
”ہمارے نبیﷺ موسم بہار میں دوشنبہ کے دن٩/ربیع الاول عام الفیل مطابق ٢٢/اپریل ٥٧١ھ مطابق یکم جیٹھ ٦٢٧ بکرمی کو مکہ معظمہ میں بعد از صبح صادق وقبل از طلوع نیر عالم تاب پیدا ہوئے “(رحمۃ للعالمین:ص٤٠)
اورعلامہ شبلی نعمانی فر ماتے ہیں :
”تاریخ ولادت کے متعلق مصر کے مشہور ہیئت دان عالم محمود پاشا فلکی نے ایک رسالہ لکھا ہے جس میں انھوں نے ریاضی کے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ آپ کی ولادت ٩/ربیع الاول بروز دو شنبہ بمطابق ٢٠/اپریل ٥٧١ء میں ہوئی تھی ۔محمود پاشا فلکی نے جو استدلال کیا ہے وہ کئی صفحوں میں آیا ہے ،اس کا خلاصہ درج ذیل ہے ۔
(١)صحیح بخاری میں ہے کہ ابراہیم (آنحضرتﷺ کے صغیر السن صاحب زادے ) کے انتقال کے وقت آفتاب میں گہن لگا اور اس وقت آپ کی عمر کا ٦٣/ واں سال تھا ۔
(٢)ریاضی کے قاعدے سے حساب لگا نے سے معلوم ہو تا ہے کہ دس ہجری کا گرہن ٧ /جنوری ٦٣٢ء کو ٨ / بج کر ٣١/منٹ پر لگا تھا ۔
(٣)اس حساب سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ اگر قمری برس ٦٣ /برس پیچھے ہٹے تو آپ کی پیدائش کا سال ٥٧١ء ہے جس میں (از روئے قواعد ہیئت )ربیع الاول کی پہلی تاریخ ١٢/اپریل ٥٧١ء تھی ۔
(٤) تاریخ ولادت میں اختلاف ہے ،لیکن اس قدر متفق علیہ ہے کہ وہ ربیع الاول کا مہینہ اور دوشنبہ کا دن تھا اور تاریخ ٨/سے لیکر ١٢/ تک منحصر ہے ۔
(٥) ربیع الاول مذکور کی ان تاریخوں میں دوشنبہ کادن نویں تاریخ کو پڑتا ہے ، ان وجوہ کی بنا پرتاریخ ولادت قطعاً ٢٠ /اپریل ٥٧١ء تھی ۔
اورمولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی فر ما تے ہیں:
”٩/ربیع الاول عام الفیل، مطابق ٤٠ /جلوس کسری نو شیرواں،مطابق ٢٢/اپریل ٥٧١ء بروز دوشنبہ بعداز صبح صادق اورقبل ازطلوع آفتاب آنحضرت ﷺپیدا ہوئے“ ۔ (تاریخ اسلام: حصہ اول ص٧٦)
اورشاہ معین الدین احمد فر ماتے ہیں:
”عبد اللہ کی وفات کے چند مہینوں بعد عین موسم بہار اپریل ٥٧١ء میں ٩/ ربیع الاول کو عبد اللہ کے گھر میں فرزند تولد ہوا ،بوڑھے اور زخم خوردہ عبد المطلب پوتے کے تولد کی خبر سن کر گھر آئے اور نو مولود بچہ کو خانۂ کعبہ میں لے جاکر اس کے لئے د عا مانگی ساتویں دن عقیقہ کر کے ”محمد “نام ر کھا ۔(تاریخ اسلام: جلد١صفحہ ٢٥)
مولانا غلام رسول مہر نے بھی قاضی محمد سلیمان منصور پوری اور مولانا شبلی کے دلائل پر اطمینان کر تے ہوئے رسول اللہﷺ کی تاریخ ولادت ٩/ربیع الاول عام الفیل مطابق ٢٢ /اپریل ٥٧١ء ہی کو صحیح تسلیم کیا ہے ۔(دیکھئے رسول رحمت :ص٣٧)
اور صفحہ ٦٥٣ میں تو انھوں نے اس پر اتفاق نقل کیا ہے چنانچہ فر ماتے ہیں : ”تاریخ ولادت پر تو دور حاضر میں اتفاق ہو چکاہے،یعنی ٩/ربیع الاول عام الفیل“۔
اور سیرت النبی ابن ہشام ترجمہ وتہذیب مو لانا عبد الجلیل صدیقی و مولانا غلام رسول مہر (1/182)کے حاشیہ پر ہے”تمام روایتیں پیش نظر رکھ کر ارباب تحقیق اس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ آپ کی ولادت با سعادت ٩/ ربیع الاول عام الفیل مطابق ٢٢/اپریل ٥٧١ء بعداز صبح صادق اور قبل از طلوع نیر عالم تاب ہوئی“۔
