• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غداری وخیانت کا ِفرقہ ،کفر ونفاق کا مجموعہ الشِّیْعَۃیہودیوں کا ایجنٹ کافر گروہ ھل اتاک حدیث الرافضة

شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
پس ''حز ب اللہ'' کا تعلق ایران کے ساتھ فرع اور اصل کا ہے!
اسی لیے حزب نے اپنے تأسیسی بیان بعنوان '' ہم کون ہیں اور ہمار ا مقصد کیا ہے؟'' میں کہا اور اپنی تعریف یوں بیان کی...''ہم امت کے بیٹے ، ''حز ب اللہ'' کا گروہ ہیں وہ کہ جس کے پہلے گروہ کی نصرت اللہ نے ایران میں فرمائی اور اس نے پوری دنیا میں مرکزی اسلامی حکومت کو نئے سرے سے قائم کردیا، ہم ایک محکم وعادل واحد قیادت کے اوامر کی اتباع کرتے ہیں جس کے ساتھ ایک جامع ولی اور فقیہ ہے اور وہ ایک حاضر امام مصلح آیةُ اللّٰہ العظمیٰ روحُ اللّٰہ المُوسَوی الخُمَینی(علیہ لعنةُاللّٰہ)دام ظلہ ہیں ،جنہوں نے مسلمانوں کو ایک نیا انقلاب دیا اور ان کی نشاتِ ثانیہ کا سبب بنے۔

''اسی طرح حزب الشیطان کی قیادت کے ایک آدمی نے کہا کہ
''ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم ایران کا حصہ ہیں بلکہ ہم لبنان میں ایک ایران ہیں اور ایک ایسا لبنان ہیں جو ایران میں ہے''

ہم ( الزرقاویؒ) کہتے کہ جب ایرانی انقلاب جو خمینی کی قیادت میں برپا ہوا، جس نے اہل السنۃ کے خلاف بہت سے ملکوں میں دھماکوں، دہشت گردیوں اور مذبحہ خانوں کو قائم کیا، جیسے کہ کویت، بحرین، یمن، افغانستان، عراق، اور جیسے کہ ماہِ محرم میں مکہ المکرمہ بیت اللہ میں ہوا، پس یہ سارے سیاسی اعمال جنہیں ایرانی رافضی دین سمجھتے ہیں اور حزب اللہ جن کی شاخ ہے، جس نے خود اعتراف کیا کہ وہ اپنی نسبت و موافقت ایران کے ساتھ رکھتی ہے۔ پس ہر ایران کا دشمن ''حزب اللہ'' کا دشمن ہے۔ پس یہ حز ب اللہ اہل السنۃ کی دشمن ہے چاہے وہ ایک ہزار مرتبہ ''تقیہ'' کا لباس پہن لے اور اس سے وہی شخص غافل رہ سکتا ہے جو اپنی خواہشات کا پجاری ہے یا کسی جہالت کا شکار ہے۔

''کمزوروں کی پہلی کانفرنس'' کے نام سے منعقد ہونے والے اجتماع میں خمینی اپنے علماء اورشیعہ داعیوں کے ساتھ آیا اور ان کے درمیان محمد حسین فضل اللہ، صبحی الطفیلی ، تہران میں حرکۃ الامل کا نمائندہ ابراہیم امین شامل تھے۔ ان لوگوں نے اس نئی تحریک کے لیے جدید خطوط وضع کیے پھر یہ وفد واپس لبنان آگیا اوراس کے بعد علماء و نمائندگان سے رابطے کیے گئے اور پھر دوبارہ خمینی سے انکی ملاقاتیں کروائی گئیں جو پہلی کانفرنس میں حاضر نہ ہو سکے تھے پھر اس نے حزب اللہ کو آخری شکل دی۔

چنانچہ احمد الموسوی اپنے ایک مقالے میں جو اس نے مجلہ ''الشراع'' میں لکھا بعنوان ''تم کون ہو؟ حزب اللہ''اور اس میں لکھتا ہے ''پھر اس تنظیم کے باقی خطوط کو مکمل کیا گیا اور اسکی قیادت میں 12 ممبران داخل کیے گئے جن میں عباس الموسوی، صبحی الطفیلی، حسین الموسوی، حسن نصر اللہ، حسین خلیل ، ابراہیم امین، راغب حرب، محمد یزبک، نعیم قاسم ، علی کورانی، محمد رعد اور محمد فنیش شامل تھے''۔

لیکن حزب اللہ کے صرف یہی تاسیسی ارکان نہیں بلکہ ان کے ساتھ حرکتِ امل اور حزب الدعوۃ اور دوسری بہت سی قوت والی جماعتیں شامل تھی جو اپنے قائد اور امام خمینی کتے کے زیرِ اثر پروان چڑہیں۔ان میں ایسے بھی لوگ شامل تھے جن کے نام ابھی تک ''صیغہء راز'' میں ہیں!

بالفعل ایران نے حزب اللہ کو قائم کیا اور اس کے عسکری و سیاسی نظام کو خود وضع کیا اور اس کام کے لیے بہت بڑے بجٹ مختص کیے گئے کیونکہ اس حزب سے ان کے ''بڑوں'' کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں یہاں تک کہ ایران کی مدد اس سفر میں بہت واضح ہوگئی... 1986 کی گرمیوں کے آغاز میں ایک یورپی ڈپلومیٹ کا بیان جو اس نے حکومت کی طرف سے دیا اور اس میں اس نے شام کے حزب اللہ کے ساتھ نرم رویہ کا ذکر کیا جو کچھ یوں ہے''ایرانی بوئنگ747 سامان بردارطیارے دمشق ایئر پورٹ کے سائیڈ میں ہفتہ میں تین بار آتے ہیں اور خفیف اسلحہ کی ایک بڑی مقدار وہاں اتارتے ہیں جسے بعد میں انقلابی پہرے داروں کے حوالے کردیا جاتا ہے جو حزب اللہ کے دمشق کے قریب ٹریننگ سنٹر ''الزبدانی''یا بڑے ٹریننگ سنٹروں جو بعلبک کے علاقوں میں ہیں۔ ان کیمپوں میں ایرانیوںکی زیرِ نگرانی تربیت دی جاتی ہے۔ جو سامان یہاں اتارا جاتا ہے اس میں ہاون توپیں ( مارٹر)اور اینٹی ایئر اسلحہ ''سات'' طرز کے میزائل شامل ہیں۔ اسی طرح اس قسم کی نقل و حرکت ''اللاذقیہ'' کی بندر گاہ پر بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔

حزب اللہ سے اپنے مفاد حاصل کرنے کے لیے ایران جو بے پناہ وسائل خرچ کرتا ہے ایک اندازے کے مطابق اس کا حجم
٭ 1990 میں3.5 ملین ڈالر تھا۔
٭ 1991میں یہی اموال50 ملین ڈالر تک جاپہنچے۔
٭ 1992 میں اس کا اندازہ120 ملین ڈالر۔
٭ 1993میں160 ملین ڈالر۔
٭ جبکہ بعض مصادر کے مطابق حزب اللہ کی مدد کا تخمینہ رفسنجانی کے دور میں280 ملین ڈالر بتایا جاتا ہے۔

اموال کا یہ جمِ غفیر حزب کو اس حیثیت میں لانے کے قابل ہوا کہ وہ صرف ان احکام کی پرواہ کرتی ہے جو اسے ''ڈکٹیٹ''کیے جاتے ہیں اور اس کے علاہ وہ کسی داخلی تنگ جھگڑے میں نہیں الجھتی۔اس پیسے سے اس نے اپنے قتال کی صلاحیت کو بہت وسعت دی اور اسی پیسے کے ساتھ لوگوں کی ضرورتوں اور ان کی وفاداریوں کو خریدا گیا۔ آج ان کا بجٹ اتنا بڑا ہوگیا کہ وہ لبنان کے اندر ایک مستقل حکومت کا درجہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔آج اس نے صحت، معاشرت اور تربیت کے میدان میں بہت سے ادارے قائم کر رکھے ہیں۔

میں (مترجم)کہتا ہوں کہ پاکستان کے اندر جہادیوں کے ساتھ اگر اس صورتِ حال کا موازنہ کیا جائے تو امریکہ یہاں دباؤ ڈال کر جہادیوں پر جسطرح چاہتا ہے پابندیاں لگوادیتا ہے کیونکہ پاکستانی حکومتی مشینری میں اسے اعلیٰ عہدوں پر فائز انتظامیہ اور فوج میں جنرلوں تک شیعہ و بریلوی نما شیعہ ایجنٹ مل جاتے ہیں۔

لیکن لبنان میں ہونے والی موجودہ حزب اللہ اور اسرائیل کی جنگ کے بعد جب یہی سوال عالمی سطح پر اٹھایا گیا کہ حزب اللہ کی لبنان کے اندر اجارہ داری کو ختم کیا جائے لیکن باوجود مسئلہ کی خطرناکی کے ان کے صہیونی وصلیبی آقا اپنے مخصوص مفادات کے تحت چپ سادھ لیتے ہیں۔

1982 میں لبنان پر اسرائیلی حملہ کے بعد اس حزب کی بنیاد رکھی گئی جو''اسرائیل اور حزب''کے تعلقات کی ایک خطرناک دلالت دیتی ہے تاکہ صہیونیوں کو مجاہدین کی ضربات سے بچانے کے لیے ایک ڈھال علاقے میں موجود رہے لیکن ایک ایسے طریقے سے جو سابقہ حرکۃ الامل سے بالکل مختلف ہو۔ اس دفعہ حزب اللہ اس جھوٹے دعویٰ کے ساتھ سامنے آئی کہ وہ صہیونیوں کو علاقے سے نکالنے کی اور ان پر ضرب لگانے کی قدرت رکھتی ہے۔ اس کے لیے انہوں نے جھوٹے نعرے بلند کیے جس میں وہ سارے فلسطین کی آزادی کے نعرے لگانے لگے! جبکہ اس کے ساتھ صہیونیوں نے انہیں ہلاکت و تباہی کا''جھوٹا''وعدہ دیا۔

حقیقت میں وہ ایک ایسی سکیورٹی کی باڑ بنے بیٹھے ہیں جو اہل السنۃ کو بارڈر کراس کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور نہ ہی اسرائیلیوں پر ضرب لگانے دیتے ہیں۔ بعض جھوٹ جو حزب الشیطان نے نشر کیے انہیں حقیقت میں بھی اس نے تھوڑا سا متحرک کردیا تاکہ جمہور عامہ الناس کو دھوکہ میں مبتلا کیا جاسکے اور ان کے ایسے جھوٹ کے پلندوں میں سے ہے...
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
(۱)جنوب کی آزادی اور یہودیوں کو دھکیلنے کا جھوٹ
جب کہ یہ بات سب کے علم میں ہونی چاہیے کہ صہیونی فوج کے اعلیٰ عہدے داروں نے اعلیٰ سطح اور میڈیا پر یہ اعتراف کیا کہ ان کا جنوب لبنا ن کے کچھ علاقوں سے نکلنا حزب اللہ کی قوت کے سبب نہ تھا بلکہ ان کی ہائی کمانڈ کی طرف سے باقاعدہ آرڈر آئے تھے کہ ان علاقوں کو خالی کردیا جائے تب حزب اللہ ان علاقوں میں داخل ہوئی... تب صہیونیوں کے جانے کے بعد نہ کہ اس سے قبل اور نہ اس کے دوران بلکہ بعد میں میڈیا کے کیمرہ مینوں کے ساتھ بغلیں بجاتے ہوئے وہ اس علاقے میں داخل ہوئے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ وہی لڑنے والے فاتحین ہیں!

