• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عیسی علیہ السلام کا نزول اور شریعت محمدیہ کی پاسداری

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
عمدہ.
جزاک اللہ خیرا یا شیخ.
آپ کے بات کرنے کے انداز نے دل کو چھو لیا. آپ کے مراسلہ کے ایک ایک حرف سے صد فیصد متفق ہوں.
بارک اللہ فی علمک وجہدک
آمین
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
قرآن و حدیث کے متعدد نصوص سے پتہ چلتا ہےکہ محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا ہے ۔ آپ ہی اللہ کی طرف سے آخری نبی ہیں ۔ جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ( الأحزاب : 40)
ترجمہ : محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی )ہیں۔
عیسی علیہ السلام کی رسالت اپنے زمانے تک تھی جوکہ ختم ہوگئی ، قرآن آتے ہی پچھلے ساری شریعتوں کو ملغی کردیا۔ خود عیسی علیہ السلام اس بات کی بشارت دے کرگئے کہ میری رسالت ختم ہونے کے بعد احمد (ﷺ) کو رسالت ملے گی۔قرآن نے اس بات کو یوں بیان کیاہے:
وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ
ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ۔(الصف:6)
ترجمہ : اور جب مریم کے بیٹے عیسی نے کہا اے (میری قوم) بنی اسرائیل! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے۔ پھر جب وہ انکے پاس کھلی دلیلیں لائے تو یہ کہنے لگے ، یہ تو کھلا جادو ہے۔
نبی ﷺ کی آمد سے عیسی علیہ السلام کی رسالت ختم ہوگئی اور تاقیام قیامت محمد ﷺ کی ہی رسالت چلے گی ۔گویا جب عیسی علیہ السلام قرب قیامت میں نازل ہوں گے تو آپ شریعت محمدیہ کے پیروکار ہوں گے اور اسی کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ یہ باتیں مذکورہ بالا آیات سے بھی مترشح ہیں، نیز اس کے علاوہ بہت سے واضح اور صریح نصوص بھی ہیں۔
مزید چند دلائل دیکھیں :
(1) والذي نفسي بيدِه ، ليُوشكنَّ أن ينزلَ فيكم ابنُ مريمَ حكمًا مقسطًا ، فيكسرُ الصليبَ ، ويقتلُ الخنزيرَ ، ويضعُ الجزيةَ ، ويفيضُ المالُ حتى لا يقبلَه أحدٌ(صحيح البخاري: 2222)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ
ـ میں میری جان ہے، عنقریب تمہارے مابین عیسی بن مریم حاکم وعادل بن کر نزول فرما‏ئیں گے، صلیب توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ ختم کریں گے، اور مال کی اتنی فراوانی ہوگی کہ کوئی لینے والا نہ ہوگا۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ عیسی بن مریم کا نزول بطور عادل حاکم ہوگا نہ کہ نبی و رسول کے ۔
(2) والذي نفسي بيده لو أن موسى صلى الله عليه وسلم كان حيا ما وسعه إلا أن يتبعني(رواه أحمد 3/387)
ترجمہ : نبی ﷺ کا فرمان ہے : قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر موسی بھی زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔
٭ اس حدیث کو شیخ البانی نے حسن قرار دیا ہے ۔(ارواء الغلیل : 1589)
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ موسی ہو یا عیسی جو بھی آپ کے عہد رسالت میں رہیں گے انہیں آپ کی ہی پیروی کرنی ہوگی ۔
(3) لو كانَ بَعدي نبيٌّ لَكانَ عُمَرُ بنُ الخطَّابِ(صحيح الترمذي: 3686)
ترجمہ : نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمربن خطاب ہوتا۔
یہ حدیث نام کے ساتھ بتلاتی ہے کہ اگر کوئی محمد ﷺ کے بعد نبی ہوتا تو عیسی بن مریم نہیں بلکہ عمربن خطاب ہوتا۔
(4) لا تَزالُ طائِفةٌ من أُمَّتي يُقاتِلونَ على الحقِّ ظاهِرينَ إلى يومِ القيامَةِ. قال، فيَنْزِلُ عيسَى ابنُ مَريَمَ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فيقولُ أميرُهُم: تَعالَ صَلِّ لنا . فيقول : لا . إن بَعضَكُم علَى بعضٍ أُمَراءُ. تَكرِمَةَ اللهِ هذه الأُمَّةَ(صحيح مسلم: 156)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہتے ہوئے قتال کرتا رہے گا، وہ قیامت کے دن تک غالب رہیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر عیسی بن مریم صلی اللہ علیہ وسلم نازل ہونگے، تو اس وقت کا امیر کہے گا:آگے بڑھیں اور ہمیں نماز پڑھائیں۔تو عیسی علیہ السلام کہیں گے: نہیں، تم خود ہی آپس میں ایک دوسرے پر امیر ہو، یہ اللہ تعالی نے اس امت کو شان بخشی ہے۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ عیسی بن مریم کی موجودگی میں بھی پہلے سے متعلق امام امامت کرائیں گے جوکہ اس امت (امت سے مراد بنواسرائیل نہیں، امت محمدیہ ہے) کے لئے اللہ کی طرف سے فضیلت ہے۔
اسی معنی کی شیخین کی تخریج کردہ ایک روایت اس طرح سے ہے۔
كيف أنتم إذا نزل ابنُ مريمَ فيكم ، وإمامُكم منكم .(صحيح البخاري:3449 ، صحيح مسلم:155)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوگی جب ابن مریم تمہارے درمیان اتریں گے، اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا۔

