• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غداری وخیانت کا ِفرقہ ،کفر ونفاق کا مجموعہ الشِّیْعَۃیہودیوں کا ایجنٹ کافر گروہ ھل اتاک حدیث الرافضة

شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
حکومتِ غوریہ
٭ اسی طرح''دولتِ غوریۃ'' کا بھی باطنی رافضیوں کے خلاف بڑا گرم کردار ہے۔ چنانچہ 597 ہجری میں جب شہاب الدین غوری ''کوہستان ''کی طرف گیا تاکہ اس کے اندر موجود باطنیوں کا محاصرہ کرے۔ پھر جب اس کا گذر ایک ایسی بستی سے ہوا جس کے بارے میں اسے پتہ چلا کہ اس کے باسی ''اسماعیلی باطنی''ہیں تو اس نے وہاں لڑنے کے قابل تمام افراد کو قتل کرنے کا حکم دیا اور تمام عورتوں کو قید کرلیا گیا اور ان کے اموال بطور غنیمت لے لیے گئے۔اس کے بعد اس نے ساری بستی کو ملیامیٹ کردیا اور اسے ایسے بنادیا گویا کہ وہ اپنے چھتوں پر گر چکی ہے ۔اس کے بعد اس نے ''کنباد''کی طرف اپنا سفر جاری رکھا جو باطنیوں کا شہر تھا ۔تو غوری نے وہاں پڑاؤکیا اور اس شہر کا محاصرہ کرلیا۔

پھر جب کوہستان کے باطنی بادشاہ نے حکومتِ غور کی طرف پیغام بھیجا اور اسے شکوہ کیا کہ بادشاہ کا بھائی ''شہاب الدین''اسے تنگ کر رہا ہے۔ اس نے کہا کہ ہمارے درمیان عہد تھا تو کس سبب سے ہمارا محاصرہ کیا گیا ہے؟ لیکن شہاب الدین نے اس کے باوجود محاصرہ شدید کردیا۔ پس جب انہیں شدید خوف لاحق ہوا تو امان طلب کرتے ہوئے باہر نکلے تو شہاب الدین نے انہیں امان دے دی اور انہیں شہر سے نکال دیا اور شہر پر قبضہ کرکے وہاں نماز اور اسلام کے شعائر کو جاری کردیا۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
حکومتِ خوارزمیہ
٭ حکومتِ خوارزمیہ نے بھی باطنیہ کے خلاف بہت سخت موقف اپنایا۔اس میں سے ایک ہے624 ہجری میں جب باطنیوں کا شر حد سے بڑھ گیا یہاں تک کہ انہوں نے جلال الدین خوارزم شاہ کے ایک امیر کو قتل کر دیا۔ تو وہ اپنی فوج لیکر قلعہ الموت سے ہوتا ہوا افغانستان میں واقعہ باطنیوں کے قلعہ ''کردیکوک'' تک گیا۔ اس نے ان تمام قلعوں کو تباہ کردیا، ان کے اہل کو قتل کیا، ان کی عورتوں اور اموال کو بطور غنیمت لے لیا۔ ان کی اولادوں کو غلام بنالیا اور مردوں کو قتل کردیا اور ان کے اندر بہت عظیم کام کیے!

قائد صلاح الدین الایوبیؒ کا موقف
وہ بھی ان کے خلاف سخت ترین موقف رکھتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے ان کی مستقل حکومت کا خاتمہ کردیا جو اس سے پہلے ایک لمبے عرصہ سے چلی آرہی تھی۔ اس سے قبل سلجوقی امرا و قائدین کے ساتھ انکے بہت خون ریز معرکے بپا ہوچکے تھے جن میں ان کے اموال تباہ ہوئے اورلوگ قیدی ہوئے۔ لیکن وہ شکست و ریخت جس کا سامنا انہیں صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں ہوا وہ ان پر بہت شاق تھی۔کیونکہ اس نے انکی ہوا اکھاڑ دی اور ان کے خوابوں پر پانی پھیر دیا جبکہ ان کی حکومت کے پاس سیادت تھی اور وہاں رافضی دین چلتا تھا لیکن اس کے بعد اہل السنۃ کا غلبہ ہوا۔ اسی لیے انہوں نے بار ہا دفعہ صلاح الدین کو قتل کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ کے فضل سے ان کی تمام کوششوں پر پانی پھر گیا۔

صلاح الدین ؒنے رافضیوں کے ساتھ جو کیا اس کا کچھ تذکرہ ہم سابقہ صفحات میں کیا ہے۔ پس اس کے قتل کی متعدد کوششوں کے بعد اس نے مصر میں ان امراء کوگرفتار کرلیا جنہوں نے فرنگیوں سے رابطہ کیا تھا تاکہ وہ مصر پر حملہ کریں۔ اس نے ان سب کو علیحدہ علیحدہ کر کے اقرار کروایا اور اس کے بعد فقہاء سے ان کے متعلق فتویٰ دریافت کیا۔ پھر ان کے تمام سردار قتل کردیے گئے اور ان کے اتباع و غلمان کو چھوڑدیا گیا۔ اس کے بعد ایوبی نے رافضی قلعہ ''مصیاف'' کا محاصرہ کرلیا جب انہوں نے ایوبی کے قتل کی کوشش کی۔ اس وقت وہ حلب کا بھی محاصرہ کیے ہوئے تھا۔ پس اس نے572 ہجری میں ان کے قلعہ کا قصد کیا اور اس پر منجنیق نصب کی اور اس قلعہ کو خراب کردیا اور جلادیا۔ پھر خوب خون ریزی کی اور ان کے اموال غنیمت بنالیے اور انہیں اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک انہیں ایک نہ بھولنے والا سبق نہ پڑھا دیا۔

پھر جب سوڈانی رافضیوں نے اس پر حملہ کیا جو عبیدیوں کی بادشاہت کے امین کے قتل کا بدلہ لینے آئے تھے تو صلاح الدین ایوبی نے ان کے معروف محلہ ''المنصورہ''میں فوج بھیجی اورانہیں ان کے اموال و اولاد سمیت جلا کر راکھ کر دیا ۔ جب ان رافضیوں کو پتہ چلا تو یہ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑ ے ہوئے تو اس نے تلوار ان پر مسلط کر دی اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا یہاں تک کہ صلاح الدین کے ایک ساتھی نے ان کے آخری علاقہ الجیزہ مین توران شاہ کا خاتمہ کردیا۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65

شیخ الاسلام ابنِ تیمیہؒ کاموقف​
پس ان کا موقف دو نقاط میں واضح ہوجاتا ہے​

(پہلا موقف) انہوں نے رافضیوں کی بدعتوں اور انکی کفریات کا علمی رد کیا اور ان کی حقیقت کا بیان کیا اور شریعت میں ان کا حکم بیان کیا جیسے کہ آپ کی ضخیم کتاب منہاج السنۃ النبویۃ سے واضح ہے۔

(دوسرا موقف)آپ نے ان کے خلاف عملی قتال کیا جب آپ نے تاتاریوں کے خلاف جہاد کے بعد رافضیوں کے خلاف قتال کیا تاکہ تاتاریوں کے خلاف جہاد میں ان کے تارتاریوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی سزا دی جائے۔

الملک المظفر قطز
مسلمانوں کی تاتاریوں کے خلاف فتح کے بعد اس نے شام میں ان کے خلاف ''عین جالوت ''کے مقام پرقتال کیا۔ ملک قطز اس معاملہ میں بہت بڑا کردار رہا۔ جب اس نے یہ اعلان کیا کہ وہ صلیبیوں اور رافضیوں سے انتقام لے گا جنہوں نے جنگ کے دوران تاتاریوں کی مدد کی تاکہ وہ مسلمانوں کے اموال لوٹ لیں۔ پس بہت ہی اختصار کے ساتھ رافضیوں کے جرائم ، ان کی خیانتوں اور غداریوں کا اجمالاً ذکر کرنے کے بعد ہم اس کا خلاصہ و خاتمہ چند نقاط پر کرتے ہیں۔

(۱) رافضیوں کے عقائد میں تدبر کرنے والا یہ بات جان لے گا کہ ان لوگوں نے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کیا ہے۔انہوں نے رب العلمین کے ذات و صفاتِ عالیہ میں حوادث کا ظہور ثابت کیا ۔جیسے کہ ان کا یہ کہنا کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ان کے بعض ائمہ کے اجسام کے اندر حلول کر لیا ہے اوریہ ایسے آئمہ ہیں جنکی یہ اللہ کے علاوہ عبادت کرتے ہیں۔

اسی طرح انہوں نے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عبادت میں بھی شرک کا ارتکاب کیا اورانہوں نے آئمہ کے لیے نذر، نیاز، تقرب وعبادت کوروا رکھا جبکہ وہ انہیں مقدس و معصوم خیال کرتے ہیں۔ لیکن یہ معاملہ یہاں تک ہی نہیں رکا بلکہ انہوں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی صفات جیسے رزق دینا، علمِ غیب وغیرہ بھی آئمہ کے ساتھ منسوب کیا۔ پس انہوں نے اللہ عزوجل کی ربوبیت و الوہیت پر ہی حملے نہیں کیے بلکہ انبیاء علیہم السلام پر بھی حملے کیے جیسے کہ فضیلت میں انبیاء ؑ کو اپنے آئمہ کے ساتھ فضیلت میں کم تر رکھا۔ اپنے آئمہ کے لیے ایسی صفات و مناقب وضع کیے جو ان انبیاء علیہم السلام کے مناقب سے بھی اعلیٰ ہیں یہاں تک کہ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ انبیاء ان کے مزعومہ معصوم آئمہ کے لیے ''ولایت کا عقیدہ''دے کر بھیجے گئے۔

ان مبنی بر ظلم افعال کے ساتھ انہوں نے اپنے ذلیل عقیدہ میں یہ بھی اضافہ کر لیا کہ اللہ کی کتاب ''قرانِ مجید''معنیٰ و الفاظ کے اعتبار سے محرف ہے ۔ پس اسی بنا پر انہوں نے اللہ کی کتاب اور اسکے رسول کی سنت کو اپنا مرجع نہیں بنایا کیونکہ انہوں نے قرآن پر نعوذ باللہ یہ طعن کی کہ انہیں اس میں کوئی صریح نص نہیں ملی جو ان کے عقائد پر دلالت کرتی ہو۔ لیکن انہوں اسی پر اکتفاء نہیں کیا۔

اسی طرح انہوں نے سنتِ نبوی پر اعتراض کیا اور اسکے لیے ائمہ اہلِ سنت کی روایات اور ان کی ذات کو طعن کا وسیلہ بنایا یا اور اس کا سبب یہ بتایاکہ انہوں نے اہلِ بیت سے منسوب جھوٹی روایات کو قبول نہیں کیا جو انہوں نے اپنے پاس سے گھڑ لیں تھیں۔پس ائمہ اہلِ سنت زندیقوں ، منحرف ، اور باطل پرست لوگوں کی روایت کو ان کی جہالت کے سبب قبول نہ کیا کرتے تھے۔

