مسئلہ را فضہ امامیہ کا!!کیا ان کے خلاف قتال واجب ہے؟کیاوہ اعتقاد کے سبب کافر ہیں؟
شیخ الاسلام الامام المجددابو العباس ابن تیمیة ؒ
مجموع الفتاویٰ ابن تیمیة
صفحہ468تا501 ؍جلد
28
شیخ الاسلام تقی الدین سے سوال کیا گیا ان لوگوں سے متعلق جو یہ زعم رکھتے ہیں کہ وہ اللہ گ، فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والوں میں سے ہیں... اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ امام ِحق رسول اللہ اکے بعد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں ...اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی امامت پر نص بیان فرمائی تھی... اور یہ کہ صحابہ نے ان پر ظلم کیا اور ان کا حق ان سے چھینا...اور وہ اس کے سبب کافر ہوگئے۔ تو کیا ایسے لوگوں کیخلاف قتال واجب ہے اور کیا وہ اس اعتقاد کے سبب کافر ہیں یا نہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا۔
الحمد للّٰہ رب العلمین...
علمائے مسلمین کا اس بات پر اجماع ہے کہ ہر وہ گروہ جوشرائعِ اسلام کے ظاہری متواتر مظاہر میں سے کسی ایک کا انکاری ہے تو ایسے گروہ کے خلاف قتال واجب ہے یہاں تک کہ دین سارے کا سارا اللہ کے لیے ہو جائے۔ پس اگر وہ کہیں کہ ہم نماز پڑھیں گے مگر زکوۃ نہ دیں گے۔ یا ہم پانچ نمازیں پڑھیں گے لیکن جمعہ اور جماعت کا اہتمام نہ کریں گے۔ یا ہم اسلام کی پانچ بنیادوں کو قائم کریں گے لیکن مسلمانوں کے اموال و خون کو حرام نہ جانیں گے۔ یا ہم سود، شراب اور جوا نہ چھوڑیں گے۔ یاہم قرآن کی پیروی کریں گے اور رسول اللہ ﷺ کی پیروی نہ کریں گے اور ہم ان سے ثابت احادیثِ صحیحہ کی پیروی نہ کریں گے۔ یا ہم یہ کہیں کہ ہم یہ اعتقاد رکھیں گے کہ یہود ونصاریٰ جمہور مسلمانوں سے بہتر ہیں... اور یہ کہ اہلِ قبلہ نے اللہ اور اس کے رسول ا کے ساتھ کفر کیا اور مومنوں کا ایک گروہِ قلیل باقی بچا۔ یا یہ کہیں کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ مل کر کفار کے خلاف جہاد نہ کریں گے۔ یا اس کے علاوہ ایسے امور کا ارتکاب کریں جو شریعت ِرسول اللہ اکی اور جس پر مسلمان ہیں ...واضح مخالفت کریں... پس ایسے گروہوں کے خلاف جہاد واجب ہے جیسے کہ اس سے قبل مسلمانوں نے منکرینِ زکوۃ کے خلاف جہاد کیا... خارجیوں کے خلاف جہاد کیا... اور ان کی اولادوں الخرمیۃ، القرامطہ ،الباطنیۃ...اور اہل الاہواء ، بدعتیوں، اسلام کی شریعت سے خارج ہونے والوں وغیرہم کے خلاف جہاد کیا۔
یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں
{وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَیَکُوْنَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلّٰہِ} اور ان کے خلاف قتال کرو یہاں تک کہ دین سارے کا سارا اللہ کے لیے ہوجائے۔ پس جب دین بعض اللہ کے لیے ہو اور بعض غیر اللہ کے لیے ہو تو ایسے لوگوں کے خلاف قتال واجب ہے یہاں تک کہ دین سارے کا سارا اللہ کے لیے ہوجائے۔
اللہ فرماتے ہیں
{فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُم } پس اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ پس ان کے راستہ کو چھوڑنے کا حکم جمیع انواعِ کفر سے ان کی توبہ کرنے کے بعد دیا گیا اور نماز و زکوۃ قائم کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ} اے ایمان والو اللہ سے ڈور اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔
{فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ } پس اگر تم ایسا نہ کرو تو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اللہ نے یہ خبر دی کہ طائفہ ممتنعہ(انکاری) اگر سود سے باز نہ آئے تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کی۔ جبکہ سود ان چیزوں میں سے ہے جسے اللہ نے قرآن میں سب سے آخر میں حرام قرار دیا۔جو اس سے پہلے حرام کیا گیا وہ زیادہ تاکید کے ساتھ وارد ہے۔ اللہ فرماتے ہیں
