• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید میلاد النبی کا شرعی و تاریخی جائزہ

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
آج کا مسلمان ہدایت یافتہ اس لیے نہیں کہ وہ ” عید میلاد النبیﷺ“ کا جشن نہیں مناتا بلکہ اس لیے ہے کہ اس نے قرآنی معیار کو پسِ پشت ڈال کر اپنے جی سے ایک نیا معیار”عشق ِ رسولﷺ“ کے نام پہ گھڑ کے اسلام کے اندرگھسانے کی سعی کی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے مسلمان کی ہدایت کے لیے ایک ہی معیار بتایا ہے کہ:-

وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُواۚ
اُس کی اطاعت کرو گے تو خود ہی ہدایت پاؤ گے۔
قرآن، سورۃ النور، آیت نمبر 54

عاشقانِ رسولﷺ“ نے اطاعتِ رسولﷺپر زور دینے کی بجائےایک عمل بلا دلیل پر زور دینا شروع کر دیا اور طبقۂ خاص یہ راز جاننے سے قاصر ہے کہ رسول اللہ ﷺسے مسلمانوں کے لگاؤ میں کمی کا سبب میلادِ مصطفیٰﷺ کا جشن نہ منانے پر نہیں بلکہ اطاعتِ رسولﷺسے انحراف پر مبنی ہے۔

اگر عید میلاد النبیﷺ کا جشن منانا شرعی عمل ہوتا تو رسول اللہ ﷺاسکو ضرور مناتے،منانے کی تلقین کرتے اور اسکو منانے کی روایات تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہوتیں اوراس کا دن بھی عید الفطر و الضحیٰ کی طرح متعین ہوتا
”باطل اجتہاد وقیاس“سے اسکا جواز نہ تراشا جاتا۔اس سے زیادہ حیرت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تاریخِ پیدائش میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ اور اس اختلاف کا فیصلہ ”قیاس“ کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے جو یقیناً خطاء سے مبرا نہیں۔ اگرنبیﷺ اور صحابہ کرامؓ عیدمیلادالنبیﷺبا قاعدگی سے مناتے تو اس دن کے تعین میں اختلاف چہ معنی دارد ؟

اگر
”عاشقانِ رسولﷺ“ قرآن وسُنت میں مذکور اعمال کی طرف لوگوں کو توجہ دلاتے اور اسی پر اکتفاء کرتےتو لوگوں کی اصلاح کےلیے کافی تھااس طرح کرنے سےاغیار کی مسلمانوں کے خلاف ”سازش“ اپنی موت آپ مر جاتی اور ہمیں اسلام میں مزید کسی ”عید“ کا اضافہ نہ کرنا پڑتا۔

مگر طبقۂ خاص کو یہ اضافہ شائد اس لیے کرنا پڑا کہ ان کی نظر میں قرآن و سُنت کے بیان کردہ اعمال میں کوئی جاذبیت نہیں اس لیے انہوں نے سوچا کہ
”عشقِ رسولﷺ“ کے نام پہ عید میلاد النبیﷺ کے دن برقی قمقموں کی جاذبیت سے لاعلم و کم علم عوام و خواص کو اسلام کی طرف راغب کر کے اغیار کی ”سازشوں“ کا قلع قمع کیا جائے۔
ہمارے لیے فقط یہی دلیل کافی ہے کہ قرآن و سُنت اور خیر والقرون میں اس غیر شرعی فعل کا کوئی ثبوت نہیں ۔


معلوم پڑتا ہے کہ طبقۂ خاص نے قرآن و سُنت سے بے نیاز ہو کر عید میلاد النبیﷺکے جواز کو تراشنے کےلیےمحض ”عقلی تدبر“ سے کام لیا ہے اس لیےجب لوگ قرآن مجید سے ہدایت لینے کی بجائے الٹا اسے ہدایت دینے بیٹھ جاتے ہیں تواسی طرح کی رکیک اور دور دراز تاویلات کا سہارا لینا ایک ناگزیر مجبوری بن جاتی ہے جس سے چھٹکارا پانا قریب قریب ناممکن ہو جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے جو ”سورۃ آل ِعمران“ کی آیات سے بھی بالکل غلط استدلال کیا گیا ہے کیونکہ اس میں عیدمیلاد النبیﷺ کا نہیں بلکہ پیغمبروں سےنبیﷺکی نبوت و رسالت اور انکی اس سلسلے میں مدد کرنے کا اقرار لیا گیا ہےجسکا تذکرہ مندرجہ ذیل سورۃ الاحزاب کی آیات میں بھی آیا ہےاور یہ میثاق کس چیز کا لیا گیا تھا اسکا تذکرہ سورۃ آلِ عمران کی آیات میں کر دیا گیا یعنی

” لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ “

آیا ت ملاحظہ فرمائیں:-

وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۖ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا ﴿٧﴾ لِّيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَن صِدْقِهِمْ ۚ وَأَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿٨
اور (اے نبیﷺ) یاد رکھو اُس عہد و پیمان کو جو ہم نے سب پیغمبروں سے لیا ہے، تم سے بھی اور نوحؑ اور ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ ابن مریم سے بھی سب سے ہم پختہ عہد لے چکے ہیں تاکہ سچے لوگوں سے (ان کا رب) ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے، اور کافروں کے لیے تو اس نے درد ناک عذاب مہیا کر ہی رکھا ہے۔
قرآن ، سورۃ الاحزاب، آیت نمبر08-07

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُۚقَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ ﴿٨١﴾ فَمَن تَوَلَّىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٨٢
یاد کرو، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ، "آج ہم نے تمہیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اُسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے، تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی" یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا، "کیا تم اِس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟" اُنہوں نے کہا ہاں ہم اقرار کرتے ہیں اللہ نے فرمایا، "اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں اس کے بعد جو اپنے عہد سے پھر جائے وہی فاسق ہے"۔
قرآن ، سورۃ آلِ عمران، آیت نمبر82-81

اگراس میثاق سے
”عید میلادالنبیﷺ“ کا ثبوت مل سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں ہےکہ مندرجہ ذیل آیت کی روشنی میں بنی اسرائیل کےبارہ نقباء کا میلاد منانے کا جواز ثابت نہ ہو۔

وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ ﴿المائدة: ١٢
اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ نقیب مقرر کیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ "میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے تو یقین رکھو کہ میں تمہاری برائیاں تم سے زائل کر دوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، مگراس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو در حقیقت اُس نے سوا٫ السبیل گم کر دی"۔
قرآن، سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 12
یہ حقیقت بھی نظروں سے ہرگز اوجھل نہ ہونے پائے کہ جب ایک چیز کی بنیاد غلط ہوتو اس پر بنائی جانے والی ہر عمارت بھی غلط ہی ہو گی طبقۂ خاص نے جس طرح قرآن مجید کی آیات سے غلط استدلال کرنے میں ٹھوکر کھائی ہے بالکل اسی طرح انکااحادیث کے فہم میں ٹھوکر کھانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں جس روایت سے انہوں نے عید میلاد النبیﷺ کے جشن کا ثبوت فراہم کیا ہےاسکی حقیقت بھی ملاحظہ فرمالیں۔

عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَائَ نَاسٌ مِنْ الْأَعْرَابِ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ الصُّوفُ فَرَأَی سُوئَ حَالِهِمْ قَدْ أَصَابَتْهُمْ حَاجَةٌ فَحَثَّ النَّاسَ عَلَی الصَّدَقَةِ فَأَبْطَئُوا عَنْهُ حَتَّی رُئِيَ ذَلِکَ فِي وَجْهِهِ قَالَ ثُمَّ إِنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ جَائَ بِصُرَّةٍ مِنْ وَرِقٍ ثُمَّ جَائَ آخَرُ ثُمَّ تَتَابَعُوا حَتَّی عُرِفَ السُّرُورُ فِي وَجْهِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئٌ
حضرت جریر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کچھ دیہاتی آدمی اونی کپڑے پہنے ہوئے حاضر ہوئے آپ نے ان کی بدحالی دیکھ کر ان کی حاجت و ضرورت کا اندازہ لگا لیا آپ ﷺنے لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی پس لوگوں نے صدقہ میں کچھ دیر کی تو آپ ﷺکے چہرہ اقدس پر کچھ ناراضگی کے آثار نموادر ہوئے پھر انصار میں سے ایک آدمی دراہم کی تھیلی لے کر حاضر ہوا پھر دوسرا آیا پھر صحابہ نے متواتر اتباع شروع کر دی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺکے چہرہ اقدس پر خوشی کے آثار ظاہر ہونے لگے رسول اللہﷺنے فرمایا جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لئے اس عمل کرنے والے کے برابر ثواب لکھا جائے گا اور ان کے ثواب میں سے کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس آدمی نے اسلام میں کوئی برا طریقہ رائج کیا پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس پر اس عمل کرنے والے کے گناہ کے برابر گناہ لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔
صحیح مسلم ، جلد سوم، حدیث نمبر2299

