سلف کے رافضہ کے بارے میں اقوال
(۱)علقمہ(۸۳) کہتے ہیں شیعہ نے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس قدر مبالغہ آمیزی کی جیسے کہ عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بارے میں کی (۸۴)۔
(۲)عامر الشعبی(۸۵) کہتے ہیں میں تمہیں ان گمراہ خواہش پرستوں سے ڈراتا ہوں اور ان میں شریر ترین رافضہ ہیں۔یہ لوگ اسلام میں کسی رغبت و خوف کی بنا پر داخل نہیں ہوئے بلکہ یہ اسلام میں بغض و عداوت کے لیے داخل ہوئے۔ انہیں علی رضی اللہ عنہ نے آگ میں جلایا اور انہیں ملک بدر کیا۔ نکالے جانے والوں میں سے ایک عبد اللہ بن سبا یہودی تھا ۔ یہ یمن کے شہر صنعاء کے یہودیوں میں سے تھا اسے ساباط کی طرف ملک بدر کیا گیا۔ یہودی کہتے تھے کہ حکومت صرف آلِ داؤد کے لیے ہے جبکہ رافضی کہتے ہیں کہ امامت صرف اولادِ علی رضی اللہ عنہ کے لیے ہے۔ یہودی کہتے ہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ جائز نہیں جب تلک کہ دجال کا خروج نہ ہوجائے اور آسمان سے ایک تلوار نازل نہ ہوجائے اور رافضی کہتے ہیں جہاد اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ مہدی ظاہر نہ ہو اور ایک منادی آسمان سے ندا نہ دے۔ یہودی نماز کو ستاروں کے آپس میں گڈ مد ہوجانے تک مئوخر کردیتے تھے اسی طرح رافضی بھی مغرب کو اسی وقت تک اٹھا رکھتے ہیں۔ یہودی قبلہ سے ہٹ کے کھڑا ہوتے ہیں اور رافضہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ یہودی نماز کے دوران ندا دیتے ہیں اور رافضہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ یہودی نماز میں اپنے کپڑے لٹکالیتے ہیں اور رافضی بھی ایسا ہی کرتے ہیں یہودی اپنی عورتوں کی عدت شمار نہیں کرتے اور رافضہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ یہودیوں نے تورات کی تحریف کی اسی طرح رافضیوں نے قرآن میں تحریف کی (لیکن وہ اللہ کے فضل سے محفوظ ہے)۔
یہودی کہتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے ہم پر پچاس نمازیں فرض کی اور رافضہ بھی یہی کہتے ہیں یہودی مومنوں پر سلام نہیں کہتے بلکہ کہتے ہیں السَّام علیکم اور سام کا معنیٰ موت ہے اور رافضہ کا بھی یہی وطیرہ ہے۔ یہودی ، الجری، مرماہی اور خرگوش نہیں کھاتے اور رافضی بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ یہودی موزوں پر مسح کے قائل نہیں اور رافضی بھی ایسا ہی موقف رکھتے ہیں۔ یہودی لوگوں کے تمام اموال کو کھانا جائز سمجھتے ہیں اور رافضی بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ اللہ نے ان کے بارے میں ہمیں قرآن میں یہ خبر دی کہ انہوں نے کہا (لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ)ان پڑھوں پر ہمیں کوئی راہ نہیں(آل عمران 75) اسی طرح رافضہ کہتے ہیں۔ یہود نماز میں قرون پر سجدہ کرتے ہیں اسی طرح رافضہ بھی کرتے ہیں۔ یہودی نماز میں سجدہ نہیں کرتے یہاں تک کہ رکوع کی مانند متعدد بار جھک نہ لیں اسی طرح رافضہ بھی کرتے ہیں۔ یہودی جبرائیل علیہ السلام سے دشمنی رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فرشتوں میں وہ ہمارا دشمن ہے اسی طرح رافضہ بھی کہتے ہیں کہ جبریل غلطی سے محمدﷺکے پاس وحی لے گئے۔
اسی طرح رافضیوں نے عیسائیوں کے ساتھ بھی اتفاق کیا کہ عیسائی اپنی عورتوں کا مہر مقرر نہیں کرتے تھے اور کہتے کہ وہ محض ان کے ساتھ تمتع کرتے ہیں اسی طرح رافضی بھی متعہ کے ساتھ نکاح کرتے ہیں اور متعہ کو حلال جانتے ہیں۔ لیکن یہودیوں اور عیسائیوں پر رافضیوں کو دو ہاتھ زیادہ قباحت ملی دو خصلتوں کی بنا پر۔ یہود سے سوال کیا گیا کہ تمہاری ملت کے اہلِ خیر کون لوگ ہیں؟ کہنے لگے اصحابِ موسیٰ علیہ السلام اور عیسائیوں سے سوال کیا کہ تمہاری ملت کے اہلِ خیر کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے کہا عیسٰی کے حواری اور رافضیوں سے سوال کیا گیا کہ تمہاری ملت کے شریر ترین لوگ کون ہیں تو وہ کہنے لگے اصحابِ محمدﷺانہیں صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا تو انہوں نے انہیں گالیاں دیں...پس ان کے لیے تلوار قیامت تک کام کرتی رہے...ان کا کوئی علم قائم نہ ہو ...ان کے قدموں کو ثبات نہیں اور ان کا کلمہ مجتمع نہیں...اور ان کی دعا مستجاب نہیں...ان کی دعوت مسترد ہے...ان کی ہوا اکھڑی ہوئی ہے ... ان کی جمعیت منتشر ہے ..