چنانچہ مشہور تابعی ابن سیرین کہتے ہیں کہ جب فتنوں کا ظہور ہوا اور بدعتیں رواج پاگئیں اور لوگ ہمارے پاس حدیث بیان کرنے آتے تھے تو ہم انہیں کہتے (سموا لنا رجالکم فان کان من اھل السنة فیوء خذ حدیثھم وان کان من اھل البدعة والروافض یطرد حدیثھم) ہمیں اپنے راویوں کا تعارف کروائو پس اگر وہ اہل السنۃ میں سے ہوتے تو ہم ان کی احادیث لے لیتے اور اگر وہ بدعتی رافضی ہوتے تو ہم انکی حدیثیں چھوڑ دیتے تھے۔

(۲) رافضی اہلِ بیت کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں ، آپ ﷺ کی اولاد کی نصرت کا دم بھرتے ہیں، جنابِ حسین ؓ پر روتے ہیں پھر اپنے مونہوں پر تھپڑ مارتے ہیں اوراہل السنۃ پر یہ بہتان دھرتے ہیں کہ وہ ناصبی ہیں یعنی اہلِ بیت سے دشمنی رکھتے ہیں ۔ یہ رافضی وہی لوگ ہیں جنہوں نے جنابِ حسین کو قتل کیاجبکہ اس سے قبل وہ جنابِ حسنؓ کو قتل کرنے اور امیر معاویہؓ کے حوالے کرنے کے درپے تھے۔ یہ تمام باتیں ان کے اصل مراجع اور امہات الکتب میں ثابت ہیں۔

کتاب ''الارشاد للمفید''میں امام حسینؓ کا قول مذکور ہے جب انہوں نے شیعہ کے خلاف بددعا کی جسے ہم نے اوپر کے صفحات میں ذکر کیاہے۔اسی طرح کتاب ''الاحتجاج ''میں ہے کہ آپ ؓ نے کہا:
لکنکم اسرعتم الی بیتنا کطیرة الدباء وتھافتم کتھافت الفراش، ثم نقضتموھا سفھا وبعداً وسحقا لطواغیتِ ھذہ الامة، وبقیة الاحزاب،ونبذة الکتاب،ثم انتم ھؤلا تتخاذلون عنا وتقتلوننا، الا لعنة اللّٰہ علی الظالمین۔
لیکن تم نے ہمارے گھروں پروحشیانہ دھاوا بول دیا اور سارے عہد کو توڑ دیا ،دوری وبربادی ہے اس امت کے طاغوتوں،کتاب اللہ کوچھوڑنے والے گروہوں کے لیے۔پھر اب تم ہمیں رسوا کرتے ہو اور ہمیں ہی قتل کرتے ہو ،خبردار اللہ کی لعنت ہو ظالموں پر۔

ان دو روایتوں پر تعلیق لگاتے ہوئے ''سید حسین الموسوی'' کہتا ہے کہ یہ دو نصوص ہمیں بیان کرتی ہیں کہ جنابِ حسینؓ کے حقیقی قاتل کون ہیں؟ وہ کوفہ کے شیعہ ہیں!یعنی ہمارے آباؤاجداد تو پھر ہم اہل السنۃ کو حسین کے قتل کا کیوں کر ذمہ دار ٹھہرائیں؟ اسی طرح ''سید محسن الامین''اپنی کتاب ''اعیان الشیعہ''میں کہتا ہے کہ''حسین ؓ نے اہل ِ عراق کے بیس ہزار افراد کے ہاتھوں بیعت کی جنہوں نے ان کے ساتھ غداری کی اور ان کے خلاف خروج کیا جبکہ جنابِ حسین کی بیعت کا بار ان کی گردنوں پر تھا پھر انہوں نے انہیں قتل کردیا۔
اسی طرح کتاب الاحتجاج میں میں ہے کہ امام ''زین العابدین''علیہ السلام نے اہلِ کوفہ سے کہا:
'' کیا تم جانتے ہو کہ تم نے میرے بابا کی طرف خط لکھے اور انہیں دھوکہ دیا اورتم نے ہی انہیں عہد و میثاق دیا تھا پھر تم نے ان کے ساتھ لڑائی کی اور انہیں رسوا کردیا۔ تم رسول اللہﷺ کو کیا جواب دو گے جب وہ تم سے فرمائیں گے کہ تم نے میری اولاد کو قتل کردیا اور میری حرمت کو روند ڈالا پس تم میری امت سے نہیں ہو!''۔

اسی طرح ان کا یہ قول بھی مذکور ہے کہ یہ لوگ ہم پر روتے ہیں ، ان کے علاوہ کس نے ہمیں قتل کیا۔ اسی طرح ''الاحتجاج'' میں فاطمہ الصغریؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے اہلِ کوفہ کو اپنے خطبہ میں کہا:
یا اھل الکوفہ، یا اھل الغدر والمکر والخیلاء، ان اھل البیت ابتلانا اللّٰہ بکم، وابتلاکم بنا فجعل بلائنا حسناً فکفرتمونا وکذبتمونا ورأیتم قتالنا حلالاً واموالنا نھباً کما قتلتم جدنا بالامس، وسیوفکم تقطر من دمائنا اھل البیت، تباً لکم فانتظروا اللعنة والعذاب فکان قد حل بکم ویذیق بعضکم بأس بعض، وتخلدون فی العذاب الالیم یوم القیامة بما ظلمتمونا، الا لعنة اللّٰہ علی الظالمین۔ تبا ًلکم یا اھل الکوفہ کم قراتم لرسول اللّٰہ قبلکم ثم غدرتم باخیہ علی بن ابی طالب وجدی وبنیہ وعترتہ الطیبین۔
اے اہلِ کوفہ...اے اہلِ غدرو مکر وتکبر!اللہ نے ہم اہلِ بیت کی تمہارے ذریعے آزمائش کی اور ہمارے ذریعے تمہاری آزمائش کی۔ تو اس نے ہماری آزمائش کو آزمائشِ حسنہ بنا دیا تو تم نے ہمارا انکار کردیا، ہمیں جھٹلایا اور ہمارے ساتھ لڑائی کو حلال کرلیا اور ہمارے اموال کو لوٹنا مباح کرلیا جیسے کہ تم نے اس سے قبل ہمارے جد اعلیٰ کو قتل کیا۔ تمہاری تلواروں سے اہلِ بیت کاخون ٹپک رہا ہے۔ تم پر تباہی ہو، پس تم اللہ کے عذاب اور اسکی لعنت کا انتظار کرو کہ وہ تم پر آیا چاہتی ہے۔ اللہ تمہارے بعض کا زور تمہارے اوپر مسلط کرے اور ہم پر ظلم کرنے کے سبب تم قیامت تک دردناک عذاب میں مبتلا رہو۔ خبردار اللہ کی لعنت ہو ظالموں پر۔ اے اہلِ کوفہ تم پر تباہی ہو تم نے اس سے قبل اللہ کے رسول اور آپ کی اولاد کے ساتھ کیا سلوک کیا؟پھر تم نے ان کے بھائی اور میرے داداعلی بن ابی طالب اور ان کے بیٹوں کے ساتھ غداری کی۔ ان کی یہ باتیں سن کر اہلِ کوفہ کے ایک فرد نے بڑے فخر سے جواب دیا۔

نحن قتلنا علیا وابن علی​
بسیوف ھندیة ورماح​
وسبینا نسائھم سبی ترک​
ونطحنا ھم فای نطاح​

ہم نے علی اور اسکے بیٹے کو تیز دھار ہندی تلواروں اور نیزوں سے قتل کیا۔​
اور ان کی عورتوں کو ترکوں کی طرح قیدی بنایا انہیں زخمی کیا پس کیا ہی زخمی کرنا تھا۔​
(۳) مسلمانوں کو چاہیے کہ اللہ عزوجل کے حکم کے مطابق تفکر کرے اور پہلے ہو گذری امتوں کے احوال پر غور فکر کریں لہذا ہم ان سے سبق و عبرت حاصل کرتے ہیں ۔ اللہ فرماتے ہیں
(أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ)
کیا وہ دیکھتے نہیں کہ وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ فتنہ میں مبتلا کیے جاتے ہیں پھر وہ ہیں کہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی نصیحت پکڑتے ہیں۔

اسی طرح حدیث میں آتا ہے نبیﷺ نے فرمایا(لایلدغ المومن من جحر واحد مرتین) مومن ایک سوارخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔

رافضیوں کے اس طرح قریب ہونے سے ہمارے اوپر بہت سے اضرار اور نتائج مرتب ہوئے۔ ان کی اللہ ، اسکے رسولﷺ اور مومنوں کے لیے خیانتیں ہمارے اوپر ظاہر ہوگئیں، انہوں نے کافروں سے دوستیاں لگائیں، ملکوں میں سرکشیاں کیں اور اس میں بہت فساد برپا کردیا۔ ان کی کفار سے دوستی نے ان کا دین سے خروج واجب کردیا اور انہیں رب العلمین کے امر سے باہر لا کھڑا کیا۔ جبکہ انکا امہات المومنین کے بارے میں طعن و فسادہی کیا کافی نہ تھا ان کے کافر ہونے میں اور وہ بھی ایک ایسی ہستی کے لیے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ِ عزیز میں قطعی طور پر بری قرار دیا۔ پس یہ باتیں جو میں(الزرقاویؒ)نے اوپر کی ہیں، میں تنبیہ کرتے ہوئے کہتا ہوں... کہ جب بھی مسلمانوں کا یہودیوں اور صلیبوں کے ساتھ سامنا ہوا... ہر اس جنگ میں جو تاریخ میں ہو گذری اور ہمارے موجودہ دور کی جنگوں تک... ہم دیکھتے ہیں کہ یہ رافضی ہمیشہ کفر کے کیمپ میں نظر آئے اور ان کی عسکری ومعلوماتی میدان میں تمام ممکن وسائل کے ساتھ مدد کرتے ہوئے نظر آئے۔ وہ موت کو اس بات پر ترجیح دیتے ہیں کہ مسلمانوں کو کفر کے خلاف غلبہ ملے یا یہ کہ ان کو کہیں اختیار حاصل ہو۔ وہ کبھی بھی اسلام کے اصل دشمنوں کے خلاف قتال نہیں کرتے ۔ حتیٰ کہ بہت سے حالات میں جب وہ قتال کے لیے نکلنے پر تیار ہوتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ قتال کر رہے ہیں وہ اکثر سنی قیادت کے تحت مجبوراً متحرک ہوتے ہیں یا بابِ تقیہ کے تحت ایسا کرتے ہیں۔ ان کا اسطرح لڑائی کے لیے نکلنا شاذو نادر ہی ہوتا ہے یا ایسی حالت میں جب وہ غداری یا رسوائی کی نیت سے یا اپنی زمینوں کے لیے یا اپنے خبیث مفادات کے لیے نکلتے ہیں۔

جیسے کہ اس کا مظاہرہ وزیر ''الافضل'' کی تاریخ سے ظاہر ہے کہ جب اس نے دمشق کے سنیوں کی قوت کو دیکھا اور صلیبیوں کے اپنے ساتھ کیے گئے سلوک کو دیکھا جو اس کے مصالح کے خلاف تھا تو وہ اپنی فوج لیکر ''طغتکین ا اتابک'' کی قیادت میں داخل ہو گیا۔ اسی طرح عبیدی رافضی بادشاہ ''العاضد'' کا قصہ ہے کہ جب اس نے دیکھا کہ فرنگی اس کے ملک کی طرف چلے آتے ہیں اور اسے اپنے محل پر اور اپنی عورتوں کے چھن جانے کا خوف لاحق ہوا تو اس نے نورالدین زنگی سے مدد طلب کی اور ساتھ ہی اپنی عورتوں کے کچھ بال کاٹ کے بھیجے یہ کہتے ہوئے کہ یہ میرے محل کی عورتوں کے بال ہیں جو تجھ سے مدد طلب کرتیں ہیں تاکہ تو انہیں صلیبیوں سے بچائے!

