اے اہل السنۃ اور رافضیت کے درمیان تقرب کی راہیں نکالنے والو...
تم کیسے اس بات کی دعوت دیتے ہو حالانکہ وہ واضح شرک پر ہیں اور کفرِ بواح پر ہیں اور ہمارے نبی ﷺ کی شان میں طعن کرتے ہیں اور ان صحابہ کرام کو گالیاں دیتے ہیں کہ نبی ﷺاس دنیا سے رخصت فرماتے وقت جن سے راضی تھے اور وہ آپ سے راضی تھے۔ اللہ کی قسم اگر ان میں کسی کی عزت کے بارے میں اور اسکی بیوی کے بارے میں طعن کیا جائے تو ساری دنیا اس کے لیے کھڑی ہوجاتی لیکن ایسے شخص کویہ کیوں گواراہے جب وہ دیکھتا ہے کہ یہ نبیﷺ کی ذات کے بارے میں اپنی خبیث زبانِ طعن دراز کررہے ہیں۔
اے اللہ! میں (الزرقاویؒ) گواہی دیتا ہوں کہ نبی ﷺ کی عزت ہمیں اپنی عزت سے زیادہ پیاری ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اماں عائشہ ؓکے سر کا ایک بال مجھے اپنے نفس اور اپنے اہل و عیال سے اور ساری انسانیت سے زیادہ محبوب ہے۔
پس ہم یہاں یہ کہنا بھی نہ بھولیں گے کہ رافضی جب بھی کافروں اور یہود و نصاریٰ کے خلاف موت کے نعرے لگاتے ہیں تو ہر دفعہ وہ ایسا اپنی تقیہ کے بد عقیدہ کے باعث کرتے ہیں اور وہ اسے دین کے ارکان میں سے ایک رکن شمار کرتے ہیں۔ پس جس قدر ان کے اس قسم کے شعارات اور نعرے زیادہ ہوں اسی قدر ان کا جھوٹ اور دعوے اس میں شامل ہوں گے۔
چاہے تو اس کے لیے موجودہ وقت میں ایرانی صدر احمدی نژاد کی بڑھک پڑھ لیں جوچیخ چیخ کے دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتا ہے کہ اسرائیل کو نقشے سے مٹا دینا بہت ضروری ہے... ہاں اللہ کی قسم صرف نقشے سے ہی مٹانا۔
(۶) رافضی دین ان تما م قواعد کے انہدام کے لیے آیا جو اسلام لے کر آیا۔ پس وہ دین کی عمارت کو گراتے ہیں اسکی تحریف کر کے... قرآن میں زیادتی ونقصان کا عقیدہ رکھ کے... صحیح احادیث کا انکار کر کے... صحابہ رضوان اللہ علیہم کی تکذیب اور ان پر زبانِ طعن دراز کر کے... اللہ کے دینِ حق میں تشکیک پیدا کر کے... بدعتوں اور باطل چیزوں کو فروغ دے کر... اور اللہ کے دین میں الحاد وزندقہ کو راہ دے کر۔ اسی طرح وہ نفس و اموال کو تباہ کرتے ہیں اور اہل السنۃ کا خون حلال قرار دیتے ہیں، ان کے اموال لوٹتے ہیں۔ اخلاق کو تباہ کرتے ہیں اور نسب کو مٹاتے ہیں۔ جب وہ متعہ کے جواز کی بات کرتے ہیں اور دبر سے مجامعت، شرمگاہوں کا مستعار دینا اور ہم جنسوں کے نکاح کرتے ہیں (اللہ کی پناہ)۔