مولانا صفی الرحمن مبارکپوری اپنی مشہور کتاب”الرحیق المختوم“ جس پر انھیں سیرت نبوی کا پہلا انعام مل چکاہے میں فر ماتے ہیں:
”رسول اللہﷺ مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر ٩/ربیع الاول١ھ عام الفیل یوم دوشنبہ کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔اس وقت نو شیرواں کی تخت نشینی کا چالیسواں سال تھا اور ٢٠/یا ٢٢ /اپریل ٥٧١ء کی تاریخ تھی“(ص٨٣)
غرضیکہ محققین کے نزدیک آپ کی ولادت کی صحیح تاریخ ٩/ربیع الثانی ہے۔
تاریخ وفات میں اختلاف اور راجح قول
تاریخ ولادت کی طرح آپ کی تاریخ وفات میںبھی کئی اقوال ہیں، ابن کثیر نے البدایۃ والنہایۃ: (۵؍۲۲۴) میں چار اقوال ذکر کئے ہیں ، لیکن عام مورخین کے نزدیک مشہور قول یہ ہے کہ آپ کی وفات ١٢/ربیع الاول ١١ /ہجری کو ہوئی۔
علامہ قاضی محمدسلیمان منصور پوری فر ماتے ہیں :
”١٢ربیع الاول١١ ھ یوم دو شنبہ وقت چا شت تھا کہ جسم اطہر سے روح انور نے پرواز کیا،اس وقت آپ کی عمر مبارک ٦٣ /سال قمری پر٤ دن تھی ۔(رحمۃ للعالمین : ص ٩٣٢)
مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی فر ما تے ہیں:
”دوپہر کے قریب روز دوشنبہ ١٢/ربیع الاول ١١ھ کو اس دار فانی سے آنحضرت نے انتقال فر مایا۔اگلے روز سہ شنبہ کو دوپہر کے قریب مدفون ہوئے“۔(تاریخ اسلام : ١ / ٧ ٤ ٢ )
مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی فرماتے ہیں:
”وفات کے دن یعنی دو شنبہ ١٢/ربیع الاول ١١ھ کو اتنا سکون ہوا کہ حجرۂ مبارک سے جو مسجد نبوی سے ملا ہوا تھا پردہ اٹھا کر دیکھا ،لوگ نماز فجر میں مشغول تھے۔یہ منظر دیکھ کر تبسم فرمایا اور پھر پردہ گرادیا ،لیکن جیسے جیسے دن چڑھتا جاتا تھا دنیا پر تاریکی چھانے کا وقت قریب ہو تا جاتا تھا،بار بار غشی ہو نے لگی......پاس ہی پانی کی لگن رکھی ہوئی تھی اس میں بار بار ہاتھ ڈال کر چہرے پر ملتے تھے،اسی دوران میں ہاتھ اٹھا کر تین مرتبہ فرمایا:”بَلِ الرَّفِيقُ الأَعْلَى“اب کوئی اور نہیں رفیق اعلیٰ درکار ہے ۔یہ کہتے کہتے روح عالم قدس میں پہونچ گئی۔(تاریخ اسلام : ۱؍۱۱۸)
مولانا صفی الرحمن صاحب مبارکپوری فرماتے ہیں:
”آخری فقرہ(یعنی اے اللہ!رفیق اعلیٰ)تین بار دہرایا اور اسی وقت ہاتھ جھک گیااور آپ رفیق اعلیٰ سے جا لاحق ہوئے،انا للہ وانا الیہ راجعون،یہ واقعہ ١٢/ربیع الاول١١ ھ یوم دو شنبہ کو چاشت کی شدت کے وقت پیش آیا۔اس وقت نبی ﷺکی عمر ترسٹھ سال چار دن ہو چکی تھی“ ۔(الرحیق المختوم:ص٤٣٣-٤٣٤)
بر صغیر ہند وپاک میں ١٢/ربیع الاول کو بارہ وفات کہا جاتا ہے ،اور بریلوی عقائد رکھنے والے پہلے اسی دن ختم شریف دلایا کرتے تھے۔مولوی احمدرضا خاں بریلوی کو بھی اعتراف ہے کہ ”نبی ﷺ کی ولادت ١٢/ربیع الاول دو شنبہ کو ہے اور اسی میں وفات شریف ہے“(ملفوظات بحوالہ جشن وجلوس عید میلاد النبیﷺ غلو فی ا لدین:ص٤٩)