اس روایت کواگر سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا جائے تواس سے بھی عید میلاد النبیﷺکاجواز قطعاً ثابت نہیں ہوتا کیونکہ صدقہ کرنے کا حکم قرآن مجید میں موجود ہے اور اس روایت میں کوئی نیا طریقہ بیان نہیں ہوا بلکہ یہ قرآن مجید کے حکم پر مبنی ایک عمل ہے جبکہ قرآن و سُنت میں عید میلاد النبیﷺکا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔

سن کا معنی:ـ
ایک راستہ پر چلنا۔ ایک طریق قائم کرنا

اس معنی کو ذہن میں رکھ کر روایت پر غور کریں۔
سنسے ابدع کا معنی لینا صحیح نہیں ہےکیونکہ یہاں سنۃطریقہ یاراستہ کے معنی میں مستعمل ہے لہذا یہاں سنۃ حسنۃکا مطلب اچھا طریقہ اور سنۃ سیئۃکا مطلب بُرا طریقہ قائم کرنا ہے۔مزید برآں جس طرح سنت ہمیشہحسنہ ہی ہوتی ہے سیئۃنہیں ہوتی بالکل اُسی طرح بدعت سیئۃہی ہوتی ہے حسنہ کبھی نہیں ہوتی۔ اگر یہاں پرسن سے مراد ابدعمراد ہوتا تو لفظ سنکی بجائے ابدع استعمال ہوتا جو کہ نہیں ہوا۔

سنت معلوم و معروف چیز ہوتی ہے جبکہ بدعت نئی چیز ہوتی ہے کیونکہ شرع میں اسکی کوئی مثال یا دلیل نہیں ہوتی۔اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس روایت میں صدقہ کرنے کی ترغیب دینے کو سنۃ حسنۃقرار دیا گیا ہے جسکا حکم قرآن مجید میں موجود ہے۔اب بتائیں کہ یہاں کون سی بدعتِ حسنہ کا تصور اُبھر رہا ہے۔
اگر ا س چیز کا کوئی ثبوت ہمیں قرآن و سنت اور صحابہ کرام کےطرزِ عمل سے ملتا تو اس عید کا دن بھی بالکل اسی طرح مقرر اور طے شدہ ہوتا جس طرح عید الفطر و الضحٰی کا ہے۔ طبقۂ خاص نے ابھی تک سوائے نہایت کمزور قیاس و اجتہاد کے کوئی مسلمہ ثبوت فراہم نہیں کیااور ہم سب جانتے ہیں کہ قیاس و اجتہاد میں خطاء کا عنصر موجود ہوتا ہے اسی لیے وہ دین نہیں بن سکتے ۔ (معذرت کے ساتھ )طبقہء خاص کی یہ بہت پرانی عادت رہی ہے کہ وہ ہمیشہ سوئی کے ناکے سے اونٹ گزارنے کی کوشش کرتے ہیں جو ناممکن ہے۔

لہذابراہِ کرم جس طرح قرآن مجید میں نماز ،زکوٰۃ، روزہ،حج اور دیگر احکامات واضح طریق پر بیان ہوئے ہیں اسی طرح عید میلاد النبیﷺکا جشن منانے کا حکم قرآن مجید سے پیش فرمائیں۔
 
Last edited:

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
میلاد پر ایک بریلوی عالم کا مؤقف














محترم علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی صاحب نے میلاد منا نےکے جواز پر جس آیت سے استدلال فرمایا ہے اس کا علمی رد پیش ِ خدمت ہے ۔

وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ﴿١٥﴾
سلام اُس پر جس روز کہ وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے اور جس روز وہ زندہ کر کے اٹھایا جائے۔
قرآن، سورۃ مریم، آیت نمبر 15

وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ﴿٣٣﴾

سلام ہے مجھ پر جبکہ میں پیدا ہوا اور جبکہ میں مروں اور جبکہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں۔
قرآن، سورۃ مریم، آیت نمبر 33

اس استدلال میں سب سے بڑی اور بنیادی غلطی یہ کی گئی ہے کہ لفظِ سلام اور ولد سے ”میلاد منانا“ مراد لے لیا گیا ہے حالانکہ عربی زبان کا ادنٰی طالبِ علم بھی کبھی ایسی سنگین غلطی نہیں سکتا چہ جائیکہ ہمارے علامہ صاحب ایسی غلطی کے مرتکب ہوں۔

اگر اس آیت میں بیان کردہ مفہوم وہی ہے جو علامہ صاحب نے ارشاد فرمایا تو درج ذیل آیات کا مفہوم کچھ اس طرح ہو گا :-

جب خطاکار لوگ نبیﷺ کے پاس ان کی زندگی میں آتے تھے تو اس وقت بھی نبیﷺ نے ان کو ”میلاد منانے“ کا حکم دیا تھا۔کیونکہ قرآن کہتا ہے :-

وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿الأنعام: ٥٤﴾
جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہو ”تم پر سلامتی ہے تمہارے رب نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے یہ اس کا رحم و کرم ہی ہے کہ اگر تم میں سے کوئی نادانی کے ساتھ کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کر لے تو وہ اُسے معاف کر دیتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے“ ۔

جب اللہ تعالٰی نے حضرت نوح ؑ اور ان کے متبعین کو عذاب سے نجات عطاء فرمائی اس وقت بھی ”میلاد منانا“ ثابت ہوتا ہے۔
کیونکہ قرآن کہتا ہے :-

قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِّنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ أُمَمٍ مِّمَّن مَّعَكَ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿هود: ٤٨﴾
حکم ہوا ”اے نوحؑ اتر جا، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہیں تجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں، اور کچھ گروہ ایسے بھی ہیں جن کو ہم کچھ مدت سامان زندگی بخشیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے درد ناک عذاب پہنچے گا“۔

موت کے فرشتے جب متقی اور پرہیزگار لوگوں کی روح قبض کرتے ہیں اس وقت بھی ”میلاد منانا“ ثابت ہوتا ہے ۔ کیونکہ قرآن کہتا ہے :-

الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿النحل: ٣٢﴾
اُن متقیوں کو جن کی روحیں پاکیزگی کی حالت میں جب ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں”سلام ہو تم پر، جاؤ جنت میں اپنے اعمال کے بدلے“ ۔

جو شخص اللہ تعالٰی کی ہدایت کی پیروی کرتا ہے اسکا ”میلاد منانے “ کا جواز بھی قرآن مجید سے ثابت ہو جا تا ہے ۔ کیونکہ قرآن کہتا ہے :-

وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ ﴿طه: ٤٧﴾
اور سلامتی ہے اُس کے لیے جو راہِ راست کی پیروی کرے۔

اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت بھی”میلاد منانے“ کا حکم ہے ۔ کیونکہ قرآن کہتا ہے :-

فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿النور: ٦١﴾
البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعا ئے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فر مائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ اِس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے آیات بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے ۔

کفار و مشرکین سے درگزر کرنے کے بعد ”میلاد منانا“ ثابت ہے۔
کیونکہ قرآن کہتا ہے :-

فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَامٌ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ﴿الزخرف: ٨٩﴾
اچھا، اے نبیﷺ، اِن سے درگزر کرو اور کہہ دو کہ سلام ہے تمہیں، عنقریب اِنہیں معلوم ہو جائے گا ۔

سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ ﴿الصافات: ٧٩﴾
سلام ہے نوحؑ پر تمام دنیا والوں میں ۔

سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ﴿الصافات: ١٠٩﴾
سلام ہے ابراہیمؑ پر۔
سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ﴿الصافات: ١٢٠﴾
سلام ہے موسیٰؑ اور ہارونؑ پر۔