.(كُلَّمَا أَوْقَدُواْ نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللّهُ) وہ جب بھی جنگ کے شعلے بھڑکاتے ہیں اللہ اسے بجھا دیتا ہے(۸۶)۔
(۲)طلحہ بن مصرف (۸۷) کہتے ہیں...الرافضہ؛ انکی عورتوں سے نکاح جائز نہیں اور نہ ان کا ذبیحہ کھایا جائے گا کیونکہ وہ مرتد ہیں(۸۸) اور انہوں نے کہا کہ اگر میں نے وضونہ کیا ہوا ہوتا تو میں تمہیں بتاتا کہ رافضہ کیا کہتے ہیں(۸۹)۔
(۴) قتادہ(۹۰) کہتے ہیں کہ سبائیت ایسی بدعت ہے جو نہ کتاب میں ہے نہ نبی ﷺکی سنت میں (۹۱)۔
(۵)ابنِ شہاب الزہری(۹۲)کہتے ہیں میں نے سبائیت سے بڑھ کر عیسائیوں کے مشابہہ کوئی جماعت نہیں دیکھی(۹۳)۔
(۶) سفیان الثوری (۹۴) ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو گالی دینے والے کے بارے میں کہتے ہیں اللہ العظیم کی قسم وہ کافر ہیں(۹۵)۔
رقبہ بن مصلقہ (۹۶) کہتے ہیں کہ رافضیوں نے تو بہتان کو اپنی حجت بنالیا ہے(۹۷)۔
(۸) عاصم الاحول(۹۸) کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے عثمان کو گالی دی تھی تو میں نے اسے دس کوڑے مارے تو اس نے پھر گالی دی تو میں نے دس اور مارے تو وہ گالی دیتا رہا یہاں تک کہ میں نے اسے ستر کوڑے مارے (۹۹)۔
(۹)مسعر بن کدام (۱۰۰)رافضہ کے ایک آدمی کو کہتے ہیں مجھ سے دور ہو جا کیونکہ تو شیطان ہے (۱۰۱)۔
(۱۰)الاعمش (۱۰۲) کہتے ہیں میں نے ایسے لوگ دیکھے جنہیں صرف جھوٹا کہا جاتا تھا(۱۰۳)۔
(۱۱)الاوزاعی(۱۰۴) کہتے ہیں کہ جس نے ابو بکر الصدیق کو گالی دی تو وہ دین سے مرتد ہوگیا اور اس کا خون مباح ہوگیا(۱۰۵)۔
(۱۲) شریک بن عبد اللہ القاضی (۱۰۶) کہتے ہیں تجھے اتنا ہی کافی ہے کہ رافضہ خبیث ہیں(۱۰۷) اور انہوں نے کہا ہر کسی سے علم حاصل کر سوائے رافضہ کے کیونکہ وہ حدیثیں گھڑتے ہیں اور اسے دین بنالیتے ہیں(۱۰۸) اور انہوں نے کہا چار بندوں کی گواہی مسترد ہے اور ان میں ایک ہے ایسا رافضی جو یہ گمان کرتا ہے کہ اس کا کوئی امام ہے جسکی اطاعت اس پر فرض ہے(۱۰۹)۔
عبد اللہ بن ادریس کہتے ہیں (۱۱۰)کہ کسی رافضی کو حق شفعہ دینا جائز نہیں سوائے مسلمان کے لیے(۱۱۱)۔
(۱۴) ابو بکر عیاش (۱۱۲)کہتے ہیں کہ سوال کیا گیا کہ میرا ایک رافضی پڑوسی ہے جو بیمار ہوگیا ہے کیا اسکی عیادت کروں تو کہا اس کی عیادت ایسے کر جیسے تو کسی یہودی یا عیسائی کی عیادت کرتا ہے اور اس میں اجر کی امید نہ رکھ(۱۱۳)۔
(۱۵)عبد الرحمن بن مہدی(۱۱۴) کہتے ہیں کہ وہ دونوں ایک ہیں جہمی اور رافضی...اور ان سے سوال کیا گیا کسی ایسے شخص کے جنازے میں حاضر ہونے کا جس نے نبی ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی دی ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر ایسا آدمی میری نسل سے ہوتا میں اسے اپنا وارث نہ بناتا(۱۱۶)۔
سفیان بن عیینہ(۱۱۸) نے ایک آدمی سے کہا کہ ہم نے پانچ طبقے ایسے پائے ہیں جنہوں نے کفر کیا ہے اور وہ ایمان نہیں لائے اور ان میں انہوں نے رافضہ کا ذکر کیا۔ سفیان نے اپنے اصحاب سے کہا کہ اسے لکھ لو...اسے لکھ لو(۱۱۹) اور پھر کہا کبھی کسی رافضی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا(۱۲۰،۱۲۱)۔
(۱۷) عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی(۱۲۲) کہتے ہیں رافضی کافر ہیں (۱۲۳)۔
