• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323

اسرار

مبتدی
شمولیت
اگست 23، 2014
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
4
عيدمیلاد النبیﷺ کی حقیقت

عید میلاد
رسول اکرم ﷺ کے دور میں:-

قران مجید کی کسی آیت سے صراحتا و قنایتا کوئ دلیل نہییں ملتی جس سے کسی کی سالگره یا میلاد منانے کی دلیل لی جا سکے،اور نہ ہی کسی صحیح حدیث سے ثابت هوتا ہے
آپﷺ کی تین صاحبزادیاں
حضرت زینب ، حضرت ام کلثوم، حضرت رقیہ رضی اللہ عنهما کی وفات آپکی زندگی میں ہوئ لیکن ان میں سے کسی کا سالگرہ آپﷺ نے نہیں منایا جبکہ نبی هونے کے بعد 23 سال آپﷺ زندہ رہے لیکن اس عرصے میں نہ آپﷺ نے کسی صحابہ کو اپنی تا ریخ ولادت پر سالگرہ منانے کا حکم دیا اورنہ ہی اصحاب کرام نے اس عر صہ میں اپکی تاریخ ولادت پر اپنے طرف سے میلاد منائے


میلاد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں:-

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے بعد 5 اصحاب نے خلافت و حکومت چلائ مگر ان پانچوں میں سے نہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانے میں کبہی عید میلاد منائ گئ اور نہ ہی عمر رضی اللہ عنہ اور نہ عثمان رضی اللہ عنہ اور نہ علی رضی اللہ عنہ اور نہ امیر معاویه رضی اللہ عنہ نے


میلاد تابعین یا تبع تابععین کے دور میں:-
صحابہ کرام کے بعد سب سے افضل اور قابل اعتماد لوگ تابعین اور انکے تبع تابعین ہے مگر تاریخ شاہد ہے کہ ان افراد میں سے کسی فرد نے بہی آپﷺ کی تاریخ پیدائش سالگرہ یا عرش نہیں منایا


میلاد ائمہ ومحدثین اورفکہائے عظام کے دور میں:-

أئمہ ومحدثین اور فقہائے عظام مثلا ابو حنیفہ رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ امام احمد رحمہ اللہ سفیان عناویہ رحمہ اللہ امام اوزاعی رحمہ اللہ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ امام داؤد ظاہری رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ امام مسلم رحمہ اللہ اور تمام علماءحدیث وفقہ میں سے کسی نے میلاد نہیں منائ اور نہ ہی انکے زمانے میں منائ گئ اور نہ ان میں سے کسی نے اجازت دی اسلئے کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت منقول ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا " من احدث فی امرنا هذا ما لیس منه فہو رد" رواہ البخاری
اور اسلئےکہ قرآن اور حدیث میں میلاد یا عرش منانے کا کوئ ثبوت نہیں ملتا لہذا یہ قران و حدیث کی نگاہ میں ایک مذموم و من گهڑت بدعات کے سوا کچهہ نیہں


جشن عید میلاد کا موجد

جشن عید میلاد النبی کی ابتداء ابوسعید کوکبوری بن ابی الحسن علی بن محمد الملکب الملک المظم مظفر الدین اربل (موصل) متوفی 18 رمضان 630هہ نے کی یہ بادشاہ ان محفلوں میں بے دریا پیسہ خرچ کرتا اور الات لهو لعب کے ساتھ راگ ورنگ کی محفلیں منعقد کرتا تها
مولانا رشید احمد گنگوہی لکهتے ہیں اہل تاریخ نے صراحت کی ہے کہ یہ بادشاہ بهانڈؤں گانے والوں کو جمع کرتا گانے آلات سے گانا سنتا اور خود ناچتا
حوالہ فتوی رشیدیه صفحہ 123

یہ تو تها اسکا موجد جهاں تک اسکے جواز کا فتوی دینے والے شخص کا نام ہے
ابوالخطاب عمر بن الحسن المعروف بابن دحیا کلبی متوفی 633هہ
حافظ حجر اپنی کتاب لسان المیزان جلد 2 صفحہ 295 میں لکهتے ہیں کہ میں نے تمام لوگوں کو دحیا کلبی کے جهوٹ اور ضعیف ہونے پر متفق پایا ہے

امام احمد بصری لکهتے هیں چاروں مذاہب کے علماء عید میلاد منانے اور اس میں شامل ہو نے کی برائی پر اتفاق کر لیا ہے
(حوالہ تاریخ میلاد صفحہ 115)
ج

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکهتے کسی پیغمبر کی وفات یا تولد کے دن کو عید کی طرح منانا جائز نہیں ہے
(حوالہ تحفہ اثنا عشر یه)

علامہ رشید رضا
میلاد کا یہ عمل بدعت ہے خیرالقرون کے سلف صالحین میں سے کسی کی طرف سے اس کی بابت کوئی چیز منقول نہیں هے
(حوالہ محفل میلاد النبی پر تحقیقی بحث عبداللہ بن زید المحمود صفحہ 63)

علامہ تاج الدین
فاکهانی نے کہا کہ محفل میلاد کی کوئی اصل، کتاب وسنت سے مجھے نہیں ملی اور نہ ایسے علماء سے منقول ہے جو دین کے پیشوا اور آثار سلف سے تمسک کر نے والے تهے بلکہ وہ ایک بدعت ہے جسے باطل پرستوں نے ایجاد کیا ہے
(حوالہ المنکرات فی العقائد )

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ
عمل مولد بعض لوگوں نے نصاریٰ کی اتباع میں ایجاد کیا ہے یا نبی کی تعظیم میں آپکےیوم ولادت کے موقع پر جو عید میلاد منائی جارتی ہے یہ عمل مولد سلف صالحین نے نہیں کیا (حوالہ اقتضاءالصراط المستقیم)

علامہ شیخ احمد بن حجر
عید میلاد النبی کی بدعت ساتویں صدی ہجری میں موصل میں واقع اربل کے بادشاہ مظفر نے ایجاد کی تهی(حوالہ بدعت اور ان کا شرعی پوسٹ مارٹم ڈاکٹر یوسف قرضاوی


حافظ ابوبخکربغدادی حنفی {المنکرات فی العقائد) میں لکهتے هیں بےشک عید ملادالنبی کا عمل سلف سے منقول نهیں هے

محمدبن ابوبکرمخزومی کهتےهیں تمام برائیوں سے بڑھکربرائی رسولﷺ کا میلاد کرنا هے (تاریخ میلاد)
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
جب ایک چیز ”شرع“ میں ثابت ہی نہیں تو اسکی کیا” حیثیت“ہو گی ؟ اور ”بے جا تاویلات“اسے ”شرع“ثابت کرنے سے قطعاً ”عاجز“ ہیں۔
 

imran shahzad tarar

مبتدی
شمولیت
اگست 30، 2016
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
16
عید میلادالنبی پر ایک مکالمہ کو جے پی جی فارمیٹ میں کنورٹ کر کے پیش کیا گیا ہے
 

اٹیچمنٹس

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
عید میلاد کی شرعی حیثیت

علامہ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

مروّجہ جشنِ عید ِمیلاد ِالنبی کی قرآن و حدیث میں کوئی اصل نہیں ،اس کی ابتدا چوتھی صدی ہجری میں ہوئی ، سب سے پہلے مصر میں نام نہاد فاطمی شیعوں نے یہ جشن منایا۔
(الخطط للمقریزی : ١/٤٩٠وغیرہ)
نبی کے یوم ِولادت کو یومِ عید قرار دینا عیسائیوں کا وطیرہ ہے ، مروّجہ عید ِمیلادِ النبی،عید ِمیلادِ عیسیٰ علیہ السلام کے مشابہ ہے اور بدعتِ سیّئہ ہے ، جبکہ کفار کی مشابہت اور ان کی رسومات پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔
صحابہ کرام کے زمانہ بلکہ تینوں زمانوں میں اس کا وجود نہیں ملتا، بعد کی ایجاد ہے ۔
جناب احمد یار خاں نعیمی بریلوی صاحب نقل کرتے ہیں :
لَمْ یَفْعَلْہُ أَحَدٌ مِّنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَۃِ، إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدُ .
میلاد شریف تینوں زمانوں میں کسی نے نہ کیا ، بعد میں ایجاد ہوا ۔''(جاء الحق : ١/٢٣٦)
جناب غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب یوں اعتراف ِحقیقت کرتے ہیں:
''سلف صالحین یعنی صحابہ اور تابعین نے محافلِ میلاد نہیں منعقد کیں بجا ہے۔''
(شرح صحیح مسلم : ٣/١٧٩)
جناب عبد السمیع رامپوری بریلوی لکھتے ہیں :
''یہ سامان فرحت و سرور اور وہ بھی مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وہی بارہواں دن میلاد شریف کا معین کرنا بعد میں ہوایعنی چھٹی صدی کے آخر میں۔''(انوارِ ساطعہ : ١٥٩)

اہلِ بدعت علی الاعلان تسلیم کر رہے ہیں کہ صحابہ و تابعین نے یہ جشن نہیں منایا ، ہم بھی یہی کہتے ہیں ، لہٰذا یہ کہنا کہ اس فعل سے منع بھی تو نہیں کیا ، یہ سراسر جہالت اور سنت دشمنی کی دلیل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نعمت ِعظمیٰ ہیں ، اس نعمت کی قدرآپ کی اطاعت و اتّباع اور آپ کی سنّتوں سے محبت میں ہے ، نہ کہ دینِ حق میں بدعات و خرافات جاری کرنے میں ۔
بدعتی حضرات خود اس میلاد کے بارے میں‌ یہ اقرار بھی کرتے ہیں‌ کہ صحابہ کرام اور تابعین اور ائمہ دین کے دور میں اس کا وجود نہ تھا بلکہ چھٹی صدی کے آخر میں‌ شروع ہوا ، پھر اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم اس کو منانے کے دلائل بھی رکھتے ہیں‌ ۔ کیسی بات ہے کہ وہ دلائل چھ صدیوں‌ تک کسی مسلمان کو سمجھ نہ آئے !!!