{إِنَّمَا جَزَاء الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَاداً أَن يُقَتَّلُواْ أَوْ يُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ يُنفَوْاْ مِنَ الأَرْضِ} بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول ﷺسے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ کہ انہیں قتل کردیا جائے یا انہیں سولی پر چڑھادیا جائے یا زمین سے جلاوطن کر دیا جائے۔
پس اہلِ شوکت میں جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں داخل ہونے سے ممتنع (انکاری)ہوا تو اس نے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی۔ اسی طرح جس نے زمین میں غیرِ کتاب اللہ و سنتِ رسول ﷺپر عمل کیا تو اس نے زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کی۔ اسی لیے سلف نے اس آیت کو کفار اور اہلِ قبلہ پر مئوول کیا یہاں تک کہ اکثر ائمہ نے قطاع الطریق یعنی راہزن ڈاکوؤں کو بھی اس کے ضمن میں شمار کیا وہ قطاع الطریق جو لوگوں کے اموال لوٹنے کے لیے تلوار اٹھالیتے ہیں۔پس ائمہ نے انہیں قتال کے ذریعے لوگوں کے اموال لینے پر اللہ عزوجل اور اس کے رسول سے جنگ کرنے اور زمین میں فساد برپا کرنے والا شمار کیا چاہے وہ ایسے فعل کو حرام جانتے ہوں اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان کا اقرار کرتے ہوں۔
پس وہ شخص جو مسلمانوں کے اموال و خون کو مباح سمجھے اور اس کا اعتقاد رکھے اور ان سے قتال کرنا حلال جانے ، ایسا شخص بالاولیٰ اللہ اور اسکے رسول ﷺسے جنگ کرنے والوں اور زمین میں فساد کی کوشش کرنے والوں میں سے ہے۔ جیسے کہ ایک حربی کافر جو مسلمانوں کے اموال و خون کو مباح سمجھتا ہے اور ان کے خلاف قتال کو جائز رکھتا ہے وہ اس اعتقادی فاسق سے بالاولیٰ محارب ہے جو ان باتوں کو حرام سمجھتا ہے۔
اسی طرح وہ بدعتی جو اللہ کے رسول ﷺکی بعض شریعت سے خروج کرتا ہے اور آپ کی بعض سنتوں کو ترک کرتا ہے اور مسلمانوں کے اموال وخون کو حلال جانتا ہے جبکہ وہ مسلمان اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور اس کے رسول کی سنت کے ساتھ متمسک ہیں۔ تو ایسا شخص اس فاسق سے زیادہ جنگ کیے جانے کے لائق ہے چاہے وہ ان باتوں کو دین سمجھ کر اللہ گسے تقرب حاصل کرتا ہو۔ جیسے کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں سے جنگ کرنے کو اللہ عزوجل کے ہاں تقرب کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ائمہ اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ بدعتیں ان گناہوں سے زیادہ شدید ہیں جن کا ارتکاب کرنے والے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ گناہ ہیں۔
اسی لیے نبی ﷺکی سنت یہی رہی جب آپ ﷺ نے سنت سے خروج کرنے والے خارجیوں کے خلاف قتال کا حکم دیا اورحکام کے ظلم پر صبر کرنے اور ان کے پیچھے ان کے گناہوں کے باوجود نمازیں پڑھنے کا حکم دیا۔ اسی طرح آپ ﷺنے بعض اصحاب کے بعض گناہوں پر اصرار کے باوجود ان کے لیے گواہی دی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والے ہیں اور آپﷺنے ان پر لعنت کرنے سے منع فرمایا۔ لیکن آپ ﷺنے ذی الخویصرہ اور اس کے ساتھیوں کے متعلق... انکی عبادت و ورع کے باوجود... خبردی کہ وہ اسلام سے ایسے خارج ہیں جیسے کہ تیر کمان سے خارج ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں
{فَلاَ وَرَبّکَ لاَ یُوْ مِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکَّمُوْک فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لا یَجِدُو ا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَ جًا مِمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلَّمُوْاَ تسْلِیْما} پس تیرے رب کی قسم وہ لوگ کبھی ایمان والے نہیں ہو سکتے جب تک وہ اپنے مسائل میں آپ کو فیصل نہ مان لیں اور پھر آپ کے فیصلوں سے متعلق اپنے دل میں کوئی شائبہ نہ رکھیں اور سرِ تسلیم خم کر دیں۔