مذکورہ تمام دلائل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عیسی علیہ السلام بطور امتی (امت محمدیہ میں سے) عادل حکمراں بن کرنازل ہوں گے اور شریعت محمدیہ کا پابند ہوکر فیصلہ کریں گے ۔ آپ کسی نومولود فرقے کی نسبت اور کسی معین امام کی تقلید سے پاک ہوں گے ۔
جزاک اللہ خیراً
اہل علم سے گزارش ہے کہ مجھے علماء کے اقوالات بھی دے دیں جس میں انھوں نے کہا ہو کہ عیسی علیہ السلام ایک امتی کی حیثیت سے آئیں گے تھوڑا ارجینٹ ہے مدد کریں
جزاک اللہ خیراً
 

zubairandnasir

مبتدی
شمولیت
نومبر 29، 2016
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
بہت خوشنما نعرہ ہے کہ عالم بھی قرآن و حدیث سے براہ راست احکام لے اور جاہل بھی. لیکن حقیقت کی دنیا میں ناقابل عمل ہے جب تک کہ جاہل خود عالم نہ بن جائے.
ایک مثال دیتا ہوں: ایک جاہل شخص نے ایک کمپنی بنا لی جس کی حیثیت شخص قانونی کی ہے. قرآن و حدیث میں صریح اور واضح حکم تو اسے مل نہیں سکتا کیوں کہ یہ اجتہادی مسئلہ ہے. اب وہ کیا کرے؟

باقی تقلید کے بارے میں آپ کی بعض باتیں حقیقت میں ویسی نہیں ہیں جیسی آپ نے سمجھی ہیں. اس کی بعد میں وضاحت کروں گا ان شاء اللہ.
جس کی حیثیت شخص قانونی کی ہے،، سمجھا نہیں میں؟؟

Sent from my XT1058 using Tapatalk
 

zubairandnasir

مبتدی
شمولیت
نومبر 29، 2016
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
بہت خوشنما نعرہ ہے کہ عالم بھی قرآن و حدیث سے براہ راست احکام لے اور جاہل بھی. لیکن حقیقت کی دنیا میں ناقابل عمل ہے جب تک کہ جاہل خود عالم نہ بن جائے.
ایک مثال دیتا ہوں: ایک جاہل شخص نے ایک کمپنی بنا لی جس کی حیثیت شخص قانونی کی ہے. قرآن و حدیث میں صریح اور واضح حکم تو اسے مل نہیں سکتا کیوں کہ یہ اجتہادی مسئلہ ہے. اب وہ کیا کرے؟

باقی تقلید کے بارے میں آپ کی بعض باتیں حقیقت میں ویسی نہیں ہیں جیسی آپ نے سمجھی ہیں. اس کی بعد میں وضاحت کروں گا ان شاء اللہ.
محترم یہی تو آپ کا قیاس فاسد ہے... نہ تو کسی جاہل کو علامہ محدث بننے کا حکم کیا گیا ہے. نہ ہی کسی علامہ کو امام العرب والعجم بننے کا حکم کیا گیا ہے... سوال یہ ہے "جتنا علم حاصل کیا اس پر عمل کتنا کیا؟".
اور جاہل (عامی) کا عالم (مفتی) سے قرآن حدیث کی روشنی میں مسئلہ پوچھنا ہی نص سے ثابت ہے. اور اسے پیروی باالدلیل کہا جاتا ہے. اور آپ اسی چیز کو تقلید باور کروانے پر بضد ہیں..
اگر کسی سے کچھ پوچھنے اور سیکھنے کو آپ تقلید کہتے ہیں تو ایک بار صرف ہاں لکھ دیں .....