(۱۸)محمد بن یوسف الفریابی (۱۲۴) کہتے ہیں کہ ان سے سوال کیا گیا اس شخص سے متعلق جو ابوبکر کو گالی دے کہا کافر ہے ۔ کہا اس کا جنازہ پڑھیں ؟کہا نہیں ۔ کہا اس کے ساتھ کیا کیا جائے؟ کہنے لگے لا الہ الا اللہ اسے اپنے ہاتھ سے چھوؤ بھی نہیں بلکہ ایک لکڑی لے کر اسے اٹھاؤ یہاں تک کہ اسے کسی گڑھے میں پھینک دو (۱۲۵) اور انہوں کہا میں رافضیوں اور جہمیوں کو زندیق دیکھتا ہوں(۱۲۶)۔
(۱۹) یحیٰ بن معین (۱۲۷) کہتے ہیں جس کسی نے عثمان رضی اللہ عنہ یا کسی ایک صحابی کو گالی دی وہ دجال ہے فاسق و ملعون ہے اس کی حدیث قبول نہ کی جائے اور اس پر اللہ کی تمام فرشتوں کی اور تمام انسانیت کی لعنت ہے(۱۲۸)۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی قدری کے پیچھے ،جبکہ وہ داعی ہو اور کسی رافضی کے پیچھے جو ابو بکر و عمر وعثمان رضی اللہ عنہم کو گالی دیتا ہو ، نماز نہیں پڑھتا(۱۲۹)۔
ابو عبید القاسم بن سلام (۱۳۰) کہتے ہیں میں لوگوں میں رہا اور میں نے اہل ِ کلام کے ساتھ گفتگو کی تو میں نے ان سب میں سب سے گندے اور غلیظ، سب سے کمزور دلیل کے مالک اور سب سے احمق رافضیوں سے بڑھ کر کسی کو بھی نہیں دیکھا۔ مجھے محاذ کے لوگوں کی قیادت سونپی گئی تو میں نے تین آدمیوں کو نکال باہر کیا جن میں دو رافضی اور ایک جہمی تھا اور میں نے انہیں کہا تمہارے جیسے لوگوں کا اہلِ ثغور (مجاہدین )میں کوئی کام نہیں اور میں نے انہیں نکال دیا(۱۳۱،۱۳۲)۔
احمد بن یونس(۱۳۳) کہتے ہیں کہ اگر ایک یہودی ایک بکری ذبح کرے اور ایک رافضی ایک بکری ذبح کرے تو میں یہودی کا ذبیحہ کھا لوں گا اور رافضی کا ذبیحہ نہ کھاؤں گا کیونکہ وہ اسلام سے مرتد ہے (۱۳۴)۔
(۲۲)بشر الحافی(۱۳۵) کہتے ہیں جس نے اصحابِ رسول اللہ ﷺ کو گالی دی وہ کافر ہے چاہے وہ روزے رکھے اور نمازیں پڑھے اور گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے (۱۳۶)۔
اسحاق بن راہویہ (۱۳۷) کہتے ہیں کہ جس نے اصحاب النبی ﷺ کو گالی دی اس کوسزا دی جائے اور اسے جیل میں ڈال دیا جائے۔
(۲۴)امام محمد بن اسماعیل البخاری (۱۳۹) کہتے ہیں میں اس میں فرق نہیں جانتا کہ کسی رافضی وجہمی کے پیچھے نماز پڑھوں یا کسی یہودی و عیسائی کے پیچھے۔ ان کو سلام بھی نہ کیا جائے نہ ان کی عیادت کی جائے، نہ ان کی عورتوں سے نکاح کیا جائے، نہ ان کی گواہی مقبول اور نہ ان کا ذبیحہ کھایا جائے(۱۴۰)۔
(۲۵)ابو زرعۃ الرازی کہتے ہیں کہ جب تو دیکھے کہ کوئی آدمی اصحابِ رسول اللہ ﷺ میں کسی کی تنقیص کرتا ہے تو جان لے کہ وہ زندیق ہے۔ اس لیے کہ ہمارے نزدیک رسول برحق ہیں، قرآن برحق ہے اور ہماری طرف یہ قرآن پہنچانے والے اور ان سنتوں کو پہنچانے والے اصحابِ رسول اللہ ﷺ ہی ہیں ۔ یہ لوگ ہمارے ان پاکباز گواہوں پر جرح کرنا چاہتے ہیں تاکہ قرآن و سنت کو باطل ٹھہرا دیں جبکہ جرح کے زیادہ لائق یہی زندیق ہیں(۱۴۱)۔
(۲۶)ابو سعید عثمان بن سعید الدارمی (۱۴۲)کہتے ہیں کہ ہم سے ابو الربیع الزاہرانی نے بیان کیا کہ ایک آدمی جو جہمیہ میں سے تھا اور اس کی آراء سے رافضیت کی بو آتی تھی تو ایک آدمی جو اس کا ساتھی تھا اور اس کے مذہب کو جانتا تھا کہنے لگا کہ میں جانتا ہوں کہ تم لوگ اسلام کو اپنا دین نہیں مانتے اور نہ اس کے عقیدہ کے حامل ہو تو پھر تم کس بات پر رافضی ہو اور حبِّ علی رضی اللہ عنہ کا دعویٰ کرتے ہو۔ تو وہ کہنے لگا کہ اگر میں تجھ سے سچ کہوں کہ اگر ہم اپنی رائے ظاہر کردیں جس کا ہم عقیدہ رکھتے ہیں تو ہمیں کافر و زندیق کہا جائے گا جبکہ ہم نے ایسی اقوام کو دیکھا ہے جو حبِّ علی رضی اللہ عنہ کا دعویٰ کرتی ہیں اور اسے ظاہر بھی کرتی ہیں پھر وہ جس رستے کو چاہتی ہیں اختیار کر لیتی ہیں اور وہ جو چاہتی ہیں عقیدہ رکھتی ہیں اور وہی کہتی ہیں جو چاہتی ہیں پس ان کی نسبت رفض اور تشیع کی طرف کردی گئی ہے۔اس لیے ہم اپنے مذہب میں نرم ترین گوشہ یہی دیکھتے ہیں کہ اس شخص سے محبت کا دعویٰ کیا جائے اور پھر جو ہماری مرضی ہو عقیدہ رکھیں، جو مرضی ہو کہیں اور جس چیز میں مرضی ہو داخل ہوجائیں ۔پس ہمیں شیعہ رافضہ کہا جائے تو یہ بات ہمیں اس سے زیادہ پسند ہے کہ ہمیں زنادقہ یا کفار کہا جائے...اس شخص نے اپنے بارے میں بہت درست تشبیہ بیان کی ہے حتیٰ کہ ان کے بعض بڑے بڑے عقلاء نے اس بات کو بیان کیا کہ وہ تشیع کے پردے میں پناہ لیتے ہیں اور اپنے کلام اور خطبوں میں اس کا سہار الیتے ہیں ۔ پھر اس تشیع کو غافل لوگوں کا شکار کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ پھر اپنے خطبوں کے دوران اپنے کفر و زندقہ کو بیان کرتے ہیں تاکہ جاہلوں کے دلوں میں یہ کفر گھر کر جائے۔ پس اگر اہلِ جہالت خود اس کے بارے میں مشکوک ہیں تو اہلِ علم کو یقین ہے...ولا حول ولا قوۃ الا باللہ(۱۴۳)۔
(۷۲)محمد بن حسین الآجری(۱۴۴) کہتے ہیں رافضہ لوگوں میں سب سے برے حال کے لوگ ہیں وہ جھوٹے اور جھگڑالو ہیں اور یہ کہ علی رضی اللہ عنہ اور آپ کی پاک اولاد رافضی کے ان دعووں سے بری ہیں اور اللہ الکریم نے بھی علی رضی اللہ عنہ اور آپ کی پاک اولاد کو رافضیت کے گند اور گندگی سے محفوظ رکھا(۱۴۵)۔
(۲۸) ابو بکر بن ہانی کہتے ہیں کہ رافضی اور قدریہ کا ذبیحہ نہ کھایا جائے جیسے کہ مرتد کا ذبیحہ نہیں کھایا جاتا جبکہ کتابی کا ذبیحہ کھایا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ مرتد کے قائمقام ہیں جبکہ اہلِ ذمہ تو اپنے دین پر قرار پکڑتے ہیں اور اس پر جزیہ دیتے ہیں (۱۴۶)۔
تراجم وحوالہ جات
(۸۶) منھاج السنة، فصل؛ مشابہة الرافضہ للیہود والنصاریٰ من وجوہ کثیرہ۔
(۸۷) امام الذہبی کہتے ہیں الامام، الحافظ المقری المجدد، شیخ الاسلام، ابو محمد الیامی الہمدانی الکوفی۔ انہوں نے انس بن مالک رحمہ اللہ سے اور عبد اللہ بن ابی اوفیصٰ سے حدیث بیان کی۔112 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۸۸)اسے روایت کیا ابنِ بطہ نے ''الشرح والابانہ'' میں
(۸۹) اسے روایت کیا اللالکائی نے شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ میں۔
(۹۰)الذہبی کہتے ہیں قتادہ بن دعامہ بن قتادہ... حافظ العصر، قدوۃ المفسرین والحدیث، ابو الخطاب السدوسی البصری۔ انہوں نے عبد اللہ بن سرجس اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت کی۔ وہ علم کی بلندیوں پر تھے اور قوت، حافظہ میں ان کی مثالیں بیان کی جاتی تھیں۔ ان سے بڑے بڑے ائمہ نے روایت کیا ہے۔ 60 ہجری میں پیدا ہوئے۔ ان کے بارے میں سفیان الثوری نے فرمایا وہ دنیا میں قتادہ کی مانند تھے۔117 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۹۱) تفسیر طبری قولہ تعالیٰ (هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ... الایة) آل عمران7 ۔