آئیے ان دلائل کا علمی جائزہ لیتے ہیں‌ :‌

شبہ نمبر 1 : اہلِ بدعت بدعات کی آڑ میں قرآن ِ پاک میں معنوی تحریف کے بھی مرتکب ہو تے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(قُلْ بِفَضْلِ الْلّٰہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا) (یونس : ٥٨)
''کہہ دیجئے کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کی بنا پر لوگ خوش ہو جائیں ۔''
بدعتی ترجمہ یہ ہے : ''اللہ تعالیٰ کے فضل ا و راس کی رحمت پرخوشی مناؤ۔''حالانکہ ''فَرِحَ'' کا معنی خوش ہونا یا خوشی محسوس کرنا ہوتا ہے ، نہ کہ خوشی منانا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ)(التوبۃ: ٨١) ''(غزوہ تبوک سے) پیچھے رہ جانے والے (منافقین )خوش ہوئے۔'' کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے خوشی منائی تھی ؟
صحیح بخاری (١٩١٥)میں ہے کہ جب سورۃ البقرۃ کی آےت (١٨٧)نازل ہوئی فَفَرِحُوا بِہَا فَرَحًا شَدِیدًا . ''تو اس پر صحابہ کرام بہت خوش ہوئے ۔''
کیا صحابہ کرام نے خوشی منائی اور جلو س نکالا؟

شبہ نمبر 2 :
سیّدنا معاویہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ایک حلقے کے پاس تشریف لائے اور فرمایا، کیسے بیٹھے ہو ؟صحابہ نے عرض کی:
[جَلَسْنَا نَدْعُوا اللّٰہَ ، وَنَحْمَدُہ، عَلٰی مَا ہَدَانَا لِدِینِہٖ ، وَمَنَّ عَلَیْنَا بِکَ]
'' ہم بیٹھ کر اللہ سے دعا کر رہے ہیں اور اس نے ہمیں جو ہدایت دی ہے اور آپ کی صورت میں ہم پر جو احسان کیا ہے ،اس پر اسکی تعریف کر رہے ہیں ۔''
(مسند الامام أحمد : ٤/٩٢، سنن النسائي : ٥٤٢٨، جامع الترمذي : ٣٣٧٩، وسندہ، حسنٌ)
اہلِ بدعت کا اس حدیث سے مروّجہ جشنِ عید ِ میلاد کے جواز پر استدلال کرنا صحیح نہیں،کسی ثقہ امام نے اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت نہیں کیا، اس حدیث سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کا وہ حلقہ اللہ تعالیٰ کے احسانات پر اسکی تعریف بیان کر رہا تھا اور دعا کر رہا تھا، نہ کہ بدعتیوں کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ِولادت کو جشن منا رہا تھا،اس پر سہا گہ یہ کہ اکابرِ اہلِ بدعت کو اعتراف ہے کہ تینوں زمانوں میں میلاد کسی نے نہ منایا، بعد میں ایجاد ہوا،متعدّد علماء نے اس جشن کو بدعت ِمذمومہ قرار دیا ہے ۔
(دیکھیے: المدخل : ٢/٢٢٩،٢٣٤، الحاوي للفتاوي للسیوطي : ١/١٩٠۔١٩١)

شبہ نمبر 3 :
احمد یا ر خاں نعیمی لکھتے ہیں :
''عیسیٰ علیہ السلام نے دعاکی تھی:(رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا)(المائدہ : ١١٤)معلوم ہوا کہ مائدہ آنے کے دن کو حضرت مسیح علیہ السلام نے عید کا دن بنایا ۔''('جاء الحق' : ١/٢٣١)
یہ کس آیت یا حدیث کا معنی و مفہوم ہے؟ آیت ِ کریمہ کا ترجمہ تو یہ ہے :
''اے ہمارے رب ! ہم پر کھانا نازل فرما جو ہمارے پہلوں اور پچھلوں کے لیے باعث ِ خوشی ہو جائے ۔''
مطلب یہ ہے کہ وہ کھانا ہمارے لیے خوشی کا باعث ہو ، نہ کہ وہ دن جس دن کھانا اتارا جائے ، لہٰذا نعیمی صاحب کا یہ کہنا ''معلوم ہو ا کہ مائدہ کے دن کو حضرت مسیح علیہ السلام نے عید کا دن بنایا '' بے دلیل اوربے ثبوت ہے ، جو کہ قرآنِ مجید کی معنوی تحریف کے مترادف ہے ۔

شبہ نمبر 4 :
قَالَ عُرْوَۃُ : وَثُوَیْبَۃُ مَوْلاَۃٌ لِّأَبِي لَہَبٍ کَانَ أَبُو لَہَبٍ أَعْتَقَہَا، فَأَرْضَعَتِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا مَاتَ أَبُو لَہَبٍ أُرِیَہ، بَعْضُ أَہْلِہٖ بِشَرِّ حِیبَۃٍ، قَالَ لَہ، : مَاذَا لَقِیتَ؟ قَالَ أَبُو لَہَبٍ : لَمْ أَلْقَ بَعْدَکُمْ غَیْرَ أَنِّي سُقِیتُ فِي ہَذِہٖ بِعَتَاقَتِي ثُوَیْبَۃَ .
''عروہ بن زبیر تابعی کا بیان ہے کہ ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی ، ابو لہب نے اس کو آزاد کر دیا ، اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا،جب ابولہب مرا تو اس کے بعد اہل خانہ کو برے حال میں دکھایا گیا ، اس نے اس (ابو لہب )سے پوچھا ، تو نے کیا پایا ہے ؟ ابو لہب بولا کہ تمہارے بعد میں نے کوئی راحت نہیں پائی، ماسوائے اس کے کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے اس ( انگوٹھے اور اگشت ِ شہادت کے درمیان گڑھے )سے پلایا جاتا ہوں۔''
(صحیح البخاري : ٢/٧٦٤، تحت الحدیث : ٥١٠١، نصب الرایۃ للزیلعي : ٣/١٦٨)
1٭ یہ عروہ بن زبیر تابعی کا قول ہے ، جو مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف و ناقابل استدلال ہے ، حیرانی اس بات پر ہے کہ جو لوگ عقائد میں خبرِ واحد کو حجت نہیں مانتے ، وہ تابعی کے اس ''ضعیف '' قول کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ۔
2٭ ایک کافر کے بعض اہل خانہ کے خواب کاکیا اعتبار ؟
3٭ یہ خواب نصِّ قرآنی کے خلاف ہے ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(تَبَّتْ یَدَا أَبِي لَہَبٍ وَّتَبَّ ٭ مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہ، وَمَا کَسَبَ)(اللھب : ١، ٢)
''ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ خود بھی ہلاک ہوگیا ، اسے اس کے مال اور اعمال نے کچھ فائدہ نہ دیا ۔''
4٭ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس نے اپنی لونڈی ثویبہ کو اس وجہ سے آزاد کیا تھا کہ اس نے ابولہب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشخبری سنائی تھی ، اس کے باوجود احمد یا ر خاں نعیمی بریلوی صاحب یوں کذب بیانی سے کام لیتے ہیں :
''بات یہ تھی کہ ابو لہب حضرت عبداللہ کا بھائی تھا ، اس کی لونڈی ثویبہ نے آکر اس کو خبر دی کہ آج تیرے بھائی عبداللہ کے گھر فرزند (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)پیدا ہوئے، اس نے خوشی میں اس لونڈی کو انگلی کے اشارے سے کہا کہ جا تو آزاد ہے ۔''('جاء الحق' : ١/٢٣٥)
نامعلوم بریلوی عوام اتنے بڑے بڑے جھوٹوں پر کیسے ایمان لے آتے ہیں ؟
یومِ وفات : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت با سعادت میں اختلاف ہے ، شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:''ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت دس محرم کو ہوئی ہے۔''(غنیۃ الطّالبین : ٢/٣٩٢،طبع بیروت)
ہمیں اس اختلاف سے کوئی سروکار نہیں،دیکھنا صرف یہ ہے کہ جو لوگ بارہ ربیع الاول کو جشنِ میلادِ النبی صلی اللہ علیہ وسلم مناتے ہیں، ان کے نزدیک آپ کی تاریخِ وفات کونسی ہے ؟
جناب احمد رضا خاںبریلوی لکھتے ہیں: ''نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ١٢ ربیع الاول دو شنبہ کو ہے اور اسی میں وفات شریف ہے ۔'' (ملفوظات : ٢/٢٢٠)
معلوم ہوا کہ بریلویت کے امام احمد رضا خاں کی تحقیق یہ ہے کہ آپ کی ولادت اور وفات ١٢ ربیع الاول کو ہوئی ہے ، کچھ عرصہ پہلے یہ لوگ بارہ ربیع الاول کو ''بارہ وفات '' کہہ کر پکارتے تھے اور ختم دلواتے تھے ،بڑی عجیب بات ہے کہ آج یہی لوگ اس دن کو عید ِمیلادِ النبی کا جشن مناتے ہیں ، کتنا تضاد ہے ان کے آج اور کل میں؟؟
بارہ ربیع الاول کو صحابہ کرام کی غم کے مارے کیا حالت تھی ، اس کا کچھ اندازہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے ہو سکتا ہے ، فرماتے ہیں :
[لَمَّا کَانَ الْیَوْمُ الَّذِي قَدِمَ فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ، أَضَاء َ مِنْہَا کُلُّ شَيْء ٍ، فَلَمَّا کَانَ الْیَوْمُ الَّذِی مَاتَ فِیہِ، أَظْلَمَ مِنْہَا کُلُّ شَيْء ٍ]
''جس دن نبی ئاکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں (ہجرت فرما کر ) تشریف لائے تھے ، اس کی ہر چیز (خوشی سے )چمک اٹھی تھی اور جس دن آپ نے وفات پائی ، اس کی ہر چیز(فرطِ غم سے ) اندھیری ہو گئی تھی ۔''
(مسند الإمام أحمد : ٣/٢٢١،٢٦٨، جامع الترمذي : ٣٦١٨، سنن ابن ماجہ : ١٦٣١، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی ، امام ابن حبان(٦٦٣٤)نے ''صحیح ''اور امام حاکم (٣/٥٧)نے امام مسلم کی شرط پر'' صحیح ''کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی مو افقت کی ہے ۔
سیدنا عمررضی اللہ عنہ جیسے جری و بہادرانسان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت ِآیات کاسن کر شدتِ غم میں گھٹنوں کے بل گر گئے تھے۔(صحیح بخاری :٤٤٥٤)
مگر افسوس ہے ان خواہشات پر ستوں اور پیٹ کے پجاریوں پر ، جنہیں صحابہ کرا م اور اہلِ بیت کی اس پریشانی کا احساس تک نہیں ہوا، اس دن کو اپنی شکم پروری کا ذریعہ بنا کر گلے میں پھولوںکے ہار ڈالے اچھلتے، کو دتے ، دھمال ڈالتے ، دیگیں پکاتے اور خو شیا ں مناتے نظر آتے ہیں!!!

