(۳)عورتوں سے دبر کے رستے مجامعت کرنا
یہ بات جب کسی عاقل سے مخفی نہیں کہ اس فعل سے کس قدر جسمانی ضرر واقع ہوتے ہیں اور معاشرے میں کیسی برائیاں پھیلتی ہیں جب انسان فطرتی راہ کو چھوڑ دے (والعیاذ باللہ)۔
جبکہ اس کی نہی میں صریح و صحیح احادیث وارد ہیں جن میں عورتوں سے انکی دبر میں وطی کرنے والے پر لعنت کی گئی ہے اور اس فعل کو حرام ٹھہرایا گیا ہے۔ اللہ فرماتے:
(وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)
اور آپ سے سوال کرتے ہیں حیض کے بارے میں آپ ا فرما دیجیے کہ وہ اذیت ہے پس !تم عورتوں سے حیض کے دوران الگ رہو اور ان کے پاک ہونے تک ان کے پاس نہ جاؤ پس جب وہ پاک ہو جائیں تو وہاں سے ان کے پاس جاؤ جہاں سے جانے کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے، بے شک اللہ توبہ کرنے والوں اور طہارت اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
پس یہ آیت اس شخص کے لیے حجت ہے جو عورتوں کو انکی دبر سے وطی کو جائز قرار دیتا ہے۔پس حیض دُبر میں نہیں بلکہ قبل(سامنے) میں ہوتا ہے ۔اس کے اعتزال کا حکم بھی قبل سے وطی کرنے کے حکم پر دلالت کرتا ہے۔
لیکن رافضی ، رَفَضَہُمُ اللہ، اس کو حلال قرار دیتے ہیں اور ایسی جھوٹی روایات اور ان کی نسبت ائمہ اہلِ بیت کی طرف کرتے ہیں جیسے کہ وہ اس کے علاوہ قرآن کی آیات کی باطل تاویلات کرتے ہیں جبکہ ان کے پاس ایسی دلیلیں پہنچ چکیں جو ان کا رد کرتی ہیں۔
جیسے انکے ہاں ایسی روایات ''الاستبصار''میں ہیں جسے الطوسی ، عبد اللہ بن ابی الیعفور سے روایت کرتا ہے کہ :
میں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے سوال کیا ایسے مرد کے بارے میں جو اپنی عورت کے پیچھے سے آتا ہے؟ تو انہوں نے کہاکوئی حرج نہیں جبکہ وہ راضی ہو۔ میں نے کہا تو اللہ کے اس قول کا کیا مطلب ہو ا '' اور وہاں سے ان کے پاس آؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں آنے کا حکم دیا ہے' 'کہنے لگے یہ اولاد کے طلب کرنے بارے میں ہے اس لیے اولاد وہیں سے طلب کرو جہاں سے اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ بے شک اللہ فرماتے ہیں ''تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں پس جہاں سے چاہو ان کے پاس آؤ''۔
اسی طرح ''الطوسی''نے موسیٰ بن عبد الملک سے روایت کیا اور وہ ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوالحسن الرضا علیہ السلام سے سوال کیا کہ آدمی اگر اپنی عورت کے پاس دبر سے آئے؟ تو انہوں نے کہا کہ اسے کتاب اللہ کی ایک آیت نے حلال کیا جب کہ لوط نے اپنی قوم سے کہا
{هَؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ۖ } یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ ہیں۔ پس معلوم ہو کہ لوط کی قوم فرج نہ چاہتی تھی(والعیاذ باللہ)۔ پس دیکھو کہ وہ کیسے اللہ عزوجل کے کلام میں باطل تاویلیں کرتے ہیں تاکہ وہ باتیں حلال ٹھہرائیں جنہیں اللہ نے حرام کردیا ہے۔ پس اللہ خبائث کوحلال نہیں ٹھہراتا اور عورتوں کو دبر میں آنا خبائث میں سے ہے جسے اللہ نے حرام قرار دیا۔
