• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غداری وخیانت کا ِفرقہ ،کفر ونفاق کا مجموعہ الشِّیْعَۃیہودیوں کا ایجنٹ کافر گروہ ھل اتاک حدیث الرافضة

شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
وہ اقوال جن میں اجماع نقل کیا گیا ہےرافضیوں کے کافر ہونے پر!!!
یہ اجماع ہے !... شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ ان کے ساتھ قتال کے حکم کی بحث کرنے کے بعد طائفہ مُمتَنِعہ (جیسے کہ ان کا حال آج عراق میں ہے)کے متعلق کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ قتال کا وجوب روایت کیا گیا ہے۔ لیکن ان کے کسی ایک آدمی کا قتل جو اختیار میں ہو اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ اسی طرح ان کی تکفیر وتخلید میں بھی علماء کے دومشہورا قوال ہیں اور اس کے بارے میں امام احمد سے دو روایتیں ہیں۔ پھر کہتے ہیں صحیح بات یہ ہے جس کو جاننا چاہیے کہ یہ( شیعیت)رسول اللہ ﷺکی لائی ہوئی شریعت کی مخالفت سے عبارت ہے اور یہ'' کفر''ہے۔ اسی طرح ان کے افعال کافروں کے کفریہ افعال کی جنس سے ہیں اور وہ بھی کفر ہے۔ لیکن کسی ایک معین شخص کی تکفیر وتخلید کفر کے ثبوت کے ساتھ مشروط ہے۔ کیونکہ ہم نصوصِ وعد و وعید، تکفیر و تفسیق کو مطلقاً بیان کرتے ہیں اور کسی معین کو اس عام کے حکم میں داخل نہیں کر سکتے یہاں تک کہ کوئی دلیل اس کے متعارض قائم نہ ہو(بحوالہ مجموع الفتاویٰ مسئلہ فی الرافضہ الامامیہ)۔

عبد القادر بن عبد العزیز ''الجامع''میں رافضیوں کی گمراہیوں کے متعلق بحث کے بعد لکھتے ہیں'' لیکن اس کے ساتھ کسی نے بھی متعین طور پر رافضیوں کی تکفیر کے بارے میں نہیں کہا بلکہ یہ قول پچھلے سالوں سے بعض سیاسی اسباب کے تحت پھیل گیا ہے جب 1399 میں ایران میں شیعہ حکومت قائم ہوئی تو پٹرول پیدا کرنے والی کمزور عرب ریاستیں رعب میں آگئیں اور ہر اس شخص کی حوصلہ افزائی کی گئی جو شیعہ کے خلاف کچھ بھی لکھتا تھا تو بعض لوگوں نے انہیں کافر قرار دے دیا تو یہ اہل السنۃ کا قول نہیں۔پھر اس کے بعد جناب کہتے ہیں کہ یہ بات جاننی چاہیے کہ کفر کفر ہی ہے اور جس بات پر ایک رافضی کی تکفیر کی جاتی ہے اسی پر ایک سنی کی بھی کی جاتی ہے لیکن سارے فرقوں میں شیعہ کو خاص کر لیا گیا ہے اور اس میں لکھے گئے مقالات جن میں تکفیر واضح ہے بہت پھیل گئے ہیں۔

اور صحیحین میں...ابراہیم التیمی سے روایت ہے وہ روایت کرتے ہیں اپنے والد سے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں علی بن ابی طالب نے خطبہ دیا تو کہنے لگے کہ جو شخص یہ زعم رکھتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی چیز ہے جسے ہم پڑھتے ہیں اور وہ اللہ کی کتاب میں نہیں وہ یہ صحیفہ ہے اور یہ کہ ایساصحیفہ ان کی تلوار کے ساتھ معلق ہوتا ہے جس میںاونٹ کے دانتوں اور زخموں سے متعلق احکامات ہیں تو ایسا شخص جھوٹ بولتا ہے۔ یہ حدیث صحیحین وغیرہما میں جنابِ علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے اور یہ رافضی قرقہ پر رد ہے جو یہ گمان کرتا ہے کہ نبیﷺکے علی رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت کی وصیت کی تھی۔ لیکن اگر معاملہ ایسا ہی ہوتا جیسا کہ وہ زعم رکھتے ہیں تو اس بات کو کوئی بھی صحابی رد نہ کرتا کیونکہ صحابہ نبیﷺکی زندگی میں اور آپ کی وفات کے بعد بھی سب سے زیادہ آپ ﷺکی اطاعت کرنے والے تھے۔اور یہ ممکن نہ تھا کہ وہ ایسی چیز کو مقدم کرتے یا ایسی چیز کو مئوخر کرتے جسے بغیر نص کے مقدم یا مئوخر کرنا جائز نہ تھا۔ حاشا وکلا جو کوئی صحابہث سے ایسا گمان رکھتا ہے اور نبیﷺکے ساتھ معاندانہ رویہ رکھتے ہوئے ان کی طرف فسق و فجور کو منسوب کرتا ہے۔ پس جو کوئی لوگوں میں سے اس حال پر پہنچ گیا ہے تو وہ اسلام کے دائرہ سے خارج ہوگیا ہے اور امت کے آئمہ اعلام کے اجماع کے ساتھ کافر ہے اور اس کا خون بہانا زیادہ حلال ہے بنسبت شراب بہانے کے۔(۱۹۔۲۰)۔

اس کے بعدذیل میں ہم ان اقوال کا ذکر کریں گے جنہوں نے اس اجماع کی طرف اشارہ کیا ہے
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
وہ اقوال جن میں اجمالی طور پر فقہاء کے احکام ہیں رافضیوں کے متعلق
(۱)قاضی ابو یعلیٰ (۲۸) کہتے ہیں کوفہ کے فقہاء کے ایک گروہ نے صحابہؓ کو گالی دینے والے کے قتل کا اور رافضیوں کے کافر ہونے کا فتویٰ دیا ہے ۔(۲۹)

(۲)تقی الدین السبکی(۲۹) کہتے ہیں کہ میں نے کتبِ حنفیہ میں ''الفتاویٰ البدیعیہ'' کو دیکھا اور اس میں ''قسم الرافضة الی کفار وغیرھم '' میں اور ان کے بعض اختلافات کے متعلق جانا اور ان لوگوں کے بارے میں جو ابو بکرؓ و عمرؓ کی امامت کا انکار کرتے ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ ایسا شخص کافر ہے۔ اسی طرح میں نے ''المحیط'' جو کتبِ حنفیہ میں سے ہے اور اس میں امام محمد سے مروی ہے کہ رافضی کے پیچھے نماز جائز نہیں کیونکہ انہوں نے ابو بکرؓ کی خلافت کا انکار کیا جبکہ تمام صحابہؓ کا انکی خلافت پر اجماع ہے۔ اسی طرح ان کی کتبِ اصول ''الخلاصہ''میں ہے کہ اگر وہ صدیق ؓ کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے اور اسی طرح ''تتمة الفتاویٰ''میں ہے کہ وہ غالی رافضی جو ابو بکر کی خلافت کا انکار کرے اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔''الغا یۃ للسروجی ؒ میں اور ''المرغینانی''میں ہے کہ صاحب ہویٰ اور بدعتی کے پیچھے نماز مکروہ ہے اور رافضی کے پیچھے ناجائز۔ پھر انہوں نے کہا کہ اس کا حاصل یہ ہے ایسا شخص صاحبِ ہویٰ جو موجبِ کفر ہو تو اس کے پیچھے جائز نہیں لیکن اگر ایسا نہیں تو کراہت کے ساتھ جائز ہے۔ شرح المختار للابن بلدجی من الحنفیہ میں ہے اور صحابہ میں سے کسی ایک کو گالی دینا اور اس سے بغض رکھنا کفر نہیں ہے لیکن گمراہی ہے کیونکہ علیؓ نے اپنے گالی دینے والے کو کافر نہیں گردانا یہاں تک کہ اسے قتل نہ کیا اور ''الفتاویٰ البدیعیہ'' جو کتبِ حنفیہ میں سے ہے اس میں ہے کہ جس نے ابو بکر الصدیقؓ کی امامت کا انکار کیا تو وہ کافر ہے اور بعض نے کہا وہ بدعتی ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ وہ کافر ہے اور یہ بھی کہا کہ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ صحابہ کو گالی دینے والا کافر نہیں بلکہ وہ فاسق ہیں۔

اسی طرح انہوں نے کہا کہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابو بکر صدیقؓ کو گالی دینا مذہبِ ابوحنیفہؒ کے مطابق اور ایک روایت میں شافعیہ کے مطابق کفر ہے اور جہاں تک امام مالک کا تعلق ہے تو یہ مشہور ہے کہ انہوں نے ایسے شخص کے لیے کوڑوں کی سزا مقرر کی ہے۔ جو اس بات کی متقاضی ہے کہ یہ کفر نہیں لیکن میں نے ان کے ہاں اس کا خلاف نہیں پایا ۔خوارج کے مسئلہ میں انہوں نے کہا کہ وہ کافر ہیں ۔پس مسئلہ ان کے نزدیک دو حالتوں پر ہے۔کہ اگر وہ صرف گالی دینے تک رہے بنا تکفیر کیے تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی لیکن اگر وہ تکفیر کرے تو اس کی تکفیر کی جائے گی کہ وہ رافضی ہے(۳۱)۔ اللہ کی اس پر لعنت ہو کہ اس نے تکفیر میں زیادتی کی تو ایسا شخص امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ اور ایک جہت میں شافعیہ کے نزدیک کافر ہے اور امام احمد کے نزدیک زندیق ہے(۲۳)۔

(۳) جلال الدین السیوطی کہتے ہیں کہ یہ بات جان لو کہ شیخین ؓ کو گالی دینے والے کا حکم ہمارے اصحاب(۳۴) کے نزدیک دو جہتوں پر ہے۔ اسے قاضی الحسین (۳۵)وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ ایک یہ ہے کہ ایسا شخص کافر ہے اور اس پر جزم کیا ہے المحاملی نے ''اللباب''میں کہ وہ فاسق ہے اور اسی پر اصحاب کا فتویٰ ہے اور جو کوئی اپنی بدعت کے سبب کافر نہیں ٹھہرتا تو اس کی حالت دو احوال سے خارج نہیں یا کفر یا فسق(۳۶)۔

(۴) ابو المعالی الآلوسی(۳۷) کہتے ہیں ان سے(۳۸) اور سارے ائمۃ اہل السنۃ سے ثابت بات یہ ہے کہ اہلِ قبلہ کی تکفیر نہیں کی جائے گی جب تک ان سے کسی ایسی بات کا صدور ثابت نہ ہو جس کی معرفت دین میں ضرورت کے ساتھ ہے اوراگر ایسا نہ ہو تو اس پر کفر کا حکم لگایا جائے گا جیسے کہ غالی شیعہ... قرامطہ رافضی فرقہ اور اثنا عشریہ وغیرہ۔ پس ماوراء النہر کے اکثر علماء نے انہیں کافر قرار دیا ہے(۳۹) اور انہوں نے ان کے اموال ،خون اور ان کی عورتوں کو مباح قرار دیا ہے اس سبب کہ وہ صحابہ کو گالی دیتے ہیں خاص طور پر شیخینؓ کو جبکہ وہ دونوں نبی علیہ السلام کی آنکھوں کے تارے اور آپ کے کان تھے۔ پھر وہ صدیق ؓ کی خلافت کی صحت سے انکار کرتے ہیں اور اس کے ساتھ وہ علی رضی اللہ عنہ کو تمام فرشتوں اور تمام اولی العزم پیغمبروں پر فضیلت دیتے ہیں اور ان میں سے وہ بھی جو انہیں نبی علیہ السلام کے علاوہ ہر ایک پر فضیلت دیتے ہیں اور قرآن کے کامل ہونے کا انکار کرتے ہیں اور اس کے علاوہ ان کی کئی ذلالتیں ہیں(۴۰)۔

(۵)ابوالثناء الآلوسی کہتے ہیں کہ قاضی حسین اس طرف گئے ہیں کہ شیخین کو گالی دینا کفر ہے چاہے اس میں تکفیر نہ ہو۔ یہی مذہب اختیار کیا ہے اکثر حنفیہ نے اور شافعیہ کا صحیح مذہب بھی یہی ہے کہ گالی ایسی جس میں صحابہ کی تکفیر ہو وہ کفر ہے۔پس یہ ایسی گالی ہے جسے ہمارے زمانے کے شیعوں نے اختیار کر رکھا ہے۔ اس پر کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ان کے کفر میں شک کرے اس بناپر صحابہ کو گالی دینے میں کفر ہے یا نہیں۔ ان سے بغض رکھنا وہ بھی کفر ہے جیسے کہ امام طحاوی نے اسکی تصریح کی ہے اور ''الانوار ''میں ہے۔ کہ اگر کوئی کسی ایک صحابی کو ایذا دینے کو حلال جانتا ہے وہ بھی کفر ہے اور ''الاعلام''میں ہے کہ غیر صحابہؓ یعنی عام مسلمانوں کو ایذا دینا جائز قرار دینا ہی کفر ہے تو صحابہؓ کے بارے میں کسی کا کیا خیال ہے؟۔ ''البزازیۃ''میں ہے کہ جس نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا انکار کیا تو وہ صحیح مذہب کے مطابق کافر ہے اور جو عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا انکار کرے تو فی الاصح کافر ہے۔

فتاویٰ تاتارخانیہ میں بھی ایسے ہی ہے۔ اسی طرح کتاب ''الغُنیۃ''جو شیخ عبد القادر جیلانی کی طرف منسوب ہے اس میں شیخ نے رافضیوں کے مشابہ مسئلہ بیان کیا ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ان کیساتھ یہودیوں اور عیسائیوں کا معاملہ کرے۔ پس وہ بھی ان کے کفر میں ظاہر نظر آتے ہیں (۴۱)۔

اور انہوں نے کہا کیو نکہ یہ مخلوق کے سب سے بد عقیدہ لوگ ہیں اور سب سے زیادہ گستاخ اور سب سے زیادہ گمراہ ہیں... انہوں نے''تبصرۃ الحقائق''میں لکھا کہ ان کے کفر میں شک کرنے والا... یعنی اگر اسے یہ شک ہو کہ کیا یہ قول فاسد ہے یا نہیں ایسا شخص بھی کافر ہے لیکن اگر یہ معلوم ہو جائے کہ ایسا قول گمراہی اور بدعت ہے اور اس کا کفر ہونا مشکوک ہو تو اس میں اختلاف ہے۔ ان میں بعض نے شیعہ کے کفر کا حکم لگایا ہے اور ان کے علاقوں کو ''دارالحرب''قرار دیا ہے۔ ان میں متأخرین کی ایک جماعت جیسے کہ علامہ ابن کمال، شیخ الاسلام ابو السعود وغیرہ شامل ہیں(۴۲)۔

(۶)زین العابدین بن یوسف الکردی(۴۳) کہتے ہیں علماء کے ان تکفیری فتاویٰ کے ذکر میں کہ تحقیق امام مالک اور امام الشافعی نے اس کا فتویٰ دیا اور بہت سے ائمہ مسلمین نے ان کی موافقت کی۔ قاضی عیاض نے امام مالک سے ان کی سزا کی کیفیت کے بارے میں نقل کیا... شیخ طاہر بخاری امام ابو حنیفہ کے کبار اصحاب میں سے ہیں، انہوں نے ''الخلاصہ''میں کہا کہ رافضی اگر شیخین کو گالی دے اور ان پر لعن طعن کرے تو وہ کافر ہے۔ اسی طرح النوع الثالث من الفصل الثالث ''کتاب الاسلام والکفر'' میں ہے کہ جب و ہ نبی علیہ السلام کی کسی حدیث کے ساتھ مذاق کرے تو وہ بھی کافر ہے ... انتہیٰ۔

ان گمراہ لوگوں نے کتنے ہی احادیث کے دیوان جلادئیے ان کی توہین اور ان کا مذاق اڑاتے ہوئے جیسے کہ بہت سے لوگوں نے خود اس کا مشاہدہ کیا۔ امام فخر الاسلام البزدوی اپنے اصول میں لکھتے ہیں کہ قاضی ابو یوسف سے یہ ثابت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے امام ابو حنیفہؒ سے مسئلہ خلق قرآن میں چھ ماہ مناظرہ کیا اور میری اور انکی رائے متفق تھی کہ جو کوئی کہے کہ قرآن مخلوق ہے وہ کافر ہے اوریہی بات امام محمد سے بھی ثابت ہے۔ پس یہ بھی (خلقِ قرآن)ان گمراہ لوگوںمیں واضح ہے کیونکہ یہ معتزلہ کے ساتھ قرآن کے مخلوق ہونے پر اتفاق کرتے ہیں بسبب اس ثبوت کے جو ہماری اور ان کی کتابوں میں مذکور ہے۔ امام الرازی نے اپنی تفسیر میں ان کے کفر کا قول نقل کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جن علماء نے ان کی صریح تکفیر کی ہے ان میں العالم الزاہد المحقق المدقق مفتی الثقلین استاذ الفریقین ابو السعود قدس اللہ سرہ بھی ہیں اور ان میں العالم الفاضل المدقق الحافل المولیٰ جلال الدین الدوانی اپنے کما ل علم کے ساتھ ان گمراہوں کی معرفت رکھتے تھے۔ اسی طرح الفاضل الکامل المولیٰ عصام الدین الاسفرایینی جو ان کے ساتھ اکثر مناظرے کرتے تھے اور انہیں میں العالم الزاہد المولیٰ الصالح الہکاری بھی تھے۔ اسی طرح محققِ کامل مولیٰ محمد البرقلعی، فقیہ کامل یوسف البر سغی صاحبِ کتاب ''الدلائل والمسائل''اور انہیں میں ماہر مولیٰ حسین الشفیکی صاحب الفضائل الجلیۃ والمقامات السنیۃ اور ان کے بعد کے بہت بڑے بڑے علماء شامل ہیں۔ ان میں بعض ایسے ہیں جو اجتہاد کے درجہ وسطیٰ کو پہنچے ہوئے ہیں اور ان میں سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ ان کے علاقے دار الحرب ہیں یعنی ایسے علاقے جہاں جھگڑا یا لڑائی جاری ہو۔

(۷)فخر الدین رازی کہتے ہیں(۴۵) کہ اشعری تین وجوہ کی بنا پر رافضیوں کو کافر قرار دیتے ہیں...

(ا) پہلی یہ کہ انہوں نے مسلمانوں کے سرداروں کو کافر قرار دیا۔ پس جو کوئی کسی مسلمان کو کافر قرار دے وہ کافر ہے کیونکہ آپ علیہ السلام کی حدیث ہے کہ جس کسی نے اپنے مسلمان بھائی سے کہا اے کافر تو دونوں میں ایک اس کا حق دار ہو جاتا ہے۔پس ان کی تکفیر واجب ہے۔

(ب) پھر انہوں نے ایک ایسی قوم کی تکفیر کی ہے کہ جس کے بارے میں جناب رسالت ماٰبﷺ سے تعریف وتعظیم کی نصوص وارد ہیں۔پس ان کا صحابہ کو کافر قرار دینانبیﷺ کی تکذیب ہے۔

(ج) تیسری بات، امت کا اجماع ہے کہ جس نے صحابہ کو کافر کہا وہ کافر ہے(۴۶)۔

ابن عابدین(۴۷) کہتے ہیں خلافتِ عثمانیہ کے اکثر علماء اسلام شیعہ مذکورین کے بارے میں فتویٰ دیتے ہوئے کہتے ہیں اور انہوں نے اس میں بہت بحث کی اور بہت سی تصانیف اور رسالے لکھے (۴۸)۔ اس قسم کے فتویٰ دینے والوں میں المحقق المفسر ابو السعود آفندی العمادی شامل ہیں۔ان کی عبارتوں کو علامہ الکواکبی الحلبی نے شرح منظومہ الفقہیۃ المسماۃ ''الفرائد السنیۃ''میں ذکر کیا ہے(۴۹)۔

تراجم وحوالہ جات
ابوزرعہ...
٭ امام الذہبی کہتے ہیں الامام سید الحفاظ عبد اللہ بن عبد الکریم بن یزید بن فروخ محدث الری۔ یہ 200 ہجری میں پیدا ہوئے امام احمد ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس نوجوان نے چھ ہزار احادیث حفظ کی ہیں۔ آپ264 ہجری میں فوت ہوئے۔
ابو حاتم...
٭ امام الذہبی کہتے ہیں محمد بن ادریس بن المنذر، الامام ، الحافظ، الناقد، شیخ المحدثین، الحنظلی، الغطفانی...وہ علم کا سمندر تھے انہوں نے علم کی تلاش میں ملکوں کا طواف کیا اور متن و اسناد ، جمع و تصنیف ،جرح وتعدیل اور صحیح وعلل میں بہت مہارت حاصل کی۔195 ہجری میں پیدا ہوئے۔ خطیب ان کے بارے میں کہتے ہیں ابوحاتم ثابت ائمہ حفاظ میں سے ایک تھے۔ آپ کی وفات277 ہجری میں ہوئی۔
٭ الرازی کہتے ہیں کہ ہم نے تمام شہروں میں علماء کو ... حجاز ،عراق،شام اور یمن میں اس حال پر پایا کہ ان کا مذہب یہ تھا کہ رافضیوں نے اسلام کا رفض یعنی انکار کردیا ہے۔
٭ اسے اللالکائی نے ''شرح اصول الاعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ'' میں نقل کیا امامین ابو زرعہ اور ابوحاتم کے عقیدہ کے تذکرہ میں۔
ابن حزم الظاہری...
(۱۴)امام الذہبی کہتے ہیں امام الاوحد، البحر، ذوالفنون والمعارف، ابو محمد علی بن احمد بن سعید بن حزم الفارسی الاصل ثم الاندلسی، القرطبی... فقیہ ، حافظ، المتکلم، الادیب ،الوزیر، الظاہری، صاحبِ تصانیف، ان کو بہت زیادہ ذکاوت وفہم عطاء کی گئی اور آپ کی نفیس کتب بہت زیاہ ہیں۔ 384ہجری میں پیدا ہوئے۔ العز بن عبد السلام کہتے ہیں میں نے اسلامی کتب میں ابنِ حزم کی المحلیٰ جیسی کتاب نہیں دیکھی۔آپ456 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۴)کہتے ہیں کہ ''مسلمانوں کی طرف نسبت رکھنے والے کسی دو فرقوں میں اختلاف نہیں کہ ہم تلاوت کیے جانے والے قرآن سے اخذ کریں لیکن اس میں اختلاف کرنے والے غالی شیعہ کی قوم ہے اور وہ اس کے ساتھ کافر ہیں اور تمام اہلِ اسلام کے نزدیک مشرک ہیں۔
(۱۵)الاحکام فی فصول الاحکام۔ الباب العاشر فی الاخذ بموجب القرآن۔
ابو سعد السمعانی...
(۱۶) الذہبی کہتے ہیں الامام الحافظ الکبیر، الاوحد، ثقہ، محدث خراسان، ابوسعد عبد الکریم... التمیمی السمعانی الخراسانی المروزی صاحب مصنفاتِ کثیرہ۔506 ہجری میں پیدا ہوئے۔ ابن النجار کہتے ہیں کہ میں نے ایک مشہور عالم سے سنا کہ ابوسعد کے اساتذہ کی تعداد سات ہزار شیوخ تھی۔آپ562 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۷) کہتے ہیں کہ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ امامیہ کافر ہیں کیونکہ وہ صحابہ کے گمراہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے اجماع کا انکار کرتے ہیں اور ان کی طرف ایسی باتوں کی نسبت کرتے ہیں جو کسی صورت ان کے لائق نہیں۔
(۱۸) الانساب ؛باب الزای والیاء ۔الزیدی۔
ابن کثیر کہتے ہیں...
(۱۹)ابن قاضی شہبۃ کہتے ہیں (اسماعیل بن کثیر بن ضوء القرشی البصروی الدمشقی ،حافظ ابو لحجاج المزی کے ساتھ ان کی نسبت تھی۔ ان کا لزوم اختیار کیا اور ان سے اخذ کیا اور علم حدیث سیکھا اور بہت کچھ ابنِ تیمیہ سے حاصل کیا اور بہت سے مشایخ کو سنا۔امام الذہبی کی وفات کے بعد ''ام الصالح''کے شیخ بنے سبکی کی موت کے بعد ''دارالحدیث الاشرفیہ''کے شیخ بنے تھوڑی مدت کے لیے...وہ ابن تیمیہ کی آراء کی بہت پیروی کرتے اور ان سے خاص تعلق رکھتے تھے اور اس کے باعث انہیں بہت اذیت سے بھی دوچار ہونا پڑا۔701 ہجری میں پیدا ہوئے ۔ ان کے بارے میں ان کے شیخ الذہبی کہتے ہیں فقیہ، متفنن،محدث متقن ومفسر نقال اور ان کی کئی تصانیف ہیں۔774 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۰)یہاں المدام کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی ہے شراب۔
(۲۱)بحوالہ البدایۃ والنہایۃ قصۃ سقیفہ بنی ساعدۃ۔
ملا علی القاری ...
(۲۲)الشوکانی کہتے ہیں الشیخ ملا علی قاری بن سلطان بن محمد الہروی الحنفی۔ ہرات میں پیدا ہوئے اور مکہ کا سفر کیا اور وہی پہ سکونت اختیار کرلی اور وہاں محققین کی ایک جماعت سے اخذ کیا جیسے کہ ابن الحجر الہیتمی۔ العصامی کہتے ہیں کہ وہ نقلی و عقلی علوم کے جامع تھے اور نبی ﷺکی سنت کی بہت پیروی کرنے والے تھے۔مشہور جماہیر میں سے ہیں اولی الحفظ والافہام ہیں ۔1014 میں فوت ہوئے۔
کہتے ہیں...ہمارے زمانے میں رافضی خارجی ہیں کیونکہ وہ اکثر صحابہ کے کافر ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں تمام اہل السنۃ کے علاوہ، پس وہ بالاجماع کافر ہیں اور اس میں کوئی نزاع نہیں ۔
(۲۳) مرقاۃ المفاتیح میں حدیث ہے{ایما رجل قال لاخیہ کافر فقد باء بھا احدھما} جو کئی بھی اپنے کسی بھائی کو کافر کہتا تو وہ ایک کو اس کا حق دار بنادیتی ہے۔
ابو السعودالعمادی ...
(۲۳)ابو السعود محمد بن محمد بن مصطفیٰ العمادی ترک عالم ہیں جنہوں نے عربیت اختیار کر لی۔قسطنطنیہ کے قریب898ہجری میں پیدا ہوئے درس وتدریس کا سلسلہ مختلف ممالک میں طے کیا بروسہ شہر میں اور اس کے بعد قسطنطنیہ میں قضاء کے عہدہ پر فائز رہے اور انہیں افتاء کا عہدہ بھی دیا گیا ۔ بنی عثمان کے سلاطین کے ہاں ان کی بہت ہیبت تھی982 ہجری میں فوت ہوئے۔
کہتے ہیں کئی زمانوں کے علماء ان کے قتل کے مباح ہونے پرمجتمع ہیں اور جوکوئی ان کے کافر ہونے میں شک کرے وہ کافر ہے۔
(۲۴) یعنی امام ابو حنیفہ نعمانؒ بن ثابت۔
(۲۵) اور سفیان الثوری اور الاوزاعی کے نزدیک اگر وہ توبہ کرلیں اور اپنے کفر سے رجوع کرلیں تو وہ قتل ہونے سے بچ جائیں گے اور ان کے لیے معافی کی امید ہے جیسے کہ سارے کافروں کے لیے ہے۔ جب کہ امام مالک، امام الشافعی، امام احمد بن حنبل ، لیث بن سعد اور تمام علماء عظام کے نزدیک ان کی توبہ قبول نہیں بلکہ وہ بطور حد قتل کردئیے جائیں گے ۔
(۲۵)العقود الدریہ فی الفتاویٰ الحمدانیہ لابن عابدین باب؛الردۃ والتعزیر۔
ابو الثناء الاٰلوسی...
(۲۶)ابو الثناء شہاب الدین محمود الاٰلوسی۔ الانبار کی ایک بستی کی طرف یہ نسبت ہے۔ البغدادی الحسنی۔ صاحبِ تفیسرِ روح المعانی۔ شافعی المذہب لیکن وہ بہت سے مسائل میں امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتے تھے۔ انہیں خلافتِ عثمانیہ کی طرف سے حنفی مفتی مقرر کیا گیا۔ وہ 1217 ہجری میں پیدا ہوئے اور 1270 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۷)کہتے ہیں:آج کے شیعہ کے بارے میں جو ہم جانتے ہیں کہ وہ صحابہ کی صریحاً تکفیر کرتے ہیں اس زعم میں کہ انہوں نے نص کو چھپایا اور نبی ﷺکی وفات کے بعد علی کرم اللہ وجہ کی بیعت نہ کی جیسے کہ انہوں نے ابو بکرؓ کی بیعت کی ۔اسی طرح وہ صحابہ کے ساتھ بغض رکھنے اور ان کی ایذا رسانی میں بھی تصریح کرتے ہیں اور ان میں خلفاء راشدین کا بھی انکار کرتے ہیں اور ان کو گالیاں دیتے اور ان پر لعنت کرتے ہیں۔ تحقیق کہ مذاہبِ اربعہ حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ اس بات پر متفق ہیں کہ ایسی صفتوں سے متصف شخص کافر ہے۔
الاجوبۃ العراقیہ علی الاسئلۃ اللاہوریہ ؛الفصل الثالث۔
(۲۸) الذہبی کہتے ہیں الامام ، العلامہ، شیخ الحنابلہ،القاضی ابو یعلیٰ محمد بن الحسین... البغدادی الحنبلی ابن القراء ۔ فتویٰ اور تدریس میں مشغول ہوئے اور آپ کے پاس بہت سے اصحاب پڑھ کر نکلے اور فقہ میں امامت آپ پر ختم ہوئی اور اپنے زمانے میں وہ عراق کے عالم تھے۔ اس کے ساتھ وہ علومِ قرآن و تفسیر اور نظرو اصول کے بھی ماہر تھے۔بہت درگذر کرنے والے نفیس النفس ،بڑے قدردان اور بہت تقویٰ والے تھے۔ 380 ہجری میں پیدا ہوئے اور458 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۹) فتاویٰ السبکی باب جامع فصل؛ سب النبی ﷺ
(۳۰)ابن قاضی شہبہ کہتے ہیں علی بن عبد الکافی بن علی ،الانصاری الخزرجی،شیخ، الامام، الفقیہ، المحدث، الحافظ، المفسر، المقریئ، الاصولی، المتکلم، النحوی، اللغوی، الادیب ،الحکیم، المنطقی، الجدلی، الخلافی، النظار، شیخ الاسلام ، قاضی القضاۃ تقی الدین ابو الحسن بن قاضی زین الدین ابو محمد السبکی۔683 ہجری میں پیدا ہوئے۔ السیوطیؒ کہتے ہیں تصنیف و فتویٰ کے میدان میں اترے اور انہوں نے 150 کے قر یب تصانیف چھوڑی اور آپ کی تصانیف علوم ِحدیث میں آپ کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ آپ سے بہت سے علماء نے اکتسابِ فیض کیا۔آپ756 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۳۱)اس کا بیان اگلی فصل میں آئے گا۔
(۳۲)فتاویٰ السبکی باب جامع؛فصل سب النبیا
(۳۳) ابو الفجل عبد الرحمن بن ابی بکر بن محمد السیوطی ۔ قاہرہ میں پیدا ہوئے849 ہجری میں اور ان کے اساتذہ کی تعداد 150 کے قریب ہے ۔ ان میں مشہور البلقینی،اجلال المحلی، المناوی، ابن،قطلوبغا، اور آپ کی مصنفات کی تعداد500 تک ہے۔ آپ911 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۳۴)یعنی الشافعیہ۔
(۳۵)ابنِ قاضی شہبۃ کہتے ہیں الحسین بن محمد بن احمد، القاضی،ابوعلی المرودی صاحبِ تلعیقہ مشہورہ فی المذہب، ان سے القفال نے اخذ کیا وہ اور ابوعلی قفال کے بہتر تلامذہ میں سے ہیں۔وہ فقہ میں بہت وسعت رکھتے ہیں اور ان کا نام بہت مشہور ہے اور وہ بہت بڑے محقق ہیں، پس جب بھی کتبِ مراوزۃ میں القاضی استعمال کیا جائے تو اس سے مراد وہی ہوتے ہیں۔ الرافعی کہتے ہیں کہ وہ بہت باریک بین اور غور وخوض کرنے والے تھے اور انہیں حبر الامہ کا لقب دیا جاتا تھا۔462 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۳۶) القام الحجر لمن زکیٰ ساب ابی بکر وعمر، فصل الثالث
(۳۷)محمود شکری بن عبداللہ بن شہاب الدین محمود الآلوسی الحسنی۔ وہ علامہ ابو الثناء آلوسی صاحبِ تفسیر کے بھتیجے ہیں۔ آپ الرصافہ1273ہجری میں پیدا ہوئے۔ حنفی المذہب تھے اور آپ بدعتیوں کے بہت سخت مخالف تھے یہاں تک کہ خلافتِ عثمانیہ میں ایک دفعہ آپ کے اعدام کا حکم جاری ہوا لیکن آپ کے بعض محبین کی وساطت سے وہ حکم واپس لے لیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ چھڑنے کے بعدخلافتِ عثمانیہ نے 1333 ہجری میں آپ کو صلیبیوں کے ایجنٹ طاغوت آل السعود کے پاس بھیجا تاکہ اس کے صلیبی آقاؤں کے خلاف اسے مسلمانوں کی مناصرت پر ابھارا جائے ۔ لیکن ایک کتا اپنے مالک کے خلاف کیسے بھونک سکتا ہے۔ تو آلوسی کی کوششیں رائیگاں گئی اور وہ غمگین ہوکر واپس لوٹ آئے۔پھر1335 میں صلیبیوں کے بغداد پر قبضہ کے بعد انہوں نے شیخ آلوسی کو قاضی کا عہدہ پیش کیا تو انہوں نے شدت کیساتھ انکار کردیا جبکہ وہ ان دنوں بہت تنگ دست تھے اور وہ اپنی مسندِ تالیف پر براجمان رہے اور اپنی مسجد میں معتکف رہے۔ ان کی تصانیف کی تعداد پچاس کے قریب ہے جن میں کتابیں اور رسالے بھی ہیں۔آپ 1343 میں فوت ہوئے۔
(۳۸) یعنی امام ابوحنیفہؒ
(۳۹) یعنی دریائے جیحون۔
(۴۰) صب العذاب علی من سب الاصحابؓ
(۴۱)الاجوبۃ العراقیہ علی الاسئلۃ اللاہوریہ، الفصل الثالث
(۴۲) الاجوبۃ العراقیہ علی الاسئلۃ اللاہوریۃ الفصل الثالث
(۴۳)زین العابدین بن یوسف بن محمد الطورانی الاردلانی، انہوں نے1070میں بغداد میں مسندِ افتاء سنبھالی۔
(۴۴)الیمانیات المسلولۃ علی الرافضہ المخزولۃ۔ المقالۃ الرابعۃ
(۴۵)امام الذہبی کہتے ہیں العلامۃ الکبیر ذو الفنون فخر الدین محمد بن عمر بن الحسین القرشی البکری الطبرستانی۔ الاصولی، المفسر، کبیر الاذکیا والحکماء والمصنفین۔ ان کی تصانیف شہروں میں پھیل گئیں۔ اور آپ بہت ذکی تھے۔544 ہجری میں پیدا ہوئے اور آپ الاشعریہ کے امام تھے اور آخر عمر میں آپ تائب ہوگئے اور کہا کہ میں نے فلسفہ اور علم کلام کے مناہج میں بہت غور کیا تو میں نے دیکھا کہ وہ بیمار کو علاج نہیں دیتی اور نہ بیماری کوختم کرتی ہیں۔آپ606 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۴۶) نہایۃ العقول للرازی، نقلاً عن اصول مذہب الشیعہ الامامیۃ لناصر القفاری۔
(۴۷)محمد امین بن عمر بن عبد العزیز، الحنفی جن کا لقب ابنِ عابدین کے نام سے مشہور ہے کیونکہ ان کا نسب زین العابدین بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب سے جاملتا ہے۔1198 میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ اپنے زمانے میں احناف کے امام تھے اور دیارِ شامیہ کے فقیہ تھے۔ المفسر ، الاصولی، انہوں نے قرآن حفظ کیا اور اس کی قرأتوں میں مہارت حاصل کی اور لغت ، حدیث، تفسیر،تصوف اور میراث کے علوم کے ساتھ مشغول رہے۔1252 میں آپ کی وفات ہوئی۔
(۴۸) یعنی ان کے کفر میں۔
(۴۹)العقود الدریۃ فی الفتاویٰ الحمدانیۃ
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
تاریخی حوادث جو رافضیوں کے بارے میں فقہاء کا حکم واضح کرتے ہیں
حافظ ابن کثیر241ہجری کے وقائع بیان کرتے ہیں اوراس میں ہے کہ خلیفہ متوکل علی اللہ نے(۵۰)بغداد کے ایک آدمی کو مارنے کا حکم دیا تو اسے بہت شدید مارا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسے ایک ہزار کوڑے مارے گئے یہاں تک کہ وہ مر گیا اور یہ اس سبب تھا کہ اس کے خلاف17 آدمیوں نے قاضی الشرقیہ ابی حسان الزیادی کے پاس گواہی دی کہ وہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، ام المومنین سیدۃ طاہرۃ عائشہ وحفصہ رضی اللہ عنہما کو گالیاں بکتا تھا۔ تو اس کی شکایت خلیفہ کے پاس پہنچی تو خلیفہ نے اپنے نائب محمد بن عبد اللہ بن طاہر بن الحسین کو لکھا کہ معاملہ کی خبر لے اور اسے حکم دیا کہ اسے لوگوں کے سامنے گالی دینے کی حد لگائی جائے پھر اسے کوڑوں سے مارا جائے یہاں تک کہ مر جائے اور اس کی نعش دریائے دجلہ میں پھینک دی جائے اور نمازِ جنازہ پڑھنے کی بھی اجازت نہ دی جائے تاکہ اہلِ الحاد اور معاندین اس سے عبرت پکڑیں۔ پس اس قبیح ملعون کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا۔

