• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید میلاد پر دیوبندی اعتراضات کا جائزہ و وہابیوں ممانعت کی دلیل دو

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
((( عید ميلاد النبى كا حكم ؟؟؟؟ )))



(((عید ميلاد النبى كا حكم ؟؟؟؟ )))

سوال: ؟

يہ سوال بار بار آتا رہا ہے کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم كى پيدائش کے دن محفل ميلاد منعقد کرنا، آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى ان محفلوں ميں حاضري کا اعتقاد رکھ کر از روئے تعظيم وتکريم آپ کے خيرمقدم ميں کھڑے ہوجانا، آپ صلى اللہ عليہ وسلم پر درود وسلام بھيجنا اورميلادوں ميں کئے جانے والے اس طرح کے ديگر اعمال كى شرعي حيثيت کيا ہے؟


جواب:

رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم يا كسى اور كى پيدائش پر محفل ميلاد منعقد کرنا جائز نہيں ہے، بلکہ يہ اسلام ميں ايک نو ايجاد بدعت ہے، کيونکہ پہلى تين افضل صديوں ميں رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم آپ کے خلفاء راشدين، ديگر صحابہ کرام اور اخلاص کے ساتھ ان كى پيروي کرنے والے تابعين نے آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى يوم پيدائش کا جشن نہيں منايا جبکہ وہ بعد ميں آنے والے لوگوں کے مقابلہ ميں سنت کا زيادہ علم ، رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم سے کامل محبت رکھنے والے اورطريقہ نبوي كى مکمل پيروي کرنے والےتھے.


نبي صلى اللہ عليہ وسلم سے ايک حديث ميں ثابت ہے کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" من أحدث في أمرناهذا ماليس منه فهورد "

جس نےہمارے اس دين ميں کوئي نيا کام نکالا جو( دراصل ) اس ميں سے نہيں ہے وہ ناقابل قبول ہے.


اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ايک دوسري حديث ميں فرمايا:

" عليکم سنتي وسنة الخفاء الراشدين المهديين من بعدي تمسکوا بهاوعضوا عليها بالنواجذ وإياکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة "

تم ميري سنت اور ميرے بعد ہدايت يافتہ خلفاء راشدين كى سنت کو لازم پکڑو اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو اور دين ميں نئي نئي باتوں سے بچو کيونکہ ہر نئي چيز بدعت ہے اور بدعت گمراہي ہے.


ان دونوں حديثوں ميں بدعات ايجاد کرنے اور ان پر عمل کرنے سے سختي کے ساتھ منع کيا گيا ہے.

اللہ تعالى نے اپني کتاب مبين قرآن کريم ميں فرمايا:


﴿ وماآتاکم الرسول فخذوه ومانهاکم عنه فانتهوا ﴾ الحشر ( 59 / 7 )

اور تمہيں جوکچھ رسول ديں لے لو اور جس سے روک ديں رک جاؤ.


نيز اللہ عزوجل نے فرمايا:


﴿ فليحذرالذين يخالفون عن أمره أن تصيبهم فتنة أو يصيبهم عذاب أليم ﴾ النور ( 24 / 63 ).

سنو! جولوگ حکم رسول كى مخالفت کرتے ہيں انہيں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہيں ان پر کوئي زبردست آفت نہ آپڑے يا انہيں دردناک عذاب نہ پہنچے.


نيز اللہ سبحانہ وتعالي نے فرمايا:


﴿ لقد کان لکم في رسول الله أسوة حسنة لمن کان يرجوا الله واليوم الآخروذکر الله کثيرا ﴾الاحزاب (23/ 21 ).

يقينا تمہارے لئے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم ميں عمدہ نمونہ ( موجود ) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالى كى اور قيامت کے دن كى توقع رکھتا ہو، اور بکثرت اللہ تعالى کو ياد کرتا ہو.


نيز اللہ تعالى نے فرمايا:


﴿ والسابقون الأولون من المهاجرين والأنصار والذين اتبعوهم بإحسان رضي الله عنهم ورضوا عنه وأعد لهم جنات تجري تحتها الأنهار خالدين فيهاأبدا ذلك الفوزالعظيم ﴾التوبۃ ( 9 / 100 ) .

اور جومہاجرين وانصار سابق اورمقدم ہيں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پيرو ہيں اللہ ان سب سے راضي ہوا اور وہ سب اس سے راضي ہوئے، اور اللہ نے ان کے لئے ايسے باغ مہيا کر رکھے ہيں جن کے نيچے نہريں جاري ہونگي جن ميں وہ ہميشہ رہيں گے، اور يہ بڑي کاميابي ہے.


نيزاللہ تعالى نے فرمايا:


﴿ اليوم أکملت لکم دينکم وأتممت عليکم نعمتي ورضيت لکم الإسلام دينا ﴾المائدۃ ( 5 / 3 ).