سید حسین الموسوی نے اس بات کا اپنی کتاب میں بہت بہتر رد کیا ہے وہ کہتا ہے کہ اللہ کے اس قول
{هَؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ۖ } کی تفسیر ایک اور جگہ بھی وارد ہے جبکہ اللہ فرماتے ہیں
{وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ } جب لوط نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ بہت فاحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے کسی قوم نے نہیں کیا تو مردوں کے پاس آتے ہو اور راستوں کو قطع کرتے ہو۔ جبکہ راستوں کو قطع کرنا اس سے صرف راستوں کی رہزنی ہی مراد نہیں بلکہ اس سے مراد نسل کا قطع کرنا بھی ہے جب کہ اس کو غیرِ موضع میں طلب کیا جائے۔ پس اگر لوگ سارے ہی ادبار میں جانا شروع کردیں مردوں اورعورتوں کی ادبار میں اورا ولاد طلب کرنا بھی چھوڑ دیں تو نسلِ انسانی منقطع ہو جائے گی۔ آیتِ کریمہ یہ معنی بھی دیتی ہے اگر خاص طور پر ہم اس آیت سے ما قبل کے سیاق کو بھی ملاحظہ کریں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ بات امام الرضاعلیہ السلام سے مخفی نہیں رہی ہوگی۔ ثابت ہوا کہ اس روایت کی نسبت ان کی طرف کرنا غلط ہے۔
میں( الزرقاویؒ) نے ان لوگوں کے حالات پر بہت غوروتدبر کیا کہ کس بات نے انہیں اس فساد تک پہنچا دیا؟ وہ ظاہر میں اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور ساتھ عفت وطہارت کی بات کرتے ہیں! جبکہ وہ ایسے قبائل ہیں جو اہلِ اسلام کے درمیان رہتے ہیں اور بڑے شان و شوکت والے لباس پہنتے ہیں اور وہ فسادوخرابی کی ایسی حد تک جا پہنچے ہیں جہاں اس سے پہلے کوئی امت نہ پہنچی تھی۔اگر آج ہم یورپ و امریکہ وغیرہ کی طرف نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ رافضی ان سے کہیں آگے نکل چکے ہیں! بلکہ آج ہم دیکھتے ہیں وہ قوانین جن کے تحت یورپ والے حکومت کرتے ہیں وہ خود ایسے افعال کا انکار بہت کرتے ہیں چاہے ان کی قومیں اس فعل کو کرتی رہیں۔ مثلاً محرمات سے نکاح ان کے قوانین میں حرام ہے، اسی طرح ازدواجی خیانت بھی ممنوع ہے سوائے ان جنسی شہوتوں کے جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں۔ پس یہ سب کچھ وہ دین کے نام پر نہیں بلکہ شہوت کے نام پر کرتے ہیں۔
لیکن یہ رافضی ملعون ان کے ہاں ہر چیز دین کے نام پر مباح ہے۔تو دیکھے گا کہ ایک وقت میں ایک گھر میں کتنے بیٹے ہوتے ہیں اور وہ سب کے سب مختلف باپوں سے ہوتے ہیں اس متعہ کے نتیجہ میں جسے انہوں نے دین کے نام پر مباح قرار دیا۔ اس لیے یہ بات اکثر دیکھنے میں آتی ہے کہ اس طائفہ میں صلہ رحمی کا قطع کیا جانا بہت عام ہے بلکہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ آپس میں پھٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو جبکہ ان کے انساب کے پانی مختلط ہوگئے! پس کیا تھا اور کیا ہوگا ایسی امتوں کا اخلاقی فساد! ۔یہ رافضی اس سے بھی بدتر ہیں حتی کہ جانور بھی اپنی فطرت سے ہٹنے کو برا سمجھتے ہیں کہ وہ ایسا فعل کریں جیسے کہ یہ کرتے ہیں!