پھر حافظ ابنِ کثیر کہتے ہیں کہ ایسا آدمی بالاجماع کافر ہے اگر وہ ام المومنین سیدہ عائشہ طاہرہ رضی اللہ عنہا پر بہتان باندھے اور ان کے علاوہ امہات المومنین پر اگر بہتان باندھے تو اس میں دو اقوال ہیں اور صحیح یہ ہے کہ وہ کافر ہے کیونکہ وہ سب کی سب نبی ﷺ کی ازواج ِ مطہرات ہیں۔

ابن ابی الدنیا بیان کرتے ہیں اور وہ اس واقعہ کے خود شاہد ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ میں پل پر کھڑا تھا تو وہاں قاضی ابو حسان الزیادی آئے۔ متوکل نے ان کی طرف ایک خفیہ چیزبھیجی اور وہ رومال میں بندھا مہر بند ایک دیبقی (۵۱)کوڑا تھا اور انہیں حکم دیا گیا کہ ایک شخص ''خان عاصم''نامی کو ہزار کوڑے مارے جائیں کیونکہ اس کے خلاف ثقہ گواہیاں موصول ہوئیں تھیں کہ اس نے ابوبکر صدیق و عمر فاروق اور عائشہ رضی اللہ عنہم پر بہتان باندھا اور گالی دی۔تو اس شخص نے اس کا انکار بھی نہ کیا اور نہ ہی توبہ کی تو پھر اسے قاضی کی موجودگی میں مارا جانے لگا اور لوگ وہاں کھڑے تھے تو وہ شخص کہنے لگا اے قاضی تو نے مجھے قتل کردیا تو ابو حسان قاضی نے کہا کہ تیرا قتل حق ہے بسبب نبی کی بیوی پر بہتان باندھنے کے اور خلفا راشدین المہدیین کو گالی دینے کے (۵۲)۔

مقریزی مصر میں رمضان 353ہجری کے واقعات بیان کرتے ہیں (۵۳) کہ ایک آدمی کو گرفتار کیا گیا جو ابن ابی اللیث الملطی کے نام سے مشہور تھا اور وہ شیعہ تھا۔ پس اسے دو سور کوڑے اور ایک درہ مارا گیا۔ پھر اسے شوال میں پانچ سو کوڑے اور ایک درہ مارا گیا اور اسکی گردن میں طوق ڈال دیا گیا اور ہر روز اسے بلایا جاتا تاکہ اس پر کسی قسم کی کوئی تخفیف نہ ہو اور اس کے منہ پرتھوکا جاتا ۔ وہ اپنی قید کے دوران ہی مر گیا ۔ چنانچہ رات کو اس کا جنازہ اٹھایا گیا اور اسکی قبرکو اکھاڑنے کے لیے مسلمانوں کی ایک جماعت گئی لیکن ایک دوسری جماعت نے انہیں منع کر دیا(۵۴)۔

(۳) ابن الجوزی(۵۵)460ہجری کے واقعات بیان کرتے ہیں ''460 ہجری، نصف جمادی الاول ہفتہ کے دن اصحاب(۵۶) اور فقہاء کی ایک جماعت اور اہلِ حدیث کے اعیان دیوان العزیز میں اکٹھے ہوئے تو انہوں نے وہاں ''الاعتقاد القادری ''کی بابت سوال کیا اور وہ کتاب وہاں ان کی موجودگی میں پڑھی گئی۔ وہاں لوگوں کی ایک تعداد بھی موجود تھی اور یہ اجتماع الاعتقاد القادری والقائمی پڑھنے کے لیے منعقد ہوا تھا اور اس میں سلطان کہنے لگے ''اور رافضیوں پر اللہ کی لعنت ہو وہ سب کے سب کافر ہیں اور جو انہیں کافر نہیں سمجھتا وہ بھی کافر ہے۔ ابن فورک(۵۸) فوراً کھڑے ہوئے تو انہوں نے بدعتیوں پر لعنت کی اور کہا اس میں موجود اعتقاد کے علاوہ ہمارا کوئی عقیدہ نہیں اس پر وہاں موجود جماعت نے ان کا شکریہ ادا کیا۔

(۴)ابن الجوزی 571 ہجری کے حوادث بیان کرتے ہیں کہ ان ایام میں رافضیت بہت زیادہ پھیل گئی تھی تو صاحبِ مخزن نے امیر المومنین کی طرف لکھا کہ ان کے ہاتھ مضبو ط کیے جائیں۔ پھر میں نے منبر پر لوگوں کو خبر دی کہ امیر المومنین صلوات اللہ علیہ ، کو خبر پہنچی ہے کہ رافضیت پھیلنے لگی ہے اور انہوں نے حکم جاری کیا ہے بدعتوں کا ازالہ کیا جائے پس جس کسی کو تم سنو کہ وہ صحابہ کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو اس کی مجھے خبر دو تاکہ میں اسے ہمیشہ کے لیے قید کردوں چاہے ایسا آدمی کوئی واعظ ہی کیوں نہ ہو۔ تو اس کے بعد لوگ رافضیت سے رک گئے۔

(۵) ابن کثیر755 ہجری کے حوادث کے بارے میں لکھتے ہیں اہل حلہ جامعہ دمشق کے قریب ایک رافضی شور مچانے لگا اور وہ سب سے پہلے آلِ محمد پر ظلم کرنے والے کو گالیاں دینے لگا اور وہ باز ہی نہ آتا تھا اور نہ ہی وہ لوگوں کے ساتھ نماز پڑھتا تھا اور نہ اس نے وہاں موجود نمازِ جنازہ میں شرکت کی جبکہ لوگ نماز میں مشغول تھے اور وہ بار بار دھراتا اور اپنی آواز بلند کرتا۔ پھر جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو لوگ اس کی طرف لپکے اور اسے پکڑ لیا اور اچانک وہاں جنازے میں موجود شافعی قاضی نمودار ہوئے تو میں اس کے پاس آیا اور اس شخص سے پوچھنے لگا کہ کس نے آلِ محمد پر ظلم کیا تو وہ کہنے لگا ابوبکر الصدیق نے پھر وہ اونچی آواز سے بکنے لگا جبکہ لوگ سن رہے تھے '' اللہ کی (نعوذ باللہ) لعنت ہو ابو بکرؓ ، عمرؓ، عثمانؓ ، معاویہؓ اور یزیدؒ پر۔ اس نے یہ بکواس تین مرتبہ دہرائی تو حاکم نے اسے جیل بھجوادیا۔ پھر اسے مالکی نے بلایا اور اسے کوڑے مارے گئے اور وہ چیخ کر لعن طعن کرنے لگا اور ایسا کلام کرنے لگا جو ایک شقی انسان ہی کر سکتا ہے۔ پھر جمعرات کے دن دارالسعادۃ میں ایک عدالت لگائی گئی اور وہاں چاروں قاضی آئے اور اللہ نے چاہا تو اس کے قتل کا حکم دیا گیا ۔ پھر اسے تیزی سے لے جا کر قلعہ کے نیچے اس کی گردن اڑاد ی گئی۔پھر عامۃ الناس نے اس کی نعش کو جلایا اور اس کا سر لے کر شہر میں گھومنے لگے اور یہ آواز لگانے لگے... یہ ہے سزا اس شخص کی جو اصحاب رسول اللہ کو گالی دیتا ہے۔ میں نے خود اس جاہل کو مالکی قاضی کے دفتر میں دیکھا تھا جبکہ وہ غالی رافضیوں کے جیسی بکواسات کررہا تھا۔اس نے ابن مطہر کے ساتھیوں سے کفر وزندقہ سیکھ رکھا تھا، اللہ کی ان پر لعنت ہو۔

السبکی اسی واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں اور انہوں نے اس میں ایک رسالہ بھی تحریر کیا اور کہا کہ اس رسالہ کی تحریر کا سبب یہ ہے کہ میں جامع اموی میں سوموار16 جمادی الاولیٰ755 ہجری کو ظہر کی نماز ادا کر رہا تھا تو میرے پاس ایک شخص کو لایا گیا جس نے نماز کے دوران مسلمانوں کی صفیں توڑتے ہوئے بھونکنا شروع کیا کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر جس نے آلِ محمد پر ظلم کیا تو وہ اس بات کو بار بار دہرانے لگا۔ تو میں نے اس سے سوال کیا وہ کون ہے؟ کہنے لگا ابوبکرؓ، میں نے کہا ابو بکر الصدیقؓ! کہنے لگا ابوبکر عمر، عثمان یزید اور معاویہ رضی اللہ عنہم ۔ تو میں نے اسے جیل میں ڈالنے کا حکم دیا اور اسکی گردن میں طوق ڈال دیا۔پھر اسے مالکی قاضی نے مارا اور وہ اس بات پر مصر تھا اور اس پر یہ زیادہ کرنے لگا کہ ''فلاں بھی اللہ کا دشمن ہے''اور اس پر میرے کچھ گواہوں نے گواہی دی اور کہا کہ وہ کہتا تھا '' کہ وہ غیرِ حق کی موت مرا اور اس نے فاطمہؓ کے ساتھ میراث میں ظلم کیا'' یعنی ابو بکر صدیقؓ نے اور اس نے نبیﷺ کی نعوذ باللہ تکذیب کی اسکو میراث سے محروم کرتے ہوئے۔ تو مالکی نے اسے دوبارہ مارا اور وہ اس بات پر مصر رہا۔ پھر اسے جمعرات19 جمادی الاولیٰ کو لایا گیا اور اس کے سامنے گواہیاں پیش کی گئی تو اس نے انکار بھی نہ کیا اور کچھ نہ بولا اور پھر کہنے لگاکہ ''اگر میں نے ایسا کہا ہے تو اللہ ہی اسے جانتا ہے''۔ اس پر باربار سوال دہرائے گئے تو وہ یہی جواب دیتا رہا او ر اسے کہا گیا کہ اپنے گناہ سے توبہ کر تو وہ کہنے لگا ''میں نے اپنے گناہوں سے توبہ کرلی''۔ توبہ کرنے کا سوال باربار دہرائے جانے پر اس نے اس سے زیادہ جواب نہ دیا۔ اس کے بعد مجلسِ عدالت میں بحث ہوئی اور اس کے کفر و توبہ پر غور کیا گیا جس کے بعد مالکی قاضی نے اس کے قتل کا حکم دے دیا۔پھر اسے قتل کردیا گیا (۵۹)۔

(۶)ابن کثیر765 ہجری جمادی الثانی کے احوال بیان کرتے ہیں کہ جمعرات کے دن ، دن کے آغاز میں ایک شخص جامع اموی میں پایا گیا جس کا نام محمود بن ابراہیم الشیرازی تھا۔وہ شیخین کو گالیاں دے رہا تھا اور بہت بلند آواز تھا۔ تو معاملہ مالکی قاضی، قاضی القضاۃ جمال الدین المسلاتی کے پاس لے جایا گیا۔ اسے توبہ کرنے کو کہا گیا اور ساتھ کوڑے مارنے والے کو بلایا گیا ۔ پہلی ضرب پے وہ کہنے لگالاالٰہ الااللہ، علی ولی اللہ۔ پھر جب اسے دوسری ضرب لگائی گی تو اس نے ابو بکر وعمر پر لعنت کی تو لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور اسے خوب مارا یہاں تک کہ قریب تھا وہ ہلاک ہو جائے تو قاضی انہیں روکنے لگے لیکن نہ روک سکے۔ تو وہ رافضی صحابہ کو گالیاں بکنے لگا۔ اوربکنے لگا کہ وہ سب کے سب گمراہ تھے تو اس وقت اسے پکڑ کر نائب سلطنت کے پاس لے جایا گیا اور اس پر گواہیاں دی گئیں تو پھر قاضی نے اس کاخون بہانے کا حکم دیا۔ اسے شہر کے مرکزی حصہ میں لے جایا گیا اور وہاں اس کی گردن اڑا دی گئی اور پھر عام لوگوں نے اسے جلا دیا۔ اللہ اسے رسوا کرے اور یہ مدرسہ ابی عمرو کا طالب علم تھا پھر اس پر رفض غالب آگیا؛ تو حنبلی نے اسے چالیس دن کے لیے جیل بھیج دیا لیکن اس قید نے اسے نفع نہ دیا اور وہ ہر جگہ پر یہی بکواسات کرنے لگا یہاں تک کہ اسی دن وہ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ اس نے اپنے مذہب کا اظہار جامع اموی میں جا کر کیا اور یہی اس کے قتل کا سبب بن گیا۔ اللہ اسے رسوا کرے جیسے اس سے قبل اس جیسے ملعونوں کو اس نے رسوا کیا۔

(۷) ابن کثیر 574 ہجری کے حوادث کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بغداد میں ایک شاعر رافضیوں کے لیے شاعری کیا کرتا تھا اور صحابہ کرام کو شعروں میں گالیاں دیتا ۔ تو اس کے لیے خلیفہ کے حکم پر ایک عدالت لگائی گئی پھر اسے بات کرنے کا موقع دیا گیا تو وہ ایک خبیث رافضی نکلا اور وہ رافضیت کا داعی تھا۔ پھر فقہاء نے اس کی زبان اور ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا۔ پھر اس کے بعد اسے عام لوگوں نے اچک لیا اور وہ سب اسے مارنے لگے یہاں تک کہ اس نے دریائے دجلہ میں چھلانگ لگادی۔ تو لوگوں نے اسے دریا سے نکالا اور اسے قتل کر دیا۔ پھر لوگوں نے اس کے پاؤں میں رسی باندھی اور لے کر سارے شہر اور اس کے بازاروں کا طواف کیا۔ اس کے بعد اسکی نعش کو گندگی کے ایک جوہڑ میں پھینک دی جہاں سے اسے نکالنا ممکن نہ تھا۔

ابن الجوزی نے ذکر کیا ہے کہ اس شاعر کا نام ''ابو السعادت ابن قرایا''تھا۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ وہ تسبیح کرنے لگا اور لوگ اسے مارنے لگے یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ پھر انہوں نے اسے نکالا اور اسے جلادیا پھر اسے ایک گندے جوہڑ میں پھینک دیا گیا۔ حتیٰ کہ کچھ دنوں بعد جب اسے نکالا گیا تو لوگ کہنے لگے کہ مچھلیوں نے بھی اسے کھانا گوارا نہیں کیا۔ لوگوں نے اس کے بارے میں بہت شعر کہے۔ اس کے بعد رافضیوں کی جماعت کا پیچھا کیا جانے لگا اور لوگ ان کی کتابوں کوبنا پڑھے کہ کیا لکھا ہے ، جلانے لگے ۔ وہ اس خوف سے نہ پڑھتے تھے کہ کہیں ان پر اثر نہ کر جائیں۔ پس یک بارگی رافضیوں کا بیج ختم ہوگیا اور وہ یہودیوں سے بھی زیادہ ذلیل ہوگئے۔

(۸)ابن کثیرؒ 744 ہجری کے واقعات میں لکھتے ہیں کہ 21جمادی الاولیٰ کو الخیل کے بازار میں حسن بن الشیخ السکاکینی کو قتل کردیا گیا بسبب اس رافضی عقیدے کے جس کا اس نے اظہار کیا۔ قاضی شرف الدین المالکی کے ہاں اسکی گواہی دی گئی اور بہت ساری گواہیاں آئیں جو اس کے کفر پر دلالت کرتی تھیں کہ وہ رافضی عقیدہ کا مالک ہے۔ پس اس میں وہ شیخین رضی اللہ عنہما کی تکفیر کرتا، مومنوں کی ماؤں عائشہ و حفصہ رضی اللہ عنہما پر بہتان باندھتا اور اس کو یہ زعم تھا کہ جبریل نے غلطی سے وحی محمدﷺ کی طرف کردی جبکہ انہیں دراصل علی کرم اللہ وجہ کی طرف بھیجا گیا تھا۔اس طرح کے بہت سے قبیح اقوال کا وہ حامل تھا۔
تراجم وحوالہ جات
(۵۰)الذہبی کہتے ہیں المتوکل علی اللہ ، خلیفہ، ابو الفضل جعفر بن معتصم باللہ محمد بن الرشید ہارون بن المہدی بن منصور، القرشی، العباسی، البغدادی۔205 ہجری میں پیدا ہوئے اور خلافت کے لیے ان کی بیعت232ہجری میں کی گئی۔ خلیفہ بن خیاط کہتے ہیں جب متوکل خلافت پر متمکن ہوا تو اس نے سنت کو عام کیا اور اپنی مجلسوں میں اس کی بات کرتا اور اس نے تمام اطراف میں لکھ بھیجا کہ سنت کو عام کیا جائے اور اس کے اہل کی نصرت کی جائے۔ انہیں247 ہجری میں قتل کردیا گیا۔
(۵۱)المقریزی کہتے ہیں دیبق دمیاط کی ایک بستی ہے جہاں بھاری کپڑے، عمامے اور رنگ برنگے شربت بہت بنائے جاتے تھے۔ اور الدیبقی سونے کا رنگ چڑھے جھنڈے کو بھی کہتے ہیں[المواعظ والاعتبار]
(۵۲) تاریخ دمشق لابن عساکر تذکرہ القاضی ابی الحسن الزیادی۔
(۵۳) الشوکانی کہتے ہیں؛ احمد بن علی بن عبد القادر...التقی ابو العباس، الحسینی العبیدی البعلی الاصل،القاہری، المعروف بابن المقریزی۔یہ بعلبک کے علاقے کی طرف نسبت ہے جسے المقارزہ کہا جاتا ہے۔انہوں نے متعدد فنون میں مہارت حاصل کی فضائل میں مشارکت کی نظم ونثر بھی کہی اور حکومت میں بھی رہے اور انہیں ایک سے زیادہ دفعہ الحسبہ کا محکمہ قاہرہ میں دیا گیا ۔۔ ابن حجر کہتے ہیں کہ انکی نظم بہت فائق اورنثر بہت اعلیٰ پائے کی تھی۔اور ان کی تصانیف بہت اعلیٰ تھی خاص طور پر تاریخ القاہرہ میں جس میں انہوں نے نقد وجرح کر کے صحیح تاریخ کو نکھارا۔845 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۵۴) المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار۔اہلِ مصر کے مذاہب اور جب سے جناب، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اسے فتح کیا ائمہ کا اعتقاد یہاں پھیل گیا اور وہاں جو احداث ہوتے رہے اس کا تذکرہ۔
(۵۵) الذہبی کہتے ہیں الشیخ العلامہ، الحافظ المفسر،، شیخ الاسلام مفخر العراق، جمال الدین ابو الفرج ، عبد الرحمن علی بن محمد... ابن الفقیہ القاسم بن محمد۔ ابن خلیفۃ رسول اللہ ابوبکر الصدیق۔ القرشی البغدادی الحنبلی، الواعظ۔ صاحبِ تصانیف۔509 ہجری میں پیدا ہوئے وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے اپنی ان انگلیوں سے دو ہزار جلدیں لکھیں اور ان کے ہاتھ پر ایک لاکھ لوگوں نے توبہ کی اور ان کے ہاتھ دس ہزار لوگوں نے اسلام قبول کیا۔597 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۵۶) یعنی حنابلہ۔
(۵۷)اسے عباسی خلیفہ القادر نے تالیف کیا اور اس کی نص کا تذکرہ ابن الجوزی نے ''المنتظم'' میں کیا ہے433ہجری کے واقعات کے تذکرہ میں۔
(۵۸)الذہبی ''السیر'' میں کہتے ہیں الامام العلامہ الصالح، شیخ المتکلمین، ابوبکر محمد بن الحسن بن فورک الاصبہانی۔ وہ اشعریۃ سے تعلق رکھتے تھے اور علم الکلام میں ماہر تھے اور ان سے ابو الحسن الباہلی نے اخذ کیا ۔جبکہ فقہ میں وہ امام شافعی کے پیروکار تھے۔ ابن خلکان کہتے ہیں ان کی تصنیفات کی تعداد سو کے قریب ہے۔406 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۵۹)فتاوی السبکی باب جامع ؛قولہ تعالیٰ (وَ وَرِث سلَيْمَنُ دَاوُدَ)النمل16۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
اس دعویٰ کا رد کہ فقہاء رافضہ کے حکم میں مختلف ہیں!
اوپر کے صفحات میں ہم نے متعدد فقہاء کے اقوال نقل کیے ہیں جن میں رافضیوں کے گروہ کی تکفیر پر اجماع کی حکایت بیان کی گئی ہے۔ پھر اس کے بعد ہم نے دوسرے چند اقوال نقل کیے جس سے یہ وہم ہوتا ہے کہ رافضیوں پر حکم میں اختلاف موجود ہے!پھر بعض لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا یہ تناقص نہیں ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ یہ تناقض موجود ہے...لیکن فقط ذہن میں جس کسی نے اس مسئلہ میں فقہاء کے اقوال کا احاطہ نہیں کیا یا اس نے بعض سے صرفِ نظرکرتے ہوئے یا پھر رافضہ پر حکم لگایا تو صرف ان کے صحابہ کے بارے میں موقف کی جہت میں اور ان اسباب کو کلی طور پر ترک کردیا جن کے سبب فقہاء نے ان پر کفر کا حکم لگایا۔ جبکہ ایسے احکام کس قدر کثرت کے ساتھ وارد ہیں۔رافضہ کے کفرکے اسباب کس قدر ہیں ... جیسے ان کا طاغوت کی عبادت کرنا، ان کے لیے دعا نذر اور حج کرنا۔ اپنے بعض ائمہ میں رب کی صفات کا اعتقاد رکھنا۔جیسے علمِ غیب وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں نقص بیان کرناجیسے کہ بدئ،تعطیل صفات۔ اس مسئلہ میں وہ معتزلہ کے بھائی ہیں۔ ان کا تحریفِ قرآن کا عقیدہ رکھنا، سنتِ نبویہ کی نصوص کا انکار کرنا کیونکہ وہ صحابہ سے مروی ہیں اور صحابہ ان کے نزدیک کافر ہیں۔اسلام کے دشمنوں کی مسلمانوں کے خلاف مدد کرنا... ایسے امور کس قدر مشہور ہیں ...!
ابن حجر الہیتمی (۶۰) کہتے ہیں کہ اہل السنۃ علی ؓ کو ابوبکر ؓ پر فضیلت دینے والے کی تکفیر نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ امت کے جن لوگوں نے رافضیوں کو کافر قرار دیا ہے تو اس کے اور اسباب ہیں جو ان کی قباحتوں میں سے ہیں(۶۱)۔