پس ہر وہ شخص جو اللہ کے رسول کی سنت سے خارج ہوگیا اور آپ کی شریعت سے نکل گیا تو ایسے شخص کے متعلق اللہ نے اپنے مقدس نفس کی قسم کھائی ہے کہ وہ ایمان والا نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ تمام دنیاوآخرت کے باہمی جھگڑوں میں اللہ کے رسول کے حکم پر راضی نہ ہو اور ان کے دلوں میں ایسے فیصلوں کے متعلق کوئی حرج نہ ہو۔ قرآن کے دلائل اس اصل پر بہت کثرت کے ساتھ وارد ہیں۔ اس لیے اسی نہج پر سنتِ رسول اللہ ا اور سنتِ خلفائے راشدین جاری ہوئی۔
صحیحین میں ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اور عرب کے قبائل مرتد ہوگئے تو عمر بن الخطابؓ نے ابو بکر ؓ سے کہا آپ لوگوں کے ساتھ کیسے جنگ کریں گے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
{امرت ان اقاتل الناس حتیٰ یشھدوا ان لا الہ الااللّٰہ وان محمد رسول اللّٰہ فا ذا فعلوا ذالک عصموا منی دماء ھم واموالھم الا بحقھا وحسابھم علی اللّٰہ} مجھے حکم دیا گیا کہ لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرلیں۔ پس جب وہ ایسا کرلیں گے تو مجھ سے اپنے خون اور اموال بچا لیں گے سوائے اسلام کے حق کے اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ تو ابوبکرؓ نے کہا
{ألم یقل الا بحقھا؟} کیا آپﷺنے نہیں فرمایا کہ مگر اسلام کے حق کیساتھ... پس زکوۃ اسلام کا حق ہے۔ اللہ کی قسم اگر وہ ایک اونٹ کی رسی بھی جو وہ رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے تو میں اسے روکنے پر ان سے قتال کروں گا تو عمرؓ کہتے ہیں اللہ کی قسم میں نے دیکھا کہ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے ابوبکرؓ کا سینہ قتال کے لیے کھول دیا ...تو میں نے جان لیا وہ حق پر ہیں۔
پس اصحاب رسول اللہ ﷺ ایسی قوم کے خلاف قتال پر متفق ہوگئے جو نمازیں پڑھتے تھے اور روزے رکھتے تھے جبکہ وہ اللہ عزوجل کے واجب کردہ بعض اموال کی زکوۃ ادا کرنے سے ممتنع تھے ۔ یہ استنباط صدیقِ امت کا ہے جو اس کی وضاحت کے ساتھ وارد ہوا ہے۔
صحیحین میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
{ امرت ان اقاتل الناس حتیٰ یشھدوا ان لا الہ الااللّٰہ و ان محمد رسول اللّٰہ فاذا فعلوا ذالک عصموا منی دماء ھم و اموالھم الا بحقھا و حسابھم علی اللّٰہ} مجھے حکم دیا گیا کہ لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرلیں۔ پس جب وہ ایسا کرلیں گے تو مجھ سے اپنے خون اور اموال بچا لیں گے سوائے اسلام کے حق کے اور ان کا حساب اللہ پر ہے ۔پس آپﷺنے خبر دی کہ آپ ﷺکو ان کے ساتھ قتال کا حکم دیا گیا یہاں تک وہ یہ واجبات ادا کریں۔ یہ بات کتاب اللہ کے عین مطابق ہے۔
یہ حدیث نبی ﷺسے تواتر کے ساتھ بہت سے وجوہ سے مروی ہے اور اصحاب الصحاح نے دس وجوہ سے اسے وارد کیا ہے جنہیں امام مسلم نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے اور کچھ کا ذکر امام بخاری نے بھی کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل ؒ کہتے ہیں''خوارج کے بارے میں حدیث دس وجوہ سے ثابت ہے''۔
نبی ﷺ نے فرمایا تم اپنی نمازیں ان کے ساتھ حقیر جانو گے اور اپنے روز ے ان کے روزوں سے کم سمجھو گے، تمہارا قرآن کی تلاوت کرنا تمہیں ان سے کم لگے گا...وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے متجاوز نہ ہوگا وہ اسلام سے ایسے خارج ہوں گے جیسے کوئی تیر کمان سے خارج ہوتا ہے۔ اگر ان کے ساتھ قتال کرنے والے جان لیں کہ ان کے لیےزبانِ محمد ﷺپر کیا فضیلت واردہوئی ہے تو وہ عمل کرنا چھوڑ دیں گے اور ایک روایت میں ہے
{لئن ادرکتھم لاقتلنھم قتل عاد} اگر میں انہیں پالوں تو میں انہیں قومِ عاد کی طرف قتل کردوں اور ایک روایت میں ہے
{شر قتلیٰ تحت ادیم السمآء خیر قتلیٰ من قتلوہ} وہ آسمان کے نیچے سب سے برے مقتول ہیں اور سب سے خیر والے مقتول وہ ہیں جنہیں وہ قتل کردیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جن کے ساتھ سب سے پہلے امیر المو منین علی بن ابی طالب اور آپ ﷺکے ساتھ اصحاب رسول اللہ نے حروراء میں قتال کیا جب وہ سنت اور جماعت سے خارج ہوئے اور مسلمانوں کے خون و اموال کو مباح کرلیا۔ انہوں نے عبد اللہ بن خباب کو قتل کیا اور پیدل چلنے والے مسلمانوں پر حملہ آور ہوگئے۔ تو امیر المومنین کھڑے ہوئے اور آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور یہ بات ذکر کی کہ انہوں نے قتل کیا اور اموال لوٹے...ان کا قتل حلال جانا اور ان کے قتل سے بہت خوش ہوئے ۔آپ نے اپنی خلافت میں جو سب سے بڑا کام کیا وہ خوارج کے ساتھ قتال ہی تھا۔