انسانی عقل کو تباہ کرتے ہیں جب وہ ہیروئن، چرس اور نشہ آور اشیاء کو جائز ٹھہراتے ہیں۔ قدیم طور پر وہ انہی چیزوں کواپنے پیروکار فدائیوں کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ جدید طور پر ان کے سینہ کوبی کرنے والے انہیں استعمال کرتے ہیں۔ جب ان کے''آیۃ ''(شیعہ مذہب میں بڑے عالم کو آیۃ اللہ یعنی اللہ کی نشانی کہا جاتا ہے) عام لوگوں کی عقلوں پر ہنستے ہیں اور اہلِ بیت کے ساتھ ان کی نسبت کا مذاق اڑاتے ہیں۔پھر ایسوں کے معصوم ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور اس کے بعد وہ اپنی شخصی خواہشوں کے تابع گمراہیوں کو پھیلاتے ہیں۔
(۷) ہمارے نزدیک ایران کے صفوی رافضیوں اور عرب رافضیوں میں کوئی فرق نہیں جیسے کہ عراق ، لبنان ، شام کے رافضی۔رافضیوں کا دین ایک ہے ان کے اصول وفروع ایک ہیں اور ان کا مرکز ومرجع ایک ہے اور ان سب کی دشمنی اہل السنۃ کے خلاف ایک ہی ہے۔
(۸) رافضیوں اور یہودیوں کے اصول ایک جیسے ہیں اسی لیے رافضیوں کی تعلیمات یہودیوں کی تعلیمات سے بہت زیادہ تشابہ رکھتی ہیں... ان کے اجتماعات اور خفیہ کانفرنسوں کی طرح... ان کا تقیہ استعمال کرنا... اس بات کا اظہار مسلمانوں کے لیے جو وہ باطنی طور پر نہیں چاہتے... یہ سب کچھ ان کے یہودی بھائیوں کے مماثل ہے۔ یہودیوں کے پروٹوکول اور تلمود کا مطالعہ کرنے والا یہ جلد ہی پتا چلا لیتا ہے کہ یہودیوں کی غیریہودیوں کے بارے میں وہی تعلیمات ہیں جو ان آیۃ ، سیدوں رافضیوں کے فتاویٰ میں موجود ہیں۔
یہودیوں کی تعلیمات یہ ہیں کہ وہ یہودی کے ساتھ سودی لین دین کرنے اور اس کے ساتھ دھوکہ دہی کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور اسے غیر یہودی کیساتھ جائز قرار دیتے ہیں۔رافضیوں کا دین بھی ایسے ہی ہے کہ وہ آپس میں سود اور دھوکہ دہی کو حرام قرار دیتے ہیں اور ایک دوسرے کا مال حرام سمجھتے ہیں لیکن اہل السنۃ کے اموال کو لوٹتے اور اسے حلال قرار دیتے ہیں۔ یہودیوں کی تعلیمات یہ ہیں کہ یہودی پر یہ حرام ہے کہ وہ غیر یہودی کی مدد کرے یا اسے کہیں غرق ہوتے ہوئے بچائے بلکہ اگر کوئی دیوار کسی غیر یہودی پر گرا چاہتی ہے تو یہودی پر واجب ہے کہ اسے اس پر گرادے۔ اسی طرح یہ رافضی اپنے عوام کو ایسے فتوے دیتے ہیں۔
پس کتاب ''الانوار النعمانیہ'' میں ان کا عالم ''نعمۃ اللہ الجزائری''اور کتاب ''نصب النواصب'' میں محسن المعلم کہتا ہے'' روایات میں آتا ہے کہ علی بن یقطین جو ہارون الرشید کا وزیر تھا۔ وہ مخالفین کی ایک جماعت کے ساتھ جیل میں اکٹھا ہو گیا۔ جبکہ وہ شیعہ کے خواص میں سے تھا ۔اس نے اپنے لڑکوں سے کہا تو انہوں نے جیل کی چھت کو قیدیوں کے اوپر گرادیاجس سے وہ سب مر گئے جبکہ وہ پانچ سو کے قریب لوگ تھے۔ پھر انہوں نے ان کے خون سے برأت چاہی تو الکاظم کی طرف فتویٰ طلب کیا تو جناب ''علیہ السلام'' نے لکھا کہ وہ انہیں قتل کرنے نہ آیا تھا تو اسے بری قرار دے دیا!