(۴) مسلمانوں کے لیے یہودیوں، صلیبوں اور محارب کافروں کے خلاف غلبہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہے جب تک کہ وہ ان تمام مرتد ایجنٹوں سے چھٹکارا حاصل نہ کرلیں اور ان میں سرِ فہرست ہیں رافضی۔

جیسے کہ تاریخ اس معاملے کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہے کہ بیت المقدس جب مسلمانوں کے قبضہ سے نکل کر عبیدی رافضیوں کی خیانت و مدد کے باعث صلیبیوں کے ہاتھوں میں چلا گیا وہ صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں واپس ہوا۔ باوجود اس بات کے کہ نورالدین زنگیؒ خود صلیبیوں کے خلاف بہت شدید موقف رکھتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ بیت المقدس کی فتح صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں ہو لیکن کب؟ اس سے قبل صلاح الدین کئی سالوں تک عبیدی رافضیوں کے خلاف لڑتا رہا اور اس نے ان کی حکومت کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا۔ اسکے بعد وہ صلیبیوں کے خلاف قتال کے لیے فارغ ہوا یہاں تک کہ اسے فتح حاصل ہوئی اور بیت المقدس واپس مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا جو اس سے قبل کئی سالوں تک اہلِ خیانت و غدر رافضیوں کی وجہ صلیبیوں کے قبضے میں رہا۔

یہ بہت اہم سبق ہے جو ہمیں تاریخ بتلاتی ہے اور اس سے کسی قسم کا تغافل نہیں برتا جانا چاہیے۔ہمارے لیے کافروں کے خلاف کبھی بھی فتح ممکن نہیں جب تک ہم مرتد کافروں سے قتال نہ کریں۔یہ تاریخ کابہت اہم سبق ہے کہ صحابہؓ کرام کی عہدِ خلافتِ راشدہ میں فتوحات جزیرۃ العرب میں مرتدین کے مکمل خاتمہ کے بعد ہی مکمل ہوئیں۔ پس ہم دیکھتے ہیں کہ رافضی سب سے زیادہ سے جس سے بغض رکھتے ہیں وہ صلاح الدین ایوبی ہے ۔ وہ موت کی طاقت تو رکھتے تھے لیکن اس کے خلاف نہ ٹھہرسکتے تھے۔

(۵) ہر سلیم فطرت رکھنے والا انسان یہ جانتا ہے کہ کہ آخرت میں کامیابی کا دارمدار صحیح سلیم عقیدہ پر ہے جو شرک وبدعت سے پاک ہو ۔پس عقیدہ حق اوررافضی عقیدہ کا اجتماع کیونکر ممکن ہے جسے ہم نے اوپر کے صفحات میں ذکر کیا ہے۔ پس تمہیں اللہ کا واسطہ ہے کہ صحیح عقیدہ کے ساتھ کس طرح عملی طور پر ان کے ساتھ قرب اختیار کیا جائے اگر ہم ان کی بعض چیزوں کو اختیار کرلیں جو کفرو ضلالت سے بھر پورہیں تو ہمیں ہلاکت اور دینی خسارے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔پس دین تو اس لیے آیا ہے تاکہ بندوں کو غلامی سے نکال کر رب کے ارادے کی طرف لے جائے۔تو پھر کیسے صحیح سلیم عقیدہ کو چھوڑ کر اخروی نجات حاصل ہوگی۔

جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ'' کسی چیز کا صحیح آغاز اس کے اچھے انجام کی طرف لے کر جاتا ہے اور اس کا فساد اس کے نتائج کے فساد کی طرف لے کر جاتا ہے۔ پس اگر کوئی دعویٰ کرنے والا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ موافقت رکھتے ہیں کہ صحیح اعتقاد ہی اللہ کے عذاب سے بچانے والا ہے۔ لیکن وہ ایسی بات یا تو تقیہ کے باب میں کہتے ہیں وہ بھی ایسے وقت میں جب وہ اہل السنۃ کے ہاں کمزور ہوں یا یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ مذہبِ حق صراطِ مستقیم پر اتفاق کرلیں ۔ تو ایسی صورت میں وہ گمراہ رافضیت کے وصف سے خارج ہوکر حق کی طرف آجائیں گے ۔پس یہ تقارب وقربت ایک ہی صورت میں آئے گی اور اسکا عنوان ہوگا حقِ مبین کی طرف پلٹنا۔

ان باتوں کے باعث میں (الزرقاویؒ) کہتا ہوں کہ اہل السنۃ اور رافضیوں کے درمیان ادنیٰ سا فکری تقارب بھی ممکن نہیں۔ ہم نے تاریخ میں اس قربت کا نتیجہ دیکھ لیا ہے جب عباسی خلفاء نے ان رافضیوں کو اپنے قریب کیا اور انہیں وزارتوں کے عہدے دیے اور انہیں قائد بنایا۔ جیسے کہ ابن العلقمی اور نصیر الدین الطوسی جو کہ عباسی خلیفہ مامون کے سسرالی رشتہ دار تھے جن کا مامون کی ماں مراجل کے تذکرہ میں ہم نے ذکر کیا ہے۔جب بھی ایسی قربت کی راہیں کھلیں ان کا نتیجہ امت کے لیے ہلاکت کے سوا کچھ نہیں نکلا۔یہ قربت اسلامی مملکت کے انہدام کا باعث بنی اور اس کی تباہی پر چھوٹی چھوٹی رافضی ریاستیں وجود میں آگئیں۔

اسی طرح اس قربت کے باعث عقائد میں فساد پیدا ہوا جب ان کے ذریعے لوگوں میں بدعات کو رواج دیا گیا اور مسلمانوں میں شکوک و شبہات پھیلائے گئے۔ یہاں تک کہ عقائد ٹیڑھے ہوگئے اور ان میں بہت زیادہ انحراف واقع ہو گیا۔ جیسے کہ خلقِ قرآن کا فتنہ اور اس جیسے دوسرے افکار جسے عباسی خلفاء نے اپنی فارسی ماؤں سے حاصل کیا۔ یہاں ہمارے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم بہت سے ان علماء کا تذکرہ بھی کرتے چلیں جو ماضی قریب میں جہالت کے سبب رافضیوں کے ساتھ قربت کی دعوت دیا کرتے تھے لیکن جب حق ان پر واضح ہوا تو وہ واپس لوٹے اور اپنے وعظ و تذکیر میں ان لوگوں کو اس قربت سے تنبیہ کرنے لگے جو اس قربت کے ابھی تک روادار ہیں ۔

ڈاکٹر مصطفیٰ السباعیؒ اپنی کتاب ''السنة ومکانتھا فی التشریع الاسلامی'' میں کہتے ہیں کہ قاہرہ پچھلی چار دہائیوں سے{دارالتقریب بین السنة والشیعة}کے مراکز کھولے گئے لیکن رافضیوں نے خود اس بات سے انکار کردیا کہ اس جیسے دفاتر ان کے علمی مراکز نجف اور قم وغیرہ میں کھولے جائیں کیونکہ وہ صرف ہمیں اپنے دین کے قریب کرنا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر علی احمد السالوس جواصول الفقہ کے استاد ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد ''محمد المدنی'' کے کہنے پر سنی اور شیعہ میں قربت کی راہوں کا مطالعہ شروع کیا تاکہ میں اس بات کو نقطہ بناؤں کہ شیعہ اہل السنۃ میں پانچواں فقہی مذہب ہے۔ لیکن جب میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا اور ان کے اصل مراجع پر نظر ڈالی تو میں نے اس معاملہ کو یکسر مختلف پایا جو کچھ میں نے سنا تھا۔ پس میں نے اپنے مقالے کو اپنے استاد محمد المدنی کی توجیہ پر شروع کیا تاکہ قربت کی راہیں نکالوں لیکن کوئی بھی علمی مقالہ شہوتوں اورخواہشوں کے تابع نہیں ہوسکتا۔ پس ان کے بارے میں اللہ کا حکم جاننے کے بعد... اور یہ جاننے کے بعد کہ رافضی مذہب دینِ اسلام کے ساتھ کسی فرع اور کسی اصل میں اتفاق نہیں رکھتا کیونکہ اس کی بنیاد ہی اسلام کی عمارت کو ڈھانے پر رکھی گئی ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ رافضیوں کا دفاع کرنا اور ان کی برأت کا اعلان کرنا اور دن رات ان کے ساتھ قربت کی راہیں تلاش کرنا اور ان کے لیے معذرتیں کرنا ... یہ سارے کام ایسا شخص ہی کرسکتا ہے جو کوئی جاہل غافل ہو اور نہ جانتا ہو کہ وہ کیا کہ رہا ہے... یا وہ ان سے بڑھ کر امت کا خائن و غدار ہو! تو ایسے آدمی کا حکم ان کا حکم ہے بلکہ اس کے بارے میں اللہ کا قول صادق آتا ہے :
(إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ)
بے شک وہ لوگ جو ہماری نازل کردہ آیات و نشانیوں کو چھپاتے ہیں باوجود اس کے کہ ہم نے انہیں کھول کر بیان کردیا ہے ۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرتے ہیں لعنت کرنے والے۔