آج ميں نے تمہارے لئے دين کو کامل کرديا اور تم پر اپنا انعام پورا کرديا اور تمہارے لئے اسلام کے دين ہونے پر رضا مند ہوگيا.


اس مضمون كى آيات بہت ہيں.

اس طرح كى ميلادي مجالس کو ايجاد کرنے کا مفہوم يہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالى نے اس امت کے لئے دين مکمل نہيں کيا، اور جن باتوں پر عمل کرنا امت کے لئے ضروري تھا رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے ان تک نہيں پہنچايا، يہاں تک کہ جب بعد ميں يہ بدعتي لوگ آئے تو انہوں نے اللہ تعالى كى شريعت ميں ايسي چيزوں کو ايجاد کيا جن كى اللہ تعالى نے اجازت نہيں دي تھي اور ان لوگوں نے يہ خيال کيا کہ يہ اعمال انہيں اللہ کے قريب کردينگے.

بلاشبہ دين ميں اس طرح كىنئي چيزوں کا ايجاد کرنا انتہائي خطرناک اور اللہ و رسول پر اعتراض ہے، حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالى نے دين کو مکمل فرما کر اپني نعمت کا اتمام کرديا رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نےواضح طور پردين کو پہنچا ديا اور انہيں جنت تک پہنچانے اور جہنم سے نجات دلانے والے ہر راستہ كى راہنمائي فرمادي .

جيسا کہ صحيح حديث ميں حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضي اللہ عنہم سے مروي ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:


"مابعث الله من نبي إلا کان حقا عليه أن يدل أمته على خيرما يعلمه لهم وينذرهم شرما يعلمه لهم"

اللہ نے جس نبي کوبھي بھيجا اس پر واجب تھا کہ وہ اپني امت کے لئے جن چيزوں ميں خير سمجھے ان كى راہنمائي کرے اورجن چيزوں ميں شر سمجھے ان سے روکے.


يہ بات معلوم ہے کہ ہمارے نبي محمد صلى اللہ عليہ وسلم انبياء ميں سب سے افضل اور سلسلہ نبوت كى آخري کڑي تھے اورامت تک دين پہنچانے اور ان كى خيرخواہي ميں سب سے کامل تھے، اگر يوم پيدائش کا جشن منانا اللہ تعالى کے پسنديدہ دين سے ہوتا تو اللہ کے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اسے امت کے لئے ضرور بيان فرماتے، يا اپني حيات مبارکہ ميں اس طرح کے جشن منا کر دکھلاتے، يا کم از کم آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عليہم اجمعين آپ كى يوم پيدائش پر جشن ميلاد ضرور مناتے، ليکن جب عہد نبوي اور عہد صحابہ ميں يہ سب کچھ نہيں ہوا تو يہ بات واضح ہوگئى کہ محفل ميلاد کا اسلام سے کوئي واسطہ نہيں ہے، بلکہ وہ ان نئے ايجاد کردہ کاموں ميں سے ہے جن سے اللہ کے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے اپني امت کو بچنے كى تاکيد فرمائي ہے جيسا کہ سابقہ دونوں حديثوں ميں بدعات سے اجتناب كى تاکيد گزر چكى ہے، اور اس مفہوم ميں دوسري حديثيں بھي وارد ہيں جن ميں سے چند ايک ہم ذيل ميں ذکر کرتے ہيں.

مثلا خطبہ جمعہ ميں نبي صلى اللہ عليہ وسلم کا يہ فرمان:


" أمابعد فإن خيرالحديث کتاب الله وخيرالهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم وشرالأمور محدثاتها وکل بدعة ضلالة "

اما بعد بہترين کلام اللہ كى کتاب ہے اور سب سے اچھا طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم کا طريقہ ہے، اور بدترين کام وہ ہيں جو دين ميں نئے ايجاد کئے جائيں اور ہر بدعت گمراہي ہے.


" اس حديث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم ميں روايت کيا ہے"

اس مضمون كى آيات واحاديث بہت زيادہ ہيں.


مذکورہ بالا اور ديگر دلائل كى بنياد پر علماء كى ايک جماعت نے ميلادي محفلوں کو صراحتاً خلاف شرع قرار ديا ہے اوران سے بچنے كى تاکيد كى ہے.

ليکن بعض متاخرين نے فريق اول كىرائے سے اختلاف کرتے ہوئے ان ميلادي محفلوں کے انعقاد کو اس شرط کے ساتھ جائز قرار ديا ہے کہ وہ خلاف شرع ناجائزکاموں پر مشتمل نہ ہوں مثلا: رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کے بارے ميں غلو کرنا، مرد وزن کا اختلاط، گانے بجانے کے آلات کا استعمال اور ان کے علاوہ وہ تمام چيزيں جن کو شريعت مطہرہ غلط قرار ديتي ہے.


