• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید میلاد النبی کا شرعی و تاریخی جائزہ

شمولیت
ستمبر 03، 2012
پیغامات
214
ری ایکشن اسکور
815
پوائنٹ
75




الحمد لله رب العالمين, والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين , أما بعد!
اللہ رب العالمین نے تکمیل دین اسلام کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا : الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً [المائدة : 3]
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت کو تم پر پورا کر دیا ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے ۔
اور امام الأنبیاء جناب محمد مصطفى صلى اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ :
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ [المائدة : 67]
اے رسول ! صلى اللہ علیہ وسلم جو کچھ آپکی طرف آپکے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس (سب کچھ ) کو پہنچا دیں ۔اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے پیغامات (الہیہ ) کو نہیں پہچایا , اللہ آپکو لوگوں سے بچائے گا ۔
اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے یقینا سارے کا سارا دین ہم تک پہنچا دیا ہے اور اسکی گواہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حجۃ الوداع کے موقع پر یوں دی"نعم قد بلغت وأدیت ونصحت" (صحیح مسلم کتاب الحج باب حجۃ النبی صلى اللہ علیہ وسلم ح 1218) ہاں آپ نے دین حق پہنچا دیا ہے , امانت ادا کردی ہے اور نصیحت فرما دی ہے ۔
اور اللہ رب العالمین نے ہمیں صرف اور صرف وحی الہی کی اتباع کا حکم دیتے ہوئے غیر وحی کی پیروی سے منع کیا اور فرمایا : اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (الأعراف : 3) جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف وحی کیا گیا اسی کی ہی پیروی کرو اور اسکے علاوہ دیگر اولیاء کی پیروی نہ کرو تم کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔
اور وحی الہی صرف اور صرف کتاب وسنت میں محصور و مقصور ہے ۔ کتاب وسنت کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ بدعت ہے ۔ جس سے دین نے روکا ہے بلکہ دین میں نئی نئی بدعتیں ایجاد کرنے کو رسول اللہﷺ نے ضلالت و گمراہی سے تعبیر فرمایا ہے ۔ جشن عید میلاد النبی ﷺ بھی ایک قبیح بدعت ہے جسکا وجود خیر القرون میں نہیں ملتا ۔ آئیے اس بدعت کی تاریخ اور حقیقت کوجانیں اور اسکا شرعی حکم سمجھیں ۔ اللہ تعالى ہم سب کو اپنے صحیح دین پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔ آمین
 
شمولیت
ستمبر 03، 2012
پیغامات
214
ری ایکشن اسکور
815
پوائنٹ
75
بدعت
بدعت كي لغوي تعريف :
علامہ مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی اپنی کتاب القاموس المحیط۳/۳ میں لکھتے ہیں :
" بدعة بالكسر الحدث في الدين بعد الإكمال أو ما استحدث بعد النبي ﷺ من الأهواء والأعمال .
بدعت "با" کے کسرہ کے ساتھ : ایسی چیز جو تکمیل دین کے بعد ایجاد کی جائے , یا وہ چیز جو رسول اللہ ﷺ کے بعد خواہشات واعمال کی صورت میں پیدا کی جائے ۔
بدعت کی اصطلاحی تعریف :
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :
" وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ "
[ سنن نسائي كـتاب صلاة العيدين باب كيف الخطبة (1578)]
اور کاموں میں سے بد ترین کام اس (اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی شریعت )میں نو ایجاد شدہ کام ہیں , اور ہر (ایسا )نو ایجاد شدہ کام بدعت ہے ۔
بدعت کی مذمت
اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا ہے :
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللهِ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (القصص:50)
اور اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہوگا جو اللہ تعالى کی (نازل کردہ شرعی)ہدایت کے بجائے اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے ۔ یقینا اللہ تعالى ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :
" إِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ الله وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ "
[ سنن نسائي كـتاب صلاة العيدين باب كيف الخطبة (1578)]
یقینا سب سے سچی بات کتاب اللہ ہے, اور بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے , اور کاموں میں سے بد ترین کام اس (اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی شریعت )میں نو ایجاد شدہ کام ہیں , اور ہر (ایسا )نو ایجاد شدہ کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں (لے جانے والی) ہے ۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
"من أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ
[صحيح البخاري كتاب الصلح باب إذا اصطلحوا على جور فالصلح مردود (2697)]
جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے وہ چیز مردود ہے ۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
" مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ"
[ صحيح مسلم كتاب الأقضية باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور (1718)]
جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے وہ کام مردود ہے ۔
امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالب کو رسول اللہ ﷺ نے ایک صحیفہ لکھوایا جس میں مدینہ کے بارہ میں یہ درج تھا :
"مَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ "
[صحيح البخاري كتاب الحج باب حرم المدينة (1870)]
جس نے اس(مدینہ) میں کوئی بدعت ایجاد کی یا کسی بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ تعالى , فرشتوں , اور تمام لوگوں کی لعنت ہو ۔ اس سے کوئی فرضی یا نفلی عبادت قبول نہیں کی جائے گی ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر نے فرمایا:
"كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة"
(السنة للمروزي، ص ۲۹ ؛ وسنده صحيح)
'ہر بد عت گمراہی ہے چاہے لوگ اسے "حسنہ" ہی کیوں نہ سمجھیں'
 
شمولیت
ستمبر 03، 2012
پیغامات
214
ری ایکشن اسکور
815
پوائنٹ
75
بدعت شیخ عبد القادر جیلانی کی نظر میں !


آخر میں ہم شیخ عبد القادر جیلانی ﷬ کی شہرہ آفاق تصنیف غنية ا لطالبين ( ص۔185-186 مطبوعہ نعمانی آفسٹ پریس دہلی 6، ناشر فرید بک ڈپو جامع مسجد دہلی 6) سے ایک اقتباس نظر قارئین کرتے ہیں :

بدعت: ہوشیار اور دانا مومن کے لیے بہتر ہے کہ آیات اور احادیث کے ظاہری معنوں کے مطابق ان پر عمل کرے اور تابعدار رہے، نئی نئی باتیں نہ نکالے، نہ اپنی طرف سے کمی بیشی یا تاویلیں کرے۔ ایسا نہ ہو بدعت اور گمراہی میں پڑ کر ہلاک ہو جائے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ پیروی کرو بدعت اختیار نہ کرو۔ یہی تمہارے لیے کافی ہے۔ معاذ بن جبل کا ارشاد ہے کہ پوشیدہ باتوں کی ٹوہ لگانے سے بچو اور یہ مت کہو کہ فلاں چیز کیا ہے۔ جب مجاہد کو حضرت معاذ کی اس حدیث کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہم کہا کرتے تھے کہ یہ کیا ہے مگر اب ہم ایسا نہیں کریں گے۔
سنت اور جماعت: چنانچہ ہر مومن کو سنت اور جماعت کی پیروی کرنا واجب ہے۔ سنت اس طریقے کو کہتے ہیں جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے اور جماعت اسے کہتے ہیں جس پر چاروں خلفائے کرام نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اتفاق کیا۔ یہ لوگ سیدھی راہ دکھانے والے تھے، کیونکہ انہیں سیدھی راہ دکھائی گئی تھی۔
اہل بدعت: مناسب یہ ہے کہ اہل بدعت کے ساتھ میل جول نہ رکھا جائے نہ ہی اس کے ساتھ بحث میں نہ پڑے نہ انہیں سلام کرے، ہمارے امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اہل بدعت کو سلام کہنے والا گویا ان سے دوستی رکھتا ہے کیونکہ آنحضرت نے فرمایا آپس میں سلام کو رواج دو تاکہ تمہارے درمیان محبت بڑھے۔ بدعتیوں کے قریب جانا ان کے ساتھ بیٹھنا نہ چاہیے ۔ نہ ان کی خوشی کے موقع پر انہیں مبارک باد دو۔ نہ ان کے جنازہ میں شرکت کرو۔ اگر کہیں ایسے لوگوں کا ذکر ہوتا ہو تو ان کے بارے میں رحمت کے کلمے بھی نہیں کہنے چاہئیں، بلکہ ان سے دور رہ کر ان سے دشمنی کی جائے۔ یہ دشمنی محض اللہ کے لیے ہو۔ اور اس نیت سے کہ ان کا مذہب جھوٹا ہے۔ ان کی دشمنی سے ہمیں ثواب ملے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے آپ نے فرمایا جو شخص اللہ کے لیے اہل بدعت کو اپنا دشمن جانے اس کے دل کو اللہ تعالیٰ ایمان سے بھر دیتا ہے۔ اور جو شخص انہیں خدا کا دشمن جان کر ملامت کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے امن اور ایمان سے رکھے گا اور جو ایسے لوگوں کو ذلیل کرے اسے بہشت کے سو درجے ملیں گے۔
اس کے برعکس جو شخص بدعتی کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملے جو اس کی خوشی کا باعث اور اس شخص نے اس چیز کی حقارت کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔
حضرت ابی مغیرہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے۔ آنحضرت نے فرمایا- اللہ تعالیٰ بدعتیوں کے اعمال قبول نہیں کرتا جب تک وہ بدعت سے باز نہ آجائیں۔ فضیل بن عیاض روایت کرتے ہیں کہ اہل بدعت کے ساتھ دوستی رکھنے والے کے نیک اعمال ضائع کر دیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے دل سے ایمان کا نور نکال لیتا ہے۔ اور جو شخص اہل بدعت سے دشمنی رکھتا ہے اسے اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے۔ خواہ اس کے نیک اعمال تھوڑے ہی ہوں۔
تو کسی بدعتی کو جاتا ہوا دیکھے تو وہ راستہ چھوڑ کر دوسرے راستہ پر چلا جا۔ فضیل بن عیاض کہتے ہیں کہ میں نے سفیان بن عینیہ کو یہ کہتے سنا کہ جو شخص بدعتی کے جنازے کے ساتھ جائے جب تک واپس نہ آجائے اللہ تعالیٰ کا غضب اس پر نازل ہوتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بدعتی پر لعنت کی ہے۔ فرمایا جو شخص دین میں کوئی نئی بات پیدا کرے یا بدعتی کو اپنے ہاں پناہ دے اس پر اللہ تعالٰی اس کے فرشتوں اور سب انسانوں کی لعنت نازل ہوتی ہے۔ اس کے صرف اور عدل کو اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا۔ صرف سے مراد فرض ہے اور عدل سے نفل۔ ابو ایوب سختیانی روایت کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی کو سنت نبوی کے بارے میں اطلاع اور وہ جواب میں یہ کہے کہ اس سنت کو اپنے پاس رکھو اور مجھے صرف یہ بتا*ؤ کہ قرآن میں اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ تو ایسا شخص گمراہ ہے۔
اہل بدعت کی پہچان: اہل بدعت کی بعض نشانیاں ہیں جن سے وہ جانے جا سکتے ہیں۔ وہ حدیث کی تحقیر کرتے ہیں۔ زندیق کی پہچان یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کو جھوٹا کہتا ہے۔ فرقہ قدریہ اہلحدیث کومجبرہ کہتے ہیں۔ جہمیہ اہل حدیث کو مشبہہ کہتے ہیں۔ رافضی اہل حدیث کو ناصبہ کہتے ہیں۔ یہ سب وہ اس لیے کہتے ہیں کہ انہیں اہل سنت کے ساتھ دشمنی اور تعصب ہے۔ اہل سنت کا صرف ایک ہی نام ہے یعنی اہل حدیث۔ اس کے سوا کوئی نام نہیں۔ اور بدعتی جو اپنا لقب اہل سنت رکھتے ہیں وہ ان کے نام کے ساتھ لگاؤ نہیں کھاتا۔ انتہی۔
 