مروّجہ عید میلاد النبی اور علمائے دین:
مروّجہ عید میلاد النبی کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ قرآن وحدیث میں اگر اس کی کوئی دلیل ہوتی تو صحابہ کرام اور سلف صالحین کو اس کا علم ہوتا اور وہ ضرور اس پر عمل کرتے ۔ معلوم ہوا کہ یہ بلاشک وشبہ بدعت ہے ، جیسا کہ :
1 تاج الدین عمر بن علی فاکہانی رحمہ اللہ (م ٧٣٤ھ) فرماتے ہیں :
إِنَّ عَمَلَ الْمَوْلَدِ بِدْعَۃٌ مَّذْمُومَۃٌ . ''میلاد منانامذموم بدعت ہے ۔''
(الحاوي للفتاوي للسیوطي : ١/١٩٠ [٢٤] )
نیز فرماتے ہیں : لَا أَعْلَمُ لِہٰذَا الْمَوْلَدِ أَصْلًا فِي کِتَابٍ وَّلاَ سُنَّۃٍ، وَلَا یُنْقَلُ عَمَلُہ، عَنْ أَحَدٍ مِّنْ عُلَمَاءِ الْـأُمَّۃِ الَّذِینَ ہُمُ الْقُدْوَۃُ فِي الدِّینِ الْمُتَمَسِّکُونَ بِآثَارِ الْمُتَقَدِّمِینَ، بَلْ ہُوَ بِدْعَۃٌ أَحْدَثَہَا الْبَطَّالُونَ، وَشَہْوَۃُ نَفْسٍ اعْتَنٰی بِہَا الْـأَکَّالُونَ .
''میں اس میلاد کی کوئی دلیل کتاب وسنت میں نہیں پاتا۔ نہ ہی اس کا عمل ان علمائے امت سے منقول ہے جو دین میں ہمارے پیشوا ہیں اور متقدمین کے آثار کو لازم پکڑنے والے ہیں ، بلکہ یہ ایسی بدعت ہے جسے باطل پرست لوگوں نے ایجاد کیا ہے اور ایسی نفسانی خواہش ہے جس کا اہتمام شکم پرور(پیٹ پرست) لوگوں نے کیا ہے ۔ ''(الحاوي للسیوطي : ١/١٩٠۔١٩١)

2 علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م ٧٩٠ھ) نے بھی عید میلاد النبی کو بدعت قرار دیا ہے۔
(الاعتصام للشاطبي : ١/٣٩)
3 شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :
فَإِنَّ ہٰذَا لَمْ یَفْعَلْہُ السَّلَفُ مَعَ قِیَامِ الْمُقْتَضٰی لَہ،، وَعَدَمِ الْمَانِعِ مِنْہُ، وَلَوْ کَانَ ہٰذَا خَیْرًا مَّحْضًا أَوْ رَاجِحًا لَّکَانَ السَّلَفُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَحَقَّ بِہٖ مِنَّا، فَإِنَّہُمْ کَانُوا أَشَدَّ مَحَبَّۃً لِّرَسُولِ اللّٰہِ وَتَعْظِیمًا لَّہ، مِنَّا، وَہُمْ عَلَی الْخَیْرِ أَحْرَصَ .
''یہ کام سلف صالحین نے نہیں کیا، باوجود اس بات کے کہ اس کا تقاضا (تعظیم ِ رسول) موجود تھا اور کوئی رکاوٹ بھی نہ تھی ۔ اگر یہ کام بالکل خیر والا یا زیادہ خیر والا ہو تا تو اسلاف اس پر عمل کے حوالے سے ہم سے زیادہ حقدار تھے ، کیونکہ وہ رسول اللہeکی محبت اور آپeکی تعظیم میں ہم سے بڑھ کر تھے اور وہ نیکی کے زیادہ طلب گار تھے ۔ ''
(اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیۃ، ص : ٢٩٥)

4 حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) فرماتے ہیں :
أَصْلُ عَمَلِ الْمَوْلَدِ بِدْعَۃٌ، لَمْ تُنْقَلْ عَنْ أَحَدٍ مِّنَ السَّلَفِ الصَّالِحِ مِنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَۃِ . ''میلاد کے عمل کی اصل بدعت ہے ۔ یہ عمل تین (مشہود لہا بالخیر)زمانوں کے سلف صالحین میں سے کسی سے منقول نہیں ۔ ''(الحاوي للفتاوي للسیوطي : ١/١٩٦)
5 محمد بن محمد بن محمد ابن الحاج (م ٧٣٧ھ) فرماتے ہیں :
فَإِنْ خَلَا مِنْہُ وَعُمِلَ طَعَامًا فَقَطْ، وَنَوٰی بِہِ الْمَوْلَدَ، وَدَعَا إِلَیْہِ الْإِخْوَانَ، وَسَلِمَ مِنْ کُلِّ مَا تَقَدَّمَ ذِکْرُہ،، فَہُوَ بِدْعَۃٌ بِنَفْسِ نِیَّتِہٖ فَقَطْ، لِأَنَّ ذٰلِکَ زِیَادَۃٌ فِي الدِّینِ، وَلَیْسَ مِنْ عَمَلِ السَّلَفِ الْمَاضِینَ، وَاتِّبَاعُ السَّلَفِ أَوْلٰی، وَلَمْ یُنْقَلْ عَنْ أَحَدٍ مِّنْہُمْ أَنَّہ، نَوَی الْمَوْلَدَ، وَنَحْنُ تَبَعٌ، فَیَسَعُنَا مَا وَسِعَہُمْ .
''اگر میلاد اس(گانے بجانے)سے خالی ہو اور صرف کھانا بنایا جائے اور نیت میلاد کی ہواور کھانے پر دوست احباب کو مدعو کیا جائے۔یہ کام اگر مذکورہ قباحتوں سے خالی بھی ہوتو یہ صرف اس کی نیت کی وجہ سے بدعت بن جائے گا،کیونکہ یہ دین میں زیادت ہے ۔ سلف صالحین کا اس پر عمل نہیں۔ سلف کی اتباع ہی لائقِ عمل ہے ۔ سلف صالحین میں سے کسی سے یہ منقول نہیں کہ اس نے میلاد کی نیت سے کوئی کام کیا ہو ۔ ہم سلف صالحین کے پیروکار ہیں ۔ ہمیں وہی عمل کافی ہوجائے گاجو سلف کو کافی ہوا تھا۔''(الحاوي للفتاوي للسیوطي : ١/١٩٥)

6 حافظ سخاوی رحمہ اللہ (٨٣١۔ ٩٠٢ھ) لکھتے ہیں :
لَمْ یَفْعَلْہُ أَحَدٌ مِّنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَۃِ، إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدُ .
''یہ کام تینوں زمانوں (صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین )میں سے کسی نے نہیں کیا۔ یہ تو بعد میں ایجاد ہوا۔''('جاء الحق' از نعیمی : ١/٢٣٦)
7 حافظ سیوطی رحمہ اللہ (٨٤٩۔ ٩١١ھ) فرماتے ہیں : وَأَوَّلُ مَنْ أَحْدَثَ فِعْلَ ذٰلِکَ صَاحِبُ أَرْبَلَ الْمَلِکُ الْمُظَفَّرُ أَبُو سَعِیدٍ کَوْکَبْرِيٌّ ۔۔۔
''سب سے پہلے جس نے اسے ایجاد کیا وہ اربل کا بادشاہ مظفر ابوسعید کوکبری تھا۔''
(الحاوي للفتاوي للسیوطي : ١/١٨٩ [٢٤] )
علمائے کرام کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ عید میلاد النبی سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے، بلکہ بعد کی ایجاد ہے ۔
ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ!!!
اس بدعت ِعید ِمیلاد کے تحت بے شمار بدعات ، خرافات ،ہفوات ،ترہات ،بیسیوں محرّمات اور منکرات نے جنم لے لیا ہے ، جیسا کہ روضہ رسول کی شبیہ بنانا ،شرکیہ نعتیں پڑھنا ، مجلس کے آخر میں قیام ا س عقیدت کے تحت کرنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں خود حاضر ہوتے ہیں،(العیاذباللہ)، شیرینی تقسیم کرنا ، دیگیں پکانا ، دروازے اور پہاڑیاں بنانا ، عمارتوں پر چراغاں کرنا ،جھنڈیاں لگانا ، ان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین شریفیں کی تصویر بنانا ،مخصوص لباس پہننا، تصویریںاتارنا، رقص و وجد کا اہتمام کرنا، شب بیداری کرنا ، اجتماعی نوافل ، اجتماعی روزے ،اجتماعی قرآن خوانی ، عورتوں مردوں کا اختلاط ، نوجوان لڑ کوں کا جلوس میں شرکت کرنا اور عورتوں کا ان کو دیکھنا ، آتش بازی ،مشعل بردار جلوس ،جو کہ عیسائیوں کا وطیرہ ہے ، گانے بجانے، فحاشی وعریانی ، فسق و فجور ، دکھاوا اور ریاکاری ، من گھڑ ت قصے کہانیوں اور جھوٹی روایات کا بیان ،انبیاء ، ملائکہ ،صحابہ کرام کے بارے میں شرکیہ اور کفریہ عقیدے کا اظہار، قوالی ، لہوولعب، مال و دولت اور وقت کا ضیاع وغیرہ، بلکہ اب تو ان پروگراموںمیں بد امنی ، لڑائی جھگڑا ، قتل و غارت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
یہ بدعت ِقبیحہ ، ضلالہ اور سیّئہ ،کم علم ، جاہل اور بدعتی ملاّؤں کی شکم پروری کا بہت بڑا ذریعہ ہے ، جو اس بدعت کی آڑ میں اپنے مذہبی تعصب ، باطل نظریات کا اظہار کرتے ہیں ، تکفیر و تفسیق ، فتوی بازی ، گالی گلوچ اور بکواسات کا بازار گرم کرتے ہیں، وہ اس بدعت کو کفر اور اسلام کا معیار سمجھتے ہوئے اس پر عمل نہ کرنے والوں کو ابلیس کہتے ہیں ، موحدین کی مساجد کے سامنے نعرہ بازی ، شور وغل ، ہنگامہ آرائی اور اپنے انتقامی جذبات کی تسکین بھی اسی بہانے کرتے ہیں۔
إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ٭
اللہ تعالیٰ ہمیں سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل کرنے اور بدعات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