رافضیت کا دین دوسرے باطل ادیان کی طرح ایک بشر کا بنایا ہوا غیر ثابت دین ہے... جو زمانے کے تغیرات کے ساتھ اپنے رنگ بدلتا ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ کسی دور میں ایک شیعہ فقیہ ایک مسئلہ میں کوئی فتویٰ جاری کرتا ہے تو دوسرے کسی دور میں وہ اس سے بالکل مختلف حکم لگا دیتا ہے۔

امام الذہبی اسی تغییر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ غالی شیعہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اور سلف کے زمانہ میں ایسے تھے جو عثمان، طلحہ، زبیر،معاویہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں باتیں کرتے تھے اور ایک جماعت علی رضی اللہ عنہ سے لڑتی تھی اور آج ہمارے زمانے کے شیعہ وہ تمام سرداروں پر تبرا کرتے ہیں اور ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما بھی کو گالیاں دیتے ہیں(۶۳)۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ (۶۴) کہتے ہیں کہ پہلے شیعہ اصحابِ علی تھے اور اس وقت وہ ابوبکر و عمر کی علی پر فضیلت کے بارے میں ذرہ برابر شک نہ کرتے تھے لیکن شیعانِ علی کا ایک گروہ انہیں جنابِ عثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتا تھا۔(۶۵)۔

پس شیعیت نے اپنا آغاز ایسے کیا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کو جنابِ عثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتے تھے۔ لیکن بعد میں یہ ترقی کرتے گئے اور انہوں نے ایک مکمل طور پر اسلام سے مختلف نیا دین بنا لیا۔

یہاں تک کہ عبد اللہ بن عبد الرحمن ابی بطین(۶۶)نے کہا کہ رافضیوں کے متاخرین نے رافضیت کے ساتھ شرک کو بھی جمع کرلیا جب وہ اپنی زیارتوں پر جاکے شرکیہ کاموں کا ارتکاب کرتے ہیں اور ایسا شرک کہ جس حد تک جناب ِ رسالتماٰب ﷺکی بعثت کے وقت عربوں کا شرک بھی نہ پہنچا تھا۔

زین العابدین بن یوسف الکردی اس دعویٰ کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ائمہء متقدمین بالجملہ رافضیوں کے دشمن تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ آئمہ اور علماء جنہوں نے رافضیوں کے کفر کا فتویٰ دیا وہ ان کے احوال سے زیادہ واقف تھے لیکن ان متاخرین رافضہ کا کیا کریں جو کسی بھی چیز پر باقی نہیں بلکہ وہ گمراہ ہیں اور اس قدر غالی ہیں کہ اپنے متقدمین کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ آئمہ کو ان کے حال کیا علم؟

یہ ایک جہت سے ہے۔ جبکہ دوسری جہت یہ ہے کہ فقہاء سے منسوب جو اختلاف ذکر کیا گیا ہے وہ محض گالی کی قسمِ کے اوپر حکم ہے نہ کہ رافضیوں کے عقائد کے اجتماعی حکم بارے میں۔

یہ اس سبب ہے کہ صحابہ کو گالی دینے کا حکم متعدد اعتبارات سے مختلف ہوتا ہے اور اس میں گالی دینے والی کی حیثیت و کیفیت کا بھی عمل دخل ہے۔ کہ کیا وہ محض گالی دینے تک محدود ہے یا پھر وہ گالی اسے تکفیر کی طرف لے جاتی ہے؟کیا وہ گالی لعنت کرنے کے باب میں ہے یا پھر کسی اور قسم کی؟... کیا اسکی گالی اسے مجرم بناتی ہے یا نہیں؟...الخ جیسے کہ فقہاء کے کلام میں مذکور ہے۔

اسی لیے ابو الثناء الآلوسی رافضیوں کی تکفیر پر اجماع نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں'' کہ یہ جو روایت کیا گیا کہ گالی دینے والے کو مارا جائے اور شدید ضرب ماری جائے۔ یہ اس بات پر محمول ہے جب اسکی گالی صحابہ کی تکفیر کو لازم نہ کرتی ہو اور اس کے ساتھ کوئی ایسا دعویٰ ان کی نسبت بغض، ارتداد یا استحلال ایذا کا نہ کیا گیا ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مطلقاًصرف گالی دینے والے کا حکم یہ ہے جیسے کہ اس کا تتابع کرنے والے سے یہ بات مخفی نہیں ہے(۶۹)۔

السبکی کہتے ہیں جو بندہ یہ کہے کہ صحابہ کوگالی دینے والا کافر نہیں ہے تو ایسے شخص سے یہ بھی بعید نہیں کہ وہ اعلام صحابہ کو گالی دینے والے کی بھی تکفیر نہ کرے۔ پس ہمارے نزدیک دو وجوہ ہیں (۷۰) کہ ہم نے اس کو فسق پر محمول کیا جبکہ گالی دینے والا مجرد گالی دے اور یہ موقف امام احمد کا ہے کہ ہم اس کے قتل کے حکم سے اجتناب کریں گے جو مجرد گالی دینے کا ارتکاب کرے(۷۱،۷۲)۔

ذیل میں یہاں ہم ایسے اقوال پیش کررہے ہیں جن میں فقہاء نے گالیوں کی اقسام میں تفریق کی ہے اور یہ کہ صحابہ کو گالی دینا کفریہ فعل ہے۔ یہ اقوال ان اقوال کی توجیہ ہیں جن میں آئمہ کے رافضیوں کے بارے میں حکم کا اختلاف ذکر کیا جاتا ہے۔

امام مالک (۷۳) کہتے ہیں جس نے کسی ایک صحابی کو گالی دی جیسے کہ ابو بکر صدیق، عمرِ فاروق، عثمانِ غنی یا علی یا معاویہ یا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم کو، پس اگر وہ گالی دینے والا یہ کہے کہ وہ سب گمراہ تھے اور کافر تھے تو اسے قتل کیا جائے گا اور اگر اس کے علاوہ وہ محض گالی دے جیسے عام لوگ گالی دیتے ہیں تو پھر اسے شدید ضرب لگائی جائے گی (۷۴)۔
(۲)محمد بن عبد الوہاب (۷۵)کہتے ہیں جس نے کسی صحابی کو گالی دینے میں خاص کیا اور ایسا صحابی اس پائے کا ہو کہ اس کے فضل و کمال میں تواتر کے ساتھ ثبوت وارد ہوں جیسے کہ خلفاء راشدین۔ پس اگر ایسا گالی دینے والا حقیقتاً اس کا اعتقاد بھی رکھتا ہے تو وہ کافر ہے کیونکہ وہ اس بات کی تکذیب کر رہا ہے جو نبی ا سے قطعیاً ثابت ہے اور اس کی تکذیب کرنے والا کافر ہے اور اگر اس نے گالی بغیر اعتقاد رکھے دی ہے تو وہ فاسق ہے کیونکہ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے جبکہ بعض فقہاء نے شیخین رضی اللہ عنہما کو مجرد گالی دینے والے کو کافر قرار دیا ہے ( واللہ اعلم)۔ پس اگر کوئی ایسا صحابی جس کے فضل و کمال کے بارے میں تواتر کے ساتھ اخبار وارد نہ ہوں تو ظاہر بات یہ ہے کہ گالی دینے والا فاسق ہے لیکن اگر وہ اسے محض اللہ کے رسول ا کی صحبت اختیار کرنے کی بنا پر گالی دیتا ہے تو وہ کافرہے اور ان رافضیوں کی غالب اکثریت صحابہ کو خلفاء سمیت گالی دیتی ہے اور حقیقاً اس کا عقیدہ بھی رکھتی ہے بلکہ وہ اسے واجب سمجھتے ہیں اور اس کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اسے وہ اپنے دین کے امور خیال کرتے ہیں ۔ جیسے کہ یہ ان سے منقول ہے (۷۶)۔

(۳)ملا علی قاری کہتے ہیں کہ جو صحابہ میں سے کسی ایک کو گالی دے تو وہ بالاجماع فاسق و بدعتی ہے سوائے اس کے کہ جب وہ اس بات کے مباح ہونے کا اعتقاد رکھے یا اس پر ثواب کی امید رکھے جیسے کہ بعض شیعہ کا حال ہے یا وہ صحابہ کے کفر کا اعتقاد رکھے تو وہ بالاجماع کافر ہے۔ پس دیکھا جائے گا کہ اگر اس کے ساتھ ایسے قرائن پائے جائیں جو تکفیری ہوں وگرنہ دوسری صورت میں وہ فاسق ہے۔ لیکن وہ ہمارے علماء کے نزدیک سیاسی طور پر بھی قتل کیا جائے گا تاکہ ان لوگوں کے شر و فساد کو ختم کیا جائے(۷۷)۔

(۴) ابنِ تیمیہ کہتے ہیں پس جو کوئی صحابہ کو گالی دے تو اس کا یہ گالی دینا کسی طور بھی ان کی عدالت اور دین میں قدغن عائد نہیں کرتا۔ مثلاً کوئی انہیں بخیل، بزدل، کم علم، یا عدمِ زہد وغیرہ کے الزام لگائے۔ پس یہ ایسا شخص ہے جو تادیب و تعزیر کا مستحق ہے اور ایساآدمی محض اس بنا پر کافر نہیں کہا جائے گا۔ پس اسی پر ان علماء کا کلام محمول کیا جائے گا جو ان کی تکفیر نہیں کرتا۔ لیکن جو لعن طعن اور مطلقاً تقبیح کرے تو اس میں ان کے درمیان اختلاف ہے اور وہ بھی اس سبب ہے کہ لعن طعن کے اندر کس قدر شدت اختیار کی گئی ہے اور اس میں اعتقاد کا کتنا عمل دخل ہے۔ لیکن اسکے برعکس اگر کوئی حد سے بڑھتا ہے اور یہ بھونکتا ہے کہ تمام صحابہ نبی ﷺکی وفات کے بعد کافر ہوگئے تھے سوائے چند ایک کے جن کی تعداد دس سے کچھ اوپر ہے یا یہ کہے کہ ان کے عام لوگ فاسق ہو گئے تھے تو ایسے شخص کے کفر میں کوئی شک نہیں کیونکہ وہ ایسی بات کی تکذیب کر رہا ہے جسے قرآن نے کئی ایک مقامات پر بیان کیا ہے {رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ} بلکہ کوئی شخص جو ایسے آدمی کے کفر میں شک کرتا ہے تو اس کا کفر متعین ہے کیونکہ اس بات کا مضمون یہ ہے کہ کتاب و سنت کے حاملین کافر اور فاسق تھے جبکہ یہ امت وہ ہے جس کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں{ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ}تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے{آل عمران110} اور اس کا سب سے بہتر دور قرنِ اول ہے۔ یہ کہنا کہ اس امت کے سابقہ لوگ شریر تھے تو ایسے شخص کا کفر دین میں معلوم ہے اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جس کسی سے اس قسم کے اقوال ظاہر ہوئے تو واضح ہوتا ہے کہ وہ زندیق ہے جبکہ عام زنادقہ اپنے مذہب کے پردے میں رہتے ہیں۔ بالجملہ اس قسم کی گالی دینے والے کے کفر میں کوئی شک نہیں اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کے کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا اور بعض کا حکم متردد ہے(۷۸)

(۵)ابو عبد اللہ الخرشی(۷۹) کہتے ہیں کہ قسطربی نے مسلم کی شرح میں کہاصحابہ رضی اللہ عنہم کے احترام کے واجب ہونے اور ان کو گالی دینے کی تحریم میں کوئی اختلاف نہیں اور ایسے شخص کے کفر میں اور اس کے قتل کیے جانے میں بھی کوئی اختلاف نہیں جو یہ کہے کہ وہ کفر و گمراہی پر تھے۔ کیونکہ اس نے ایسی چیز کا انکار کیا ہے جو شریعت سے معلوم ہے، پس اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺکی تکذیب کی ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو خلفاء راشدین میں کسی ایک کو کافر قرار دیتا ہے یا انہیں گمراہ کہتا ہے تو کیا اس کا حکم مرتد کا حکم ہے کہ اس سے توبہ کروائی جائے یا وہ زندیق ہے کہ اس سے توبہ نہ کروائی جائے اور ہر حال میں قتل کیا جائے؟ ان امور میں قدرے اختلاف ہے۔ پس اگر کوئی انہیں گالی دے اور اسکی گالی ایسی ہو جو حد واجب کرتی ہو جیسے کہ قذف کی تو اسے قذف کی حد لگائی جائے گی۔ پھر اس کے بعد اسے شدید مار ماری جائے گی اور ہمیشہ کے لیے اہانت کے ساتھ جیل میں پھینک دیا جائے گا سوائے اماں عائشہ سیدہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کے ، کیونکہ ان پر الزام لگانے والے کو قتل کردیا جائے گا کیونکہ وہ کتاب و سنت کے ذریعے مبرّا پر الزام لگا رہا ہے۔ لیکن ان کے علاوہ دوسری ازواجِ مطہرات کے بارے میں اختلاف کیا گیا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ اسے بھی قتل ہی کیا جائے گا کیونکہ اس نے نبی ﷺ کو اذیت دی۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس پر حد لگائی جائی گی اور شدید ضرب لگائی جائے گی۔ لیکن جو کوئی اس کے علاوہ گالی دے جس میں قذف نہ ہو تو اسے شدید قسم کے کوڑے مارے جائیں گے۔

ابن حبیب کہتے ہیں او ر اسے ہمیشہ کے لیے جیل میں ڈال دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ مر جائے۔ امام مالک سے مروی ہے کہ جو اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو گالی دے اسے مطلقاً قتل کردیا جائے گا اور اس کی گالی کو قذف پر محمول کیا جانا ممکن ہے۔ انہوں نے ''الاِکمال''میں کہا اور ان کا مشہور مذہب یہ ہے کہ اس میں اجتہاد ہے کہ اس میں گالی کی بکواس کی کیفیت وکیمیت کو دیکھا جائے گااور ایسے آدمی کا فئے میں بھی کوئی حق نہیں اور اگر کسی نے کہا کہ وہ کفر و گمراہی پر تھے تو اسے قتل کیا جائے گا۔

امام سحنون سے ائمہ اربعہ کی توہین کرنے والے کے بارے میں بھی ایسے ہی مروی ہے کہ اس کے علاوہ میں اسے شدید ضرب لگائی جائے گی۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ جمیع صحابہ رضی اللہ عنہم کے معاملے میں وہ قتل کیا جائے گا۔ پس ان کے قول سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ امام مالک نے یہ کہا کہ جس کسی نے کسی ایک صحابی کو گالی دی چاہے وہ خلفائے اربعہ کے علاوہ ہوں اسے قتل کیا جائے گا(۸۰)۔

(۶)قاضی ابو یعلیٰ کہتے ہیں کہ فقہاء کا صحابہ کو گالی دینے والے کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اگر گالی دینے والا اسے جائز و حلال جانتا ہے تو وہ کافر ہے اور اگر اسے حلال نہیں جانتا تو وہ فسق ہے اور اسکی تکفیر نہیں ہوگی(۸۱)۔

اور وہ کہتے ہیں کہ امام احمد سے سَبُّ الصَّحابةمیں اختلاف روایات کی توجیہ یہ ہے کہ انہوں نے مطلقاً اس بات کو لیا کہ گالی دینے والا کسی صحابی کو گالی دینے سے کافر ہوگا۔ لیکن عبد اللہ اور ابی طالب کی روایت میں انہوں نے قتل سے توقف کیا ۔ کمالِ حد اور تعزیر کو جاری کرنے کا مطلب ہے کہ انہوں نے اس میں کفر کا حکم نہیں لگایا۔ اس کا احتمال ہے کہ ان کا قول اس بات پر محمول کیا جائے جو میری رائے میں اسلام کے مطابق ہے کہ اگر وہ گالی دینے کو حلال جانے تو وہ بلا شبہ کافر ہے لیکن اس بندے پر سے قتل ساقط کرنے کا احتمال ہے جو اسے حلال نہ جانتا ہو بلکہ اس نے اپنے اعتقاد کے مطابق اس عمل کو حرام جانتے ہوئے اس کا ارتکاب کیا جیسے کوئی معصیت کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ بھی احتمال ہے میری رائے میں کہاں کا گالی دینا انکی عدالت میں قدغن عائد کردیتا ہے مثلاً جب وہ کہے کہ انہوں نے نبی ا کے بعد ظلم و فسق کے سبب امارت کو بغیر حق کے چھینا ۔ اسی طرح اس سے قتل اس قسم کے قول سے ساقط ہو سکتا ہے ایسی گالی سے جو صحابہ کے دین میں طعن نہ کرتی ہو۔ مثلاً کوئی کہے کہ وہ کم علم تھے، سیاست نہ جانتے تھے ان میں دنیا کی محبت اور لالچ تھی وغیرہ۔یہ بھی احتمال ہے کہ ان کا کلام ظاہر پر محمول کیا جائے۔ تو ان کی گالی دینے والوں پر دو روایتیں بن گئی ایک میں تکفیر اور دوسری میں فسق(۸۲)۔

اس کی مزید تفاصیل اس تفریق کے ضمن میں وارد ہوں گی۔
تراجم وحوالہ جات
(۶۰) الشوکانی کہتے ہیں احمد بن محمد بن حجر الوائلی السعدی الہیتمی المصری ثم المکی...انہوں نے تمام علوم میں مہارت حاصل کی خاص طور پہ شافعی فقہ میں اور بہت اچھی تصانیف چھوڑیں۔ وہ بہت زاہد و صالح انسان تھے اور سلف صالحین کے طریق پر تھے۔ معروف کا حکم دینے والے اور برائیوں سے روکنے والے۔909 ہجری میں پیدا ہوئے اور 973 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۶۱) الصواعق المحرقہ، الباب الثالث، الفصل الاول۔
(۶۲) ابن قاضی شہبہ کہتے ہیں محمد بن احمد بن عثمان بن قائماز، الامام العلامہ، الحافظ المقری مئورخ الاسلام ابو عبد اللہ الترکمانی الفاروقی الدمشقی۔ انہوں نے خلقتِ کثیر سے سماع کیا جن کی تعدادبارہ سو کے قریب ہے۔ انہوں نے قراتیں پڑھیں اور ان میں مہارت حاصل کی اور باقی علوم کو بھی پڑھا۔ پھر وہ حدیث کی طرف متوجہ ہوئے اور اس میں مہارت حاصل کی اور آپ کے پاس پڑھ کر بہت سے حفاظ نکلے۔ آپ نے بہت مشہور تصانیف چھوڑیں۔آپ انتہائی متقی و پرہیز گار تھے۔ 673ہجری میں پیدا ہوئے۔ السبکی کہتے ہیں محدث العصر ، خاتم الحفاظ، حاملِ علمِ اہل السنۃ والجماعۃ، حفظ میں اپنے دور کے لوگوں کے امام اور مہارت میں ایسے مایہ ناز کہ ان کے عصر کے لوگ حیران رہ جاتے اور کہتے کہ ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ تم ہم سے زیادہ حافظ ہو ہمارے شیخ و استاد ہو اورہماری تخریج کرنے والے ہو۔748ہجری میں فوت ہوئے۔
(۶۳) میزان الاعتدال فی ترجمۃ أبان بن تغلب۔
(۶۴) ابن رجب کہتے ہیں احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام... ابن تیمیہ الحرانی، ثم الدمشقی، الامام، الفقیہ، المجتہد، المحدث ، الحافظ المفسر، الاصولی، الزاہد، تقی الدین، ابو العباس، شیخ الاسلام وعلم الاعلام آپ کی شہرت اس قدر ہے کہ اسکو بیان کرنا گویا عیب لگانا ہے۔661 ہجری میں پیدا ہوئے۔ابن دقیق العید کہتے ہیں کہ میں گمان نہیں کرتا کہ اللہ اب تیرے جیسا کوئی پیدا کرے گا۔ آپ کی وفات جیل میں768 ہجری میں ہوئی۔
(۶۵)منہاج السنۃ
(۶۶)عبد اللہ بن عبد الرحمن بن عبد العزیز...أبا بُطَین العائذی الحنبلی نجد میں1194 ہجری میں پیدا ہوئے۔ انہیں طائف، شقرا اور اس کے بعد تمام قصیم کی قضاء سونپی گئی۔1282ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔
(۶۷) الرسائل والمسائل النجدیہ؛الجزء الاول، القسم الثالث۔
(۶۸)الیمانیات المسلولۃ علی الرافضہ المخذولۃ، الخاتمہ
(۶۹)الاجوبۃ العراقیہ علی الاسئلۃ اللاہوریۃ؛ الفصل الثالث۔
(۷۰) یعنی شافعیہ کے نزدیک
(۷۱)اشارہ کرتے ہیں جسے ابو طالب نے روایت کیا کہ میں نے امام احمد سے سوال کیا اس شخص کے بارے میں جو اصحاب رسول ﷺکو گالی دیتا ہے تو انہوں نے کہا وہ قتل نہ کیا جائے گا لیکن اسے شدید ضرب لگائی جائے گی ( بحوالہ الصارم المسلول)۔
( ۷۲)فتاویٰ السبکی؛ باب جامع؛ فصل سب النبیﷺ۔
(۷۳) الذہبی کہتے ہیں مالک ،الامام ، شیخ الاسلام، حجۃ الامۃ، امام دار الہجرۃ، ابو عبدا للہ مالک بن انس بن مالک... الحمیری ثم الاصبحی، المدنی...93 ہجری میں پیدا ہوئے نبیﷺ سے مروی ہے {لیضربن الناس أکباد الابل فی طلب العلم، فلا یجدون عالماًأعلم من عالم المدینة} کہ لوگ علم کی طلب میں لمبے لمبے سفر کریں گے لیکن انہیں مدینہ کے ایک عالم کے علاوہ کوئی عالم نہ ملے گا ( اسے امام احمد ، ترمذی نے روایت کیا اور ترمذی نے اسے حسن کہا اور حاکم نے اسے صحیح کہا اور ابنِ حبان نے اسے روایت کیا)
(۷۴) الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ فصل؛ نبیﷺ کو ،آپ کے اہلِ بیت اور صحابہ کو گالی دینے اور ان کی تنقیص کے حرام ہونے اور اس کے فاعل کے ملعون ہونے کے بار ے میں۔
(۷۵) الامام محمد بن عبد الوہاب بن سلمان التمیمی ۔1115 میں پیدا ہوئے اللہ نے ان کے ہاتھ پر توحید کی دعوت کی تجدید کی ۔ آپ1206 میں فوت ہوئے۔
(۷۶)رسالۃ فی الرد علی الرافضہ؛ مطلب السب۔
(۷۷)شم العوارض فی ذم الروافض، نقلاً عن اصول مذہب شیعہ الامامیہ لناصر القفاری۔
(۷۸)الصارم المسلول، فصل؛ فی تفاصیل القول فیہم
(۷۹)ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ الخرشی۔ ان کی نسبت ایک بستی کی طرف ہے جس کا نام ''ابو خراش''ہے اور یہ البحیرہ مصر میں ہے۔ فقیہ ، مجتہد۔ مصر میں ان پر امامت ختم ہوئی اور وہ سب سے پہلے تھے جنہیں الازہر کا شیخ مقرر کیا گیا1010 ہجری میں پیدا ہوئے اور 1101 ہجری میں قاہرہ میں فوت ہوئے۔
(۸۰)مواہب الجلیل فی شرح مختصر الشیخ خلیل، باب الردۃ، مسئلہ سب عائشہ رضی اللہ عنہا
(۸۱) فتاویٰ السبکی، باب جامع، فصل سب النبیﷺ
(۸۲)الصارم المسلول، فصل فاما من سب أحداً من اصحاب رسول اللہ من اہلِ بیتہ وغیرہم...
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
سلف کے رافضہ کے بارے میں اقوال
(۱)علقمہ(۸۳) کہتے ہیں شیعہ نے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس قدر مبالغہ آمیزی کی جیسے کہ عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بارے میں کی (۸۴)۔

(۲)عامر الشعبی(۸۵) کہتے ہیں میں تمہیں ان گمراہ خواہش پرستوں سے ڈراتا ہوں اور ان میں شریر ترین رافضہ ہیں۔یہ لوگ اسلام میں کسی رغبت و خوف کی بنا پر داخل نہیں ہوئے بلکہ یہ اسلام میں بغض و عداوت کے لیے داخل ہوئے۔ انہیں علی رضی اللہ عنہ نے آگ میں جلایا اور انہیں ملک بدر کیا۔ نکالے جانے والوں میں سے ایک عبد اللہ بن سبا یہودی تھا ۔ یہ یمن کے شہر صنعاء کے یہودیوں میں سے تھا اسے ساباط کی طرف ملک بدر کیا گیا۔ یہودی کہتے تھے کہ حکومت صرف آلِ داؤد کے لیے ہے جبکہ رافضی کہتے ہیں کہ امامت صرف اولادِ علی رضی اللہ عنہ کے لیے ہے۔ یہودی کہتے ہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ جائز نہیں جب تلک کہ دجال کا خروج نہ ہوجائے اور آسمان سے ایک تلوار نازل نہ ہوجائے اور رافضی کہتے ہیں جہاد اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ مہدی ظاہر نہ ہو اور ایک منادی آسمان سے ندا نہ دے۔ یہودی نماز کو ستاروں کے آپس میں گڈ مد ہوجانے تک مئوخر کردیتے تھے اسی طرح رافضی بھی مغرب کو اسی وقت تک اٹھا رکھتے ہیں۔ یہودی قبلہ سے ہٹ کے کھڑا ہوتے ہیں اور رافضہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ یہودی نماز کے دوران ندا دیتے ہیں اور رافضہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ یہودی نماز میں اپنے کپڑے لٹکالیتے ہیں اور رافضی بھی ایسا ہی کرتے ہیں یہودی اپنی عورتوں کی عدت شمار نہیں کرتے اور رافضہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ یہودیوں نے تورات کی تحریف کی اسی طرح رافضیوں نے قرآن میں تحریف کی (لیکن وہ اللہ کے فضل سے محفوظ ہے)۔

یہودی کہتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے ہم پر پچاس نمازیں فرض کی اور رافضہ بھی یہی کہتے ہیں یہودی مومنوں پر سلام نہیں کہتے بلکہ کہتے ہیں السَّام علیکم اور سام کا معنیٰ موت ہے اور رافضہ کا بھی یہی وطیرہ ہے۔ یہودی ، الجری، مرماہی اور خرگوش نہیں کھاتے اور رافضی بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ یہودی موزوں پر مسح کے قائل نہیں اور رافضی بھی ایسا ہی موقف رکھتے ہیں۔ یہودی لوگوں کے تمام اموال کو کھانا جائز سمجھتے ہیں اور رافضی بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ اللہ نے ان کے بارے میں ہمیں قرآن میں یہ خبر دی کہ انہوں نے کہا (لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ)ان پڑھوں پر ہمیں کوئی راہ نہیں(آل عمران 75) اسی طرح رافضہ کہتے ہیں۔ یہود نماز میں قرون پر سجدہ کرتے ہیں اسی طرح رافضہ بھی کرتے ہیں۔ یہودی نماز میں سجدہ نہیں کرتے یہاں تک کہ رکوع کی مانند متعدد بار جھک نہ لیں اسی طرح رافضہ بھی کرتے ہیں۔ یہودی جبرائیل علیہ السلام سے دشمنی رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فرشتوں میں وہ ہمارا دشمن ہے اسی طرح رافضہ بھی کہتے ہیں کہ جبریل غلطی سے محمدﷺکے پاس وحی لے گئے۔

اسی طرح رافضیوں نے عیسائیوں کے ساتھ بھی اتفاق کیا کہ عیسائی اپنی عورتوں کا مہر مقرر نہیں کرتے تھے اور کہتے کہ وہ محض ان کے ساتھ تمتع کرتے ہیں اسی طرح رافضی بھی متعہ کے ساتھ نکاح کرتے ہیں اور متعہ کو حلال جانتے ہیں۔ لیکن یہودیوں اور عیسائیوں پر رافضیوں کو دو ہاتھ زیادہ قباحت ملی دو خصلتوں کی بنا پر۔ یہود سے سوال کیا گیا کہ تمہاری ملت کے اہلِ خیر کون لوگ ہیں؟ کہنے لگے اصحابِ موسیٰ علیہ السلام اور عیسائیوں سے سوال کیا کہ تمہاری ملت کے اہلِ خیر کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے کہا عیسٰی کے حواری اور رافضیوں سے سوال کیا گیا کہ تمہاری ملت کے شریر ترین لوگ کون ہیں تو وہ کہنے لگے اصحابِ محمدﷺانہیں صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا تو انہوں نے انہیں گالیاں دیں...پس ان کے لیے تلوار قیامت تک کام کرتی رہے...ان کا کوئی علم قائم نہ ہو ...ان کے قدموں کو ثبات نہیں اور ان کا کلمہ مجتمع نہیں...اور ان کی دعا مستجاب نہیں...ان کی دعوت مسترد ہے...ان کی ہوا اکھڑی ہوئی ہے ... ان کی جمعیت منتشر ہے ...(كُلَّمَا أَوْقَدُواْ نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللّهُ) وہ جب بھی جنگ کے شعلے بھڑکاتے ہیں اللہ اسے بجھا دیتا ہے(۸۶)۔

