السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم شیوخ ایک بھائی نے اس روایت کی صحت کے بارے میں پوچھا ہے
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس روایت کی حقیقت جاننے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ :
صحیح احادیث سے پیارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت ثابت ہے کہ آپ ﷺ نماز عید الفطر سے پہلے کچھ کھا کر نماز کیلئے نکلتے ، اور عید الاضحیٰ کے دن نماز عید سے واپسی تک کچھ نہ کھاتے :
سنن الترمذی (542) میں حدیث شریف ہے کہ :
عن عبد الله بن بريدة، عن ابيه، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم لا يخرج يوم الفطر حتى يطعم ولا يطعم يوم الاضحى حتى يصلي ".
قال: وفي الباب عن علي، وانس. قال ابو عيسى: حديث بريدة بن حصيب الاسلمي حديث غريب. وقال محمد: لا اعرف لثواب بن عتبة غير هذا الحديث، وقد استحب قوم من اهل العلم ان لا يخرج يوم الفطر حتى يطعم شيئا ويستحب له ان يفطر على تمر، ولا يطعم يوم الاضحى حتى يرجع.
سیدنا بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن جب تک کچھ کھا نہ لیتے نکلتے نہیں تھے اور عید الاضحی کے دن جب تک نماز نہ پڑھ لیتے کھاتے نہ تھے۔"
امام ترمذیؒ کہتے ہیں:
اس باب میں علی اور انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
بعض اہل علم نے مستحب قرار دیا ہے کہ آدمی عید الفطر کی نماز کے لیے کچھ کھائے بغیر نہ نکلے اور اس کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ کھجور کا ناشتہ کرے اور عید الاضحی کے دن نہ کھائے جب تک کہ لوٹ کر نہ آ جائے۔ انتھیٰ
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1756)
نیز دیکھئے (سنن ابن ماجہ 1756 ) مسند ابو داود الطیالسی 849 ) مسند احمد 22983 )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور یہی روایت صحیح ابن خزیمہؒ میں ان الفاظ سے مروی ہے :
ابْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَانَ لَا يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَطْعَمَ، وَلَا يَطْعَمُ يَوْمَ النَّحْرِ حَتَّى يَذْبَحَ»
صحیح ابن خزیمہ 1426 [التعليق] 1426 - قال الأعظمي: إسناده حسن
سیدنا بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن جب تک کچھ کھا نہ لیتے نکلتے نہیں تھے اور عید الاضحی کے دن جب تک قربانی کا جانور ذبح نہ کرلیتے کھاتے نہ تھے۔"
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جبکہ امام بیہقیؒ نے "السنن الکبریٰ "6161 ۔میں سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے جو روایت نقل کی ہے ،وہ بالاسناد یوں ہے :
أخبرنا علي بن أحمد بن عبدان، أنبأ أحمد بن عبيد، ثنا سعيد بن عثمان الأهوازي، ثنا علي بن بحر القطان، ثنا الوليد بن مسلم، ثنا ابن مهدي، عن عقبة بن الأصم، عن ابن بريدة، عن أبيه، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان يوم الفطر لم يخرج حتى يأكل شيئا , وإذا كان الأضحى لم يأكل شيئا حتى يرجع , وكان إذا رجع أكل من كبد أضحيته "
ترجمہ :
کہ نبی ﷺ عیدالفطر کے دن بغیر کچھ تناول فرمائے نماز کو نہیں جاتے تھے اور عیدالاضحی کے دن نماز عیدالاضحی پڑھنے سے پہلے کچھ نہیں کھاتے تھے اور جب واپس تشریف لاتے تو قربانی کے جانور کی کلیجی پہلے تناول فرماتے تھے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ روایت انتہائی ضعیف ہے ، :
(1)
کیونکہ اس کا ایک راوی "عقبہ بن عبداللہ الاصم الرفاعی " ضعیف ہے حافظ ابن حجر عسقلانیؒ " تقریب التہذیب " میں لکھتے ہیں :
عقبة ابن عبد الله الأصم الرفاعي البصري ضعيف وربما دلس
یعنی عقبہ بن عبداللہ ضعیف بھی ہے اور مدلس بھی "
علامہ ناصر الدین البانیؒ " سبل السلام " پر اپنی تعلیقات میں لکھتے ہیں :
وقد ضعَّف الألبانيُّ هذه الزيادةَ كما في «سُبُل السلام» بتعليقاته عليه (٢/ ٢٠٠) حيث قال: «هذه الزيادةُ ضعيفةٌ؛ لأنها مِنْ رواية عقبة بنِ الأصمِّ عن ابنِ بريدة؛ وهو عقبة بنُ عبد الله الأصمِّ: ضعيفٌ، كما في «التقريب»».
سیدنا بریدہ کی اس حدیث میں قربانی کے جانور کی کلیجی کھانے کی زیادتی یعنی اضافی بیان ہے یہ ضعیف ہے ، کیونکہ یہ ایک ضعیف راوی عقبہ بن اصم سے مروی ہے اور عقبہ ضعیف ہے جیسا کہ تقریب التہذیب میں ہے "
دیکھئے ۔
سبل السلام بتعلیقات الالبانی جلد دوم ص200