پس یہ معاملہ ہمارے زمانے میں بھی چل رہا ہے چنانچہ تلعفر کے علاقہ میں ایک ڈاکٹر ہے جسے عباس قلندر کہا جاتا ہے جو ان کی رافضی انقلابی مجلسِ اعلیٰ کے تابع ہے جس کا سربراہ عبد العزیز الحکیم ہے۔یہ ڈاکٹر تلعفر میں لوگوں کا علاج کرتا ہے اس کے پاس ایک بچہ لایا گیا تو اس نے اسے ایسی دوا دی جو مرض میں اور اضافہ کردیتی تھی اور اس کا سبب بہت چھوٹا ساتھا اور وہ یہ کہ بچے کا نام تھا ''عمر''!
اسی طرح بعقوبہ میں مرکز محافظہ ''دیالی''میں ایک ڈاکٹر تھا اس نے اعلان کر رکھا تھا کہ کوئی ایسا مریض جس کانام عمر ہے اور کوئی ایسی مریضہ جس کا نام عائشہ ہے وہ اس کا علاج نہیں کرے گا۔ اللہ کے فضل سے مجاہدین نے اس خبیث رافضی کو اس کے کلینک میں ہی قتل کرنے کی کوشش کی جب انہوں نے اس پر فائر کیا تو اسے گردن میں بہت شدید چوٹیں آئی اور وہ ایران بھاگ گیا۔
(۹) غداری اور خیانت اور سیاسی جرائم اور لوگوں کو قتل کرنے کے میدان میں رافضیوں کے جرائم انفرادی یا کسی غنڈہ گردی کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ وہ جرائم ہیں جن کی منصوبہ بندی اور حکم ان کے علماء و روساء کی طرف سے آتاہے۔یہ سارے افعال عقیدہ و سیاست کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں اور یہ سارے اعمال عسکری طور پر منظم ہوتے ہیں۔ جبکہ ایسے گروہوں کے افراد رافضیوں کے ہاں بہت معزز اور رافضی بازو کہلاتے ہیں! کیسے نہ ہوں کہ ان کی دعوت ، ان کی حکومت اور ان کا حکم انہی کے بل بوتے پر چل رہا ہے۔
اس لیے ان گروہوں کے افراد ... قاتلوں کے گروہیں... جو مکمل تربیت یافتہ ہیں اور ان کے اوپر بہت سے بھاری اموال خرچ کیے جاتے ہیں اور وہ اس بات کے حریص کہ انکی ثقافت غالب رہے اور ان کے ہاں متعدد زبانوں کی معرفت رہے۔ ان کے وظائف اور تنخواہیں بہت اعلیٰ ہیں۔ یہ سب کچھ انہیں دین کے نام پر دی جانے والی تاثیر اور ضلالت کے علاوہ جس کے بل بوتے پر وہ ان جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں حتیٰ کہ انہیں حشیش اور نشہ کروایا جاتا ہے جیسے کہ ان آباء میں قرامطہ کے فدائی اور اسماعیلی کیا کرتے تھے۔ جدید دور میں اس قسم کے متعدد گروہ موجود ہیں جو اپنی نسبت اور تعلق خفیہ طو ر پر ایک ہی مرکز کے ساتھ رکھتے ہیں۔ خبردار وہ ہر علاقہ میں ان کے نواب و امام کا مرکز ہے ۔
انہیں میں سے ایک ''ایرانی انقلابی گارڈز''کے لوگ،التعبئۃ عامہ بالباسیج، مسلحہ تحریکیں ''حرکۃ الامل''اور قاتلوں کے گروہ ''حزب اللہ''وغیرہ ہیں ۔ حتیٰ کہ قتل وغارتگری کے یہ جرائم اور ان کا ارتکاب سب ان کے اہل السنۃ کے قتل کے فتاویٰ اور تحریض کی طرف لوٹتے ہیں جب وہ انہیں مستباح الدم والمال قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ دو کتابوں ''وسائل الشیعہ''اور ''بحار الانوار''میں داؤد بن فرقد سے روایت ہے:
قلت لابی عبد اللّٰہ علیہ السلام ما تقول فی قتل الناصب ؟ فقال حلال الدم ولکن اتقی علیک فان قدرت ان تقلب علیہ الحائط او تغرقہ فی ماء لکی لا یشھد علیک فافعل ۔
کہ میں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے پوچھا کہ ناصبی (سنی) کو قتل کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟تو انہوں نے فرمایا اس کا خون حلال ہے لیکن مجھے تجھ پر ڈر ہے اس لیے اگر تیرے لیے ممکن ہو تو اس سنی پر کوئی دیوار گرادے یا اسطرح پانی میں اسے غرق کردے کہ کوئی تجھے دیکھ نہ لے تو ایسا ہی کر۔
اس پر ''امام خمینی خنزیر'' تعلیق لگاتے ہوئے کہتا ہے '' پس اگر تجھے استطاعت ہو کہ تو اس کا مال بھی لوٹ لے تو اس کا خمس یعنی پانچواں حصہ ہمیں بھیج دے''۔
کتاب ''للہ ثم للتاریخ'' کا مصنف کہتا ہے'' جب ایران میں آلِ پہلوی کی حکومت ختم ہوئی اور اس کے فوراً بعد امام خمینی کا انقلاب آیا اور زمامِ اقتدار امام خمینی کے حوالے کردی گئی ۔ تو شیعہ علماء کو اس کی زیارت اور اس کی مبارکباد واجب قرار دے دی گئی اس فتح پر اور اس جدید دور میں دنیا کی پہلی شیعہ حکومت کے قیام پر جس پر فقہاء حکومت کرتے ہیں۔ مبارک و زیارت کا یہ عمل مجھ پر بھی بہت زیادہ واجب تھا کیونکہ میرا امام خمینی کے ساتھ بہت گہرا تعلق تھا۔ تو میں نے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد ایران کی زیارت کی ، بلکہ زیادہ مرتبہ کی جب امام طہران میں داخل ہوا اور اس سے قبل وہ پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہا تھا۔ اس نے مجھے بڑی گرمجوشی سے خوش آمدید کہا۔ میری یہ ملاقات عراق کے باقی علماء سے علیحدہ اکیلے میں تھی۔ جب ان کے ساتھ ایک خاص مجلس ہوئی تو مجھے کہنے لگا وقت آگیا کہ ہم ائمہ صلوات اللہ علیہم کی وصیتوں پر عمل پیرا ہوجائیں۔ ہم ناصبیوں ( سنیوں) کا خون بہائیں گے، ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیں گے اور کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے جو ہماری پکڑ سے بچ پائے گا اور ان کے اموال شیعہ اہلِ بیت کے لیے خاص ہوں گے۔ ہم زمین کے صفحہ پر سے مدینہ و مکہ کو مٹا دیں گے کیونکہ یہ دو شہر وہابیوں کی پناہ گاہیں بن گئے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اللہ کی مقدس زمین کربلا کولوگوں کا قبلہ بنادیا جائے۔ اس طرح ہم اپنے ائمہ علیہم السلام کے خوابوں کی تکمیل کریں گے۔ہماری حکومت قائم ہوگئی ہے جسکے لیے ہم نے طویل جہد کی ہے اور اب صرف اس کی تنفیذ باقی ہے۔ پس آج جب ہم اس بات کو موجودہ عراقی حالات پر مطبق کرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں ''فیلق الغدر''اورمزعومہ ''جیش المہدی''وغیرہ جماعتوں نے اس کام کو بہت بہتر طور پر سر انجام دیا ہے۔