(۲)طلحہ بن مصرف (۸۷) کہتے ہیں...الرافضہ؛ انکی عورتوں سے نکاح جائز نہیں اور نہ ان کا ذبیحہ کھایا جائے گا کیونکہ وہ مرتد ہیں(۸۸) اور انہوں نے کہا کہ اگر میں نے وضونہ کیا ہوا ہوتا تو میں تمہیں بتاتا کہ رافضہ کیا کہتے ہیں(۸۹)۔

(۴) قتادہ(۹۰) کہتے ہیں کہ سبائیت ایسی بدعت ہے جو نہ کتاب میں ہے نہ نبی ﷺکی سنت میں (۹۱)۔

(۵)ابنِ شہاب الزہری(۹۲)کہتے ہیں میں نے سبائیت سے بڑھ کر عیسائیوں کے مشابہہ کوئی جماعت نہیں دیکھی(۹۳)۔

(۶) سفیان الثوری (۹۴) ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو گالی دینے والے کے بارے میں کہتے ہیں اللہ العظیم کی قسم وہ کافر ہیں(۹۵)۔

رقبہ بن مصلقہ (۹۶) کہتے ہیں کہ رافضیوں نے تو بہتان کو اپنی حجت بنالیا ہے(۹۷)۔

(۸) عاصم الاحول(۹۸) کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے عثمان کو گالی دی تھی تو میں نے اسے دس کوڑے مارے تو اس نے پھر گالی دی تو میں نے دس اور مارے تو وہ گالی دیتا رہا یہاں تک کہ میں نے اسے ستر کوڑے مارے (۹۹)۔

(۹)مسعر بن کدام (۱۰۰)رافضہ کے ایک آدمی کو کہتے ہیں مجھ سے دور ہو جا کیونکہ تو شیطان ہے (۱۰۱)۔

(۱۰)الاعمش (۱۰۲) کہتے ہیں میں نے ایسے لوگ دیکھے جنہیں صرف جھوٹا کہا جاتا تھا(۱۰۳)۔

(۱۱)الاوزاعی(۱۰۴) کہتے ہیں کہ جس نے ابو بکر الصدیق کو گالی دی تو وہ دین سے مرتد ہوگیا اور اس کا خون مباح ہوگیا(۱۰۵)۔

(۱۲) شریک بن عبد اللہ القاضی (۱۰۶) کہتے ہیں تجھے اتنا ہی کافی ہے کہ رافضہ خبیث ہیں(۱۰۷) اور انہوں نے کہا ہر کسی سے علم حاصل کر سوائے رافضہ کے کیونکہ وہ حدیثیں گھڑتے ہیں اور اسے دین بنالیتے ہیں(۱۰۸) اور انہوں نے کہا چار بندوں کی گواہی مسترد ہے اور ان میں ایک ہے ایسا رافضی جو یہ گمان کرتا ہے کہ اس کا کوئی امام ہے جسکی اطاعت اس پر فرض ہے(۱۰۹)۔

عبد اللہ بن ادریس کہتے ہیں (۱۱۰)کہ کسی رافضی کو حق شفعہ دینا جائز نہیں سوائے مسلمان کے لیے(۱۱۱)۔

(۱۴) ابو بکر عیاش (۱۱۲)کہتے ہیں کہ سوال کیا گیا کہ میرا ایک رافضی پڑوسی ہے جو بیمار ہوگیا ہے کیا اسکی عیادت کروں تو کہا اس کی عیادت ایسے کر جیسے تو کسی یہودی یا عیسائی کی عیادت کرتا ہے اور اس میں اجر کی امید نہ رکھ(۱۱۳)۔

(۱۵)عبد الرحمن بن مہدی(۱۱۴) کہتے ہیں کہ وہ دونوں ایک ہیں جہمی اور رافضی...اور ان سے سوال کیا گیا کسی ایسے شخص کے جنازے میں حاضر ہونے کا جس نے نبی ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی دی ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر ایسا آدمی میری نسل سے ہوتا میں اسے اپنا وارث نہ بناتا(۱۱۶)۔

سفیان بن عیینہ(۱۱۸) نے ایک آدمی سے کہا کہ ہم نے پانچ طبقے ایسے پائے ہیں جنہوں نے کفر کیا ہے اور وہ ایمان نہیں لائے اور ان میں انہوں نے رافضہ کا ذکر کیا۔ سفیان نے اپنے اصحاب سے کہا کہ اسے لکھ لو...اسے لکھ لو(۱۱۹) اور پھر کہا کبھی کسی رافضی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا(۱۲۰،۱۲۱)۔

(۱۷) عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی(۱۲۲) کہتے ہیں رافضی کافر ہیں (۱۲۳)۔

(۱۸)محمد بن یوسف الفریابی (۱۲۴) کہتے ہیں کہ ان سے سوال کیا گیا اس شخص سے متعلق جو ابوبکر کو گالی دے کہا کافر ہے ۔ کہا اس کا جنازہ پڑھیں ؟کہا نہیں ۔ کہا اس کے ساتھ کیا کیا جائے؟ کہنے لگے لا الہ الا اللہ اسے اپنے ہاتھ سے چھوؤ بھی نہیں بلکہ ایک لکڑی لے کر اسے اٹھاؤ یہاں تک کہ اسے کسی گڑھے میں پھینک دو (۱۲۵) اور انہوں کہا میں رافضیوں اور جہمیوں کو زندیق دیکھتا ہوں(۱۲۶)۔

(۱۹) یحیٰ بن معین (۱۲۷) کہتے ہیں جس کسی نے عثمان رضی اللہ عنہ یا کسی ایک صحابی کو گالی دی وہ دجال ہے فاسق و ملعون ہے اس کی حدیث قبول نہ کی جائے اور اس پر اللہ کی تمام فرشتوں کی اور تمام انسانیت کی لعنت ہے(۱۲۸)۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی قدری کے پیچھے ،جبکہ وہ داعی ہو اور کسی رافضی کے پیچھے جو ابو بکر و عمر وعثمان رضی اللہ عنہم کو گالی دیتا ہو ، نماز نہیں پڑھتا(۱۲۹)۔

ابو عبید القاسم بن سلام (۱۳۰) کہتے ہیں میں لوگوں میں رہا اور میں نے اہل ِ کلام کے ساتھ گفتگو کی تو میں نے ان سب میں سب سے گندے اور غلیظ، سب سے کمزور دلیل کے مالک اور سب سے احمق رافضیوں سے بڑھ کر کسی کو بھی نہیں دیکھا۔ مجھے محاذ کے لوگوں کی قیادت سونپی گئی تو میں نے تین آدمیوں کو نکال باہر کیا جن میں دو رافضی اور ایک جہمی تھا اور میں نے انہیں کہا تمہارے جیسے لوگوں کا اہلِ ثغور (مجاہدین )میں کوئی کام نہیں اور میں نے انہیں نکال دیا(۱۳۱،۱۳۲)۔

احمد بن یونس(۱۳۳) کہتے ہیں کہ اگر ایک یہودی ایک بکری ذبح کرے اور ایک رافضی ایک بکری ذبح کرے تو میں یہودی کا ذبیحہ کھا لوں گا اور رافضی کا ذبیحہ نہ کھاؤں گا کیونکہ وہ اسلام سے مرتد ہے (۱۳۴)۔

(۲۲)بشر الحافی(۱۳۵) کہتے ہیں جس نے اصحابِ رسول اللہ ﷺ کو گالی دی وہ کافر ہے چاہے وہ روزے رکھے اور نمازیں پڑھے اور گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے (۱۳۶)۔

اسحاق بن راہویہ (۱۳۷) کہتے ہیں کہ جس نے اصحاب النبی ﷺ کو گالی دی اس کوسزا دی جائے اور اسے جیل میں ڈال دیا جائے۔

(۲۴)امام محمد بن اسماعیل البخاری (۱۳۹) کہتے ہیں میں اس میں فرق نہیں جانتا کہ کسی رافضی وجہمی کے پیچھے نماز پڑھوں یا کسی یہودی و عیسائی کے پیچھے۔ ان کو سلام بھی نہ کیا جائے نہ ان کی عیادت کی جائے، نہ ان کی عورتوں سے نکاح کیا جائے، نہ ان کی گواہی مقبول اور نہ ان کا ذبیحہ کھایا جائے(۱۴۰)۔

(۲۵)ابو زرعۃ الرازی کہتے ہیں کہ جب تو دیکھے کہ کوئی آدمی اصحابِ رسول اللہ ﷺ میں کسی کی تنقیص کرتا ہے تو جان لے کہ وہ زندیق ہے۔ اس لیے کہ ہمارے نزدیک رسول برحق ہیں، قرآن برحق ہے اور ہماری طرف یہ قرآن پہنچانے والے اور ان سنتوں کو پہنچانے والے اصحابِ رسول اللہ ﷺ ہی ہیں ۔ یہ لوگ ہمارے ان پاکباز گواہوں پر جرح کرنا چاہتے ہیں تاکہ قرآن و سنت کو باطل ٹھہرا دیں جبکہ جرح کے زیادہ لائق یہی زندیق ہیں(۱۴۱)۔

(۲۶)ابو سعید عثمان بن سعید الدارمی (۱۴۲)کہتے ہیں کہ ہم سے ابو الربیع الزاہرانی نے بیان کیا کہ ایک آدمی جو جہمیہ میں سے تھا اور اس کی آراء سے رافضیت کی بو آتی تھی تو ایک آدمی جو اس کا ساتھی تھا اور اس کے مذہب کو جانتا تھا کہنے لگا کہ میں جانتا ہوں کہ تم لوگ اسلام کو اپنا دین نہیں مانتے اور نہ اس کے عقیدہ کے حامل ہو تو پھر تم کس بات پر رافضی ہو اور حبِّ علی رضی اللہ عنہ کا دعویٰ کرتے ہو۔ تو وہ کہنے لگا کہ اگر میں تجھ سے سچ کہوں کہ اگر ہم اپنی رائے ظاہر کردیں جس کا ہم عقیدہ رکھتے ہیں تو ہمیں کافر و زندیق کہا جائے گا جبکہ ہم نے ایسی اقوام کو دیکھا ہے جو حبِّ علی رضی اللہ عنہ کا دعویٰ کرتی ہیں اور اسے ظاہر بھی کرتی ہیں پھر وہ جس رستے کو چاہتی ہیں اختیار کر لیتی ہیں اور وہ جو چاہتی ہیں عقیدہ رکھتی ہیں اور وہی کہتی ہیں جو چاہتی ہیں پس ان کی نسبت رفض اور تشیع کی طرف کردی گئی ہے۔اس لیے ہم اپنے مذہب میں نرم ترین گوشہ یہی دیکھتے ہیں کہ اس شخص سے محبت کا دعویٰ کیا جائے اور پھر جو ہماری مرضی ہو عقیدہ رکھیں، جو مرضی ہو کہیں اور جس چیز میں مرضی ہو داخل ہوجائیں ۔پس ہمیں شیعہ رافضہ کہا جائے تو یہ بات ہمیں اس سے زیادہ پسند ہے کہ ہمیں زنادقہ یا کفار کہا جائے...اس شخص نے اپنے بارے میں بہت درست تشبیہ بیان کی ہے حتیٰ کہ ان کے بعض بڑے بڑے عقلاء نے اس بات کو بیان کیا کہ وہ تشیع کے پردے میں پناہ لیتے ہیں اور اپنے کلام اور خطبوں میں اس کا سہار الیتے ہیں ۔ پھر اس تشیع کو غافل لوگوں کا شکار کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ پھر اپنے خطبوں کے دوران اپنے کفر و زندقہ کو بیان کرتے ہیں تاکہ جاہلوں کے دلوں میں یہ کفر گھر کر جائے۔ پس اگر اہلِ جہالت خود اس کے بارے میں مشکوک ہیں تو اہلِ علم کو یقین ہے...ولا حول ولا قوۃ الا باللہ(۱۴۳)۔

(۷۲)محمد بن حسین الآجری(۱۴۴) کہتے ہیں رافضہ لوگوں میں سب سے برے حال کے لوگ ہیں وہ جھوٹے اور جھگڑالو ہیں اور یہ کہ علی رضی اللہ عنہ اور آپ کی پاک اولاد رافضی کے ان دعووں سے بری ہیں اور اللہ الکریم نے بھی علی رضی اللہ عنہ اور آپ کی پاک اولاد کو رافضیت کے گند اور گندگی سے محفوظ رکھا(۱۴۵)۔

(۲۸) ابو بکر بن ہانی کہتے ہیں کہ رافضی اور قدریہ کا ذبیحہ نہ کھایا جائے جیسے کہ مرتد کا ذبیحہ نہیں کھایا جاتا جبکہ کتابی کا ذبیحہ کھایا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ مرتد کے قائمقام ہیں جبکہ اہلِ ذمہ تو اپنے دین پر قرار پکڑتے ہیں اور اس پر جزیہ دیتے ہیں (۱۴۶)۔
تراجم وحوالہ جات
(۸۶) منھاج السنة، فصل؛ مشابہة الرافضہ للیہود والنصاریٰ من وجوہ کثیرہ۔
(۸۷) امام الذہبی کہتے ہیں الامام، الحافظ المقری المجدد، شیخ الاسلام، ابو محمد الیامی الہمدانی الکوفی۔ انہوں نے انس بن مالک رحمہ اللہ سے اور عبد اللہ بن ابی اوفیصٰ سے حدیث بیان کی۔112 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۸۸)اسے روایت کیا ابنِ بطہ نے ''الشرح والابانہ'' میں
(۸۹) اسے روایت کیا اللالکائی نے شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ میں۔
(۹۰)الذہبی کہتے ہیں قتادہ بن دعامہ بن قتادہ... حافظ العصر، قدوۃ المفسرین والحدیث، ابو الخطاب السدوسی البصری۔ انہوں نے عبد اللہ بن سرجس اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت کی۔ وہ علم کی بلندیوں پر تھے اور قوت، حافظہ میں ان کی مثالیں بیان کی جاتی تھیں۔ ان سے بڑے بڑے ائمہ نے روایت کیا ہے۔ 60 ہجری میں پیدا ہوئے۔ ان کے بارے میں سفیان الثوری نے فرمایا وہ دنیا میں قتادہ کی مانند تھے۔117 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۹۱) تفسیر طبری قولہ تعالیٰ (هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ... الایة) آل عمران7 ۔
(۹۲)ابن ِ کثیر کہتے ہیں الزہری محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن شہاب...ابوبکر القرشی الزہری۔ ائمہ اعلام میں سے ہیں۔ جلیل القدر تابعی ہیں اور انہوں نے بہت سے تابعین سے سماع بھی کیا ہے۔58ہجری میں پیدا ہوئے۔ امیر المو منین عمر بن عبد العزیز نے فرمایا تم اس ابن شہاب کو لازم پکڑو کیونکہ تمہیں سنتِ ماضیہ کا اس سے بڑھ کر عالم نہیں ملے گا۔124 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۹۳)الآجری نے اسے کتاب الشریعہ میں روایت کیا۔
(۹۴)الذہبی کہتے ہیں وہ شیخ الاسلام ، امام الحفاظ، سید العلماء العالمین فی زمانہ، ابو عبد اللہ الثوری ، الکوفی المجتہد ہیں ان سے ایک جماعت نے چھ دیوان نقل کیے۔97 ہجری میں پیدا ہوئے۔ابنِ عیینہ کہتے ہیں میں نے حلال وحرام کا سفیان ثوری سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا۔
(۹۵)اسے امام الذہبی نے السیر میں ان کے ترجمہ میں ذکر کیا ہے۔
(۹۶)الذہبی کہتے ہیں الامام الثبت العالم ابو عبد اللہ العبدی الکوفی انہوں نے انس بن مالک، عطاء بن ابی رباح اور نافع ثسے حدیث بیان کی ہے۔العجلی کہتے ہیں وہ ثقہ تھے اور عرب کے رجالات میں شمار کیے جاتے تھے۔129 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۹۷) اسے ابنِ بطہ نے الشرح والابانہ میں روایت کیا۔
(ّ۹۸)الذہبی کہتے ہیں عاصم بن سلیمان الامام الحافط، محدث البصرۃ، ابو عبد الرحمن البصری، الاحول، محتسب المدائن۔ انہوں نے عبداللہ بن ابی سرجس اور انس بن مالک، معاذہ اور حفصہ بنت سیرین ، عبد اللہ بن شقیق العقیلی، ابو قلابہ، الشعبی، ابو العثمان النہدی، حسن، ابن سیرین سے روایت کی اور آپ معدود حفاظ میں سے تھے۔134 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۹۹) اللالکائی نے شرح اصول الاعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ مین بیان کیا۔
(۱۰۰) الذہبی کہتے ہیں امام الثبت، شیخ العراق، ابو سلمۃ الہلالی، الکوفی، الاحول، الحافظ، من اسنان شعبہ، ان سے سفیان بن عیینہ اور یحیٰ القطان نے روایت کی۔ یعلیٰ بن عبید کہتے ہیں کہ مسعر نے علم اور تقویٰ کو جمع کیا ہوا تھا۔155 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۰۱) اسے اللالکائی نے شرح اصول الاعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ میں روایت کیا۔
(۱۰۲)الذہبی کہتے ہیں سلیمان بن مہران الامام، شیخ الاسلام، شیخ المقرئین والمحدثین، ابو محمد الاسدی الکاہلی مولاہم، الکوفی، الحافظ ،ان کے اندر کچھ تشیع بھی تھا۔ 61 ہجری میں پید اہوئے۔ یحیٰ بن سعید بن القطان کہتے ہیں وہ اسلام کے علامہ تھے۔148 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۰۳) ابن تیمیہ نے المنہاج میں کہا کہ یہ آثار ثابت ہیں جنہیں ابو عبد اللہ بن بطہ نے ''الابانۃ الکبریٰ ''میں روایت کیا۔
(۱۰۴)الذہبی کہتے ہیں عبد الرحمن بن عمرو بن یحمد، شیخ الاسلام، اہلِ شام کے عالم، ابو عمرو الاوزاعی۔ وہ دمشق میں محلہ الاوزاع میں رہتے تھے پھر بیروت کی طرف محاذوں کی طرف منتقل ہوگئے اور اپنی موت تک وہیں رہے۔ ان کی ولادت صحابہ کے زمانہ میں ہوئی۔ وہ بہت خیر والے، کثیر علم والے حدیث و فقہ کے ماہر اورحجۃ تھے۔88ہجری میں پید اہوئے۔ امام مالک کہتے ہیں الاوزاعی امام ہیں جن کی اقتدا کی جاتی ہے۔157ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۰۵) اسے ا بن ِ بطہ نے ''الشرح والابانہ''میں روایت کیا۔
(۱۰۶) الذہبی کہتے ہیں؛شریک بن عبد اللہ العلامۃ الحافظ القاضی، ابو عبد اللہ النخعی، اعلام میں سے ایک ہیں اور ان کا شمار کبار فقہاء میں ہوتا ہے۔95 ہجری میں پیدا ہوئے اما م احمد بن حنبل ان کے بارے میں کہتے ہیں وہ عاقل، صدوق، اور محدث تھے اور اہل ریب و بدعت کے خلاف بہت شدید تھے۔178ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۰۷) اسے الاٰجری نے کتاب الشریعہ میں روایت کیا۔
(۱۰۸)ابنِ تیمیہ المنہاج میں کہتے ہیں یہ آثار ثابتہ ہیں جنہیں ابو عبد اللہ بن بطہ نے الابانۃ الکبریٰ میں روایت کیا۔
(۱۰۹) المغنی لابن ِ قدمہ؛مسئلہ یعتبر فی الشاہد سبعۃ شروط۔
(۱۱۰) ابن ابی حاتم کہتے ہیں عبد اللہ بن ادریس بن یزید الاودی الکوفی ابو محمد۔ انہوں نے اپنے والد، الشیبانی، مطروف، مالک بن انس سے روایت کی اور ان سے مالک بن انس نے روایت کی۔امام احمد کہتے ہیں کہ وہ اپنی مثال آپ تھے۔192 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۱۱) الصارم المسلول، فصل؛فاما من سب احداً من اصحاب رسول اللّٰہ ا من اھل ِ بیتہ وغیرھم ...
(۱۱۲)الذہبی کہتے ہیں ابو بکر بن عیاش ابن سالم الاسدی مولاہم، الکوفی المقری الفقیہ، المحدث، شیخ الاسلام و بقیۃ الاعلام... انہوں نے قرآن پڑھا اور تین مرتبہ عاصم بن ابی النجود کے پاس تجوید پڑھی۔95ہجری میں پیدا ہوئے۔ امام ابن مبارک کہتے ہیں میں نے سنت کی طرف سبقت کرنے میں ابوبکربن عیاش سے تیز کوئی نہیں دیکھا۔193ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۱۶) کیونکہ وہ صحابہ کو گالی دینے والے کو کافر قرار دیتے ہیں اور نبی سے روایت کہ {لا یتوارث اھل ملتین شتیٰ} دو مختلف ملتوں کے افراد ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے{اسے احمد اور ابو دائود نے روایت کیا}۔
(۱۱۷)اسے ابن بطہ نے الشرح والابانہ میں روایت کیا۔
(۱۱۸) الذہبی کہتے ہیں سفیان بن عیینہ بن ابی عمران میمون...الامام الکبیر، حافظ العصر، شیخ الاسلام، ابومحمد الہلالی، الکوفی، ثم المکی...انہوں نے حدیث کی طلب کا سفر اس وقت شروع کیا جبکہ بہت کم سنی کی عمر میں تھے۔ انہوں نے کبار علماء سے اکتسابِ علم کیا اور بہت کثیر علم جمع کیا۔ انہوں نے مہارت حاصل کی تصنیف کا کام کیا اور ساری عمر اس سفر کو جاری رکھا۔ آپ کے پاس خلقت کا ازدھام رہتا تھا اور آپکی سند انتہائی اعلیٰ تھی لوگ زمانوں تک دور دور سے آپ کے پاس سفر کر کے آتے رہے۔107 ہجری میں پیدا ہوئے۔ امام الشافعی ان کے بارے میں کہتے ہیں میں سفیان بن عیینہ کے علاوہ کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جس کے اندر علم کا آلۃ جمع تھا۔198ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۱۹) اسے البیہقی نے ''کتاب القضاء والقدر''میں روایت کیا۔
(۱۲۰)اس کے بارے میں ان ائمہ کی تفصیل آئے گی جنہوں نے رافضی کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیا۔ یہ ان لوگوں پر رد ہے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف خروج کرتے ہوئے رافضیوں کے ساتھ مشترک نماز کی بدعت ایجاد کی۔یہ اس مقصد کے تحت کیا گیا تاکہ بت پرستوں کا اتحاد قائم ہو اور ایسے لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ ان کی نماز باطل ہے کیونکہ امام کی شروط میں یہ بھی ہے کہ وہ مسلمان ہونا چاہیے!
(۱۲۱) اسے اللالکائی نے شرح اصول الاعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ میں روایت کیا۔
(۱۲۲)الذہبی کہتے ہیں عبد الرزاق بن ہمام بن نافع، الحافظ الکبیر یمن کے عالم ہیں ابوبکر الحمیری مولاہم، الصنعانی، الثقہ انہوں نے عبید اللہ بن عمر سے بیان کیا اور انکے بھائی عبد اللہ سے، ابن جریح اور معمر سے بیان کیا۔اسی طرح انہوں نے حجاج بن ارطاۃ، الاوزاعی، سفیان الثوری، مالک بن انس اور اپنے والد سے بیان کیا۔جبکہ ان کے شیخ سفیان بن عیینہ، امام احمد بن حنبل، ابنِ راہویہ، یحیٰ بن معین اور علی المدینی ان سے روایت کیا۔ شیخ الاسلام ، اپنے وقت کے محدث اور آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن سے اصحابِ صحاح نے دلیل پکڑی ہے۔126ہجری میں پیدا ہوئے اور211 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۲۳) اسے ابن عساکرنے ان کے ترجمہ میں تاریخ دمشق میں ذکر کیا۔
(۱۲۴)الذہبی کہتے ہیں محمد بن یوسف بن واقد بن عثمان الفریابی، الامام الحافظ، شیخ الاسلام ابو عبد اللہ الضبی، مولاہم، انہوں نے فلسطین میں قیساریہ کے ساحل پر سکونت اختیار کی۔ان سے امام بخاری اور امام احمد بن حنبل نے سماع کیا۔ بخاری نے کہا کہ وہ اپنے زمانے کے افضل لوگوں میں سے تھے۔212 ہجری میں وفات پائی۔
(۱۲۵) اسے الخلال نے کتاب السنۃ میں روایت کیا۔
(۱۲۶) اسے اللالکائی نے شرح اعتقاد اصول اہل السنۃ والجماعۃ میں روایت کیا۔
(۱۲۷)الذہبی کہتے ہیں امام حافظ مجتہد شیخ المحدثین ابو زکریا یحیٰ بن معین ابن عون۔ کہا گیا کہ ابنِ معین اصل میں الانبار سے ہیں اور ان کی پرورش بغداد میں ہوئی۔185 ہجری میں پیدا ہوئے۔ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ سے ایک لاکھ احادیث لکھیں۔233 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۲۸) اسے ابن حجر تہذیب التہذیب میں تلیدبن سلیمان المحاربی کے ترجمہ میں ذکر کیا ہے۔
(۱۲۹)تاریخ یحیٰ بن معین للدوری
(۱۳۰) ابن کثیر کہتے ہیں ابو عبید القاسم بن سلام البغدادی لغت ،فقہ حدیث ، قرآن ، اخبار، ایام الناس کے ائمہ میں سے ہیں۔ ان کی بہت سی تصنیفات ہیں۔175 ہجری میں پیدا ہوئے۔ طرطوس میں قضاء کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اسحاق بن راہویہ نے کہا کہ اللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا ،ابو عبید مجھ سے ، احمد بن حنبل اور شافعی سے زیادہ علم والے ہیں۔224ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۳۱)دیکھو کہ کیسے امام نے انہیں بدعتی ہونے کے سبب (مجاہدین کے ساتھ سے محروم کیا) انہیں محاذوں سے نکال دیا۔ کیونکہ بدعت اللہ کی معصیت ہے اور معصیت دشمن کے سامنے شکست کا سب سے بڑا سبب ہے۔پس ان کے لیے نصرت کہاں جو رافضی سے دوستی لگا کر اپنے زعم میں مشترکہ دشمن کے خلاف جہاد کرتے ہیں۔
(۱۳۲) اسے الخلال نے کتاب السنۃ میں روایت کیا۔
(۱۳۳)الذہبی کہتے ہیں الامام الحجۃ، الحافظ، ابو عبد اللہ احمد بن عبد اللہ بن یونس التمیمی۔132ہجری میں پیدا ہوئے۔ ایک آدمی نے امام احمد سے سوال کیا کہ میں کس کی بات لکھوں تو انہوں نے کہا کہ تو احمد بن یونس کے پاس چلا جا کہ وہ شیخ الاسلام ہیں۔ 227 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۳۴) الصارم المسلول، فصل، فامامن سب احداً من اصحاب رسول اللّٰہ ﷺ من اھلِ بیتہ وغیرھم۔
(۱۳۵)الذہبی کہتے ہیں بشر بن حارث بن عبد الرحمن بن عطاء، الامام العالم، المحدث الزاہد، الربانی ،القدوۃ، شیخ الاسلام، ابو نصر المروزی، ثم البغدادی المشہور بالحافی۔ انہوں نے علم کی طلب میں سفر کیا تو اسے مالک، شریک،حماد بن زید، فضیل بن عیاض اور ابنِ مبارک سے حاصل کیا۔ آپ ورع و زہد و اخلاص میں یکتا تھے۔152 ہجری میں پیدا ہوئے۔ ان کے بارے میں الدارقطنی نے کہا زاہد، جبل، ثقہ۔227 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۳۶) اس ابن بطہ الشرح والابانہ میں روایت کیا۔
(۱۳۷) الذہبی کہتے ہیں امام کبیر، شیخ المشرق ، سید الحفاظ، ابو یعقوب بن ابراہیم بن مخلد التمیمی ثم الحنظلی المروزی۔ وہ اپنے حافظہ کے ساتھ تفسیر کے امام تھے، فقہ کے سردار اور ائمہء اجتہاد میں سے تھے۔161ہجری میں پیدا ہوئے۔ابو نعیم کہتے ہیں کہ اسحاق امام احمد کے ہم پلہ تھے وہ احادیث کو جاری کر نے والے اور اہلِ زیغ کو تباہ کرنے والے تھے۔238ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۳۸)الصارم المسلول، فصل، فامامن سب احداً من اصحاب رسول اللّٰہ ﷺ من اھلِ بیتہ وغیرھم۔
(۱۳۹) ابن کثیر کہتے ہیں وہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرہ بن بردزیۃ الجعفی، مولاہم ،ابو عبد اللہ البخاری، الحافظ، اپنے زمانے میں اہل حدیث کے امام تھے اور ان کی اقتدیٰ کی جاتی تھی ۔ وہ اپنے زمانے کے افضل لوگوں میں سے تھے۔194ہجری میں پیدا ہوئے۔ابو حاتم الرازی کہتے ہیں محمد بن اسماعیل عراق میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے۔وہ256ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۴۰)خلق افعال العباد، باب ماذکر اہل العلم للمعطلة الذین یریدون ان یبدلو ا کلام اللّٰہ۔
(۱۴۱)الکفایہ فی علم الروایة للخطیب البغدادی۔ باب ماجاء فی تعدیل اللّٰہ ورسولہ للصحابہ
(۱۴۲)الذہبی کہتے ہیں عثمان بن سعید بن خالد بن سعید، الامام العلامہ الحافظ الناقد، شیخ تلک الدیار، ابو سعید التمیمی الدارمی السجستانی انہوں نے علم ِ حدیث حاصل کیا اور اس کی علل علی ، یحیٰ، اور احمد سے سیکھیں۔ اپنے زمانے میں فائق تھے ۔وہ سنت کی زبان بولتے اور مناظر کی آنکھ رکھتے تھے۔200ہجری میں پیدا ہوئے اور 280 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۴۳) الرد علی الجھمیة باب الاحتجاج فی اکفار الجھمیة۔
(۱۴۴) الذہبی کہتے ہیں الامام المحدث القدوۃ شیخ الحرم الشریف، ابو بکر محمد بن الحسین بن عبد اللہ البغدادی، الآجری صاحب ِ تالیفات، وہ صدوق تھے، خیر پر تھے اور عابد تھے صاحبِ سنت و اتباع تھے۔ خطیب بغدادی کہتے ہیں وہ دیندار اور ثقہ تھے۔360ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۴۶)الصارم المسلول، فصل، فامامن سب احداً من اصحاب رسول اللّٰہ ﷺ من اھلِ بیتہ وغیرھم۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
ائمہ اہلِ بیت کے اقوال رافضیوں کے بارے میں
اس فصل کا آغاز ہم امام الآجری کے کلام سے کرتے ہیں جو انہوں رافضیوں کے متعلق اپنی کتاب ''الشریعہ ''میں اہل بیت کے ائمہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے۔ چنانچہ آجری کہتے ہیں کہ تمام اولادِ علی بن ابی طالب ، فاطمۃ سیدۃ نسآء اہل الجنۃ الزہراء ، حسن، حسین، عقیل بن ابی طالب اور انکی اولاد، جعفر الطیاررضی اللہ عنہم بن ابی طالب اور انکی تمام پاک وپوِترّ ومبارک اولاد مذہبِ رافضیت سے اتنا ہی بری ہیں جتنا رافضیت ہدایت کے رستے سے دور ہے۔