Sent from my XT1058 using Tapatalk
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جس کی حیثیت شخص قانونی کی ہے،، سمجھا نہیں میں؟؟

Sent from my XT1058 using Tapatalk
شخص قانونی کے بارے میں میں جو بتاؤں گا اسے آپ مان لیں گے یا شخص قانونی کا نام قرآن و حدیث سے تلاش کریں گے؟

محترم یہی تو آپ کا قیاس فاسد ہے... نہ تو کسی جاہل کو علامہ محدث بننے کا حکم کیا گیا ہے. نہ ہی کسی علامہ کو امام العرب والعجم بننے کا حکم کیا گیا ہے... سوال یہ ہے "جتنا علم حاصل کیا اس پر عمل کتنا کیا؟".
اور جاہل (عامی) کا عالم (مفتی) سے قرآن حدیث کی روشنی میں مسئلہ پوچھنا ہی نص سے ثابت ہے. اور اسے پیروی باالدلیل کہا جاتا ہے. اور آپ اسی چیز کو تقلید باور کروانے پر بضد ہیں..
اگر کسی سے کچھ پوچھنے اور سیکھنے کو آپ تقلید کہتے ہیں تو ایک بار صرف ہاں لکھ دیں .....
کیوں خیریت؟ آپ نے اس پر کوئی مباحثہ کرنا ہے؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
دنیا کے ہر علم میں جس کو جتنا علم ہوتا ہے اتنا وہ مجتہد ہوتا ہے اور جتنا نہیں ہوتا اس مقدار میں وہ دوسرے کی پیروی کرتا ہے۔ انجینئر ڈاکٹر کی پیروی کرتا ہے اور ڈاکٹر سائنسدان کی۔ اسی طرح ایم بی بی ایس ڈاکٹر اعلی تعلیم والے ریسرچ کی صلاحیت رکھنے والے ڈاکٹر کی دوا پر تحقیق میں پیروی کرتا ہے اور مریض کے لیے دوا کی تعیین میں مجتہد ہوتا ہے۔
علم دین میں بھی ایسے ہی ہے۔ مثال کے طور پر اگر مجھے عربی کا ترجمہ کرنا آتا ہے تو اس میں میں مجتہد ہوں۔ اور اگر مجھے علم حدیث سے شناسائی نہیں ہے تو میں اس میں کسی کی بات مانوں گا۔ اگر مجھے علم حدیث کا علم بھی ہے اور میں حدیث پر صحیح و ضعیف کا حکم بھی لگا سکتا ہوں تو میں اس میں مجتہد ہوں لیکن اگر تمام روایات کو دیکھتے ہوئے ان میں ترجیح و تطبیق خود نہیں کر سکتا تو اس میں کسی اور کی راہ پر چلوں گا۔
اگر یہ نہ ہوتا تو دنیا کا ہر شخص برابر ہوتا جو کہ نہیں ہے۔ میں، آپ اور امام احمد بن حنبل حدیث میں برابر نہیں ہیں۔

پھر آگے اجتہاد کی صلاحیت کا فرق ہوتا ہے۔ کوئی کم اجتہاد کر سکتا ہے اور کوئی زیادہ، اور کوئی بہت زیادہ۔ کوئی صرف ظاہری الفاظ سے حاصل ہونے والے مسئلے تک پہنچ رکھتا ہے۔

یہ جو پیروی ہے اسے پھر دو عنوان دیے جاتے ہیں۔ اگر دلیل کا مطالبہ کیے بغیر ہو تو تقلید کہی جاتی ہے اور اگر دلیل کا مطالبہ کر کے ہو تو اتباع کہلاتی ہے۔
میں اپنا ذاتی رجحان عرض کروں تو اتباع عالم کر سکتا ہے، غیر عالم نہیں۔
اگر میں عالم نہیں ہوں اور میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھتا ہوں، آپ وہ مسئلہ بھی مجھے بتاتے ہیں اور اس کی دلیل کے طور پر ایک حدیث مبارکہ بھی اور کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ میں نہ تو حدیث کی سند کی تحقیق کا علم رکھتا ہوں اور نہ ہی اس بات کا کہ اس مسئلہ میں دیگر معانی کی احادیث کون کون سی ہیں اور ان میں کون سی ناسخ، کون سی منسوخ اور کون سی راجح، کون سی مرجوح ہے تو بھلا مجھے آپ کے حدیث بتانے سے کیا فائدہ ہوا؟ ممکن ہے آپ کی بتائی ہوئی حدیث مرجوح ہو لیکن مجھے پتا ہی نہ ہو۔ میں تو آپ کی بات مان لوں گا کہ فلاں عالم نے مجھے حدیث بتائی تھی اور اسے صحیح اور راجح کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ تو درحقیقت میں نے دلیل تو لی ہی نہیں ہے، میں نے تو دلیل میں آپ کی بات مانی ہے یعنی آپ کی تقلید کی ہے۔
تو ہر کوئی کسی نہ کسی حد تک تقلید کرتا ہے۔
السلام و ءعلیکم و رحمت الله -