وہ اہل السنۃ کے گھروں پر دھاوے بولتا ہے اوراس بہانے کے ساتھ کہ وہ مجاہدین کی تلاش کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر انہیں مجاہدین نہ بھی ملیں تو وہ وہاں مردوں کو قتل کردیتے ہیں اور عورتوں کو قید کر لیتے ہیں اور ان کی عزتوں کو حلال کرلیتے ہیں اور ان سنی گھروں سے جو کچھ لوٹ سکتے ہیں لوٹ لیتے ہیں۔ پس ان رافضی ملیشیاؤں نے وہاں بہت سے جرائم و فساد کا ارتکاب کیا ہے کبھی انفرادی، کبھی امریکیوں کی مدد کے ساتھ اور کبھی امریکیوں کے ابھارنے پر۔پچھلے چند سال میں ہونے والے واقعات اس بات پر کافی گواہ ہیں۔
سینکڑوں کی تعداد میں ڈاکٹرز، انجیئرز، پروفیسر اور اعلیٰ ڈگریوں کے حامل افراد کو قتل کردیا گیا۔ جبکہ وہ لوگ جن میں مساجد کے خطباء و علماء اور عامۃ الناس شامل ہیں ان کا تو ذکر ہی نہ کریں۔وہ افراد جیلوں میں پڑے ہیں جو ''دیوان الوقف السنی''سے تعلق رکھتے تھے۔ کتنے ہی مدارس، مساجد ہیں جنہیں ڈھا دیا گیا ہے۔ سینکڑوں مساجد ومدارس ہیں جنہیں ڈھایا گیا اور شدید نقصان پہنچایا گیا۔ بہت سی مساجد کو ''حسینیات''اور تعذیب کے مراکز میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ایسا کام وسطی اور جنوبی علاقوں میں بہت کیا گیا ہے۔
لیکن ان کی سرکشی مردوں تک نہیں رکی بلکہ عورتوں کو قید کرنے اور انہیں غصب کرنے کے قبیح افعال کیے گئے۔ حاملہ عورتیں قتل کر دی گئی ، دودھ پیتے بچے قتل کیے گئے... لیکن مسلمانوں کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی سوائے اس کے کہ جس پر اللہ نے رحم کیا ہو... انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
(۱۰) پوری امتِ اسلامیہ ڈنمارک میں ہونے والی نبی کائنات ﷺکی توہین پر سیخ پاء ہوگئی جو اس کے غیرت مند ہونے کی دلیل ہے کہ وہ نبی ﷺکے ساتھ کس قدر محبت رکھتی ہے ۔ کیونکہ علماء اسلام، داعی حضرات نبیﷺ کے شرف و مقام کے لیے غیرت کھاتے ہیں جبکہ آپ کے شرف کو یہ لعنتی رافضی رسوا کرتے ہیں۔ نبیﷺ کی ازواج پر زبانِ طعن دراز کرتے ہیں اور آپ کے اصحاب کو گالی دیتے ہیں اور پھر اہلِ بیت کی محبت کا لباس پہن کر ایسا کرتے ہیں جبکہ اہلِ بیت ان سے بری ہیں۔
اللہ کی قسم کوئی بھی شخص جو ان بدعتی رافضیوں کے ساتھ تقرب اختیار کرتا ہے وہ ایسا شخص ہے کہ جس کا دل سخت ہوگیا ہے، اس کا چہرہ سیاہ ہوگیا ہے اور اس کی آنکھیں اندھی ہوگئیں ہیں۔
(۱۱) یہ سب سے پہلے رافضی ہی تھے جنہوں نے تکفیری منہج کی بنیاد رکھی جب انہوں نے ابتداء ہی سے نبیﷺ کے اجلہ صحابہ کرامؓ کو کافر قرار دے دیا... وہ صحابہؓ جنہوں نے دین کو ہم تک منتقل کیا اور اللہ تعالیٰ نے جن کے ذریعے اسلام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچادیا۔ لیکن ان کی تکفیر کا یہ خطرہ صرف نظریات میں ہی محصور نہ تھا بلکہ انہوں نے اسے عملی طور پر بھی اپنایا۔ پس وہی پہلے لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے آئمہ و خلفاء کو قتل کرنے کا طریقہ ایجاد کیا جیسے کہ انہوں نے امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ وارضاہ وغیرہ کے ساتھ کیا۔