اہل بیتِ رسول ا اعلیٰ قدر والے، سب سے بہتر رائے والے اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی سب سے زیادہ پہچان ومعرفت والے ہیں جنکی طرف رافضیت جھوٹی نسبت رکھتی ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور جن کا ان کی اولاد میں سے ہم تذکرہ کریں گے ان سب پاکباز لوگوں کو ان کے شر محفوظ رکھا کہ وہ براہین ودلائل کے ساتھ ان سے بری ہیں اور جن کا ہم نے ذکر کیا وہ ابو بکر عمر وعثمان ،طلحہ و زبیر ، عائشہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تمام صحابہ کے ساتھ جنت میں آپس میں بھائی بھائی ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں سے ہر قسم کی ''غل''اور میل کچیل کو نکال دیا ہے جیسے کہ اللہ فرماتے ہیں
{وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ}
اور ان کے دلوں میں جو کچھ رنجش وکینہ تھا ہم سب کچھ نکال دیں گے وہ بھائی بھائی بنے ہوئے ایک دوسرے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے (الحجر47 )۔

اس سے قبل ہم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا ابو بکر و عمر و عثمان اور باقی صحابہ رضوان اللہ علیہم کے بارے میں مذہب و موقف بیان کیا ہے۔ جیسے کہ ذکر کیا گیا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے عظیم فتنہ کے بارے میں اور پھر جنابِ علی رضی اللہ عنہ کا اللہ کے سامنے اس سے برأت کا اظہار کرنا۔

یہ رافضہ کے بارے میں ان ائمۂ اہل بیت کے اقوال ہیں !
(۱) امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ''اے اللہ ہمارے ساتھ بغض رکھنے والے اور ہمارے ساتھ محبت کرنے والے ہر غالی پر لعنت فرما(۱۴۸) اورفرماتے ہیں کہ کوئی مجھے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت نہ دے اور جو کوئی ایسا کرے گا میں اسے بہتان کی حد کے کوڑے ماروں گا((۱۴۹)۔ جناب علی رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ مسجد کے دروازے پر کچھ لوگ ہیں جو آپ کو رب کہہ کر پکار رہے ہیں تو آپ نے انہیں بلوا بھیجا اور آپ نے فرمایا تم ہلاک ہو جاؤکیا بکتے ہو؟ کہنے لگے آپ ہمارے خالق ہیں ، ہمارے رازق ہیں ۔ آپ نے فرمایا تمہیں ہلاکت ہو میں تمہاری طرح کا آدمی ہوں اور تمہاری طرح کھانا کھاتا ہوں اور ویسے ہی پیتا ہوں جیسے تم پیتے ہو اگر میں اللہ کی اطاعت کروں گا تو وہ اگر چاہے گا تو مجھے ثواب دے گا اور اگر میں اس کی نافرمانی کروں گا تو مجھے اس کے عذاب کا ڈر ہے۔ پس اللہ سے ڈرو اور یہاں سے چلے جاؤ تو انہوں نے انکار کردیا۔ پھر اگلے دن وہ پھر آگئے ۔ تو جنابِ علی رضی اللہ عنہ کے غلام قنبر آئے اور انہوں نے آپ کو خبر دی کہ وہ لوگ واپس آگئے ہیں اور وہی باتیں دہرا رہے ہیں تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا انہیں اندر آنے دو۔ پھر جب تیسرا دن ہوا تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں بد ترین طریقہ سے قتل کردوں گا تو انہوں نے پھر بھی انکار کردیا تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے قنبر ان کے ساتھیوں کو بھی لے آؤ اور ان کے لیے مسجد کے دروازے اور قصرِ خلافت کے درمیان خندق کھودی گئی۔ پھر آپ نے فرمایا کہ خندق زمیں میں گہری کھودو پھر آپ نے فرمایا میں تمہیں اس میں ڈالنے والا ہوں اپنے کلام سے لوٹ جاؤتو انہوں نے انکار کردیا تو آپ نے انہیں خندقوں میں جلوادیا اور جب وہ جل گئے تو آپ نے یہ شعر کہا...

اِنِّیْ اِذَا رَاَیْتُ اَمْراً مُنْکَراً​
اَوْقَدْتُّ نَارِیْ وَدَعَوْتُ قَنْبَرَ​

میں جب کوئی منکر کام دیکھتا ہوں تو آگ جلاتاہوں اور قنبر کو بلا لیتا ہوں(۱۵۰)۔​
(۲) حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب انہیں کہا گیا کہ شیعہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ قیامت سے قبل پھر مبعوث کیے جائیں گے تو کہا وہ جھوٹ بولتے ہیں نہ یہ ان کے شیعہ ہیں اور اگر علی رضی اللہ عنہ نے دوبارہ آنا ہوتا تو ہم نہ ان کی بیویوں کی شادیاں کرواتے اور نہ انکی وراثت تقسیم کرتے(۱۵۱)۔

(۳) زین العابدین؛ علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (۱۵۲)نے ایک رافضی کو جس نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق سوال کیا ، فرمایا تیری ماں تجھے گم پائے اسے تو اس ہستی نے صدیق کا لقب دیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے ،رسول اللہﷺ ، مہاجرین اور انصار نے تو جو کوئی اسے صدیق نہ کہے اللہ اس کو سچا نہ کرے گا اور فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ میرے پاس عراق سے آئے اور انہوں نے ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کا ذکر کیا اور ان دونوں کو گالی دی پھر انہوں نے عثمان کے بارے میں زبانِ طعن دراز کی تو میں نے انہیں گالی دی(۱۵۴)۔

(۴)حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ایک رافضی سے فرماتے ہیں اگر اللہ نے ہمیں تمہارے اوپر غلبہ عطا کیا تو ہم تمہارے ہاتھ اور پاؤں اُلٹے رخ سے کاٹ دیں گے اور تم میں سے کسی کی توبہ قبول نہ کریں گے۔ تو آپ سے کہا گیا کہ آپ ان کی توبہ کیوں قبول نہ کریں گے تو فرمایا ہم تم سے زیادہ اس قوم کو جانتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں اگر چاہیں تو تمہاری تصدیق کریں گے اور اگر چاہیں تو تکذیب کردیں گے اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات انہیں تقیہ میں جائز ہے(۱۵۶) اور فرماتے ہیں کہ میرے پاس مغیرہ بن سعید آیا(۱۵۷) اور اس نے رسول اللہ ﷺسے میری قرابت اور مشابہت کا تذکرہ کیا۔ جب کہ میں اور ایک اور نوجوان رسول اللہ کے مشابہہ تھے۔پھر وہ ابوبکر و عمر پر لعنت کرنے لگا تو میں نے کہا اے اللہ کے دشمن میرے پاس بیٹھ کر یہ بکواس ،پھر میں نے اسے گردن سے دبوچ لیا اللہ کی قسم یہاں تک کہ اسکی زبان لٹک گئی (۱۵۸)۔

(۵)ابوجعفر محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ(۱۵۹) نے ایک رافضی سے کہا{واللّٰہ ان قتلک لقربة الی اللّٰہ} اللہ کی قسم تیرا قتل اللہ کی قربت کا ذریعہ ہے(۱۶۰)اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ عراق میں ایک قوم ابوبکر وعمر پر طعن کرتی ہے اور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ہم سے محبت رکھتے ہیں اور انہیں یہ زعم ہے کہ میں نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ پس تم انہیں یہ خبر پہنچادو کہ میں اللہ کی طرف ان سے برأت کا اظہار کرتا ہوں اس ذات کی قسم جس کے قبضہء قدرت میں میری جان ہے اگر مجھے ولایت مل جائے تو میں ان کا خون بہا کر اللہ کا تقرب حاصل کروں گا(۱۶۱)۔

(۶)زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (۱۶۲)کہتے ہیں رافضی میرے ساتھ اور میرے والد کے خلاف لڑنے والے ہیں۔ رافضیوں نے میرے خلاف ایسے خروج کیا جیسے خارجیوں نے علی کے خلاف خروج کیا(۱۶۳)۔

(۱۵۸) اسے الذہبی نے السیر میں نقل کیا۔

(۱۵۹) الذہبی کہتے ہیں السید الامام ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن علی رضی اللہ عنہ العلوی الفاطمی المدنی اور یہ جناب زین العابدین کے بیٹے ہیں انہوں نے اپنے دونوں دادا نبی ﷺ اور علی رضی اللہ عنہ سے مرسلاًروایت کی ہے اور اپنے دادا حسن و حسین سے بھی مرسلاً روایت کی ہے۔ اسی طرح انہوں نے ابن عباس ، ام سلمہ ،اماں عائشہ رضی اللہ عنہم ، سے مرسلاً اور ابن عمر، جابر ، ابی سعید، عبد اللہ بن جعفر، سعید بن المسیب اور اپنے والد زین العابدین اور محمد بن الحنفیہ رضی اللہ عنہم سے روایت کی ہے... ابو ہریرۃ، سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہم سے مرسلاً روایت کی ہے۔ ابوجعفر امام تھے، مجتہد ، بڑی شان والے تھے لیکن وہ قرآن میں ابن کثیر وغیرہ کے ہم پلہ نہ تھے اور فقہ میں ابی الزناد، ربیعہ کے برابر نہ تھے اور نہ ہی حفظ میں وہ قتادہ اور ابن شہاب کے ہم پایہ تھے لیکن ان کی ہم تنقیص نہیں کرتے بلکہ ہم ان سے محبت رکھتے ہیں ان کی کمال صفات کے سبب جو ان میں جمع تھیں۔ حفاظ کا ابوجعفر کے ساتھ احتجاج کرنے پر اتفاق ہے۔56ہجری میں پیدا ہوئے۔ بسام الصیرفی کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر سے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق سوال کیا تو وہ کہنے لگے اللہ کی قسم میں ان کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے لیے اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور میں نے اپنے اہلِ بیت میں کسی کو ایسا نہیں پایا جو انہیں دوست نہ جانتا ہو۔114 ہجری میں فوت ہوئے۔

(۷)عبد اللہ بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ ہمارے اہلِ قبلہ کے اندر کوئی کافر ہے تو انہوں نے کہا ہاں ، رافضہ ہیں ۔انہوں نے السدی سے کہا اے سدَیْ ہمیں تم کوفہ کے شیعہ کی خبر دو۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایسی قوم ہیں جو آپ سے محبت کا دعویٰ کرتی ہیں اور یہ زعم رکھتی ہیں کہ روحیں تناسخ کرتی ہیں۔ تو انہوں نے کہا اے سدی یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں نہ یہ ہم سے ہیں اور نہ ہی ہم ان سے ہیں۔ پھر انہوں نے کہا ہمارے ہاں ایک اور قوم ہے جو یہ زعم رکھتی ہے کہ علم آپ کے دلوں میں القا کیا جاتا ہے تو انہوں نے کہا اے سدی نہ یہ ہم سے ہیں نہ ہم ان سے ہیں(۱۶۵)۔

جعفرِ صادق بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (۱۶۶) کی طرف ایک رافضی نے سوال بھیجا کہ ''کیا وہ جنت میں ہے یا وہ جہنم میں ہے؟'' تو آپ نے کہا وہ جہنم میں ہے پھر انہوں نے کہا کہ تمہیں پتہ ہے کہ میں نے کیسے جانا کہ وہ رافضی ہے کیونکہ وہ یہ زعم رکھتے ہیں کہ میں علمِ غیب جانتا ہوں اور جو کوئی اللہ کے علاوہ کسی کے بارے میں یہ گمان رکھتا ہے کہ وہ عالم الغیب ہے تو وہ کافر ہے اور کافر آگ میں ہے(۱۶۷)۔ اور انہوں نے کہا اللہ اس سے بری ہے جو ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے بری ہو(۱۶۸) اور انہوں نے کہا کہ عراق کے بعض خبیث لوگ یہ زعم رکھتے ہیں کہ ہم ابو بکر و عمر کے بارے میں طعن کرتے ہیں جبکہ وہ دونوں تو میرے والد ہیں (۱۶۹)۔

(۹) عمر بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (۱۷۰) کہتے ہیں اللہ کی قسم یہ لوگ ہماری عزتوں کو رسوا کرنے والے ہیں(۱۷۱)۔

(۱۰) عبد اللہ بن حسن بن حسین رضی اللہ عنہ سے ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ان دونوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اس پر رحم نہ کرے جو ان پر سلام نہیں بھیجتا۔ ہم کل ان لوگوں سے بری ہوں گے جنہوں نے ہمیں آڑ بنا لیا ہے(۱۷۲)۔

(۱۲) ایک رافضی نے حسن بن زید بن محمد بن اسماعیل بن حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ام المومنین الصدیقہ بنت الصدیق پر بہتان باندھا تو آپ نے کہا اے نوجوان اس کی گردن اڑا دے تو علوی ان سے کہنے لگے یہ آدمی ہمارے شیعہ میں سے ہے تو انہوں نے کہا اللہ کی پناہ اس آدمی نے نبیﷺ پر طعن کیا ہے ۔اللہ فرماتے ہیں {الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُوْلَئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ } خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیں یہ لوگ بری ہیں ان باتوں سے جو وہ کہتے ہیں ۔ان کے لیے ان کے رب کے ہاں مغفرت اور کریم رزق ہے{النور۲۶}۔ پس اگر عائشہ نعوذ باللہ خبیثہ تھی تو نبیﷺ بھی اس سے متصف ٹھہرے تو وہ کافر ہے اس کی گردن اڑا دو، تو پھر اس کی گردن اڑادی گئی(۱۷۵)۔

(۱۳)علی بن محمد بن زید بن محمد بن اسماعیل بن حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب (۱۷۶)کے پاس ایک رافضی عراق سے آیا تو وہ ان کے سامنے بھونکے لگا اور اس نے عائشہ رضی اللہ عنہ کا ذکرِ بد کیا تو وہ اٹھے اور انہوں نے ایک ڈنڈا لیکر اسے مارنا شروع کردیا اور اس کا دماغ باہر نکال ڈالا اور اسے قتل کر دیا۔ تو ان سے کہا گیا کہ یہ ہمارے شیعہ میں سے تھا اور ہمیں دوست رکھتا تھا تو آپ نے کہا اس نے میرے جد کو قرنان(۱۷۷) کہا اور جس نے میرے جد کو قرنان کہا وہ واجب القتل ہے(۱۷۸)
تراجم و حوالہ جات
(۱۴۷)اسی طرح ان کی اولاد اور اولاد کی اولاد رافضیوں کے برے مذہب کا انکار کرتے ہیں اور ان سے برأت کا اعلان کرتے ہیں اور ابو بکر و عمر و عثمان اور سارے صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کا حکم دیتے ہیں۔اللہ نے اہل بیتِ رسول اللہ ا کو ان کے گندے مذہب سے پاک صاف رکھا جو مسلمانوں کے بالکل مشابہ نہیں ہے۔اللہ تمام اہل بیت سے راضی ہو اور انہیں مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر عطاء فرمائے ۔
(۱۴۷) الشریعہ،با ب ذکر ما جاء فی الرافضہ وسوء مذھبھم۔
(۱۴۸) اسے اللالکائی نے شرح اصول الاعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ و ابن ابی عاصم نے السنۃمیں ذکر کیا۔
(۱۴۹) اسے ابنِ تیمیہ نے المنہاج میں ذکر کیا۔
(۱۵۰) اسے ابن حجر نے الفتح الباری میں اپنی سند کے ساتھ روایت کیا اور کہا کہ یہ سند حسن ہے۔
(۱۵۱) اسے الآجری نے کتاب الشریعہ میں روایت کیا۔
(۱۵۲) الذہبی کہتے ہیں علی بن حسین ابن الامام علی بن ابی طالب...السید، الامام، زین العابدین، الہاشمی، العلوی، المدنی...انہوں نے اپنے والے امام حسین شہید رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے اور وہ واقعہ کربلا کے دن جنابِ حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور اس وقت ان کی عمر23 برس تھی لیکن اس دن وہ بیماری کے سبب قتال نہ کرسکے تھے۔ اسی طرح انہوں نے اپنے دادا رضی اللہ عنہ سے بھی مرسلاً روایت کیا ہے۔ انہوں نے ام المومنین صفیہ، ابوہریرۃ ، ام المومنین عائشہ، ابی رافع اور اپنے چچا حسن ، عبد اللہ بن عباس، ام سلمہ، مسور بن مخرمہ، زینب بنت ابی سلمہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی روایت کی ہے۔ان کی جلالت و شان بڑی عظیم المرتبت تھی اور اللہ کی قسم یہ انکا حق بھی تھا۔ وہ اپنے علمِ سداد اور کمال و شرف کے باعث امامتِ عظمیٰ کے حق دار تھے۔38ہجری میں پیدا ہوئے الزہری کہتے ہیں کہ میں نے اہلِ بیت میں علی بن الحسین رضی اللہ عنہ سے بہتر کسی کو نہیں پایا۔ آپ94 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۵۳) کہا جاتا ہے اِبْتَرَکُوْ فِیْ الْحَرْبِ اِذَا جُثُّوْ لِلرّکْبِ فَاقْتتلُوا۔
(۱۵۴) ان دونوں کا تذکرہ الذہبی نے ''السیر''میں کیا ہے۔
(۱۵۵) الذہبی کہتے ہیں حسن ابن نواسہء رسول اللہ ا السید ابی محمد حسن بن امیر المومنین ابی الحسن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، العلوی، المدنی، الہاشمی، الامام ابو محمد ۔انہوں نے اپنے والد سے بیان کیا اور عبد اللہ بن جعفر سے بھی روایت کی ہے۔ آپ بہت قلیل الروایہ ہیں اور اپنے صدق، جلالت کے ساتھ خلافت کے اہل تھے۔ آپ بھی ان لوگوں کے ساتھ جوجناب، حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت موجود تھے۔99ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۵۶)ان کا تذکرہ المزی نے ''تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ''میں کیا ہے
(۱۵۷) ابن کثیر119ہجری کے حوادث کے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ اس میں خالد بن عبد اللہ القسری نے، مغیرہ بن سعید اور ایک جماعت کو قتل کیا جنہوں نے اس کے باطل پر اس کی پیروی کی تھی۔یہ شخص جادوگر تھا،فاجر، خبیث اور شیعہ تھا۔۔ جب خالد کو اس کی خبر پہنچی تو انہوں نے اسے پیش کرنے کا حکم دیا تو اسے سات یا چھ آدمیوں سمیت لایا گیا۔خالد نے حکم دیا تو اس کی مسند مسجد میں لگائی گئی اس نے لکڑی کی طنابیں لانے کا حکم دیا اور اس پر تیل چھڑک دیا گیا۔اس کے بعد مغیرہ کو کہا گیا کہ ان میں سے ایک لکڑی کی طناب پکڑ لے تو اس نے انکار کیا جس پر اسے مارا گیا تو اس نے اسے پکڑ لیا پھر اس کے اوپر تیل چھڑکا گیا پھر اسے آگ لگادی گئی اور اس کے باقی ساتھیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا۔
(۱۶۰) اسے اللالکائی نے شرح اصول الاعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ میں ذکر کیاہے۔
(۱۶۱) اسے ابن بطہ الشرح ولابانہ میں روایت کیا۔
(۱۶۲)الذہبی کہتے ہیں زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب ،ابو الحسین الہاشمی، العلوی، المدنی وہ ابو جعفر الباقر کے بھائی ہیں۔ انہوں نے اپنے والد زین العابدین سے روایت کی ہے اور اپنے بھائی باقر ،سے بھی روایت کی ہے۔ اس کے علاوہ عروۃ بن زبیر، اپنے بھائی کے بیٹے جعفر بن محمد سے بھی روایت کی ہے۔ وہ بہت علم و جلالت والے تھے۔انہوں نے خروج کیا اور شہید ہوگئے۔عیسیٰ بن یونس کہتے ہیں کہ رافضی زید کے پاس آئے اور کہنے لگے تو ابو بکر وعمر سے برأت کا اظہار کر تو ہم تیری مدد کریں گے تو انہوں نے کہا میں تو انہیں دوست جانتا ہوں تو انہوں نے کہا پھر ہم تیرا انکار کریں گے ۔تو انہیں رافضہ کہا گیا جبکہ زیدیہ نے ان کے قول کے مطابق بات کی اور ان کے ساتھ قتال کیا۔ عمرو بن القاسم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں جعفرصادق کے پاس گیا اور ان کے پاس کچھ رافضی بیٹھے تھے تو میں نے انہیں کہا کہ یہ لوگ آپ کے چچا زید سے برأت کا اظہار کرتے ہیں تو انہوں نے کہا اللہ ان سے بری ہو جو ان سے برأت کا اظہار کرے اللہ کی قسم وہ ہم سب سے زیادہ قرآن جاننے والے، اللہ کے دین کی فقہ رکھنے والے اور رحم کو ملانے والے اور ہم نے ان جیسا کوئی نہ چھوڑا۔ وہ125 ہجری میں شہید ہوئے۔
(۱۶۳) اسے الصفدی نے الوافی بالوفیات میں ذکر کیا۔
(۱۶۴) ابن عساکر کہتے ہیں عبد اللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ابو محمد الہاشمی اہلِ مدینہ میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنے والد اور اپنی والدہ سے روایت کی ہے اور عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب سے روایت کی ہے۔145 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۶۵) ان دونوں روایتوں کو ابن عساکر نے روایت کیا تاریخ دمشق میں ان کے تذکرہ میں۔
(۱۶۶) الذہبی کہتے ہیں جعفر بن محمد بن علی بن الشہید ابو عبد اللہ ،نبیﷺ کے پھول اور آپ کے نواسے اور محبوب جنابِ حسین بن امیر المومنین ابی الحسن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم الامام الصادق، شیخ بنی ہاشم، ابو عبد اللہ القرشی، الہاشمی، العلوی،النبوی، المدنی ۔ اعلام ائمہ میں سے ایک ہیں ۔ ان کی والدہ ام فروۃ بنت القاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور انکی ماں اسماء بنت عبد الرحمن بن ابی بکر ہیں۔ اسی لیے جعفرِ صادق کہا کرتے تھے {ولدنی ابو بکر الصدیق مرتین}مجھے ابو بکر نے دو مرتبہ جنم دیا(یعنی وہ میرے دوہرے رشتہ سے باپ ہیں)۔ آپ رافضیوں کے خلاف بہت سختی اور غصہ کرتے جب انہیں پتہ چلتا کہ وہ ان کے جد ابوبکر کے بارے میں ظاہراً وباطناً تبرا کرتے ہیں۔ 80ہجری میں پیدا ہوئے۔ امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ میں نے جعفر بن محمد سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا۔148ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۶۷) المعرفۃ والتاریخ للفسوی۔
(۱۶۸) اسے الذہبی نے السیر میں ان کے تذکرہ ذکر کیا اور کہا کہ یہ قول جعفرِ صادق سے متواتر ہے اور میں اللہ کی گواہی دے کر کہتا ہوں کہ وہ اپنے قول میں سچے تھے کسی کے لیے منافقت کا اظہار نہ کرتے تھے ،پس اللہ نے رافضیوںکو ذلیل کردیا۔
(۱۶۹) فضائل الصحابہ للدارقطنی، ذکر ماروی عن آل ابی طالب اولاد علی رضی اللہ عنہ فی ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہم۔
(۱۷۰) ابن حجر کہتے ہیں عمر بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب الہاشمی المدنی، الاصغر، انہوں نے اپنے والد، اپنے بھائی کے بیٹے جعفر بن محمد بن علی اور سعید بن مرجانہ سے روایت کی اور نبیﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے۔ابن حبان نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے۔ عتمۃ بن بشیر الاسدی کہتے ہیں عمر بن علی بن حسین صاحبِ فضیلت آدمی تھے بہت زیادہ عبادت کرنے والے، صاحبِ اجتہاد، ان کے بھائی ابو جعفر ان کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔
(۱۷۱) فضائل الصحابہ للدارقطنی ذکر ماروی عن آل بی طالب واولاد علی فی ابی بکر و عمررضی اللہ عنہم۔
(۱۷۲) اسے ابن بطہ الشرح والابانہ میں روایت کیا۔
(۱۷۳) اسے ابن بطہ الشرح والابانہ میں روایت کیا۔
(۱۷۴)الذہبی کہتے ہیں الزیدی الامیر، صاحبِ جرجان، الحسن بن زید بن محمد بن اسماعیل بن حسن بن زید بن حسن بن امام علی بن ابی طالب العلوی۔ ان کے جد اسماعیل چھ نفیس بھائی تھے۔یہ250ہجری میں ظاہر ہوئے ان کا جیش کثرت کے ساتھ تھا انہوں نے جرجان پر قبضہ کیا پھر انہوں نے خلفاء کے جیوش کو شکست دی اور ری اور الدیلم فتح کیا اور ان کا دور بہت طویل تھا۔270ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۷۵) اسے اللالکائی نے شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ ولجماعہ میں روایت کیا۔
(۱۷۶)وہ حسین بن زید کے بھائی ہیں۔ الذہبی کہتے ہیں کہ ان کے بعد ان کے بھائی محمد بن زید بادشاہ ہوئے اور ان کا دور بھی بہت طویل تھا انہوں نے بہت ظلم کیا یہاں تک کہ قتل کردیے گئے290 ہجری سے قبل۔
(۱۷۷) القرنان ایسا آدمی جو اپنی عورت میں مشارکت کروائے۔یعنی یہ مرد کے بارے میں بری صفت ہے جس کو کوئی غیرت نہ ہو { لسان العرب}
(۱۷۸) الصارم المسلول ؛ فاما من سب ازواج النبیا ۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
رافضہ کے بارے میں حنابلہ کے اقوال
امام احمد بن حنبل(۱۷۹) کہتے ہیں رافضہ اسلام میں کسی چیز پر بھی نہیں ہیں (۱۸۰) اور انہوں نے کہا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کو گالی دینا زندقہ ہے۔ آپ سے سوال کیا گیا اس شخص سے متعلق جو اصحاب رسول میں سے کسی کو گالی دیتا ہے تو آپ نے فرمایا میں اسے اسلام پر باقی نہیں دیکھتا(۱۸۲)۔

(۲) حرب بن اسماعیل الکرمانی (۱۸۳) کہتے ہیں کہ اہلِ علم و اہلِ حدیث اور اہل السنۃ کا مذہب جس کے ساتھ وہ متمسک ہیں یہ ہے اور جسکی ان میں اقتدیٰ کی جاتی ہے نبی ﷺکے زمانے سے ہمارے دور تک اور میں نے جس قدر علماء حجاز وشام وغیرہ کو پایا، پس جو کوئی اس مذہب میں انکی مخالفت کرتا ہے یااس میں طعن کرتا ہے یا اس کے قائل میں عیب لگاتا ہے تو ایسا شخص بدعتی ومخالف ہے اور جماعت سے خارج ہے اور منہج ِ سنت سے ہٹا ہوا ہے اور یہ مذہب ہے احمد ، اسحق بن ابراہیم، عبد اللہ بن مخلد، عبد اللہ بن زبیر الحمیدی، سعید بن منصور وغیرہ جن کے ساتھ ہماری مجلس رہی اور جن سے ہم نے اخذ کیا اور ان لوگوں کا قول یہ تھا...کہ جس نے نبیﷺکے صحابہ میں سے کسی ایک کو گالی دی، یا ان کی تنقیص کی یا ان پر طعن کیا یا ان پر عیب لگایا تو ایسا شخص بدعتی، رافضی اور خبیث و مخالف ہے... اللہ تعالیٰ اس کا کوئی عمل قبول نہ کرے گا اور کسی کے لیے جائز نہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں کوئی بری چیز ذکر کرے، کسی ایک پر عیب لگائے اور نہ ہی ان میں سے کسی کا نقص کرے۔ پس جو کوئی ایسا کرے تو حاکمِ وقت کے لیے ضروری ہے کہ اسے سزا دے ،ا سکی تأدیب کرے اور اسے معاف ہر گز نہ کرے اور اسے توبہ کروائے ۔ پس اگر وہ توبہ کرلے تو ٹھیک وگرنہ اسے جیل میں ہمیشہ کے لیے پھینک دے یہاں تک کہ مر جائے (۱۸۴)۔