جواز کے قائلين ان ميلادوں کوبدعت حسنہ سمجھتے ہيں

ايک شرعي قائدہ:

شريعت کے جس مسئلہ ميں لوگ تنازع کا شکار ہوجائيں اسے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ كى جانب لوٹايا جائے.

جيسا کہ اللہ عزوجل نے فرمايا:


﴿ ياأيهاالذين آمنوا اطيعوا الله واطيعوا الرسول وأولي الأمرمنکم فإن تنازعتم في شيء فردوه إلى الله والرسول إن کنتم تؤمنون بالله واليوم الآخرذلك خيروأحسن تأويلا ﴾النساء ( 4 / 59 ) .

اے ايمان والو! فرمانبرداري کرو اللہ كى اور فرمانبرداري کرو رسول اللہ ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى اور تم ميں سے اختيار والوں کي، پھر اگر كسىچيز ميں اختلاف کرو تواسے لوٹا دو اللہ تعالى كى طرف اور رسول كى طرف اگر تمہيں اللہ تعالى پر اور قيامت کے دن پر ايمان ہے، يہ بہت بہتر ہے اورباعتبار انجام کے بہت اچھا ہے.


نيزاللہ تعالى نے فرمايا:


﴿ ومااختلفتم فيه من شيء فحکمه إلى الله ﴾ الشورى ( 42 / 10 )

اورجس چيز ميں تمہارا اختلاف ہو اس کا فيصلہ اللہ تعالى كى طرف ہے.


چنانچہ جب ہم نے مسئلہ ميلاد کو اللہ تعالى كى کتاب قرآن مجيد كى جانب لوٹايا تو ہم نے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كى لائي ہوئي شريعت كى پيروي كى اورمنع کردہ چيزوں سے اجتناب کا حکم ديتے ہوئے پايا، اور يہ کہ اللہ سبحانہ وتعالى نے اس امت کے لئے دين کو مکمل فرماديا ہے اور يہ ميلاديں رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كى لائي ہوئي شريعت ميں سے نہيں ہيں، لہذا يہ بات واضح ہوگئى کہ محفل ميلاد کا تعلق اس کامل اکمل دين سے نہيں ہے، جس کے بارہ ميں رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع کا ہميں حکم ديا گيا ہے.

اسي طرح ہم نے اس مسئلہ کو سنت رسول كى جانب بھي لوٹايا تواس بارے ميں نہ تو نبي صلى اللہ عليہ وسلم کا کوئي عمل اور نہ ہي کوئي حکم اورنہ ہي صحابہ کا کوئي عمل ملا تواس سے يہ بات واضح ہوگئى کہ محفل ميلاد کا دين سے کوئي تعلق نہيں ہے، بلکہ وہ بدعت اوردين ميں نئي پيدا کردہ چيز ہے، نيز اس ميں يہود ونصارى كى عيدوں سے مشابہت پائي جاتي ہے.

چنانچہ معمولي درجہ كى بصيرت، معرفت حق کا شوق اور اس كى طلب ميں انصاف پسندي رکھنے والے ہرشخص پر يہ بات عياں ہو جائے گي کہ محفل ميلاد کا دين اسلام سے کوئي تعلق نہيں ہے، بلکہ وہ ان نوايجاد بدعات ميں سے ہے جن سے اللہ اور اس کے رسول نے بچنے كى تاکيد كى ہے.

ايک صاحب عقل وخرد کو اس بات سے دھوکہ نہيں کھانا چاہئے کہ جابجا لوگ کثرت سے محفل ميلاد منعقد کرتے ہيں کيونکہ حق زيادہ لوگوں کے کرنے سے نہيں بلکہ شريعت كى دليلوں سے پہچانا جاتا ہے.

جيسا کہ اللہ نے يہود ونصارى كى بابت فرمايا:


﴿ وقالوا لن يدخل الجنة إلا من کان هودا أونصارى تلك أمانيهم قل هاتوا برهانکم إن کنتم صادقين ﴾ البقرۃ ( 2 / 111 )

يہ کہتے ہيں کہ جنت ميں يہودونصارى کے سوا کوئي نہيں جائے گا يہ صرف ان كى آرزوئيں ہيں ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئي دليل پيش کرو.


نيز ارشاد باري تعالى ہے:


﴿ وإن تطع اکثر من في الأرض يضلوك عن سبيل الله ﴾الانعام ( 6 / 116 ).

اور دنيا ميں زيادہ لوگ ايسے ہيں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگيں توآپ کواللہ كى راہ سے بے راہ کردينگے.