مجھے میرے ایک ثقہ بھائی نے ایک ایسا واقعہ سنایا جو اس نے اپنی آنکھوں سے خود ہوتے دیکھا ہے۔وہ کہتا کہ میں نے اپنی جوانی کے ابتدائی ایام میں یہ واقعہ دیکھا جس کے مثل میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ جب ایک بیل نے غیرت میں آکر اپنے نفس کو قتل کردیا۔اسکی آنکھیں باندھ دی گئی تھیں اور پھر میری دادی اسے پکڑکر اسکی والدہ کے پاس لے گئی اور وہ بیل نہ جانتا تھا کہ یہ اس کی ماں ہے کیونکہ اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی۔لیکن جڑاؤ کے اس عمل کے بعد اس کی ایک آنکھ منکشف ہوگئی اور اسے پتہ چل گیا کہ یہ اسکی ماں تھی تو وہ بیل بھاگ کردیوار کے ساتھ سر مارنے لگا یہاں تک کہ اس کا لہو بہ نکلا اور وہ جنون و ہیجان میں ادھر ادھر بھاگنے لگا اور پھر وہ دریائے دجلہ کی طرف نکل گیا جب کہ خون اس کے جسم سے بہ رہا تھا اور اس نے اپنے آپ کودجلہ میں پھینک دیا یہاں تک کہ وہ غرق ہوگیا اور اپنی ماں کے ساتھ کیے گئے اس فعل پر غیرت کھاتے ہوئے مر گیا۔ جبکہ وہ ایک چوپایہ تھا ...جانور! لیکن اسکی فطرت میں یہ بات نہ تھی تو اس نے اپنے آپ کو مار ڈالا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ جانور بھی محارم کے ساتھ زنا پر کس قدر پس و پیش کرتے ہیں لیکن کیسے انسان ان باتوں کی عقل نہیں رکھتا؟
امام بخاری نے میمون بن مہران سے روایت کی ہے کہ انہوں نے جاہلیت کے زمانہ میں ایک بندر کو زنا کرتے ہوئے دیکھا تو سارے بندر اکھٹے ہوئے تو انہوں نے اسے رجم کر دیا۔ اسی طرح کی روایت امام مسلم نے ابی رجاء العطاردی سے کی ہے۔ اللہ کی پناہ!جانوروں اور چوپایوں کی امت جن کی فطرت میں عقل نہیں لیکن وہ کس قدر نقی و پاک ہیں۔
اللہ جانتا ہے،میں (الزرقاویؒ)نے ان لوگوں کے احوال کے بارے میں بہت تدبر کیا کہ کس بات نے انہیں اس حد تک پہنچادیا تو مجھ پر یہ و اضح ہوا کہ جس بات نے انہیں یہاں لاکھڑ کیا کہ ان کے اعمال کے مثل ہی انہیں جزاملی!پس جب ان لوگوں نے زمین کے اوپر سب سے اعلیٰ ترین گھر کے بارے میں زبانِ طعن دراز کی ... خبردار! اور وہ گھر ہے محمد ﷺ کا گھر ! جب انہوں نے آپ ﷺ کی ذات مبارکہ پر جرأت کا مظاہرہ کیا!
اللہ جانتا ہے اس بات کا ترجمہ کرتے ہوئے مجھے( مترجم) بہت خوف لاحق ہوا اور ایمان گوارا نہیں کرتا کہ ایسی بے ہودہ بات کو نقل کروں اور وہ بھی اس ذات مبارکہ کے بارے میں جسکی محبت کے وجود سے میرے خون کی گردش باقی ہے۔ لیکن میں اس لیے نقل کر رہاہوں تاکہ ان ملعونوں کا حسد و کینہ سب کی آنکھوں پر عیاں ہو جائے اور وہ کسی فیصلہ پر پہنچ جائیں۔
جیسے کہ سید حسین الموسوی نے ''علی الغروی''سے نقل کیا جو ''الحوزہ''کے کبار رافضی علماء میں سے ہے وہ کہتا ہے ( ان النبی ا لا بد ان یدخل فرجہ النار لانہ وطئی بعض المشرکات) کہ نبی کی شرمگاہ میں آگ (نعوذ باللہ) ضرور داخل ہو گی کیونکہ آپ نے بعض مشرکہ عورتوں سے نکاح کیا۔ جب کہ اس سے یہ ملعون، سیدہ کائنات طاہر ہ مطہرہ ام المومنین عائشہ صدیقہ اور ام المومنین حفصہ بنت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہن سے آپﷺ کانکاح مراد لیتے ہیں۔
جیسے کہ معلوم ہے کہ اسکی مراد نبی ﷺکے ساتھ برُا برتاؤ کرنا ، آپ کے ساتھ بد ظنی کرنا اور اس رب العلمین کے ساتھ بد ظنی کرنا جس نے آپ ﷺکو مبعوث کیا۔ یہ سب کا سب کفر و ضلال پر مبنی اور ایسے قول پر جرأت کوئی کافر و فاسق ہی کرسکتا ہے نہ کہ مسلمان۔ جیسے کہ مومنوں کی ماؤں پر بہتان باندھتے ہیں اور ان میں سرِفہرست المبراة المطھرة الصافیہ النقیہ صدیقہ بنت الصدیق عائشةرضی اللّٰہ عنھا ہیں اور اسمیں انہوں نے نبی ﷺ کی حرمت کا بھی خیال نہ کیا۔