(۲)دونوں جانب کے مقتولوں کا جھوٹ
وہ مقتول جو لڑائی میں دونوں جانب مارے جاتے ہیں یعنی حزب اللہ اور صہیونی فوج یہ حقیقت ہے کوئی خیالی بات نہیں۔ لیکن یہ مقتول جو قتل ہوتے ہیں وہ انجانے فوجی ہیں جو نہیں جانتے کہ ان کی قیادت کے اندرونِ خانہ کیا منصوبے ہیں۔ وہ خود اور ان کے دو جانب مقتولین کی تعداد دعویٰ کی گئی تعداد سے حقیقت میں محدود ترین ہے۔ یہ مقتول تو محض قربانی کے بکرے ہیں جو غیر اعلانیہ باطنی مصلحتوں کی خاطر اپنی جانیں کھپارہے ہیں اور تاکہ انکی جنگ ظاہراً جاری رہے۔

پس !کسی بھی عقل و سمع اور بصارت رکھنے والے کے لیے کھلی دلیل آ گئی... جب حسن نصراللہ خبیث اپنے خطبوں میں فلسطینی مسئلہ پر بہت زور دیتا تھا اور پورے فلسطین کی آزادی کے نعرے لگاتا تھا اس نے اپنے خطبوں میں ان بیانات سے رجوع شروع کردیا اور اسی حزب نے متعدد مرتبہ اس بات کا اعلان کیا کہ اس کا خارجی مسائل کے ساتھ کوئی سروکار نہیں وہ تو صرف اپنی زمین چھڑوانا چاہتی ہے نہ کہ ارضِ فلسطین!!۔جب شروع میں وہ پوری ارضِ فلسطین کے دعوے کرتا تھا اور اب صرف بیت المقدس کی بات کرنے لگا۔اسطرح انہوں نے اس مسئلہ کو محض رمز اور شعار بنانے تک محدود کرلیا تاکہ ''جمہور عامۃ الناس''پر ان کے جھوٹ کی حکومت چلتی رہے۔ اب وہ صرف ایک عالمی دن مناتے ہیں اور اس کا نام انہوں نے ''عالمی یوم القدس''رکھ چھوڑا ہے جس دن وہ اپنی عسکریت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کیونکہ حزب اللہ کو مستثنیٰ قرار دیا جاتا ہے ان تمام معاہدوں سے جو اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ تمام مسلح ملیشیات کو غیر مسلح کیا جائے... لیکن اس کے پیچھے وہ باقی رہتی بلکہ اسے اور اسلحہ دیا جاتا ہے۔

ایک ضرب المثل ہے کہ {اذا اختلف السراق ظھر المسروق}جب چوروں میں اختلاف ہو گا تو چوری کا مال پکڑا جائے گا اور کہا جاتا ہے کہ '{الاعتراف سید الادلة} اعتراف سب سے بڑی دلیل ہے اور کسی کی اپنے اہل پر دی ہوئی شہادت سے بہتر کوئی شہادت نہیں ہوتی۔ پس اسی حزب کے پہلے امین العام ''صبحی الطفیلی'' نے حزب سے بہت سی توجیہات میں اختلاف کرتے ہوئے ''الجزیرۃ چینل'' سے اپنی ملاقات میں کہا''اگر لبنانی بارڈروں پر حزب اللہ کے علاوہ کوئی اور ہوتا ( یعنی فلسطینی اہل السنۃ) تو وہ کسی لمحہ کے لیے اسرائیل کے ساتھ لڑائی بند نہ کرتے۔ پس اب جو کوئی وہاں جانے کا ارادہ کرتا ہے تو حزب اسے گرفتار کرکے لبنانی سکیورٹی فورسز کے حوالے کردیتی ہے، پھر وہ مجھے الزام دیتے ہیں کہ میں اسرائیل کے خلاف دفاع نہیں کرتا؟!''

اسی طرح یہ خطرناک بیان جولبنان میں حرکتِ فتح کے خفیہ نمائندے سلطان ابی العینین نے دیا اور جسے''القدس العربی'' نے5اپریل2004 کو شائع کیا جس کا عنوان تھا ''حزب اللہ نے جنوب میں مزاحمت کے اعمال کو ختم کردیا''اس نے کہا ''حزب اللہ والے کہتے ہیں کہ ہم ہر مشکل میں تمہارے ساتھ ہوں گے لیکن ہم تین سال سے ایسی سخت مصیبتوں میں ہیں لیکن ہمیں سوائے کھوکھلے نعروں کے کوئی بھی مدد نہیں پہنچی۔ جبکہ پچھلے ہفتہ میں حزب اللہ نے فلسطینی بارڈروں پر مزاحمت کی چار کوششوں کو ناکارہ بنایا اور فلسطینی مزاحمت کاروں کو گرفتار کر کے اعلیٰ محکموں کے حوالے کردیا''۔ ابوالعینین نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہاکہ جنوب لبنان کے بعض علاقوں سے اسرائیلی فوجوں کا انخلاء اس شرط پر عمل میں آیا کہ جنوب لبنا ن سے شمال فلسطین کی جانب ایک بھی گولی نہیں چلائی جائے گی۔ اس معاہدے کی ایسی کڑی تطبیق کی جارہی ہے کہ صہیونی فوج کے نکلنے سے اب تک اس علاقے سے کوئی بھی مزاحمت کی کوشش نہیں ہوئی اور جتنی بھی یہاں فلسطینیوں کی طرف مزاحمت کی کوششیں کی گئی انہیں حزب اللہ نے ناکارہ بنا دیا اور مجاہدین کو اعلیٰ محکموں کے سپرد کردیا۔

اس نے اپنے بیان میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ''حزب اللہ''چاہتی ہے کہ مزاحمت کی یہ تحریک صرف اسی کی ہو اور وہ جو جی چاہے کرتی رہی جبکہ حزب اللہ میں کوئی اس بات کا انتظار نہیں کرتا کہ وہ خود شما ل فلسطین کیطرف ایک بھی میزائل فائر کرے۔ میں اس چیز کا خود گواہ ہوں جو کچھ ہورہا ہے اور اس نے اشارہ کیا کہ حزب اللہ کی مزاحمتی تحریک جنوبی لبنان میں پہلے سے طے شدہ معاہدوں اورسکیورٹی اتفاقات کے تحت ہے یعنی ایسے اتفاقات جو فریقِ ثالث کی مدد سے اسرائیل کے ساتھ طے پائے ہیں۔

اس نے کہا کہ فلسطینی قوم کو چاہیے کہ حزب اللہ پر کسی قسم کا اعتماد نہ کرے بلکہ اسے خود اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرنا ہوگا کیونکہ حزب اللہ کے اپنے اہداف و سیاسی مقاصد ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ آخری فلسطینی تک ہم سے لڑے بلکہ ہم حزب اللہ سے کہیں گے کہ اپنا واضح موقف بیان کرے!

آخر میں ہم(الزرقاویؒ)کہتے ہیں کیا یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ یہ حزب اسرائیل کی دشمن ہے؟جیسے کہ ان کا گمان ہے! پھر یہی حزب بیروت کے وسیع میدانوں میں اپنی عسکری قوت کا مظاہرہ کرتی ہے جسے میڈیا کے چینل ڈائریکٹ نشر کرتے ہیں، جہاں حسن نصر اللہ اپنے تخت پررونما ہوتا ہے اوراس کے ساتھ اس کے حاشیہ بردار اور مہمان بیٹھے ہوتے ہیں۔ پھر اس کے سامنے سے عسکری گروہ پریڈ کرتے ہوئے گذرتے ہیں اور اسرائیل کے لیے موت کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں اور پھر اسرائیل ہاتھ بندھا ہوا عاجز بن کر اس آنے والے دشمن کی طرف تکتا رہتا ہے اور کچھ بھی نہیں کر پاتا!...جبکہ وہی اسرائیل دوسری جانب معذوری کی متحرک کرسی پر بیٹھے ایک شخص کو برداشت نہیں کرتا اور اسے فجر کے اندھیروں میں دور سے میزائل مار کر شہید کردیتا ہے!

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رافضی حکومت لبنان کے مسئلہ کا اس قدر اہتمام کیوں کرتی ہے؟
اس سوال کا جواب ان کے اسلام کا ''حجۃ''روحانی خود دیتا ہے۔ وہ لبنان میں ایران کا سفیر تھا اور اس نے ایک ایرانی رسالے''اطلاعات''کو جنوری 1984 کے اوآخر میں انٹر ویو دیا۔
روحانی لبنان کے بارے میں کہتا ہے:
''لبنان اس وقت 1977 کے لبنان کے مشابہ ہوچکا ہے اور اگر ہم اس کا بغور جائزہ لیں تو ان شاء اللہ جلد لبنان ہمارے اختیار میں آجائے گا ۔لبنان کے محلِ وقوع کی بنا پر چونکہ وہ علاقے کا مرکز ہے اور جب وہ اسلامی جمہوریت کی راہ پر چلے گا تو باقی علاقہ بھی اس کی پیروی کرے گا۔ پھر اس نے کہا کہ ہم نے لبنان میں اپنے سفارت خانے کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس کے سبب اہل السنۃ اور شیعہ کی آراء اسلامی جمہوریت اور امام خمینی کے بارے میں ایک جیسی ہوگئی ہیں''۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
آج کے رافضیوں کے جرائم
پس!یہ رہا امریکہ جوافغانستان و عراق کے خلاف رافضی ایران کی مددو تعاون کا اعتراف کر رہا ہے۔امریکی وزیرِہ خارجہ ''کونڈا لیز ا رائس''ایک نیوز ایجنسی سے اپنی ملاقات میں بیان دیتی ہے کہ:
'' اقوامِ متحدہ نے ایران و امریکہ رابطوں کوبڑے منظم طریقے سے ''جنیف''کے نام کے تحت آسان بنایاتاکہ ایسی عملی مشکلات کا حل نکالا جائے جو افغانستان میں درپیش ہیں پھر ان بحثوں کا دائرہ عراق تک وسعت اختیار کرگیا''۔

رائس نے اشارہ کیا کہ کچھ عرصہ قبل امریکی نمائندہ ''ظُلمے خلیل زاد''ایرانیوں کے ساتھ مذاکرات میں امریکیوں کی نمائندگی کرتا رہاہے جیسے کہ اس سے قبل اس نے کہا تھا کہ بعض عملی مشکلات کے حل کی ضرروت ہے اور پھر اسکا دائرہ عراق تک وسیع ہونے کا اس نے ذکر کیا۔

یہ رہے رافضی جو اس تعاون کا نہ صرف اعتراف کرتے ہیں بلکہ اس تعاون و مددپرجو انہوں نے امریکیوں کو دی، فخر کرتے ہیں۔ایرانی پارلیمنٹ اور قانون کے امور کا وزیر جو 15جنوری 2004 میں عرب امارات میں ہونے والی کانفرنس،جو مرکز الامارات للدرسات الاستراتیجیہ میں ابوظہبی کی زیرِ صدارت منعقد ہوئی) میں اعلان کرتا ہے کہ:
''ایران نے امریکہ کی جنگ میں افغانستا ن اور عراق کے خلاف بہت مدد کی اور اس نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایرانی تعاون نہ ہوتا تو کابل و بغداد کا سقوط اتنی آسانی کے ساتھ ممکن نہ ہوتا!''