(۳)حسن بن علی البربہاری(۱۸۵) کہتے ہیں اور انہوں نے خواہش پرستوں کا ذکر کیا اور کہتے ہیں کہ ان میں سب سے ردی ترین اور سب سے زیادہ کفر والے رافضی ہیں(۱۸۶)۔

(۴)ابو عبد اللہ بن بطہ(۱۸۷) کہتے ہیں جہاں تک رافضہ کا تعلق ہے تو وہ لوگوں میں سب سے زیادہ اختلاف والے، جھگڑالو اور طعن کرنے والے۔ انکا ہر شخص اپنے لیے ایک مذہب بنالیتا ہے اور اس پر لعنت کرتا ہے جو اسکی مخالفت کرے اور جو اس کی اتباع نہ کرے اسکی تکفیر کرتا ہے اور وہ سب کے سب یہی کہتے ہیں کہ امام کے بغیر کوئی نماز نہیں، کوئی روزہ ،جہاد ، جمعہ، عیدین، نکاح، طلاق، بیع و شراء نہیں (۱۸۸)۔ جس کا کوئی امام نہیں اس کا کوئی دین نہیں اور جو کوئی اپنے امام کو نہیں جانتا اس کا کوئی دین نہیں۔ پھر وہ امامت میں اختلاف کرتے ہیں۔ امامیہ کا اپنا امام ہے اور اس کے علاوہ اگر کسی کو کوئی امام مانے تو وہ اس پر لعن طعن کرتے ہیں اور اسکی تکفیر کرتے ہیں۔ اگر علم کے مرتبہ و شرف کا خیال نہ ہوتا جس کی اللہ نے قدر و منزلت بہت بلند کی ہے اور اسے اس بات سے محفوظ رکھا کہ اس میں نجاسات، اور اہلِ زیغ کے قبیح اقوال داخل کیے جائیں جن کو سن کر انسان کی جلدیں کانپ اٹھتی ہیں اور نفس انہیں سننے سے ڈرتا ہے اور عاقل لوگ اس سے کتراتے ہیں... وگرنہ میں وہ باتیں ذکرکرتا جن میں عبرت کے سامان تھے(۱۸۹)۔

(۵)قاضی ابو یعلیٰ کہتے ہیں کہ جس نے عائشہ صدیقہ بنت الصدیق رضی اللہ عنہما پر الزام لگا یاجنہیں خود اللہ نے بری کیا ہے تو وہ بلا اختلاف کافر ہے(۱۹۰)۔

(۶)ابن عقیل (۱۹۱) کہتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ جس بندے نے رافضی مذہب بنایا اس کا اصل مقصد دین اور نبوت میں طعن کرنا تھا(۱۹۲)۔ انہوں نے قبر پرستوں کے متعلق کہا(یعنی رافضہ وغیرہم)جب جاہلوں اور طاغوت پسندوں پر شرعی تکالیف بھاری پڑ گئیں تو انہوں نے شریعت کی وضع کو چھوڑ کر ان اوضاع کی تعظیم شروع کردی جنہیں انہوں نے خود اختراع کیا تھا تو ان پر شریعت آسان ہو گئی کیونکہ وہ اس میں اپنے غیر کے حکم سے داخل نہیں ہوتے...وہ میرے نزدیک ان اوضاع کے ساتھ کافر ہیں ۔یہ اوضاع ہیں مثلاً قبروں کی تعظیم اور ان کا اکرام اس صورت جسے شریعت نے منع کیا ہے ، وہاں آگ جلانا، انہیں چومنا اور انہیں پختہ بنانا، مرُدوں سے اپنی حاجات مانگنا اور وہاں رقعے چھوڑنا ... اے میرے مولیٰ ایسے ایسے کردیجیے، ان کی قبروں کی مٹی کو تبرکاً لیکر جانا، قبروں پر خوشبو بہانا ، ان کی طرف خاص سفر کر کے جانا، لات منات وعزی کے پجاریوں کی پیروی میں جلی ہوئی چیزوں کو درختوں پر ڈال دینا(۱۹۳)۔

(۷)ابو لفرج ابن الجوزی کہتے ہیں شیعہ کی قباحتیں اس قدر ہیں کہ شمار میں نہیں آتی(۱۹۴)۔

(۸)ابو العباس ابن تیمیہ ؒ کہتے ہیں کہ جہاں تک فتنے کا تعلق ہے تو وہ اسلام میں شیعہ کی طرف سے آیا ۔وہ ہر شر و فتنہ کی جڑ ہیں اور وہ فتنوں کے بھنور کا قطب ہیں۔ پس ہر عاقل کو دیکھنا چاہیے کہ اس کے زمانے میں کیا ہورہا ہے اور کس قدر فتنے ، شر و فساد اسلام کو درپیش ہیں۔ پس وہ دیکھے گا کہ ایسے بہت سے فتنے رافضہ کی طرف سے ہی ہوں گے اور لوگوں میں سب سے زیادہ شریر لوگ رافضی ہوں گے اور امت کی صفوں میں نئے سے نئے فتنے کھڑے کرنے سے وہ بالکل نہیں بیٹھیں گے۔ابن تیمیہ نے کہا ان میں سے اکثر کفار سے دوستیاں لگانے والے ہیں،ایسی دوستیاں جو مسلمانوں سے بڑھ کر دل کی گہرائیوں کے ساتھ ہوں گی۔ اسی لیے جب ترک(تاتاری)مشرق کی جانب سے نکلے اور انہوں نے خراسان، عراق، شام اور جزیرہ میں مسلمانوں کا خون بہایا تو اس وقت بھی رافضہ سب سے زیادہ ان کی مدد کرنے والے تھے۔ بغداد کا علقمی رافضی وزیر اور اس جیسے دوسرے لوگ مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ ان کی مدد کرنے والے تھے۔ اسی طرح شام کے رافضیوں کا بھی یہی حال تھا کہ وہ بھی مسلمانوں کے خلاف ان کی مدد کرنے میں شدید تر تھے اور ان صلیبیوں کی مدد کرنے میں بھی جن کے خلاف مسلمانوں نے شام میں جہاد کیا۔ اس وقت رافضہ ان کے سب سے بڑے اعوان میں سے تھے۔اسی طرح جب عراق میں یہودیوں کی مملکت قائم ہوئی تو اس کے سب سے بڑے مدد گار رافضہ تھے...پس وہ ہمیشہ کافروں ، مشرکوں، یہودیوں، عیسائیوں کے مدد گار رہے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف قتال کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں(۱۹۵)۔

ابن القیم الجوزیۃ (۱۹۶) کہتے ہیں اور جہاں تک غالی جہمیوں اور غالی شیعوں کا تعلق ہے تو ان دونوں گروہوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔اسی لیے سلف کی ایک جماعت نے انہیں تہتر فرقوں کی فہرست سے بھی خارج کردیا ہے اور کہا کہ یہ لوگ ملت سے خارج ہیں(۱۹۷) اور انہوں نے قبر پرستوں کے بارے میں لکھا ''اور ان میں رافضہ ہیں ''۔ ان مشرکوں کی گمراہی یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے قبروں کے لیے حج مشروع کرلیا اور اس کے لیے مناسک وضع کیے یہاں تک ان کے بعض غالیوں نے اس کے متعلق کتابیں لکھیں اور اس ''مناسک الحج المشاد'' کا نام دیا اور ان قبروں کو بیت الحرام کے برابر قرار دیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اسلام میں فرق ہے اور بت پرستی کے دین میں داخل ہونا ہے(۱۹۸)۔ انہوں نے رافضیوں کے خرافاتی مہدی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ لوگ بنی آدم پر عار ہیں اور ایسے مضحکہ خیز ہیں جن پر ہر عاقل ہنستا ہے(۱۹۹)۔ کہتے ہیں کہ ہم نے ہر زمان و مکان میں رافضیوں کو دیکھا کہ مسلمانوں کے خلاف جب بھی اور جہاں کوئی دشمن کھڑا ہوا وہ اس کے مدد گار بن گئے۔ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کتنے بلوے کیے ہیں۔ تاتاری مشرکوں کی تلواریں مسلمانوں کے لہو سے سرخ ہوئیں تو انہیں کے زیرِ سایہ...مساجد کو مقفل کیا گیا، مصحف پھاڑے گئے... مسلمان عورتوں کو قتل کیا گیا... ان کے علما، عابد اور ان کے خلیفہ کو قتل کیا...یہ سب انہی رافضیوں کے سبب ہوا ...انہی کے جرائم کے سبب ہوا؟...مشرکوں کی مسلمانوں کے خلاف انکی مدد ہر خاص عام کو معلوم ہے(۲۰۰)۔
(۱۰)ابن رجب کہتے ہیں...رافضیوں کی یہودیوں کے ساتھ ستر خصلتوں میں مشابہت پائی جاتی ہے(۲۰۲)۔

(۱۱) محمد بن عبد الوہاب کہتے ہیں یہ روافض جو شیخین کو گالی دیتے ہیں اور جمہور صحابہ کو کافر قرار دیتے ہیں اور علی رضی اللہ عنہ اور انکی اولاد کی طرف نسبت رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم آلِ محمد ﷺکے شیعہ ہیں... کیا وہ اس میں سچے ہیں؟ ہر گز نہیں بلکہ درحقیقت یہی ان کے دشمن ہیں اور اہل بیت ان سے بری ہیں۔ اسی طرح یہودی اور عیسائی اپنے انبیاء ںکی طرف نسبت کرتے ہیں اور یہ زعم رکھتے ہیں کہ وہ ان کے دین پر ہیں جبکہ وہ ان سے بیز ارہیں(۲۰۳)۔اہلِ حدیث و اہلِ علم یہ بات جانتے ہیں کہ سب سے جھوٹا ترین گروہ رافضہ ، شیعہ کا ہے اور جو کوئی ان کی طرف نسبت رکھتا ہے(۲۰۴)۔ شیخ کہتے ہیں جس نے اللہ کے اور اپنے درمیان واسطے بنا کر انہیں پکارا اور اس سے شفاعت کا سوال کیا اور انہی پر توکل کیا تو وہ بالاجماع کافر ہے(۲۰۵)۔

(۱۲) عبد الرحمن بن حسن(۲۰۶)کہتے ہیں اصل رافضہ وہ ہیں جنہوں نے امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے عہد میں خروج کیا۔ پس جب آپ کو ان کے برے عقیدے کے بارے میں پتہ چلا تو آپ نے خندقیں کھودیں اور اس میں لکڑیا ں ڈال کر آگ بھڑ کائی اور انہیں آگ میں ڈال دیا۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اس امت میں شرک کو رواج دیا۔ انہوں نے قبروںپر عمارتیں بنائیں اور ان کے بہت سے برے قواعد ہیں جن کی طوالت کے باعث ہم یہاں انہیں ذکر نہیں کرتے (۲۰۷)۔ ان سے سوال کیا گیا اس شخص کے بارے میں جو کسی رافضی کو لیکر مکہ جائے تو انہوں نے کہا کہ جس نے کسی رافضی کو مکہ پہنچایا تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی(۲۰۸) اور کبیر ہ گناہ کا مرتکب ہوا۔ پس جس کسی نے ایسا کیا وہ فاسق ہوگیا(۲۰۹)۔

(۱۳) عبد اللطیف بن عبد الرحمن(۲۱۰)کہتے ہیں کہ ان کے دل دھوکہ و مکاری سے بھرے ہوئے ہیں اس لیے آپ دیکھیں گے لوگوں میں سب سے زیادہ اخلاص سے دور اور سب سے زیادہ امت سے دھوکہ کرنے والے یہی لوگ ہوں گے۔ وہ ہمیشہ اہلِ اسلام کے خلاف کسی بھی دشمن کا ساتھ دینے والے ہیں۔ یہ ایسا امر ہے جس کا مشاہدہ پوری امت کرچکی ہے۔ جس نے مشاہدہ نہیں کیا اس نے دیکھ ضرور لیا سوائے اس کے جو کانوں سے بہرا ہو اور دل کا اندھا ہو(۲۱۱)۔ اور کہتے ہیں کہ عراق میں ان کے ہاں ایک مزار ہے جسے مشہد الحسینی کہا جاتا ہے۔ اسے رافضیوں نے بت بنا رکھا ہے بلکہ تدبیر کرنے والا رب اور آسانیاں دینے والا خالق بنا رکھا ہے۔ انہوں نے اس کے ذریعے مجوسیت کا احیا کیا ہے اور لات منات و عزیٰ کے معبد خانے آباد کردئیے ہیں اور ہر وہ کام جس پر اہلِ جاہلیت گامزن تھے ان میں عود کر آیا ہے۔ یہی حالت مشہدِ عباس اور مشہدِ علی کی بنا رکھی ہے(۲۱۲)۔
تراجم وحوالہ جات
(۱۷۹) الذہبی کہتے ہیں وہ امام تھے شیخ الاسلام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل الشیبانی،المروزی، ثم البغدادی۔ ائمہ اعلام میں سے ایک تھے۔164 ہجری میں پیدا ہوئے۔اسحق بن راہویہ کہتے ہیں احمد اللہ کی مخلوق میں اسکی حجت ہیں۔241ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۸۰) کتاب السنۃ للامام احمد۔
(۱۸۱) فتاویٰ السبکی با ب جامع فصل سب النبیا۔
(۱۸۲)اسے اللالکائی نے شرح اصول الاعتقاد اہل السنۃ والجماعہ میں روایت کیا۔
(۱۸۳) الذہبی کہتے ہیں امام ،العلامۃ، ابو محمد حرب بن اسماعیل الکرمانی الفقیہ، احمد بن حنبل کے شاگردوں میں سے ہیں۔ انہوں نے ابوولید الطیالیسی ، ابو بکر الحمیدی، ابو عبید،سعید بن منصور، احمد بن حنبل، اسحق بن راہویہ سے اکتسابِ فیض کیا۔ ابو بکر الخلال کہتے ہیں کہ وہ اصحابِ ابو عبد اللہ کے کبرا ء میں سے ہیں... اور مجھے خبر ملی ہے کہ انہوں نے ابو عبد اللہ سے بیس ہزار کے قریب احادیث لکھی ہیں اور آپ بہت جلیل القدرآدمی تھے۔280ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۸۴) حادی الارواح الی بلاد الافراح، الباب السبعون؛ فی ذکر من یستحق ھذہ البشارة دون غیرہ۔
(۱۸۵) الذہبی کہتے ہیں البربہاری شیخ الحنابلہ، قدوۃ الامام ابو محمد حسن بن علی بن خلف البربہاری، الفقیہ، وہ حق بات کہنے والے، حدیث کی طرف دعوت دینے والے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کی پرواہ نہ کرنے والے تھے۔ انہوں نے المروزی اورسہل بن عبد اللہ التستری کی صحبت اختیار کی۔ ابن خجیر کہتے کہ وہ اہل، بدعت کے بہت خلاف تھے اور خاص و عام لوگ آپ کو قدر کی نگا ہ سے دیکھتے تھے۔ایک دن وہ وعظ کررہے تھے کہ انہیں چھینک آگئی تو حاضرین نے انہیں گالی دی اور پھر جنہوں نے اس گالی کو سنا انہوں نے گالی دینے والوں کو گالی دی یہاں تک کہ یہ لڑائی اس قدر بڑھی کہ خلیفہ کو خبر پہنچنے پر انہوں نے آپ کو جیل میں ڈالنے کا ارادہ کیا تو آپ اس سے بھاگ گئے اور اپنے خفیہ ٹھکانے میں 328ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۸۶) شرح السنۃ۔
(۱۸۷)الفراء کہتے ہیں عبید اللہ بن محمد بن محمدبن عتبہ بن فرقد ( جو نبی ﷺ کے اصحاب میں سے تھے) ابو عبد اللہ العکبری المعروف بابن بطہ۔304 ہجری میں پیدا ہوئے۔ الذہبی کہتے ہیں الامام القدوۃ العابد، الفقیہ، المحدث ، شیخ العراق، الحنبلی، حاکمِ وقت نے انہیں جیل میں ڈالنے کے لیے طلب کیا تو آپ فرار ہوگئے۔387 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۸۸) '' امام کے وجود کے بغیر عدم جواز ِ جہادکے قائل رافضی''، اپنے اصول کو توڑ گئے چاہے انہیں اس کا شعور ہو یا نہ ہو... ابو الحسن الاشعری ''المقالات''میں کہتے ہیں کہ رافضیوں کا خروج نہ کرنے اور تلوار کا انکار کرنے پر اجماع ہے چاہے وہ قتل ہوجائیں یہاں تک کہ ان کا امام ظاہر ہو اور انہیں وہ خود اس بات کا حکم دے ۔اسی لیے وہ نہ کفار کے خلاف لڑتے ہیں اور نہ ہی ائمہ جماعت کے ساتھ مل کرلڑتے ہیں سوائے اس کے جو ان کے اپنے مذہب کا التزام کرتا ہو۔
عبد القادر بن عبد العزیز ''العمدہ'' میں کہتے ہیں کہ شیعہ نے خمینی کے انقلاب کے شروع ہوتے ہی اس عقیدہ کی مخالفت کی اور یہ ان کی کتابوں میں مذکور عقیدہ کے فاسد ہونے کی بڑی واضح دلیل ہے !۔لیکن عجیب بات تو یہ ہے کہ بعض اہل السنۃ بھی اسی شبہہ کا اظہار کرتے ہیں(کہ امام کے بغیر جہاد نہیں)۔
امام غزالی ''الاحیاء''میں لکھتے ہیں ''کہ شیعہ کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جائز نہیں جب تلک امام ِمعصوم ظاہر نہ ہوجائے۔ اور وہ ان کے نزدیک امام حق ہے جبکہ یہ لوگ کم مرتبہ ہیں کہ اس کی جگہ پر بات کرسکیں بلکہ ان کا جواب یہ ہے کہ انہیں کہا جائے جب وہ عدالتوں میں اپنے حقوق لینے کے لیے آتے ہیں اور اپنے اموال و خون کے فیصلے کرواتے ہیں...تمہار امر بالمعروف کی نصرت کرنا... کیا یہ زمانہ ظلم سے روکنے کا نہیں اور حقوق طلب کرنے کا ہے! ...کیونکہ امام ابھی تک نہیں نکلا...!
پس اللہ اسے قتل کرے جو ''سلفیت'' کا دعویٰ کرتا ہے اور امت میں رسوائیت اور رافضیوں کے اصول عام کرتا ہے!
(۱۸۹) الابانہ، باب؛ التحذیر من استماع کلام قوم یریدون نقض الاسلام۔
(۱۹۰) الصارم المسلول، فصل فامامن سب ازواج النبیا ۔
(۱۹۱) الذہبی کہتے ہیں امام العلامہ،ا لبحر، شیخ الحنابلہ، ابو الوفاء، علی بن عقیل بن محمد البغدادی الحنبلی المتکلم، صاحبِ تصانیف۔ وہ بہت ذکی، علوم کا سمندر اور کثیر فضائل والے تھے۔ وہ اپنے زمانے میں بے نظیر تھے۔431ہجری میں پیدا ہوئے۔ وہ معتزلہ کے ساتھ مختلط ہوئے تو کچھ ان کی بدعات کا شکار ہوگئے لیکن حنابلہ نے ان کا شدید انکار کیا تو انہوں نے توبہ کرلی۔ ابن الجوزی کہتے ہیں وہ فنون میں یکتا تھے اور اپنے زمانے کے امام تھے۔ بہت خرچ کرنے والے اور انہوں نے اپنی وراثت میں کتابوں اور ان کپڑوں کے علاوہ جو ان کے بدن پر تھے کچھ نہ چھوڑا۔513 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۹۲) تلبیس ابلیس ، ذکر تلبیس علی الرافضہ۔
(۱۹۳)اسے ابن القیم نے ''اغاثۃ اللہفان''میں ذکر کیا۔
(۱۹۴)تلبیس ابلیس، ذکر تلبیسہ علی الرافضہ۔
(۱۹۵)منہاج السنۃ۔
(۱۹۶) ابن رجب کہتے ہیں محمد بن ابی بکر بن ایوب الزرعی، ثم الدمشقی، الفقیہ، الاصولی، المفسر، النحوی، العارف، شمس الدین، ابو عبداللہ ا بن القیم الجوزیہ، ہمارے شیخ، انہوں نے مذہب کی فقہ حاصل کی اور ماہر و مفتی تھے۔ انہوں نے شیخ تقی الدین کے ساتھ کو لازم کیا اور ان سے اخذ کیا۔وہ اسلامی علوم و فنون کے ماہر تھے۔ وہ معصوم نہ تھے...لیکن میں نے ان جیسا نہیں دیکھا۔ انہیں شیخ تقی الدین کے ساتھ قلعہ میں ان سے علیحدہ قید کیا گیا اور انہیں شیخ ابن تیمیہ کی موت کے بعد رہا کیا گیا۔691ہجری میں پیدا ہوئے اور751 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۱۹۷) مدارج السالکین، فصل، وما الفسوق فھو فی کتاب اللّٰہ نوعان۔
(۱۹۸)اغاثہ اللھفان من مصائد الشیطان، فصل؛ ثم ان فی اتخاذ القبور اعیاداً من المفاسد العظیمة۔
(۱۹۹) المنار المنیف، فصل؛وسئلت عن حدیث لا مھدی الا عیسیٰ۔
(۲۰۰)مدارج السالکین، فصل؛فی بیان تضمنھا للرد علی الرافضة۔
(۲۰۱) ابو المحاسن الحسینی کہتے ہیں عبد الرحمن بن احمد بن رجب البغدادی، ثم الدمشقی، الحنبلی، الامام ، الحافظ الحجہ ، الفقیہ، زاہد و عابد علماء و ائمہ میں سے ایک تھے، مسلمانوں کے واعظ، مفید المحدثین، شہاب الدین ابو العباس یا ابو الفرج۔وہ ایسے امام تھے کہ لوگوں کے دل محبت کے ساتھ انکی طرف مائل تھے اور ان پر فرقے مجتمع تھے۔ ان کی محفلیں تذکیر و نفع کی حامل ہوا کرتی تھیں۔736ہجری میں پیدا ہوئے اور795 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۰۲) الحکم الجدیر بالاذاعة من قول النبی بعثت بالسیف بین یدی الساعة۔
(۲۰۳) جواب اھل السنة النبویة فی نقض کلام الشیعة والزیدیة،فصل؛فی بیان مذھب الزیدیة من البدع۔
(۲۰۴) جواب اھل السنة النبویة فصل؛ فی انصاف اھل السنة وکذب الروافض۔
(۲۰۵)الدرر السنیة ، کتاب العقائد
(۲۰۶) العلامہ عبد الرحمن بن حسن بن محمد بن عبد الوہاب۔1196ہجری میں پیدا ہوئے اور انہوں نے تعلیم اپنے دادا ، علی بن حمد بن ناصر بن معمر ،حسین بن غنام سے حاصل کی۔ ابن قاسم کہتے ہیں ان کے زمانے میں کوئی ان سے بڑھ کر فقیہ، زاہد اور سنت کی اتباع کرنے والا نہ تھا۔ وہ ایسے پہاڑ کی مانندتھے جس پر چڑھنا اور اس کی چوٹی کو چھونا مشکل ہوتا ہے۔1285ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۰۷) الدررالسنیۃ کتاب الاسماء ولصفات۔
(۲۰۸)یہ اس لیے کہ وہ رافضیوں کو کفر پر سمجھتے تھے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ) اے ایمان والو مشرک پلید ہیں پس وہ مسجدِ حرام کے قریب نہ پھٹکیں (التوبہ82 )۔
(۲۰۹) الدرر السنیۃ کتاب الحج۔
(۲۱۰)عبد اللطیف بن عبد الرحمن بن حسن بن محمد بن عبد الوہاب۔ ان کے بارے میں محمود شکری آلوسی کہتے ہیں وہ بہت بڑے علامہ تھے، علامۃ المعقول والمنقول۔ انہوں نے اصول و فروع کے علم پر کافی مہارت حاصل کی۔1225ہجری میں پیدا ہوئے اور 1293ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۱۱) الدرر السنیۃ کتاب الجہاد۔
(۲۱۲) الدرر السنیۃ کتاب العقائد۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
مالکیہ کے رافضہ کے بارے میں اقوال
(۱) امام مالک نے کہا کہ اہلِ الاہواء سب کے سب کافر ہیں اور ان میں سب سے برے رافضہ ہیں۔ امیر المومنین ہارون الرشید(۳۱۳) نے ان سے سوال کیا کہ کیا اس شخص کے لیے مالِ فئی میں حصہ ہے جو نبی ﷺکے صحابہ کو گالی دے؟ تو امام مالک نے کہا نہیں اور نہ ہی اس کی عزت کی جائے ۔ ہارون نے کہا یہ آپ نے کس بنا پر کہا؟۔کہنے لگے اللہ فرماتے ہیں {لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّار} تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے ...پس جو ان پر عیب لگائے وہ کافر ہے اور کافر کا فئی کے مال میں کوئی حق نہیں(۲۱۴)۔ امام مالک کہتے ہیں وہ جو اصحاب النبی ﷺکو گالی دیتا ہے اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں(۲۱۵) اور کہتے ہیں جس نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو گالی دی اس کو قتل کر دیا جائے۔ ان سے کہا گیا ایسا کیوں ہے؟ انہوں نے کہا جس نے ان پر الزام لگایا اس نے قرآن کی مخالفت کی۔ کیونکہ اللہ فرماتے ہیں {يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَن تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ} اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ دوبار ہ ایسا نہ کرو اگر تم مومن ہو۔ پس جس نے اس کا اعادہ کیا تو وہ کافر ہوگیا(۲۱۶)۔

(۲) عبد الملک بن حبیب (۲۱۷)نے کہاجس نے عثمان کے بغض میں غلو اختیار کی اور ان سے برأت کی اور اسے شدید تأدیبی سزا دی جائے گی۔ جس نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بغض میں شدت اختیار کی اس کی عقوبت اس سے بھی سخت ہے اور انہیں بار بار ضرب لگائی جائے اور اسے لمبے عرصہ کے لیے جیل میں ڈال دیا جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے (۲۱۸)۔

الذہبی کہتے ہیں الرشید الخلیفہ، ابو جعفر ہارون بن المہدی محمد بن المنصور ابو جعفر عبد اللہ بن محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس، الہاشمی، العباسی وہ بہت نیک خلفاء میں سے تھے اور بہت شان و الے تھے بہت زیادہ حج و جہاد کرنے والے، صاحبِ رائے اور شجاعت والے۔148ہجری میں پیدا ہوئے اور 170 ہجری میں مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے اور جہاد کے دوران193ہجری میں فوت ہوئے اور وہ کہا کرتے تھے کہ میں نے جھوٹ کو ڈھونڈا تو اسے رافضیوں میں پایا { شرف اصحاب الحدیث للخطیب البغدادی}۔

(۲۱۴) اسے قاضی عیاض نے ترتیب المدارک وتقریب المسالک میں ذکر کیا باب اتباع السنن وکراہیۃ المحدثات۔

(۲۱۵) اسے الخلال نے کتاب السنہ میں روایت کیا۔

(۲۱۶) الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ فصل وسب آل بیتہ واز واجہ واصحابہ و تنقیصہم حرام ملعون فاعلہ۔

(۲۱۷)قاضی عیاض کہتے ہیں عبد الملک بن حبیب بن سلیمان،ان کی کنیت ابو مروان تھی اور وہ اصلاً طلیطلۃ(اندلس) کے رہنے والے۔ جب سحنون کے پاس افسوس کیا گیا تو وہ کہنے لگے اندلس کا علم مر گیا بلکہ اللہ کی قسم دنیا کا عالم فوت ہوگیا۔238ہجری میں فوت ہوئے۔

(۳) سحنون کہتے ہیں جس کسی نے یہ کہا کہ خلفائے اربعہ کفر و ضلالت پر تھے اسے قتل کیا جائے (۲۲۰) اور جس نے ان چاروں کی تکفیر کی تو وہ مرتد ہے (۲۲۱)۔

(۴) قاضی عیاض (۲۲۲) کہتے ہیں ہم رافضیوں کو قطعی کافر قرار دیتے ہیں بسبب ان کے یہ کہنے کے کہ ان کے آئمہ انبیا ں سے افضل ہیں اور اسی طرح ہم اسے بھی قطعی کافر قرار دیتے ہیں جو امت کو اپنے قول کے ذریعے گمراہ کرے اور صحابہ کی تکفیر کرے جیسے کہ رافضہ میں ''کمیلیۃ'' کا قول جب انہوں نے نبی ﷺکی تمام امت کو کافر قرار دے دیا جب تک علی نہ آئے اورعلی کی تکفیر کردی کہ انہوں نے اپنے حق کو طلب کیوں نہ کیا۔ یہ لوگ متعدد وجوہ سے کافر ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ساری شریعت کو باطل قرار دے دیا کیونکہ اس سے توان کے زعم کے مطابق قرآن وسنت کو ہم تک نقل کرنے والے کافر ٹھہرے ۔(واللہ اعلم) امام مالک نے اپنے ایک قول میں اشارہ دیا ہے کہ اس شخص کو قتل کردیا جائے جو صحابہ کی تکفیر کرے(۲۲۳)۔