شمولیت
ستمبر 03، 2012
پیغامات
214
ری ایکشن اسکور
815
پوائنٹ
75
امام الانبیاء ﷺ کی تاریخ ولادت
امام الانبیاء جناب محمد مصطفى ﷺ کی تاریخ پیدائش میں شدید اختلاف پایا جاتاہے ۔ کسی نے بارہ ربیع الاول کہا ہے کسی نے آٹھ کسی نے نو اور کسی نے ۱۰ محرم الحرام لیکن زیادہ تر مؤرخین و محققین کے نزدیک آپ ﷺ کی صحیح تاریخ ولادت ۹ ربیع الاول ہی ہے ۔
موجد بریلویت احمد رضا خاں بریلوی اپنی کتاب ملفوظات ٢/٢٢٠ میں لکھتے ہیں:
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ١٢ ربیع الاول دو شنبہ کو ہے اور اسی میں وفات شریف ہے ۔''
قاضی محمد سلیمان منصور پوری اپنی کتاب رحمۃ للعالمین ص۴۰ پر تحریر فرماتے ہیں :
"ہمارے نبی ﷺ موسم بہار میں دو شنبہ کے دن ۹ ربیع الاول , عام الفیل , بمطابق ۲۲ اپریل ۵۷۱ء بمطابق یکم جیٹھ ۶۲۸ بکرمی کو مکہ معظمہ میں بعد از صبح صادق , قبل از طلوع نیر عالم تاب پیدا ہوئے ۔ حضور ﷺ اپنے والدین کے اکلوتے بچے تھے ۔"
سید سلیمان ندوی اپنی کتاب سیرت النبی ۱۷۱/۱ میں رقمطراز ہیں :
"تاریخ ولادت کے متعلق مصر کے مشہور ہیئت دان عالم محمود پاشا فلکی نے ایک رسالہ لکھا ہے جس میں انہوں نے دلائل ریاضی سے ثابت کیا ہے کہ آپ ﷺ کی ولادت ۹ ربیع الاول اور شنبہ بمطابق ۲۰ اپریل ۵۷۱ء ہوئی تھی ۔"
اکبر شاہ خاں نجیب آبادی اپنی کتاب تاریخ اسلام حصہ اول ص ۷۶ میں لکھتے ہیں :
"چنانچہ ۹ ربیع الاول , عام الفیل , بمطابق ۴۰ جلوس کسرى نوشیروان ,بمطابق ۲۲ اپریل ۵۷۱ء , بروز دوشنبہ , بعد از صبح صادق , اور قبل از طلوع آفتاب آنحضرت ﷺ پیدا ہوئے ۔"
شیخ عبد القادر جیلانی ﷬ اپنی کتا ب غنیۃ الطّالبین : ٢/٣٩٢،طبع بیروت میں تحریر فرماتے ہیں :
''ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت دس محرم کو ہوئی ہے۔''
الغرض اس بارہ میں بہت اختلاف ہے کہ آپ ﷺ کی تاریخ ولادت کیا ہے لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ محققین علماء کے آراء کی روشنی میں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ آپ ﷺ کی صحیح تاریخ پیدائش نو (9) ربیع الاول ہی ہے ۔اس تاریخ کی تحقیق نہایت ہی آسان طریقے سے آپ خود بھی سمجھ سکتے ہیں۔لیکن اس سے قبل چند بنیادی باتیں سمجھنا ضروری ہیں :
1 ::موجودہ رائج شدہ عیسوی کیلینڈر کے رائج ہونے سے پہلے سال کو 360 دن کا سمجھا جاتا تھا لیکن سن 47ق م میں شاہ روم جولیس سیزر کے حکم پر رومی اہل علم نے موسموں کا اندازہ لگانے کے بعد سال کو 365 دن 6گھنٹے یعنی تین سال تک سال 365 دن اور چوتھے سال 366 دن یعنی لیپ کا سال شمار کرنا شروع دیا لیکن سن ۸ ق م میں ریاضی دانوں نے یہ تحقیق پیش کی کہ سورج کے گرد زمین کے ایک چکر کی مدت کی مناسبت سے تقریبا 14 منٹ فی سال زیادہ شمار ہوتے ہیں چنانچہ انہوں نے پوری صدی کو لیٹ کا سال شمار نہ کرنے کا حکم صادر کر دیا لیکن سترھویں صدی میں پوپ گریگری سیزدھم نے اس حساب میں بھی غلطی ثابت کرتے ہوئے اور سورج کے گرد زمین کے ایک چکر اور سال کے دورانیے میں مطابقت پیدا رہنے کے لیے ہر چوتھی صدی کو لیپ کا سال قرارد دیا ۔جبکہ باقی صدیوں مثلا 1500 , 1700 کی طرح کے سالوں کو 365 دنوں کا سال شمار کیا جانے لگا۔ اور یہی کیلینڈر آج تک رائج ہے ۔
..
2:: ہجری تقویم کا دارو مدار چاند کی زمین کے گرد گردش پر ہے ۔ ماہرین فلکیات اور ہیت دانوں کے بہت محتاط حساب کے مطابق چاند زمین کے گرد ایک چکر 29 دن 12گھنٹے 44 منٹ2.8سیکنڈ میں مکمل کرتا ہے۔ یعنی ہجری مہینے کا دورانیہ 29 دن 12گھنٹے 44 منٹ 2.8 سیکنڈ یعنی 29.5305879دن بنتا ہے
تو ایک ہجری سال کا دورانیہ 29.5305879 ضرب 12 یعنی کل 354.3670555 دن بنتا ہے
3:: ایک اہم ترین بات ذہن نشیں رہے کہ منازل قمر میں بے ترتیبی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے عام ہجری سالوں اور لیپ سالوں میں کوئی خاص ترتیب قائم نہیں رہتی لیکن اتنا ضرور ہے کہ 30ہجری سالوں میں 11 سال لیپ کے ہوتے ہیں یعنی مکمل 355 دنوں کے ۔
ان بنیادی باتوں کو سمجھنے کے بعد اب ہم چلتے ہیں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش کی تحقیق کی طرف۔
بلحاظ تقویم قمری
نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کا سال ولادت 53ق ھ (قبل از ہجرت)
محرم الحرام 53ق ھ سے ذوالحجہ 1431 تک کل سال بنے 1431+53= 1484 سال
ایک ہجری سال کا دورانیہ = 354.3670555 دن
1484 سالوں کے کل دن 1484* 354.3670555 = 525880.710362 دن
یعنی یکم محرم الحرام سن 53ق ھ تا یکم محرم الحرام 1432ھ کل دن 525880 دن
(اعشاریہ کا جو فرق ہے وہ منازل قمر کی بناء پر ہے )
تو 9 ربیع الاول 53ق ھ تا یکم محرم الحرام 1432ھ کل دن بنے محرم کے تیس اور صفر کے 29 اور ربیع الاول کے 8 دن نفی کرکے یعنی 67 - 525880 = 525813 دن ۔
دنوں کی تعداد بلحاظ شمسی تقویم :
9 ربيع الأول سن 53 ق م بمطابق 22 اپریل 571م سے یکم محرم الحرام 1432ھ بمطابق 7 دسمبر 2010م تک بننے والے کل دن معلوم کرنے کے لیے :
یکم جنوری تا 7 دسمبر کل دن = 340 دن
(۷ دسمبرکو شمار نہیں کیا گیا کیونکہ 7 دسمبر کو یکم محرم ۱۴۳۲ھـ تاریخ تھی اور ہمیں صرف اور صرف ہجری سالوں کے دن شمار کرنا ہیں تاکہ مکمل 1431 سالوں کے دن سامنے آسکیں )
22 اپریل 571م سے 31 دسمبر 571م تک کل دن = 254 دن
یکم جنوری 572م تا 31 دسمبر 600م تک کل دن = 365*29 + 7لیپ کے دن = 10592 دن
یکم جنوری 601م تا 31 دسمبر 700م تک کل دن = 365 * 100 + 24 لیپ کے دن = 36524 دن
یکم جنوری 701م تا 31 دسمبر 800 تک کل دن = 365*100 + 25 لیپ کے دن (800 لیپ سال تھا) = 36525 دن
یکم جنوری 801م تا 31 دسمبر 900م تک کل دن = 365 ضرب 100 جمع 24 لیپ کے دن = 36524 دن
یکم جنوری 901 تا 31 دسمبر 1000 م تک کل دن = 365ضرب 100 جمع 24 لیپ کے دن = 36524 دن
یکم جنوری 1001 تا 31 دسمبر 1100 م کل دن = 365 ضرب 100 جمع 24 لیپ کے دن = 36524 دن
یکم جنوری 1101م تا 31 دسمبر 1200م کل دن = 365 ضرب 100 جمع 25 لیپ کےدن (1200 لیپ سال تھا) =36525 دن
یکم جنوری 1201 تا 31 دسمبر 1300م کل دن = 365ضرب 100 جمع 24 لیپ کے دن = 36524 دن
یکم جنوری 1301 تا 31 دسمبر 1400م کل دن = 365 ضرب 100 جمع 24 لیپ کے دن = 36524 دن
یکم جنوری 1401م تا 31 دسمبر 1500م کل دن = 365ضرب 100 جمع 24 لیپ کے دن = 36524 دن
یکم جنوری 1501م تا 31 دسمبر 1600م کل دن = 365ضرب 100 جمع 25لیپ کے دن (1600 لیپ تھا) 36525 دن
یکم جنوری 1601 تا 31 دسمبر 1700م کل دن = 365 ضرب 100 جمع 24 لیپ کے دن = 36524 دن
یکم جنوری 1701م تا 31 دسمبر 1800م کل دن = 365 ضرب 100 جمع 24 لیپ کے دن = 36524 دن
یکم جنوری 1801 تا 31 دسمبر 1900م کل دن = 365 ضرب 100 جمع 24 لیپ کے دن = 36524 دن
یکم جنوری 1901 تا 31 دسمبر 2000 م کل دن 365 ضرب 100 جمع 25 لیپ کے دن (2000 لیپ تھا) = 36525 دن
یکم جنوری 2001 تا 31 دسمبر 2009م کل دن 365 ضرب 9 جمع 2 لیپ کے دن = 3287 دن
پس ثابت ہوا کہ 22 اپریل 571م تا 7 دسمبر 2010م تک کل دن 525813 دن بنتے ہیں
چونکہ 9 ربیع الاول 53 ق ھ سے یکم محرم الحرام 1432ھ تک بننے والے دن بحساب قمری تقویم بھی 525813 ہی بنتے ہیں تو ثابت ہوا کہ 22 اپریل 571م بمطابق 9 ربیع الأول 53 ق ھ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش ہے
اب اس تاریخ پیدائش کا دن معلوم کرنے کے لیے انہی دنوں کو ہفتوں میں تقسیم کریں
یعنی
525813 تقسیم 7 = 75116 ہفتے اور 1 (ایک ) دن
تو سات دسمبر 2010م کو دن تھا منگل
لہذا منگل سے ایک دن پیچھے جائیں تو کونسا دن بنتا ہے = سموار کا
لیجئے جناب
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش اور یوم پیدائش کا آسان سا طریقہ تحقیق جسکے ذریعہ سے آپ شمسی یا قمری تقویم میں سے جس تقویم کو چاہیں اپنا کر صحیح دن اور تاریخ معلوم کر سکتے ہیں
اور ہماری اس تحقیق کا خلاصہ نکالا کہ
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سموار کے دن 9 ربیع الأول 53 سال قبل از ہجرت بمطابق 22 اپریل 571 میلادی کو اس دنیا میں تشریف لائے
فداہ أبی وامی
 