لیکن جب انہوں نے ایسا فعل کیا تو اللہ نے ان کی عزتوں کو پھاڑ کے رکھ دیا، پس کوئی امت ایسی نہیں کہ جس کی عزتوں کو اسطرح تاراج کیا گیا تو وہ روافض ہیں اسی لیے اے دیکھنے والے تو دیکھے گا کہ رافضی کے نزدیک اپنی عزت کی کوئی قدرو قیمت نہیں چاہے وہ ظاہری طور پے اس کے کتنا ہی برعکس عمل کرے۔
پس ہم (الزرقاویؒ) یہاں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ بات ثابت کریں کہ کوئی بھی شخص جو نبی ﷺ کے صحابہ سے اتہام کو دور کرتا ہے اور ان کی عزتوں کا دفاع کرتا ہے اور خاص کر امہات المومنین کا دفاع کرتا ہے تو اللہ اسکی عزت سے اتہام کو دور کرتا ہے اور اسکی عزت کی حفاظت کرتا ہے کیونکہ وہ یہ دفاع کر رہا ہے۔
جیسے شرعاً بھی یہ معروف ہے {الجزاء من جنس العمل}کسی عمل کی جزاء اسی عمل کے جیسی ملتی ہے۔
یہاں یہ بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ یہاں ہم امام الشوکانیؒ کا وہ کلام نقل کریں جو انہوں نے اپنے مشاہدہ سے کہا کہ وہ یمن کے رافضیوں کے اندر رہتے تھے۔ پس انہوں نے اپنی کتاب{طلبُ الْعِلْم وطبقات المُتَعلِّمین} میں بہت عجیب اور خطرناک انکشافات کیے۔ القفاری کی کتاب ''اصول المذہب الشیعہ الامامیہ '' ایسا ہی کلام موجود ہے '' کہ کسی رافضی کے لیے کوئی بھی امانت کا ذمہ نہیں اس شخص پر جو اس کے خلاف مذہب کا پیروکار ہو اور رافضیت کے علاوہ کسی اور دین کو اپنائے۔بلکہ اس کے لیے ایسے شخص کا مال اور خون حلال ہے جب بھی ایسا کرنے کی اسے ادنیٰ سی فرصت مل جائے کیونکہ اس (سنی) کی حیثیت اسکے نزدیک مباح الدم اور مباح المال کی ہے اور جو کچھ وہ اپنی محبت ان کے لیے ظاہر کرتا ہے تووہ تقیہ سے ہے جو کسی بھی فرصت میں زائل ہوسکتی ہے۔
الشوکانی کہتے ہیں ...
٭ اس بات کا تجربہ ہم نے بار بار کیا ہے پس ہم نے کسی رافضی کو نہیں دیکھا جو کسی غیر رافضی سے سچی محبت رکھتا ہو چاہے وہ ظاہراً اپنی تمام مملوک اور ہر امکان کے ساتھ محبت کا اظہار کرے۔
٭ ہم نے کسی بدعتی مذہب میں اپنے مخالف کی اس قدر مخالفت نہیں پائی جتنی کہ رافضیوں کے اندر پائی جاتی ہے۔
٭ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ بہت زیادہ گالیاں بکنے والے ہوتے ہیں اور کسی سے ادنیٰ سے ادنیٰ جھگڑا پر بھی گالیوں کی بھر مار کردیتے ہیں۔ اس کا سبب واللہ اعلم۔ یہی ہے کہ انہوں نے نبی ﷺکے صحابہ کو گالیاں بکنا روا رکھا اور ان کو ان پاک باز ہستیوں پر گالی دینا بہت آسان ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہر گناہ میں شدت اختیار کرنے والے کو وہی آسان لگتا ہے۔
امام الشوکانیؒ نے ذکر کیا کہ...
یہ لوگ مسلم معاشرے میں کوئی جرم کرنے سے نہیں کتراتے اور کسی بھی حرام کام کے ارتکاب سے نہیں بچتے۔ہم نے بار ہا مرتبہ اس کا تجربہ کیا اور ہم نے کوئی رافضی نہیں پایاجو دین کے اندر محرمات سے بچتا ہو۔ چاہے وہ کوئی بھی ہو اور نہ ہی وہ ظاہراً اس بات کا اہتمام کرتا ہے۔ حالانکہ بعض اوقات انسان کسی گروہ میں بیٹھ کر کسی معصیت کا ارتکاب کرجاتا ہے لیکن جب اسے فرصت کا لمحہ ملتا ہے تو وہ ایسے شخص سے کانپ اٹھتا ہے جو جنت کا امیدوار نہیں اور آگ سے نہیں ڈرتا۔ پس تجھے کوئی رافضی گھر ایسا نہیں ملے گا مگر اس حالت میں کہ اللہ نے ان کے گھروں کی عزتوں میں ان کو سزا دی۔
یہاں شیخ ابو مصعب الزرقاوی شہیدؒ کا دوسرا لیکچر ختم ہوگیا۔