ان ميلادي محفلوں کے بدعت ہونے کے ساتھ يہ بھي واضح رہے کہ اکثر وبيشتر ميلاد كى ان محفلوں ميں ديگر حرام کارياں بھي ہوتي ہيں مثلا مرد وزن کا اختلاط، گانے بجانے ڈھول تاشے کے آلات، اور نشہ آور اشياء کا استعمال اور ان کے علاوہ ديگر بہت سي برائياں اور بسا اوقات ان محفلوں ميں مذکورہ برائيوں سے بڑھ کر شرک اکبر تک کا ارتکاب کيا جاتا ہے.


مثلا:

رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كى ذات يا ديگر اولياء کرام کے بارے ميں غلوکرنا، انہيں پکارنا، ان سے فرياد رسي اورمدد کا سوال کرنا، وغيرہ اور ان كى بابت يہ اعتقاد رکھنا کہ وہ غيب جانتے ہيں اور اس طرح کے بہت سےکفريہ اعتقادات جن کا ارتکاب ميلاد نبوي اور اولياء کے ميلادوں کے موقع پر کرتے ہيں.

رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ميں ثابت ہے کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:


" إياکم والغلو في الدين فإنما أهلك من کان قبلکم الغلو في الدين "

دين ميں غلو سے بچو کيونکہ تم سے پہلے لوگوں كى ہلاکت کا سبب دين ميں غلو تھا.


نيز نبي صلى اللہ عليہ وسلم نے ايک دوسري حديث ميں فرمايا:


" لاتطروني کما أطرت النصارى عيسى ابن مريم إنما أنا عبد فقولوا عبدالله ورسوله "

( اخرجہ البخاري في صحيحہ من حديث عمربن عبداللہ رضي اللہ عنہ )


تم ( حدسے زيادہ تعريفيں کرکے ) مجھے ميرے مقام سے آگے نہ بڑھاؤ جيسا کہ نصارى نے عيسى بن مريم کو حد سے آگے بڑھا ديا تھا، ميں اللہ کا بندہ ہوں لہذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہي کہو.

قابل تعجب بات يہ ہے کہ بہت سے لوگ اس طرح کے غيرشرعي اجتماعات ميں شرکت کے لئے انتہائي سرگرم اور کوشاں نظرآتے ہيں اور بوقت ضرورت اس كى جانب سے دفاع بھي کرتے ہيں، جبکہ دوسري طرف وہي لوگ جمعہ وجماعت اور اللہ کے ديگر فرائض سےبالکل پيچھے نظر آتے ہيں، نہ ہي وہ فرائض كى کچھ پرواہ ہي کرتے ہيں اور نہ ہي ان کے چھوڑنے کو کوئي بڑا گناہ سمجھتے ہيں ، بلا شبہ يہ سب کچھ کمزور ايمان، کم علمي، اور گوناگوں گناہوں کے ارتکاب کے سبب دلوں کے انتہائي زنگ آلود ہوجانے كى وجہ سے ہے، ہم اللہ تعالى سے اپنے اور تمام مسلمان بھائيوں کے لئے عافيت کا سوال کرتے ہيں.

ميلاد كى ان محفلوں ميں ايک قبيح اور بدترين عمل يہ بھي انجام پاتا ہے کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى ولادت کا ذکر آنے پر بعض لوگ ازروئے تعظيم وتکريم آپ کا خير مقدم کرتے ہوئے کھڑے ہوجاتے ہيں، کيونکہ ان کا عقيدہ ہے کہ رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميلاد ميں حاضر ہوتے ہيں، يہ عظيم ترين جھوٹ اور بد ترين جہالت ہے، کيونکہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم قيامت سے قبل اپني قبر مبارک سے نہ تو نکل سکتے ہيں اور نہ لوگوں ميں سے كسى سے ملاقات کرسکتے ہيں، اور نہ ہي ان مجلسوں ميں حاضر ہوسکتے ہيں، بلکہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم اپني قبر ميں قيامت تک رہيں گے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى روح مبارک دارکرامت ( جنت ) ميں اپنے رب کے پاس اعلى عليين ميں ہے.

جيسا کہ اللہ تعالى نے سورۃ المومنون ميں فرمايا :


﴿ ثم إنکم بعد ذلك لميتون ثم إنکم يوم القيامة تبعثون ﴾المؤمنون ( 15/16 ) .

اس کے بعد پھر تم سب يقينا مرجانے والے ہو، پھر قيامت کے دن بلاشبہ تم سب اٹھائے جاؤگے.