(۵) ابو ولید الباجی کہتے ہیں(۲۲۴) جہاں تک شیعہ کا تعلق ہے پس جو کوئی ان میں علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرے اور غالی نہ ہو تو یہ ہمارا بھی دین ہے لیکن جس نے غلو کیا اور عثمان سے بغض رکھا اور ان سے برأت کی تو اسے شدید تادیبی سزا دی جائے گی اور جس کا غلو زیادہ ہو یہاں تک کہ وہ ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کو گالی دے تو اس کی سزا سخت ترین ہے ... اسے بار بار مارا جائے اور طویل قید میں رکھا جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے اور جو کوئی ان میں سے متجاوز ہوکر الحاد کی راہ اپنا لے اور یہ گمان کرے کہ علی رضی اللہ عنہ کو اٹھا لیا گیا ہے اور انہیں موت نہیں آئی اور وہ زمین پر واپس آئیں گے اور یہ کہ وہی دابۃ الارض ہیں اور ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ ان کے پاس وحی آتی تھی اور ان کے بعد ان کی اولاد کی اطاعت فرض ہے پس ایسا الحاد کفر ہے اور اس کے کہنے والے سے توبہ کروائی جائے گی اور اگر وہ توبہ نہ کرے تو اسے قتل کردیا جائے(۲۲۵)۔

(۶) قاضی ابو بکر ابن العربی کہتے ہیں(۲۲۶) اکثر ملحدین جو اہلِ بیت سے تعلق کا دعویٰ کرتے ہیں اور انہیں تمام مخلوق پر فضیلت دیتے ہیں یہاں تک کہ رافضی بیس فرقوں میں تقسیم ہوگئے اور ان میں سب سے زیادہ برے وہ ہیں جو کہتے ہیں علی اللہ ہیں۔ الغرابیۃ کہتے ہیں کہ وہی اصل میں رسول للہ تھے لیکن جبریل نے رسالت کو بدل دیا اور محمدﷺ کی طرف پیغام لے گیا۔ یہ صریحاً کفر ہے جسے صرف تلوار کی گرمی ہی دور کرسکتی ہے اور بحث و مناظرہ کا اس میں کوئی فائدہ ہی نہیں(۲۲۷)اور وہ کہتے ہیں ان کے مذہب کی حقیقت یہ ہے کہ تمام لوگ ان کے نزدیک کافر ہیں کیونکہ ان کا مذہب گناہوں کے ساتھ تکفیر پر ہے ۔ اسی طرح ان کا ایک گروہ جو امامیہ کہلاتا ہے وہ قدریہ کی طرح کہتے ہیں کہ ہر کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہے اور سب سے بڑے گناہگار یہ خلفاء ہیں اور جس نے انکی اس امر پر مدد کی اور اصحابِ محمد ﷺ سب سے زیادہ دنیا پر حریص ہیں اور سب سے کم دین کی حمیت رکھنے والے ہیں اور سب سے بڑے دین کے قاعدوں کو توڑنے والے!(۲۸۸) اورقاضی ابن العربی کہتے ہیں کہ رافضیوں نے اسلام کو حروف اور آیات کے ساتھ تباہ کیا اور ان کی نسبت قرآن کی طرف کی جو کسی بھی بصیرت والے سے مخفی نہیں ہے کہ یہ شیطان کا بہتان ہے۔ پھر انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس قرآن کو نقل کیا اور اسے ظاہر کیا جسے ہم نے چھپایا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہودی اور عیسائی اصحابِ موسیٰ و عیسیٰ پر راضی نہ ہوئے اسی طرح رافضی اصحابِ محمد ا پر راضی نہ ہوئے جب انہوں نے صحابہ پر حکم لگایا کہ وہ کفر و باطل پر متفق ہو گئے تھے(۲۳۰) اور وہ کہتے ہیں کہ اہل افک نے ام المومنین عائشہ پر الزام لگایا تو اللہ نے انہیں بری کر دیا۔ پس جو کوئی اللہ کی برات کردہ کو گالی دے وہ جھوٹا ہے اور جو اللہ کی تکذیب کرے وہ کافر ہے(۲۳۱)۔

(۷)ابو العباس بن الحطیئہ(۲۳۲) وہ اپنے مسائل میں اس طرح لکھتے ہیں کہ اس مسئلہ میں لوگوں میں سب سے احمق لوگ رافضہ ہیں... رافضیوں نے کتاب و سنت کی مخالفت کی اور اللہ سے کفر کیا (۲۳۳)

(۸) ابو عبد اللہ القرطبی (۲۳۴)موسیٰ علیہ السلام سے ہارون علیہ السلام کی نسبت ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں پس اس سے رافضیوں اور ان کے تمام فرقے استدلال کرتے ہیں کہ نبیﷺنے علی رضی اللہ عنہ کو تمام امت پر خلیفہ بنایا یہاں تک کہ امامیہ نے ...اللہ ان کو ذلیل کرے...تمام صحابہ کو کافر قرار دے دیا کیونکہ انہوں نے علی کی خلافت پر موجود نص کا انکار کیا اور اس کے غیر کو اجتہاد کے ساتھ خلیفہ بنا دیا اور ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ جنہوں علی رضی اللہ عنہ کو اپنا خلافت کا حق طلب نہ کرنے کے سبب کافر قرار دے دیا پس ان لوگوں کے کفر میں اور جو ان کے اقوال کی پیروی کرے اس کے کفر میں کیا شک ہے(۲۳۵) اور وہ اس آیت کی تفسیر {يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الكُفَّارَ} کی تفسیر اور اس میں امام مالک کا قول نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ لوگوں میں جس کے دل میں کسی ایک صحابی کے بارے میں بغض آجائے تو وہ اس آیت کے زمرہ میں ہے اور پھر کہتے ہیں امام مالک نے بہت ہی اچھی بات کہی اور بہتر تاویل کی پس جس کسی نے کسی ایک صحابی کی تنقیص کی یا ان پر طعن کیا تو ایسے شخص نے اللہ رب العلمین کا رد کیا اور مسلمانوں کی شریعت کا بطلان کیا۔

(۹) ابو عبد اللہ الخرشی کہتے ہیں جس نے عائشہ ؓ پر الزام لگایا جسے اللہ نے بری کیا کہ اور وہ یہ بھونکے کہ آپ نے (نعوذ باللہ) زنا کیا تھا یا یہ کہ وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرے یا آپ کے اسلام کا انکار کرے یا تمام صحابہ کے اسلام کا انکار کرے یا خلفائے اربعہ کوکافر کہے یا کسی ایک کی تکفیر کرے تو وہ کافر ہے(۲۳۶)۔

(۱۰) علی الاجہوری (۲۳۷) کہتے ہیں پس خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کو کافر قرار دینے والے کی تکفیر کی جائے کیونکہ اس نے ایسی بات کی تکذیب کی ہے جو دین میں ضرورت کے ساتھ معلوم ہے اور اس نے اللہ اور رسول ﷺکی تکذیب کی ہے (۲۳۸)۔

(۱۱) ابو لعباس الصاوی (۲۳۹) کہتے ہیں کہ جس نے تمام صحابہ کی تکفیر کی تو وہ بالاتفاق کافر ہے جیسے کہ ''شامل''میں ہے کیو نکہ اس نے دین میں ضرورت کے ساتھ معلوم بات اور اللہ و رسولﷺ کی تکذیب کی ہے(۲۴۰)۔
تراجم وحوالہ جات
(۲۱۸) الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ، فصل؛ وسب آل بیتہ وازواجہ واصحابہ وتنقیصھم حرام فاعلہ ملعون۔
(۲۱۹) الذہبی کہتے ہیں الامام العلامہ مغرب کے فقیہ، ابو سعید عبد السلام بن حبیب التنوخی الحمصی الاصل، المغربی القیروانی، المالکی، قاضی القیروان، صاحب المدونہ۔ انہوں نے سفیان بن عیینہ، ولید بن مسلم، عبد اللہ بن وہب، عبد الرحمن بن قاسم ، وکیع بن جراح اور اشہب سے سماع کیا اور ابن وہب،ابن القاسم اور اشہب کی صحبت اختیار کی یہاں تک کہ ان کی مثل بن گئے اور اہلِ مغرب کے قائد بن گئے اور مغرب میں علم آپ پر منتہیٰ ہوا۔ اشہب کہتے ہیں ہمارے پاس سحنون سے بہتر کوئی نہیں آیا۔240ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۲۰) الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ، فصل؛ وسب آل بیتہ وازواجہ واصحابہ وتنقیصھم حرام فاعلہ ملعون۔
(۲۲۱)حاشیة الصاوی علی الشرح الصغیر باب فی تعریف الردہ واحکامھا۔
(۲۲۲) الذہبی کہتے ہیں الامام العلامہ الحافظ الاوحد شیخ الاسلام قاضی ابو الفضل عیاض بن موسیٰ بن عیاض الیحصیی الاندلسی ثم السبتی المالکی انہوں نے علوم کا دریا اپنے اندر سمو لیا جمع تصنیف کے میدان میں جوہر دکھائے اور ان کی تصانیف لوگ سواریوں پر اٹھاتے تھے۔ حتیٰ کہ افق پر ان کا نام چمکنے لگا۔476ہجری میں پیدا ہوئے۔ ابن خلکان کہتے ہیں قاضی کے اساتذہ کی تعداد سو کے قریب ہے۔544ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۲۳) الشفاء، فصل فی بیان ما ھو من المقالات کفر...
(۲۲۴)الذہبی کہتے ہیں الامام العلامہ الحافظ ذوالفنون القاضی ابو الولید سلیمان بن خلف بن سعد التجیبی الاندلسی القرطبی الباجی الذہبی صاحبِ تصانیف۔ ان سے ابو عمر عبد البر، ابو محمد بن حزم اور ابو بکر الخطیب نے بیان کیا ہے۔ آپ سے ائمہ نے فقہ حاصل کی اور آپ کا نام بہت مشہور ہوا اور آپ نے بہت تصنیفات چھوڑیں۔403ہجری میں پیدا ہوئے اور474 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۲۵)المنتقیٰ شرح الموطا عند حدیثہ عن قول عمر بن عبد العزیز {ما رأیک فی ھؤلا ء القدریة}
(۲۲۶)الذہبی کہتے ہیں الامام العلامہ الحافظ القاضی ابو بکر محمد بن عبد اللہ بن محمد بن عبد اللہ ابن العربی الاندلسی الاشبیلی المالکی صاحبِ تصانیف، علوم و فنون کے جامع تھے اور بہت فصیح و بلیغ خطیب تھے۔468 ہجری میں پیدا ہوئے اور543 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۲۷) العواصم من القواصم ، قاصمہ، کانت الجاھلیة مبنیة علی العصبیة۔
(۲۲۸)العواصم من القواصم ، قاصمہ، فان قیل انما تکون ذالک فی المعانی الذی تشکل۔
(۲۲۹) احکام القرآن قولہ تعالیٰ {لقد جاء کم رسول من انفسکم...} التوبة128 ۔
(۲۳۰)العواصم من القواصم ، قاصمہ، یکفیک من شر سماعہ
(۲۳۱) احکام القرآن قولہ تعالی {یعظکم اللّٰہ ان تعودوا لمثلہ} النور17۔
(۲۳۲) الصفدی کہتے ہیں احمد بن عبد اللہ بن احمد ابو العباس بن الحطیئہ اللخمی الفارسی المقری الناسخ امام صالح بہت قدر و منزلت والے ، علامہ۔ فأس میں پیدا ہوئے ۔حج کیا اور شام میں داخل ہوئے وہاں کبار سے ملے اور جامع مصر کو اپنا وطن بنا لیا۔ 478 میں پیدا ہوئے اور560ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۳۳) الذہبی نے ان کا تذکرہ السیر میں کیا ہے۔
(۲۳۴)ابن فرحون کہتے ہیں محمد بن احمد بن ابو بکر بن فرخ الشیخ الامام ابو عبد اللہ الانصاری الاندلسی القرطبی المفسر۔ وہ اللہ کے نیک بندے اور علماء میں سے تھے۔ دنیا میں زہد اختیار کرنے والے اور اپنی آخرت کا سامان کر نے والے ان کا وقت عبادت و تصنیف میں گذرتا۔671 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۳۵) الجامع لاحکام القرآن الکریم قولہ تعالیٰ {وقال موسی لأخیہ ہارون اخلفنی}الاعراف142۔
(۲۳۶) شرح مختصر خلیل للخرشی باب؛ الردة والسب واحکامھا۔
(۲۳۷)علی بن زین العابدین الاجہوری۔ یہ نسبت الاجہور الورد کی طرف جو کہ مصر کی ایک بستی ہے۔ وہ اپنے زمانہ میں مالکیہ کے بڑے عالم تھے۔1066ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۳۸)شرح مختصر خلیل للخرشی باب؛ الردة والسب واحکامھا۔
(۲۳۹) ابوا لعباس احمد بن محمد الخلوتی الصاوی۔ یہ نسبت صاء الحجر(مصر)کی طرف ہے۔ وہ مالکی فقیہ تھے1175ہجری میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے الدردیر اور الدسوقی سے فقہ حاصل کی۔1241ہجری میں مدینہ منورہ میں فوت ہوئے۔
شرح مختصر خلیل للخرشی باب؛ فی تعریف الردة والسب واحکامھا۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
شافعی فقہاء کے رافضہ کے بارے میں اقوال
(۱) امام الشافعی (۲۴۱) کہتے ہیں میں نے اہلِ الاہوا میں سب سے جھوٹے دعوے کرنے والا اور جھوٹی گواہی دینے والا رافضہ سے بڑھ کر کوئی نہیں دیکھا (۲۴۲) اور کہتے ہیں کہ رافضی کے پیچھے نماز نہ پڑھو(۲۴۳)۔

(۲) ہبۃ اللہ اللالکائی(۲۴۴) کہتے ہیں رافضیوں کی رسوائیت کے بارے میں جو سیاق مروی ہے ، جو اصحابِ رسول اللہ کو گالی دیتے ہیں اور اسے دین سمجھتے ہیں اور ان کا کفر اور جو حماقتیں ان سے منقول ہیں اس کے بعد انہوں نے کچھ آثار نقل کیے ہیں(۲۴۵)۔

(۳)عبد القادر بن طاہر البغدادی (۲۴۶) کہتے ہیں وہ کافر جو اسلامی حکومت کے دوران ظاہر ہوئے اور انہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھا اور مسلمانوں کو خفیہ طریقوں سے قتل کیا جیسے کہ سبائی فرقہ کے غالی رافضی۔

پس یہ گروہ جس کا ہم نے ذکر کیا ہے اس کا حکم دین سے مرتد کا حکم ہے اور ان کے ذبیحہ کا کھانا جائز نہیں اور نہ ہی ان کی عورتوں کے ساتھ نکاح جائز ہے اور نہ ہی دارالاسلام میں جزیۃ وصول کر کے ان کو رہنے کی اجازت دینا درست ہے بلکہ ان سے توبہ کروائی جائے گی ۔ پس اگر وہ توبہ کرلیں تو ٹھیک ورنہ ان سے قتال کیا جائے گا اور ان کے اموال غنیمت بنائے جائیں گے۔

جہاں تک اہلِ ہوس امامیہ کا معاملہ ہے جنہوں نے صحابہ کو کافر قرار دے دیا پس ہم ان کی تکفیر کریں گے جیسے کہ وہ اہل السنۃ کی تکفیر کرتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک ان کی نمازِ جنازہ پڑھنا اور نہ ہی ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے(۲۴۷) اور کہتے ہیں کہ اہل السنۃ کا اجماع ہے کہ تمام مہاجرین و انصار ایمان والے صحابہ ہیں اور یہ قول رافضیوں کے زعم کے خلاف ہے کہ صحابہ نے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کو تر ک کر کے کفر کیا اور اہل السنۃ کا اجماع ہے کہ نبیﷺکے ساتھ جو صحابہ بدر میں حاضر ہوئے وہ سب اہل جنت ہیں اور اسی طرح اہل السنۃ نے کہا ہر وہ شخص کافر ہے جس نے عشرہ مبشرہ میں سے کسی صحابی کی تکفیر کی اسی طر ح اہل السنۃ امہات المومنین کے ساتھ موالات رکھتے ہیں اور جو ان کی تکفیر کرے وہ اسے کافر قرار دیتے ہیں (۲۴۸)۔

خطیب البغدادی (۲۴۹) کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنے نبیﷺکے لیے مددگار پسند کیے اور اہلِ ملت پر لازم کیا کہ ان کا ذکر خیر کریں لیکن رافضیوں نے اللہ کے حکم کی مخالفت کی اور انہوں نے ان کی کوششوں اور جہد کو رائیگاں کرنے کی کوشش کی اور ان سے برأت کا اظہار کیا اور ان کو گالی دینے کو دین بنا لیا ۔ {يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ } وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو پھونکوں کے ساتھ بجھا دیں جیسے اس سے پہلے ان کے متقدمین چاہتے تھے اور{وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ }اللہ اپنے نور کو ضرور پورا کرے گا چاہے کافروں کو کیسا ہی ناگوار لگے(الصف8)اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ وہ کس کروٹ گرائے جاتے ہیں (۲۵۰)۔

ابو عثمان الصابونی (۲۵۱) خلفاء اربعہ کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں پس جو کوئی ان سے محبت رکھے اور ان سے دوستی رکھے اور ان کے لیے دعا کرے اور ان کے حقوق کا خیال کرے اور ان کے فضل کو پہچانے تو وہ کامیاب ہونے والوں میں سے ہے اور جو کوئی ان سے بغض رکھے انہیں گالی دے، اور ان کی نسبت اس طرف کرے جن امور کی طرف روافض اور خوارجی کرتے ہیں... اللہ کی ان پر لعنت ہو ... وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہے(۲۵۲)۔

(۶) ابو لمظفر الاسفرایینی (۲۵۳)کہتے ہیں امامیہ صحابہ کی تکفیر پر متفق ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن کو تبدیل کردیا گیا ہے جیسے کہ وہ تھا اور اس کے اندر صحابہ کی طرف سے زیادتی و نقصان کردیا گیا ہے اور ان کا زعم ہے کہ اس قرآن میں علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے بارے میں نص بھی تھی جسے صحابہ نے ساقط کردیا اور وہ یہ زعم رکھتے ہیں کہ موجودہ قرآن پر کوئی اعتماد نہیں اور نہ احادیث مصطفیٰﷺپر کوئی اعتماد ہے ۔ پھر یہ زعم رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہاتھ میں جو شریعت ہے اس کاکوئی اعتماد نہیں اور وہ اپنے موہوم امام کے منتظر ہیں جسے وہ مہدی کہتے ہیں جو نکلے گا اور انہیں تعلیم دے گا اور انہیں شریعت پڑھا ئے گا اور یہ کہ وہ اہل السنۃ دین کی کسی چیز پر بھی نہیں ہیں۔ اس کلام سے انکا مقصد امامیہ کے کلا م کی تحقیق کرنا ہی نہیں بلکہ اس سے وہ شریعت کی تکلیف کو ساقط کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ محرمات میں وسعت اختیار کریں اور عوام کے سامنے معذرت پیش کریں کہ یہ شریعت مبدل ہے اور قرآن صحابہ کے دور سے ہی محرف ہے اور دین میں سے کوئی چیز اپنی اصل پر باقی نہیں ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ یہ بات جان لو یہ بات جو ہم نے رافضیوں سے روایت کی ہے یہ صرف ان کے فساد پر دلالت نہیں کرتی پس ایک عقل مند انسان اپنی بدیہی عقل کے ساتھ اس بات کے فاسد ہونے کو جان لیتا ہے اور اس کا انکار کردیتا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے ان سے ایسے مقالات لیے جائیں سوائے اس کہ ان کے اندر ضمیروں میں چھپے خبث ِباطن کا اظہار ہوتا ہے جو وہ اہل بیت کی محبت کے پردہ میں اور الحاد و شر کے ساتھ چھپائے پھرتے ہیں(۲۵۴)۔ شیخ کہتے ہیں کہ اہل سنت کے فتاویٰ کا انحصار اہل السنۃ والجماعۃ پر ہے...اہل الرأی والحدیث...اور وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ رافضیوں کا مذہب مردود ہے(۲۵۵)۔

ابو حامد امام الغزالی (۲۵۶)کہتے ہیں کہ رافضیوں کی کج فہمی یہ ہے کہ انہوں نے ایسے جرم کی راہ نکالی اور جنابِ علی صسے یہ نقل کیا کہ وہ غیب کی باتیں اس لیے نہیں بتاتے تھے تاکہ اللہ تعالیٰ خود انہیں ظاہر کردے اور تبدیلی رونما کردے۔ اسی طرح انہوں نے جعفر بن محمد سے روایت کی کہ علی نے خود ابتداء نہ کی جب تک کہ انہیں حکم نہ ملا جیسے کہ اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کا حکم ملنے پر ہی ذبح کیا گیا ۔ پس یہ کفرِ صریح ہے اور اللہ کی طرف جہل و تغییر کی نسبت ہے(۲۵۸)۔

(۸) امام فخر الدین رازی کہتے ہیں اپنی تفسیر میں{وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ}جس دن ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کھائے گا(الفرقان27)رافضی کہتے ہیں یہ ظالم وہی شخص ہے اور اگرچہ مسلمان اس کا نام بدل دیں اور کتنا ہی اسے چھپائیں اور کسی فلاں کو اس کی جگہ رکھ دیں اور انہوں فاضل صحابہ کے نام ذکر کیے ہیں... پس رافضیوں کا یہ قول قرآن میں طعن کیے بغیر اور یہ ثابت کیے بغیر کہ قرآن محرف مکمل نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی نزاع نہیں کہ ایسا کہنا کفر ہے اور انہوں نے کہا وہ رافضی جو ام المو منین عائشہ صدیقہ پر طعن کرتے ہیں وہ ان یہودیوں کی طرح ہیں جو جناب مریم علیہا السلام پر بہتان باندھتے تھے(۲۵۹)۔

امام ابو عبد اللہ الذہبی کہتے ہیں ہر وہ شخص جو شیخین سے محبت کرتا ہے وہ غالی نہیں بلکہ وہ جو ان سے تعرض کرتا ہے تنقیص کے ساتھ تو وہ غالی رافضی ہے ۔ وہ اگر گالی دے تو شریر ترین رافضی ہے اور اگر وہ تکفیر کرے تو وہ کافر ہے اور رسوائیت کا مستحق ہے (۲۶۰)اور انہوں نے کہا کہ تو دیکھے گا کہ یہ لوگ ہمیشہ موضوع باتوں کے ساتھ احتجاج کرتے ہیں اور صحیح باتوں کی تکذیب کرتے ہیں اور جب بھی انہیں ادنیٰ سا خوف لاحق ہو تو تقیہ کرتے ہیں اور صحیحین کی تعظیم کرتے ہیں اور سنت کی بزرگی ماننے لگتے ہیں اور رافضیت پر لعنت کرتے ہیں اور اسکا انکار کرتے ہیں۔ وہ خود اپنے اوپر لعنت کا اعلان کرتے ہیں ... ایسا کام جسے نہ یہودی اور نہ ہی مجوسی اپنے ساتھ کرتے تھے۔ جہالت کے طور طریقے ان کے فضلاء و مشایخ پر غالب ہیں تو تمہارا ان کے عامۃ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ۔ کوئی ان کے نیکوں کاروں کے حیلوں کا کیا گمان کرے کہ وہ جاہلیت کے جاہل اور بدکے ہوئے گدھے ہیں۔ اللہ کی تعریف ہے ہدایت پر اور وہ صحابہ کے متعلق کہتے ہیں کہ جس نے ان کی شان میں طعن کیا یا انہیں گالی دی تو وہ دین سے اور مسلمانوں کی ملت سے خار ج ہو گیا کیونکہ ان کے بارے میں طعن ان کے مناقب ، فضائل، اللہ اور رسول ا سے ان کی محبت اور اللہ کی ان کے بارے تعریف میں طعن ہے اور اس لیے کہ وہ احادیث کے سب سے ہر دلعزیز رواۃہیں ۔ اس واسطے اور احادیث کی نقل میں طعن سے منقول میں طعن واجب آتا ہے۔ یہ بالکل ظاہر ہے اس بندے کے لیے جو تدبر کرے اور اپنے آپ کو نفاق، زندقہ اور الحاد کے عقیدہ سے محفوظ رکھے(۲۶۲)۔

(۱۰) تقی الدین السبکی کہتے ہیں شیعہ اور خوارج کو کافر قرار دینے والوں نے اس بات سے دلیل پکڑی ہے کہ وہ اعلام صحابہ کی تکفیر کرتے ہیں اور نبی ﷺ کی ان کو جنت کی بشارت دینے کی تکذیب کرتے ہیں پس میرے نزدیک یہ بالکل درست احتجاج ہے جن پر ان کی تکفیر واضح ہوئی(۲۶۳)اور وہ جوکہتے ہیں کہ اماں عائشہؓ کے بارے میں...اللہ کی پناہ...ایسا شخص دو اسباب کے تحت واجب القتل ہے ۔ پہلا یہ کہ قرآن ان کی برأت کا اعلان کرتا ہے جسکاجھٹلانا کفر ہے اور ان کے بارے میں بکواس کرنا ان کی تکذیب ہے کہ وہ نبی ﷺکے فراش میں ہیں اور ان کے بارے میں ایسا کہنا تنقیص ہے اور آپ ﷺکی تنقیص کفر ہے(۲۶۴)۔

ابن کثیر، اللہ کے قول{ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَماءُ بَيْنَهُمْ } کی تفسیر میں کہتے ہیں اس آیت سے امام مالک نے یہ مسئلہ اخذ کیا کہ وہ رافضی کافر ہیں جو صحابہ سے بغض رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ صحابہ پر غیظ کھاتے ہیں اور جو ان پر غیظ رکھے وہ کافر ہے اور علماء کی ایک جماعت نے اس اخذ میں ان کی موافقت کی ہے۔ انہوں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ بنت الصدیق رضی عنہما پر بہتان باندھنے والے کے بارے میں اس آیت کی تفسیر میں کہا{إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ} بے شک وہ لوگ جو غافل مومنہ عورتوں پر بہتان باندھتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لیے عذابِ عظیم ہے (النور23)۔ علماء کا اس بات پر قطعی اتفاق ہے کہ اس آیت کے بعد جس نے آپ پر الزام لگایا اور ان پر بہتان باندھا جو اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے تو ایسا شخص کافر ہے کیونکہ وہ قرآن کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے اور بقیہ امہات المومنین کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے۔

ابو حامد محمد المقدسی(۲۶۵) کہتے ہیں کہ رافضی مختلف گروہوں کے عقائد صریح کفر ہیں اور جہلِ قبیح کے ساتھ عناد سے عبارت ہیں اور کوئی بھی غور کرنے والا ان کے کافر ہونے اور دین اسلام سے خارج ہونے کے بارے میں توقف نہیں کرسکتا(۲۶۶)۔

(۱۳) امام جلال الدین السیوطی کہتے ہیں اللہ تم پر رحم کرے یہ بات جان لو کہ جس کسی نے نبی ﷺکی حدیثِ قولی یا فعلی کا انکار کیا بشرط اسکے دین کا اصول وحجت ہونے کے تو وہ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اس کا حشر یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ ہوگا یا ان کافر گروہوں کے ساتھ جن کے ساتھ اللہ چاہے۔ اس فاسد رائے کی اصل یہ ہے کہ زنادقہ اور غالی رافضیوں کا ایک گروہ سنت کے انکار کرنے اور صرف قرآن پر انحصار کرنے کی طرف گیا ہے {جیسے کہ ہمارے دورمیں غلام احمد پرویز ملعون خنزیرکااور فرقہ پرویزیہ کا موقف ہے جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام میں تفرق و انتشار کی ایک نئی راہ نکال رکھی ہے علیھم من ا للّٰہ ما یستحقون، مترجم}اور وہ اس میں مختلف آراء رکھتے ہیں۔ ان میں سے بعض اعتقاد رکھتے ہیں کہ نبوت علی رضی اللہ عنہ کے لیے تھی اور یہ کہ جبریل غلطی سے وحی جنابِ رسالتماٰ بﷺ کے پاس لے گئے۔ پس اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ان کے ظلم سے بہت بلند ہے۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو نبوت کا اقرار کرتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ خلافت علی رضی اللہ عنہ کا حق تھا لیکن جب صحابہ نے اسے ابوبکر صدیقؓ کے حوالے کیا...اللہ کی ان رافضیوں پر لعنت ہو ...یہ کہنے لگے کہ وہ کافر ہیں اور انہوں نے ظلم کیا، حق چھینا اور مستحق کو محروم کیا۔ اللہ کی ان پر لعنت ہو ...پھر انہوں نے جنابِ علی رضی اللہ عنہ کو بھی کافر قرار دے دیا یہ کہہ کر کہ انہوں نے اپنی خلافت کے حق کو طلب نہ کیا... پس انہوں نے ساری احادیث کا انکار کردیا کیونکہ ان کے نزدیک وہ کافر قوم کی روایات ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ روایات اس قابل نہ تھیں کہ ان کی روایت کی جائے لیکن ضرورت و حاجت نے ہمیں مجبور کیا کہ ان کے اصل مذہب کے مفاسد بیان کیے جائیں کہ جس سے کئی زمانوں کے لوگ محفوظ تھے اور ائمہ اربعہ کے زمانے میں اس رائے کے مالک بہت سے لوگ موجود تھے۔ ائمہ اربعہ نے ان کے ساتھ مناظرے کیے اور ان کے رد میں تصانیف لکھیں(۲۶۷)۔ اور وہ کہتے ہیں جس نے صحابہ کی تکفیر کی یا یہ کہا کہ ابو بکر صحابہ میں سے نہیں تھے وہ کافر ہے۔ قاضی حسین سے ان کی تکفیر کے بارے میں دو وجوہ نقل کی گئی ہیں اور صحیح ترین میرے نزدیک تکفیر ہے(۲۶۸)۔