سَلَامٌ عَلَىٰ إِلْ يَاسِينَ ﴿الصافات: ١٣٠﴾
سلام ہے الیاسؑ پر۔

وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ﴿الصافات: ١٨١﴾
اور سلام ہے مرسلین پر ۔

یہاں پر اللہ تعالٰی نے حضرات نوح، ابراہیم ، موسیٰ، ھارون، الیاس علیہم السلام اور دیگر رسولوں کا ذکر فرمایا اور ان پر سلام بھیجا مگر صد حیرت ہے کہ اتنے رسولوں کا متواتر ذکر کرنے کے بعد بھی پوری اسلامی تاریخ میں کسی نبی یا رسول کا ”میلاد منانے“ کا ذکر تو درکنار ،اشارہ تک نہیں ملتا، نہ” قرآن مجید“صریح الفاظ میں اس کو منانے کا ذکر کرتا ہے ، نہ ”مجموعہ ہائے احادیث“ اس کا ثبوت فراہم کرتی ہیں ، نہ ” فقۂ اسلامی“ میں اس ”عمل بلا دلیل“ کی جگہ بن پاتی ہے اور نہ مؤرخین ”میلاد “ کے دن کو حتمی طور پر متعین کر پاتے ہیں ۔جبکہ ”طبقۂ خاص“ کا دعویٰ ہے کہ ”منکرینِ میلاد “کے پاس میلاد نہ منانے کی ایک ” چھوٹی سی کچی دلیل “ بھی نہیں ہے ۔

اس ضمن میں سب سے حیران کن اور افسوس ناک ” انکشاف “ یہ کہ علامہ صاحب نے آیت کو پورا پڑھنے کی بجائے صرف اس کے اتنے حصے کو پڑھا جس سے ان کا باطل مؤقف ثابت ہو جائے حالانکہ اگر ولادت کے وقت ”میلاد منانا“ ثابت ہے تو ”مرنے کے وقت“ اور” روزِ قیامت“ جی اٹھنے کے بعد”میلاد منانا“ ثابت کیو ں نہیں ؟ مگر ناجانے علامہ صاحب اس راز کو فاش کرنے کا ”بارِ عظیم “ ہم پر کیوں ڈال گئے ؟

میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اگر ایک انسان کوئی باطل نظریہ( نعوذ باللہ ) قرآن و سنت سے اخذ چاہتا ہے تو وہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک وہ قرآن و سنت کے نصوص کا انکار یا انکی باطل و فاسدتاویل نہ کر لے اور کمزور و من گھڑت روایات کو اصل قرار نہ دے لے ۔ اس بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بات کی پچ ایک انسان کو کہاں سے کہاں لے جا تی ہے ۔

باقی جن ” اعمال و افعال“ کا انتساب بطورِ بدعت علامہ صاحب نے ”منکرینِ میلاد“ کی طرف فرمایا ہے وہ اتنی” مضحکہ خیز“ ہیں کہ ان کا رد کرنا وقت کو ” ضائع“کرنے کے مترادف ہے کیونکہ ”طبقۂ خاص “کی طرح علامہ صاحب بھی ”دین اور دنیا “ کا فرق سمجھنے سے قاصر ہیں ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم بھائی السلام علیکم

آپ کی تمام باتیں سے متفق ہوں ۔ اور کوکب صاحب کی اس بات سے کہ یوم صدیق اکبر، یوم فاروق واقعی بدعت ہے ۔ روافض کی نقالی میں شروع کیے گئے ہیں۔
اور بریلوی حضرات کا دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ "میلاد غلط ہے تو پھر سیرۃ النبی کانفرنس بھی بدعت ہونی چاہیے۔یہ بھی صحابہ نے نہیں کی۔ جو کچھ ہم بریلوی میلاد میں کر تے ہیں وہی سیرۃ النبی میں ہوتا ہے ۔"
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم بھائی السلام علیکم