دار الاسلاف
منہج سلف کا علمبردار ادارہ
 
Last edited:

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
عید میلاد کی شرعی حیثیت

علامہ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

مروّجہ جشنِ عید ِمیلاد ِالنبی کی قرآن و حدیث میں کوئی اصل نہیں ،اس کی ابتدا چوتھی صدی ہجری میں ہوئی ، سب سے پہلے مصر میں نام نہاد فاطمی شیعوں نے یہ جشن منایا۔
(الخطط للمقریزی : ١/٤٩٠وغیرہ)
نبی کے یوم ِولادت کو یومِ عید قرار دینا عیسائیوں کا وطیرہ ہے ، مروّجہ عید ِمیلادِ النبی،عید ِمیلادِ عیسیٰ علیہ السلام کے مشابہ ہے اور بدعتِ سیّئہ ہے ، جبکہ کفار کی مشابہت اور ان کی رسومات پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔
صحابہ کرام کے زمانہ بلکہ تینوں زمانوں میں اس کا وجود نہیں ملتا، بعد کی ایجاد ہے ۔
جناب احمد یار خاں نعیمی بریلوی صاحب نقل کرتے ہیں :
لَمْ یَفْعَلْہُ أَحَدٌ مِّنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَۃِ، إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدُ .
میلاد شریف تینوں زمانوں میں کسی نے نہ کیا ، بعد میں ایجاد ہوا ۔''(جاء الحق : ١/٢٣٦)
جناب غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب یوں اعتراف ِحقیقت کرتے ہیں:

(شرح صحیح مسلم : ٣/١٧٩)
جناب عبد السمیع رامپوری بریلوی لکھتے ہیں :
''یہ سامان فرحت و سرور اور وہ بھی مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وہی بارہواں دن میلاد شریف کا معین کرنا بعد میں ہوایعنی چھٹی صدی کے آخر میں۔''(انوارِ ساطعہ : ١٥٩)

اہلِ بدعت علی الاعلان تسلیم کر رہے ہیں کہ صحابہ و تابعین نے یہ جشن نہیں منایا ، ہم بھی یہی کہتے ہیں ، لہٰذا یہ کہنا کہ اس فعل سے منع بھی تو نہیں کیا ، یہ سراسر جہالت اور سنت دشمنی کی دلیل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نعمت ِعظمیٰ ہیں ، اس نعمت کی قدرآپ کی اطاعت و اتّباع اور آپ کی سنّتوں سے محبت میں ہے ، نہ کہ دینِ حق میں بدعات و خرافات جاری کرنے میں ۔
بدعتی حضرات خود اس میلاد کے بارے میں‌ یہ اقرار بھی کرتے ہیں‌ کہ صحابہ کرام اور تابعین اور ائمہ دین کے دور میں اس کا وجود نہ تھا بلکہ چھٹی صدی کے آخر میں‌ شروع ہوا ، پھر اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم اس کو منانے کے دلائل بھی رکھتے ہیں‌ ۔ کیسی بات ہے کہ وہ دلائل چھ صدیوں‌ تک کسی مسلمان کو سمجھ نہ آئے !!!

آئیے ان دلائل کا علمی جائزہ لیتے ہیں‌ :‌

شبہ نمبر 1 : اہلِ بدعت بدعات کی آڑ میں قرآن ِ پاک میں معنوی تحریف کے بھی مرتکب ہو تے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(قُلْ بِفَضْلِ الْلّٰہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا) (یونس : ٥٨)
''کہہ دیجئے کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کی بنا پر لوگ خوش ہو جائیں ۔''
بدعتی ترجمہ یہ ہے : ''اللہ تعالیٰ کے فضل ا و راس کی رحمت پرخوشی مناؤ۔''حالانکہ ''فَرِحَ'' کا معنی خوش ہونا یا خوشی محسوس کرنا ہوتا ہے ، نہ کہ خوشی منانا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ)(التوبۃ: ٨١) ''(غزوہ تبوک سے) پیچھے رہ جانے والے (منافقین )خوش ہوئے۔'' کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے خوشی منائی تھی ؟
صحیح بخاری (١٩١٥)میں ہے کہ جب سورۃ البقرۃ کی آےت (١٨٧)نازل ہوئی فَفَرِحُوا بِہَا فَرَحًا شَدِیدًا . ''تو اس پر صحابہ کرام بہت خوش ہوئے ۔''
کیا صحابہ کرام نے خوشی منائی اور جلو س نکالا؟

شبہ نمبر 2 :
سیّدنا معاویہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ایک حلقے کے پاس تشریف لائے اور فرمایا، کیسے بیٹھے ہو ؟صحابہ نے عرض کی:
[جَلَسْنَا نَدْعُوا اللّٰہَ ، وَنَحْمَدُہ، عَلٰی مَا ہَدَانَا لِدِینِہٖ ، وَمَنَّ عَلَیْنَا بِکَ]
'' ہم بیٹھ کر اللہ سے دعا کر رہے ہیں اور اس نے ہمیں جو ہدایت دی ہے اور آپ کی صورت میں ہم پر جو احسان کیا ہے ،اس پر اسکی تعریف کر رہے ہیں ۔''
(مسند الامام أحمد : ٤/٩٢، سنن النسائي : ٥٤٢٨، جامع الترمذي : ٣٣٧٩، وسندہ، حسنٌ)
اہلِ بدعت کا اس حدیث سے مروّجہ جشنِ عید ِ میلاد کے جواز پر استدلال کرنا صحیح نہیں،کسی ثقہ امام نے اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت نہیں کیا، اس حدیث سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کا وہ حلقہ اللہ تعالیٰ کے احسانات پر اسکی تعریف بیان کر رہا تھا اور دعا کر رہا تھا، نہ کہ بدعتیوں کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ِولادت کو جشن منا رہا تھا،اس پر سہا گہ یہ کہ اکابرِ اہلِ بدعت کو اعتراف ہے کہ تینوں زمانوں میں میلاد کسی نے نہ منایا، بعد میں ایجاد ہوا،متعدّد علماء نے اس جشن کو بدعت ِمذمومہ قرار دیا ہے ۔
(دیکھیے: المدخل : ٢/٢٢٩،٢٣٤، الحاوي للفتاوي للسیوطي : ١/١٩٠۔١٩١)

شبہ نمبر 3 :
احمد یا ر خاں نعیمی لکھتے ہیں :
''عیسیٰ علیہ السلام نے دعاکی تھی:(رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا)(المائدہ : ١١٤)معلوم ہوا کہ مائدہ آنے کے دن کو حضرت مسیح علیہ السلام نے عید کا دن بنایا ۔''('جاء الحق' : ١/٢٣١)
یہ کس آیت یا حدیث کا معنی و مفہوم ہے؟ آیت ِ کریمہ کا ترجمہ تو یہ ہے :
''اے ہمارے رب ! ہم پر کھانا نازل فرما جو ہمارے پہلوں اور پچھلوں کے لیے باعث ِ خوشی ہو جائے ۔''
مطلب یہ ہے کہ وہ کھانا ہمارے لیے خوشی کا باعث ہو ، نہ کہ وہ دن جس دن کھانا اتارا جائے ، لہٰذا نعیمی صاحب کا یہ کہنا ''معلوم ہو ا کہ مائدہ کے دن کو حضرت مسیح علیہ السلام نے عید کا دن بنایا '' بے دلیل اوربے ثبوت ہے ، جو کہ قرآنِ مجید کی معنوی تحریف کے مترادف ہے ۔