اور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:


" أنا أول من ينشق عنه القبر يوم القيامة وأنا أول شافع وأول مشفع "

بروز قيامت سب سے پہلے ميري قبر پھٹے گي اور ميں قبرسے باہر نکلوں گا، اورميں سب سے پہلا سفارشي ہوں گا، اورسب سے پہلے ميري سفارش قبول ہوگي . ( آپ صلى اللہ عليہ وسلم پر رب كى جانب سے درود وسلام نازل ہو )


مذکورہ بالا آيت کريمہ اور حديث نبوي اور اس معني كى ديگر آيات واحاديث اس بات پر دلالت کرتي ہيں کہ نبي صلى اللہ عليہ وسلم اور آپ کے علاوہ ديگر مردے قيامت کے روز ہي اپني قبروں سے نکليں گے يہ علماء اسلام کا متفق عليہ مسئلہ ہے، اس ميں كسى کا کوئي اختلاف نہيں.

لہذا ہر بندہ مسلم کو اس طرح کے مسائل سے واقف ہونا چاہئے اور جاہلوں كى نوايجاد بدعات وخرافات سے گريز کرنا چاہئے جس پر اللہ نے کوئي دليل نازل نہيں فرمائي ہے.

ہم اللہ ہي سے مدد کاسوال کرتے، اسي پر بھروسہ رکھتے ہيں، اور ہم اس بلند وبرتر اللہ كى مدد کے بغير گناہوں سے بچنے اور نيکيوں کے بجا لانے كى طاقت نہيں رکھتے ہيں.

رہا مسئلہ نبي صلى اللہ پر درود وسلام بھيجنے کا تويہ تقرب الہي کا افضل ترين ذريعہ اعمال صالحہ ميں ايک ہے.

جيسا کہ اللہ تعالي نے فرمايا:


﴿ إن الله وملائکته يصلون على النبي ياأيهاالذين آمنوا صلوا عليه وسلموا تسليما ﴾الاحزاب (33/ 56)

اللہ اور اس کے فرشتے نبي صلى اللہ عليہ وسلم پر رحمت بھيجتے ہيں اے ايمان والو! تم بھي ان پر درود بھيجو اور خوب سلام بھيجتے رہا کرو.


اور نبي صلى اللہ عليہ وسلم نے ايک حديث ميں فرمايا:


" من صلى على واحدة صلى الله عليه بها عشرا "

جوشخص ميرے اوپر ايک بار درود بھيجے تواللہ اس پردس بار رحمتيں نازل فرماتا ہے-


نبي صلى اللہ عليہ وسلم پر درود بھيجنے کا کوئي مخصوص وقت نہيں ہے، بلکہ كسى بھي وقت آپ پردرود بھيجا جاسکتا ہے، نماز کے آخر يعني تشہد ميں اس کے پڑھنے كى تاکيد ہے، بلکہ بعض اہل علم کے نزديک ہر نماز کے آخري تشہد ميں اس کا پڑھنا واجب ہے، اوربہت سے مقامات پرسنت مؤکدہ ہے، مثلا اذان کے بعد، آپ صلى اللہ عليہ وسلم کے تذکرہ کے وقت، جمعہ کے دن، اوراس كى رات ميں جيسا کہ بہت سي احاديث سے ان کا ثبوت ملتا ہے.

اللہ تعالي سے دعا ہے کہ وہ ہميں اور تمام مسلمانوں کو دين كى سمجھ اور اس پر ثابت قدم رہنے كى توفيق عطا فرمائے، اور ہر ايک کو سنت پر کاربند اوربدعت سےاجتناب كى نعمت سے نوازے وہ اللہ سخي اورمہربان ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبي محمد صلى اللہ عليہ وسلم آپ کے اہل وعيال اورساتھيوں پر رحمت نازل فرمائے.


شيخ رحمہ اللہ كا ايك دوسرى جگہ يہ فرمانا ہے:

" اگر ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم مشروع ہوتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى امت كے ليے اسے ضرور بيان فرماتے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم لوگوں ميں سب سے زيادہ خيرخواہ تھے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد كوئى نبى نہيں جو كوئى ايسى بات بيان كرے جس سے نبى كريم صلى اللہ وسلم خاموش رہے ہوں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خاتم النبيين ہيں.

كتاب و سنت ميں يہ پورى وضاحت كے ساتھ بيان ہوا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا لوگوں پر كيا حق ہے آپ كے حقوق ميں آپ سے محبت كرنا، اور آپ كى شريعت اور سنت مطہرہ كى پيروى و اتباع كرنا شامل ہے اور اس كے علاوہ باقى حقوق كى ادائيگى كرنا بھى جن كى وضاحت قرآن و سنت ميں ہوئى ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كے ليے يہ ذكر نہيں كيا كہ ان كى ولادت باسعادت كا جشن ميلاد النبى منانا مشروع ہے تا كہ اس پر عمل كيا جائے اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خود بھى سارى زندگى اس پر عمل نہيں كيا اور نہ پھر آپ كے بعد صحابہ كرام جو سب لوگوں سے زيادہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كرنے والے تھے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے حقوق كو جاننے والے اور علم ركھنے والے تھے.