محترم- آپ کی باتیں سمجھ سے بالاتر ہیں -

آپ کہتے ہیں "میں اپنا ذاتی رجحان عرض کروں تو اتباع عالم کر سکتا ہے، غیر عالم نہیں۔" آگے پھر مذید فرماتے ہیں کہ " درحقیقت میں نے دلیل تو لی ہی نہیں ہے، میں نے تو دلیل میں آپ کی بات مانی ہے یعنی آپ کی تقلید کی ہے۔ ہر کوئی کسی نہ کسی حد تک تقلید کرتا ہے۔"

تو کیا اس "تقلید" میں انبیاء کرام کو بھی شامل کریں گے؟؟ مثال کے طور پر نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا معراج کے موقع پر الله کی مختلف نشانیوں کے بارے میں فرشتوں سے استفسار کرنا کیا ان فرشتوں کی تقلید تھی ؟؟- حضرت موسی علیہ سلام کا حضرت خضر علیہ سلام سے تین عقل سے ماورا واقعات سے متعلق استفسار کرنا کیا ان کی تقلید تھی ؟؟ مزید یہ کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین پیدائشی مجتہد تو نہی تھے تو کیا رسول الله صل الله علیہ و آ له وسلم کے مقلد تصور کیے جائیں گے؟؟-

مزید یہ کہ اگر تقلید صرف عامی کے لئے ہے- عالم کے لئے نہیں ہے تو پہلی بات یہ کہ ہر شخص پیدائشی عالم یا مجتہد نہیں ہوتا - اب چایے وہ امام ابو حنیفہ یا امام شافعی کیوں ںا ہوں- تو ان پر بھی تقلید کا واجب ہوںا ضروری ہوںا چاھیے (جب کہ ایسا ہے نہیں) - دوسرے یہ کہ دنیا میں بے شمار ایسے علما ء و مشائخ پیدا ہؤے جنہوں ںے عامی سے عالم اور پھر عالم سے مجتہد ہوںے کا سفر مکمل کیا- لیکن زندگی بھر"تقلید" ان سے ساقط نہیں ہوئی - وہ مرتے دم تک کسی ںا کسی امام کے مقلد ہی رہے - جب کہ آپ کے اصول کے تحت انھیں تقلید سے مستثنی ہوںا چاھیے تھا ؟؟ کیوں کہ وہ اب عامی نہیں رہے ؟؟-ایسا کیوں -
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام و ءعلیکم و رحمت الله -
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترم- آپ کی باتیں سمجھ سے بالاتر ہیں -
ذرا سا غور فرمائیے تو کچھ ایسی مشکل بھی نہیں ہیں۔ البتہ براہ کرم توجہ سے پڑھیے گا۔