''الشرق الاوسط''نے اپنی اشاعت9 فروری2002 میں رئیس مجلس تحقیق مصلحہ النظام ''رفسنجانی'' کا بیان نقل کیا جو اس نے طہران یونیورسٹی میں اپنے ایک لیکچر میں دیا کہ:
''ایرانی فورسز نے طالبان سے قتال کیا اور اس کے ختم کرنے میں مدد دی اور اگر ان کی فوجیں امریکیوں کی مدد نہ کرتیں تو امریکی افغانستان کے بھنور میں غرق ہو جاتے۔ پھر اس نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو یہ بات اچھی طرح جاننی چاہیے کہ اگر ایران کی قومی فوج کی مدد نہ ہوتی تو امریکہ طالبان کوہر گز نہیں ہٹا سکتا تھا''۔

یہی نہیں بلکہ ایسی ہی وصیت خمینی نے حزبِ وحدت کے رافضیوں کو کی تھی جب روس جہادِافغانستان کے بعد نامراد ہو کر نکل گیا تو اس نے کہا ...
''اے حزب ِ وحدت اے افغانستان کے شیعو! تمہار اصل جہاد روس کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد شروع ہوگا۔ اس سے اسکی مراد تھی اہلِ السنۃ کے خلاف لڑائی اورملک کے اندر داخلی انتشار و افتراق پھیلایا جائے!

حقیقتاً ایسا ہی ہوا جب طالبان حکومت افغانستان میں تقریباً 6000 رافضی خائنوں کے قتل کے بعد قائم ہوئی، جنہوں نے طالبان کے خلاف بغاوت اور لڑائیوں میں حصہ لیا تھا۔پس اس ساری سیاست میں امریکہ اور اس کے حواریوں نے افغانستان میں طالبان مخالف گروپوں کے خلاف مدد جاری رکھی اس خوف سے کہ ایران کے پڑوس میں ایک سنی ریاست نہ قائم ہوجائے کیونکہ ایران کی جنگ نہ یہودیوں کے خلاف ہے نہ عیسائیوں کے خلاف بلکہ ان کی جنگ شروع سے لیکر آخر تک اہل السنۃ کے خلاف ہے۔

یہی چیز ہے جس کی تصریح کافی عرصہ قبل ''ڈاکٹر علی ولایتی''نے کی تھی یہ کہتے ہوئے:
'' ہم اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیں گے کہ افغانستان میں ایک وہابی حکومت قائم ہو''۔

یعنی اس کی مراد رافضیوں کی اصطلاح کے مطابق سنی حکومت تھی!

کیا یہی وہ موقف نہیں جس کا اظہار عبیدی حکومتوں کے وزراء اور بادشاہ کیا کرتے تھے سلاجقہ سنیوں کے بارے میں جب انہوں نے صلیبوں کے خلاف جہاد کیا!

متعدد عسکری ماہرین نے یہ بات بیان کی کہ وہ امریکی طیارے جو افغانستان جنگ میں عربی اڈوں سے اڑ کر گئے ان کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ ایرانی فضائی حدود کی قانون شکنی کیے بغیر ایسا کر سکیں۔جبکہ یہ وہی دن تھے جب ایرانی فضائی حدود کے کسی کو استعمال کی اجازت نہ دینے کا شور مچا رہے تھے اور کہہ رہے تھے صرف اضطراری حالت میں ہم کوئی طیارہ اترنے کی اجازت دیں گے۔ جبکہ امریکی انٹیلی جنس کے بعض مصادر نے تصریح کی کہ امریکی سپیشل فورسز کے دستے ہرات شہر میں موجود ہیں جو کہ افغانستان کے مغرب میں ایرانی حدود کے قریب واقع ہے اور کہا کہ ایرانی فورسز علاقے میں قبائل کو دھمکیاں دے رہی ہیں۔

اکتوبر2001اسی بات کی تاکید امریکی تنظیم''ہیومن رائٹ واچ''نے بھی کی۔ ان کی رپورٹوں سے اس بات کا پتہ چلا کہ ایران نے جنگ شروع ہونے کے بعد افغانستان کے ساتھ متصل بارڈروں پر تازہ دم فوج کے دستوں کا اضافہ کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سینکڑوں افغان پناہ گزینوں کو افغانستان کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ یہی وہ کام ہے جس کو ایرانی انٹیلی جنس کے ایجنٹ عراق میں بھی دہرا رہے ہیں۔ جب کہ عراق جنگ کے بارے میں ان کے یہ تمام اقدامات امریکہ اور اس کے حلیفوں کے علم میں ہیں۔ پس ایسے وقت میں جبکہ عراق کے ساتھ متصل ملکوں نے اپنے بارڈروں کو سیل کردیا ہے تاکہ مجاہدین امریکہ غاصب کے خلاف اپنے بھائیوں کی مدد کو نہ پہنچ سکیں ایسے وقت میں صرف ایران نے اپنے وسیع بارڈر کو کھول رکھا ہے تاکہ اپنے سینکڑوں ایجنٹوں کو اس میں داخل کر دے اور اپنی سیاسی رافضی اغراض کو پورا کر سکے۔ اس میں سب سے پہلے اس نے اپنی ریزیڈنشل قانونی ترکیب میں عراقی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے تبدیلی کی جبکہ یہ اقدام ایسے وقت میں اٹھائے گئے ہیں جسمیں اہل السنۃ کو ذبح کیا جارہاہے اور انکی نسل کشی کی جارہی ہے تاکہ جنوب عراق میں کم از کم رافضی غلبہ پیدا کیا جاسکے اورپورے عراق میں اپنا نفوذ حاصل کیا جائے۔اس کے ساتھ ایرانی انٹیلی جنس کے ادارے عراق میں مجاہدین کا پیچھا کر تے ہوئے ایرانی مفاد ات کے لیے کام کررہے ہیں۔ عراق کے اندر شیعہ تنظیموں کے ساتھ رابطہ کر کے عراق میں ان کا نیٹ ورک قائم کیا جارہا ہے۔

یہ بات علم میں ہونی چاہیے کہ ایرانی جیسے کہ ان کی عادت ہے کہ وہ امریکہ کے خلاف اپنی دشمنی کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور اسے شیطانِ اکبر کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور اس کے لیے موت کا اعلان کرتے ہیں بلکہ طالبان کے خلاف لڑائی میں ایرانی وزیرِ دفاع '' علی شمخانی''نے واضح دھمکیاں دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی امریکی طیارہ جو ایرانی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہوا پایا گیا تو اس کو مار گرایا جائے گا۔ لیکن اسکے تھوڑ ے دنوں بعد ہی امریکہ اور ایران میں باہمی اتفاق کے معاہدے حسبِ عادت طے پائے کہ کوئی بھی امریکی جو ایران میں گھس آئے یا گر جائے تو اسے سالم اور معافی دیتے ہوئے امریکہ کے حوالے کردیا جائے گا۔

یہاں مناسب ہے کہ میں (الزرقاویؒ)نئے ایرانی وزیرِ اعظم''احمدی نجاد'' کا وہ بیان نقل کروں جو یہ واضح کردے گا کہ یہ رافضی اپنے آباء کے طریقوں پر ہی چل رہے ہیں ...اس نے کہا ''میری حکومت اس لیے آئی ہے تاکہ مہدی کے استقبال کی تیاریاں کی جائیں''!
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
رافضیوں کے اخلاقی جرائم
ان کے اخلاقی جرائم بھی ایسے ہیں کہ ان کے بیان کر نے میں کوئی حرج نہیں۔ پس! یہ ان کے معاشرے جو رذائل، خیانت اور فجور کے ساتھ اٹے ہوئے ہیں اور ان کے اندر ظاہراً و باطناً فحاشی پھیل چکی ہے۔ آپ کو کوئی ایسا معاشرہ نہ ملے گا کہ وہ رذائل ، فحاشی اور خباثتوں سے بھر گیا ہو مگر وہ رافضی ہوں گے۔ لیکن یہ سب کچھ ان کے رافضی دین، شریعت اور رافضی فتووں اور''آیۃ'' کی چھتری تلے کیا جارہا ہے۔پس یہ کیسے ہے ؟

(۱) متعہ کا نکاح
جس کو شریعتِ اسلامیہ نے اپنے ابتدائی زمانہ میں غیر مسلم عورتوں کے ساتھ مباح قرار دیا جبکہ صحابہؓ نبی ﷺ کے زمانہ میں دور درازعلاقوں میں قتال کیے لیے جاتے تھے اور وہاں لمبے سفروں میں آناجانا اور قیامِ طویل انہیں مشقت میں ڈال دیتا تھا تو ایسے وقت میں متعہ کو اس لیے جائز رکھا گیا تاکہ ممنوع و محظور کے ارتکاب سے بچا جا سکے۔ لیکن جب مسلمانوں کے حالات بدل گئے اور ان کی کثرت ہو گئی اور مسلمان بہت سے شہروں میں پھیل گئے تو یہ ضرورت زائل ہو گئی کیونکہ اس میں بہت سے مفاسد تھے جو کہ اس کی مصلحتوں پر غالب تھے۔چونکہ یہ مقاصدِ نکاح کے ساتھ متصادم تھا جسے اللہ نے حلال قرار دیا۔ جبکہ نکاح سے زواج کا سلسلہ چلتا ہے اور اسی سے خاندان مکمل ہوتا ہے اور اسی سے اولاد کی نسل چلتی ہے اور ان کی تربیت کا اہتمام ہوتا ہے۔ لیکن رافضی ابھی تک اس متعہ سے چمٹے ہوئے ہیں جو زناء و شر کی چابی ہے۔ وہ ایسے نہیں کہ جو محض اس کے مباح ہونے اور جواز کے قائل ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں جو متعہ نہیں کرتا اور جو اس نکاحِ متعہ کو حرام جانتا ہے وہ کافر ہے ان روایات کی بنا پر جو انہوں نے جھوٹ و بہتان کے ساتھ آئمہء اہل بیت کیساتھ منسوب کی ہیں جیسے کہ ان کی رافضی کتاب ''من لا یحضرہ الفقیہ'' میں ہے:
''روی الصدوق عن الصادق علیہ السلام قال ان المتعة دینی ودین آبائی فمن عمل بھا عمل بدیننا ومن انکر ہا انکر دیننا واعتقد بغیر دیننا
ایک سچے نے جعفرصادق سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا بے شک متعہ میرا دین ہے اور میرے آباء کا دین ہے پس جس نے اس پر عمل کیا اس نے ہمارے دین پر عمل کیا اور جس نے اس کا انکار کیا اس نے ہمارے دین کا انکار کیا اور ہمارے عقیدے کے علاوہ اعتقاد رکھا۔

اس میں وہ توسیع اختیار کرتے ہیں تاکہ دودھ پلانے والی رضعیہ کو بھی اس میں داخل کر دیا جائے۔ چنانچہ اس میں ''خمینی'' اپنی کتاب ''تحریر الوسیلہ''میں کہتا ہے :
لا بأس بالتمتع بالرضعیة ضماً وتفخیذاً وتبقیلاً
دودھ پلانے والی کے ساتھ تمتع میں کوئی حرج نہیں اسے ساتھ لگانے میں اور بوس وکنار کرنے میں۔