شبہ نمبر 4 :
قَالَ عُرْوَۃُ : وَثُوَیْبَۃُ مَوْلاَۃٌ لِّأَبِي لَہَبٍ کَانَ أَبُو لَہَبٍ أَعْتَقَہَا، فَأَرْضَعَتِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا مَاتَ أَبُو لَہَبٍ أُرِیَہ، بَعْضُ أَہْلِہٖ بِشَرِّ حِیبَۃٍ، قَالَ لَہ، : مَاذَا لَقِیتَ؟ قَالَ أَبُو لَہَبٍ : لَمْ أَلْقَ بَعْدَکُمْ غَیْرَ أَنِّي سُقِیتُ فِي ہَذِہٖ بِعَتَاقَتِي ثُوَیْبَۃَ .
''عروہ بن زبیر تابعی کا بیان ہے کہ ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی ، ابو لہب نے اس کو آزاد کر دیا ، اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا،جب ابولہب مرا تو اس کے بعد اہل خانہ کو برے حال میں دکھایا گیا ، اس نے اس (ابو لہب )سے پوچھا ، تو نے کیا پایا ہے ؟ ابو لہب بولا کہ تمہارے بعد میں نے کوئی راحت نہیں پائی، ماسوائے اس کے کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے اس ( انگوٹھے اور اگشت ِ شہادت کے درمیان گڑھے )سے پلایا جاتا ہوں۔''
(صحیح البخاري : ٢/٧٦٤، تحت الحدیث : ٥١٠١، نصب الرایۃ للزیلعي : ٣/١٦٨)
1٭ یہ عروہ بن زبیر تابعی کا قول ہے ، جو مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف و ناقابل استدلال ہے ، حیرانی اس بات پر ہے کہ جو لوگ عقائد میں خبرِ واحد کو حجت نہیں مانتے ، وہ تابعی کے اس ''ضعیف '' قول کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ۔
2٭ ایک کافر کے بعض اہل خانہ کے خواب کاکیا اعتبار ؟
3٭ یہ خواب نصِّ قرآنی کے خلاف ہے ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(تَبَّتْ یَدَا أَبِي لَہَبٍ وَّتَبَّ ٭ مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہ، وَمَا کَسَبَ)(اللھب : ١، ٢)
''ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ خود بھی ہلاک ہوگیا ، اسے اس کے مال اور اعمال نے کچھ فائدہ نہ دیا ۔''
4٭ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس نے اپنی لونڈی ثویبہ کو اس وجہ سے آزاد کیا تھا کہ اس نے ابولہب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشخبری سنائی تھی ، اس کے باوجود احمد یا ر خاں نعیمی بریلوی صاحب یوں کذب بیانی سے کام لیتے ہیں :
''بات یہ تھی کہ ابو لہب حضرت عبداللہ کا بھائی تھا ، اس کی لونڈی ثویبہ نے آکر اس کو خبر دی کہ آج تیرے بھائی عبداللہ کے گھر فرزند (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)پیدا ہوئے، اس نے خوشی میں اس لونڈی کو انگلی کے اشارے سے کہا کہ جا تو آزاد ہے ۔''('جاء الحق' : ١/٢٣٥)
نامعلوم بریلوی عوام اتنے بڑے بڑے جھوٹوں پر کیسے ایمان لے آتے ہیں ؟
یومِ وفات : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت با سعادت میں اختلاف ہے ، شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:''ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت دس محرم کو ہوئی ہے۔''(غنیۃ الطّالبین : ٢/٣٩٢،طبع بیروت)
ہمیں اس اختلاف سے کوئی سروکار نہیں،دیکھنا صرف یہ ہے کہ جو لوگ بارہ ربیع الاول کو جشنِ میلادِ النبی صلی اللہ علیہ وسلم مناتے ہیں، ان کے نزدیک آپ کی تاریخِ وفات کونسی ہے ؟
جناب احمد رضا خاںبریلوی لکھتے ہیں: ''نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ١٢ ربیع الاول دو شنبہ کو ہے اور اسی میں وفات شریف ہے ۔'' (ملفوظات : ٢/٢٢٠)
معلوم ہوا کہ بریلویت کے امام احمد رضا خاں کی تحقیق یہ ہے کہ آپ کی ولادت اور وفات ١٢ ربیع الاول کو ہوئی ہے ، کچھ عرصہ پہلے یہ لوگ بارہ ربیع الاول کو ''بارہ وفات '' کہہ کر پکارتے تھے اور ختم دلواتے تھے ،بڑی عجیب بات ہے کہ آج یہی لوگ اس دن کو عید ِمیلادِ النبی کا جشن مناتے ہیں ، کتنا تضاد ہے ان کے آج اور کل میں؟؟
بارہ ربیع الاول کو صحابہ کرام کی غم کے مارے کیا حالت تھی ، اس کا کچھ اندازہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے ہو سکتا ہے ، فرماتے ہیں :
[لَمَّا کَانَ الْیَوْمُ الَّذِي قَدِمَ فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ، أَضَاء َ مِنْہَا کُلُّ شَيْء ٍ، فَلَمَّا کَانَ الْیَوْمُ الَّذِی مَاتَ فِیہِ، أَظْلَمَ مِنْہَا کُلُّ شَيْء ٍ]
''جس دن نبی ئاکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں (ہجرت فرما کر ) تشریف لائے تھے ، اس کی ہر چیز (خوشی سے )چمک اٹھی تھی اور جس دن آپ نے وفات پائی ، اس کی ہر چیز(فرطِ غم سے ) اندھیری ہو گئی تھی ۔''
(مسند الإمام أحمد : ٣/٢٢١،٢٦٨، جامع الترمذي : ٣٦١٨، سنن ابن ماجہ : ١٦٣١، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی ، امام ابن حبان(٦٦٣٤)نے ''صحیح ''اور امام حاکم (٣/٥٧)نے امام مسلم کی شرط پر'' صحیح ''کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی مو افقت کی ہے ۔
سیدنا عمررضی اللہ عنہ جیسے جری و بہادرانسان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت ِآیات کاسن کر شدتِ غم میں گھٹنوں کے بل گر گئے تھے۔(صحیح بخاری :٤٤٥٤)
مگر افسوس ہے ان خواہشات پر ستوں اور پیٹ کے پجاریوں پر ، جنہیں صحابہ کرا م اور اہلِ بیت کی اس پریشانی کا احساس تک نہیں ہوا، اس دن کو اپنی شکم پروری کا ذریعہ بنا کر گلے میں پھولوںکے ہار ڈالے اچھلتے، کو دتے ، دھمال ڈالتے ، دیگیں پکاتے اور خو شیا ں مناتے نظر آتے ہیں!!!

مروّجہ عید میلاد النبی اور علمائے دین:
مروّجہ عید میلاد النبی کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ قرآن وحدیث میں اگر اس کی کوئی دلیل ہوتی تو صحابہ کرام اور سلف صالحین کو اس کا علم ہوتا اور وہ ضرور اس پر عمل کرتے ۔ معلوم ہوا کہ یہ بلاشک وشبہ بدعت ہے ، جیسا کہ :
1 تاج الدین عمر بن علی فاکہانی رحمہ اللہ (م ٧٣٤ھ) فرماتے ہیں :
إِنَّ عَمَلَ الْمَوْلَدِ بِدْعَۃٌ مَّذْمُومَۃٌ . ''میلاد منانامذموم بدعت ہے ۔''
(الحاوي للفتاوي للسیوطي : ١/١٩٠ [٢٤] )
نیز فرماتے ہیں : لَا أَعْلَمُ لِہٰذَا الْمَوْلَدِ أَصْلًا فِي کِتَابٍ وَّلاَ سُنَّۃٍ، وَلَا یُنْقَلُ عَمَلُہ، عَنْ أَحَدٍ مِّنْ عُلَمَاءِ الْـأُمَّۃِ الَّذِینَ ہُمُ الْقُدْوَۃُ فِي الدِّینِ الْمُتَمَسِّکُونَ بِآثَارِ الْمُتَقَدِّمِینَ، بَلْ ہُوَ بِدْعَۃٌ أَحْدَثَہَا الْبَطَّالُونَ، وَشَہْوَۃُ نَفْسٍ اعْتَنٰی بِہَا الْـأَکَّالُونَ .
''میں اس میلاد کی کوئی دلیل کتاب وسنت میں نہیں پاتا۔ نہ ہی اس کا عمل ان علمائے امت سے منقول ہے جو دین میں ہمارے پیشوا ہیں اور متقدمین کے آثار کو لازم پکڑنے والے ہیں ، بلکہ یہ ایسی بدعت ہے جسے باطل پرست لوگوں نے ایجاد کیا ہے اور ایسی نفسانی خواہش ہے جس کا اہتمام شکم پرور(پیٹ پرست) لوگوں نے کیا ہے ۔ ''(الحاوي للسیوطي : ١/١٩٠۔١٩١)

2 علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م ٧٩٠ھ) نے بھی عید میلاد النبی کو بدعت قرار دیا ہے۔
(الاعتصام للشاطبي : ١/٣٩)
3 شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :
فَإِنَّ ہٰذَا لَمْ یَفْعَلْہُ السَّلَفُ مَعَ قِیَامِ الْمُقْتَضٰی لَہ،، وَعَدَمِ الْمَانِعِ مِنْہُ، وَلَوْ کَانَ ہٰذَا خَیْرًا مَّحْضًا أَوْ رَاجِحًا لَّکَانَ السَّلَفُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَحَقَّ بِہٖ مِنَّا، فَإِنَّہُمْ کَانُوا أَشَدَّ مَحَبَّۃً لِّرَسُولِ اللّٰہِ وَتَعْظِیمًا لَّہ، مِنَّا، وَہُمْ عَلَی الْخَیْرِ أَحْرَصَ .
''یہ کام سلف صالحین نے نہیں کیا، باوجود اس بات کے کہ اس کا تقاضا (تعظیم ِ رسول) موجود تھا اور کوئی رکاوٹ بھی نہ تھی ۔ اگر یہ کام بالکل خیر والا یا زیادہ خیر والا ہو تا تو اسلاف اس پر عمل کے حوالے سے ہم سے زیادہ حقدار تھے ، کیونکہ وہ رسول اللہeکی محبت اور آپeکی تعظیم میں ہم سے بڑھ کر تھے اور وہ نیکی کے زیادہ طلب گار تھے ۔ ''
(اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیۃ، ص : ٢٩٥)