نہ تو انہوں نے اور نہ ہى خلفاء راشدين نے اور نہ ہى كسى اور نے ميلاد النبى كا جشن منايا، پھر قرون مفضلہ يعنى پہلے تين بہترين دور كے لوگوں نے بھى اس جشن كو نہيں منايا، كيا آپ كے خيال ميں يہ سب لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حقوق كى ادائيگى ميں كمى و كوتاہى كرنے والے تھے، حتى كہ يہ بعد ميں آنے والے افراد نے اس نقص اور كمى كو واضح كيا اور اس حق كو پورا كيا؟!

نہيں اللہ كى قسم ايسا نہيں ہو سكتا كہ يہ سب صحابہ كرام اور آئمہ كرام آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے حقوق سے جاہل و غافل تھے، يا اس ميں كمى و كوتاہى كى، كوئى عقلمند ايسى بات اپنى زبان سے نكال ہى نہيں سكتا جو ان صحابہ كرام اور تابعين عظام كے حالات سے واقف ہو.


عزيز قارئين كرام جب آپ كے علم ميں آگيا كہ ميلاد النبى كى جشن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں موجود نہ تھا اور نہ ہى صحابہ كرام اور تابعين عظام اور آئمہ كرام كے ادوار ميں اس پر عمل كيا گيا، اور نہ ہى يہ چيز ان كے ہاں معروف تھى اس سے آپ كو يہ علم بھى ہو گيا كہ يہ دين ميں نيا ايجاد كردہ كام ہے اور يہ بدعت كہلاتا ہے اس پر عمل كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كى دعوت دينى اور اس ميں شريك ہونا جائز ہے، بلكہ اس سے روكنا اور منع كرنا اور لوگوں كو اس سے بچانا واجب ہے "

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 6 / 318 - 319 )
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
کسی خوشی کو منانا اور شکر بجا لانے کے لئے روزہ رکھنے میں زمین آسمان کا فرق ہے
میں نے اوپر کہیں نہیں لکھا وہ سوموار کو میلاد منایا کرتے تھے یعنی خوشی منایا کرتے تھے کیونکہ آپ خود کہ رہے ہیں کہ ہر خوشی عید ہوتی ہے تو جس دن خؤشی منائی جائے گی وہ دن بھی عید ہو گا اور خوشی منانے والے دن روزہ نہیں رکھا جاتا بلکہ خوشی منائی جاتی ہے پس اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی نہیں منائی بلکہ روزہ رکھ کر مختلف باتوں کا شکر بجا لائے مثلا بعثت کا یا قرآن نازل ہونے کا یا پیدا ہونے کا یا پھر اعمال اوپر اٹھائے جانے کا واللہ اعلم
پس میں نے یہی کہا کہ خوشی کس طرح منانی ہے یہ ہمیں کوئی موحد ہی بتا سکتا ہے کسی مشرک کا خوشی منانے کا طریقہ ہمیں ویسے ہی قابل قبول نہیں چہ جائے کہ وہ ہماری سب سے بڑی خوشی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کی وجہ بننے والے میلاد کو اپنے طریقے سے منائے اور ہمیں بھی اس پر تلقین کرے
آپ یہ فرمارہے ہیں کہ خوشی میں روزہ نہیں رکھا جاتا لیکن اصح کتاب بعد کتاب اللہ میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ شریک مسرت ہونے کے لئے عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے

حدثنا ابو معمر حدثنا عبد الوارث حدثنا ايوب حدثنا عبد الله بن سعيد بن جبير عن ابيه عن ابن عباس رضي الله عنه قال:‏‏‏‏"قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة فراى اليهود تصوم يوم عاشوراء فقال:‏‏‏‏ ما هذا؟ قالوا:‏‏‏‏ هذا يوم صالح هذا يوم نجى الله بني إسرائيل من عدوهم فصامه موسى قال:‏‏‏‏ فانا احق بموسى منكم فصامه وامر بصيامه".
ترجمہ داؤد راز

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن سعید بن جبیر نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے۔ (دوسرے سال) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی تھی۔ اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا پھر موسیٰ علیہ السلام کے (شریک مسرت ہونے میں) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔

نوٹ : یاد رکھے کہ یہ ترجمہ داؤد راز صاحب نے کیا جو کہ ایک وھابی عالم ہیں

اس سے یہ ثابت ہوا کہ خوشی کا اظہار روزہ رکھ کر بھی کیا جاسکتا ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے میلاد والے دن روزہ رکھ اپنی خوشی کا اظہار فرمایا کرتے تھے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
آپ یہ فرمارہے ہیں کہ خوشی میں روزہ نہیں رکھا جاتا لیکن اصح کتاب بعد کتاب اللہ میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ شریک مسرت ہونے کے لئے عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے
اللہ نے فرمایا کہ لا تلبسوا الحق بالباطل
میں نے کہیں یہ نہیں کہا کہ خوشی میں روزہ نہیں رکھا جا سکتا آپ دو باتوں کو مکس کر رہے ہیں وہ دونوں باتیں نیچے لکھتا ہوں پھر آپ ان پر بات کریں
1-خوشی میں اللہ کا شکر بجا لانے کے لئے روزہ رکھنا
2-خوشی ہونے پر اللہ کا دین سمجھ کر اس خوشی کو منانا

پہلی بات کا میں نے کہیں انکار نہیں کیا اگر آپ کو نظر آئے تو وہ جگہ بتا دیں
البتہ دوسری بات پر بار بار صرف اتنا لکھا ہے کہ دین سمجھ کر کوئی خوشی منانے کے لئے ہمیں طریقہ لازمی قرآن و حدیث سے لینا پڑے گا اور دین نے جو خؤشی منانے کا کہا ہے اس دن روزے سے منع بھی کیا ہے کہ وہ ہماری عید ہوتی ہے اور اس دن روزہ نہیں رکھا جاتا
اسی لئے اگرچہ عید کا لفظ اور جگہوں پر بھی استععمال ہوا ہے مگر وہ منانے والی عید نہیں ہے مثلا جمعہ وغیرہ یہی کچھ میں نے لکھا تھا

----- اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا پھر موسیٰ علیہ السلام کے (شریک مسرت ہونے میں) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔

نوٹ : یاد رکھے کہ یہ ترجمہ داؤد راز صاحب نے کیا جو کہ ایک وھابی عالم ہیں

اس سے یہ ثابت ہوا کہ خوشی کا اظہار روزہ رکھ کر بھی کیا جاسکتا ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے میلاد والے دن روزہ رکھ اپنی خوشی کا اظہار فرمایا کرتے تھے
آپ نے اوپر ہائیلائٹ کیا ہوا ہے کہ
شریک مسرت ہونے میں
تو مجھے بتائیں کہ اس میں خوشی منانے کا کہاں تذکرہ ہے دیکھیں موسی علیہ السلام کی قوم اپنی نجات والے دن خؤش تھی موسی علیہ اسلام بھی خوش تھے پس اللہ کے نبی بھی اس دن خوش تھے پس اس خوشی میں شریک ہونے سے مراد یہ کہا ہے کہ انہوں نے وہ خؤشی منائی تھی بلکہ جیسے موسی علیہ اسلام نے اس خؤشی پر شکر کرتے ہوئے روزہ رکھا تھا اسی طرح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شکر کرتے ہوئے روزہ رکھا میں نے خوشی میں شریک ہونے کا انکار نہیں کیا مگر بار بار پھر یہی کہ رہا ہوں کہ کسی خوشی میں شریک ہونے کے لئے اسکو منانا لازمی نہیں بھلا جب جن کو خؤد خوشی ہوئی تھی انہوں نے روزہ رکھ کر شکر بجا لایا تھا تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح خؤشی میں شریک ہو سکتے ہیں جس طرح وہ خوشی میں شریک تھے

اس سے یہ ثابت ہوا کہ خوشی کا اظہار روزہ رکھ کر بھی کیا جاسکتا ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے میلاد والے دن روزہ رکھ اپنی خوشی کا اظہار فرمایا کرتے تھے
خوشی کا اظہار
پھر وہی باتوں کا اختلاف یعنی آپ اسکو کہتے ہیں کہ روزہ رکھ کر خوشی کا اظہار فرمایا کرتے تھے میں کہتا ہوں کہ روزہ رکھ کر شکر بجا لایا کرتے تھے اب آپ اس پر دلائل دیں کہ حدیث کے الفاظ آپ کے الفاظ کی کیسے تائید کر رہے ہیں اور میری بات کی مخآلفت کر رہے ہیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اللہ نے فرمایا کہ لا تلبسوا الحق بالباطل
میں نے کہیں یہ نہیں کہا کہ خوشی میں روزہ نہیں رکھا جا سکتا آپ دو باتوں کو مکس کر رہے ہیں وہ دونوں باتیں نیچے لکھتا ہوں پھر آپ ان پر بات کریں
کیا کریں آپ کو اپنی لکھی ہوئی باتیں بھی یاد نہیں رہتی کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ یہ سب کاپی پیسٹ کرتے ہوں کیونکہ کاپی پیسٹ کرنے میں انسان دھیان نہیں رکھتا اور یہ سمجھتا ہے کہ میرے مولوی نے جو لکھا وہ صحیح ہوگا اس لئے بے خطر ایسے کاپی پیسٹ کردیتا ہے آپ نےکچھ ایسا لکھا تھا