(۹۲)ابن ِ کثیر کہتے ہیں الزہری محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن شہاب...ابوبکر القرشی الزہری۔ ائمہ اعلام میں سے ہیں۔ جلیل القدر تابعی ہیں اور انہوں نے بہت سے تابعین سے سماع بھی کیا ہے۔58ہجری میں پیدا ہوئے۔ امیر المو منین عمر بن عبد العزیز نے فرمایا تم اس ابن شہاب کو لازم پکڑو کیونکہ تمہیں سنتِ ماضیہ کا اس سے بڑھ کر عالم نہیں ملے گا۔124 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۹۳)الآجری نے اسے کتاب الشریعہ میں روایت کیا۔
(۹۴)الذہبی کہتے ہیں وہ شیخ الاسلام ، امام الحفاظ، سید العلماء العالمین فی زمانہ، ابو عبد اللہ الثوری ، الکوفی المجتہد ہیں ان سے ایک جماعت نے چھ دیوان نقل کیے۔97 ہجری میں پیدا ہوئے۔ابنِ عیینہ کہتے ہیں میں نے حلال وحرام کا سفیان ثوری سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا۔
(۹۵)اسے امام الذہبی نے السیر میں ان کے ترجمہ میں ذکر کیا ہے۔
(۹۶)الذہبی کہتے ہیں الامام الثبت العالم ابو عبد اللہ العبدی الکوفی انہوں نے انس بن مالک، عطاء بن ابی رباح اور نافع ثسے حدیث بیان کی ہے۔العجلی کہتے ہیں وہ ثقہ تھے اور عرب کے رجالات میں شمار کیے جاتے تھے۔129 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۹۷) اسے ابنِ بطہ نے الشرح والابانہ میں روایت کیا۔
(ّ۹۸)الذہبی کہتے ہیں عاصم بن سلیمان الامام الحافط، محدث البصرۃ، ابو عبد الرحمن البصری، الاحول، محتسب المدائن۔ انہوں نے عبداللہ بن ابی سرجس اور انس بن مالک، معاذہ اور حفصہ بنت سیرین ، عبد اللہ بن شقیق العقیلی، ابو قلابہ، الشعبی، ابو العثمان النہدی، حسن، ابن سیرین سے روایت کی اور آپ معدود حفاظ میں سے تھے۔134 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۹۹) اللالکائی نے شرح اصول الاعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ مین بیان کیا۔
(۱۰۰) الذہبی کہتے ہیں امام الثبت، شیخ العراق، ابو سلمۃ الہلالی، الکوفی، الاحول، الحافظ، من اسنان شعبہ، ان سے سفیان بن عیینہ اور یحیٰ القطان نے روایت کی۔ یعلیٰ بن عبید کہتے ہیں کہ مسعر نے علم اور تقویٰ کو جمع کیا ہوا تھا۔155 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۰۱) اسے اللالکائی نے شرح اصول الاعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ میں روایت کیا۔
(۱۰۲)الذہبی کہتے ہیں سلیمان بن مہران الامام، شیخ الاسلام، شیخ المقرئین والمحدثین، ابو محمد الاسدی الکاہلی مولاہم، الکوفی، الحافظ ،ان کے اندر کچھ تشیع بھی تھا۔ 61 ہجری میں پید اہوئے۔ یحیٰ بن سعید بن القطان کہتے ہیں وہ اسلام کے علامہ تھے۔148 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۰۳) ابن تیمیہ نے المنہاج میں کہا کہ یہ آثار ثابت ہیں جنہیں ابو عبد اللہ بن بطہ نے ''الابانۃ الکبریٰ ''میں روایت کیا۔
(۱۰۴)الذہبی کہتے ہیں عبد الرحمن بن عمرو بن یحمد، شیخ الاسلام، اہلِ شام کے عالم، ابو عمرو الاوزاعی۔ وہ دمشق میں محلہ الاوزاع میں رہتے تھے پھر بیروت کی طرف محاذوں کی طرف منتقل ہوگئے اور اپنی موت تک وہیں رہے۔ ان کی ولادت صحابہ کے زمانہ میں ہوئی۔ وہ بہت خیر والے، کثیر علم والے حدیث و فقہ کے ماہر اورحجۃ تھے۔88ہجری میں پید اہوئے۔ امام مالک کہتے ہیں الاوزاعی امام ہیں جن کی اقتدا کی جاتی ہے۔157ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۰۵) اسے ا بن ِ بطہ نے ''الشرح والابانہ''میں روایت کیا۔