اس کے بعد میں (الزرقاویؒ)کہتا ہوں کہ شیعہ اور سنیوں کے درمیان قربت کی دعوت دینے والا دو آدمیوں میں سے ایک ہے۔ وہ آدمی جس نے حق کو پہچاننے کے بعد امت کے ساتھ خیانت کا ارتکاب کیا اور دین کو تھوڑی قیمت کے عوض بیچ ڈالا۔ دوسر اوہ شخص جو ان لوگوں کے احوال سے جاہل ہے لیکن وہ ایسا جاہل ہے جو علم رکھتا ہے۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
اے اہل السنۃ اور رافضیت کے درمیان تقرب کی راہیں نکالنے والو...
تم کیسے اس بات کی دعوت دیتے ہو حالانکہ وہ واضح شرک پر ہیں اور کفرِ بواح پر ہیں اور ہمارے نبی ﷺ کی شان میں طعن کرتے ہیں اور ان صحابہ کرام کو گالیاں دیتے ہیں کہ نبی ﷺاس دنیا سے رخصت فرماتے وقت جن سے راضی تھے اور وہ آپ سے راضی تھے۔ اللہ کی قسم اگر ان میں کسی کی عزت کے بارے میں اور اسکی بیوی کے بارے میں طعن کیا جائے تو ساری دنیا اس کے لیے کھڑی ہوجاتی لیکن ایسے شخص کویہ کیوں گواراہے جب وہ دیکھتا ہے کہ یہ نبیﷺ کی ذات کے بارے میں اپنی خبیث زبانِ طعن دراز کررہے ہیں۔
اے اللہ! میں (الزرقاویؒ) گواہی دیتا ہوں کہ نبی ﷺ کی عزت ہمیں اپنی عزت سے زیادہ پیاری ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اماں عائشہ ؓکے سر کا ایک بال مجھے اپنے نفس اور اپنے اہل و عیال سے اور ساری انسانیت سے زیادہ محبوب ہے۔

پس ہم یہاں یہ کہنا بھی نہ بھولیں گے کہ رافضی جب بھی کافروں اور یہود و نصاریٰ کے خلاف موت کے نعرے لگاتے ہیں تو ہر دفعہ وہ ایسا اپنی تقیہ کے بد عقیدہ کے باعث کرتے ہیں اور وہ اسے دین کے ارکان میں سے ایک رکن شمار کرتے ہیں۔ پس جس قدر ان کے اس قسم کے شعارات اور نعرے زیادہ ہوں اسی قدر ان کا جھوٹ اور دعوے اس میں شامل ہوں گے۔

چاہے تو اس کے لیے موجودہ وقت میں ایرانی صدر احمدی نژاد کی بڑھک پڑھ لیں جوچیخ چیخ کے دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتا ہے کہ اسرائیل کو نقشے سے مٹا دینا بہت ضروری ہے... ہاں اللہ کی قسم صرف نقشے سے ہی مٹانا۔

(۶) رافضی دین ان تما م قواعد کے انہدام کے لیے آیا جو اسلام لے کر آیا۔ پس وہ دین کی عمارت کو گراتے ہیں اسکی تحریف کر کے... قرآن میں زیادتی ونقصان کا عقیدہ رکھ کے... صحیح احادیث کا انکار کر کے... صحابہ رضوان اللہ علیہم کی تکذیب اور ان پر زبانِ طعن دراز کر کے... اللہ کے دینِ حق میں تشکیک پیدا کر کے... بدعتوں اور باطل چیزوں کو فروغ دے کر... اور اللہ کے دین میں الحاد وزندقہ کو راہ دے کر۔ اسی طرح وہ نفس و اموال کو تباہ کرتے ہیں اور اہل السنۃ کا خون حلال قرار دیتے ہیں، ان کے اموال لوٹتے ہیں۔ اخلاق کو تباہ کرتے ہیں اور نسب کو مٹاتے ہیں۔ جب وہ متعہ کے جواز کی بات کرتے ہیں اور دبر سے مجامعت، شرمگاہوں کا مستعار دینا اور ہم جنسوں کے نکاح کرتے ہیں (اللہ کی پناہ)۔
انسانی عقل کو تباہ کرتے ہیں جب وہ ہیروئن، چرس اور نشہ آور اشیاء کو جائز ٹھہراتے ہیں۔ قدیم طور پر وہ انہی چیزوں کواپنے پیروکار فدائیوں کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ جدید طور پر ان کے سینہ کوبی کرنے والے انہیں استعمال کرتے ہیں۔ جب ان کے''آیۃ ''(شیعہ مذہب میں بڑے عالم کو آیۃ اللہ یعنی اللہ کی نشانی کہا جاتا ہے) عام لوگوں کی عقلوں پر ہنستے ہیں اور اہلِ بیت کے ساتھ ان کی نسبت کا مذاق اڑاتے ہیں۔پھر ایسوں کے معصوم ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور اس کے بعد وہ اپنی شخصی خواہشوں کے تابع گمراہیوں کو پھیلاتے ہیں۔

(۷) ہمارے نزدیک ایران کے صفوی رافضیوں اور عرب رافضیوں میں کوئی فرق نہیں جیسے کہ عراق ، لبنان ، شام کے رافضی۔رافضیوں کا دین ایک ہے ان کے اصول وفروع ایک ہیں اور ان کا مرکز ومرجع ایک ہے اور ان سب کی دشمنی اہل السنۃ کے خلاف ایک ہی ہے۔

(۸) رافضیوں اور یہودیوں کے اصول ایک جیسے ہیں اسی لیے رافضیوں کی تعلیمات یہودیوں کی تعلیمات سے بہت زیادہ تشابہ رکھتی ہیں... ان کے اجتماعات اور خفیہ کانفرنسوں کی طرح... ان کا تقیہ استعمال کرنا... اس بات کا اظہار مسلمانوں کے لیے جو وہ باطنی طور پر نہیں چاہتے... یہ سب کچھ ان کے یہودی بھائیوں کے مماثل ہے۔ یہودیوں کے پروٹوکول اور تلمود کا مطالعہ کرنے والا یہ جلد ہی پتا چلا لیتا ہے کہ یہودیوں کی غیریہودیوں کے بارے میں وہی تعلیمات ہیں جو ان آیۃ ، سیدوں رافضیوں کے فتاویٰ میں موجود ہیں۔

یہودیوں کی تعلیمات یہ ہیں کہ وہ یہودی کے ساتھ سودی لین دین کرنے اور اس کے ساتھ دھوکہ دہی کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور اسے غیر یہودی کیساتھ جائز قرار دیتے ہیں۔رافضیوں کا دین بھی ایسے ہی ہے کہ وہ آپس میں سود اور دھوکہ دہی کو حرام قرار دیتے ہیں اور ایک دوسرے کا مال حرام سمجھتے ہیں لیکن اہل السنۃ کے اموال کو لوٹتے اور اسے حلال قرار دیتے ہیں۔ یہودیوں کی تعلیمات یہ ہیں کہ یہودی پر یہ حرام ہے کہ وہ غیر یہودی کی مدد کرے یا اسے کہیں غرق ہوتے ہوئے بچائے بلکہ اگر کوئی دیوار کسی غیر یہودی پر گرا چاہتی ہے تو یہودی پر واجب ہے کہ اسے اس پر گرادے۔ اسی طرح یہ رافضی اپنے عوام کو ایسے فتوے دیتے ہیں۔

پس کتاب ''الانوار النعمانیہ'' میں ان کا عالم ''نعمۃ اللہ الجزائری''اور کتاب ''نصب النواصب'' میں محسن المعلم کہتا ہے'' روایات میں آتا ہے کہ علی بن یقطین جو ہارون الرشید کا وزیر تھا۔ وہ مخالفین کی ایک جماعت کے ساتھ جیل میں اکٹھا ہو گیا۔ جبکہ وہ شیعہ کے خواص میں سے تھا ۔اس نے اپنے لڑکوں سے کہا تو انہوں نے جیل کی چھت کو قیدیوں کے اوپر گرادیاجس سے وہ سب مر گئے جبکہ وہ پانچ سو کے قریب لوگ تھے۔ پھر انہوں نے ان کے خون سے برأت چاہی تو الکاظم کی طرف فتویٰ طلب کیا تو جناب ''علیہ السلام'' نے لکھا کہ وہ انہیں قتل کرنے نہ آیا تھا تو اسے بری قرار دے دیا!

پس یہ معاملہ ہمارے زمانے میں بھی چل رہا ہے چنانچہ تلعفر کے علاقہ میں ایک ڈاکٹر ہے جسے عباس قلندر کہا جاتا ہے جو ان کی رافضی انقلابی مجلسِ اعلیٰ کے تابع ہے جس کا سربراہ عبد العزیز الحکیم ہے۔یہ ڈاکٹر تلعفر میں لوگوں کا علاج کرتا ہے اس کے پاس ایک بچہ لایا گیا تو اس نے اسے ایسی دوا دی جو مرض میں اور اضافہ کردیتی تھی اور اس کا سبب بہت چھوٹا ساتھا اور وہ یہ کہ بچے کا نام تھا ''عمر''!

اسی طرح بعقوبہ میں مرکز محافظہ ''دیالی''میں ایک ڈاکٹر تھا اس نے اعلان کر رکھا تھا کہ کوئی ایسا مریض جس کانام عمر ہے اور کوئی ایسی مریضہ جس کا نام عائشہ ہے وہ اس کا علاج نہیں کرے گا۔ اللہ کے فضل سے مجاہدین نے اس خبیث رافضی کو اس کے کلینک میں ہی قتل کرنے کی کوشش کی جب انہوں نے اس پر فائر کیا تو اسے گردن میں بہت شدید چوٹیں آئی اور وہ ایران بھاگ گیا۔

(۹) غداری اور خیانت اور سیاسی جرائم اور لوگوں کو قتل کرنے کے میدان میں رافضیوں کے جرائم انفرادی یا کسی غنڈہ گردی کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ وہ جرائم ہیں جن کی منصوبہ بندی اور حکم ان کے علماء و روساء کی طرف سے آتاہے۔یہ سارے افعال عقیدہ و سیاست کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں اور یہ سارے اعمال عسکری طور پر منظم ہوتے ہیں۔ جبکہ ایسے گروہوں کے افراد رافضیوں کے ہاں بہت معزز اور رافضی بازو کہلاتے ہیں! کیسے نہ ہوں کہ ان کی دعوت ، ان کی حکومت اور ان کا حکم انہی کے بل بوتے پر چل رہا ہے۔

اس لیے ان گروہوں کے افراد ... قاتلوں کے گروہیں... جو مکمل تربیت یافتہ ہیں اور ان کے اوپر بہت سے بھاری اموال خرچ کیے جاتے ہیں اور وہ اس بات کے حریص کہ انکی ثقافت غالب رہے اور ان کے ہاں متعدد زبانوں کی معرفت رہے۔ ان کے وظائف اور تنخواہیں بہت اعلیٰ ہیں۔ یہ سب کچھ انہیں دین کے نام پر دی جانے والی تاثیر اور ضلالت کے علاوہ جس کے بل بوتے پر وہ ان جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں حتیٰ کہ انہیں حشیش اور نشہ کروایا جاتا ہے جیسے کہ ان آباء میں قرامطہ کے فدائی اور اسماعیلی کیا کرتے تھے۔ جدید دور میں اس قسم کے متعدد گروہ موجود ہیں جو اپنی نسبت اور تعلق خفیہ طو ر پر ایک ہی مرکز کے ساتھ رکھتے ہیں۔ خبردار وہ ہر علاقہ میں ان کے نواب و امام کا مرکز ہے ۔