''للہ ثم للتاریخ'' کا مصنف ایک حادثہ نقل کرتا ہے جو اس کے سامنے ہوا جبکہ خمینی عراق میں مقیم تھا اور وہ وہاں ایک شخص کی زیارت کے لیے آیا ہوا تھا جو اپنے آپ کو ''سید صاحب'' کہلواتا تھا تو وہ کہتا ہے کہ ''سید صاحب ہمارے آنے سے بہت خوش ہوا اور ہم اس کے پاس ظہر کے وقت کے قریب پہنچے تھے۔ اس نے کھانا بنوایا لیکن اسے مئوخر کر دیا اور اس نے اپنے بعض اقارب سے رابطہ کیا اور جب وہ حاضر ہوئے تو اس کے گھر میں بہت رش ہوگیا۔ پھر سید صاحب نے ہم سے کہا کہ آج رات ان کے ہاں قیام کریں تو امام نے موافقت کر لی۔ پھر رات کا کھانا لایا گیا اور وہاں موجود لوگ امام خمینی کے ہاتھ چومتے اور اس سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ جب سونے کا وقت آیا اور لوگ چلے گئے تو امام خمینی نے وہاں ایک بچی دیکھی جس کی عمر کوئی چار سال ہو گی لیکن وہ بہت خوبصورت بچی تھی تو امام اس کے والد سید صاحب سے اسے متعہ کے لیے پیش کروانے کی اجازت چاہی تو اس کے والد نے بڑی خوشی سے اجازت دے دی۔ تو ''امام خمینی''نے ایک حجرے میں اس بچی کے ساتھ رات گذاری اور ہم رات کو اس بچی کی چیخوں کو سن رہے تھے۔ پھر جب صبح ہوئی اور ہم ناشتہ پر اکٹھے بیٹھے تو اس خمینی کتے نے میرے چہرے کی طرف دیکھا اور اس پر ناپسندیدگی کے واضح آثار دیکھے کہ کس طرح اس نے ایک چھوٹی بچی کے ساتھ ایسا فعل کیا جبکہ گھر میں بالغ جوان بچیاں بھی موجود تھیں اور اسکے لیے ممکن تھا کہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ ایسا کر لیتا۔ تو سید مجھے کہنے لگا آپ بچی کے ساتھ تمتع کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ میں نے کہا کہ بہتر قول آپ کا ہے اور آپ کا کام ہی صحیح ٹھہرتا ہے کہ آپ امام و مجتہد ہیں اور میرے جیسے آدمی کے لیے ممکن نہیں کہ ایسی بات کہوں سوائے اس کے جو آپ نے خود دیکھا۔ یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت میرے لیے اعتراض کرنا ممکن نہ تھا تو سید حسین کہنے لگا'' کہ بچی کے ساتھ تمتع جائز ہے لیکن یہ اس کے ساتھ کھیلنے اور اس کو ساتھ چمٹانے اور بوس و کنار کی حد تک ہونا چاہیے جبکہ جماع کی اسے طاقت نہیں ہے!''

لیکن شیعہ کے تمتع کا دائرہ تو اس سے بھی زیادہ وسعت اختیار کرگیا ہے یہاں تک کہ وہ شادی شدہ عورت کے ساتھ بھی تمتع کو جائز قرار دیتے ہیں جبکہ یہ ایسی بات ہے جسے تمام آسمانی شریعتیں حرام قرار دیتی ہیں بلکہ کوئی کافر عقل مند بھی اس کی حمایت نہیں کر سکتا... لیکن یہ رافضی اسے جائز قرار دیتے ہیں اور ایک پاکدامن منکوحہ عورت کے ساتھ تمتع کو جائز قرار دیتے ہیں جبکہ وہ اپنے شوہر کی اجازت، علم اور اسکی رضا مندی کے بغیر ہی ایسا کر رہی ہو۔ یہ بات بھی علم میں لائی جانی چاہیے کہ بعض شیعہ فقہاء بھی نکاحِ متعہ کو حرام قرار دیتے ہیں۔

جیسے کہ ''وسائل الشیعہ، التہذیب اور الاستبصار''میں ہے ...:
''قال امیر المومنین صلوات اللّٰہ علیہ: حرم رسول اللّٰہ یوم خیبر لحوم الحمر الاھلیہ ونکاح المتعة''
امیر المومنین ؓ نے فرمایا کہ رسو ل اللہ ﷺنے خیبر کے دن پالتو جنگلی گدھوں کا گوشت اور نکاحِ متعہ کو حرام قرار دے دیا۔

اسی طرح ''التہذیب ''میں ہے کہ ابو عبد اللہ علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ کیا مسلمان نبی ﷺکے عہد مبارک میں بغیر نکاح کے رشتہ زواج میں منسلک ہوتے تھے تو انہوں نے کہا ، نہیں۔ اس پر تعلیق کرتے ہوئے سید حسین الموسوی کہتا ہے ''اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں دلیلیں متعہ حرام ہونے اور اس کے ابطال کے لیے حجہ قاطعہ ہیں۔ وسائل الشیعہ میں ہے کہ عمار سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے مجھے اور سلیمان کو کہا تم دونوں پر متعہ حرام کردیا گیا ہے۔

ڈاکٹر ناصری القفاری نے اپنی کتاب ''شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کے اصول''میں علامہ الآلوسی سے نقل کیا''جو کوئی رافضیوں کے موجودہ زمانے میں متعہ کے نکاح کی طرف غور کرے گا تو اسے اس پر زنا کا حکم لگانے میں کوئی تردد نہیں برتنا پڑے گا کہ آج عورت ایک دن میں بیسیوں آدمیوں کے ساتھ دن رات زنا کرتی ہے اور پھر وہ کہتی ہے کہ میں نے ''متعہ'' کیا ہے اور میں ''متمتعہ''ہوں۔ پس ان کے لیے ایسے بازار بنا دئیے گئے ہیں جہاں ان کے ایجنٹ دلال ان کے لیے مرد ڈھونڈ دھونڈ کے لاتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ اس زنا کی اجرت طے کی جاتی ہے اور پھر وہ خبیث عورتیں انہیں ہاتھوں سے پکڑکے اللہ کی لعنت اور اس کے غضب کی طرف لے جاتی ہیں۔

میں (مترجم) کہتا ہوں کہ صرف عرب دنیا میں ہی نہیں بلکہ پوری مسلمان دنیا میں حتیٰ کہ وطنِ'' عزیزاسلامی جمہورا ''پاکستان میں بھی ایسے بازار جن کو ''ہیرا منڈیوں'' کا نام دیا جاتا تھا وہاں یہ زنا بھی رافضی فقہ کے تحت متعہ کے قانونی تحفظ کی چھتری تلے اور زانی حکمرانوں کی سرپرستی میں پچھلی نصف صدی سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ لیکن آج اس شعبہ میں موجوداعمال وافعال کو نئے لبادے میں اوڑھا کر خوبصورت بنا دیا گیا ہے۔ چنانچہ دیکھنے والا غور کرے تو اسے بہت سی نشانیاں مل جاتی ہیں۔یہاں ہم اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں ... انسان کو خود غور کرنا چاہیے کہ پوری مسلمان دنیا کے حالات اس سے مختلف نہیں ہیں ۔

ہیرا منڈیوں سے اٹھنے والے کنجر اور کنجریاں جن کی نصف صدی قبل اسی نام سے کنجر یونینیں ہوتی تھی آج ان کے نام بدل دئیے گئے ہیں۔ چنانچہ ہیرا منڈی میں زنا کی پیداوار حرامی لڑکیا ں اور لڑکے جب پردہ سکرین پر رونما ہوئے تاکہ مسلمان معاشرے میں زنا اور فحاشی کلچر عام کریں تو انہیں معاشرے کے با اختیار طبقہ نے بہت عزت سے نوازا اور انہیں ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ کہا گیا۔ پھر ان کنجروں کی اولادوں کو پہلے ہیرو ہیرئنز کہا گیا اور بعد میں ترقی کرتے ہوئے یہ زنا کی نسل ''سٹارز''کہلانے لگی حتیٰ کہ زنا کو عام کرنے کے اس مکروہ عمل پر انہیں بہترین کارکردگی کے ایوار ڈ یہودی اداروں کی سرپرستی میں دیے جانے لگے۔ آج وطنِ ''عزیزاسلامی جمہورا''پاکستان میں ہیرا منڈیاں پچھلی نصف صدی کی کمائی سے اپنے سابقہ اڈوں سے منتقل ہوکر ''شرفاء'' کی آبادیوں میں جابسی ہیں اور اب بڑے بڑے شہروں میں بسائی گئی بڑی بڑی''دفاعی ''بستیوں میں ان کے مہذب اڈے ہیں جو سب روشن خیال لوگوں کی سر پرستی میں چل رہے ہیں۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
رافضی معاشرے پر متعہ کے آثار کیا نکلے؟
اس کے آثار میں سامنے آیا نسب کا اختلاط جسکی وجہ سے اللہ نے زنا کو حرام ٹھہرایا جبکہ یہ سب کچھ دوسروں کی بیویوں کے ساتھ تمتع کا نتیجہ تھا۔جب اپنے خاوند کے علم کے بغیر وہ حاملہ ہونے لگیں اور نہ جانتی تھی کہ یہ بچہ کس سے ہے؟ اس کا سبب یہ تھا کہ ان میں محارم کے ساتھ اس نکاحِ متعہ کی کثرت ہو گئی۔ مردوں کے کثرتِ متعہ کے سبب وہ جب محارم کیساتھ نکاح کرنے لگے تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ وہ لڑکی جس کے ساتھ اس نے متعہ کیا ہے وہ اسکی سابقہ متعہ کی ہوئی عورت سے اپنی بیٹی ہوتی یا اس کے بیٹے کی بعد میں ہونے والی بیوی ہوتی یا اس کے والد کی بیوی ہوتی!

چنانچہ انہی باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ''سید حسین الموسوی'' کہتا ہے '' میرے پاس ایک عورت ایک حادثہ کے متعلق مسئلہ دریافت کرنے آئی جواس کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اس نے بتایا ایک ''سید'' اور وہ''سید حسین الصدر''تھا ، اس نے اس عورت کے ساتھ بیس سال قبل نکاح ِتمتع کیا۔ تو وہ عورت اس سے حاملہ ہو گئی۔ لیکن جب اس کا دل اس عورت سے بھر گیا تو اس نے اسے فارغ کر دیا اور کچھ مدت کے بعد اس کے ہاں ایک بیٹی ہوئی اور اس عورت نے قسم کھائی کہ وہ اسی کی بیٹی ہے کیونکہ اس وقت سے لیکر اب تک کسی نے اس کے ساتھ تمتع نہ کیا تھا۔ پھر جب وہ لڑکی جوان ہوئی تو وہ بہت ہی خوبصورت جوان لڑکی تھی جو اب شادی کے لیے تیار تھی۔ جب شادی کا وقت آیا تو اس نے اپنی ماں کو بتایا کہ وہ حاملہ ہے اور جب ماں نے حمل کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ ''سید''ِ مذکور نے اس کے ساتھ تمتع کیا تو وہ اس سے حاملہ ہو گئی تو ماں دہشت زدہ ہوگئی اور بے ہوش ہو گئی! جب ماں نے اسے خبر دی کہ یہی سید اس کا باپ ہے اور اسے سارا قصہ سنایا! پس کیسے اس نے اس کی ماں کے ساتھ تمتع کیا اور آج وہ اس کی بیٹی کے ساتھ تمتع کررہا ہے؟

اس کے آثار میں یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ خواہش پرستوں ، فسادیوں اور فاسقوں نے متعہ کو اپنی شہوتوں کے پورا کرنے کے لیے ڈھال بنالیا اور فسق و فجور کے نئے نئے باب رقم کیے اور یہ سب کچھ دین کے نام پر متعہ کی چھتری تلے کیا جارہا ہے۔ اسی طرح اس کے آثار میں یہ بھی ہے کہ ان کے یہ ''سادات'' جو اس نکاح کو حلال قرار دیتے ہیں لیکن بیٹیوں اور بیویوں کو اس سے منع کرتے کیونکہ وہ اندرون خانہ اس بات کا شعور اچھی طرح رکھتے ہیں کہ یہ زنا کی مانند ہے جبکہ وہ خود دوسروں کی بیویوں کے ساتھ تمتع کر رہے ہوتے ہیں۔