(۱۰۶) الذہبی کہتے ہیں؛شریک بن عبد اللہ العلامۃ الحافظ القاضی، ابو عبد اللہ النخعی، اعلام میں سے ایک ہیں اور ان کا شمار کبار فقہاء میں ہوتا ہے۔95 ہجری میں پیدا ہوئے اما م احمد بن حنبل ان کے بارے میں کہتے ہیں وہ عاقل، صدوق، اور محدث تھے اور اہل ریب و بدعت کے خلاف بہت شدید تھے۔178ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۰۷) اسے الاٰجری نے کتاب الشریعہ میں روایت کیا۔
(۱۰۸)ابنِ تیمیہ المنہاج میں کہتے ہیں یہ آثار ثابتہ ہیں جنہیں ابو عبد اللہ بن بطہ نے الابانۃ الکبریٰ میں روایت کیا۔
(۱۰۹) المغنی لابن ِ قدمہ؛مسئلہ یعتبر فی الشاہد سبعۃ شروط۔
(۱۱۰) ابن ابی حاتم کہتے ہیں عبد اللہ بن ادریس بن یزید الاودی الکوفی ابو محمد۔ انہوں نے اپنے والد، الشیبانی، مطروف، مالک بن انس سے روایت کی اور ان سے مالک بن انس نے روایت کی۔امام احمد کہتے ہیں کہ وہ اپنی مثال آپ تھے۔192 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۱۱) الصارم المسلول، فصل؛فاما من سب احداً من اصحاب رسول اللّٰہ ا من اھل ِ بیتہ وغیرھم ...
(۱۱۲)الذہبی کہتے ہیں ابو بکر بن عیاش ابن سالم الاسدی مولاہم، الکوفی المقری الفقیہ، المحدث، شیخ الاسلام و بقیۃ الاعلام... انہوں نے قرآن پڑھا اور تین مرتبہ عاصم بن ابی النجود کے پاس تجوید پڑھی۔95ہجری میں پیدا ہوئے۔ امام ابن مبارک کہتے ہیں میں نے سنت کی طرف سبقت کرنے میں ابوبکربن عیاش سے تیز کوئی نہیں دیکھا۔193ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۱۶) کیونکہ وہ صحابہ کو گالی دینے والے کو کافر قرار دیتے ہیں اور نبی سے روایت کہ {لا یتوارث اھل ملتین شتیٰ} دو مختلف ملتوں کے افراد ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے{اسے احمد اور ابو دائود نے روایت کیا}۔
(۱۱۷)اسے ابن بطہ نے الشرح والابانہ میں روایت کیا۔
(۱۱۸) الذہبی کہتے ہیں سفیان بن عیینہ بن ابی عمران میمون...الامام الکبیر، حافظ العصر، شیخ الاسلام، ابومحمد الہلالی، الکوفی، ثم المکی...انہوں نے حدیث کی طلب کا سفر اس وقت شروع کیا جبکہ بہت کم سنی کی عمر میں تھے۔ انہوں نے کبار علماء سے اکتسابِ علم کیا اور بہت کثیر علم جمع کیا۔ انہوں نے مہارت حاصل کی تصنیف کا کام کیا اور ساری عمر اس سفر کو جاری رکھا۔ آپ کے پاس خلقت کا ازدھام رہتا تھا اور آپکی سند انتہائی اعلیٰ تھی لوگ زمانوں تک دور دور سے آپ کے پاس سفر کر کے آتے رہے۔107 ہجری میں پیدا ہوئے۔ امام الشافعی ان کے بارے میں کہتے ہیں میں سفیان بن عیینہ کے علاوہ کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جس کے اندر علم کا آلۃ جمع تھا۔198ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۱۹) اسے البیہقی نے ''کتاب القضاء والقدر''میں روایت کیا۔
(۱۲۰)اس کے بارے میں ان ائمہ کی تفصیل آئے گی جنہوں نے رافضی کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیا۔ یہ ان لوگوں پر رد ہے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف خروج کرتے ہوئے رافضیوں کے ساتھ مشترک نماز کی بدعت ایجاد کی۔یہ اس مقصد کے تحت کیا گیا تاکہ بت پرستوں کا اتحاد قائم ہو اور ایسے لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ ان کی نماز باطل ہے کیونکہ امام کی شروط میں یہ بھی ہے کہ وہ مسلمان ہونا چاہیے!