انہیں میں سے ایک ''ایرانی انقلابی گارڈز''کے لوگ،التعبئۃ عامہ بالباسیج، مسلحہ تحریکیں ''حرکۃ الامل''اور قاتلوں کے گروہ ''حزب اللہ''وغیرہ ہیں ۔ حتیٰ کہ قتل وغارتگری کے یہ جرائم اور ان کا ارتکاب سب ان کے اہل السنۃ کے قتل کے فتاویٰ اور تحریض کی طرف لوٹتے ہیں جب وہ انہیں مستباح الدم والمال قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ دو کتابوں ''وسائل الشیعہ''اور ''بحار الانوار''میں داؤد بن فرقد سے روایت ہے:
قلت لابی عبد اللّٰہ علیہ السلام ما تقول فی قتل الناصب ؟ فقال حلال الدم ولکن اتقی علیک فان قدرت ان تقلب علیہ الحائط او تغرقہ فی ماء لکی لا یشھد علیک فافعل ۔
کہ میں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے پوچھا کہ ناصبی (سنی) کو قتل کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟تو انہوں نے فرمایا اس کا خون حلال ہے لیکن مجھے تجھ پر ڈر ہے اس لیے اگر تیرے لیے ممکن ہو تو اس سنی پر کوئی دیوار گرادے یا اسطرح پانی میں اسے غرق کردے کہ کوئی تجھے دیکھ نہ لے تو ایسا ہی کر۔

اس پر ''امام خمینی خنزیر'' تعلیق لگاتے ہوئے کہتا ہے '' پس اگر تجھے استطاعت ہو کہ تو اس کا مال بھی لوٹ لے تو اس کا خمس یعنی پانچواں حصہ ہمیں بھیج دے''۔

کتاب ''للہ ثم للتاریخ'' کا مصنف کہتا ہے'' جب ایران میں آلِ پہلوی کی حکومت ختم ہوئی اور اس کے فوراً بعد امام خمینی کا انقلاب آیا اور زمامِ اقتدار امام خمینی کے حوالے کردی گئی ۔ تو شیعہ علماء کو اس کی زیارت اور اس کی مبارکباد واجب قرار دے دی گئی اس فتح پر اور اس جدید دور میں دنیا کی پہلی شیعہ حکومت کے قیام پر جس پر فقہاء حکومت کرتے ہیں۔ مبارک و زیارت کا یہ عمل مجھ پر بھی بہت زیادہ واجب تھا کیونکہ میرا امام خمینی کے ساتھ بہت گہرا تعلق تھا۔ تو میں نے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد ایران کی زیارت کی ، بلکہ زیادہ مرتبہ کی جب امام طہران میں داخل ہوا اور اس سے قبل وہ پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہا تھا۔ اس نے مجھے بڑی گرمجوشی سے خوش آمدید کہا۔ میری یہ ملاقات عراق کے باقی علماء سے علیحدہ اکیلے میں تھی۔ جب ان کے ساتھ ایک خاص مجلس ہوئی تو مجھے کہنے لگا وقت آگیا کہ ہم ائمہ صلوات اللہ علیہم کی وصیتوں پر عمل پیرا ہوجائیں۔ ہم ناصبیوں ( سنیوں) کا خون بہائیں گے، ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیں گے اور کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے جو ہماری پکڑ سے بچ پائے گا اور ان کے اموال شیعہ اہلِ بیت کے لیے خاص ہوں گے۔ ہم زمین کے صفحہ پر سے مدینہ و مکہ کو مٹا دیں گے کیونکہ یہ دو شہر وہابیوں کی پناہ گاہیں بن گئے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اللہ کی مقدس زمین کربلا کولوگوں کا قبلہ بنادیا جائے۔ اس طرح ہم اپنے ائمہ علیہم السلام کے خوابوں کی تکمیل کریں گے۔ہماری حکومت قائم ہوگئی ہے جسکے لیے ہم نے طویل جہد کی ہے اور اب صرف اس کی تنفیذ باقی ہے۔ پس آج جب ہم اس بات کو موجودہ عراقی حالات پر مطبق کرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں ''فیلق الغدر''اورمزعومہ ''جیش المہدی''وغیرہ جماعتوں نے اس کام کو بہت بہتر طور پر سر انجام دیا ہے۔

وہ اہل السنۃ کے گھروں پر دھاوے بولتا ہے اوراس بہانے کے ساتھ کہ وہ مجاہدین کی تلاش کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر انہیں مجاہدین نہ بھی ملیں تو وہ وہاں مردوں کو قتل کردیتے ہیں اور عورتوں کو قید کر لیتے ہیں اور ان کی عزتوں کو حلال کرلیتے ہیں اور ان سنی گھروں سے جو کچھ لوٹ سکتے ہیں لوٹ لیتے ہیں۔ پس ان رافضی ملیشیاؤں نے وہاں بہت سے جرائم و فساد کا ارتکاب کیا ہے کبھی انفرادی، کبھی امریکیوں کی مدد کے ساتھ اور کبھی امریکیوں کے ابھارنے پر۔پچھلے چند سال میں ہونے والے واقعات اس بات پر کافی گواہ ہیں۔

سینکڑوں کی تعداد میں ڈاکٹرز، انجیئرز، پروفیسر اور اعلیٰ ڈگریوں کے حامل افراد کو قتل کردیا گیا۔ جبکہ وہ لوگ جن میں مساجد کے خطباء و علماء اور عامۃ الناس شامل ہیں ان کا تو ذکر ہی نہ کریں۔وہ افراد جیلوں میں پڑے ہیں جو ''دیوان الوقف السنی''سے تعلق رکھتے تھے۔ کتنے ہی مدارس، مساجد ہیں جنہیں ڈھا دیا گیا ہے۔ سینکڑوں مساجد ومدارس ہیں جنہیں ڈھایا گیا اور شدید نقصان پہنچایا گیا۔ بہت سی مساجد کو ''حسینیات''اور تعذیب کے مراکز میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ایسا کام وسطی اور جنوبی علاقوں میں بہت کیا گیا ہے۔

لیکن ان کی سرکشی مردوں تک نہیں رکی بلکہ عورتوں کو قید کرنے اور انہیں غصب کرنے کے قبیح افعال کیے گئے۔ حاملہ عورتیں قتل کر دی گئی ، دودھ پیتے بچے قتل کیے گئے... لیکن مسلمانوں کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی سوائے اس کے کہ جس پر اللہ نے رحم کیا ہو... انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔

(۱۰) پوری امتِ اسلامیہ ڈنمارک میں ہونے والی نبی کائنات ﷺکی توہین پر سیخ پاء ہوگئی جو اس کے غیرت مند ہونے کی دلیل ہے کہ وہ نبی ﷺکے ساتھ کس قدر محبت رکھتی ہے ۔ کیونکہ علماء اسلام، داعی حضرات نبیﷺ کے شرف و مقام کے لیے غیرت کھاتے ہیں جبکہ آپ کے شرف کو یہ لعنتی رافضی رسوا کرتے ہیں۔ نبیﷺ کی ازواج پر زبانِ طعن دراز کرتے ہیں اور آپ کے اصحاب کو گالی دیتے ہیں اور پھر اہلِ بیت کی محبت کا لباس پہن کر ایسا کرتے ہیں جبکہ اہلِ بیت ان سے بری ہیں۔

اللہ کی قسم کوئی بھی شخص جو ان بدعتی رافضیوں کے ساتھ تقرب اختیار کرتا ہے وہ ایسا شخص ہے کہ جس کا دل سخت ہوگیا ہے، اس کا چہرہ سیاہ ہوگیا ہے اور اس کی آنکھیں اندھی ہوگئیں ہیں۔

(۱۱) یہ سب سے پہلے رافضی ہی تھے جنہوں نے تکفیری منہج کی بنیاد رکھی جب انہوں نے ابتداء ہی سے نبیﷺ کے اجلہ صحابہ کرامؓ کو کافر قرار دے دیا... وہ صحابہؓ جنہوں نے دین کو ہم تک منتقل کیا اور اللہ تعالیٰ نے جن کے ذریعے اسلام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچادیا۔ لیکن ان کی تکفیر کا یہ خطرہ صرف نظریات میں ہی محصور نہ تھا بلکہ انہوں نے اسے عملی طور پر بھی اپنایا۔ پس وہی پہلے لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے آئمہ و خلفاء کو قتل کرنے کا طریقہ ایجاد کیا جیسے کہ انہوں نے امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ وارضاہ وغیرہ کے ساتھ کیا۔

ان کا یہ تکفیری عقیدہ اپنی حدوں سے نکل کر سارے اہل السنۃ کی تکفیر سے بھی گریز نہیں کرتا۔ جنہیں وہ عامۃ النواصب کا نام دیتے ہیں۔ان کے اہل السنۃ کے انکار کی اصل ان کے دین میں ہے اور وہ اصل ہے امامت اور عصمت یعنی معصومیت۔ ان دو چیزوں پر انہوں نے اپنے اہم ترین خبیث عقائد کی بنیاد رکھی ہے۔ اس معنی کو حقیقت میں تبدیل کرتی ہوئی انکی موجودہ عملی حالت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی انہیں غداری اور خیانت کے حالات میسر آئے تو انہوں نے اس منہج کی تطبیق کی اور اسی انحراف کی راہ چل دئیے۔

آج انہوں نے مباح کرلیا ہے ...جسے زبانِ سے ادا کرنے کی ضرورت نہیں جبکہ حال خود اسے بیان کرنے کے لیے کافی ہے... خون ، اموال اور اہل السنۃ کی عزتوں کو مباح کرلیا گیا ہے اور بعض اوقات انہوں نے اہل السنۃ کے بعض شرکیہ مقبروں کو ضرب لگانے کا بہانا بنا لیا ہے۔ جب یہ بات جاننا چاہیے کہ ان کے ان تمام سرخ منصوبوں کی پلاننگ تو ان کے بڑے امریکہ نے چند میل دور بیٹھ کر کی ہے۔ان کے بڑے تو ملک سے باہر بھی متوجہ نہیں ہوئے ۔ ان کے یہاں بسنے والے عوام اہل السنۃ کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ لیکن قابض قوتیں جنہوں نے جنابِ علیؓ کے مزعومہ روضہ پر حملہ کیا اور وہاں جیش المہدی کو ذلیل کر کے اسلحہ بھی چھین لیا اور ان کی مقدسات کی بے حرمتی کی اور پھر اسی سلسلہ میں ہادی اور عسکری کے مزاروں پر دھاوا بولا گیا۔ یہ سارا ڈرامہ اس لیے کیا گیا تاکہ اس کا وبال اہل السنۃ پر ڈالا جاسکے اور وہ اپنا حسد وکینہ ظاہر کرنے کا بہانہ تلاش کریں۔

