• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غار میں ابوبکررضی اللہ عنہ کوسانپ کاڈسنا

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔
ویسے تو بچپن سے یہ واقعات سن رہے ہیں ۔ الحمدلِلہ ۔
انبیاء علیہ السلام کے بعد ان ہی صدقین و مومنین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا درجہ ہے ۔ اپنی جگہ لیکن کئ واقعات گھڑے بھی گئے ہیں ۔ جس میں ہمارے جیسے عام مسلمان کو کبھی کبھار شناخت نہیں کرپاتے ۔
لیکن ایک وقت میں نے ایک عالم سے سنا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سانپ کے ڈسنے والا واقعہ میں افراط سے کام لیا ہوا ہے ۔
آج ہی جمعہ کے دن ایک بار پھر ایک مولوی صاحب سے سنا ۔
المختصراً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے تمار سوراخ بند کردیئے مگر ایک سوراخ ره گیا اور اسی میں سانپ تها, حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سوراخ پر اپنی ایڑی رکھ دی, اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غار میں داخل ہوئے
پھر آپ ابوبکر کی گود میں سوگئے اور بعد میں سانپ نے سوراخ پر ایڑی دیکهی تو اس پر ڈنک مارا۔
ابوبکرکی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے اور گرکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر گرے توپوچھا کہ کیوں روتا ہے جواب دیا کہ سانپ نے ڈس لیا ہے ۔ سانپ سے پوچھا کہ کیوں ؟ جواب دیا کہ میں نے بہت عرصہ پہلے ایک نبی علیہ السلام کی بات سنی تھی کہ اس غار میں ایک آخری نبی علیہ السلام آئے گااور اس غار میں تین راتیں گزارے گا ۔
الغرض اس کے لیے میں انتظار کررہا تھا ، اب جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے تو میں دیکھنے کے لیے بے تاب تھا ایک ہی سوراخ بچا تھا جس پر ابوبکر کا پاؤں تھا سو میں نے ڈس لیا تاکہ آپ کا دیدار کرسکو ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سلمان التجار الْفَقِيهُ إِمْلَاءً، قَالَ: قُرِئَ عَلَى يَحْيَى بْنِ جَعْفَرٍ وَأَنَا أَسْمَعُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الرَّاسِبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي فُرَاتُ بْنُ السَّائِبِ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ ضَبَّةَ بْنِ مِحْصَنٍ الْعَنَزِيِّ، عن عمر ابن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فِي قِصَّةٍ ذَكَرَهَا، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ وَاللهِ لَلَيْلَةٌ مِنْ أَبِي بَكْرٍ وَيَوْمٌ خَيْرٌ مِنْ عُمُرِ عُمَرَ، هَلْ لَكَ أَنْ أُحَدِّثَكَ بِلَيْلَتِهِ وَيَوْمِهِ؟ قَالَ: قُلْتُ نَعَمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ أَمَّا لَيْلَتُهُ فَلَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآله وسلّم هارب مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ خَرَجَ لَيْلًا فَتَبِعَهُ أَبُو بَكْرٍ، فَجَعَلَ يَمْشِي مَرَّةً أَمَامَهُ، وَمَرَّةً خَلْفَهُ، وَمَرَّةً عَنْ يَمِينِهِ، وَمَرَّةً عَنْ يَسَارِهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآله وَسَلَّمَ: «مَا هَذَا يَا أَبَا بَكْرٍ مَا أَعْرِفُ هَذَا مِنْ فِعْلِكَ؟» قَالَ: يَا رَسُولُ اللهِ أذكر الرَّصَدَ فَأَكُونُ أَمَامَكَ، وَأَذْكُرُ الطَّلَبَ فَأَكُونُ خَلْفَكَ، وَمَرَّةً عَنْ يَمِينِكِ وَمَرَّةً عَنْ يَسَارِكَ، لَا آمَنَ عَلَيْكَ، قَالَ: فَمَشَى رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وآله وَسَلَّمَ لَيْلَتَهُ عَلَى أَطْرَافِ أَصَابِعَهُ، حَتَّى حَفِيَتْ رِجْلَاهُ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهَا قَدْ حَفِيَتْ حَمَلَهُ عَلَى كَاهِلِهِ، وَجَعَلَ يَشْتَدُّ بِهِ حَتَّى أَتَى بِهِ فَمَّ الْغَارِ، فَأَنْزَلَهُ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا تَدْخُلُهُ حَتَّى أَدْخَلَهُ، فَإِنْ كَانَ فِيهِ شَيْءٌ نَزَلَ بِي قَبْلَكَ، فَدَخَلَ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا، فَحَمَلَهُ فَأَدْخَلَهُ، وَكَانَ فِي الْغَارِ خَرْقٌ فيه حيات وأفاعي، فَخَشِيَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَخْرُجَ مِنْهُنَّ شَيْءٌ يُؤْذِي رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عليه وآله وَسَلَّمَ، فَأَلْقَمَهُ قَدَمَهُ فَجَعَلْنَ يَضْرِبْنَهُ وَيَلْسَعْنَهُ: الْحَيَّاتُ وَالْأَفَاعِي، وَجَعَلَتْ دُمُوعُهُ تَنْحَدِرُ وَرَسُولُ الله صلى الله عليه وآله وَسَلَّمَ، يَقُولُ لَهُ: يَا أَبَا بَكْرٍ! لَا تَحْزَنْ، إِنَّ اللهَ مَعَنَا، فَأَنْزَلَ الله سكينته الاطمئنانية لِأَبِي بَكْرٍ، فَهَذِهِ لَيْلَتُهُ [دلائل النبوة للبيهقي 2/ 477]

یہ روایت سخت ضعیف ہے۔
سندمیں موجود ’’فرات‘‘ پرمحدثین کی سخت جرح ہے۔

امام ابن عساکر وغیرہ نے بھی اسی سند سے اسے روایت کیا ہے۔
صاحب مشکاۃ کے بقول رزین نے بھی اسے روایت کیا ہے [مشكاة المصابيح: 3/ 1700]

لیکن اس کی سند نامعلوم ہے۔
 
Top