تو کیا اس "تقلید" میں انبیاء کرام کو بھی شامل کریں گے؟؟
اس بات میں تو شاید کسی کو بھی اختلاف نہ ہو کہ اتباع، تقلید اور حصول علم الگ الگ چیزیں ہیں۔ علم حاصل کرنے کو کوئی بھی تقلید نہیں کہتا۔ میں نے عرض کیا:
مثال کے طور پر اگر مجھے عربی کا ترجمہ کرنا آتا ہے تو اس میں میں مجتہد ہوں۔
یہ بدیہی بات ہے کہ مجھے پیدائشی طور پر عربی کا ترجمہ نہیں آ سکتا چاہے میں عربی خاندان میں ہی پیدا کیوں نہ ہو جاؤں۔ عرب بچہ بھی عربی کو سمجھنا عمر کے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد سے سیکھتا ہے۔ یہ عربی جو میں مختلف اساتذہ اور کتب سے سیکھوں گا تو یہ تحصیل علم ہے۔ میں اس میں جب ید طولی حاصل کر لوں گا تو مجھے اس سے ترجمہ کرنے کا ملکہ حاصل ہو جائے گا۔ اب میں اس ترجمے میں الفاظ کے انتخاب اور تعبیرات کی تعیین میں اجتہاد کروں گا۔
لیکن اگر میں نے یہ علم حاصل نہیں کیا اور میں ایک عالم کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ الید العلیا خیر من الید السفلی کا کیا مطلب ہے تو وہ مجھے مطلب بتا دے گا۔ میں اس سے دلیل پوچھوں گا تو وہ مجھے کہے گا کہ الید موصوف ہے اور العلیا صفت، موصوف صفت مل کر مبتدا ہو رہا ہے۔ خیر اسم تفضیل ہے، 'من' جارہ اور الید السفلی موصوف صفت مجرور مفضل منہ، اسم تفضیل اپنے مفضل منہ کے ساتھ مل کر خبر ہوا اور یہ جملہ خبریہ ہوا جس نے یہ خبر دی۔
آپ مجھے عامی فرض کرنا اگر چھوڑ بھی دیں تو فورم کے کسی بھی غیر عالم ساتھی سے کہیے کہ وہ اس گورکھ دھندے کو سمجھ کر دکھائے۔
اگر میں ایک عامی شخص ہوں تو ظاہر ہے مجھے یہ سب سمجھ نہیں آ سکتا۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ میں اس عالم کی بات مان لوں گا اور یہ سمجھوں گا کہ اس نے دلیل دی ہے البتہ میں دلیل کو سمجھ نہیں سکا۔ اب ذرا سا غور کر کے مجھے بتائیے کہ اس ترجمے کو آگے بیان کرنے میں، میں تقلید کر رہا ہوں گا یا نہیں؟
یہ فرق ہے حصول علم اور تقلید میں۔
انبیاء کرامؑ حصول علم فرماتے تھے اور صرف انبیاء نہیں بلکہ ہر دور کے علماء حصول علم کی راہ پر چل کر ہی عالم بنے ہیں۔

مثال کے طور پر نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا معراج کے موقع پر الله کی مختلف نشانیوں کے بارے میں فرشتوں سے استفسار کرنا کیا ان فرشتوں کی تقلید تھی ؟؟- حضرت موسی علیہ سلام کا حضرت خضر علیہ سلام سے تین عقل سے ماورا واقعات سے متعلق استفسار کرنا کیا ان کی تقلید تھی ؟؟
یہ حصول علم تھا۔

مزید یہ کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین پیدائشی مجتہد تو نہی تھے تو کیا رسول الله صل الله علیہ و آ له وسلم کے مقلد تصور کیے جائیں گے؟؟
تقلید کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ دلیل کا مطالبہ کیے بغیر کسی کی پیروی کی جائے۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ و ما ینطق عن الہوی، ان ہو الا وحی یوحی کے بموجب نبی کریم ﷺ کے تمام اقوال مبارکہ خود ہی دلیل ہیں۔ اب جب کسی صحابی رض نے نبی کریم ﷺ سے کوئی مسئلہ پوچھا اور آپ نے جواب ارشاد فرمایا تو یہ جواب بذات خود دلیل ہے چاہے اس میں مزید دلیل دی گئی ہو یا نہیں۔ اس لیے اس پر تقلید کی تعریف صادق نہیں آتی۔
ویسے اگر انہیں نبی پاک ﷺ کا مقلد کہا بھی جائے تو اس میں کون سی برائی کی بات ہے۔ آپ کے ہر ارشاد پر دلیل مانگے بغیر گردن کٹانا ہی عین ایمان ہے۔ اگر دلیل مانگ لی تو ایمان کیسا ہوا؟