(۱۲۱) اسے اللالکائی نے شرح اصول الاعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ میں روایت کیا۔
(۱۲۲)الذہبی کہتے ہیں عبد الرزاق بن ہمام بن نافع، الحافظ الکبیر یمن کے عالم ہیں ابوبکر الحمیری مولاہم، الصنعانی، الثقہ انہوں نے عبید اللہ بن عمر سے بیان کیا اور انکے بھائی عبد اللہ سے، ابن جریح اور معمر سے بیان کیا۔اسی طرح انہوں نے حجاج بن ارطاۃ، الاوزاعی، سفیان الثوری، مالک بن انس اور اپنے والد سے بیان کیا۔جبکہ ان کے شیخ سفیان بن عیینہ، امام احمد بن حنبل، ابنِ راہویہ، یحیٰ بن معین اور علی المدینی ان سے روایت کیا۔ شیخ الاسلام ، اپنے وقت کے محدث اور آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن سے اصحابِ صحاح نے دلیل پکڑی ہے۔126ہجری میں پیدا ہوئے اور211 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۲۳) اسے ابن عساکرنے ان کے ترجمہ میں تاریخ دمشق میں ذکر کیا۔
(۱۲۴)الذہبی کہتے ہیں محمد بن یوسف بن واقد بن عثمان الفریابی، الامام الحافظ، شیخ الاسلام ابو عبد اللہ الضبی، مولاہم، انہوں نے فلسطین میں قیساریہ کے ساحل پر سکونت اختیار کی۔ان سے امام بخاری اور امام احمد بن حنبل نے سماع کیا۔ بخاری نے کہا کہ وہ اپنے زمانے کے افضل لوگوں میں سے تھے۔212 ہجری میں وفات پائی۔
(۱۲۵) اسے الخلال نے کتاب السنۃ میں روایت کیا۔
(۱۲۶) اسے اللالکائی نے شرح اعتقاد اصول اہل السنۃ والجماعۃ میں روایت کیا۔
(۱۲۷)الذہبی کہتے ہیں امام حافظ مجتہد شیخ المحدثین ابو زکریا یحیٰ بن معین ابن عون۔ کہا گیا کہ ابنِ معین اصل میں الانبار سے ہیں اور ان کی پرورش بغداد میں ہوئی۔185 ہجری میں پیدا ہوئے۔ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ سے ایک لاکھ احادیث لکھیں۔233 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۲۸) اسے ابن حجر تہذیب التہذیب میں تلیدبن سلیمان المحاربی کے ترجمہ میں ذکر کیا ہے۔
(۱۲۹)تاریخ یحیٰ بن معین للدوری
(۱۳۰) ابن کثیر کہتے ہیں ابو عبید القاسم بن سلام البغدادی لغت ،فقہ حدیث ، قرآن ، اخبار، ایام الناس کے ائمہ میں سے ہیں۔ ان کی بہت سی تصنیفات ہیں۔175 ہجری میں پیدا ہوئے۔ طرطوس میں قضاء کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اسحاق بن راہویہ نے کہا کہ اللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا ،ابو عبید مجھ سے ، احمد بن حنبل اور شافعی سے زیادہ علم والے ہیں۔224ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۳۱)دیکھو کہ کیسے امام نے انہیں بدعتی ہونے کے سبب (مجاہدین کے ساتھ سے محروم کیا) انہیں محاذوں سے نکال دیا۔ کیونکہ بدعت اللہ کی معصیت ہے اور معصیت دشمن کے سامنے شکست کا سب سے بڑا سبب ہے۔پس ان کے لیے نصرت کہاں جو رافضی سے دوستی لگا کر اپنے زعم میں مشترکہ دشمن کے خلاف جہاد کرتے ہیں۔
(۱۳۲) اسے الخلال نے کتاب السنۃ میں روایت کیا۔