اسی بات کو ''السید حسین الموسوی''بیان کرتا ایک ایسی روایت جو اس کے ساتھ واقع ہوئی۔ وہ کہتا ہے کہ ہمارے پاس دو نوجوان آئے جن کے بارے میں لگ رہا تھا کہ وہ دونوں کسی مسئلہ میں اختلاف کیے بیٹھے ہیں؟ توانہوں نے امام الخوئی سے سوال کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ انہیں مدلل جواب دے سکے ۔ تو ان میں سے ایک کہنے لگا سید آپ کیا فرماتے ہیں کہ نکاحِ متعہ حلال ہے یا حرام؟ تو امام الخوئی نے اس کی طرف دیکھا اور اسے اس کے سوال سے تجسس ہوا اور وہ کہنے لگا تو کہاں رہتا ہے؟ تو سوال کرنے والے لڑکے نے جواب دیا کہ میں موصل شہر میں رہتا ہوں اور آج کل یہاں نجف میں دو ماہ سے قیام پذیر ہوں۔ تو امام کہنے لگا اس کا مطلب ہے کہ تو سنی ہے! نوجوان نے کہا ہاں! امام کہنے لگا متعہ ہمارے نزدیک حلال ہے اور تمہارے نزدیک حرام ہے۔ تو نوجوان کہنے لگا کہ میں یہاں دو ماہ سے غریب الوطنی کی زندگی گذار رہا ہوں تو توکیوں اپنی بیٹی میرے ساتھ بیاہ نہیں دیتا کہ میں اس کے ساتھ تمتع کرتا رہوں یہاں تک کہ میں اپنے گھر واپس لوٹوں۔تو سید تھوڑی دیر کے لیے چونکا پھر کہنے لگا میں ''سید'' ہوں اور ایسا کرنا سیدوں کے ہاں حرام ہے اور شیعہ عوام کے ہاں حلال ہے۔ تو اس نے نوجوان امام الخوئی ''سید'' کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور وہ سنی نوجوان سمجھ گیا کہ اس نے تقیہ سے کام لیا ہے۔ پھر وہ دونوں نوجوان اٹھے اور باہر چلے گئے۔ میں نے بھی امام سے باہر جانے کی اجازت چاہی ۔پس میں نے جان لیا کہ سوال کرنے والا سنی اور اس کا ساتھی شیعہ ہے جنہوں نے ایک مسئلہ میں اختلاف کیا اور اب ایک دین مرجع امام الخوئی کی طرف آئے تاکہ اس سے سوال کریں۔لیکن جب میں ان نوجوانوں سے بات کرنا چاہی تو شیعہ نوجوان یہ کہتے ہوئے پھٹ پڑا۔ اے مجرموں تم اپنے نفسوں کے لیے ہماری بیٹیوں کے ساتھ متع کرنا جائز ٹھہراتے ہو اور ہمیں کہتے ہو کہ یہ حلال ہے اور تم اس کے ساتھ اللہ کا تقرب تلاش کرتے ہو اور خود تم اپنی بیٹیوں کے ساتھ ہمارے لیے تمتع حرام کیے دیتے ہو!پھر وہ گالیاں دیتا ہوا چلا گیا اور اس نے قسم کھائی کہ وہ اہل السنۃ کا مذہب اختیار کر لے گا۔ پھر میں نے اس کے پیچھے گیا اور میں نے اس کے سامنے قسم کھائی کہ متعہ حرام ہے اور میں نے اس پر اسے دلائل بھی دئیے۔

اس کے اثرات میں سے ایک ہے قرابت داریوں کا قطع ہونا۔ یہ اس سبب ہے کیونکہ بہت سے رافضی نہیں جانتے کہ ان کا نسب کیا ہے؟ اور ان کے آباء کا نسب کیا ہے؟ اسی لیے بسا اوقات آدمی دوسرے کا بھائی بہن ہوتا ہے اور محارم میں سے ہوتا ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ اس کے اصل والدین کون ہیں؟

نکاح متعہ جسے رافضی حلال قرار دیتے ہیں اس کے خطرناک آثار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس کے ساتھ کئی راہیں تلاش کر لی ہیں۔ پس ان کے داعی حضرات جب اس کی اباحت کے فتوے داغتے ہیں اور رافضی مذہب کو پھیلاتے ہیں اور ان کا سب سے بڑا ہتھیار یہی نکاحِ متعہ ہوتا ہے یہاں تک کہ انہوں نے بہت سے اہل السنۃ کے اہلِ ہوس کو بھی اس کا گرویدہ بنالیا ہے۔

مجلہ ''المنار''نے اپنے سولہویں مجلد میں''شیخ محمد کامل الرافعی''کے دس رسالے شائع کیے جو انہوں نے بغداد سے اپنے دوست رشید رضا کو1326 ہجری میں بھیجے اور اس میں انہوں نے اپنی سیاحت کے دوران رافضی علماء کے مشاغل لکھ کر بھیجے کہ کس طرح وہ دیہاتیوں کو رافضیت میں داخلے کی دعوت دے رہے ہیں اور اس میں سب سے زیادہ مدد وہ ''متعہ'' کی دعوت سے لے رہے ہیں اور قبائل کے سراداروں کو بہت سی عورتوں کے ساتھ ہر وقت تمتع کی رغبت دلاتے پھرتے ہیں۔

ڈاکٹر ناصر القفاری اپنی کتاب ''اصول مذہب الشیعہ الامامیہ''میں ''حیدری''سے ایک خطرناک بیان نقل کرتے ہیں ان سنی قبائل کے بارے میں جنہوں نے رافضیوں کی کوششوں اور ان کے دھوکہ کے ساتھ ''رافضیت'' اختیار کرلی۔ وہ اپنی کتاب ''عنوان المجد فی بیان احوال بغداد والبصرۃ ونجد'' میں لکھتا ہے'' وہ بڑے بڑے خاندان جنہوں نے عراق کے اندر رافضیت کو قبول کیا وہ بہت زیادہ ہیں۔ان میں سے ایک ہے...

٭ قبیلہ ربیعہ جنہوں نے پچھلے ستر سال سے رافضیت قبول کرلی ہے۔

٭ تمیم جو کہ ایک بہت بڑا خاندان ہے انہوں نے پچھلے ساٹھ سال سے رافضیت کو قبول کر لیا بسب ان رافضی شیطانوں کے جو بہت زیادہ ان کے پاس آتے جاتے تھے۔

٭ اسی طرح ''الخزاعل'' قبیلہ کے لوگ پچھلے ستر سال سے شیعہ ہیں بسبب شیعہ کی اکثر زیارت کے سبب اور ان کے پاس اپنے علماء نہ ہونے کے سبب۔

٭ اسی طرح بہت سے وہ خاندان جنہوں نے رافضیت کو اختیار کیا ان میں بنو عمیر اور وہ بنو تمیم سے ہیں، الخزرج اور وہ الازد اور شمر سے ہیں اور یہ بہت زیادہ ہیں۔

٭ اس کے علاوہ رافضیت کے اندر داخل ہونے والوں میں العمارۃ ال محمد اور ان کی تعداد اس قدر ہے کہ شمار سے باہر ہے اور انہوں نے ماضی قریب میں ہی رافضیت اختیار کی ہے، بنی لام اور یہ بھی بہت زیادہ ہیں ، دیوانیہ ،یہ پانچ خاندان ہیں، آلِ اقرع ، آلِ بدیر، عفج، الجبور اور جلیحہ کے خاندان شامل ہیں۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
(۲)شرمگاہوں کا عاریۃً دینا
کوئی کیا جانے شرمگاہوں کا عاریۃً دینا کیا ہے؟ اگر چہ حکمِ شرعی کے اعتبار سے وہ اصل زنا ہے لیکن اس کے وقوع ہونے کا طریقہ انتہائی قبیح ترین افعال میں سے ہے جبکہ بعض زانی اپنی غلطی پہ نادم ہوتے ہیں اس گناہ کے سبب جسکا وہ ارتکاب کرتے ہیں۔ شرمگاہوں کا عاریۃ دینا یہ ہے کہ جب رافضی سفر کا ارداہ کرے تو وہ اپنی بیوی اپنے دوست، پڑوسی یا رشتہ دار یا جس کے پاس چاہتا ہے چھوڑ جاتا ہے تو وہ اس کے واپس لوٹنے تک اس کے پاس رہتی ہے اور اس کے لیے وہ مباح کردیتا ہے کہ جیسے چاہے اسے رکھے تاکہ وہ اپنی بیوی کے بارے میں اس اطمینان میں رہے کہ وہ زنا نہیں کرے گی۔ رافضی طوسی ''الاستبصار''میں محمدسے اور وہ ابو جعفر علیہ السلام سے روایت کرتا ہے کہتا میں نے ان سے کہا :
الرجل یحل لاخیہ فرج جاریتہ قال نعم لا باس لہ ما احل منھا
کہ آدمی اپنے بھائی کے لیے اپنی بیوی حلال کردیتا ہے انہوں کہاہاں اس میں کوئی حرج نہیں جو اس نے حلال ٹھہرا دیا۔

الکلینی ''فروع الکافی''میں ابو عبد اللہ سے روایت کرتا ہے کہ انہوں نے کہا:
'' اے محمد یہ لونڈی لے جا تیری خدمت کرے گی اور تجھے اس سے اولاد ہوگی اور پھر جب تو سفر کے لیے نکلے تو اسے واپس لوٹادینا''۔

یہ ایسا معاملہ ہے کہ جس کے اوپر ایران اور عراق کے رافضی کتے فتوے داغتے رہتے ہیں اور انہی کی وجہ سے یہ فعل بہت سے ''سادات''اور ان کے بڑوں میں پھیل چکا ہے۔ ''سید حسین الموسوی'' کہتا ہے کہ ''ہم نے ایران میں ''الحوزہ قائمیہ'' کی زیارت کی اور وہاں ہم نے دیکھا کہ سادات شرمگاہوں کے عاریۃً دئیے جانے کو مباح کیے ہوئے تھے۔ جنہوں نے اس کے مباح ہونے کا فتویٰ دیا ان میں ''السید لطف اللہ الصنافی '' وغیرہ شامل ہیں۔ اس لیے ایران میں یہ امر عمومی طور پر پھیل چکا ہے یہاں تک کہ رضا شاہ پہلوی کو باہر نکالے جانے کے بعد بھی یہ جاری رہا حتی کہ ''آیۃ اللہ العظمیٰ الامام الخمینی الموسوی''کے آنے کے بعد اور ''الامام الخمینی'' کے جانے کے بعد بھی اسی پر عمل جاری ہے۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ عراق میں بھی شرمگاہوں کے عاریۃً دئیے جانے کے فتاویٰ داغے گئے۔پس جنوبی عراق میں بہت سے خاندان، بغداد اور الثورۃ کے علاقے میں اس فعل کو بہت سے سادات کے فتووں کے بنا پرکر رہے ہیں۔ ان ''سیدوں'' میں سے ایک ہے سیستانی ، الصدر، الشیرازی اور طباطبائی وغیرہ۔ ان میں بہت سے ایسے ہیں کہ جب کسی کے ہاں مہمان ٹھہرتے ہیں اور وہاں میزبان کی بیوی کو خوبصورت پاتے ہیں تو اس سے اسکی بیوی مستعار لے لیتے ہیں جو اس کے وہاں سے کوچ کرنے تک اس کے پاس ہی رہتی ہے۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
(۳)عورتوں سے دبر کے رستے مجامعت کرنا
یہ بات جب کسی عاقل سے مخفی نہیں کہ اس فعل سے کس قدر جسمانی ضرر واقع ہوتے ہیں اور معاشرے میں کیسی برائیاں پھیلتی ہیں جب انسان فطرتی راہ کو چھوڑ دے (والعیاذ باللہ)۔