خوارج جمہور مسلمانوں کو کافر قرار دیتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے عثمان و علی رضی اللہ عنہما کو بھی کافر قرار دے دیا۔ جیسے سارے اہلِ بدعت یہی کرتے ہیں اپنی کثرتِ عبادت و ورع کے باجود و ہ اپنے زعم میں قرآن پر عمل پیرا تھے ۔ صحیح بخاری وغیرہ میں یہ بات کئی وجوہ سے ثابت ہے کہ آپ ؓ نے فرمایا
{خیر ھذہ الامة بعد نبیھا ابو بکر ثم عمر}اس امت کے نبی ﷺکے بعد سب سے افضل ابوبکررضی اللہ عنہ ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ بھی ثابت ہے کہ آپ (علیؓ )نے غالی رافضیوں کو آگ میں جلوا دیا جب انہوں نے آپ کے بارے میں الوہیت کا اعتقاد رکھا۔
آپؓ سے ہی جید اسناد کے ساتھ مروی ہے آپ نے فرمایا
{لا اوتی بأحد یفضلنی علی ابی بکر عمر الا جلدتہ حد المفتری}میرے پاس کوئی ایسا بندہ لایا گیا جو مجھے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دے تو میں اسے بہتان کی حد لگاؤں گا...یعنی اسِّی درے!آپ سے ہی مروی ہے کہ آپ نے ابن سباء کو طلب کیا جب آپؓ کو خبر ملی کہ اس نے ابو بکر و عمر کو گالی دی ہے تو آپ نے اسے بلا بھیجا تاکہ اسے قتل کریں تو وہ بھاگ گیا۔
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو کوڑے لگانے کا حکم دیا جس نے انہیں ابوبکر ؓ پر فضیلت دی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے صبیغ بن عسل سے کہا جب آپ کو گمان ہوا کہ وہ خارجی ہے ...اگر میں نے تجھے مونڈھا ہوا دیکھا تو تیرا سر اڑا دوں گا(کیونکہ اس وقت تک وہ ظاہر نہ ہوئے تھے اور یہ ان کی علامت تھی)۔ پس یہ امیر المو منین علی رضی اللہ عنہ کی سنت ہے کہ آپ نے شیعہ کو سزا دینے کا حکم دیا ان تین قسموں پر اور ان میں سے کم تر تھی ،فضیلت دینے پر... پس انہوں نے اور عمر رضی اللہ عنہما نے کوڑے مارنے کا حکم دیا۔ جب کہ ''غالی''مسلمانوں کے اتفاق کے ساتھ واجب القتل ہیں اور وہ ایسے ہیں جوعلی کے بارے میں الوہیت اور نبوۃ کا عقیدہ رکھتے ہیں جیسے کہ النصیریۃ، الاسماعیلیۃ جنہیں ''بیت صاد''اور ''بیت سین'' کہا جاتا ہے۔ اسی طرح وہ ''مُعَطَّلَۃْ''بھی ان میں شامل ہیں جو کائنات کے بنانے والے کا انکار کرتے ہیں، یا قیامت کا انکار کرتے ہیں یا شریعت کے ظواہر کا انکار کرتے ہیں مثلاً پانچ نمازیں، رمضان کے روزے، بیت الحرام کا حج اور پھر اس کی تأویل کرتے ہیں کہ وہ ان باتوں کے اسرار و رموز سے واقف ہیں اور اسے اپنے شیوخ کی زیارت پر محمول کرتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شراب حلال ہے اور ذی محرم کے ساتھ نکاح جائز ہے۔ پس تمام ایسے لوگ کافر ہیں اور ان کا کفر یہودو نصاریٰ سے زیادہ سخت ہے۔
پس اگر ان میں کوئی ایسی بات ظاہر نہیں کرتا تو وہ منافقین میں سے ہے جن کا ٹھکانہ جہنم کا سب سے نچلا گڑھا ہے اور جو ان اشیاء کوظاہر کرے اس کا کفر شدید تر ہے...اس کا مسلمانوں کے درمیان ٹھہرنا جائز نہیں نہ جزیہ کے ساتھ ...نہ ذمہ کے ساتھ...ان کی عورتیں مسلمانوں کے لیے حلال نہیں نہ ہی ان کا ذبیحہ جائز ہے کیونکہ وہ مرتد ہیں اور سب سے برے مرتد ہیں... پس اگر وہ کوئی ممتنع گروہ ہوں تو ان کے ساتھ قتال واجب ہے جیسے کہ مرتدین کے ساتھ قتال کیا جاتا ہے...جیسے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں نے مسیلمہ کذاب ملعون کے خلاف قتال کیا...اور جب وہ مسلمانوں کی بستیوں میں رہ رہے ہوں تو انہیں نکالا جائے گا اور انہیں توبہ کے بعد مسلمانوں میں رہنے کی اجازت دی جائے گی اور ان پر اسلام کی ان شرائع کا التزام کروایا جائے گا جو مسلمانوں پر واجب ہے۔