ان کا یہ تکفیری عقیدہ اپنی حدوں سے نکل کر سارے اہل السنۃ کی تکفیر سے بھی گریز نہیں کرتا۔ جنہیں وہ عامۃ النواصب کا نام دیتے ہیں۔ان کے اہل السنۃ کے انکار کی اصل ان کے دین میں ہے اور وہ اصل ہے امامت اور عصمت یعنی معصومیت۔ ان دو چیزوں پر انہوں نے اپنے اہم ترین خبیث عقائد کی بنیاد رکھی ہے۔ اس معنی کو حقیقت میں تبدیل کرتی ہوئی انکی موجودہ عملی حالت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی انہیں غداری اور خیانت کے حالات میسر آئے تو انہوں نے اس منہج کی تطبیق کی اور اسی انحراف کی راہ چل دئیے۔
آج انہوں نے مباح کرلیا ہے ...جسے زبانِ سے ادا کرنے کی ضرورت نہیں جبکہ حال خود اسے بیان کرنے کے لیے کافی ہے... خون ، اموال اور اہل السنۃ کی عزتوں کو مباح کرلیا گیا ہے اور بعض اوقات انہوں نے اہل السنۃ کے بعض شرکیہ مقبروں کو ضرب لگانے کا بہانا بنا لیا ہے۔ جب یہ بات جاننا چاہیے کہ ان کے ان تمام سرخ منصوبوں کی پلاننگ تو ان کے بڑے امریکہ نے چند میل دور بیٹھ کر کی ہے۔ان کے بڑے تو ملک سے باہر بھی متوجہ نہیں ہوئے ۔ ان کے یہاں بسنے والے عوام اہل السنۃ کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ لیکن قابض قوتیں جنہوں نے جنابِ علیؓ کے مزعومہ روضہ پر حملہ کیا اور وہاں جیش المہدی کو ذلیل کر کے اسلحہ بھی چھین لیا اور ان کی مقدسات کی بے حرمتی کی اور پھر اسی سلسلہ میں ہادی اور عسکری کے مزاروں پر دھاوا بولا گیا۔ یہ سارا ڈرامہ اس لیے کیا گیا تاکہ اس کا وبال اہل السنۃ پر ڈالا جاسکے اور وہ اپنا حسد وکینہ ظاہر کرنے کا بہانہ تلاش کریں۔
جس بات سے حیرت اور حیرانگی اور بڑھتی ہے وہ یہ کہ یہ وحشی افعال پوری دنیا میں ان کا ہدف کوئی بھی یہودی یا صلیبی نہ تھا بلکہ اس کے برعکس یہ رافضی تو ان کے لیے بہترین مدد گار ثابت ہوئے تاکہ مسلمانوں اور اسلام کا خاتمہ کردیں۔ پس اس سے سارے لوگوں پر ظاہر ہوجانا چاہیے ان کایہ انقلابی شور محض ان شرکیہ مزاروں کی وجہ سے ہی تھا... یہ شرکیہ تحریک جسے ان کے مجوسی استادوں نے شروع کیا تھا ... یہ بہترین دلیل ہے اس بات کی کہ یہ اپنے آئمہ معصومین کی حرمتوں کو اللہ اور اسکے رسول ﷺ اور مسلمانوں کی حرمت پر مقدم رکھتے ہیں جب کافروں کی طرف سے زمین کے کونے کونے میں انکی پامالی کی جاتی ہے۔ انکی غیرت آج کافروں کی طرف سے نبی ﷺکے کارٹون شائع کرتے وقت نہ جاگی اور نہ ہی ان قابض فوجوں کے خلاف جاگی جنہوںاسلام اور اس کے عقیدہ کو تباہ کیا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ اپنے ائمہ کو کس قدر اللہ اور اس کے رسول ﷺپر فضیلت دیتے ہیں۔