جبکہ اس کی نہی میں صریح و صحیح احادیث وارد ہیں جن میں عورتوں سے انکی دبر میں وطی کرنے والے پر لعنت کی گئی ہے اور اس فعل کو حرام ٹھہرایا گیا ہے۔ اللہ فرماتے:
(وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)
اور آپ سے سوال کرتے ہیں حیض کے بارے میں آپ ا فرما دیجیے کہ وہ اذیت ہے پس !تم عورتوں سے حیض کے دوران الگ رہو اور ان کے پاک ہونے تک ان کے پاس نہ جاؤ پس جب وہ پاک ہو جائیں تو وہاں سے ان کے پاس جاؤ جہاں سے جانے کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے، بے شک اللہ توبہ کرنے والوں اور طہارت اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
پس یہ آیت اس شخص کے لیے حجت ہے جو عورتوں کو انکی دبر سے وطی کو جائز قرار دیتا ہے۔پس حیض دُبر میں نہیں بلکہ قبل(سامنے) میں ہوتا ہے ۔اس کے اعتزال کا حکم بھی قبل سے وطی کرنے کے حکم پر دلالت کرتا ہے۔

لیکن رافضی ، رَفَضَہُمُ اللہ، اس کو حلال قرار دیتے ہیں اور ایسی جھوٹی روایات اور ان کی نسبت ائمہ اہلِ بیت کی طرف کرتے ہیں جیسے کہ وہ اس کے علاوہ قرآن کی آیات کی باطل تاویلات کرتے ہیں جبکہ ان کے پاس ایسی دلیلیں پہنچ چکیں جو ان کا رد کرتی ہیں۔

جیسے انکے ہاں ایسی روایات ''الاستبصار''میں ہیں جسے الطوسی ، عبد اللہ بن ابی الیعفور سے روایت کرتا ہے کہ :
میں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے سوال کیا ایسے مرد کے بارے میں جو اپنی عورت کے پیچھے سے آتا ہے؟ تو انہوں نے کہاکوئی حرج نہیں جبکہ وہ راضی ہو۔ میں نے کہا تو اللہ کے اس قول کا کیا مطلب ہو ا '' اور وہاں سے ان کے پاس آؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں آنے کا حکم دیا ہے' 'کہنے لگے یہ اولاد کے طلب کرنے بارے میں ہے اس لیے اولاد وہیں سے طلب کرو جہاں سے اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ بے شک اللہ فرماتے ہیں ''تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں پس جہاں سے چاہو ان کے پاس آؤ''۔

اسی طرح ''الطوسی''نے موسیٰ بن عبد الملک سے روایت کیا اور وہ ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوالحسن الرضا علیہ السلام سے سوال کیا کہ آدمی اگر اپنی عورت کے پاس دبر سے آئے؟ تو انہوں نے کہا کہ اسے کتاب اللہ کی ایک آیت نے حلال کیا جب کہ لوط نے اپنی قوم سے کہا{هَؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ۖ } یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ ہیں۔ پس معلوم ہو کہ لوط کی قوم فرج نہ چاہتی تھی(والعیاذ باللہ)۔ پس دیکھو کہ وہ کیسے اللہ عزوجل کے کلام میں باطل تاویلیں کرتے ہیں تاکہ وہ باتیں حلال ٹھہرائیں جنہیں اللہ نے حرام کردیا ہے۔ پس اللہ خبائث کوحلال نہیں ٹھہراتا اور عورتوں کو دبر میں آنا خبائث میں سے ہے جسے اللہ نے حرام قرار دیا۔

سید حسین الموسوی نے اس بات کا اپنی کتاب میں بہت بہتر رد کیا ہے وہ کہتا ہے کہ اللہ کے اس قول {هَؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ۖ } کی تفسیر ایک اور جگہ بھی وارد ہے جبکہ اللہ فرماتے ہیں {وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ } جب لوط نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ بہت فاحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے کسی قوم نے نہیں کیا تو مردوں کے پاس آتے ہو اور راستوں کو قطع کرتے ہو۔ جبکہ راستوں کو قطع کرنا اس سے صرف راستوں کی رہزنی ہی مراد نہیں بلکہ اس سے مراد نسل کا قطع کرنا بھی ہے جب کہ اس کو غیرِ موضع میں طلب کیا جائے۔ پس اگر لوگ سارے ہی ادبار میں جانا شروع کردیں مردوں اورعورتوں کی ادبار میں اورا ولاد طلب کرنا بھی چھوڑ دیں تو نسلِ انسانی منقطع ہو جائے گی۔ آیتِ کریمہ یہ معنی بھی دیتی ہے اگر خاص طور پر ہم اس آیت سے ما قبل کے سیاق کو بھی ملاحظہ کریں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ بات امام الرضاعلیہ السلام سے مخفی نہیں رہی ہوگی۔ ثابت ہوا کہ اس روایت کی نسبت ان کی طرف کرنا غلط ہے۔

میں( الزرقاویؒ) نے ان لوگوں کے حالات پر بہت غوروتدبر کیا کہ کس بات نے انہیں اس فساد تک پہنچا دیا؟ وہ ظاہر میں اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور ساتھ عفت وطہارت کی بات کرتے ہیں! جبکہ وہ ایسے قبائل ہیں جو اہلِ اسلام کے درمیان رہتے ہیں اور بڑے شان و شوکت والے لباس پہنتے ہیں اور وہ فسادوخرابی کی ایسی حد تک جا پہنچے ہیں جہاں اس سے پہلے کوئی امت نہ پہنچی تھی۔اگر آج ہم یورپ و امریکہ وغیرہ کی طرف نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ رافضی ان سے کہیں آگے نکل چکے ہیں! بلکہ آج ہم دیکھتے ہیں وہ قوانین جن کے تحت یورپ والے حکومت کرتے ہیں وہ خود ایسے افعال کا انکار بہت کرتے ہیں چاہے ان کی قومیں اس فعل کو کرتی رہیں۔ مثلاً محرمات سے نکاح ان کے قوانین میں حرام ہے، اسی طرح ازدواجی خیانت بھی ممنوع ہے سوائے ان جنسی شہوتوں کے جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں۔ پس یہ سب کچھ وہ دین کے نام پر نہیں بلکہ شہوت کے نام پر کرتے ہیں۔

لیکن یہ رافضی ملعون ان کے ہاں ہر چیز دین کے نام پر مباح ہے۔تو دیکھے گا کہ ایک وقت میں ایک گھر میں کتنے بیٹے ہوتے ہیں اور وہ سب کے سب مختلف باپوں سے ہوتے ہیں اس متعہ کے نتیجہ میں جسے انہوں نے دین کے نام پر مباح قرار دیا۔ اس لیے یہ بات اکثر دیکھنے میں آتی ہے کہ اس طائفہ میں صلہ رحمی کا قطع کیا جانا بہت عام ہے بلکہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ آپس میں پھٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو جبکہ ان کے انساب کے پانی مختلط ہوگئے! پس کیا تھا اور کیا ہوگا ایسی امتوں کا اخلاقی فساد! ۔یہ رافضی اس سے بھی بدتر ہیں حتی کہ جانور بھی اپنی فطرت سے ہٹنے کو برا سمجھتے ہیں کہ وہ ایسا فعل کریں جیسے کہ یہ کرتے ہیں!

مجھے میرے ایک ثقہ بھائی نے ایک ایسا واقعہ سنایا جو اس نے اپنی آنکھوں سے خود ہوتے دیکھا ہے۔وہ کہتا کہ میں نے اپنی جوانی کے ابتدائی ایام میں یہ واقعہ دیکھا جس کے مثل میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ جب ایک بیل نے غیرت میں آکر اپنے نفس کو قتل کردیا۔اسکی آنکھیں باندھ دی گئی تھیں اور پھر میری دادی اسے پکڑکر اسکی والدہ کے پاس لے گئی اور وہ بیل نہ جانتا تھا کہ یہ اس کی ماں ہے کیونکہ اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی۔لیکن جڑاؤ کے اس عمل کے بعد اس کی ایک آنکھ منکشف ہوگئی اور اسے پتہ چل گیا کہ یہ اسکی ماں تھی تو وہ بیل بھاگ کردیوار کے ساتھ سر مارنے لگا یہاں تک کہ اس کا لہو بہ نکلا اور وہ جنون و ہیجان میں ادھر ادھر بھاگنے لگا اور پھر وہ دریائے دجلہ کی طرف نکل گیا جب کہ خون اس کے جسم سے بہ رہا تھا اور اس نے اپنے آپ کودجلہ میں پھینک دیا یہاں تک کہ وہ غرق ہوگیا اور اپنی ماں کے ساتھ کیے گئے اس فعل پر غیرت کھاتے ہوئے مر گیا۔ جبکہ وہ ایک چوپایہ تھا ...جانور! لیکن اسکی فطرت میں یہ بات نہ تھی تو اس نے اپنے آپ کو مار ڈالا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ جانور بھی محارم کے ساتھ زنا پر کس قدر پس و پیش کرتے ہیں لیکن کیسے انسان ان باتوں کی عقل نہیں رکھتا؟

امام بخاری نے میمون بن مہران سے روایت کی ہے کہ انہوں نے جاہلیت کے زمانہ میں ایک بندر کو زنا کرتے ہوئے دیکھا تو سارے بندر اکھٹے ہوئے تو انہوں نے اسے رجم کر دیا۔ اسی طرح کی روایت امام مسلم نے ابی رجاء العطاردی سے کی ہے۔ اللہ کی پناہ!جانوروں اور چوپایوں کی امت جن کی فطرت میں عقل نہیں لیکن وہ کس قدر نقی و پاک ہیں۔

اللہ جانتا ہے،میں (الزرقاویؒ)نے ان لوگوں کے احوال کے بارے میں بہت تدبر کیا کہ کس بات نے انہیں اس حد تک پہنچادیا تو مجھ پر یہ و اضح ہوا کہ جس بات نے انہیں یہاں لاکھڑ کیا کہ ان کے اعمال کے مثل ہی انہیں جزاملی!پس جب ان لوگوں نے زمین کے اوپر سب سے اعلیٰ ترین گھر کے بارے میں زبانِ طعن دراز کی ... خبردار! اور وہ گھر ہے محمد ﷺ کا گھر ! جب انہوں نے آپ ﷺ کی ذات مبارکہ پر جرأت کا مظاہرہ کیا!