آپ کی تمام باتیں سے متفق ہوں ۔ اور کوکب صاحب کی اس بات سے کہ یوم صدیق اکبر، یوم فاروق واقعی بدعت ہے ۔ روافض کی نقالی میں شروع کیے گئے ہیں۔
اور بریلوی حضرات کا دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ "میلاد غلط ہے تو پھر سیرۃ النبی کانفرنس بھی بدعت ہونی چاہیے۔یہ بھی صحابہ نے نہیں کی۔ جو کچھ ہم بریلوی میلاد میں کر تے ہیں وہی سیرۃ النبی میں ہوتا ہے ۔"
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
میرے محترم !
سیرت ِ صحابہ کرام ؓیا سیرت النبی ﷺ کانفرنس کا انعقادکسی بدعت کو جنم دینا ہرگز نہیں، بلکہ تعلیم دینا اور آگہی فراہم کرنا ہے۔ آپ مجھے بتائیں کہ سیرت کانفرنس کرنے سےدین میں کس چیز کا اضافہ ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ سیرت کانفرنس تو کسی وقت بھی منعقد کروائی جا سکتی ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ”میلاد منانے“ کی محافل کا انعقاد ربیع الاول کے مہینے میں کیا جاتا ہےجس کے پیچھے وہی ”دینی تصور“ ہے جس کا رد میں علامہ کوکب نورانی صاحب والی ویڈیو میں کر چکا ہوں۔دوسرا یہ کہ ”عید میلاد النبیﷺ“ منانا عیسائیوں کی عید سے مشابہت رکھتا ہے کیونکہ وہ بھی حضرت عیسیٰ ؑ کا یوم ِ پیدائش ”مناتے “ ہیں۔جبکہ قرآن و سنت ہمیں یہود و نصاریٰ کے نقشِ قدم پر چلنے سے سختی سے منع کرتا ہے ۔غالباًآپ نے طریقہ ٔ تعلیم میں ”جدت “ کو دین میں ”بدعت“ تصور کر لیا ہے جبکہ معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم
میں بریلوی حضرات کے کافی قریب رہا ہوں ۔بلکہ اب بھی کافی بریلوی حضرات رابطے میں ہیں ۔ اور محفل میلاد صرف ربیع الاول میں نہیں ہوتے بلکہ بعد میں بھی جاری رہتےہیں۔ اس کا شاہد میں خود ہوں۔
دوسری بات یہ کہ عقیدہ تو یہی ہوتا ہے سیرۃ النبی کانفرس کا کہ اس سے ثواب ملے گا۔ تو اس لئے اس پر اعتراض کیا جاتا ہے ۔
باقی آپ نے یوم فاروق اور یوم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ ارشاد نہیں کیا۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم
میں بریلوی حضرات کے کافی قریب رہا ہوں ۔بلکہ اب بھی کافی بریلوی حضرات رابطے میں ہیں ۔ اور محفل میلاد صرف ربیع الاول میں نہیں ہوتے بلکہ بعد میں بھی جاری رہتےہیں۔ اس کا شاہد میں خود ہوں۔
دوسری بات یہ کہ عقیدہ تو یہی ہوتا ہے سیرۃ النبی کانفرس کا کہ اس سے ثواب ملے گا۔ تو اس لئے اس پر اعتراض کیا جاتا ہے ۔
باقی آپ نے یوم فاروق اور یوم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ ارشاد نہیں کیا۔
میرے محترم !
بریلوی حضرات پورے سال کسی نہ کسی دن ”محفل میلاد“ سجاتے ہیں یہ بات میرے علم میں بھی ہے اور میرا واسطہ بریلوی حضرات سے پڑتا رہتا ہے۔لیکن میری گفتگو اسی ربیع الاول میں”عید میلادالنبیﷺ “ منانے کے بارے میں تھی لہذا سوال گھوم پھر کر وہیں آ جاتا ہے کہ کیا ”عید میلاد النبیﷺ“ منانے کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں ہے ؟ ہم کہتے ہیں کہ ایسا کوئی حکم قرآن و سنت میں نہیں ہے اور آپ ہمارے پیش کردہ دلائل سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ جواباً آپ حضرات ہم سے دین میں ”عید میلاد النبیﷺ“ نہ منانے کی دلیل طلب کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کی نظر میں ”عید میلاد النبیﷺ“ منانے کا حکم شریعت نے دے رکھا ہے تبھی تو آپ اسے ”بے قاعدہ“ نہیں بلکہ ”با قاعدہ“ ہر سال بڑے اہتمام سے اور ”ثواب “سمجھ کر مناتے ہیں۔ لہذا جب ہم” قرآن و سنت“ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اس دن کو منانے کا ادنٰی اشارہ بھی ڈھونڈ نہیں پاتے ۔جن آیاتِ قرآنیہ اور احادیث سے آپ استدلال کرتے ہیں ان کی حقیقت بھی بار بار آپ کو بتائی جاتی ہے اور آپ سے ہمارا مطالبہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ دس بیس نہیں کوئی ایک ہی آیت قرآن مجید یا روایت احادیث صحیحہ سے پیش کردیں جس میں اللہ تعالٰی نے اس دن کو منانے کا حکم بھی اسی طرح دیا ہوجس طرح ”عید الفطر والضحیٰ“ منانے کا،مگر آپ حضرات سوائے رکیک اور باطل تاویلات و استدلال کے ایک آیت یا صحیح حدیث بھی پیش نہیں کر پاتے ۔یومِ صدیق ؓ و فاروقؓ کے بارے میں جواب پہلے دیا جا چکا ہے ۔اگر آپ دین کی بنیاد پر اس کے ثبوت کو منواتے ہیں تو ہم بھی دین کی بنیاد ہی پر اس کا رد پیش کرتے ہیں ۔سوال ”عید میلاد النبیﷺ“ کو منانے کے انکار واثبات کا نہیں ، بلکہ” ثبوت“ پر ہے ۔کیا آپ کے پاس ایسا کوئی” مسلمہ ثبوت “ ہے ؟ اگر ہے تو براہِ کرم اُسے پیش فرمائیں !
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم بھائی