جس بات سے حیرت اور حیرانگی اور بڑھتی ہے وہ یہ کہ یہ وحشی افعال پوری دنیا میں ان کا ہدف کوئی بھی یہودی یا صلیبی نہ تھا بلکہ اس کے برعکس یہ رافضی تو ان کے لیے بہترین مدد گار ثابت ہوئے تاکہ مسلمانوں اور اسلام کا خاتمہ کردیں۔ پس اس سے سارے لوگوں پر ظاہر ہوجانا چاہیے ان کایہ انقلابی شور محض ان شرکیہ مزاروں کی وجہ سے ہی تھا... یہ شرکیہ تحریک جسے ان کے مجوسی استادوں نے شروع کیا تھا ... یہ بہترین دلیل ہے اس بات کی کہ یہ اپنے آئمہ معصومین کی حرمتوں کو اللہ اور اسکے رسول ﷺ اور مسلمانوں کی حرمت پر مقدم رکھتے ہیں جب کافروں کی طرف سے زمین کے کونے کونے میں انکی پامالی کی جاتی ہے۔ انکی غیرت آج کافروں کی طرف سے نبی ﷺکے کارٹون شائع کرتے وقت نہ جاگی اور نہ ہی ان قابض فوجوں کے خلاف جاگی جنہوںاسلام اور اس کے عقیدہ کو تباہ کیا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ اپنے ائمہ کو کس قدر اللہ اور اس کے رسول ﷺپر فضیلت دیتے ہیں۔

اے اہل سنت... جاگ جاؤ... اٹھ کھڑے ہو... تیار ہو جاؤ... آستینوں کے اس رافضی سانپ کو نکالنے کے لیے جو تمہیں ڈنک مار رہاہے اور تمہیں عراق پر قبضے کے دن سے آج تک دردناک عذاب دے رہا ہے۔ چھوڑ دو یہ جھوٹے نعرے... ''گروہ بندی چھوڑنا'' اور ''وحدتِ وطن''... یہ ایسے نعرے ہیں جو آج تمہیں زیر کرنے اور تمہیں بزدلی پر آمادہ کرنے کے لیے بہانہ بنالیے گئے ہیں۔ جبکہ تم ہی ان لوگوں کا شکار بنتے ہو جو سب سے پہلے ان لوگوں میں شامل ہوئے جنہوں نے قابض فوج کی مدد کی اور ملک کے اموال لوٹنے اور اس کی املاک کو تباہ کرنے کی سعی کی۔

وہ اس پر ہی نہیں رکے بلکہ انہوں نے اپنے زہریلے منصوبوں کو جاری رکھا اور نیشنل گارڈ، اور پولیس کے یونیفارم پہنے پھر چڑھ آئے اور انہوں نے پھر کتنے ہی جرائم کا ارتکاب کیا... تمہاری صفوں میں فتنہ برپا کیا... مرد قتل کیے، عورتوں کی عصمت دریاں کی... کبھی غاصب قوت کی مدد سے اور کبھی اپنے سرکاری عہدوں کے بل بوتے پر... یہ سارے مناصب جنہیں انہوں نے ڈھال بنالیا ہے جس کے ذریعے وہ تمہیں درد ناک عذاب سے دوچار کرتے ہیں... تمہارے بیٹوں کو قتل اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے ہیں۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے مشترکہ خبیث منصوبے بنا رکھے ہیں اور اپنے کام کو تقسیم کرلیا ہے۔ پس سیستانی ایرانی غاصبوں کا واعظ کفر وزندقہ کا امام وہ اہل السنۃ پر بلوؤں کے فتوے داغتا ہے۔ اسی طرح حکیم، جعفری اور ان کے چیلے چانٹے بھیڑوں کی کھالیں پہنے ہوئے اور ظاہراً سیاسی عمل کا لباس پہنے ہوئے غاصب فوجوں کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ جب کہ ان کے یہ سارے کام علاقے میں فارسی رافضی ایرانی اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے ہیں۔

اس ڈھال کے پیچھے وہ پچھلے تین سالوں سے معاشرے کے مختلف طبقات کے خلاف نسل کشی کے منظم حملے کر رہے ہیں۔ قتل وغارتگری،داخلی جیل خانے ، حسینیات اور بعض جگہیں جہاں وہ اہل السنۃ کو درد ناک عذاب سے دوچار کرتے ہیں ان میں خاص طور پر البناء ۃ السنیۃ کا گروہ معاشرے میں ان کا خاص ہدف رہا ہے۔ جہاں تک ان کے مزعومہ ''جیش المہدی'' کا تعلق ہے تو اس کی بنیاد خاص طور اس لیے اٹھائی گئی کہ رافضی عقیدہ کا دفاع کیا جائے اور اہل السنۃ کے خاتمہ کے لیے کام کیا جائے۔ اس کو تیار کرنے کا مقصد تھا کہ ایک متبادل قوت تیار کی جائے تاکہ سیاست کے میدان میں رافضی عقیدہ غلبہ وتمکین حاصل کرے۔

جس بات سے ہمیں ان کے گہرے حسد و کینہ کی دلیل ملتی ہے وہ یہ ہے کہ مقتدیٰ الصدر ملعون نے کوفہ میں صلیبیوں کے داخلے کے بعد اپنے لشکر کی تشکیل دیتے ہوئے خطبہ کے دوران کہا ''یہ جیش ان لوگوں کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا ہے جنہوں نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے کنارہ کیا تھا''... اے میرے مجاہد بھائیو!... اس کلام پر غور کرو جو اس کے منہ سے نکلا ہے قبل اس کے ہمارے اور ان کے درمیان ناطہ ختم ہو۔

آج خبر آئی ہے جس سے ہر عقل مند کے لیے ان کی برائی ظاہر ہو گئی ہے ۔ ہر سننے والے اور دیکھنے والے کے لیے ان کی حقیقت واضح ہو گئی... جس سے شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی... کیونکہ یہ حسد وکینہ سے بھرے ہوئے لوگ کسی مومن کے معاملے کسی عہد ومیثاق کے پابند نہیں ...جو ان کے دلوں میں چھپا ہے وہ اس سے بڑھ کرہے... جب انہوں نے بغاوت و شقاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بوڑھوں، معصوم لوگوں اورعامۃ الناس کو قتل کیا۔ یہ سب کچھ ایک ایسی کارروائی میں کیا گیا جس کی منصوبہ بندی پچھلی راتوں میں کی گئی اور ایک تھوڑے سے وقت میں دو سو کے قریب مساجد پر حملہ کیا گیاہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بزدلانہ عمل پہلے سے طے شدہ تھا اورباقاعدہ مطالعہ کے بعد کیا گیا تھا۔ اللہ فرماتے ہیں:
{وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ}
اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ کی مساجد سے اور ان کے اندر ذکر اور ان کی خرابی کی سعی کرتا ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو مسجد میں نہیں داخل ہوتے مگر خوف کھائے ہوئے ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذابِ عظیم ہے۔

لیکن وہ کسی حد پر نہ رکے بلکہ انہوں نے ایسے افعال کیے جس سے تاریخ بھی شرما گئی ہے کہ انہوں نے ایسے کفریہ اعمال کیے ہیں اور ان کے ارتکاب کے ساتھ وہ اصلی کافروں سے بھی کئی ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔جب انہوں قرآنی مصحف پھاڑے اور آیات کو پھاڑ ڈالا اور اللہ کے گھروں میں اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا یہاں تک کہ انہوں نے ثابت کردیا کہ وہی اللہ کے اصل اور حقیقی دشمن ہیں ... اللہ انہیں قتل کرے یہ کہاں بھٹکے پھرتے ہیں۔

ہم اسے کہتے ہیں... تو نے حدود کو پھلانگ دیا ہے اور اہل السنۃ کی عزتوں پر حملہ کیا ہے پھر تو نے اس کے بعد بہتان باندھتے ہوئے... جھوٹ بولتے ہوئے اور ... حقیقت کو چھپاتے ہوئے بیان دیا کہ تو ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے اپنے پیرکاروں کو حکم دیا تھا کہ اہل السنۃ کی مساجد کی حفاظت کریں۔ چنانچہ ہم نے تیرے ساتھ لڑائی کے میدان میں داخل ہونا قبول کرلیا ہے اور تیرے چیلوں چانٹوں کے خلاف لڑائی کا ارادہ باندھ لیا ہے لیکن دو شرطوں کے ساتھ جس پر تجھے ضرور عمل کرنا ہو گا۔

٭ پہلی شرط یہ کہ تو اور تیریے چیلے مردوں کی طرح میدان میں اتر آؤ اور اپنا وہ اسلحہ جو تم نے صلیبیوں کو بیچ دیا ہے وہ بھی لے آؤ اس حالت میں کہ تم ذلیل تھے جبکہ اس نے تم سے اپنی شروط بھی منوائیں اور تمہارے گھر میں تمہیں ذلیل کیا اور اس کے فوجیوں کے لشکر نے تمہارے مزعومہ حیدری صحن کو پامال کیا۔

٭ دوسری شرط تیرے جیش سے ہمارے ساتھ لڑائی کے لیے صرف وہ نکلے جس کو اپنے اصلی باپ کا پتہ ہو۔



واللّٰہ غالب علی امرہ ولکن اکثر الناس لایعلمون
والحمد للّٰہ رب العلمین

جمادی الاولیٰ 1427 ہجری
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65

اہلِ علم و ایمان کا اجماع​
طہران کے مجوسی دین کا انکار​
امت کے فتاویٰ کا انحصار اہل السنۃ والجماعۃ پر ہے اور اہل الرأی والحدیث​
ہر دو گروہ رافضی مذہب کے رد پر متفق ہیں(ابوالمظفرالاسفرایینی)​
جمع واعداد​
فضیلۃ الشیخ صادق الکرخی (حفظہ اللہ تعالیٰ)​
شعبان 1427 ہجری​

 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65

مجمع الزوائد میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے باسنادٍ حسن مروی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نبیﷺکے پاس تھا اور علی رضی اللہ عنہ بھی آپ ﷺکے پاس تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا:​
{یاعلی سیکون فی امتی قوم ینتحلون حب اھل البیت، لھم نبذ، یسمون الرافضة، قاتلوھم فانھم المشرکون}
اے علی رضی اللہ عنہ!میری امت میں ایک ایسی قوم ہوگی جو اہلِ بیت سے نسبت کا دعویٰ کرے گی اور وہ علیحدہ ہوجائے گی ان کا نام رافضہ ہو گا، ان سے قتال کرنا کہ بے شک وہ مشرک ہیں۔​

 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65

انتساب​
''عمربریگیڈ''کے جری شیر جوانوں کے نام...رافضیوں میں جنابِ امیر المو منین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی سنت پر عمل کرنے والوں کے نام...جب انہوں نے فرمایا...​