چند قابل غور باتیں
ان حقائق کی روشنی میں یہاں چند قابل غورباتیں یہ ہیں:
١- اگر رسول اللہﷺ کی تاریخ ولادت ٩/ربیع الاول ہے جیسا کہ اکثر وبیشتر علماء اورمحققین کی رائے ہے، تو ایسی صورت میں ١٢/ربیع الاول کو عید میلاد النبی منانے کا کیامعنی ہے؟اور ٩/ربیع الاول (جو تاریخ ولادت ہے )کو چھوڑ کر ١٢/ربیع الاول کو جشن یا عید میلاد النبی منانا کیسے درست ہو گا؟آخر اس کو جشن ولادت یا عید میلاد النبیﷺ کیسے کہا جاسکتا ہے جب کہ اس دن آپ کی ولادت ہی نہیں ہوئی۔
٢-خاص طور پر اس صورت میں جب کہ ١٢/ربیع الاول رسول اللہ ﷺ کی تاریخ وفات ہو۔ جیسا کہ بہت سے علماء و مورخین اور خود احمد رضا خان بریلوی صاحب کا بھی قول ہے ۔ اس دن اس طرح جشن اور عید منانا کیسے جائز ہو گا؟آپ کی وفات کے دن جلوس نکالنے، جھنڈ یاں لگانے ،محرابیں بنانے، اسٹیج سجانے، چراغاں کر نے ،قسم قسم کے کھانے پکانے اور دعوتیں کرنے کا کیاتُک ہے ۔کیاآپﷺ کی وفات پر مدینہ منورہ میں جشن منایا گیا تھا؟ یا اس روز وہاں قیامت صغریٰ برپا تھی؟
بتائیے کہ اگر آپ میں سے کسی کے باپ بیٹے ،بھائی یا کسی بھی عزیز کا کسی دن انتقال ہو جائے تو اس دن وہ جشن منائے گا ؟اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر کسی مسلمان کے لئے سرکار دوعالم تاجدار مدینہ احمد مجتبیٰ محمد مصطفی جن کا ارشاد گرامی ہے:”تم میں کوئی اس وقت تک مومن نہیں جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ بیٹے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ کی وفات کے دن جشن اور عید منانا کیسے درست ہوگا ؟
٣-اگر ١٢/ربیع الاول کو رسول اللہﷺ کی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات دونوں مان لیں تو کس بنا پر ہم اس دن کے غم پر خوشی کو ترجیح دیں گے ؟ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ آپ کی ولادت اور وفات کے دن اور مہینے اور بعض مورخین کے بقول تاریخ میں بھی اتحاد وموافقت میں کیا حکمت ہے ؟حضرت ابن عباس﷠ فر ماتے ہیں :”ولد نبيكم يوم الاثنين ونبي يوم الإثنين وخرج من مكة يوم الإثنين وفتح مكة يوم الإثنين ونزلت سورة المائدة يوم الاثنين ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ﴾ وتوفي يوم الاثنين“۔(رواہ احمد،والبیہقی فی دلائل النبوة:7/ 233،انظر البدايۃ والنھاىۃ :۵؍۲۲۳) نبیﷺ کی ولادت پیر کو ہوئی ،پیر کے دن آپ نبی بنائے گئے ،پیر ہی کو مکہ سے ہجرت کے لئے نکلے ،پیر کو ہی مدینہ منورہ میں داخل ہوئے اور پیر کوہی آپ کی وفات بھی ہوئی ۔
آخر اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لئے ایک ہی دن کیوں مقرر فر مایا ؟کیا اس میں یہ مصلحت نہیں کہ اس طرح لوگ اس دن کو نہ نوحہ وماتم کا دن بنائیں اور اسے بارہ وفات سے موسوم کریں اور نہ ہی اس دن جشن اور عید منائیں۔اس طرح وہ افراط وتفریط سے دور اور اعتدال پر قائم رہیں۔یقینا اس میں یہ حکمت ہے ۔