اے اہل سنت... جاگ جاؤ... اٹھ کھڑے ہو... تیار ہو جاؤ... آستینوں کے اس رافضی سانپ کو نکالنے کے لیے جو تمہیں ڈنک مار رہاہے اور تمہیں عراق پر قبضے کے دن سے آج تک دردناک عذاب دے رہا ہے۔ چھوڑ دو یہ جھوٹے نعرے... ''گروہ بندی چھوڑنا'' اور ''وحدتِ وطن''... یہ ایسے نعرے ہیں جو آج تمہیں زیر کرنے اور تمہیں بزدلی پر آمادہ کرنے کے لیے بہانہ بنالیے گئے ہیں۔ جبکہ تم ہی ان لوگوں کا شکار بنتے ہو جو سب سے پہلے ان لوگوں میں شامل ہوئے جنہوں نے قابض فوج کی مدد کی اور ملک کے اموال لوٹنے اور اس کی املاک کو تباہ کرنے کی سعی کی۔
وہ اس پر ہی نہیں رکے بلکہ انہوں نے اپنے زہریلے منصوبوں کو جاری رکھا اور نیشنل گارڈ، اور پولیس کے یونیفارم پہنے پھر چڑھ آئے اور انہوں نے پھر کتنے ہی جرائم کا ارتکاب کیا... تمہاری صفوں میں فتنہ برپا کیا... مرد قتل کیے، عورتوں کی عصمت دریاں کی... کبھی غاصب قوت کی مدد سے اور کبھی اپنے سرکاری عہدوں کے بل بوتے پر... یہ سارے مناصب جنہیں انہوں نے ڈھال بنالیا ہے جس کے ذریعے وہ تمہیں درد ناک عذاب سے دوچار کرتے ہیں... تمہارے بیٹوں کو قتل اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے ہیں۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے مشترکہ خبیث منصوبے بنا رکھے ہیں اور اپنے کام کو تقسیم کرلیا ہے۔ پس سیستانی ایرانی غاصبوں کا واعظ کفر وزندقہ کا امام وہ اہل السنۃ پر بلوؤں کے فتوے داغتا ہے۔ اسی طرح حکیم، جعفری اور ان کے چیلے چانٹے بھیڑوں کی کھالیں پہنے ہوئے اور ظاہراً سیاسی عمل کا لباس پہنے ہوئے غاصب فوجوں کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ جب کہ ان کے یہ سارے کام علاقے میں فارسی رافضی ایرانی اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے ہیں۔
اس ڈھال کے پیچھے وہ پچھلے تین سالوں سے معاشرے کے مختلف طبقات کے خلاف نسل کشی کے منظم حملے کر رہے ہیں۔ قتل وغارتگری،داخلی جیل خانے ، حسینیات اور بعض جگہیں جہاں وہ اہل السنۃ کو درد ناک عذاب سے دوچار کرتے ہیں ان میں خاص طور پر البناء ۃ السنیۃ کا گروہ معاشرے میں ان کا خاص ہدف رہا ہے۔ جہاں تک ان کے مزعومہ ''جیش المہدی'' کا تعلق ہے تو اس کی بنیاد خاص طور اس لیے اٹھائی گئی کہ رافضی عقیدہ کا دفاع کیا جائے اور اہل السنۃ کے خاتمہ کے لیے کام کیا جائے۔ اس کو تیار کرنے کا مقصد تھا کہ ایک متبادل قوت تیار کی جائے تاکہ سیاست کے میدان میں رافضی عقیدہ غلبہ وتمکین حاصل کرے۔
جس بات سے ہمیں ان کے گہرے حسد و کینہ کی دلیل ملتی ہے وہ یہ ہے کہ مقتدیٰ الصدر ملعون نے کوفہ میں صلیبیوں کے داخلے کے بعد اپنے لشکر کی تشکیل دیتے ہوئے خطبہ کے دوران کہا ''یہ جیش ان لوگوں کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا ہے جنہوں نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے کنارہ کیا تھا''... اے میرے مجاہد بھائیو!... اس کلام پر غور کرو جو اس کے منہ سے نکلا ہے قبل اس کے ہمارے اور ان کے درمیان ناطہ ختم ہو۔