مزید یہ کہ اگر تقلید صرف عامی کے لئے ہے- عالم کے لئے نہیں ہے تو پہلی بات یہ کہ ہر شخص پیدائشی عالم یا مجتہد نہیں ہوتا - اب چایے وہ امام ابو حنیفہ یا امام شافعی کیوں ںا ہوں- تو ان پر بھی تقلید کا واجب ہوںا ضروری ہوںا چاھیے (جب کہ ایسا ہے نہیں)
یہ کون کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہے؟ ایسا ہی ہے کہ جب تک کوئی بھی عالم کسی مسئلہ کا کامل علم نہیں رکھتا وہ زیادہ علم والے کی تقلید کرتا رہتا ہے۔ امام شافعیؒ بچپن سے علم میں کامل اور مجتہد تو نہیں ہو گئے تھے۔ تو اس وقت وہ مسائل میں کیا کرتے تھے؟ نمازیں کیسے پڑھتے تھے؟ دیگر مسائل میں کیا کرتے تھے؟
اگر آپ کہیں کہ وہ حدیث مبارکہ معلوم کر کے اس پر عمل کرتے تھے تو ایک تو یہ بات محتاج دلیل ہے۔ دوسرا وہ اس حدیث کی تصحیح و تضعیف کیسے کرتے تھے؟ اگر وہ بھی معلوم کرتے تھے تو گویا اس میں دوسرے کی رائے لیتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے تو اسی کو تقلید کہتے ہیں۔
ہر عالم اپنی زندگی کے اس حصے میں جس میں وہ علم نہیں رکھتا کسی علم والے کے راستے پر چلتا ہے۔ پھر جیسے جیسے اسے علم حاصل ہوتا رہتا ہے اس کے سامنے اس کی اپنی راہ واضح ہوتی جاتی ہے۔
ایک اہل حدیث عالم جب بچپن گزارتا ہے تو اسے سب سے پہلے یہ پتا چلتا ہے کہ نماز میں رفع الیدین کرنا ہے۔ پھر ممکن ہے کہ اس کے دلائل بھی پتا چل جاتے ہوں۔ اور ممکن ہے کہ تصحیح و تضعیف بھی وقت کے ساتھ ساتھ پتا چل جاتی ہو۔ لیکن ذرا بنظر انصاف فرمائیے کہ کیا وہ اس عمر میں بغیر علم کے یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس کے عالم (مثال کے طور پر زبیر علی زئیؒ) نے اسے جو تصحیح و تضعیف بتائی ہے وہ صحیح ہے بھی یا نہیں؟؟؟ ظاہر ہے وہ یہ فیصلہ نہیں کر سکتا اور اپنے عالم پر اعتماد کرتا ہے کہ ٹھیک بتایا ہوگا۔ یہ تقلید ہے۔

دوسرے یہ کہ دنیا میں بے شمار ایسے علما ء و مشائخ پیدا ہؤے جنہوں ںے عامی سے عالم اور پھر عالم سے مجتہد ہوںے کا سفر مکمل کیا- لیکن زندگی بھر"تقلید" ان سے ساقط نہیں ہوئی - وہ مرتے دم تک کسی ںا کسی امام کے مقلد ہی رہے - جب کہ آپ کے اصول کے تحت انھیں تقلید سے مستثنی ہوںا چاھیے تھا ؟؟ کیوں کہ وہ اب عامی نہیں رہے ؟؟-ایسا کیوں -
یہ بھی درست نہیں۔ ہر کوئی اپنے علم کے مطابق تقلید سے نکلتا جاتا ہے۔ پھر امام مزنیؒ کے الفاظ میں اس کی رائے امام کی رائے کے موافق ہو جاتی ہے تو وہ اس امام کے مسلک پر کہلاتا ہے۔ ورنہ وہ حقیقتاً کامل مقلد نہیں ہوتا۔
اس کے لیے فقہاء احناف نے مجتہد فی المذہب، اصحاب تمییز وغیرہ قسمیں کی ہیں اور شوافعؒ نے مجتہد منتسب وغیرہ الفاظ ذکر کیے ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ نے غالباً الانصاف میں اس پر طویل گفتگو فرمائی ہے۔
ان چیزوں کا عموماً لوگوں کو علم ہی نہیں ہوتا تو ان کے ذہن میں یہ اشکالات پیدا ہوتے ہیں۔ اور بعض اوقات جاننے والے بھی تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں (حفظنا اللہ منہ)
البتہ ایک چیز اور ہے۔ انسانی طبائع مختلف ہیں۔ بعض لوگوں کی یہ طبیعت ہوتی ہے کہ ان کی اپنی رائے جتنی بھی مدلل ہو انہیں اطمینان نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ کسی عالم کی رائے پر عمل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ اس میں بے اطمینانی نہیں ہوتی۔ لا یکلف اللہ نفساً الا وسعہا۔
قول مرجوح پر عمل کرنے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں جنہیں ابن تیمیہؒ نے ذکر فرمایا ہے اور ان کی تصویب کی ہے۔
ھذا ما ظہر لی۔ و اللہ اعلم بالصواب
 
Top