کسی خوشی کو منانا اور شکر بجا لانے کے لئے روزہ رکھنے میں زمین آسمان کا فرق ہے
میں نے اوپر کہیں نہیں لکھا وہ سوموار کو میلاد منایا کرتے تھے یعنی خوشی منایا کرتے تھے کیونکہ آپ خود کہ رہے ہیں کہ ہر خوشی عید ہوتی ہے تو جس دن خؤشی منائی جائے گی وہ دن بھی عید ہو گا اور خوشی منانے والے دن روزہ نہیں رکھا جاتا بلکہ خوشی منائی جاتی ہے پس اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی نہیں منائی بلکہ روزہ رکھ کر مختلف باتوں کا شکر بجا لائے مثلا بعثت کا یا قرآن نازل ہونے کا یا پیدا ہونے کا یا پھر اعمال اوپر اٹھائے جانے کا واللہ اعلم
پس میں نے یہی کہا کہ خوشی کس طرح منانی ہے یہ ہمیں کوئی موحد ہی بتا سکتا ہے کسی مشرک کا خوشی منانے کا طریقہ ہمیں ویسے ہی قابل قبول نہیں چہ جائے کہ وہ ہماری سب سے بڑی خوشی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کی وجہ بننے والے میلاد کو اپنے طریقے سے منائے اور ہمیں بھی اس پر تلقین کرے

1-خوشی میں اللہ کا شکر بجا لانے کے لئے روزہ رکھنا
2-خوشی ہونے پر اللہ کا دین سمجھ کر اس خوشی کو منانا
آپ کے خیال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے میلاد والے دن یعنی سوموار کو جو روزہ رکھا کرتے تھے کیا یہ دین تھا یا نہیں ؟


آپ نے اوپر ہائیلائٹ کیا ہوا ہے کہ
شریک مسرت ہونے میں
تو مجھے بتائیں کہ اس میں خوشی منانے کا کہاں تذکرہ ہے دیکھیں موسی علیہ السلام کی قوم اپنی نجات والے دن خؤش تھی موسی علیہ اسلام بھی خوش تھے پس اللہ کے نبی بھی اس دن خوش تھے پس اس خوشی میں شریک ہونے سے مراد یہ کہا ہے کہ انہوں نے وہ خؤشی منائی تھی بلکہ جیسے موسی علیہ اسلام نے اس خؤشی پر شکر کرتے ہوئے روزہ رکھا تھا اسی طرح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شکر کرتے ہوئے روزہ رکھا میں نے خوشی میں شریک ہونے کا انکار نہیں کیا مگر بار بار پھر یہی کہ رہا ہوں کہ کسی خوشی میں شریک ہونے کے لئے اسکو منانا لازمی نہیں بھلا جب جن کو خؤد خوشی ہوئی تھی انہوں نے روزہ رکھ کر شکر بجا لایا تھا تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح خؤشی میں شریک ہو سکتے ہیں جس طرح وہ خوشی میں شریک تھے
لگتا ہے اب اردو بھی پڑھانی پڑے گی
خوشی اور مسرت یہ دونوں الفاظ ہم معنی ہے یعنی اگر جملہ اس طرح لکھا جائے کہ مجھے اس کام سے بہت خوشی ہوئی تو اس جملے کے وہی معنی ہونگے جو کہ اس جملے کے ہیں کہ مجھے اس کام سے بہت مسرت ہوئی
اور پھر عاشورہ بھی ہر سال آتا ہے جس طرح فرعون سےنجات کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام خوش ہوکر روزہ رکھا کرتے تھے اور جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ والوں نے بتائی کہ اس دن خوش ہوکر موسیٰ علیہ السلام روزہ رکھا کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کے (شریک مسرت ہونے میں) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔

خوشی کا اظہار
پھر وہی باتوں کا اختلاف یعنی آپ اسکو کہتے ہیں کہ روزہ رکھ کر خوشی کا اظہار فرمایا کرتے تھے میں کہتا ہوں کہ روزہ رکھ کر شکر بجا لایا کرتے تھے اب آپ اس پر دلائل دیں کہ حدیث کے الفاظ آپ کے الفاظ کی کیسے تائید کر رہے ہیں اور میری بات کی مخآلفت کر رہے ہیں
حدیث کے ترجمہ کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
موسیٰ علیہ السلام کے (شریک مسرت ہونے میں) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔

یاد رہے کہ مسرت اور خوشی ہم معنی الفاظ ہیں
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
قاری رانا تو فورم پر منہ چھپاتے پھر رہے ہیں
 
Top