آج خبر آئی ہے جس سے ہر عقل مند کے لیے ان کی برائی ظاہر ہو گئی ہے ۔ ہر سننے والے اور دیکھنے والے کے لیے ان کی حقیقت واضح ہو گئی... جس سے شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی... کیونکہ یہ حسد وکینہ سے بھرے ہوئے لوگ کسی مومن کے معاملے کسی عہد ومیثاق کے پابند نہیں ...جو ان کے دلوں میں چھپا ہے وہ اس سے بڑھ کرہے... جب انہوں نے بغاوت و شقاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بوڑھوں، معصوم لوگوں اورعامۃ الناس کو قتل کیا۔ یہ سب کچھ ایک ایسی کارروائی میں کیا گیا جس کی منصوبہ بندی پچھلی راتوں میں کی گئی اور ایک تھوڑے سے وقت میں دو سو کے قریب مساجد پر حملہ کیا گیاہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بزدلانہ عمل پہلے سے طے شدہ تھا اورباقاعدہ مطالعہ کے بعد کیا گیا تھا۔ اللہ فرماتے ہیں:
{وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ}
اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ کی مساجد سے اور ان کے اندر ذکر اور ان کی خرابی کی سعی کرتا ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو مسجد میں نہیں داخل ہوتے مگر خوف کھائے ہوئے ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذابِ عظیم ہے۔
لیکن وہ کسی حد پر نہ رکے بلکہ انہوں نے ایسے افعال کیے جس سے تاریخ بھی شرما گئی ہے کہ انہوں نے ایسے کفریہ اعمال کیے ہیں اور ان کے ارتکاب کے ساتھ وہ اصلی کافروں سے بھی کئی ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔جب انہوں قرآنی مصحف پھاڑے اور آیات کو پھاڑ ڈالا اور اللہ کے گھروں میں اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا یہاں تک کہ انہوں نے ثابت کردیا کہ وہی اللہ کے اصل اور حقیقی دشمن ہیں ... اللہ انہیں قتل کرے یہ کہاں بھٹکے پھرتے ہیں۔
ہم اسے کہتے ہیں... تو نے حدود کو پھلانگ دیا ہے اور اہل السنۃ کی عزتوں پر حملہ کیا ہے پھر تو نے اس کے بعد بہتان باندھتے ہوئے... جھوٹ بولتے ہوئے اور ... حقیقت کو چھپاتے ہوئے بیان دیا کہ تو ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے اپنے پیرکاروں کو حکم دیا تھا کہ اہل السنۃ کی مساجد کی حفاظت کریں۔ چنانچہ ہم نے تیرے ساتھ لڑائی کے میدان میں داخل ہونا قبول کرلیا ہے اور تیرے چیلوں چانٹوں کے خلاف لڑائی کا ارادہ باندھ لیا ہے لیکن دو شرطوں کے ساتھ جس پر تجھے ضرور عمل کرنا ہو گا۔
٭ پہلی شرط یہ کہ تو اور تیریے چیلے مردوں کی طرح میدان میں اتر آؤ اور اپنا وہ اسلحہ جو تم نے صلیبیوں کو بیچ دیا ہے وہ بھی لے آؤ اس حالت میں کہ تم ذلیل تھے جبکہ اس نے تم سے اپنی شروط بھی منوائیں اور تمہارے گھر میں تمہیں ذلیل کیا اور اس کے فوجیوں کے لشکر نے تمہارے مزعومہ حیدری صحن کو پامال کیا۔
٭ دوسری شرط تیرے جیش سے ہمارے ساتھ لڑائی کے لیے صرف وہ نکلے جس کو اپنے اصلی باپ کا پتہ ہو۔
واللّٰہ غالب علی امرہ ولکن اکثر الناس لایعلمون
والحمد للّٰہ رب العلمین
جمادی الاولیٰ 1427 ہجری