علامہ تاج الدین فا کہانی فرماتے ہیں: ”میلاد اور وفات کی تاریخوں کے متحد ہو نے کی وجہ سے نہ بارہ وفات کا غم اور نہ عید میلاد کی خوشی ہے ۔یہ سب جا ہلوں کی باتیں ہیں“۔
عید میلاد کے فوائد ونقصانات کا جائزہ
اب آئیے ذرا یہ بھی دیکھیں کہ اس کے فائدے کتنے ہیں اور نقصانات کتنے ؟یہ بات آ پ کو معلوم ہی ہو چکی ہے کہ عید میلاد النبی کا ثبوت کتاب وسنت اور عمل صحابہ وتابعین سے نہیں اور ہمارے اسلاف اس قسم کی عید کو جانتے بھی نہیں تھے، اس کی ایجاد سب سے پہلے ملاّ عمر بن محمد موصلی نے کی اور سلطان مظفر الد ین نے اسے فروغ دیا ۔جو ایک سادہ لوح اور جذباتی حاکم تھا ۔ اس واسطے اس سنتِ کوکبوری سے اجروثواب کی امید کاتو کوئی سوال ہی نہیں۔البتہ چونکہ یہ دین میں ایک نئی نکالی ہوئی چیز ہے جسے اجروثواب کا کام سمجھ کر کیا جاتا ہے اس واسطے حدیث:”كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ“کی بنا پر یہ بدعت اور گناہ و ضلالت کا موجب ہے کما تقدم۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کی شان وشوکت میں اضا فہ ہو تا ہے ۔ مگر غور فرمائے کہ اس میں موضوع اورمن گھڑت قصے کہانیوں کے بیان کر نے ، شرکیہ نعرے جیسے نعرۂ رسالت یا رسول اللہ وغیرہ کے بلند کرنے، نوجوانوں کے بے ہنگم انداز میں اچھلنے کودنے ،ڈھول تاشے اور سارنگی و طبلے کے ساتھ قوالی سننے اور جھومنے سے ، خواتین کے بے پردہ مجمع میں گھومنے پھرنے سے اسلام اور مسلمانوں کی کون سی شان بلند ہو تی ہے اور ان کی قوت و شوکت میں کیسے اضافہ ہوتا ہے؟
ان مجالس میلاد سے نہ تو لوگوں کو رسول اللہﷺ کی صحیح سیرت کا پتہ چلتا ہے ،نہ عقائد ، عبادات،معاملات اور اخلاق وآداب میں آپﷺ کے فرامین اور اسوۂ مبارکہ کا علم ہو تا ہے ۔نہ لوگوں کو برائیوں کے چھوڑنے اور بھلائیوں کے کرنے کی ترغیب ملتی ہے ۔نہ سیرت کے موضوع پر ریسرچ وتحقیق کا کام ہو تا ہے ،نہ سیرت کی صحیح کتابوں کو پڑھا جاتا ہے ،نہ ان کی نشر واشاعت ہو تی ہے ،نہ قرآن وسنت جو اصل شریعت ہیں ان کے درس اور تفسیر وترجمہ کا اہتمام ہو تا ۔غرضیکہ اس کے ایجابی پہلو اورفوائد بہت کم ہیں،بلکہ سیرت کے جلسوں اور میلاد کی محفلوں میں آپ کی ولادت اور اس کے ماقبل و ما بعد کے واقعات اور حالات میں جس قدر مبالغہ آرائی اور جھوٹ وموضوع روایتوں کی آمیزش اور بھر مار ہو تی ہے ،اس سے جاہلوں کے عقیدے خراب ہو تے ہیں اور تعلیم یافتہ لوگوں اور غیر مسلموں میں اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں غلط تأثر قائم ہو تا ہے اور ہر آدمی محسوس کرتا ہے کہ یہ سب من گھڑت چیز یں ہیں ،ان کی کوئی حقیقت نہیں۔مثلاً یہ بیان کہ :
١- جب آنحضرتﷺ کی ولادت کا وقت آیا تو ایک مرغ سفید نمودار ہوا اور حضرت آمنہ کے پاس آیا ،نیز اس شب کو تمام جانوروں اور پرندوں نے گفتگو کی۔
٢-حضرت مریم اورحضرت آسیہ کا ولادت سے پہلے حضرت آمنہ کے پاس آنا اور بشارت دینا۔
٣- جب حضرت عبد اللہ کا نکاح حضر ت آمنہ سے ہوا تو دو سو عورتیں رشک سے مرگئیں۔