شمولیت
ستمبر 03، 2012
پیغامات
214
ری ایکشن اسکور
815
پوائنٹ
75
تاریخ عید میلاد

دین اسلام میں اللہ تعالى نے صرف دو عیدیں رکھی ہیں عید الفطر اور عید الأضحى ۔
سیدنا انس بن مالک بیان فرماتے ہیں :
كَانَ لِأَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ يَوْمَانِ فِي كُلِّ سَنَةٍ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ قَالَ كَانَ لَكُمْ يَوْمَانِ تَلْعَبُونَ فِيهِمَا وَقَدْ أَبْدَلَكُمْ اللَّهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَى
[سنن النسائي , كتاب صلاة العيدين بابٌ (1556)]
اہل جاہلیت کے دو دن ایسے تھے جن میں وہ کھیلا کرتے تھے تو جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے فرمایا " تمہارے دو دن تھے جن میں تم کھیلا کرتے تھے اور اب اللہ تعالى نے تمہیں ان کی نسبت بہتر دو دن عطاء فرمائے ہیں یعنی عید الفطر اور عید الاضحى کا دن ۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی ساری حیات طیبہ میں , خلفائے اربعہ سادتنا بو بکر وعمر وعثمان وحیدر نے اپنے ادوار خلافت میں , خیر القرون اور فقہائے اربعہ کے مبارک ادوار میں اس تیسری عید کا کوئی تصور موجود نہ تھا ۔ اور اس بات کا اعتراف بریلوی علماء بھی کرتے ہیں
احمد یار خاں نعیمی بریلوی صاحب نقل فرماتے ہیں :
"لَمْ یَفْعَلْهُ أَحَدٌ مِّنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَةِِ، إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدُ."
"میلاد شریف تینوں زمانوں میں کسی نے نہ کیا ، بعد میں ایجاد ہوا ۔''
(جاء الحق : ١/٢٣٦)
اسی طرح غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب فرماتے ہیں:
''سلف صالحین یعنی صحابہ اور تابعین نے محافلِ میلاد نہیں منعقد کیں بجا ہے۔''
(شرح صحیح مسلم : ٣/١٧٩)
عبد السمیع رامپوری بریلوی لکھتے ہیں :
'یہ سامان فرحت و سرور اور وہ بھی مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وہی بارہواں دن میلاد شریف کا معین کرنا بعد میں ہوایعنی چھٹی صدی کے آخر میں۔''
(انوارِ ساطعہ : ١٥٩)
اکابرین بریلویہ کی زبانی یہ بات معلوم کرنے کے بعد کہ رسول اللہ ﷺ , صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین, تابعین وتبع تابعین رحمہم اللہ کے مبارک ادوار میں یہ بدعت موجود نہ تھی اس بات کی تحقیق کرتے ہیں کہ یہ کب ایجاد ہوئی ۔
أحمد بن علي بن عبد القادر، أبو العباس الحسيني العبيدي، تقي الدين المقريزي (المتوفى: 845 هـ) نے اپنی کتاب المواعظ والاعتبار بذكر الخطط والآثار ( ط : دار الكتب العلمية، بيروت 1418 هـ ) جلد ۲ صفحہ ۴۳۶ پر یہ عنوان قائم کیا ہے :
ذكـر الأيام التي كان الخلفاء الفاطميون يتخذونها أعيادا، ومواسم تتسع بها أحوال الرعية، وتكـثر نعمهم
ان ایام کا تذکرہ جن میں فاطمی خلفاء عیدیں اور تہوار مناتے تھے جن کے ذریعہ رعایا کے حالات کشادہ ہو جاتے اور انکی نعمتیں بڑھ جاتیں ۔
اس عنوان کے تحت لکھتے ہیں :
"وكان للخلفاء الفاطميين في طول السنة: أعياد ومواسم، وهي: موسم رأس السنة، وموسم أوّل العام، ويوم عاشوراء، ومولد النبيّ صلّى الله عليه وسلّم، ومولد عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه، ومولد الحسن، ومولد الحسين عليهما السلام، ومولد فاطمة الزهراء عليها السلام، ومولد الخليفة الحاضر، وليلة أوّل رجب، وليلة نصفه، وليلة أوّل شعبان، وليلة نصفه، ......."
"فاطمی خلفاء سال بھر میں عیدیں اور تہوار مناتے اوروہ تہوار یہ ہیں : سال کے اختتام میں , سال کے آغاز میں , عاشوراء کے دن , میلاد النبی ﷺ , میلاد علی , میلاد حسن , میلاد حسین , میلاد فاطمہ , موجودہ خلیفہ کا میلاد , رجب کی پہلی رات کا تہوار , پندرہ رجب کا تہوار , شعبان کے شروع میں , شعبان کی پندرھویں رات ........ الخ"
پھر اسی کتاب کی جلد ۲ صفحہ ۳۳۳ پر لکھتے ہیں :
"ذكر جلوس الخليفة في الموالد الستة في تواريخ مختلفة، وما يطلق فيها، وهي مولد النبيّ صلّى الله عليه وسلّم، ومولد أمير المؤمنين عليّ بن أبي طالب، ومولد فاطمة عليها السلام، ومولد الحسن، ومولد الحسين عليهما السلام، ومولد الخليفة الحاضر"
"مختلف تاریخوں میں چھ میلادوں کے موقع پر خلیفہ کے جلوس اور دیگر کاموں کا ذکر , اور وہ میلا النبی ﷺ میلاد امیر امیر المؤمنین علی , میلاد فاطمہ , میلاد حسن , میلاد حسین , اور موجودہ خلیفہ کا میلاد ہے ۔"
پھر اس ذکر کے دوران میلاد النبی ﷺ میں ہونے والے کاموں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"فإذا كان اليوم الثاني عشر من ربيع الأوّل، تقدّم بأن يعمل في دار الفطرة عشرون قنطارا من السكر اليابس حلواء يابسة من طرائفها، وتعبى في ثلثمائة صينية من النحاس، وهو مولد النبيّ صلّى الله عليه وسلّم"
"تو جب ربیع الاول کی بارہ تاریخ ہوتی تو دار الفطرہ میں بیس قنطارشکر سےمختلف قسم کا خشک حلوہ تیار کیا جاتا اور اسے پیتل کے تین سو برتنوں میں ڈالا جاتا اور یہ میلاد النبی ﷺ کا تہوار ہوتا ۔"
پھر اسکے بعد اس میلاد میں ہونے والے مختلف امور کا ذکر کرتے ہوئے خلیفہ کا اس جلوس و جلسہ کی قیادت کرنا اور بڑے بڑے خطباء کا میلاد کے موضوع پر درس دینا نقل کیاہے ۔ (مصدر سابق , ص ۲۳۳, ۲۳۴)
علامہ مقریزی کی اس توضیح سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس بدعت میلاد کے اولین موجد فاطمی خلیفے تھے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ فاطمی خلیفے کٹر قسم کے رافضی شیعہ تھے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عید میلاد منانا رافضی شیعوں کی ایجاد ہے ۔ اور وہ صرف میلاد النبی ﷺ ہی نہ مناتے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ سیدنا علی بن ابی طالب , حسن و حسین اور سیدہ فاطمہ اور موجودہ خلیفہ کا میلاد بھی منایا کرتے تھے ۔
اور انہی الفاظ سے اس بدعت میلاد کا تذکرہ محمد بخيت المطيعي الحنفي قاضي اسكندرية نے اپنی کتاب أحسن الكلام فيما يتعلق بالسنة والبدعة من الأحكام (ط:مطبع كردستان العلمية قاهرة 1329هـ ) کے صفحہ نمبر 61 پر بھی کیا ہے ۔
اور تقریبا یہی بات أحمد بن علي بن أحمد الفزاري القلقشندي ثم القاهري (المتوفى: 821هـ) نے اپنی کتاب صبح الأعشى في صناعة الإنشاء جلد ۳ ص576 میں کچھ یوں نقل کی ہے :
الجلوس الثالث جلوسه في مولد النبي صلى الله عليه وسلم في الثاني عشر من شهر ربيع الأوّل
وكان عادتهم فيه أن يعمل في دار الفطرة عشرون قنطارا من السّكّر الفائق حلوى من طرائف الأصناف، وتعبّى في ثلاثمائة صينية نحاس. فإذا كان ليلة ذلك المولد، تفرّق في أرباب الرسوم: كقاضي القضاة، وداعي الدعاة، وقرّاء الحضرة، والخطباء، والمتصدّرين بالجوامع القاهرة ومصر، وقومة المشاهد وغيرهم ممن له اسم ثابت بالديوان .