انی اذا رأیت امراً منکرا​
اوقدت ناری ودعوت قنبرا​

میں جب کوئی منکر امر دیکھتا ہوں تو آگ جلا لیتا ہوں اور قَنْبَرْ کو بلا لیتا ہوں​

 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65

فہرست اقوال​
اسماء الفقھاء​

رافضہ کے بارے میں سلف صالحین کے اقوال
۱۔علقمہ کا قول
۲۔عامر الشعبی کا قول
۳۔طلحہ بن مصرف کا قول
۴۔قتادہ بن دعامہ کا قول
۵۔ابن شہاب الزہری کا قول
۶۔سفیان الثوری کا قول
۷۔رقبہ بن مصقلۃکا قول
۸۔عاصم الاحول کا قول
۹۔مسعر بن کدام کا قول
۱۰۔الاعمش کا قول
۱۱۔الاوزاعی کا قول
۱۲۔شریک بن عبد اللہ القاضی کا قول
۱۳۔عبد اللہ بن ادریس کا قول
۱۴۔ابی بکر بن عیاش کا قول
۱۵۔عبد الرحمن بن مہدی کا قول
۱۶۔سفیان بن عیینہ کا قول
۱۷۔عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی کا قول
۱۸۔محمد بن یوسف الفریابی کا قول
۱۹۔یحییٰ بن معین کا قول
۲۰۔ابی عبید القاسم بن سلام کا قول
۲۱۔أحمد بن یونس کا قول
۲۲۔بشر الحافے کا قول
۲۳۔اسحٰق بن راہویہ کا قول
۲۴۔محمد بن اسماعیل البخاری کا قول
۲۵۔ ابی زرعہ الرازی کا قول
۲۶۔ابی سعید عثمان بن سعید الدارمی کا قول
۲۷۔محمد بن الحسین الاٰجری کا قول
۲۸۔ ابوبکر بن ہانی کا قول
۲۹۔امیر المومنین علی بن ابی طالب کا قول
۳۰۔حسن بن علی بن ابی طالب کا قول
۳۱۔زین العابدین علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب کا قول
۳۲۔حسن بن الحسن بن علی بن ابی طالب کا قول
۳۳۔ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب
۳۴۔زید بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب کا قول
۳۵۔عبد اللہ بن حسن بن الحسن بن علی کا قول
۳۶۔جعفر الصادق بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب کا قول
۳۷۔عمر بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب کا قول
۳۸۔عبد اللہ بن الحسن بن حسین کا قول
۳۹۔عبد اللہ بن الحسین بن حسن کا قول
۴۰۔الحسن بن زید بن محمد کا قول
۴۱۔محمد بن زید بن محمد کا قول
حنابلہ کے رافضیوں کے بارے میں اقوال
۴۲۔امام احمد بن حنبلؒ کا قول
۴۳۔حرب بن اسماعیل الکرمانی کاقول
۴۴۔الحسن بن علی البر بہاری کا قول
۴۵۔ابی عبد اللہ ابن بطۃ کا قول
۴۶۔القاضی أبی یعلیٰ کا قول
۴۷۔ابن عقیل کا قول
۴۸۔أبی الفرج ابن الجوزی کا قول
۴۹۔ابی العباس ابن تیمیہ کا قول
۵۰۔ ابن القیم کا قول
۵۱۔ابن رجب کا قول
۵۲۔محمد بن عبد الوہاب کا قول
۵۳۔عبد الرحمن بن حسن کا قول
۵۴۔عبد اللطیف بن عبد الرحمن کا قول
مالکیہ کے رافضیوں کے بارے میں اقوال
۵۵۔امام مالک کا قول
۵۶۔عبد الملک بن حبیب کا قول
۵۷۔سحنون کا قول
۵۸۔القاضی عیاض کا قول
۵۹۔ابو ولید الباجی کا قول
۶۰۔القاضی ابوبکر ابن العربی کا قول
۶۱۔ابی العباس ابن الخطیئۃ کا قول
۶۲۔ابو عبد اللہ القرطبی کا قول
۶۳۔ابو عبداللہ الخرشی کا قول
۶۴۔علی الاجہوری کا قول
۶۵۔ابی العباس الصاوی کا قول
شافعیہ کے رافضیوں کے بارے میں اقوال
۶۶۔ امام الشافعی کا قول
۶۷۔ہبۃ اللہ اللالکائی کا قول
۶۸۔عبد القاہر بن طاہر البغدادی کا قول
۶۹۔خطیب البغدادی کا قول
۷۰۔ابو عثمان الصابونی کا قول
۷۱۔ ابو المظفر الاسفرایینی کا قول
۷۲۔ابوحامد الغزالی کاقول
۷۳۔فخر الدین الرازی کا قول
۷۴۔ابو عبد اللہ الذہبی کا قول
۷۵۔تقی الدین السبکی کا قول
۷۶۔ابن کثیر الدمشقی کا قول
۷۷۔ابو حامد محمد المقدسی کا قول
۷۸۔جلال الدین السیوطی کا قول
۷۹۔شہاب الدین الرملی کا قول
۸۰۔احمد بن حجر الہیتمی کا قول
۸۱۔ابی الثناء الآلوسی کا قول
احناف کے رافضیوں کے بارے میں اقوال
۸۲۔امام ابوحنیفہ کا قول
۸۳۔القاضی ابو یوسف کا قول
۸۴۔ابی جعفر الطحاوی کا قول
۸۵۔ابوبکر السرخسی کا قول
۸۶۔صدر الدین بن ابی العز کا قول
۸۷۔محمد انور شاہ بن معظم شاہ الکشمیری کا قول
۸۸۔ابن عابدین کا قول
۸۹۔نظام الدین الہندی کا قول
۹۰۔ شیخ زادہ کا قول
۹۱۔عبد العزیز بن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا قول
۹۲۔ابی المعالی الاٰلوسی کا قول۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
جب ہم شیعیت کا تذکرہ کرتے ہیں!
جب ہم شیعیت کی بات کرتے ہیں تو ہم بات کرتے ہیں اس شیعیت کی کہ جس نے اہل بیت کی محبت کا لبادہ اوڑھ کر صرف اسے ہی دینِ منزّل بنالیا۔

اس شیعیت کی جس نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ میں تفریق ڈال دی اور پھر آپ کے اصحاب میں تفریق کی اور انہیں دو قسموں میں تقسیم کر دیا۔ ایک قسم کو نعوذ باللہ کافر قرار دے دیا اور وہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں اور دوسری قسم کو اس قدر تقدیس دی کہ ان کی عبادت شروع کردی اور وہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم ہیں۔ پھر انہوں نے آپ کے اہلِ بیت میں تقسیم کی تو آپﷺکی ازواجِ مطہرات امہات المومنین کو اہل بیت سے خارج کر دیا۔پھر جو باقی بچے ان کو دو قسموں عباسی اور علویوں میں تقسیم کردیا۔ پھر جب عباسیوں کو انہوں نے کافر قرار دے دیا تو اب علویوں پر پر لوٹے اور انہیں فاطمی، حنفی، بدوی وغیرہ اقسام میں تقسیم کر دیا۔ لیکن انہوں نے یہاں تک ہی اکتفا نہ کیا اور اسکے بعد فاطمیوں کو حسنی اور حسینی میں تقسیم کر دیا۔ لیکن تقسیم کی لسٹیں بنانے کا یہ عمل بالکل نہ رکا یہاں تک کہ بنو ہاشم کو دین میں کھیل بنالیا گیا اور ایسا اسلام کے ساتھ ان کے اندرونی کینہ و بغض کا مظہر ہے۔ اس کے بعد انہوں نے سوائے نو افراد کے تمام حسینیوں کو کافر قرار دے دیاجن میں ایک موہوم و معدوم ہے۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ معاملہ یہیں پر رک گیا ۔قطعاً نہیں بلکہ ان کی زبانوں کا خنجر جنابِ محسنِ انسانیت کی تین پوتر و پاکباز بیٹیوں پر بھی چلا اور انہوں نے کہا کہ وہ آپ کی بیٹیاں ہی نہیں بلکہ آپ کی پہلی بیوی کی ربیبۃ تھی جنہیں نکال دیا گیا تھا (نعوذ باللہ) ۔پس اہلِ بیت میں سے باقی کیا رہ گیا۔

شیعیت سے ہماری مراد وہ شیعیت ہے جو نبی کائنات کی تمام احادیث کا رد کرتی ہے۔ اجمالاً وتفصیلاً!اس میں ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ ساری احادیث صحابہ کے طریق سے آئی ہیں اور وہ ان کے عرف میں نعوذ باللہ مرتد ہیں اور دین سے خارج ہیں۔ اس کے ساتھ وہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی آیات کی باطل جھوٹی اور بے بنیاد تأویلات کرتے ہیں اور اسے جھوٹ طور پر سیدنا جعفر بن محمد رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔یہ ہے شیعیت بناِ کتاب کے بنا سنت کے بنا اصحاب کے...!

وہ شیعت جو نبی کے جانثار صحابہؓ کی تکفیر کرتی ہے اور ان کے بارے میں بکواس کرتی ہے کہ وہ اہل ِطمع ہیں جن کا مقصد زن زر اور کرسی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ وہ شیعیت جو عربوں سے کراہت کرتی ہے اور ان کی طرف ہر عیب کو منسوب کرتی ہے اور وہ قوم جسے اللہ نے اپنے دین کے ابلاغ کے لیے اختیار کیا ان کی طرف اپنی نسبت کرنے سے کتراتی ہے۔

وہ شیعیت جو یہ کہتی ہے کہ عمر الفاروق جیسا بہادر آدمی جس نے کسریٰ کے تکبر کو توڑ ڈالا اور اس کی ناک کو خاک آلود کیا کہ وہ( اللہ کی پناہ) اور ان کی ماں صہصاۃ زانیہ عورت ہے اور یہ کہ علی نے آپ کی بیٹی کے ساتھ متعہ کے تحت زنا کیا اور اس کے ہاں رات بتائی۔ اسی لیے عمر نے انہیں محروم کر دیا۔ وہ شیعیت جو یہ کہتی ہے کہ نبیﷺکے خالو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فاتحِ عراق اور متکبروں کا غرور توڑنے والے وہ ''نغل بن سفاح''ہیں بلکہ سارے بنو زہرہ ہی ایسے ہیں۔ وہ شیعیت جو فاتحِ مصر و فلسطین عمر وبن العاص رضی اللہ عنہم کے بارے میں کہتی ہے وہ بھی زنا کی اولاد ہیں اور عبد اللہ بن زبیر ابن اسماء بنت ابی ابکر ذات النطاقین وبطلۃ الہجرۃ رضی اللہ عنہم،امیر المومنین و خلیفۃ المسلمین سب متعۃ کی اولاد ہیں۔

وہ شیعیت جو یہ کہتی ہے کہ صدیق و فاروق نبی ﷺکے دونوں خلیفہ منصب، خلافت کے غاصب ہیں اور علی رضی اللہ عنہ نے ان پر یہ احسان کیا کہ وہ ان کے اغتصاب پر خاموش رہے اور انہوں نے غیرت نہ کھائی۔ وہ شیعیت جو نبی کی بیویوں اور امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے بارے میں زبانِ طعن دراز کرتی ہے اور ان پر کفر وفحاشی کے بہتان باندھتی ہے۔ وہ شیعیت جو زنا کو متعہ کے پردے میں جائز قرار دیتی ہے۔

وہ شیعیت جو ہمارے علماء اور فقہائے عظام کا اعتراف بھی نہیں کرتی اور آئمہ اربعہ کی شان میں اور اکابر کی شان میں گستاخیاں کرتی ہے۔ وہ شیعیت جس کے پیروکار اپنی نسبت ایران کے ساتھ کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ روزے رکھتے اور عید کرتے ہیں اور اسی کے اوقات کی پابندی کرتے ہیں۔ وہ شیعیت جس کے ہاں کسی کا کوئی وزن نہیں جب تک کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کی محبت کے دعویٰ کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ سے دشمنی نہ کرے ۔ چاہے وہ سات آسمانوں کے رب کی قسم کھالے کہ وہ علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے لیکن وہ واجب القتل ہے جب وہ عمررضی اللہ عنہ سے محبت کرے ۔ اے سنی کیا تو عمررضی اللہ عنہ سے محبت نہیں کرتا؟!