٤-حضرت کی ولادت کے دن آتش کدہ ایران بجھ گیا ۔قصر نو شیرواں کے کنگورے گر گئے اور خانۂ کعبہ کے بت اوندھے ہو گئے۔
٥-ولادت کے بعد حضرت کچھ دیر کے لئے غائب ہو گئے اور پھر کسی نے بہشتی کپڑوں میں لاکر رکھ دیا۔
٦۔ روشنبیوں کا نمودار ہو نا اور عجیب وغریب آواز کا سننا۔
یہ ساری باتیں سند کے اعتبار سے غیر ثابت بلکہ موضوع ومن گھڑت ہیں ۔ (دیکھئے ولادت نبوی:ص٦١-١٠١، رسول رحمت:ص٣٩)اور عقل وقیاس کے بھی خلاف ہیں ، اگر رسول اللہ کی ولادت باسعادت کے وقت اتنے بڑے بڑے واقعات پیش آتے اور مشہور ہو تے تو آپ کی تاریخ پیدائش میں اتنازیادہ اختلاف کیوں ہو تا۔(فتاوی سلفیہ :ص١٩)
مادی نقصانات
علاوہ ازیں اس کے مادی واخلاقی نقصانات بھی ہیں ۔آج اس پر قوم مسلم کی جتنی بڑی دولت خرچ ہو تی ہے وہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں،سلطان مظفر الدین کو کبوری جس نے ا س کو فروغ دیا وہ اس پر کتنا خرچ کر تا تھا اور اس وقت میلاد کی کیا شان تھی اس کی ایک جھلک دیکھنا ہو تو ابن خلکان کا یہ بیان پڑھئے،وہ لکھتے ہیں:اوائل محرم میں بغداد، موصل ، جزیرہ ، سنجار،نصیبین اور عجم کے شہروں سے فقیہ، صوفی،واعظ،قاری اور شاعر آنے شروع ہو جاتے تھے اور ملک مظفر الدین ان کے لئے چار چار پانچ پانچ منزل لکڑی کے خیمے لگواتا تھا۔سب سے بڑا خیمہ بادشاہ کا ہوتا ،باقی ارکان دولت کے خیمے ہو تے اور اوائل صفر میں انھیں سجایا جاتا اورمغنی اور ڈرامہ کر نے والے ،مختلف قسم کے کھلاڑی یہاں فروکش ہو تے اور لوگ کاروبار ترک کر کے ان محفلوں میں مشغول ہو جاتے ،بادشاہ ہر خیمہ کے پاس سے عصر کے بعد گذر تے،گانا سنتے اور ڈرامہ دیکھتے۔تمام رات گانا سننے کے بعد صبح شکار کے لئے چلے جاتے،اورمیلاد ایک سال ٨/ ربیع الاول کو مناتے اور ایک سال ١٢ /ربیع الاول کو ، یہ اس واسطے کہ آنحضرتﷺ کی ولادت میں اختلاف ہے،مولد سے دو دن قبل اونٹ ، گائے اور بکریاں سجا کر نکا لتے،اور ان پر طبل اور گانے بجانے کا ساما ن لاد کر میدان میں لے آتے ،پھر انھیں ذبح کر کے پکا نا شروع کر دیتے ۔میلاد کی رات سماع کی محفلیں گرم ہو تیں اور شمعیں جلائی جاتیں۔ میلاد کی صبح صوفی صاحبان کو قطاروں میں کھڑا کر کے ان کے سروں پر خلعتوں کے بگچے رکھ دیتے اور بادشاہ لکڑی کے خیمے لگانے والوں اور صوفی صاحبان اور ان کے ساتھ فوجیوں کا نظارہ دیکھتے ۔(بحوالہ فتاوی سلفیہ:ص١٥-١٤)
حافظ ابن کثیر اور سبط ابن الجوزی وغیرہ نے بھی مظفر الدین کو کبوری کے تذکرے میں جشن میلاد کے بعض مصارف کا تذکرہ کیا ہے مثلاً پانچ ہزار جانور بھنے ہوئے ، دس ہزار مرغ،ایک لاکھ پرندے،تیس ہزارپلپٹ حلوہ۔
اورمرآة الزمان فی تاریخ اعیان : (ج٨ ق١ ص٦٨٣ )میں ہے کہ ہر سال مولد میں تین لاکھ دینار صرف کئے جاتے تھے ۔ اس کے بعد بھی اس محفل کے سجانے والے بادشاہوں نے دل کھول کر اسراف کیا ہے۔
اخلاقی نقصانات