تیسرا جلوس ۱۲ ربیع الاول کو میلاد النبی ﷺ کا نکالا جاتا تھا ۔
اس جلوس میں انکا طریقہ یہ تھا کہ دار الفطرہ میں ۲۰ قنطار عمدہ شکر سے مختلف قسم کا حلوہ تیار کیا جاتا اور پیتل کے تین سو برتنوں میں ڈالا جاتا اور جب میلاد کی رات ہوتی تو اس حلوہ کو مختلف ارباب رسوم مثلا : قاضی القضاۃ , داعی الدعاۃ , قراء , واعظین , قاہر ہ اور مصرکی جامع مساجد کے صدور , مزاروں کے مجاور ونگران اور دیگر ان لوگوں میں تقسیم کر دیا جاتا جن کا نام رجسٹرڈ ہوتا ۔
اور اس بدعت کی اولین ایجاد اور پھر اسکی تجدید کی تاریخ کے بارہ میں محمد بخيت المطيعي الحنفي قاضي اسكندرية اپنی کتاب أحسن الكلام فيما يتعلق بالسنة والبدعة من الأحكام (ط:مطبع كردستان العلمية قاهرة 1329هـ ) کے صفحہ نمبر 59تا 61 پر تحریر فرماتے ہیں:
إن أول من أحدثها بالقاهرة الخلفاء الفاطميون وأولهم المعز لدين الله توجه من المغرب إلى مصر في شوال سنة 361هـ إحدى وستين وثلاثمائة هجرية فوصل إلى ثغر سكندرية في شعبان سنة اثنين وستين وثلاثمائة ودخل القاهرة ................................. وفي خلافته أعاد الموالد الستة المذكورة بعد أن أبطلها الأفضل وكاد الناس ينسونها .
سب سے پہلے اسے قاہر ہ میں فاطمی خلفاء نے ایجاد کیا تھا اور ان میں سب سے پہلا "المعزلدین اللہ" تھا۔ جوکہ شوال 361ھ میں مغرب سے مصر آیا اور362ھ تک سکندریہ کی سرحدوں تک پہنچ گیا۔ اور اسی سال سات رمضان المبارک کو قاہرہ میں پہنچ گیا ۔ تو انہوں نے چھ میلادیں ایجاد کیں : میلاد النبی ﷺ میلاد امیر المؤمنین علی بن ابی طالب میلاد سیدہ فاطمہ الزہراء , میلاد حسن میلاد حسین اور موجودہ خلیفہ کا میلاد ۔ اور یہ میلادیں اسی انداز سے جاری رہیں حتى کہ " الأفضل ابن امیر الجیوش" نے انہیں ختم کیا ۔اور اسکا والد "امیر الجیوش" "مستنصر باللہ" کی دعوت پر اسکے دور خلافت میں شام سے مصر آیا تھا اور وہ بدھ کی رات 2جمادى اولى 465ھ کو مصر میں داخل ہوا تھا ۔ اور جب وہ اہل شام سے جنگ کے لیے گیا تو اس نے اپنے بیٹے " افضل" کو اپنا نائب بنا دیا ۔اور جب ربیع الثانی یا جمادى اولى سنہ 487ھ میں " امیر الجیوش" فوت ہوا تو لشکر نے اسکے بیٹے "افضل " کو اسکے قائم مقام کر دیا ۔ پھر "مستنصر باللہ " 17 ذو الحجہ 495 میں فوت ہوگیا اور اسکی مدت خلافت سات سال اور دو ماہ تھی , تو "افضل" نے " مستنصر باللہ " کے بعد اسکے بیٹے "مستعلی باللہ" کو کھڑا کر دیا ۔ پھر "مستعلی" 17 صفر 495ھ کو فوت ہوگیا اور اسکی مدت خلافت سات سال اور دو ماہ تھی ۔اسکے بعد " افضل " نے اسکی وفات کے دن ہی اسکے بیٹے "الآمر باحکام اللہ " کو خلیفہ بنادیا ۔پھر "افضل " عید الفطر کی رات 515ھ کو قتل کر دیا گیا ۔ پھر "آمر باحکام اللہ " 524ھ میں قتل ہوگیا اور اسکی خلافت میں مذکورہ بالا چھ میلادیں دوبارہ شروع ہوگئیں جبکہ " افضل" نے انہیں ختم کر دیا تھا اور لوگ انہیں تقریبا بھول چکے تھے ۔
محمد بخيت المطيعي الحنفي قاضي اسكندرية کی اس صراحت سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس بدعت کا اولین موجد فاطمی خلفاء میں سے " المعز لدین اللہ " تھا جس نے چوتھی صدی ہجری سنہ 362 ھ میں اسے ایجاد کیا پھرپانچویں صدی ہجری سنہ 465ھ کو "افضل ابن امیر الجیوش" نے اسے ختم کر دیا اسکے بعد چھٹی صدی ہجری سنہ 516ھ میں اسے "الآمر باحکام اللہ " نے دوبارہ شروع کیا ۔
اسی طرح عراق کے شہر اربل میں اس بدعت کی تاریخ ایجاد کے بارہ میں محمد بخيت المطيعي الحنفي قاضي اسكندرية اپنی کتاب أحسن الكلام فيما يتعلق بالسنة والبدعة من الأحكام (ط:مطبع كردستان العلمية قاهرة 1329هـ ) کے صفحہ نمبر 66 پر تحریر فرماتے ہیں:
"وأقول إن الملك المظفر صاحب أربل الذي قال السيوطي أنه أول من أحدث فعل ذلك هو أبو سعيد كوكبوري ابن أبي الحسن على بن بكـتكين بن محمد الملقب بالملك الأعظم مظفر الدين صاحب أربل تولي بعد وفاة أبيه الملقب بزين الدين في عشرة ذي القعدة سنة خمسمائة وثلاثة وستين وكان عمره أربع عشرة سنة وهو أول من أحدث عمل الموالد بمدينة أربل ."
" اور میں (محمد بخیت المطیعی الحنفی) کہتا ہوں کہ ملک مظفر صاحب اربل جس کے بارہ میں امام سیوطی نے کہا ہے کہ اس نے سب سے پہلے اسے ایجاد کیا تھا اسکا نام ابو سعید کوکبوری بن ابو الحسن علی بن بکتکین بن محمد ہے , اور لقب ملک اعظم مظفر الدین صاحب اربل ہے ۔ یہ اپنے والد " زین الدین" کی وفات کے بعد 10 ذو القعدہ 563ھ کو بادشاہ بنا تھا جبکہ اسکی عمر چودہ سال تھی ۔اور یہی وہ شخص ہے جس نے اربل شہر میں میلادوں کا آغاز کیا ۔"
یعنی چھٹی صدی ہجری کے اواخر سنہ 563ھ میں شہر اربل میں بھی یہ موالید شروع ہوگئے تھے جن کے موجد فاطمی رافضی بادشاہ تھے ۔
اور صاحب اربل مظفر الدین نے یہ کام ایک صوفی ملا" عمر بن محمد" کی پیروی میں شروع کیا تھا ۔
أبو القاسم شهاب الدين عبد الرحمن بن إسماعيل بن إبراهيم المقدسي الدمشقي المعروف بأبي شامة (المتوفى: 665هـ) اپنی کتاب الباعث على إنكار البدع والحوادث ( ت: عثمان أحمد عنبر , ط: دار الهدى – القاهرة 1398 – 1978) ص 24 پر رقمطراز ہیں :
وَكَانَ أول من فعل ذَلِك بالموصل الشَّيْخ عمر بن مُحـَمَّد الملا أحد الصَّالِحين الْمَشْهُورين وَبِه اقْتدى فِي ذَلِك صَاحب أربل وَغَيره.
موصل شہر میں سب سے پہلے مشہور صوفی عمر بن محمد الملا نے اسے ایجاد کیا اور اربل کے بادشاہ نے بھی اس مسئلہ میں اسی کی پیروی کی ۔
یعنی موصل میں اس کام کی ابتداء اربل سے پہلے ہوئی تھی ۔ شاہ اربل نے موصلی صوفی کی تقلید میں یہ کام شروع کر لیا تھا ۔
ستم بالائے ستم یہ کہ شاہ اربل کو اس بدعت کا جواز فراہم کرنے کے لیے ایک "بدعتى ملا" بھی دستیاب آگیا جس نے اس بدعت کے جواز میں کتاب لکھ ماری ۔
میں محمد بخيت المطيعي الحنفي قاضي اسكندرية اپنی کتاب أحسن الكلام فيما يتعلق بالسنة والبدعة من الأحكام (ط:مطبع كردستان العلمية قاهرة 1329هـ ) کے صفحہ نمبر ۷۰ پر تحریر فرماتے ہیں:
"ولما قدم عمر ابن الحسن المعروف بأبي الخطاب ابن دحية إلى مدينة أربل في سنة أربع وستمائة وهو متوجه إلى خراسان ورأى صاحبها الملك المعظم مظفر الدين ابن زين الدين مولعا بعمل مولد النبي ﷺ عمل له كـتابا سماه "التنوير في مولد السراج المنير" وقرأه عليه بنفسه , ولما عمل هذا الكـتــاب دفع له الملك المعظم ألف دينار ."
" اور جب عمر بن الحسن المعروف ابو خطاب بن دحیہ ۶۰۴ھ کو خراسان جاتے ہوئے اربل پہنچا تو اس نے دیکھا کہ شاہ اربل ملک مظفر الدین بن زین الدین میلاد النبی ﷺ کا بہت دلدادہ ہے تو اس نے اس (بادشاہ کو خوش کرنے) کے لیے ایک کتاب لکھی جسکا نام اسے نے رکھا "التنویر فی مولد السراج المنیر " اور خود وہ کتاب بادشاہ کو پڑھ کر سنائی ۔ اور جب اس نے یہ کتاب لکھی تو ملک معظم نے اسے ایک ہزار دینار (بطور انعام) دیے ۔
یہ شاہ اربل جو کہ انتہائی ظالم قسم کا انسان تھا , رعایا پر بہت ظلم کرتا , لوگوں کے مال بلا وجہ ضبط کرلیتا تھا , اسی بدعت کے جواز پرکتاب لکھنے کی وجہ سے بطور انعام ۱۰۰۰ دینار یعنی ۳۷۵ تولہ سونا ایک کذاب شخص ابو الخطاب عمر بن الحسن کو دے دیا ۔
ایسے ہی بدعتی بادشاہوں کی وجہ سے یہ بدعات عروج پکڑگئیں اور آہستہ آہستہ دیگر ممالک میں بھی پہنچتی رہیں ۔ کسی نے سچ کہا تھا
وهل أفسد الدين إلا الملوك *** أو أحبار سوء أو رهبانها
دین کو بگاڑنے والے صرف تین قسم کے لوگ ہیں :بادشاہ , علمائے سوء , اور صوفی ۔​
 