یہ بات صرف کسی ''غالی''کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ جو کوئی مشایخ میں سے ایسا غلو کرے اور کہے کہ اسے رزق دیا جاتا ہے یا یہ کہ اسے نماز معاف ہے یا یہ کہے کہ اس کا شیخ نبیﷺ سے افضل ہے یا یہ کہ وہ شریعت ِ نبویۃ ﷺ سے مستغنی ہے یا یہ کہے کہ اس کا شیخ نبی ﷺ کے ساتھ تھا جیسے کہ خضر موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے...یہ تمام لوگ کفار ہیں ان کے خلاف باجماع ، مسلمین قتال واجب ہے اور انکے مقدور علیہ کو قتل کیا جائے گا...یعنی جو کوئی ان باتوں کا ارتکاب کرتے گرفت میں آجائے!۔
اسی طرح جب کوئی خارجی یا رافضی مقدور علیہ ہو ...یعنی اس پر قابو پالیا جائے تو عمر و علی رضی اللہ عنہما کا فتویٰ ہے کہ اسے قتل کیا جائے گا۔ فقہاء نے ان کے کسی ایک مقدورعلیہ کے قتل میں اختلاف کیا ہے لیکن ان کے خلاف قتال کے واجب ہونے میں کوئی اختلاف نہیں جب وہ ممتنع ہوں۔ ...پس قتال ...قتل سے زیادہ وسیع ہے جیسے کہ فساد برپاکرنے والے باغی دشمن کے خلاف قتال کیا جاتا ہے اور جب ان میں سے کوئی پکڑا جاتا ہے تو اسے بھی وہی سزا دی جاتی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسولﷺ نے حکم دیا ہے۔
خوارج کے بارے میں یہ نصوص نبیﷺ سے متواتر ہیں اور علماء نے لفظی اور معنوی طور پر اس میں ان اہلِ اہواء کو بھی داخل کیا ہے جو شریعتِ رسول اللہ ﷺاور مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہیں۔ بلکہ ان میں سے بعض جیسے کہ خوارج، حروریۃ، خرمیہ، قرامطہ، نصیریۃ فرقے ان کی بدترین اقسام میں سے ہیں۔ پس ہر وہ شخص جو کسی بشر کے بارے میں الٰہ ہونے کا اعتقاد رکھے یاکسی گروہ کے فردکے متعلق یہ اعتقاد رکھے کہ وہ نبی ہے اور اس پر مسلمانوں کے خلاف قتال کرے تو وہ خارجیوں اور حروریۃ سے بھی زیادہ شریر ہے۔
نبی ﷺنے خوراج حروریۃ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ وہ آپﷺ کے بعد خارج ہونے والے پہلے اہل بدعت ہیں...بلکہ ان کا پہلا آدمی تو آپ ﷺکی حیاتِ مبارکہ میں خارج ہوا۔ تو آپ ﷺ نے انکا تذکرۃ اپنے زمانے سے قریب ہونے کے سبب بھی فرمایا...جیسے رسول اللہ ﷺنے بعض اشیاء کا ذکر ان کے وقوع ہونے کے سبب فرمایا جیسے اللہ تعالیٰ کا قول {وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ} اور اپنی اولادوں کو تنگ دستی کے خوف سے قتل نہ کرو۔ اسی طرح اللہ کا قول
{مَنْ يَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّونَهُ}جو کوئی تم میں سے دین سے مرتد ہوگا تو اللہ عنقریب ایسی قوم لے آئے گا جو اس سے محبت کرے گی اور اللہ ان سے محبت کرے گا...اسی طرح نبی ﷺکا بعض قبائل کو بعض احکام جو ان پر قائم ہو گئے، کے ساتھ خاص کرنا جیسے کہ اسلم ، غفار، جہینہ، تمیمہ، اسد، غطفان وغیرہ ۔پس جس کسی پر یہ معنیٰ قائم ہوگئے اسے انہیں کے ساتھ ملادیا جائے گا۔ کیونکہ ان کے ذکر کو خاص کرنا حکم کے ان کے ساتھ خاص ہونے کے سبب نہ تھا بلکہ ان کی تعیین کے سبب مخاطبین کی طرف یہ حاجت تھی۔یہ اس وقت ہے جب الفاظ انہیں شامل نہ ہوں۔
پس یہ رافضی اگر چہ منصوص علیہم خوارج سے بدتر نہیں تو ان سے علاوہ بھی نہیں...کیونکہ پہلے گروہ نے تو صرف عثمان و علی رضی اللہ عنہما کو کافر قرار دیا تھا سوائے اس کے جو قتال سے بیٹھا رہا یااس سے پہلے فوت ہوگیا... لیکن ان رافضیوں نے ابو بکر و عمر و عثمان اور عامۃ المہاجرین والانصاررضی اللہ عنہم اور جن لوگوں نے احسان کے ساتھ آپ علیہ السلام کی پیروی کی ...اور جمہور امتِ محمد ﷺ کو... متقدمین و متاخرین ...ان سب کو کافر قرار دے دیا۔ پس جو کوئی ابو بکر و عمر اور مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم کے بارے میں عدالت کا اعتقاد رکھتا ہے...یا وہ ان سے ایسے راضی ہوتا ہے جیسے کہ اللہ ان سے راضی ہو گیا ...یا وہ ان کے لیے استغفار کرتا ہے جیسے کہ اللہ نے انہیں استغفار کرنے کا حکم دیا ہے...تو وہ اسے کافر قرار دیتے ہیں۔اسی طرح وہ ملت کے اعلام کوکافر قرار دیتے ہیں جیسے کہ سعید بن المسیب، ابو مسلم الخولانی، اویس القرنی، عطاء بن ابی رباح، ابراہیم النخعی... اسی طرح مالک، اوزاعی، ابوحنیفہ، حماد بن زید، حماد بن سلمہ، ثوری ،شافعی ، احمد بن حنبل، فضیل بن عیاض، ابو سلیمان الدارانی، معروف الکرخی ، جنید بن محمد اور سہل بن عبد اللہ التستری جیسی زمانہ ساز ہستیوں کو وہ کافر قرار دیتے ہیں۔