اللہ جانتا ہے اس بات کا ترجمہ کرتے ہوئے مجھے( مترجم) بہت خوف لاحق ہوا اور ایمان گوارا نہیں کرتا کہ ایسی بے ہودہ بات کو نقل کروں اور وہ بھی اس ذات مبارکہ کے بارے میں جسکی محبت کے وجود سے میرے خون کی گردش باقی ہے۔ لیکن میں اس لیے نقل کر رہاہوں تاکہ ان ملعونوں کا حسد و کینہ سب کی آنکھوں پر عیاں ہو جائے اور وہ کسی فیصلہ پر پہنچ جائیں۔

جیسے کہ سید حسین الموسوی نے ''علی الغروی''سے نقل کیا جو ''الحوزہ''کے کبار رافضی علماء میں سے ہے وہ کہتا ہے ( ان النبی ا لا بد ان یدخل فرجہ النار لانہ وطئی بعض المشرکات) کہ نبی کی شرمگاہ میں آگ (نعوذ باللہ) ضرور داخل ہو گی کیونکہ آپ نے بعض مشرکہ عورتوں سے نکاح کیا۔ جب کہ اس سے یہ ملعون، سیدہ کائنات طاہر ہ مطہرہ ام المومنین عائشہ صدیقہ اور ام المومنین حفصہ بنت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہن سے آپﷺ کانکاح مراد لیتے ہیں۔

جیسے کہ معلوم ہے کہ اسکی مراد نبی ﷺکے ساتھ برُا برتاؤ کرنا ، آپ کے ساتھ بد ظنی کرنا اور اس رب العلمین کے ساتھ بد ظنی کرنا جس نے آپ ﷺکو مبعوث کیا۔ یہ سب کا سب کفر و ضلال پر مبنی اور ایسے قول پر جرأت کوئی کافر و فاسق ہی کرسکتا ہے نہ کہ مسلمان۔ جیسے کہ مومنوں کی ماؤں پر بہتان باندھتے ہیں اور ان میں سرِفہرست المبراة المطھرة الصافیہ النقیہ صدیقہ بنت الصدیق عائشةرضی اللّٰہ عنھا ہیں اور اسمیں انہوں نے نبی ﷺ کی حرمت کا بھی خیال نہ کیا۔

لیکن جب انہوں نے ایسا فعل کیا تو اللہ نے ان کی عزتوں کو پھاڑ کے رکھ دیا، پس کوئی امت ایسی نہیں کہ جس کی عزتوں کو اسطرح تاراج کیا گیا تو وہ روافض ہیں اسی لیے اے دیکھنے والے تو دیکھے گا کہ رافضی کے نزدیک اپنی عزت کی کوئی قدرو قیمت نہیں چاہے وہ ظاہری طور پے اس کے کتنا ہی برعکس عمل کرے۔

پس ہم (الزرقاویؒ) یہاں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ بات ثابت کریں کہ کوئی بھی شخص جو نبی ﷺ کے صحابہ سے اتہام کو دور کرتا ہے اور ان کی عزتوں کا دفاع کرتا ہے اور خاص کر امہات المومنین کا دفاع کرتا ہے تو اللہ اسکی عزت سے اتہام کو دور کرتا ہے اور اسکی عزت کی حفاظت کرتا ہے کیونکہ وہ یہ دفاع کر رہا ہے۔

جیسے شرعاً بھی یہ معروف ہے {الجزاء من جنس العمل}کسی عمل کی جزاء اسی عمل کے جیسی ملتی ہے۔

یہاں یہ بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ یہاں ہم امام الشوکانیؒ کا وہ کلام نقل کریں جو انہوں نے اپنے مشاہدہ سے کہا کہ وہ یمن کے رافضیوں کے اندر رہتے تھے۔ پس انہوں نے اپنی کتاب{طلبُ الْعِلْم وطبقات المُتَعلِّمین} میں بہت عجیب اور خطرناک انکشافات کیے۔ القفاری کی کتاب ''اصول المذہب الشیعہ الامامیہ '' ایسا ہی کلام موجود ہے '' کہ کسی رافضی کے لیے کوئی بھی امانت کا ذمہ نہیں اس شخص پر جو اس کے خلاف مذہب کا پیروکار ہو اور رافضیت کے علاوہ کسی اور دین کو اپنائے۔بلکہ اس کے لیے ایسے شخص کا مال اور خون حلال ہے جب بھی ایسا کرنے کی اسے ادنیٰ سی فرصت مل جائے کیونکہ اس (سنی) کی حیثیت اسکے نزدیک مباح الدم اور مباح المال کی ہے اور جو کچھ وہ اپنی محبت ان کے لیے ظاہر کرتا ہے تووہ تقیہ سے ہے جو کسی بھی فرصت میں زائل ہوسکتی ہے۔

الشوکانی کہتے ہیں ...
٭ اس بات کا تجربہ ہم نے بار بار کیا ہے پس ہم نے کسی رافضی کو نہیں دیکھا جو کسی غیر رافضی سے سچی محبت رکھتا ہو چاہے وہ ظاہراً اپنی تمام مملوک اور ہر امکان کے ساتھ محبت کا اظہار کرے۔

٭ ہم نے کسی بدعتی مذہب میں اپنے مخالف کی اس قدر مخالفت نہیں پائی جتنی کہ رافضیوں کے اندر پائی جاتی ہے۔

٭ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ بہت زیادہ گالیاں بکنے والے ہوتے ہیں اور کسی سے ادنیٰ سے ادنیٰ جھگڑا پر بھی گالیوں کی بھر مار کردیتے ہیں۔ اس کا سبب واللہ اعلم۔ یہی ہے کہ انہوں نے نبی ﷺکے صحابہ کو گالیاں بکنا روا رکھا اور ان کو ان پاک باز ہستیوں پر گالی دینا بہت آسان ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہر گناہ میں شدت اختیار کرنے والے کو وہی آسان لگتا ہے۔

امام الشوکانیؒ نے ذکر کیا کہ...
یہ لوگ مسلم معاشرے میں کوئی جرم کرنے سے نہیں کتراتے اور کسی بھی حرام کام کے ارتکاب سے نہیں بچتے۔ہم نے بار ہا مرتبہ اس کا تجربہ کیا اور ہم نے کوئی رافضی نہیں پایاجو دین کے اندر محرمات سے بچتا ہو۔ چاہے وہ کوئی بھی ہو اور نہ ہی وہ ظاہراً اس بات کا اہتمام کرتا ہے۔ حالانکہ بعض اوقات انسان کسی گروہ میں بیٹھ کر کسی معصیت کا ارتکاب کرجاتا ہے لیکن جب اسے فرصت کا لمحہ ملتا ہے تو وہ ایسے شخص سے کانپ اٹھتا ہے جو جنت کا امیدوار نہیں اور آگ سے نہیں ڈرتا۔ پس تجھے کوئی رافضی گھر ایسا نہیں ملے گا مگر اس حالت میں کہ اللہ نے ان کے گھروں کی عزتوں میں ان کو سزا دی۔

یہاں شیخ ابو مصعب الزرقاوی شہیدؒ کا دوسرا لیکچر ختم ہوگیا۔​
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65

ھَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ الرَّافِضَة
(تیسرا درس)​

پس اس تاریخی سفر کے بعد جب کہ ہم نے رافضیوں کی خیانتوں اور ان ذلالتوں کا تذکرہ کیا اس لیے اب ہمارے لیے ضروری ہے کہ ایک اہم کام کی نیت کریں... اور یہ اس سبب سے کہ جب ہم رافضیوں کی خیانتوں اور ان کے جرائم کا ذکر کرتے ہیں اور یہ ذکر کرتے ہیں کہ ان کا اصل عقیدہ ہی فاسد ہے... کہ اس مذہب کا بانی ایک یہودی عبد اللہ بن سباء ہے... جب ہم ان کی فروعات کو اصل سے ملاتے ہیں...پھر جب ہم ان مجرموں کے خاتمہ کے لیے اللہ کے دین کی حکومت قائم کرتے ہیں اور ان کے اندر قتل و غارتگری پھیلاتے ہیں... پس ہماری یہ حالت ... اللہ کی قسم مجاہدین نے کوئی نئی بدعتی لڑائی شروع نہیں کی بلکہ وہی کام کیا ہے جو ہم سے کہیں بہتر ہمارے اسلاف نے کیا...

٭ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کے دین میں کسی مداہنت کا اظہار نہ کیا اوران لوگوں کے بارے میں کسی انصاف کے حکم کو بھی تلاش کرنا گوارا نہ کیاجو آپ سے محبت اور آپ کا گروہ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے تو آپ نے ان کو آگ میں جلوادیا جب انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے متعلق الوہیت کا دعویٰ کرتے تھے۔

٭ پھر آپ ہی نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کو گالیاں دینے والوں کو کوڑے مارنے کا حکم دیا۔

٭ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے ان کو نکال باہر کیا جب انہوں نے پہلے سے کیے ہوئے معاہدوں کو اتار پھینکا اور آپ نے ان سے برات کا اظہار کیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہو گئے اور مسلمانوں کے خون کی حفاظت کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیت کرلی اور ان رافضیوں کی خواہشوں اور شہوتوں کی مخالفت کی جب انہوں نے آپ سے معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑائی کا مطالبہ کیا۔

٭ یہ حسین رضی اللہ عنہ ان کے خلاف بد دعا کرتے ہیں اور انہی کے مصادر میں مذکور ہے جب آپ کی شہادت سے قبل وہ آپ کا ساتھ چھوڑ گئے تو آپ نے فرمایا''اے اللہ اگر انہیں تو کوئی فائدہ دے تو ایسا کہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردے اور ان کے رستے جدا کردے اور والیوں کو کبھی بھی ان سے راضی نہ رکھ کہ انہوں نے ہمیں بلایا کہ ہماری مدد کریں اور پھر ہمارے خلاف ہمارے قتل میں شریک ہوئے اور ہمیں قتل کردیا۔

٭ یہ عباسی خلیفہ ''المہدی''ہے جو ان کے زندیقوں اور بدعتیوں کے بہت خلاف تھا کیونکہ اس کے عہد میں ان کی دعوت پھیلنے لگی اور ان کا بازار چمکنے لگا تو اس نے متکلمین ''الجدلیین''یعنی مناظرہ کرنے والوں کو کہا کہ ان کے رد میں کتابیں لکھی جائیں اور ان کے شبہات کا رد کیا جائے ۔ المہدی نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس نے ایک خاص محکمہ بنایا جس کا نام ''صاحب الزنادقہ''تھا جو ان کا پیچھا کرتا اور دین میں خرابی کرنے والوں پر قتل یا حد جاری کرتا۔اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے بیٹے ''الہادی'' کو کہا کہ ان کا پیچھا کرے اور ان کی شدید پکڑ کرے۔

٭ مئورخ ''المَسْعُوْدِی''مہدی کے بارے میں کہتا ہے''اس نے ملحدین اور مداہنین کے قتل میں خوب مہارت حاصل کی کیونکہ وہ اس کے ایام میں بہت غالب ہو چکے تھے اور اپنے اعتقادات کا اظہار کرنے لگے تھے۔ جب اس سے قبل ان کی کتب مانی، ابن ذی صانا، مرقیون وغیرہ پھیل گئیں جن کاترجمہ فارسی اور بہلولی زبانوں سے عربی میں عبد اللہ بن المقفع نے کیا۔اس باب میں جو تصانیف سامنے آئیں ان میں ابن ابی العوجا ، حماد ، یحیٰ بن زیاد اور مطیع بن ایاس کی تصانیف شامل ہیں جن میں مانوی، دیصانی اور مرقونی مذاہب کی تائید شامل تھی۔ پس ان کتابوں سے زندقہ بہت بڑھ گیا اور ان کی آراء لوگوں میں ظاہر ہونے لگیں۔تو مہدی نے متکلمین اور اہلِ مناظرہ کو ان کتابوں کے رد لکھنے پر مامور کیا۔چنانچہ انہوں نے ان ملحدین پر حجتیں قائم کیں اور ان کے پھیلائے ہوئے شبہات کا ازالہ کیا یہاں تک کہ حق واضح ہوگیا۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
سلجوقی ترُکی اہل السنۃ
٭ انہوں نے رافضیوں اور باطنیوں کے خلاف قتال میں ایک تاریخ رقم کی ہے۔ چنانچہ سلطان ''ملک الشاہ''نے اپنے ایک عالم کو ''حسن بن صباح''سے مناظرہ کرنے کے لیے بھیجا جوکہ المزاریہ الاسماعیلیہ کا حقیقی مئوسس تھا اور قلعۃ الموت پر قابض ہونے کے بعد وہ 483ہجری میں فعال طور پر ان کا رئیس بن گیا۔اس کا فدائین نامی لشکر بہت زور پکڑ گیا جس کا کام زمین میں فساد پھیلانا اور امن پسندلوگوں کو قتل کرنا اور ان کے اموال لوٹنا تھا۔