شمولیت
ستمبر 03، 2012
پیغامات
214
ری ایکشن اسکور
815
پوائنٹ
75
برصغیر میں میلاد کا آغاز

بر صغیر پاک وہند میں اس بدعت کا آغاز چودہویں صدی ہجری سنہ 1352ھ بمطابق بیسویں صدی عیسوی سنہ 1933ء میں ہوا ۔ اسکے بارہ میں مشہور ناول نگار " نسیم حجازی" کے اخبار "روزنامہ کوہستان"(رجسٹرڈ ایل نمبر 6005) 22 جولائی 1964ء کے شمارہ میں جناب احسان صاحب بی ۔اے لکھتے ہیں :
" لاہور میں عید میلاد النبی ﷺ کا جلوس سب سے پہلے 5 جولائی سنہ 1933ء بمطابق 12ربیع الاول 1352ء کو نکلا۔ اس کے لیے انگریزی حکومت سے باقاعدہ لائسنس حاصل کیا گیا تھا ۔ اس کا اہتمام انجمن فرزندان توحید موچی دروازہ نے کیا ۔ اس انجمن کا مقصد ہی اس جلوس کا اہتمام کرناتھا۔
انجمن کی ابتداء ایک خوبصورت جذبے سے ہوئی ۔ موچی دروازہ لاہو کے ایک پرجوش نوجوان معراج الدین اکثر دیکھا کرتے تھے کہ ہندو اور سکھ اپنے دھرم کے بڑے آدمیوں کی یاد بڑے شاندار طریقے سے مناتے ہیں اور ان دنوں میں ایسے لمبے لمبے جلوس نکلتے ہیں کہ کئی بازار ان کی وجہ سے بند ہو جاتے ہیں ۔ حافظ معراج الدین کے دل میں یہ خیال آیا کہ دنیا کے لیے رحمت بن کر آنے والے نبی ﷺ کی یاد میں اس سے بھی زیادہ شاندار جلوس نکلنا چاہیے ۔ انہوں نے اپنے محلے کے بزرگوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ ان میں مستری حسین بخش رنگ ساز, شیخ قمر الدین وکیل مرحوم, مستری خدا بخش مرحوم اور دیگر کئی بزرگ شامل تھے ۔ آخر ایک انجمن قائم ہوگئی جس کا مقصد عید میلاد النبی ﷺکے موقعہ پر جلوس مرتب کرنا تھا ۔اس میں مندرجہ ذیل عہدہ دار تھے :
۱۔ صدر مستری حسین بخش ۲۔ نائب صدر مہر معراج دین ۳۔ سیکرٹری حافظ معراج الدین ۴۔ پراپیگنڈہ سیکرٹری میاں خیر دین بٹ (باباخیرا) ۵۔ خزانچی حکیم غلام ربانی ۔
اشتہارات کے ذریعہ جلوس نکالنے کے ارادہ کو مشتہر کیا گا ۔ چست اور چاق وچوبند نواجوانوں کی ایک رضاکار جماعت بنائی گئی اور جگہ جگہ نعتیں پڑھنے کا انتظام کیا گیا ۔ ابو الاثر حفیظ جالندھری کے " سلام" کی مشق خاص طور بہم پہنچائی گئی ۔ اس جماعت میں حسب ذیل نوجوان شامل تھے :
۱۔ سالار فیروز الدین (حال فزیکل انسٹرکٹر گورنمنٹ کالج ) ۲۔ نائب سالار محمد عادل خان (حال پشاور یونیورسٹی) انکے علاوہ حکیم محمد عاقل خان , حافظ محمد اشرف , مستری ولایت حسین , محمد زبیر اور بابا شاکی نے بڑے جوش سے حصہ لیا ۔ موچی دروازہ کے دوسرے نوجوان بھی انکے شانہ بشانہ تھے ۔
جلوس کے لیے عرضی دی گئی تو ہندوؤں کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی گئی ۔ لیکن ملک محمد امین مرحوم کی کوششوں سے اجازت مل گئی اور انجمن لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔
یہ جلوس ۱۹۴۰ء تک باقاعدہ نکلتا رہا ۔ اس سال حکومت اور خاکساروں میں تصادم ہو گیا اور جلوس بطور احتجاج بند کر دیا گیا ۔ ہندو اس جلوس کی روح رواں حافظ معراج الدین کے خلاف اکثر سازشیں کرتے رہتے تھے لیکن ان کا کوئی وار کارگر نہیں ہوتا تھا ۔ اتفاق سے ایک دفعہ رنگ محل میں دو پارٹیوں کا تصام ہوگیا جس میں ایک نوجوان جس کا نام فیروز تھاقتل ہوگیا ۔ ہندوؤں کی سازش نے اس قتل میں حافظ معراج الدین کو بھی ملوث کر لیا لیکن ہندو کی یہ چال بھی کارگر نہ ہوئی ۔ حافظ معراج الدین کی عدم موجودگی میں مہر معراج الدین ملک لال دین قیصر اور فیرز دین احمد نے جلوس کا اہتمام کیا اور جلوس اسی شان سے نکلا ۔
قیام پاکستان کے بعد حافظ صاحب سردار عبد الرب نشتر گورنر پنجاب ملے اور انہیں اس بات پر رضا مند کر لیا کہ جلوس حکومت کے اہتمام میں نکلے ۔ چانچہ اس سال سرکاری اہتمام میں انتہائی تزک واحتشام کے ساتھ جلوس نکلا ۔ شاہی قلعہ لاہو میں فوج کی پریڈ ہوئی اور سلامی دی گئی ۔
اس زمانے میں جلوس کی ترتیب اس طرح کی جاتی کہ اس مہینے کا چاند دیکھنے کے بعد شہر کے ہر دروزاے پر مندرجہ ذیل لوگ لوگوں سے سلامی دیتے اور چاند کا استقبال کرتے :
موچی دروازہ کے باہر ڈپٹی سعادت علی خان مرحوم , لوہاری کے باہر انجمن خادم المسلمین , موری دروزے کے باہر میاں عبد الرشید دفتری , بھاٹی کے باہر استاد گام چودھری برکت علی, اور فلمسٹار ایم اسماعیل ٹکسالی کے باہر, الطاف حسین اور عاشق حسین مستی کے باہر, حکیم نیر واسطی اور یوسف پہلوان کشمیری کے باہر, چجا ابل اور انکے احباب شیرانوالہ کے باہر, بابو ممتازیکی کے باہر , امداد علی عرف دادو مرحوم اور سرکی بند حضرات اکبری منڈی کے باہر , عبد الستار دلی دروازہ کے باہر ۔ " انتہى ۔
اس تحریر سے یہ باتیں واضح ہوتیں ہیں کہ :
۱۔ برصغیر میں اس جلوس کا آغاز ۱۹۳۳ء میں ہوا ۔
۲۔ اس جلوس کا مفکر وموجد حافظ معراج الدین تھا ۔
۳۔ جلوس کے لیے حکومت برطانیہ کی طرف سے باقاعدہ لائسنس جاری کیا گیا ۔
۴۔ جلوس کے لیے اشتہار بازی کی جاتی تھی ۔
۵۔ قیام پاکستان کے بعد اسے حکومتی سر پرستی حاصل ہوگئی ۔