جو کوئی ان سے خارج ہے وہ اس کے خون کو مباح جانتے ہیں اور اپنے مذہب کو ''جمہور کے مذہب'' کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔جیسے فلاسفہ ، اور معتزلۃ اسے مذہب الحشو کہتے ہیں اور عامہ اور اہلِ حدیث بھی یہ موقف رکھتے ہیں۔ پھر وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اہلِ مصر، شام، حجاز، مغرب ، یمن، عراق، الجزیرۃ اور تمام اسلامی ممالک کے لوگوں کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور نہ ہی ان کا ذبیحہ حلال ہے اور ہر وہ مائع چیز جو ان مسلمانوں کے پاس ہے مثلاً پانی وغیرہ وہ نجس ہے...اور وہ یہ کہتے ہیں ان مسلمانوں کا کفر یہودو نصاریٰ سے بڑھ کر ہے...کیونکہ یہ تو ان کے نزدیک اصلی کفار ہیں جبکہ وہ مرتد ہیں اور ارتداد کا کفر اصلی کفر سے بالاجماع زیادہ شدید ہے!
اسی سبب سے وہ جمہور مسلمانوں کے خلاف کافروں کا ساتھ دیتے ہیں۔ پس وہ تاتاریوں کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف تعاون کرتے ہیں... اور وہ کافر بادشاہ چنگیز خان ملعون کے اسلامی ممالک کے خلاف خروج کا سب سے بڑا سبب تھے...وہی عراق کے شہروں پر ہلاکو کو بلانے کا سبب تھے...حلب اور الصالحیہ کے شہروں کو لوٹنے میں انہی کا خبث ِ باطن کارفرما تھا۔ اسی طرح وہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کی عساکر کو لوٹا جب وہ مصر سے روانہ ہوئیں اور ان کے پاس سے گذریں۔ پس اس سبب وہ مسلمانوں کے رستے بھی کاٹتے ہیں...اسی سبب ان کے اندر تاتاریوں اور اس کے بعد فرنگیوں کے ساتھ تعاون ظاہر ہوا...اور اسلام کے خلاف اس قدر شدید طوفان کھڑاکیا گیا۔ اسی طرح جب مسلمانوں نے عکہ وغیرہ کا ساحل فتح کیا تو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کی مدد کی...اور انہیں مسلمانوں پر ترجیح دی جسے خود مسلمانوں نے انہی سے سنا... یہ سب کچھ ان کے بعض امور کی میں نے صفت بیان کی ہے وگرنہ معاملہ بہت ہی عظیم ہے۔ ان احوال کے ساتھ اہلِ علم کا اتفاق ہے کہ وہ سب سے بڑی تلوار جو اہلِ قبلہ پر سونتی گئی... وہ سب سے بڑا فساد جو مسلمانوں کے خلاف برپا ہوا وہ سب ایک ایسے گروہ کی وجہ سے تھا جو انہیں کی طرف نسبت رکھتا ہے۔
پس وہ دین اور اہلِ دین کے لیے سب سے زیادہ ضرر والے ہیں...اور اسلام اور اسکی شریعت سے سب سے زیادہ دور خوارج و حروریۃ ہیں۔ اسی لیے وہ امت کا سب سے جھوٹا فرقہ ہیں۔ پس قبلہ کی طرف انتساب رکھنے والے فرقوں میں سب سے بدترین جھوٹا اور سب سے زیادہ جھوٹ کی تصدیق کرنے والا ان سے بڑھ کر کوئی نہیں... اور نفاق تو ان میں بہت ہی اظہر ہے چنانچہ وہ ایسا ہی ہے جیسے کہ نبیں نے اس کے متعلق فرمایا{آیة المنافق ثلاث اذا حدث کذب واذا وعد اخلف واذا ائتمن خان} منافق کی تین نشانیاں ہیں کہ جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو اس کا خلاف کرے اور جب امانت دیا جائے تو خیانت کرے اور ایک روایت میں ہے{اربع من کن فیہ کان منافقا خالصا ومن کان فیہ خصلة منھن کانت فیہ خصلة من النفاق حتیٰ یدعھا اذا حدث کذب واذا وعد اخلف اذا عاھد غدر واذا خاصم فجر} چار چیزیں جس میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چار میں سے کوئی ایک خصلت پائی گئی تو اس میں منافقت کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے۔ جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو اس کا خلاف کرے اور جب معاہدہ کرے تو غداری کرے اور جب جھگڑا کرے تو گالی دے۔
پس جس کسی کا ان کے ساتھ واسطہ پڑا ہے وہ جان لے گا ان میں یہ خصلتیں کس قدر بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اسی لیے وہ تقیہ استعمال کرتے ہیں جیسے کہ اسے منافقین اوریہودی مسلمانوں کے ساتھ استعمال کرتے ہیں
{ یَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِمْ مالَیْسَ فی قُلوبِهِمْ } وہ اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں... اور وہ اپنی باتوں پر قسمیں اٹھاتے ہیں کہ وہ مومنوں سے راضی ہیں جبکہ اللہ اور اسکے رسول علیہ السلام اس بات کے زیادہ حق دارہیں کہ انہیں راضی رکھا جائے۔