4 حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) فرماتے ہیں :
أَصْلُ عَمَلِ الْمَوْلَدِ بِدْعَۃٌ، لَمْ تُنْقَلْ عَنْ أَحَدٍ مِّنَ السَّلَفِ الصَّالِحِ مِنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَۃِ . ''میلاد کے عمل کی اصل بدعت ہے ۔ یہ عمل تین (مشہود لہا بالخیر)زمانوں کے سلف صالحین میں سے کسی سے منقول نہیں ۔ ''(الحاوي للفتاوي للسیوطي : ١/١٩٦)
5 محمد بن محمد بن محمد ابن الحاج (م ٧٣٧ھ) فرماتے ہیں :
فَإِنْ خَلَا مِنْہُ وَعُمِلَ طَعَامًا فَقَطْ، وَنَوٰی بِہِ الْمَوْلَدَ، وَدَعَا إِلَیْہِ الْإِخْوَانَ، وَسَلِمَ مِنْ کُلِّ مَا تَقَدَّمَ ذِکْرُہ،، فَہُوَ بِدْعَۃٌ بِنَفْسِ نِیَّتِہٖ فَقَطْ، لِأَنَّ ذٰلِکَ زِیَادَۃٌ فِي الدِّینِ، وَلَیْسَ مِنْ عَمَلِ السَّلَفِ الْمَاضِینَ، وَاتِّبَاعُ السَّلَفِ أَوْلٰی، وَلَمْ یُنْقَلْ عَنْ أَحَدٍ مِّنْہُمْ أَنَّہ، نَوَی الْمَوْلَدَ، وَنَحْنُ تَبَعٌ، فَیَسَعُنَا مَا وَسِعَہُمْ .
''اگر میلاد اس(گانے بجانے)سے خالی ہو اور صرف کھانا بنایا جائے اور نیت میلاد کی ہواور کھانے پر دوست احباب کو مدعو کیا جائے۔یہ کام اگر مذکورہ قباحتوں سے خالی بھی ہوتو یہ صرف اس کی نیت کی وجہ سے بدعت بن جائے گا،کیونکہ یہ دین میں زیادت ہے ۔ سلف صالحین کا اس پر عمل نہیں۔ سلف کی اتباع ہی لائقِ عمل ہے ۔ سلف صالحین میں سے کسی سے یہ منقول نہیں کہ اس نے میلاد کی نیت سے کوئی کام کیا ہو ۔ ہم سلف صالحین کے پیروکار ہیں ۔ ہمیں وہی عمل کافی ہوجائے گاجو سلف کو کافی ہوا تھا۔''(الحاوي للفتاوي للسیوطي : ١/١٩٥)

6 حافظ سخاوی رحمہ اللہ (٨٣١۔ ٩٠٢ھ) لکھتے ہیں :
لَمْ یَفْعَلْہُ أَحَدٌ مِّنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَۃِ، إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدُ .
''یہ کام تینوں زمانوں (صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین )میں سے کسی نے نہیں کیا۔ یہ تو بعد میں ایجاد ہوا۔''('جاء الحق' از نعیمی : ١/٢٣٦)
7 حافظ سیوطی رحمہ اللہ (٨٤٩۔ ٩١١ھ) فرماتے ہیں : وَأَوَّلُ مَنْ أَحْدَثَ فِعْلَ ذٰلِکَ صَاحِبُ أَرْبَلَ الْمَلِکُ الْمُظَفَّرُ أَبُو سَعِیدٍ کَوْکَبْرِيٌّ ۔۔۔
''سب سے پہلے جس نے اسے ایجاد کیا وہ اربل کا بادشاہ مظفر ابوسعید کوکبری تھا۔''
(الحاوي للفتاوي للسیوطي : ١/١٨٩ [٢٤] )
علمائے کرام کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ عید میلاد النبی سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے، بلکہ بعد کی ایجاد ہے ۔
ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ!!!
اس بدعت ِعید ِمیلاد کے تحت بے شمار بدعات ، خرافات ،ہفوات ،ترہات ،بیسیوں محرّمات اور منکرات نے جنم لے لیا ہے ، جیسا کہ روضہ رسول کی شبیہ بنانا ،شرکیہ نعتیں پڑھنا ، مجلس کے آخر میں قیام ا س عقیدت کے تحت کرنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں خود حاضر ہوتے ہیں،(العیاذباللہ)، شیرینی تقسیم کرنا ، دیگیں پکانا ، دروازے اور پہاڑیاں بنانا ، عمارتوں پر چراغاں کرنا ،جھنڈیاں لگانا ، ان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین شریفیں کی تصویر بنانا ،مخصوص لباس پہننا، تصویریںاتارنا، رقص و وجد کا اہتمام کرنا، شب بیداری کرنا ، اجتماعی نوافل ، اجتماعی روزے ،اجتماعی قرآن خوانی ، عورتوں مردوں کا اختلاط ، نوجوان لڑ کوں کا جلوس میں شرکت کرنا اور عورتوں کا ان کو دیکھنا ، آتش بازی ،مشعل بردار جلوس ،جو کہ عیسائیوں کا وطیرہ ہے ، گانے بجانے، فحاشی وعریانی ، فسق و فجور ، دکھاوا اور ریاکاری ، من گھڑ ت قصے کہانیوں اور جھوٹی روایات کا بیان ،انبیاء ، ملائکہ ،صحابہ کرام کے بارے میں شرکیہ اور کفریہ عقیدے کا اظہار، قوالی ، لہوولعب، مال و دولت اور وقت کا ضیاع وغیرہ، بلکہ اب تو ان پروگراموںمیں بد امنی ، لڑائی جھگڑا ، قتل و غارت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
یہ بدعت ِقبیحہ ، ضلالہ اور سیّئہ ،کم علم ، جاہل اور بدعتی ملاّؤں کی شکم پروری کا بہت بڑا ذریعہ ہے ، جو اس بدعت کی آڑ میں اپنے مذہبی تعصب ، باطل نظریات کا اظہار کرتے ہیں ، تکفیر و تفسیق ، فتوی بازی ، گالی گلوچ اور بکواسات کا بازار گرم کرتے ہیں، وہ اس بدعت کو کفر اور اسلام کا معیار سمجھتے ہوئے اس پر عمل نہ کرنے والوں کو ابلیس کہتے ہیں ، موحدین کی مساجد کے سامنے نعرہ بازی ، شور وغل ، ہنگامہ آرائی اور اپنے انتقامی جذبات کی تسکین بھی اسی بہانے کرتے ہیں۔
إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ٭
اللہ تعالیٰ ہمیں سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل کرنے اور بدعات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

دار الاسلاف
منہج سلف کا علمبردار ادارہ
محترم @اسحاق سلفی صاحب
اگر کوئی شخص انفرادی طور پر اس مہینے میں سیرت طیبہ کا زیادہ تذکرہ کرے۔ زیادہ دور و سلام پڑھے۔ لوگوں کو کھانے کھلائے بغیر کسی خرافات کے ۔
یعنی جو طرق مروج ہوگئے ہیں ان سے بالکل ہٹ کر اپنے تئیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں درود اور نیک اعمال بڑھادے تو اس بارے میں کیا حکم ہے؟کیونکہ ہمیں تاریخ میں لوگوں کے انفرادی اعمال ملتے ہیں۔ امام مالک کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے مدینہ میں پاوں میں جوتا نہیں پہنا۔
کیا یہ اعمال مستحب یا مباح بھی کہلائے جاسکتے ہیں؟۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اگر کوئی شخص انفرادی طور پر اس مہینے میں سیرت طیبہ کا زیادہ تذکرہ کرے۔ زیادہ دور و سلام پڑھے۔ لوگوں کو کھانے کھلائے بغیر کسی خرافات کے ۔
یعنی جو طرق مروج ہوگئے ہیں ان سے بالکل ہٹ کر اپنے تئیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں درود اور نیک اعمال بڑھادے تو اس بارے میں کیا حکم ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ایک سچے مسلمان کو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور احادیث کا مطالعہ اور تذکرۃ ہر وقت ،روزانہ کرتے رہنا چاہیئے ،
اسی طرح ان پر درود و سلام کثرت سے ہر روز پڑھتے رہنا چاہیئے ،
لیکن اظہار محبت کےلئے وقت اور موسم کا خود ساختہ تعین اور تقرر بالکل جائز نہیں ،
کیونکہ :
(1) سیرت حبیب صلی اللہ علیہ وسلم جز وقتی چیز نہیں ،ایک کے صبح و شام ،رات دن ،غم و خوشی ہر حالت کی ایمانی ضرورت ہے ، جس کیلئے سال کا ایک مہینہ مخصوص کرنا بالکل کافی اور جائز نہیں ،
(2) محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
ماہ و سال کے خاص دائرے میں محدود نہیں ہوتی ،
کہ ربیع الاول میں تو اظہار محبت ہو لیکن ربیع الثانی ان کی یاد اور تذکرے سے خالی گزرے ،
خود پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ» صحیح بخاری
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک ایماندار نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔»

تو محبت کا تقاضا تو یہ کبھی حدیث مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھے سنے اور ساتھ درود بھی پڑھتا رہے ،کبھی نماز میں درود پڑھے ، کبھی قرآن میں ان کا تذکرہ و توصیف پڑھے ،سنے،
کبھی اذان کی دعاء میں ان کی تعریف و ثنا و دعاء کرے ،
کبھی خطبہ و درس میں ان کا تذکرہ و ارشادات سنے ،سنائے ،
کبی ان کے شمائل اور حسن و جمال کا رنگ و نور کتب شمائل میں دیکھے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
روایات میلاد تحقیقی تاریخی وتنقیدی جائزه