اسی طرح مصطفى کمال پاشانے روزنامہ مشرق ۲۶ جنوری ۱۹۸۴ء کے شمارہ میں اسی حوالہ سے ایک مضمون تحریر کیا وہ لکھتے ہیں :
آزادی سے پیشتر ہندوستان میں حکومت برطانیہ ۲۵ دسمبر کو حضرت عیسى کے یوم پیدائش کو بڑے اہتمام کے ساتھ منانے کا انتظام کرتی اور اس روز کی فوقیت کو دوبالا کرنے کے لیے اس یوم کو " بڑے دن" کے نام سے منسوب کیا گیا ۔ بڑے دن کا مطلب یہ نہیں تھا کہ دن ۱۲ گھنٹے کی بجائے ۱۶ گھنٹہ کا ہوتا ہے بلکہ عوام نوجوانوں اور بچوں کے ذہنوں میں اس کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے دفتروں کارخانوں مدرسوں وغیرہ میں پندرہ روز کی رخصت دی جاتی ۔ تاکہ دنیا میں ثابت کیا جائے کہ حضرت مسیح ہی نجات دہندہ تھے ۔
حضور پاک ﷺ ۱۲ ربیع الاول کو اس دنیا میں تشریف لائے اور اسی روز وفات پائی ۔ کچھ لوگ اس مقدس یوم کو بارہ وفات کے نام سے پکارتے ہیں ۔ آزادی سے پیشتر اس یوم کے تقدس کے پیش نظر مسلمانان لاہور نے اظہار مسرت وعقیدت کے طور پر جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا ۔ اس ضمن میں مسلمانان لاہور کا ایک وفد جس میں خلیفہ شجاع الدین , محمد الدین , بیرسٹر چودھری فتح محمد , محمد فیاض اور میاں فیروز الدین احمد مرحوم شامل تھے , گورنر سے ملا تو اسکو مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا ۔ گورنر نے مسلمانوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے جلوس نکالنے کی منظوری دے دی ۔ اسلامی جذبوں سے سرشار بزرگوں نے انجمن معین اسلام کے زیر تحت جس کے سیکرٹری جناب مفتی حمایت اللہ مرحوم ( والد بزرگوار شباب مفتی ) نے جلوس نکالنے کا پروگرام مرتب کیا ۔ ان دنوں کانگرس اپنے اجتماع موری دروازہ میں منعقد کیا کرتی تھی اور اسکے مقابلہ میں مسلمان اپنے اجتماع موچی دروازہ میں منعقد کرتے تھے ۔ لہذا موچی دروازہ کو سیاسی مرکز ہونے کے علاوہ سب سے پہلے عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس نکالنے کا شرف بھی حاصل ہے ۔ علمی طور پر جلوس کی قیاد ت انجمن فرزندان توحید موچی گیٹ کے سپرد ہوئی , جس میں حافظ معراج دین , حکیم معین الدین , بابو سراج دین , شاہ الدین اسلم , مستری حسین بخش , چودھرفتح محمد , ملک محمد الدین بیرسٹر ,چودھری کلیم الدین , مہر سراج دین اور میاں فیروز الدین احمد ومسلم لیگی لیڈر جنہوں نے مسٹر جناح کو قائد اعظم کا لقب دیا اور دیگر نواجوان شامل تھے ۔" دار النذیر" موچی دروازہ میں جلوس کے پروگرام اور انتظام کے متعلق اہم فیصلے کیے جاتے ۔ انجمن کی زیر قیادت جلوس ہر سال مسلسل کامیابی وکامرانی سے نکالتا رہا ۔ جلوس کا لائسنس اور اجازت نامہ میاں فیروز الدین احمد کے نام تھا ۔ ۱۹۳۴ء میں مسلم لیگ کے علاوہ تحریک خلافت بھی عوام میں مقبول تھی ۔ لہذا ۱۹۳۴ ء اور ۱۹۳۵ء میں لائسنس میاں فیروز الدین احمد سیکرٹری خلافت کمیٹی کے نام پر کر دیا گیا ۔ بعد کے دیگر لائسنس کے علاوہ ۱۹۴۲ء کے اجازت نامہ میں میاں فیروز الدین کو سیکرٹری مسلم لیگ کے طور پر منظوری ملی ۔ جلوس کا آغاز ۱۹۳۴ء , ۱۹۳۵ء میں موچی دروازہ سے دیگر علاقہ جات سے ہوتا ہوا رات ایک بجے شاہی مسجد پہنچا ۔ بعد میں دوسرا جلوس اندرون شہر اور بھاٹی دروازہ سے گزرنے کے بعد حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر اختتام پذیر ہوا ۔
جلوس میں گھوڑے پر سوال نواجوان ہاتھوں میں نیزے لیے ہوئے گشت کرتے ۔ سیاسی , دینی اور سماجی کارکنوں کے علاوہ جلوس کے آگے پہلوانوں کی ٹولی بھی شمولیت کرتی جسکی رہنمائی رستم زماں گاماں پہلوان اور امام بخش پہلوان وغیرہ کرتے ۔ فنکار پارٹی اور دیگر نوجوانوں کی رہنمائی ماسٹر فیروز مرحوم انسٹرکٹر فزیکل ٹریننگ گورنمنٹ کالج لاہور کے سپرد تھی ۔ اراکین خلافت کمیٹی شعبہ والنٹر کور , مجلس احرا , خاکسار, مجلس اتحات ملت , نیلی پوش اور مسلم لیگی حضرات جوق درجوق شامل ہوکر جلوس کی رونق کو دوبالا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ۔
جلوس کے اختتام پر خلیفہ شجاع الدین (سپیکر اسمبلی) نواب شاہ نواز ممدوٹ , محمد فیاض اور میاں امیر الدین و دیگر معززین لاہور اچھی کار کردگی پر انعامات تقسیم کرتے ۔
اس سے پیشتر یہ یوم بارہ وفات کے نام سے منسوب تھا ۔ مگر بعد میں انجمن نعمانیہ ٹکسالی گیٹ کے زیر اہتمام پیر جماعت علی شاہ , مولانا محمد بخش مسلم , نور بخش توکل اور دیگر علمائے کرام نے قرار داد کے ذریعہ عید میلاد النبی ﷺ نام دیا ۔" انتہى ۔
اس مضمون سے بھی سابقہ باتوں کے ساتھ ساتھ کچھ مزید وضاحتیں سمجھ آتی ہیں کہ :
۱۔ یہ جلوس ہندوؤں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کی بھی نقالی کرتا تھا ۔
۲۔ ربیع الاول کی ۱۲ تاریخ کو ۱۹۳۳ء سے قبل بارہ وفات کے نام سے جانا جاتا تھا , پھر اسکے بعد ایک قرارداد کے ذریعہ اس دن کو عید میلاد النبی ﷺ کا نام دیا گیا ۔