انکی یہودیوں کے ساتھ بہت سے امور میں مشابہت پائی جاتی ہے...یقیناً یہود السامرۃکے ساتھ... پس وہ سارے لوگوں سے زیادہ ان سے مشابہ ہیں۔وہ امامت کے مسئلہ میں ان سے مشابہ ہیں جب وہ ایک شخص یا بطن کے متعلق امامت کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کے علاوہ ہر کسی کے لیے امامت کے حق کی تکذیب کرتے ہیں... اسی طرح خواہشات کی پیروی میں...کلام کو اس کی اصل سے پھیرنے میں... فطر و صلاۃ المغرب کی تأخیر وغیرہ میں ...اور غیر کے ذبیحہ کی تحریم میں...اسی طرح وہ عیسائیوں سے مبالغہ آمیزی میں مشابہت رکھتے ہیں، بدعتی عبادات اور شرک کے متعلق...وہ مسلمانوں کے خلاف یہودیوں، عیسائیوں اور مشرکوں سے دوستی لگاتے ہیں اور یہ منافقین کی بد خصلتیں ہیں ...اللہ فرماتے ہیں
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ } اے ایمان والو!یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بنائو کہ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور اللہ فرماتے ہیں
{تَرَى كَثِيراً مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ} اے نبیﷺآپ ان میں اکثر کو دیکھیں گے کہ وہ کافروں سے دوستیاں لگاتے ہیں ، بہت ہی برا عمل ہے جو انہوں نے اپنے نفسوں کے لیے آگے بھیجا ہے کہ اللہ ان پر سخت ہے اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں
{وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِالله والنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَـكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ} اور اگر وہ اللہ پر اور اس کے رسول اور جو کچھ انکی طرف اتارا گیا ہے اس پر ایمان لاتے تو وہ ان کو دوست ہر گز نہ بناتے لیکن ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔
ان کے پاس کوئی عقل و نقل نہیں، نہ دینِ صحیح ہے نہ دنیائے منصورہ...نہ ہی وہ جمعہ پڑھتے ہیں نہ جماعت جبکہ خوارج جمعہ و جماعت کا اہتمام کرتے تھے... وہ مسلمانوں کے ائمہ کے ساتھ ملکر کفار کے خلاف جہاد کرنے کو بھی جائز نہیں جانتے،نہ ان کی اطاعت کرتے ہیں ،نہ ان کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں...نہ ہی ائمہ کی اطاعت کو بجالاتے ہیں... کیونکہ ان کا اعتقاد ہے کہ یہ سب کچھ صرف ''معصوم''امام کے پیچھے ہی جائز ہے۔ پھر وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں وہ معصوم چار سو چالیس سال سے ایک غار نما کھوہ میں گھس گیا ہے...اور وہ ابھی تک نہیں نکلا اور نہ ہی کسی نے اسے نکلتے دیکھا ہے... پس دین کوئی نہیں جانتا ہو اور اس کے حاصل کرنے میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ مضرت ہے۔اس سب کے باوجود ایمان ان کے نزدیک اس کے بغیر صحیح نہیں ہوتا اور کوئی مومن نہیں ہوتا جب تک وہ اس گمشدہ پر ایمان نہ لائے...اور جنت میں کوئی داخل نہ ہو گا جو ان کا متبع نہ ہو... اس طرح کے جاہل و گمراہ ہیں...پہاڑوں اور بادیہ نشینی میں رہنے والے اجڈ گنوار...شیطان نے جنہیں خبط میں مبتلا کردیا ہے جیسے کہ ''ابن العود''اور اس جیسے لوگ جن کی لکھی ہوئی ہفویات کا ہم نے تذکرہ کیا ہے اور ان کی صراحت کی ہے۔
اس امر کے ساتھ وہ ہر اس شخص کو کافر قرار دیتے ہیں جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور اسکی اسماء و صفات پر کتاب و سنت کے مطابق ایمان لایا اور ہر وہ شخص جو اللہ عزوجل کی قضاء و قدر پر ایمان لاتا ہے...پس وہ اللہ کی قدرتِ کاملہ اور اسکی مشیئت شاملہ پر ایمان لاتا ہے... وہ ان کے نزدیک کافر ٹھہرتا ہے۔ ان کے اکثر''محققین ''کے نزدیک ابو بکر و عمر اور اکثر مہاجرین و انصاررضی اللہ عنہم اور ازواج النبی ﷺ جیسے کہ عائشہ ؓ وہ سب صرف چند لمحوں کے لیے ایمان لائے ...کیونکہ ایساایمان جس کے پیچھے کفر ہو وہ اصل میںانکے نزدیک باطل ہے اور جیسے کہ علماء اہل السنۃ کہتے ہیں!