شیخ شاہ فیض الابرار صدیقی
مجلہ اسوہ حسنہ کراچی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کے واقعات جو عمومی طور پر کتبِ سیرت و میلاد میں پائے جاتے ہیں ان میں سے اکثر کی کوئی اصل نہیں ہے اور مستند کتب احادیث میں ان کا کوئی ذکر نہیں ملتا اور ان کا اصل ماخذ کتب دلائل معجزات و تاریخ ہیں جن میں صحیح، حسن اور ضعیف ہر قسم کی روایات موجود ہیں۔ ان کتب کی تالیف کا مقصد عمومی طور پر ایسے تمام واقعات کا احاطہ کرنا تھا جس میں صحیح و سقیم ، قوی و ضعیف کو مد نظر نہیں رکھا گیا گو کہ تاریخ و سیرت کی کتابوں میں بھی بڑی تعداد میں ضعیف اور منکر روایات پائی جاتی ہیں کیونکہ تاریخ کی کتب میں موجود روایات کے نقد و تحقیق پرمكمل توجہ نہیں دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر علوم کے اصول کی طرح ابھی تک اصولِ تاریخ وضع نہیں کئے گئے گو کہ ان روایات کا تعلق بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے تھا اصولاً تو احادیث کی طرح ان کی نقد و تحقیق کے اصول وضع کئے جانےچاہیے تھے لیکن اصولِ تاریخ کے نہ ہونے کی وجہ سے ایسی ضعیف اور موضوع روایات كا مكمل رد نہ ہوسکا۔​
شاہ ولی اللہ رحمه الله لکھتے ہیں:​
ان کتب میں زیادہ تر تو وہی روایات جمع کرنے کا قصد کیا گیا ہے جو حدیث کی مستند کتب میں شامل نہیںکی گئی تھیں یہ روایات عام طور پر قصہ گو واعظین کی زبان زد تھیں جو ان سے محض رونق محفل کا کام لیتے تھے ان کتب کے مولفین نے اسرائیلیات، قصص و حکایات اور حدیث کے مختلف ٹکڑوں کو حدیث کا درجہ دےکر باقاعدہ کتابوں میں مدون کیا۔(شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ جلدص 133)
بر صغیر پاک و ہند میں جو کتب میلاد ناموں کی حیثیت سے رائج ہیں ان کے ماخذ درج ذیل کتب دلائل و معجزات ہیں​
۱۔ دلائل النبوۃ، حافظ ابو نعیم رحمه الله (430ھ)
۲۔ دلائل النبوۃ، البیہقی رحمه الله (923ھ)
۳۔ المواھب اللدینہ، القسطلانی رحمه الله(923ھ)
۴۔ معارج النبوۃ ، ملا معین الدین الھروی رحمه الله (907)
۵۔ الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، قاضی عیاض موسیٰ رحمه الله (544ھ)
الخصائص الکبریٰ،حافظ سیوطی رحمه الله (911ھ)
مدارج النبوۃ، حافظ شاہ عبد الحق دھلوی رحمه الله (1052ھ)
میلاد ناموں کا دوسرا بڑا ماخذ کتب ِ سیرت ہیں جن میں قدیم ترین امام ابن اسحاق، علامه واقدی، ابن سعد، طبری کی کتب ہیں۔ عمومی طور پر متاخرین نے جتنی بھی کتب تالیف یا تصنیف کیں وہ سب بالواسطہ یا بلا واسطہ انہی کتب سے ماخوذ ہیں۔ ان کتب کا اگر تفصیل سے جائزہ لیا جائے تو جو صورتِ حال ہمارے سامنے آتی ہے وہ درج ذیل ہے۔​
کتب دلائل معجزات میں حافظ ابو نعیم رحمه الله اور بیہقی رحمه الله کی دلائل النبوۃ بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں کیونکہ بعد میں حافظ القسطلانی نے انہی دو کتب کی روایات کو بغیر نقد اور تحقیق کے اپنی کتاب المواھب اللدینیہ میں جمع کردیا جس میں صحیح روایات کی تعداد کم اور ہزاروں موضوع اور ضعیف روایات درج کی گئی ہیں۔ بعد میں ملا معین الدین الھروی رحمه الله نے معارج النبوۃ میں انہی روایات کو فارسی زبان میں بیان کیا چونکہ اس وقت بر صغیر کی علمی و معاشرتی زبان فارسی تھی، لہٰذا اس کتاب کی روایات کو پھیلنے میں زیادہ دیر نہ لگی اور برصغیر کی عمومی تاریخ میں یہ ویسے بھی بے راہ روی کا دور تھاجس میں یونانی فلسفہ اور تصوف کی تعلیمات کو اسلام کے نام سے پیش کیا جا رہا تھا۔ یونانی فلسفہ اور تصوف میںہندوانہ افکار کے حاملین صوفیاء نے اس تمام مواد کو اسلام کی طرف منسوب کرکے پیش کیا۔ جس کی وجہ سے میلاد ناموں کی ان ضعیف روایات کو جگہ بنانے میں آسانی ہوئی جن کے ضعف کی سب سے بنیادی دلیل یہ تھی کہ یہ تمام روایات بغیر سند کے بیان کی گئی تھی اور اسرائیلیات، اخبارِ یہود اور بے بنیاد عجیب و غریب روایات و حکایات سے بھرپور تھی، المواھب اللدینیہ اور معارج النبوۃ کے علاوہ دلائل النبوۃ کے نام سے موسوم دونوں کتب بھی غیر معتبر اور موضوع روایات پر مشتمل ہیں چونکہ ان کے مؤلفین نے ان روایات کو بغیر نقد و تحقیق کے قبول کرلیا تھا اور انہیں کتب میں درج کردیا اوربعد میں آنے والوں نے ان مولفین کی جلالت شان دیکھ کر ان روایات کو بلا نقد و تحقیق قبول کرلیا، ان روایات کو بیان کرنے والے ایسے راوی تھے جو ائمہ جرح و تعدیل کی آراء کے مطابق قطعاً احتجاج و اعتبار کے قابل نہ تھے۔​
یہی وجہ ہے کہ حافظ ابو نعیم رحمه الله، تساہل پسندی، موضوع روایات پر سکوت اور روایات کے نقل و جمع كرنے میں شمار هوتے ہیں۔ حافظ ابو نعیم رحمه الله پر اُن کے ہم عصرحافظ ابن مندہ رحمه الله نے بعض اوقات سخت الفاظ میں تنقید کی جس پر حافظ الذھبی رحمه الله نے میزان الاعتدال میں تحریر کیا: مجھے ان دونوں کا اس سے زیادہ غلطی معلوم نہیں کہ یہ موضوع روایات کو خاموشی کے ساتھ روایت کرجاتے هیں ۔ (56/1)
حافظ ابو نعیم رحمه اللهکے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمه الله کتاب التوسل میں بیان کرتے ہیں ۔ فضائل اعمال وغیرہ میں جن لوگوں نے کتب تصنیف کی مثلاً ابن السنی اور ابو نعیم وغیرہ ان کی کتب میں بہت سی روایات موضوع ہیں جن پر اتفاق کرنا، اعتبار کرنا، باتفاق العلماء جائز نہیں۔(ص193)
اور اس کتاب میں ایک مقام پر تحریر کیا کہ وہ فضائل اعمال وغیرہ میں بکثرت روایات بیان کرتے ہیں جن میں صحیح و حسن، ضعیف بلکہ موضوع اور بے بنیاد روایات بھی ہوتی ہیں۔(ص201)
قاضی عیاض رحمه الله نے اپنی مشہور کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ میں ایسی روایات بغیر کسی سند کے تحریر کیں اور یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ میلاد ناموں میں پائی جانے والی روایات اس کتاب میں اختصار اور جامعیت کے ساتھ موجود ہیں۔
اس کتاب کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمه الله نے تحریر کیا:​
’’اس طرح کی روایات پر شریعت کی بنیاد جائز نہیں بلکہ جمہور مسلمانوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ان روایات سے دین میں کوئی حجت نہیں لی جاسکتی کیونكه ان کا تعلق اسرائیلیات سے ہے۔‘‘(198)
متاخرین میںسے سب سے معروف کتاب جو حافظ سیوطی رحمه الله کی تالیف الخصائص الکبریٰ ہے۔ سابقہ کتب اور اس کتاب میں یہ فرق ہے کہ سابقہ کتب کا اكثر حصہ ضعیف و موضوع روایات پر مشتمل ہے جس میں سند کا کوئی اہتمام نظر نہیں آتا ، لیکن اس کتاب کے ماخذ اس کتاب کو سابقہ کتب سے بہتر ثابت کر رہے ہیں جن میں صحاحِ ستہ یعنی بخاری، مسلم، ابو داود، نسائی، ابن ماجہ،جامع ترمذی کے علاوہ طیالسی، حاکم، ابو یعلیٰ، بیہقی، ابو نعیم، ابن السعد، طبرانی، ابن شاهین، ابن النجار، ابن مندہ، ابن عساکر،دیلمی، خرائطی، اور خطیب بغدادی رحمهم الله کی معروف کتب شامل ہیں۔ لیکن جب اس کتاب کے مندرجات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ حافظ سیوطی رحمه الله نے اس کتاب میں ضعیف، موضوع، صحیح، سقیم ہر قسم کی روایات بغیر اسناد کے درج کردی ہیں اور ایک حیران کن امر یہ ہے کہ حافظ سیوطی رحمه الله نے ان کتب میں بعض ایسی روایات کو بھی درج کردیا جو ان کے نزدیک ضعیف تھیں یا جن روایات کی بابت انہیں علم تھا کہ یہ ضعیف ہیں لیکن تساهل پسندی والا قاعدہ استعمال ہوا اور متقدمین کی کتب سے ماخوذ واقعات اس کتاب میں درج کردیئے گئے۔ چنانچہ میلاد ناموں کے حوالے سے حافظ ابو نعیم رحمه الله کے حوالے سے کچھ واقعات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
اس روایت میں اور اس سے قبل کی روایت میں شدید قسم کی نکارت پائی جاتی ہے میں نے اپنی کتاب میں اس سے زیادہ منکر روایات درج نہیں کی گو کہ میرا دل ان روایات کو درج کرنے پر آمادہ نہ تھا لیکن حافظ ابو نعیم رحمه الله کی پیروی میں ایسا کیا۔(ج149)
اورجن روایات کی بابت حافظ سیوطی رحمه الله یہ تحریر کر رہے ہیں وہ روایات ابو نعیم رحمه الله کی مطبوعہ دلائل النبوۃ میں موجود ہی نہیں ہیں۔​
روایات میلاد کے حوالے سے بر صغیر میں سب سے اہم ترین کتاب شاہ عبد الحق محدث دھلوی رحمه الله کی مدارج النبوۃ ہے جو کہ فارسی زبان میں ہے اس کتاب کا منہج بھی حسب سابق ہے یعنی روایات بغیر سند کے درج کی گئی ہیں اور ہر قسم کی روایات بلا تعدد و تحقیق شامل تحریر کر لی گئی روایات میں ایک بڑا ماخذ کتب سیرت ہے جس میں ابن اسحاق، واقدی، ابن سعد اور طبری کی کتب شامل ہیں۔ ان میں واقدی پر شدید جرح کی گئی ہے بلکہ محدثین نے واقدی سے ترک روایت کو ہی مستحسن خیال کیا ہے۔(تذکرۃ الحفاظ، ذ ھبی ج1318)