(۱۳۳)الذہبی کہتے ہیں الامام الحجۃ، الحافظ، ابو عبد اللہ احمد بن عبد اللہ بن یونس التمیمی۔132ہجری میں پیدا ہوئے۔ ایک آدمی نے امام احمد سے سوال کیا کہ میں کس کی بات لکھوں تو انہوں نے کہا کہ تو احمد بن یونس کے پاس چلا جا کہ وہ شیخ الاسلام ہیں۔ 227 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۳۴) الصارم المسلول، فصل، فامامن سب احداً من اصحاب رسول اللّٰہ ﷺ من اھلِ بیتہ وغیرھم۔
(۱۳۵)الذہبی کہتے ہیں بشر بن حارث بن عبد الرحمن بن عطاء، الامام العالم، المحدث الزاہد، الربانی ،القدوۃ، شیخ الاسلام، ابو نصر المروزی، ثم البغدادی المشہور بالحافی۔ انہوں نے علم کی طلب میں سفر کیا تو اسے مالک، شریک،حماد بن زید، فضیل بن عیاض اور ابنِ مبارک سے حاصل کیا۔ آپ ورع و زہد و اخلاص میں یکتا تھے۔152 ہجری میں پیدا ہوئے۔ ان کے بارے میں الدارقطنی نے کہا زاہد، جبل، ثقہ۔227 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۳۶) اس ابن بطہ الشرح والابانہ میں روایت کیا۔
(۱۳۷) الذہبی کہتے ہیں امام کبیر، شیخ المشرق ، سید الحفاظ، ابو یعقوب بن ابراہیم بن مخلد التمیمی ثم الحنظلی المروزی۔ وہ اپنے حافظہ کے ساتھ تفسیر کے امام تھے، فقہ کے سردار اور ائمہء اجتہاد میں سے تھے۔161ہجری میں پیدا ہوئے۔ابو نعیم کہتے ہیں کہ اسحاق امام احمد کے ہم پلہ تھے وہ احادیث کو جاری کر نے والے اور اہلِ زیغ کو تباہ کرنے والے تھے۔238ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۳۸)الصارم المسلول، فصل، فامامن سب احداً من اصحاب رسول اللّٰہ ﷺ من اھلِ بیتہ وغیرھم۔
(۱۳۹) ابن کثیر کہتے ہیں وہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرہ بن بردزیۃ الجعفی، مولاہم ،ابو عبد اللہ البخاری، الحافظ، اپنے زمانے میں اہل حدیث کے امام تھے اور ان کی اقتدیٰ کی جاتی تھی ۔ وہ اپنے زمانے کے افضل لوگوں میں سے تھے۔194ہجری میں پیدا ہوئے۔ابو حاتم الرازی کہتے ہیں محمد بن اسماعیل عراق میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے۔وہ256ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۴۰)خلق افعال العباد، باب ماذکر اہل العلم للمعطلة الذین یریدون ان یبدلو ا کلام اللّٰہ۔
(۱۴۱)الکفایہ فی علم الروایة للخطیب البغدادی۔ باب ماجاء فی تعدیل اللّٰہ ورسولہ للصحابہ
(۱۴۲)الذہبی کہتے ہیں عثمان بن سعید بن خالد بن سعید، الامام العلامہ الحافظ الناقد، شیخ تلک الدیار، ابو سعید التمیمی الدارمی السجستانی انہوں نے علم ِ حدیث حاصل کیا اور اس کی علل علی ، یحیٰ، اور احمد سے سیکھیں۔ اپنے زمانے میں فائق تھے ۔وہ سنت کی زبان بولتے اور مناظر کی آنکھ رکھتے تھے۔200ہجری میں پیدا ہوئے اور 280 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۴۳) الرد علی الجھمیة باب الاحتجاج فی اکفار الجھمیة۔
(۱۴۴) الذہبی کہتے ہیں الامام المحدث القدوۃ شیخ الحرم الشریف، ابو بکر محمد بن الحسین بن عبد اللہ البغدادی، الآجری صاحب ِ تالیفات، وہ صدوق تھے، خیر پر تھے اور عابد تھے صاحبِ سنت و اتباع تھے۔ خطیب بغدادی کہتے ہیں وہ دیندار اور ثقہ تھے۔360ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۴۶)الصارم المسلول، فصل، فامامن سب احداً من اصحاب رسول اللّٰہ ﷺ من اھلِ بیتہ وغیرھم۔