شہاب الدین الرملی(۲۶۹) کہتے ہیں اگر کوئی کہے کہ ابو بکر صحابہ میں سے نہ تھے وہ کافر ہے اور اور یہ کہ وہ عمر وعثمان رضی اللہ عنہما کو صحابیت کے شرف سے خارج کرے کیونکہ ان کی صحابیت کو خاص و عام جانتا ہے پس کسی صحابی کی تکذیب کرنے والا نبیﷺ کو جھٹلانے والا ہے(۲۷۰)۔

(۱۵)احمد بن حجر الہیتمی {مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ} کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اس آیت سے امام مالک نے ان رافضیوں کی تکفیر کو اخذ کیا جو صحابہ کے ساتھ بغض رکھتے ہیں اور کہا کہ وہ صحابہ کے ساتھ غیظ رکھتے ہیں اور جو ان پر غیظ کھائے وہ کافر ہے۔ الہیتمی کہتے ہیں کہ یہ بہت اچھا استدلال ہے جس پر آیت کا ظاہر دلالت کرتا ہے۔ امام الشافعی نے رافضیوں کے کفر پر ان کے قول کی مواقفت کی ہے اور ائمہ کی ایک جماعت نے بھی انکی موافقت کی ہے(۲۷۱)۔ انہوں نے کہا کہ رافضی دین کے لیے یہودو نصاریٰ اور سارے فرقوں سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔ اس کی وجہ ان کے وہ بہتان ہیں اور ان کی وہ قباحتیں، بدعتیں ، عناد اور جھوٹ ہے یہاں تک کہ ملحد لوگ ان کے طعن کے سبب دین اور آئمہ کے بارے میں طعن کرنے لگے(۲۷۲) اور وہ کہتے ہیں کہ حدیثِ افک سے معلوم ہوتا ہے کہ جو اماں عائشہ صدیقہ ؓ کی طرف زناء کی نسبت کرے وہ لعنتی کافر ہے اور اس کی ہمارے ائمہ وغیرہم نے صراحت کی ہے کیونکہ اس میں قرآنی نصوص کی تکذیب ہے اور قرآن کی تکذیب کرنے والا بالاجماع کافر ہے۔ اسی سے بہت سے غالی شیعوں کا کافر ہونا واضح ہوتا ہے کیونکہ وہ اماں عائشہ ؓ کی طرف ایسی نسبت کرتے ہیں ...اللہ انہیں قتل کرے وہ کہاں بھٹکے پھرتے ہیں(۲۷۳)۔

(۱۶) ابو لثناء الآلوسی کہتے ہیں بالجملہ صحابہ کی تکفیر کہ جن کا ایمان، صدق اور عدمِ نفاق محقق ہے اور ان پر لعنت کا اقدام کرنا مجرد شبہ کی بنیاد پر تو یہ مکڑی کے جالے سے بھی کمزور واہمہ ہے۔ اس پر ذرا بھر بھی توقف کرنا جائز نہیں کیونکہ انہوں نے ان لوگوں کی تکفیر کی کہ امیر المومنین علی ؓبن ابی طالب (۲۷۴) جن کے پیچھے نمازیں پڑھتے اور اجتماع وجماعت میں ان کی اقتدیٰ کرتے تھے جیسے کہ ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین۔آپ انکے ساتھ اس قدر حسنِ معاملہ رکھتے تھے کہ اپنی بیٹی ام اکلثوم کا نکاح عمرؓ سے کردیا اور خود ابوبکر ؓ کی بیوہ سے شادی کی جو حنفیہ کی خالہ تھیں اور ان کا معاملہ خلفاء کے ساتھ کسی تاویل کا محتاج نہیں اورآپ تو وہ تھے جو شیعہ کو پتھروں سے مارتے تھے (۲۷۵)۔
تراجم وحوالہ جات
(۲۴۱)الذہبی کہتے ہیں محمد بن ادریس بن ہاشم بن المطلب بن عبد مناف، الامام، عالم العصر، ناصر الحدیث، فقیہ الملۃ، ابو عبد اللہ القرشی، ثم المطلبی الشافعی، المکی ۔جنابِ رسول اللہﷺ سے آپ کا شجرہ ملتا ہے ۔ المطلب ہاشم کے بھائی ہیں اور عبد المطلب کے والد ہیں۔ 150 ہجری میں پیدا ہوئے۔ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر سو سال بعد لوگوں کے لیے ایک مجدد بھیجتا ہے جو انہیں سنت کی راہ پر چلاتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیے جانے والے جھوٹ کو دور کرتا ہے۔ پس ہم نے دیکھا کہ سو سال بعد عمر بن عبد العزیز آئے اور دو سو سال بعد امام شافعی آئے۔آپ204 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۴۲) اسے ابن بطہ نے الابانہ میں روایت کیا۔
(۲۴۳)الذہبی کہتے ہیں الامام المجود المفتی ابو القاسم ہبۃ اللہ بن حسن بن منصور الطبری الرازی الشافعی اللالکائی اپنے وقت میں بغداد کے اچھے علماء میں سے تھے۔ انہوں شیخ ابو حامد کے پاس تفقہ حاصل کیا اور مذہب میں مہارت حاصل کی۔418 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۴۵)اسے اللالکائی نے شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعہ میں روایت کیا۔
(۲۴۶)الذہبی کہتے ہیں عبد القادر بن طاہر علامہ البارع، ماہر استاد، ابو منصور البغدادی، خراسان میں ٹھہرے اور بڑی بلند پایہ تصانیف کے حامل ہیں اور آئمہ اعلام الشافعیہ میں سے ہیں۔ وہ ابو اسحاق الاسفرایینی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ وہ سترہ فنون میں پڑھاتے تھے اور ان کو بطور ضرب المثل کے استعمال کیا جاتا تھا اور وہ رئیس اور بڑی حشمت والے تھے۔ ابو عثمان الصابونی کہتے ہیں کہ استاد ابو منصور اصولِ اسلام کے امام تھے، بدیع الترتیب ، غریب التالیف اماما مقدما مفخماً۔ جب نیشاپور کے حالات خراب ہوئے تو آپ وہاں سے نکلے۔429 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۴۷) الفرق بین الفِرَق الباب الخامس الفصل الثالث الرکن الخامس عشر۔
(۲۴۸) الفرق بین الفرق الباب الخامس الفصل الرابع۔
(۲۴۹) الذہبی کہتے ہیں خطیب، الامام الاوحد العلامہ مفتی الحافظ الناقد محدثِ وقت ابو بکر احمد بن علی بن ثابت البغدادی صاحبِ تصانیف، خاتمۃ الحفاظ، انہوں نے بہت کتابیں لکھیں، اور انہوں نے اس میدان میں بہت مہارت حاصل کی انہوں تصحیح، علل، جرح ، تعدیل، تاریخ اور توضیح کے میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ اور وہ اپنے دور کے بہترین حفاظ میں شمار کے جاتے تھے۔ آپ شافعی مذہب کے کبار علماء میں سے تھے۔ انہوں نے تصنیف کے میدان میں پچاس سے کچھ اوپر سال کام کیا۔392ہجری میں پیدا ہوئے۔ سعد السمعانی کہتے ہیں کہ الخطین بہت ہیبت والے، وقار والے ، ثقہ، حریت ،حجت،حسن الخط، کثیر الضبط ،فصیح تھے اوران پہ حفاظ کا خاتمہ ہوا۔ رافضیوں نے دمشق میں انہیں قتل کرنے کی کوشش کی بسبب ان کے جامع مسجد میں فضائلِ صحابہ روایت کرنے کے۔ لیکن انہوں نے بغداد کے اہل السنۃ کے انتقام کے خوف سے انہیں چھوڑ دیا۔463ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۵۰)الجامع لأخلاق الروای وآداب السامع ، املاء فضائل الصحابہ ومناقبھم والنشر لمحاسن اعمالھم وسوابقھم۔
(۲۵۱)الذہبی کہتے ہیں الامام العلامہ القدوۃ المفسر المذکر، المحدث شیخ الاسلام ابو عثمان اسماعیل بن عبد الرحمن بن احمد النیشاپوری، الصابونی۔ وہ ائمہ اہل الاثر میں سے تھے۔ ان کی تصنیف السنہ واعتقاد السلف بہت مشہور ہے جس میں ان کی رائے کا اعتراف کیا گیا ہے۔276ہجری میں پیدا ہوئے۔ ابو بکر البیہقی کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے امام تھے اور شیخ الاسلام تھے ابو عثمان الصابونی۔449ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۵۲) عقیدۃ السلف اصحاب الحدیث۔
(۲۵۳) الذہبی کہتے ہیں شاہفور ، العلامہ ، المفتی ابو لمظفر طاہر بن محمد الاسفرایینی، ثم الطوسی، الشافعی،صاحبِ تفیسر الکبیر، وہ ائمہ اعلام میں سے تھے۔استاد ابو منصور البغدادی کے ساتھ ان کا سسرالی رشتہ تھا۔471ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۵۴)التبصیر فی الدین وتمییز الفرقة الناجیہ عن الفرق الھالکین باب تفصیل مقالات الروافض وبیان فضائحھم۔
(۲۵۵)التبصیر فی الدین وتمییز الفرقة الناجیة عن الفرق الہالکین فصل فی طرقی تحقق النجاة لا ھل السنة والجماعة۔
(۲۵۶)الذہبی کہتے ہیں الغزالی ، شیخ الاسلام، الامام ، البحر، حجۃ الاسلام، اعجوبۃ الزمان، زین الدین ابو حامد محمد بن محمد بن محمدالطوسی الشافعی ، الغزالی صاحبِ تصانیف، ذہین اور دانائی والے۔450ہجری میں پیدا ہوئے اور505ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۵۷) یعنی ''النسخ''
(۲۵۸) المستصفیٰ، کتاب النسخ، الباب الاول۔
(۲۵۹)مفاتیح الغیب؛قولہ{وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَىٰ مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا }(النساء156)۔
(۲۶۰)سیر اعلام النبلاء فی ترجمۃ ابی عروبۃ۔
(۲۶۱)ترتیب الموضوعات، عن کتاب الانتصار للصحب والآل من افترأت السماوی الضال۔
(۲۶۲)کتاب الکبائر، الکبیر ہ السبعون۔
(۲۶۳) فتاویٰ السبکی باب جامع قولہ تعالیٰ {وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ} النمل16۔
(۲۶۴)فتاویٰ السبکی باب جامع فصل سب النبیﷺ۔
(۲۶۵) الشوکانی کہتے ہیں محمد بن خلیل بن یوسف ابو حامد الرملی المقدسی الشافعی۔ قاہرہ میں قیام پذیر ہوئے اور انہوں نے بہت سی مختصرات کو حفظ کیا۔ پھر قاہرہ کی جانب رختِ سفر باندھا اور حافظ ابن حجر ، المناوی اور ایک جماعت سے اخذ کیا۔819ہجری میں پیدا ہوئے اور888ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۶۶)رسالة فی الرد علی الرافضة، نقلاً عن اصول مذھب الشیعة الامامیة لناصر القفاری۔
(۲۶۷) مفتاح الجنة فی الاعتصام بالسنة المقدمة۔
(۲۶۸)العقود الدریة فی الفتاویٰ الحمدانیة باب الردة والتعزیر۔
(۲۶۹) شہاب الدین احمد بن حمزہ الانصاری الرملی راملہ مصر کی طرف نسبت ہے الشافعی۔ فقہ ،تفسیر حدیث، علوم عربیہ ، علمِ کلام کے ساتھ مشغول ہوئے ان کے اساتذہ میں زکریا الانصاری اور جنہوں نے ان کے پاس زانوئے تلمذ طے کیا ان میں آپ کے بیٹے شمس الدین محمد العملی۔، الملقب بالشافعی الصغیر، اورشمس الدین احمد بن محمد المصری الخطیب الشربینی ہیں۔957ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۷۰) حاشیة البجیرمی علی شرح الخطیب لمتن ابی شجاع ، فصل فی الردة۔
(۲۷۱) الصواعق المحرقة فی الرد علی اھل البدع والزندقة، الخاتمة فی بیان اعتقاد اھل السنة۔
(۲۷۲)الصواعق المحرقة فی الرد علی اھل البدع والزندقة، الباب الاول، الفصل الخامس۔
(۲۷۳)الصواعق المحرقة فی الرد علی اھل البدع والزندقة، الباب الثالث الفصل الثانی۔
(۲۷۴) یعنی امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ۔
(۲۷۵) الاجوبة العراقیہ علی الاسئلة اللاھوریة ، الفصل الثالث۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
احناف کے رافضہ کے بارے میں اقوال
(۱)امام ابو حنیفہ(۲۷۶) کہتے ہیں شیعہ کے عقیدہ کی اصل صحابہ کو گمراہ قرار دینا ہے(۲۷۷) اور فرماتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا خدیجۃ الکبریٰ کے بعد دونوں جہانوں کی افضل ترین عورتوں میں سے ہیں ، مومنوں کی ماں ہیں اور زناء سے پاک ہیں اور ہر اس بات سے بری ہیں جو رافضی کہتے ہیں۔ پس جو کوئی ان پر زناء کی گواہی دے وہ خود زناء کی اولاد ہے(۲۷۸)۔

(۲)قاضی ابو یوسف(۲۷۹) جب کہ آپ سے کہا گیا کیا آپ تاویل کے ساتھ اصحابِ رسول کو گالی دینے والے کی گواہی کو جائز قرار دیتے ہیں تو انہوں نے کہا تجھے ہلاکت ہو میں تو اسے قید میں ڈالوں گا اور اسے ماروں گا یہاں تک کہ توبہ کر لے (۲۸۰) اور وہ کہتے ہیں کہ میں کسی جہمی اور رافضی کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا(۲۸۱)۔
(۳)ابوجعفر الطحاوی(۲۸۲) کہتے ہیں ہم اصحاب ِ رسول اللہ ﷺ سے محبت رکھتے ہیں اور کسی کے معاملے میں افراط سے کام نہیں لیتے اور نہ ہی ہم کسی سے برأت کا اظہار کرتے ہیں اور ہم ہر اس شخص سے بغض رکھتے ہیں جو ان سے بغض رکھتا ہے یا ان کا ذکر خیر کے ساتھ نہیں کرتا۔ ان کی محبت دین ہے، ایمان و احسان ہے اور ان کی عداوت و بغض کفر ہے نفاق وطغیان ہے(۲۸۳)۔

(۴)ابو بکر السرخسی(۲۸۴) کہتے ہیں رافضی مبہوت قوم ہیں جو جھوٹ سے احتراز نہیں کرتی بلکہ ان کے مذہب کی بنیاد ہی جھوٹ ہے(۲۸۵)۔ صحابہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ شریعت ہمیں انہیں کی وساطت سے پہنچی ہے پس جو ان کے بارے میں طعن کرے تو وہ ملحد ہے اسلام کو ترک کرنے والا ہے اس کا علاج تلوار ہے اگر وہ توبہ نہ کرے(۲۸۶)۔
(۵)صدر الدین ابی العز(۲۸۷) رافضیوں کی بنیاد اصل میں ایک منافق و زندیق نے رکھی جس کا ارادہ اسلام کا ابطال تھا اور رسول ا کی ذات میں قدح لگانا تھا جیسے کہ علماء نے اس کا ذکر کیا ہے(۲۸۸)۔

(۶) محمد انور شاہ بن معظم شاہ الکشمیری کہتے ہیں کہ رافضیوں کی تکفیر میں اختلاف ہے اور احناف کے اس میں دو اقوال ہیں۔ کہا گیا ہے کہ وہ کافر ہیں اور کہا گیا ہے کہ نہیں۔ جبکہ مختار قول یہ ہے کہ وہ کافر ہیں کیونکہ تمام صحابہ کو کافر قرار دینے والا کافر ہے اور رافضیوں نے اسلام کو صرف نو ، سات یا پانچ افراد پر علی الاختلاف مقصور کر دیا۔ اسی طرح رافضیوں کے قرآنِ عظیم کے بارے میں اقوال ہیں کہتے ہیں کہ عثمان ؓ نے اس میں زیادتی کی ، کہتے ہیں کمی کی اور زیادتی نہیں کی اور کہتے ہیں کہ وہ محفوظ ہے اور اہل السنۃ کی احادیث کا اعتراف نہیں کرتے اور ان کی چار صحیح کتابیں ہیں اور وہ بیماری اور جھوٹ سے بھری ہوئی ہیں(۲۸۹)۔

ابن عابدین کہتے ہیں رافضی اگر تو ایسا ہو جو علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت کا اعتقا د رکھے یا یہ کہے کہ جبریل علیہ السلام نے وحی میں غلطی کی یا صدیق کی صحبت کا انکار کرے یا سیدہ صدیقہ پر بہتان باندھے تو وہ کافر ہے کیونکہ وہ دین کے ساتھ بالضرورت قطعی طور پر معلوم ہونے والی بات کا منکر ہے۔ بخلاف اس بات کے کہ اگر وہ علی کو فضیلت دیتا ہے یا صحابہ کو گالی دیتا ہے تو وہ بدعتی ہے کافر نہیں(۲۹۰)۔

نظام الدین الہندی(۲۹۱) کہتے ہیں کہ رافضی اگر شیخین کو گالی دیتا ہو اور ان پر لعنت کرتا ہو ...والعیاذ باللہ... تو وہ کافر ہے اور اگر وہ عائشہؓ پر زناء کی تہمت لگائے تو اس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا... جو ابو بکرص کی امامت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے اسی طرح صحیح ترین قول کے مطابق جو عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا منکرہے وہ بھی کافر ہے۔ اسی طرح ''الظہیریۃ'' کہ ان کی تکفیر کرنا واجب ہے جب وہ عثمان علی طلحہ ،زبیر اور عائشہ رضوان اللہ علیہم کی تکفیر کرے۔ اسی طرح اس رافضی کی تکفیر بھی واجب ہے جو مرُدوں کے دنیا میں آنے کی بات کہے، تناسخ الارواح ، اور الٰہ کی روح کا امام کے اندر انتقال کا عقیدہ رکھے، باطنی امام کے خروج کی بات کرے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو امام کے نکلنے تک معطل رکھے اور یہ کہے کہ جبریل علیہ السلام علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بدلے غلطی سے وحی محمد ﷺکی طرف لے گئے ۔ یہ قوم ملت اسلام سے خارج ہے ان کاحکم مرتدین کاہے جیساکہ ''الظہیریۃ''میں ہے(۲۹۲)۔

(۹) شیخ زادۃ(۲۹۳) کہتے ہیں رافضی اگر علی ؓ کو فضیلت دے تو وہ بدعتی ہے اور اگر ابو بکر کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے(۲۹۴)۔

(۱۰) عبد العزیز بن ولی اللہ الدہلوی(۲۹۵) کہتے ہیں جو کوئی ان کے خبیث عقائد پر مطلع ہوتا ہے تو وہ جان جاتا ہے کہ اسلام میں ان کا کوئی حصہ نہیں اور ان کا کفر اس پر واضح ہوجائے گا۔ ایسا شخص ان کے ہر معاملے کو عجیب پائے گا اور ان کے ہر غیبی امر پر راہ پالے گا اور جان لے گا کہ وہ حسی و بدیہی بات کا انکار کرتے ہیں۔ وہ کسی بات کی پرواہ نہیں کرتے ان کے ذہنوں میں کسی عذاب و عتاب کا کوئی خوف نہیں۔ پس جب باطل ان کے پاس آئے تو وہ اس سے محبت کرتے ہیں اور جب حق ان کے پاس آئے تو وہ اس کی تکذیب کرتے ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ روشن کی تو جب اس کا ماحول روشن ہوگیا تو اللہ نے ان کی بینائی کو چھین لیا کہ وہ دیکھ نہیں سکتے ہیں ،بہرے ہیں ، گونگے ہیں ، اندھے ہیں پس وہ نہیں دیکھتے۔ اللہ نے ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیا ہے ۔نہ سنتے ہیں نہ ہی عقل رکھتے ہیں ...انا للہ وانا الیہ راجعون(۲۹۶)۔

(۱۱)ابو المعالی الآلوسی کہتے ہیں مجھے اپنی عمر کی قسم ان کا کفر ابلیس کے کفر سے شدید تر ہے۔ کہتے ہیں عجیب تر بات یہ ہے وہ رافضی جو اپنا نسب اپنے باپ کے ساتھ ملاتا ہے لیکن اگر وہ اس زمانے میں رافضیوں کے متعہ کی حالت پر غور کرے تو بغیر کسی دلیل و برہان کے ان پر زناء کا حکم لگائے۔ کیونکہ ان کی ایک عورت کیساتھ دن رات بیسیوں مرد زناء کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ وہ عورت ''ممتعہ''ہے۔ ان کے ہاں متعہ کے بازار ہیں جن میں ایسی عورتیں ہیں۔ ان کے ساتھ دلال ہیں جو ان کے لیے شکار ڈھونڈ کر لاتے ہیں تو وہ ان کو پسند کرتی ہیں اور اس کا م کی اجرت طے کرتی ہیں اور وہ ان مردوں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑکر لئے جاتی ہیں ...اللہ کی لعنت اور اس کے غضب کی طرف۔ پس جب وہ وہاں سے نکلتی ہیں تو دوسرے کسی مرد کے لیے کھڑی ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح ان کا معاملہ ہے جیسے کہ بہت ثقہ لوگوں نے جو ان کے بازاروں میں داخل ہوئے اس کی خبر دی ہے۔ کبھی پانچ یا اس سے کم لوگوں کی ایک جماعت کو لایا جاتا ہے اور کہا جاتا کہ صبح سے چاشت تک اس کے ساتھ اور چاشت سے ظہر تک اور مغرب سے عشاء تک فلاں کے ساتھ متعہ کرواور پھر صبح تک یہی عمل جاری رہتا ہے۔ ان کی ایک عورت پانچ مردوں کے ساتھ زناء کرتی ہے اور وہ ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں ہوتے۔ بعض ثقات نے ذکر کیا کہ رافضیوں کے تین علماء ایک غسل کھانے میں اکٹھے غسل کے لیے داخل ہوئے۔تو ان تینوں نے ایک ہی عورت کے ساتھ زناء کیا تھا اور وہ ایک دوسرے کو جانتے بھی نہ تھے(۲۹۷)۔

تراجم وحوالہ جات
(۲۷۶) الذہبی کہتے ہیں الامام ، فقیہ ملت، عالم العراق ، ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بن زوطی الکوفی۔ کہا جاتا ہے کہ آپ فارسی النسل تھے اور صغار صحابہ کی اولاد کی زندگی میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے مالک بن انس کو دیکھا جب وہ کوفہ آئے۔ انہوں نے حدیث کی طلب میں سفر کیا جبکہ فقہ میں ان پر انتہیٰ ہے اور لوگ فقہ میں آپ کے عیال ہیں ۔80 ہجری میں پیدا ہوئے اور150 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۷۷) الصواعق المحرقة فی الرد علی اھل البدع والزندقة، الباب الاول، الفصل الخامس۔
(۲۷۸) الطبقات السنیة فی تراجم الحنفیة نبذة یسیرة من مناقبِ الامام وفضائلہ وما یؤثر عنہ من المحاسن و حسن الاعتقاد
(۲۷۹) الذہبی کہتے ہیں وہ امام ، مجتہد، علامہ قاضی القضاۃ ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم بن حبیب بن حبیش بن سعد بن جبیر بن معاویہ الانصاری الکوفی۔ سعد ابن جبیر کی صحبت بھی ہے۔ انہوں نے ابو حنیفہ سے روایت کیا اور ان کے ساتھ کو لازم رکھا اور وہ اما م صاحب کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ علم والے ہیں ۔ ان کے ہاں سے امام محمد بن حسن نے اکتسابِ فیض کیا۔ یحیٰ بن معین اور امام احمد بن حنبل نے ان سے روایت کی ہے۔ آپ علم میں اس مرتبہ پر فائز تھے جہاں کوئی اور نہ تھا۔ ہارون الرشید خلیفہ ان کی بہت عزت کیا کرتا تھا۔113 ہجری میں پیدا ہوئے۔ابنِ معین کہتے ہیں میں نے اصحابِ رائے میں سب سے زیادہ حدیث پر ثابت، اور حافظ اور صحیح روایت میں ابو یوسف سے بڑھ کر کوئی نہیں دیکھا۔182ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۸۰) اصول الدین عند الامام ابو حنیفہ عن کتاب من سب الصحابة ومعاویة فاُمہ ھاویة۔
(۲۸۱)اسے اللالکائی نے شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ اولجماعۃ میں روایت کیا۔
(۲۸۲)الذہبی کہتے ہیں الامام العلامہ الحافظ الکبیر محدث الدیار المصریۃ و فقیہہ، ابو جعفر احمد بن محمد بن سلامہ الازدی الحجری، المصری، الطحاوی الحنفی۔ وہ علمِ حدیث و فقہ میں بہت مشہور ہوئے ۔جو کوئی بھی ان کی تالیفات پر نظر ڈالتا ہے وہ آپ کے علم و وسعت کا اعتراف کرتا ہے۔293ہجری میں پیدا ہوئے۔ابو اسحق کہتے ہیں اصحابِ ابو حنیفہ میں ابو جعفر الطحاوی پر مصر میں سرداری ختم ہوگئی۔321ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۸۳) العقیدۃ الطحاویۃ، انہوں نے اس کے مقدمہ میں کہا یہ بیان ہے اہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدہ کا فقہائے ملت کے مذہب پر...ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی، ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم الانصاری، ابو عبد اللہ محمد بن حسن الشیبانی رحمہم اللہ اجمعین کے مذہب پر اور اصول دین میں جو وہ رب العلمین کی طرف اعتقاد رکھتے ہیں۔
(۲۸۴)ابن قطلوبغا کہتے ہیں محمد بن احمد بن ابی سہل ابو بکر السرخسی شمس الائمہ صاحب'' المبسوط'' ۔ وہ بہت بڑے عالم ،اصولی اور مناظر تھے۔ انہیں ان کے نہی عن المنکر کے باعث جیل میں قید کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں میں نے اصول فقہ میں ان کی کتاب دیکھی جو دو بڑے اجزاء پر مشتمل تھی۔ اسی طرح انہوں نے السیر الکبیر کی دو ضخیم جلدوں میں شرح کی۔ انہوں نے ان کی املاء لکھائی اور وہ خود جیل میں تھے۔ جب وہ باب الشروط تک پہنچے تو انہیں رہا کردیا گیا۔ وہ اپنے شاگردوں کو املا لکھاتے ،500 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۸۵) المبسوط، کتاب الولاء باب ولاء الموالاة۔
(۲۸۶) اصول السرخسی با ب القیاس۔
(۲۸۷) صدر الدین محمد بن علاء الدین الاذرعی الصالحی الدمشقی۔ انہیں خطابت سونپی گئی بلقاء کے علاقے میں اور پھر دمشق اور اس کے بعد مصر میں قضاء کے عہدہ پر رہے۔ان کو ایذا دی گئی اور اہل بدعت پر انکار کے باعث جیل میں ڈالا گیا۔731ہجری میں پیدا ہوئے اور792ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۸۸)شرح الطحاویۃ ۔طحاوی کے قول کی شرح میں {ومن احسن القول فی اصحاب رسول اللہﷺوازواجہ الطاھرات من کل دنس وذریاتہ المقدسین من کل رجس فقد بریء من النفاق}۔
(۲۸۹) العرف الشذی شرح سنن الترمذی باب ما جاء۔ویل للاعقاب من النار۔
(۲۹۰)حاشیہ رد المختار کتاب النکاح۔
(۲۹۱) ہندوستان میں احناف کے بڑے فقہاء میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ صاحبِ فتاویٰ الہندیۃ ہیں اوریہ فقہ حنفی کی طویل کتابوں میں سے ہے اور اسے فتاویٰ عالمگیریہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جو کہ ہندوستان کے بادشاہ ابو المظفرمحمد اورنگ زیب عالمگیر کے نام سے منسوب ہے ۔عالمگیر کا معنیٰ ہے فاتحِ عالم۔انہوں نے اپنی سلطنت کے علماء کو حکم دیا کہ مذہبِ ابو حنیفہ کے صحیح فتاویٰ پر مبنی کتاب جمع کی جائے۔
(۲۹۲)الفتاویٰ الھندیة، کتاب السیر، الباب التاسع، مطلب موجبات الکفر انواع۔
(۲۹۳) عبد الرحمن بن محمد بن سلیمان المشہور شیخ زادہ الترکی الحنفی۔انہیں جیش کی قضاء کا عہدہ سونپا گیا۔1078 ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۹۴) مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر کتاب الصلاة با ب صفة الصلاة فصل الجماعةسنة مئوکدة۔
(۲۹۵)عبد العزیز بن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی۔ یہ ہند کے شہر دہلی کی طرف نسبت ہے،حنفی فقیہ تھے۔ان کا اور ان کے والدکا ہندوستان میں علوم سنت کے احیاء میں بہت جامع کردار ہے۔ یہاں تک کہ انہیں ہندوستان کے سورج سراج الہند کا لقب دیا گیا۔محب الدین الخطیب کہتے ہیں وہ اپنے دور میں ہندوستان کے بڑے علماء میں شمار ہوتے تھے اور ان کا کتبِ شیعہ کیساتھ خاص تعارف تھا۔1239ہجری میں فوت ہوئے۔
(۲۹۶) التحفة اثنیٰ عشریة ، الخاتمة۔
(۲۹۷) صب العذاب علی من سب الاصحاب۔
 
Top