واقدی کے علاوہ ابن اسحاق پر بعض علماء نے جرح کی ہے جس کی وجہ غالبا یہی ہے کہ محدثین نے روایات حدیث میں ابن اسحاق پر زیادہ اعتبار نہیں کیا اور اسی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں کتاب المغازی کے ابواب میں ابن اسحاق سے ایک بھی روایت بیان نہیںکی، لیکن ایک بات اہم ہے کہ ابن اسحاق، طبری، ابن سعد کی جلالت شان کہیں بھی یہ مفہوم بیان نہیں کرتی کہ ان کی کتب صحیح ہیں بلکہ ان تینوں کی روایات میں ضعیف اور منکر روایات بھی شامل ہیں مثال کے طور پر سیرت ابن اسحاق کے بارے میں امام ابن حبان رحمه الله نے تحریر کیا: وہ روایت نقل کرنے میں فحش غلطیوں کا ارتکاب کرتے تھے اور کثیر الوھم تھے اور اگر وہ روایت کو تنہا نقل کریں اس سے احتجاج جائز نہیں۔(تہذیب التہذیب ، ابن حجر العسقلانی ج2376)
اور ابن سعد امام واقدی رحمه الله کے شاگرد خاص ہیں اور ان کی نصف سے زائد روایات واقدی سے ہی اخذ کی ہوئی ہیں، جنہیں محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے اور ابن سعد کی واقدی سے بیان کردہ روایات کے علاوہ باقی روایات بھی ایک کثیر تعداد غیر ثقہ راویوں سے بیان کی گئی ہیں۔(شبلی نعمانی، سیرت النبی ج149)
کتب سیرت میں ضعیف روایات کی کثرت کی معروف وجہ تو یہ ہے کہ سیرت میں کسی بھی واقعہ کی تمام تر جزئیات صحیح روایات سے نہیں مل پاتی، لہٰذا واقعات کے ایسے مقامات جو صحیح روایات میں بیان نہیں ہوئے وہ مجبوراً ضعیف اور موضوع روایات سے اخذکئے جاتے ہیں اور دوسری وجہ حدیث کی صحت میں سب سے بڑی وجہ اتصال سند ہے اور تاریخ میں اتصال سند کی کوئی شرط نہیں اور اتفاقا میلاد نامے کی جتنی بھی روایات کتب سیرت میں پائی جاتی ہیں ان تمام میں اتصال سند کی شرط نہیں پائی جاتی۔​
تیسری وجہ جو صحتِ حدیث میں اہم ہے وہ راوی کا ثقہ ہونا ہے جبکہ میلاد ناموں کی روایات میں رواة کی ایک بہت بڑی تعداد ضعیف اور منکر ہے۔​
چوتھی وجہ کتب سیرت کے مولفین کا یہ فہم تھا جس کے تحت روایات کی تعداد تحقیق ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب احکام و مسائل پر مبنی روایات اور احادیث سامنے ہوں اس سے ہٹ کر روایات میں نقد و تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں یہی وجہ ہے کہ مذکورہ بالا کتب میں صحیح روایات کے ساتھ ضعیف اور موضوع روایات کی ایک بہت بڑی تعداد جمع ہوگئی ہے ، جس کا سب سے بڑا مظہر میلاد نامے ہیں اور حیران کن امر یہ ہے کہ اس مرجوع منهج کو اختیار کرنے والوں کی فہرست بعض نام مثلا حاکم، قاضی عیاض، حافظ سیوطی، حافظ موسیٰ المدینی، ابن عساکر، خطیب البغدادی رحمه الله اجمعین وغیرہم کبار محدثین میں شمار ہوتے ہیں گوکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کی ایک توجیہہ بیان کی:​
ان روایات کے بیان کرنے سے ان کی یہ غرض ہوتی ہے کہ مطلوبہ واقعہ میں موجود جو کچھ بھی مرویات میں پایا جائے وہ لوگوں کے سامنے لایا جائے اور ان کا مقصد ان روایات سے استدلال نہیں ہوتا تھا۔(کتاب الوسیلہ ص202)
اگرامام ابن تیمیہ رحمه الله کی اس توجیہہ کو مدنظر رکھا جائے تو جو صورت حال سامنے آتی ہے، وہ یہ هےکہ کتب تاریخ و سیرت کے علاوہ ایسی روایات کتبِ تفسیر وغیرہ میں بھی کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ لیکن سوال پھر بھی موجود ہے کہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ’’ سنی سنائی بات کو بیان کرنا کذب بیانی ہے‘‘ کے باوجود کتب تاریخ میں ایسی روایات کے بیان کرنے میں تساہل پسندی کیوں کر ممکن ہوئی اور یہ خیال اور تصور کس طرح ایک فہم اختیار کرگیا کہ نقد و تحقیق اوراحتیاط پسندی صرف احکام و مسائل پر مبنی روایات میں ضروری ہے۔​
اس تمہیدی سطور کے بعد یہ بات کہنا آسان ہے کہ جب میلاد ناموں پر مبنی کتب کی روایات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کا سب سے بڑا ماخذ حافظ ابو نعیم، ابن عساکر ، امامطبری اور سیوطی رحمهم الله وغیرہ کی کتب ہیں۔ روایات کے ضعف کے لئے یہی کافی ہے ، درجہ اولیٰ یا دوم کی تمام کتب ان روایات سے خالی ہیں۔​
سچی بات تو یہ ہے کہ ولادت رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے متعلق یہ روایات سرے سے ہی غیر مستند اور موضوع ہیں ان کو وضع کرنے والے قصاص اور واعظین ہیں جنہوں نے اپنے بیانات کو پر کشش بنانے کے لئے ایسے جھوٹے واقعات کا سہارا لیا اسی وجہ سے ان قصہ گو واعظین کو امام ابن الجوزی رحمه الله’’ معظم البلاء‘‘ کہتے تھے
ان روایات کے وجود میں آنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ واعظین حضرات نے اپنے تخیلات کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کو دل کش بنانے کے لئے شاعرانہ انداز میں بیان کرنا شروع کیا مثلاً آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کے بعد سیدہ آمنہ کا گھر منور ہوگیا، مکہ کے سوکھے درختوں میں بہار آئی، ستارے زمین پر جھک گئے، آسمان کے دروازے کھل گئے، فرشتوں نے اظہار مسرت کیا، شیطان کو باندھ دیا گیا، اس سال مکہ میں کسی لڑکی کی پیدائش نہیں ہوئی وغیرہ وغیرہ۔(سیرت النبی، شبلی نعمانی۔ص734)
اور بعد کے غیر محتاط قصہ گو افراد نے اس شاعرانہ تخیلات کو بھی امر واقعہ سمجھ لیا۔​
بلکہ ہر واعظ اور قصہ گو نے اس میں اپنی طرف سے اضافہ بھی کیا ایسی روایات کی ایک واضح مثال مولانا معین الدین الھروی رحمه الله کی معروف کتاب معارج النبوۃ ہے۔​
اسی وجہ سے مشہور مفسر ابو الکلام آزاد نے معارج النبوۃ کے بارے میں لکھا ہے کہ:​
ملا معین الدین الھروی، حکایات طرازی، روایات ضعیفہ و موضوعہ نقل کرنے میں اسرائیلیات اور اخبار یہود وغیرہ میں اپنا جواب نہیں ركھتے انهوںنے انہی سب بے سروپا روایات کو اپنی كتاب معارج النبوۃ میں فارسی میں رنگ و روغن کے ساتھ جمع کردیا چنانچہ اردو زبان میں جس قدر بھی مولود نامے لکھے گئے وہ سب بالواسطہ یا بلا واسطہ اسی معارج النبوۃ اور ان جیسی کتب سے ماخوذ ہیں۔ (ولادت نبوی،ابو الکلام آزاد ص81)
میلاد ناموں پر مبنی کتب میں ضعیف و منکر کے علاوہ موضوع روایات کا ایک انبار ہے ان ہی میں چند مشہور روایات درج ذیل ہیں:​
۱۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا نور اللہ کے نور سے پیدا کیا گیا ہے۔​
۲۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کا نور پیدا کیا۔​
۳۔ اے نبی ! اگر تم نہ ہوتے تو تو آسمان کو پیدا نہ کرتا۔​
۴۔میں اس وقت بھی نبی تھا، جب آدم علیہ السلام مٹی اور پانی کے مرحلے میں تھے۔​
۵۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم آپ کی نبوت کب واجب ہوئی، فرمایا جب آدم علیہ السلام روح اور حکم کے درمیان تھے۔​
۶۔ جس رات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت ہوئی اس رات کسری کے محل میں زلزلہ آگیا اور ۱۶ کنگرے گر گئے اور نہرساوہ خشک ہوگئی اور فارس کا آتش کدہ بجھ گیا۔​
الغرض ایسی تمام روایات میں سے ایک بھی روایت قابلِ اعتبار نہیں اسی طرح کا کوئی واقعہ حدیث کی مستند کتب میں منقول نهیں ہے، یہ تمام واقعات اور روایات دلائل معجزات اور تاریخ سیرت کی کتب سے نقل کئے گئے جو بقول علامه شبلی نعمانی محتاج تنقیح ہیں۔(سیرت النبی، شبلی نعمانی ج184)
مشہور مفکر تقی امینی اپنی معروف کتاب حدیث کا درایتی معیار میں میلاد ناموں پر مبنی روایات کی تحقیق کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ صحابہ کرام رضی الله عنهم میں کوئی بھی ایسا نہیں جس کی عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کے وقت روایات بیان کرنے کی هو اور اگر تمام روایات واقعات مبعوث ہونے کے بعد رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے خود بیان فرمائے ہوتے تو اتنے اہم واقعات کا تذکرہ حدیث کی مستند کتابوں میں ضرور ہوتا، یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام بڑے بڑے محدثین كرام رحمهم الله متفقہ طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش اور ایام طفولیت کے دلائل نبوت کو نظر انداز کردیتے اگر یہ واقعات عوام میں ایک حقیقت کے طور پر مشہور ہوتے تو اعلان نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تبلیغ رسالت میں جس قدر دشواریاں پیش آئیں وہ نہ آتیں بلکہ ہر شخص ان واقعات کی شہرت کی بناء پر ایمان لانے پر مجبور ہوتا۔(ص208)
 
Top