عید میلاد کے دینی ومالی نقصانات کے علاوہ اخلاقی نقصانات بھی ہیں ،سلطان ابو سعید علی بن سبکتگین۔جس نے سب سے پہلے چھٹی صدی ہجری میں اسے شروع کیا۔کے عہد میں بھی اس میں ڈرامے ، قوالی اور سماع کی مجلسیں گرم ہو تیں تھیں اور صوفیاء قوالی سنتے اور رقص کر تے تھے، بعد ازاں اس فتنہ نے طول پکڑا اور فحاشی وزناکاری جیسے نتائج بد سامنے آئے تو سلطان کو یہ تقریب بند کرنی پڑی۔(انظر فتاویٰ سلفیہ:ص٢١)
فی الحال عید میلاد کے جو جلوس نکلتے ہیں ان میں سے بعض میں قوالی کے ساتھ فلمی گانوں اور ناچ کا بھی اضافہ کیا گیا ہے، نیز ان میں بہت سی خواتین کی بے حجابانہ شرکت سے بے حیائی اور بد کاری کا دروازہ کھل رہا ہے ۔
بہرحال کتاب وسنت، اجماع وقیاس،عمل صحا بہ ،اور آپﷺ کی ولادت ووفات کے دن ، مہینہ اورتاریخ اورعید میلاد کے فوائد ونقصانات، غرضیکہ جس اعتبار سے بھی غور کیجئے عید میلاد النبی منانے کے لئے کوئی صحیح دلیل اورمعقول وجہ نہیں ملتی۔اسی بنا پر علماء حق نے اسے بدعت قرار دیا ہے ۔ اور یہی ادلۂ شرعیہ کی روشنی میں برحق ہے۔
اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو حق کے سمجھنے اور شاہراہ کتاب وسنت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام بدعات وخرافات اور معاصی ومنکرات سے دور رکھے۔
اللهم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه،وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه.اللهم اهدنا الصراط المستقيم،صراط الذين انعمت عليهم،غيرالمغضوب عليهم ولا الضالين، وصلی الله وسلم علی خير خلقه، وسيد رسله، وخاتم انبيائه، محمد بن عبد الله وعلی آله واصحابه اجمعين ، واتباعه الی يوم الدين.آمين يا رب العالمين.
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم اسحاق صاحب

ختم بخاری شریف ، سیرت النبی کانفرنس وغیرہ کا انعقاد بھی تو ایک بدعت ہے لیکن اس کو کوئی بدعت نہیں کہتا۔ دیوبند میں تو صد سالہ جشن ہوا تھا کیا وہ بدعت نہیں تھا۔ تان آکر بریلویوں پر کیوں ٹوٹتی ہے۔
زبیر علی صاحب کا ریکارڈ بیان موجود ہے کہ بریلوی ، دیوبندیوں سے بہتر ہیں کہ ان میں عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ ہے۔

اہلحدیث 8 رکعات تروایح کو سنت کہتے ہیں 20 کو بدعت مانتے ہیں جب کہ خانہ کعبہ میں بھی 20 پڑھائی جاتی ہیں لیکن اس کے لئے کوئی کیوں نہیں کہتا کہ یہ لوگ گمراہ ہیں کیوں کہ ہر بدعت گمراہی ہے ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
میرے خیال سے اسی فورم پر دونوں مواضیع پر کافی مواد موجود ہے ۔ اگر نسیم بھائی کو لنک فراھم کردیا جائے تو مفید ھوگا۔ خصوصا تراویح سے متعلق تو کافی کچھ ھے ۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
ختم بخاری شریف ، سیرت النبی کانفرنس وغیرہ کا انعقاد بھی تو ایک بدعت ہے لیکن اس کو کوئی بدعت نہیں کہتا۔ دیوبند میں تو صد سالہ جشن ہوا تھا کیا وہ بدعت نہیں تھا۔ تان آکر بریلویوں پر کیوں ٹوٹتی ہے۔
اس موضوع سے متعلق تھریڈ موجود ہیں سوال کرنے سے پہلے سرچ کرلیا کریں!