وہ شیعیت جو اہلِ بیت کے نام پر درختوں، پتھروں، اور آگ کی تقدیس کرتی ہے۔ وہ شیعیت جس نے اولیاء کے درباروں اور ان پر لگنے والے میلوں کو لوگوں کے اموال بٹورنے کا بہانہ بنالیا اور لوگوں کو عبث میں مبتلا کیا اور ان کی عزتوں سے کھلواڑ کیا۔ وہ شیعیت جو جھوٹ کوو اجب قرار دیتی ہے اور نفاق و دھوکے کو ''تقیہ'' کے پردے میں جائز قرار دیتی ہے۔ کوئی شیعہ اپنی زبان سے کہے گا ہمارے درمیان کوئی فرق نہیں ہم تو مختلف فروع کے اور معمولی اختلاف ِمذاہب کے لوگ ہیں جبکہ اس کا دل آپ پر لعنت کی تسبیح کر رہا ہوگا اور ایسا بک بھی دے گا جب اسے فرصت ملے گی! وہ شیعیت جو ''قم''کی ناپاک وغلیظ زمین کو مسلمانوں کا مرکز گردانتی ہے اور اسے ''مقدس '' کا نام دیتی ہے اور کعبہ کی بے حرمتی کرتی ہے جو اس زمین کا سب سے پاک ترین علاقہ ہے۔

وہ شیعیت جو مساجد کو معطل کرتی ہے اور مزاروں اور درباروں کو آباد کرتی ہے اور وہاں عبادت اور ضرار کی مساجد تعمیر کرتی ہے اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی فصیل کو مزید وسیع کرتی ہے۔ ایسی ہی شیعیت کے بارے میں ہم بیان کرتے ہیں اور ایسی ہی شیعیت کی چیرہ دستوں کا آج ہم شکار ہیں۔
{شیخ المجاہد ابو أنس الشامی الشہید کے لیکچر بعنوان ''شبہ واباطیل''سے اقتباس}​
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
مقدمہ
بسم اللّٰہ الذی لہ الحکم والامر کلہ و الیہ المعاد۔ والحمد للّٰہ الذی قدر الافتراق لھذہ الامة فرقا فلا تقارب ولایکاد والصلاة والسلام علی من استثنی من ھذہ الفرق بالنجاة واحدة ومن عداھم وعاداھم یکاد ۔
امابعد...!!!

پچھلے کچھ عرصہ سے مسلمانوں کے درمیان رافضیوں اور مسلمانوں کے اتحاد و اقتراب کی دعوت بڑے زور شور سے دی جارہی ہے جبکہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ رافضیت کی دعوت غرق ہوچکی ہے اور اب دوبارہ یہ واپس نہ لوٹے گی۔

لیکن دجلہ وفرات کے ملک میں رافضیوںکا حقیقی چہرا عیاں ہو گیا جبکہ انہوں نے تقیہ کا لباس اتار پھینکا۔

''یہ بات جان لینی چاہیے کہ فقہاء نے ''الرافضہ''کی اصطلاح کیوں استعمال کی۔ اس لیے یہ نام صرف لغوی اور تاریخی اعتبار سے ہی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ان کے احکام اور معنیٰ کو سمجھنا بہت ضروری ہے جس بنا پر انہیں یہ نام دیا گیا امام الشافعی اس کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں ( جس نے یہ کہا کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما امام نہیں ہیں تو وہ رافضی ہے { السیر للذہبی فی ترجمہ}۔ امام احمد کہتے ہیں رافضی وہ ہیں جو نبیﷺکے اصحاب پر تبرا کرتے ہیں اور ان کو گالیاں دیتے ہیں اور ان کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں{السنۃ للخلال}۔ الخر شی کہتے ہیں یہ لقب ہر اس شخص کے لیے استعمال کیا گیا ہے جس نے دین میں غلو کیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں طعن کو جائز قرار دیا {شرح مختصر خلیل}۔

الکرمانی بیان کرتے ہیں اہلِ علم و اثر اور اہل السنۃ کا اجماع ہے کہ جس نے نبیﷺکے اصحاب کو گالی دی یا کسی ایک کو گالی دی یا ان کی شان میں گستاخی کی یا ان پر طعن کیا یا ان کی عیب جوئی کی یا کسی ایک میں عیب لگایا تو وہ ''رافضی''ہے۔

لیکن رافضیوں اور مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کی یہ دعوت آخر میں کانفرنسوں اور کتابوں کی شکل اختیار کرگئی جس میں اس دعوت کے تمام داعیوں نے ایک ہی کوشش کی کہ مسلمانوں اور رافضیوں کے دین میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ کہ جو کوئی ان دو گروہوں میں تفریق کی کوششیں کرتا ہے وہ مسلمانوں کی جماعت میں تفریق کرنے والا ''تکفیری''ہے...اور اس طرح بہت سے القاب جو اس دعوت کے داعی اپنے مخالفین کو دیتے ہیں۔

لیکن جو گروہ اس دعوت کے لیے سب سے زیادہ پیچ و تاب کھاتا ہے، وہ اسلام کی طرف منسوب ہے اور حقیقت میں''العلمانیہ'' کا گروہ ہے...میری مراد جماعۃ الاخوان ہے اپنی تمام مصری ،سعودی اور شامی شاخوں سمیت!

''اسلام کا مطلب ہے تمام تر امور میں کتاب و سنت کی نصوص کے آگے جھکنا یہ کہ آدمی اپنی ساری زندگی میں اس رستے پر چلے جو شارع نے اس کے لیے وضع کیا ہے اور یہ اعتقاد رکھے کہ ساری مصلحت شریعت میں ہی ہے۔ لیکن علمانیہ یہ ہے کہ دنیا کی زندگی کو دین اور نصوص سے علیحدہ کردیا جائے۔ پس اگر کہیں کوئی مصلحت دینی نص کے ساتھ متعارض ہوجائے تو مصلحت کو مقدم کردیا جائے۔ پس ہر وہ شخص جس کا منہج یہ ہے کہ وہ مصلحت کو نص ِ شرعی پر مقدم رکھتا ہے تو وہ ''علمانی''ہے چاہے وہ جو مرضی اسلامی نام رکھ لے کیونکہ اعتبارِ حقائق کا ہے نہ کہ ناموں کا''۔

عام لوگوں میں فریب کاری اور تلبیس سے کام لیتے ہوئے اس دعوت کے داعی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی یہی سوچ صحیح اسلامی فکر کی عکاس ہے جس پر کہ جمہور فقہاء گامزن تھے۔

پس انہی میں سے ایک ہے فیصل مولوی۔ وہ کہتا ہے کہ جمہور کے کبار علماء کا ماضی و حاضر میں اس بات پر اتفاق ہے کہ شیعہ اثنا عشریہ مسلمان ہیں اور اہلِ قبلہ میں سے ہے اور کسی بھی محقق عالم نے اس کا انکار نہیں کیا ۔

''اس کے رد میں شیخ ابنِ جبرینؒ کا فتویٰ ''حزب اللات'' کی مناصرت کے حکم میں موجود ہے''۔

ایک دوسرا اخوانی عالم اور وہ ہے یوسف القرضاوی۔ وہ کہتا ہے کہ مسلمانوں اور رافضیوں کے درمیان قربت کی دعوت کے مخالفین جو ان کی حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ یہ مخالف دعوت ہے ،خبیث دعوے ہیں جنہیں گمراہ لوگ اچھالتے ہیں اور گمراہ لوگ یہاں بھی ہیں اور وہاں بھی ہیں...جن کی اپنی اغراض ہیں اور وہ دھوکہ میں مبتلاء ہیں۔

'' یہ بیان بتاریخ جولائی 2006 میں اس ادارہ سے صادر ہوا جسے وہ ''الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین'' کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ یہ کوئی جدید بات نہیں ہے بلکہ الاخوان کے مئوسس حسن البناؒ خود کہتے ہیں '' یہ بات جان لو کہ اہل السنۃ اور شیعہ دونوں مسلمان ہیں اور انہیں کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ جمع کرتا ہے اور یہی عقیدہ کی اصل ہے اور اس میں اہلِ سنت اور شیعہ برابر ہیں ۔ یہ تو ملنے کی بات ہے اور جہاں تک اختلاف کی بات ہے تو وہ ایسے امور ہیں کہ جس میں تقریب ممکن ہے! ( بحوالہ ذکریات لا مذکرات للتلمسانی)''۔

اس رسالہ میں ہم مسلمان فقہاء کے موقف پر روشنی ڈالیں گے اور دیکھیں گے کہ حقیقت میں رافضیوں کے بارے میں ان کا کیا موقف ہے تاکہ ہم جان سکیں کہ قربت کی دعوت کو رواج دینے کی حقیقت کیا ہے!

اس رسالہ میں میں نے رافضیوں کے بارے میں نوے سے اوپر فقہاء کے اقوال نقل کیے ہیں جو مختلف اسلامی فقہی مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔

''میں نے اس کے ساتھ ان فقہاء کا مختصر تعارف بھی ذکر کردیا ہے تاکہ پڑھنے والا ان کی قدر و قیمت جان لے اور یہ بات بھی جان لے کہ ان کی مخالفت وہ لوگ کر رہے ہیں جواپنی نسبت علم کے ساتھ رکھتے ہیں۔ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ لوگ چھوٹے ہیں کہ ان فقہاء کے چھوٹے سے شاگرد کی طرح بھی نہیں بلکہ وہ تو ان کے حلقات میں بیٹھنے کے بھی اہل نہیں۔ یہ کہا گیا ہے کہ{ان ھذا العلم دین فانظروا عمن تأخذون دینکم} یہ علم دین ہے پس تم دیکھو کہ کس سے اسے حاصل کر رہے ہو''۔

اس کے ساتھ متعدد تاریخی وقائع کا ذکر بھی کیا ہے جو مسلمانوں کے موقف کو واضح کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں {وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا}اور جو کوئی رسول اکی راہ کو چھوڑتا ہے بعد اس کے اس کے سامنے ہدایت واضح ہوگئی اور غیرِ مومنین کی راہ چلتا ہے تو ہم اسے اسی راہ والا بنادیں گے اور جہنم میں پہنچادیں گے اور وہ کیا ہی برا ٹھکاناہے{النساء115 }۔

صادق الکُرخی(حفظہ اللہ تعالیٰ)
 
Top