((ضروری نوٹ : ان دونوں مضامین کی نقل کتاب کے آخر میں موجود ہے ))
 
شمولیت
ستمبر 03، 2012
پیغامات
214
ری ایکشن اسکور
815
پوائنٹ
75
میلاد کےموقع پر شریعت کی خلاف ورزیاں


اسراف وتبذیر:
اللہ رب العالمین نے قرآن مجید فرقان حمید میں فضول خرچی کی مذمت کے لیے دو لفظ استعمال فرمائے ہیں " اسراف اور تبذیر " ۔
اسراف : ایسی فضول خرچی ہوتی ہے جو ضرورت کے کاموں میں کی جائے ۔ مثلا گھر کے دروازہ کے آگے پردہ لٹکانے کے لیے انتہائی قیمتی مثلا خالص ریشمی کپڑے کا استعمال اسراف کہلاتا ہے ۔ کیونکہ ضرورت صرف " پردہ" ہے ا ور وہ ایک عام سادہ سے کپڑے سے بھی پوری ہوتی ہے ۔ اسی طرح ضرورت سے زیادہ کھانا پینا اور کپڑوں کے درجنوں سوٹ سلوا لینا بھی اسراف کے زمرہ میں آتا ہے ۔ اسراف کی مذمت کرتے ہوئے اللہ تعالى نے فرمایا ہے:
" يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ"
"اے بنی آدم ہر مسجد کے پاس اپنی زینت اختیار کرو اور کھاؤ پیو مگر اسراف نہ کرو یقینا اللہ تعالى اسراف کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔" (الأعراف:31)
تبذیر : ایسی فضول خرچی جس کی ضرورت ہی نہ ہو اور کوئی فائدہ نہ دے تبذیر کہلاتی ہے ۔مثلا : دیواروں پر پردے لٹکانا , بازاروں اور گلیوں کو سجانا , اور دن کے وقت صحن میں بلب وغیرہ روشن کیے رکھنا ۔ کیونکہ ان میں سے کسی چیز کی بھی ضرورت نہیں اور نہ ہی کوئی فائدہ ہے ۔ اور فضول خرچی کی یہ قسم یعنی تبذیر پہلی قسم یعنی اسراف سے زیادہ قبیح ہے اور اسی بناء پر اللہ تعالى نے اس سے شدید نفرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :
" إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا"
(الإسراء : 27)
یقینا تبذیر کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا نافرمان ہے ۔
عید میلاد منانے والے اس خود ساختہ عید کے موقع پر اسراف وتبذیر کا خوب بازار گرم رکھتے ہیں ۔ بازاروں کو سجایا جاتا ہے, ہر طرف جھنڈے اور جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں ساری ساری رات بلا وجہ بازاروں , دکانوں , مکانوں , گلی کوچوں اور چوکوں چوراہوں پر لائٹیں روشن رکھی جاتی ہیں اور صرف رات ہی نہیں بلکہ دن میں بھی یہ کام جاری رہتا ہے ۔بیت اللہ اور روضہء رسول ﷺ کی شبیہ بنائی جاتی ہے اور نہ جانے کیا کیا کچھ فضول خرچیاں اس موقع پر کی جاتیں ہیں جن میں سے اکثر تبذیر کے زمرہ میں آتی ہیں ۔ اور یہ سب کچھ بنا کر رسول اللہ ﷺ کا استقبال کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ
بڑے ادب کا مقام ہے یہ حضور تشریف لارہے ہیں​
جبکہ نبی کریم ﷺ نے اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ کے سجے ہوئے گھر جانے سے انکار فرما دیا تھا :
عَنْ ابْنِ عُمَرَ ŀ قَالَ أَتَى النَّبِيُّ ﷺ بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَدْخُلْ عَلَيْهَا وَجَاءَ عَلِيٌّ فَذَكَــــرَتْ لَهُ ذَلِكَ فَذَكَـرَهُ لِلنَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنِّي رَأَيْتُ عَلَى بَابِهَا سِتْرًا مَوْشِيًّا فَقَالَ مَا لِي وَلِلدُّنْيَا فَأَتَاهَا عَلِيٌّ فَذَكَـرَ ذَلِكَ لَهَا فَقَالَتْ لِيَأْمُرْنِي فِيهِ بِمَا شَاءَ قَالَ تُرْسِلُ بِهِ إِلَى فُلَانٍ أَهْلِ بَيْتٍ بِهِمْ حَاجَةٌ
[ صحيح البخاري ,كـتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها , باب هدية ما يكره لبسها (2613)]

عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سیدہ فاطمہ کے گھر تشریف لائے لیکن گھر میں داخل نہ ہوئے , تو جب سیدنا علی تشریف لائے تو سیدہ فاطمہ نے انہیں سارا ماجرا کہہ سنایا تو سیدنا علی نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارہ میں استفسار فرمایا تو آپ ﷺ فرمانے لگے میں نے اسکے دروازہ پر نقش ونگار والا پردہ دیکھا تھا (اس لیے اسکے گھر داخل نہیں ہوا ) تو یہ بات سیدنا علی نے سیدہ فاطمہ کو بتلائی تو وہ فرمانے لگیں کہ آپ ﷺ مجھے اس (پردہ) کے بارہ میں جو چاہیں حکم کریں ( میں تعمیل کرنے کو تیار ہوں ) تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے فلاں گھر والوں کے پاس بھیج دو ,جو ضرورت مند ہیں ۔
درس عبرت ہے ان لوگوں کے لیے جو مساجد , مکانات , دکانیں , گلیاں , محلے , سڑکیں , چوک اور چوراہے سجا کر رسول اللہ ﷺ کی آمد کا انتظار کرتے ہیں ۔ وہ پیغمبر جو اپنی پیاری لخت جگر کے دروازہ پر نقش ونگار والا ریشمی پردہ لٹکا دیکھ کر دروازے سے ہی واپس تشریف لے گئے وہ ان سجے ہوئے بازاروں اور مسجدوں میں کیونکر داخل ہونگے ۔ امام الانبیاء جناب محمد مصطفى ﷺ کے جعلی استقبال میں بازار وں اور گلیوں میں سینکڑوں تھان کپڑوں کے جھنڈے اور شو پیس وغیرہ بنانے والے, لمبی چوڑی لائٹنگ کرنے والے , بیت اللہ اور روضہء رسول ﷺ کی شبیہ بنانے والے , جعلی پہاڑیاں اور قبے بنانے والے جان لیں سید ولد آدم امام الانبیاء جناب محمد کریم ﷺ کو ان سجاوٹوں , شو پیسوں , فضول خرچیوں , اسراف اور تبذیر سے شدید نفرت تھی ۔اور آج ہی فورا توبہ کرکے ان فضول کاموں سے باز آجائیں ۔

چراغاں , اور آتش بازی:

آتش پرستوں کی نقالی میں آج کے اس جدید دور میں بھی جبکہ روشنی کے نت نئےانداز ایجاد ہو چکے ہیں ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوتے ہی ساری ساری رات مکانوں کی چھتوں دیواروں اور گلیوں بازاروں میں چراغاں بھی کیا جاتا ہے اور مشعل بردار نوجوانوں کی ٹولیاں جلوس نکالتی ہیں ۔ اب تو پٹاخے بھی بجنے لگے ہیں اور آتش بازی بھی کی جاتی ہے ۔ یہ سراسر مجوسیوں کی مشابہت ہے وہ آگ کی عبادت کرتے تھے اور اپنے آتش کدوں کی آگ کو ٹھنڈا نہ ہونے دیتے تھے ۔ اور اپنے تہواروں کے موقع پر اسی طرح چراغاں کرتے تھے اور آج بھی وہ ایسا ہی کرتے ہیں ۔
اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ
[سنن أبي داود كتاب اللباس باب في لباس الشهرة (4031)]
جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے ۔
پھر یہ عمل تبذیر کے زمرہ میں بھی آتا ہے کیونکہ اس چراغاں یا مشعلیں جلانے کا کوئی فائدہ یا ضرورت نہیں ہے ۔

موسیقی:

اللہ تعالى نے موسیقی کو حرام قرار دیا ہے ۔ بلکہ اسے اللہ تعالى کی رحمت سے محرومی کا سبب قرار دیتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
لَا تَصْحَبُ الْمَلَائِكَةُ رُفْقَةً فِيهَا كَلْبٌ وَلَا جَرَسٌ[ صحيح مسلم كتاب اللباس والزينة باب كراهية الكلب والجرس في السفر (2113)]
فرشتے اس قافلے کے ساتھ نہیں چلتے جس میں کتا یا گھنٹی ہو ۔
اسی طرح ہلکے پھلے میوزک کوبھی حرام قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ وَالْحَرِيرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ
[صحيح البخاري كتاب الأشربة باب ما جاء فيمن يستحل الخمر ويسميه بغير اسمه ]
میری امت میں ایسے لوگ ضرور ہونگے جو زناکاری , ریشم اور دف بجانے کو حلال کر لیں گے ۔
یعنی ان کاموں میں سے کوئی بھی کام حلال نہیں ہے لیکن وہ تأویلیں کرکے انہیں حلال بنا لیں گے ۔
اور آج یہی کام ہور ہا ہے دف بجانے کے جواز پر فتوے بھی صادر ہو رہے ہیں اور نعتوں میں دف اور ہلکا پھلکا میوزک شامل کیا جار ہا ہے , اور بھرپور میوزک کی بھر مار نعت نبی ﷺ کے ساتھ کرکے اسے قوالی جیسے قبیح نام سے موسوم کیا جا رہا ہے ۔ اور بڑی بڑی محفلیں اس کام کے لیے منقعد کی جاتی ہیں ۔ محفل قوالی , محفل نعت کے اشتہارات چھپتے ہیں ۔ اور قوال و نعت خواں حضرات طبلے و ڈھول و ڈفلی و دف کی تھاپ پر ثناء مصطفی ﷺ کرتے ہیں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
ہُلڑ بازی,جلوس , شورشرابہ :
اسلام متانت اور سنجیدگی کو پسند کرتا ہے , اور ہلڑبازی ,شورشرابہ,آوازیں کسنا , اور گلے پھاڑ پھاڑ کر بولنا شریعت کوناپسند ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کے بارہ میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں :
لَمْ يَكُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَلَا صَخَّابًا فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَصْفَحُ [ جامع الترمذي أبواب البر والصلة باب ما جاء في خلق النبي ﷺ (2016)]
رسول اللہﷺ عادتا یا قصدا فحش گوئی کرنے والے نہ تھے , نہ ہی بازاروں میں اونچی اونچی آواز میں شور کرنے والے نہ تھے اور برائی کا جواب جواب سے نہیں دیتے تھے بلکہ عفو و درگزر فرماتے تھے ۔
جبکہ بدعت میلاد کے ان جلوسوں میں سارے بازار بند کرکے مسافروں کو تکلیف سے دوچار کیا جاتا ہے , خوب شور مچایا جاتا ہے ۔ ہلڑبازی ہوتی ہے , آتش بازی, میوزک , بھنگڑا , گھوڑوں , گدھوں , موٹر سائیکلوں, سائیکلوں , ڈالوں , اور ٹرالیوں پر مشتمل لمبے لمبے جلوس بیہودہ قسم کے فحش اور لچر الفاظ استعمال کرتے , گالیاں نکالتے , نازیبا کلمات کہتے , مخالفین کو شیطان اور شیطان کے چیلوں جیسے قبیح القابات سے نوازتے اور الاؤڈ سپیکروں پر سارے علاقہ کو سناتے چلے جاتے ہیں ۔ کیا یہ نبی ﷺ کی آمد کی خوشی منائی جارہی ہے کہ وفات کی ؟؟؟ ۔ کہ اس موقع پر ہر وہ کام کیا جاتا ہے جو آپ ﷺ کو ناپسند تھا , اور جس سے آپ ﷺ کو شدید نفرت تھی ۔
بھیک مانگنا :
امام الانبیاء جناب محمد مصطفى ﷺ نے بلا وجہ بھیک مانگنے سے منع فرمایا ہے :
سیدنا عبد اللہ بن عمر بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لَا تَزَالُ الْمَسْأَلَةُ بِأَحَدِكُمْ حَتَّى يَلْقَى اللَّهَ وَلَيْسَ فِي وَجْهِهِ مُزْعَةُ لَحْمٍ
[صحيح مسلم كتاب الزكاة باب كراهة المسألة للناس (1040)]
لوگوں سے بھیک مانگنے والا اللہ کو اس حال میں ملے گا کہ اسکے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہوگا۔
سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَهُمْ تَكَثُّرًا فَإِنَّمَا يَسْأَلُ جَمْرًا فَلْيَسْتَقِلَّ أَوْ لِيَسْتَكْثِرْ
[ صحيح مسلم كتاب الزكاة باب كراهة المسألة للناس (1041)
جس نے مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کیا (بھیک مانگی) وہ یقینا آگ مانگ رہا ہے چاہے تو کم کرلے اور چاہے تو زیادہ کرلے ۔
جبکہ بدعت میلاد کے موقع پر "مدنی منوں" کو بھیک مانگنے کے لیےیہ کہہ کر بھیک مانگنے پر تیار کیا جاتے ہے کہ رافضی شیعہ محرم الحرام کے موقع پر اپنے بچوں کو "حسین کا منگتا " بناتے ہیں تو ہم نبی ﷺ کے منگتے کیوں نہیں بن سکتے ۔
اور پھر یہیں پر بس نہیں , محافل میلاد بپا کرنے کے لیے چوکوں چوراہوں اور راستوں کو روک کر چندہ مانگا جاتا ہے ۔ بلکہ زبردستی بھی لیا جاتا ہے ۔ یعنی جگہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ۔
اسی طرح اور بہت سی خرافات اس بدعت عظمى کے موقع پر دیکھنے کو ملتی ہیں جن کی شریعت میں واضح لفظوں کے ساتھ مذمت کی گئی ہے مثلا :
بيت الله اور روضہء رسول کی شبیہ بنانا ،شرکیہ نعتیں پڑھنا ، مجلس کے آخر میں قیام ا س عقیدت کے تحت کرنا کہ نبی کریمﷺمجلس میں خود حاضر ہوتے ہیں، شیرینی تقسیم کرنا ، دیگیں پکانا ، دروازے اور پہاڑیاں بنانا ،مخصوص لباس پہننا، تصویریں اتارنا، رقص و وجد کا اہتمام کرنا، شب بیداری کرنا ، اجتماعی نوافل ، اجتماعی روزے ،اجتماعی قرآن خوانی ، عورتوں مردوں کا اختلاط ، نوجوان لڑ کوں کا جلوس میں شرکت کرنا اور عورتوں کا ان کو دیکھنا ، من گھڑ ت قصے کہانیوں اور جھوٹی روایات کا بیان ،انبیاء ، ملائکہ ،صحابہ کرام کے بارے میں شرکیہ اور کفریہ عقیدے کا اظہار، اور اس طرح کی دیگر خرافات کہ جنہیں دیکھ کر شیطان بھی شرماتا ہوگا ۔ اللہ تعالى ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین ۔

یہ تحریر یہاں سے لی گئی ہیں​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جزاک اللہ خیراابراہیم بھائی
اللہ تعالی شیخ کی حفاظت کرے۔آمین
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
انکار المنکرات ضرور کیجے کہ یہ مطلوب ہے لیکن ادع الی سبیل ربک
بالحکمۃ
والموعظۃ الحسنۃ
و جادلھم بالتی ھی احسن
ان تین مراحل کو ضرور از ضرور مدنظر رکھا جایے
اور اس کی
خشت اوّل بشّروا ہو نہ کہ تنفّروا ہو اور خشت ثانی یَسروا ہو کہ نہ تعسّروا ہو
اور یہی وہ مرحلہ ہے جس کو قران مجید نے
ٱدْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِٱلْحِكْمَةِ وَٱلْمَوْعِظَةِ ٱلْحَسَنَةِ ۖ سے تعبیر کیا کہ اگر اپنے رب کی طرف بلانا ہے تو حکمت کے ساتھ اور حسن خلق کے ساتھ اور یہ حکمت کیا تھی بشروا اور لاتنفروا کہ لوگوں کو اپنے قریب لاؤ اور دین کے احکامات بتانے میں غلو اور تشدد سے کام نہ لو۔
اس سوچ کے تحت ہم اِرد گرد کے معاشرے میں نظر ڈالتے ہیں اور اپنے عقائد اور عبادات اور اپنے معاملات کو مدّنظر رکھتے ہیں تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے مسائل میں رفق و لین یعنی نرمی سے بالکل بے خبر اور نا آشنا ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول تو ہمیں اپنی تعلیمات کے ذریعے یہ ہدف اور مقصد عظیم دیں کہ اسلام کی تبلیغ صرف زبان سے نہیں بلکہ کردار سے بھی ہو اور ہم ؟؟؟؟؟
اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہمیں دعوتی طرز اسلوب کی بنیاد فراہم کریں کہ
وَلَا تَسُبُّوا
۟ ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ فَيَسُبُّوا۟ ٱللَّهَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ ﴿١٠٨﴾ الانعام
اور (اے ایمان لانے والو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں ۔"
یہ آیت سدّ ذریعہ کے اس اصول پر مبنی ہے کہ اگر ایک مباح کام اس سے بڑی خرابی کا سبب بنتا ہے تو وہاں وہ مباح کام کا ترک کردینا راجح اور بہتر ہے۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کریمﷺ نے فرمایا:
" تم کسی کے ماں باپ کو گالی نہ دو اس طرح تم خود اپنے والدین کے لئے گالی کا سبب بن جاؤگے۔" (مسلم)
اور شوکانی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت سدّ ذرائع کے لئے اصل اصیل ہے۔
اور ایک جگہ ارشادِ نبویﷺ ہے کہ:
" کوئی شخص کسی شخص پر فسق اور کفر کی تہمت اور الزام نہ لگائے اگر وہ اس کا مستحق نہیں ہے تو وہ تہمت اسی پر لوٹ آئے گی۔" (بخاری)
تو کسی کو کچھ کہنے سے اگر ہم اس بات کا ذریعہ بنتے ہیں کہ ہمارا رب ، ہمارا رسول اور ہمارے والدین خود ہم اس بات کی زد میں آئیں تو دعوتی نظر سے اس چیز کو ترک کردینا ہی احسن ہے کہ ہمارا کام :كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِ
ٱلْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ ﴿١١٠﴾ آل عمران
 
Top