میں تو ایک عام سا آدمی ہوں میرے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ میں ذاتی طور ربیع الاول میں ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند کر تا ہوں ۔ لیکن مروجہ طریقہ سے نہیں ۔ جلوس نکالنا،جھنڈے لگانا وغیر ہ یا اس کے طرح کے دوسرے کام بالکل ہی غلط ہیں۔ کسی محفل کو منعقد کر کے اگر ذکر رسول کر لیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا ۔
محترم ایک اور بات واضح کر دوں کہ میں کسی فرقے سے اپنی نسبت نہیں رکھتا۔کو شش کر تا ہوں جہاں قران و حدیث سے قریب بات ہو اس کو اختیار کر لیا جائے یہ نہ دیکھا جائے کہ کون کہہ رہا ہے یہ دیکھا جائے کہ کیا کہہ رہا ہے۔میرے لئے دعا بھی کریں کہ اللہ راہ ہدایت پر رکھے۔
نوٹ: کسی فرقے سے نسبت نہ ہونے کا کہنے سے آپ مجھ کو مرزا محمد علی (نیٹ مولوی) کا معتقد مت سمجھیے گا۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم بھائی

میں تو ایک عام سا آدمی ہوں میرے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ میں ذاتی طور ربیع الاول میں ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند کر تا ہوں ۔ لیکن مروجہ طریقہ سے نہیں ۔ جلوس نکالنا،جھنڈے لگانا وغیر ہ یا اس کے طرح کے دوسرے کام بالکل ہی غلط ہیں۔ کسی محفل کو منعقد کر کے اگر ذکر رسول کر لیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا ۔
محترم ایک اور بات واضح کر دوں کہ میں کسی فرقے سے اپنی نسبت نہیں رکھتا۔کو شش کر تا ہوں جہاں قران و حدیث سے قریب بات ہو اس کو اختیار کر لیا جائے یہ نہ دیکھا جائے کہ کون کہہ رہا ہے یہ دیکھا جائے کہ کیا کہہ رہا ہے۔میرے لئے دعا بھی کریں کہ اللہ راہ ہدایت پر رکھے۔
نوٹ: کسی فرقے سے نسبت نہ ہونے کا کہنے سے آپ مجھ کو مرزا محمد علی (نیٹ مولوی) کا معتقد مت سمجھیے گا۔
آپ کے اس مؤقف کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔ میں بھی شخصیت پرستی کے سخت خلاف ہوں اور بلا امتیاز ِ مسلک سب مکتبہ ٔ فکر کے علماء سے علمی استفادہ کاقائل ہوں۔میں آپ کو کسی بھی مکتبۂ فکر کا نمائدہ تصور نہیں کرتا ۔اللہ تعالٰی ہم سب کو سیدھا راستہ دیکھائے ، آمین یا رب العالمین !
 
Top