یہ جشن بخاری کس حدیث سے ثابت ہے ؟


عبد اللہ بن مسعود نے وعظ و نصیحت کے لیئے ایک دن مخصوص کیا تھا؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ختم بخاری شریف ، سیرت النبی کانفرنس وغیرہ کا انعقاد بھی تو ایک بدعت ہے لیکن اس کو کوئی بدعت نہیں کہتا۔ دیوبند میں تو صد سالہ جشن ہوا تھا کیا وہ بدعت نہیں تھا۔ تان آکر بریلویوں پر کیوں ٹوٹتی ہے۔
زبیر علی صاحب کا ریکارڈ بیان موجود ہے کہ بریلوی ، دیوبندیوں سے بہتر ہیں کہ ان میں عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ ہے۔
اول تو یہ سالانہ یا صد سالہ تقریبات و جشن نہ کسی دن کے ساتھ خاص ہے، اور نہ ان کا تعلق عبادات سے ہے!
دوم کہ جب اسے کوئی بدعت نہیں کہتا، تو ان کے جواز سے بدعات کو جواز فراہم کرنے کی دلیل کشید کرنا فضول ہے!
بریلویوں پر ملبہ یوں گرتا ہے، کہ بریلوی اس بدعت میں ملوث نہ ہونے والوں کو گالیاں دیتے ہیں!
زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی یہ بات ایک خاص تناظر میں تھی، کہ بریلوی ''عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم '' زیادہ ہے! شیخ کے اس جملہ کو اچک کر یہ سمجھنا کہ شیخ نے بریلویوں کو ''عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں بدعات کا اجازت نامہ فراہم کر دیا ہے، درست نہیں!
اہلحدیث 8 رکعات تروایح کو سنت کہتے ہیں 20 کو بدعت مانتے ہیں جب کہ خانہ کعبہ میں بھی 20 پڑھائی جاتی ہیں لیکن اس کے لئے کوئی کیوں نہیں کہتا کہ یہ لوگ گمراہ ہیں کیوں کہ ہر بدعت گمراہی ہے ۔
بیس تراویح پڑھنے اور پڑھانے کو کوئی بدعت نہیں کہتا، اس سے زائد کو بھی بدعت نہیں کہتا!
ہاں بیس تراویح کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قرار دینا بدعت ہے!
باقی خانہ کعبہ میں تراویح اس طرح نہیں ہوتی، جیسے کہ بیس رکعات تراویح کو سنت نبوی قرار دینے والے باور کروانا چاہتے ہیں! وہاں تو تراویح کی متعدد جماعتیں ہوتی ہیں!
 
Last edited:

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اول تو یہ سالانہ یا صد سالہ تقریبات و جشن کسی دن کے ساتھ خاص ہے، اور نہ ان کا تعلق کا تعلق عبادت سے ہے!
دوم کہ جب اسے کوئی بدعت نہیں کہتا، تو بدعات سے ان کے جواز سے بدعات کو جواز فراہم کرنے کی دلیل کشید کرنا فضول ہے!
بریلویوں پر ملبہ یوں گرتا ہے، کہ بریلوی اس بدعت میں ملوث نہ ہونے والوں کو گالیاں دیتے ہیں!
زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی یہ بات ایک خاص تناظر میں تھی، کہ بریلوی ''عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم '' زیادہ ہے! شیخ کے اس جملہ کو اچک کر یہ سمجھنا کہ شیخ نے بریلویوں کو ''عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں بدعات کا اجازت نامہ فراہم کر دیا ہے، درست نہیں!

بیس تراویح پڑھنے اور پڑھانے کو کوئی بدعت نہیں کہتا، اس سے زائد کو بھی بدعت نہیں کہتا!
ہاں بیس تراویح کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قرار دینا بدعت ہے!
باقی خانہ کعبہ میں تراویح اس طرح نہیں ہوتی، جیسے کہ بیس رکعات تراویح کو سنت نبوی قرار دینے والے باور کروانا چاہتے ہیں! وہاں تو تراویح کی متعدد جماعتیں ہوتی ہیں!
داؤد بھائی 20 کو سنت ہی کہہ کر پڑھتے ہیں۔ میں نے تو نہیں سنا کہ 20 پڑھنے والے نے یہ کہا ہو کہ ہم اپنی طرف سے زائد رکعات پڑھتے ہیں۔
 
Top