پس اس نے سب سے پہلے ایک عالم کو اس لیے بھیجا تاکہ اس کی فکری اصلاح کی جائے اگر وہ حق کا متلاشی ہے لیکن جب ملک شاہ پر یہ واضح ہوگیا کہ وہ خواہش پرست اور اپنے کفر پر مصر ہے تو اس نے الصباح کے خلاف قتال کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے 485 ہجری میں فوج روانہ کی جس نے قلعۃ الموت کا محاصرہ کر لیا تو وہ اپنے بچاؤ کے لیے قزوین میں بدہدار ابوعلی کے پاس چلا گیا جس کی کوششوں سے یہ بچنے میں کامیاب ہوا لیکن بعد میں انہیں شکست ہوگئی ۔ لیکن ملک شاہ نے اس باطنی کے خلاف اپنے جہاد کو موقوف نہیں کیا بلکہ وہ پے در پے حملے کرتا رہا تاکہ وہ باطنیہ کا مکمل طور پر خاتمہ کردے لیکن موت نے اسے ان جنگوں کو ان کے منطقی انجام تک پہچانے کی مہلت نہ دی۔

٭ اس کی موت کے بعد اس کا بیٹا سلطان بارتیا تخت نشین ہوا۔ اس کا سب سے اہم کام یہی تھا کہ اس نے سب سے پہلے اپنی فوج کے اندر ایسے عناصر جن کے اندر رافضی فکری گند پایا جاتا تھا انہیں نکال باہر کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر وہ شخص جس کے متعلق ثابت ہو گیا یا چھوٹا شبہ بھی گذراکہ وہ باطنیوں کے ساتھ انتساب رکھتا ہے اسے قتل کر دیا گیا۔اس کے بعد علاقے سے اور میدانوں سے اور خیموں سے تمام باطنی پکڑ لیے گئے اور ایک میدان میں لاکر انہیں قتل کردیا گیا اور ان میں سے کوئی بھی باقی نہ بچا یہان تک کہ ان کے مقتولین کی تعدادجو میدان میں قتل ہوئے وہ تین سو سے کچھ اوپر تھی۔

میں (مترجم) کہتا ہوں کہ آج بھی ساری مسلمان دنیا میں ہمیں مسلمانوں کی صفوں کے اندر دیکھنا چاہیے کہ کہاں کہاں ایسے غدار چھپے بیٹھے ہیں تاکہ ان کا صفایا کر کے اپنی صفوں سے غداری و خیانت کے امکانات کو کم کیا جائے۔

یہیں پر بس نہیں بلکہ ملک شاہ کے اس بیٹے نے عامۃ الناس کو کھلی اجازت دے دی کہ جہاں کہیں انہیں دیکھیں قتل کر دیں۔ تو لوگ باطنیہ کو تلاش کرنے لگے اور ڈھونڈڈھونڈ کے قتل کرنے لگے۔ ایک شافعی فقیہ ''ابو القاسم مسعود بن محمد الخجندی''خندقیں کھودتے اور اس میں آگ بھڑکاتے اور باطنیہ فرقہ کے افراد اور جماعتوں کو آگ کے اندر پھینک دیتے تھے۔

٭ شاہ نے اپنے تمام امرا کو لکھ بھیجا کہ اپنے اپنے صوبوں میں باطنیہ کو تلاش کریں اور انہیں ختم کردیں اور ان کا پیچھا کریں۔ امیر ''الجاولی''نے تین سو کے قریب باطنیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔اس نے باطنیوں کے اندر اپنے جاسوس بھیجے جو ان کی صفوں میں گھس گئے اور جب وہ اس میں کامیاب ہوا تو اس نے سب کو قتل کردیا۔
٭ اس کے بعد شاہ نے بغداد میں عباسی خلیفہ کے پاس پیغام بھیجا اور اسے اشارہ کیا کہ اپنے ملک میں باطنیہ کا پیچھا کرے۔تو عباسی خلیفہ نے انکو پکڑنے کا حکم دیا اور جس پر بھی باطنی ہونے کا گمان تھا اسے گرفتا ر کر لیا گیا۔

٭ چنانچہ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ابن الجوزی ''المنتظم''میں لکھتے ہیں''اس معاملے میں کسی نے سفارش کرنے کی بھی جرأت نہ کی تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کا اس مذہب کی طرف میلان ثابت نہ ہوجائے۔

٭ اسی طرح شاہ نے اپنے بھائی سلطان سنجر کے ساتھ بھی تعاون جاری رکھا تاکہ باطنیہ کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے۔

٭ 456 ہجری میں سلطان سنجر نے اپنے ایک امیر ''قجق''کو ایک بڑا لشکر دے کر ''تریثیث''کے قلعہ کی طرف روانہ کیا تو اس نے ان پر حملہ کیا اور ان کے گھروں کو جلا ڈالا اور جو باقی بچ گیا اسے گرفتار کرلیا اور ان کے اوپر بہت سخت پکڑ کی اور پھر وہاں سے صحیح سالم واپس لوٹا۔

٭ 521 ہجری میں سلطان سنجر نے باطنیہ کے قلعہ الموت پر حملہ کردیا اور قریباً 12000 بارہ ہزار باطنیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
سلطان محمد السلجوقی
٭ سلطان محمد السلجوقی جو اپنی دینی غیرت ، جہاد فی سبیل اللہ اور سنی مذہب کے پھیلانے میں اور رافضی باطنی مذہب کے خاتمہ کے لیے بہت مشہور تھا،اس نے حکومت سنبھالتے ہی اس بات کو محسوس کرلیا تھا کہ ملک کے اندر اللہ کا دین اس وقت تک بلند نہ ہوگا جب تلک باطنیہ کا خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ چنانچہ انکی پناہ گاہوں کو ڈھا دیا اور سب سے اہم اعمال جو اس نے سر انجام دئیے وہ یہ ہے کہ اس نے ایک عسکری لشکر امیر ''اق سنقر ''کی قیادت میں بھیجا تاکہ باطنیوں کے ''قلعہ تکریت'' کا محاصرہ کیا جائے۔ پھر اس نے اپنے وزیر ''ابی المحاسن الابی'' کو گرفتار کر لیا جو باطنیہ کے ساتھ نہ صرف تعاون کر رہا تھا بلکہ ان کی مدد بھی کر رہا تھا جس کی وجہ سے اصبہان کا قلعہ فتح کرنے میں تاخیر واقع ہوئی۔ تو اس نے اسے سزا دی اور پھر اس کے چار اور ساتھیوں کو بھی گرفتار کرلیا اور اصبہان کے دروازے پر ان چاروںکی لاشیں لٹکادیں۔

پھر اس نے خود اصبہان قلعہ کا محاصرہ کیا جب وہ اسکی طرف ایک بڑا لشکر لے کر گیا کیونکہ باطنیوں کی اذیتیں حد سے بڑھ گئیں تھی۔ یہاں تک کہ باطنیوں کا داعی اور زعیم ''احمد بن عطاش''جو اپنے لشکریوں کو بھیجتا تاکہ وہ لوگوں کا راستہ کاٹیں اور ان کے اموال لوٹیں اور بے گناہ لوگوں کا خون بہائیں اور یہ سب کچھ وہ اپنے دین کے سائے میں کرتے تھے یہاں تک کہ ارد گرد کی بستیوں پرانکی حفاظت کے نام پر ان سے ٹیکس لیے جانے لگے۔

تو سلطان محمد نے ان کا محاصرہ کر لیا اور یہ محاصرہ چار ماہ تک جاری رہا۔ اس محاصرے کے دوران انہوں نے ایک خبیث حیلہ یہ کیا کہ سلطان محمد کے بارے میں شبہات اور طوفانِ الزمات کی بوچھاڑ کردی۔ جیسے یہی لوگ آج مجاہدین کے ساتھ کر رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے آج بڑے بڑے علماء ٹی وی کے چینلوں پر آکردعوے کرتے ہیں۔ تو انہوں نے مسلمان فقہاء کے پاس لوگ بھیجے تاکہ ان سے فتویٰ دریافت کریں کہ اس قوم کا کیا حکم ہے جو اللہ اس کے رسول اور اسکی کتاب اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں لیکن امام کی مخالفت کرتے ہیں تو کیا امام کے لیے جائز ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف لڑے اور انہیں قتل کرے اور ان کی اطاعت قبول کرے اور ان کی ہر اذیت سے حفاظت کرے؟
یہ حیلہ اس قدر خطرناک تھا اور قریب تھا کہ مسلمانوں کا اتحاد پارہ پارہ ہوجاتا اور لوگوں کا موقف باطنیہ کے مفاد میں ہوجاتا جب انہیں اکثر فقہاء نے ان کے حق میں فیصلہ دیا... لیکن بعض فقہاء نے توقف کیا!

لیکن سلطان محمد نے اپنی فقہی بصیرت اور تدبر سے تمام فقہاء کو جمع کیا اور انہیں مناظرہ کی دعوت دی۔تو شافعی فقیہ ابو الحسن علی بن عبد الرحمن السمنگانی نے سب کو اپنے موافق بنا لیا اور اس کی رائے ہی صواب قرار پائی۔ یہی وہ فقیہ ہیں جنہوں نے ان باطنیوں کا خون بہانے اور ان کے ساتھ قتال کرنے کا فتویٰ دیا تھا اور کہا کہ ان لوگوں کوشہادتین کا ادا کرنا کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ایسا ان کی اس رائے کے سبب تھا کہ وہ کہتے تھے کہ ان کا امام ان کے لیے وہ چیزیں بھی حلال کر سکتا ہے جو اللہ نے حرام کی ہیں اور وہ چیزیں حرام کرسکتا ہے جو اللہ نے حلال کی ہیں۔ تو ایسی حالت میں اس کی اطاعت ان کے عقیدے کے مطابق واجب تھی۔پس ان کے خون اس سبب سے باجماع مباح ٹھہرائے گئے۔

اس کے بعد سلطان محمد نے کوشش کی کہ قلعہ الموت کو ختم کیا جائے اور حسن بن صباح سے قتال کیا جائے جو کہ اس قلعہ میں پناہ لیے ہوئے تھے ۔پس اس نے کئی کوششیں کی لیکن اس کی اجل نے511 ہجری میں اسے آلیا جبکہ وہ اپنے لشکر کے ساتھ قائد ''انشتکین''کی قیادت میں چھ سال سے محاصرہ کیے ہوئے تھا۔پھر قائد انشتکین اپنے لشکر کے دباؤپر محاصرہ اٹھانے پر مجبور ہوگیا اور واپس لوٹ گیا۔

٭ سلطان محمد کی وفات کے بعد اس کے بیٹے محمود نے حکومت سنبھالی اور اس نے اپنے والد کی سیاست کو جاری رکھا اور اپنے ملک سے باطنی رافضیوں کے گند کو صاف کرنے کے لیے قتال جاری رکھا۔ پس اس نے الموت قلعہ کا محاصرہ کر لیا یہاں تک کہ 524 ہجری میں اسے فتح کرلیا۔ لیکن باطنیوں نے اس کی وفات کے بعد525 ہجری میں اسے پھر واپس لے لیا۔
٭ اس وقت ارد گرد کی ریاستوں کا والی ''الامیر عباس''تھا جو ''الری'' کا حاکم تھا اور یہ سلطان محمود کے خادموں میں سے تھا اورمخلص مجاہد تھا۔ اس نے اپنے ہاں موجود باطنیوں کی کو پکڑا اور ایک خلقِ کثیر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پھر اس نے قلعہ الموت کا محاصرہ کیا اور ان کی ایک بستی میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا اور اس نے وہاں گھروں ، بستیوں ، مردوں ،عورتوں اور بچوں تک کو جلا دیا۔
 
Top