اور ان میں سے بعض ایسا کہتے ہیں کہ نبی ﷺکی شرمگاہ کو آگ چھوئے گی جس سے آپ نے امہات المومنین عائشہ و حفصہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ مجامعت فرمائی اور یہ زعم رکھتے ہیں کہ اس سے آپ ﷺکو کافروں کے ساتھ کی گئی وطی سے پاک کیا جائے گا(نعوذ باللہ )کیونکہ کافر کے ساتھ وطی کرنا ان کے نزدیک حرام ہے...پھر اس کے ساتھ وہ احادیثِ رسول اللہ ﷺ، ثابتہ، اہلِ علم کے نزدیک متواترہ کا انکار کرتے ہیں جیسے کہ بخاری و مسلم کی احادیث اور وہ زعم رکھتے ہیں کہ شیعہ رافضی شاعروں کی شاعری جیسے کہ الحمیری، الدیلمی اور عمارۃ الیمنی کی شاعری، احادیثِ بخاری ومسلم سے بہتر ہے۔ ہم نے ان کی کتابوں میں نبی ﷺکی ذاتِ اطہر پر بہتان طرازی دیکھی ، آپ کے جانثار صحابہ پر...آپ کے قرابت داروں پر...اور ہم نے انکی کتابوں میں اس قدر جھوٹ دیکھا جتنا ہم نے اہلِ کتاب کی تورات و انجیل میں نہیں دیکھا!
اس کے ساتھ وہ مساجد کو معطل کرتے ہیں جس کا کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس میں اس کا ذکر بلند کیا جائے... پس وہ اس میں نہ نماز قائم کرتے ہیں نہ ہی جمعہ۔ بلکہ جھوٹی و غیر جھوٹی قبروں پر مسجدیں بناتے ہیں اور انہیں مزار بناتے ہیں۔ جبکہ اللہ کے رسول ﷺ نے قبروں کو مساجد بنانے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور اپنی امت کو اس سے منع فرمایا ہے اور آپ ﷺنے اپنی وفات سے پانچ دن قبل فرمایا{ان من کان قبلکم کانوا یتخذون القبور مساجد، الا فلا تتخذوا القبور مساجد فانی انھاکم عن ذالک} تم سے پہلے لوگ قبروں کو مساجد بنالیتے تھے خبردار تم قبروں کو مساجد نہ بنانا کہ میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں...پھر وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان جھوٹے مزاروں کا حج کرنا بہت عظیم عبادات میں سے ہے...یہاں تک کہ ان کے مشائخ میں بعض ایسے ہیں جو اسے بیت اللہ الحرام کے مامور حج پہ فضیلت دیتے ہیں! ان حالات کا وصف بہت طویل ہے۔
یہ باتیں بیان کرتی ہیں کہ وہ عام اہل ِ الاہواء سے بھی بدتر ہیں اور خوارج سے بھی زیادہ قتال کیے جانے کے مستحق ہیں...یہ سبب ہے جس کے بارے میں یہ عرفِ عام بن گیا ہے کہ اہل بدعت رافضی ہیں اسی لیے عام لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ سنی کا متضاد فقط رافضی ہے۔ کیونکہ وہ سنت رسول کے ساتھ سب سے زیادہ معاندانہ رویہ رکھتے ہیں اور آپ علیہ السلام کی شریعت کے اہل الاہواء میں سب سے بڑے دشمن ہیں۔ اسی طرح خارجی بھی قرآن کی اتباع اپنی فہم کے تقاضوں کے مطابق کرتے تھے جبکہ یہ امام معصوم کی اتباع کرتے ہیں ... جس کا کوئی وجود نہیں...خوارج کا مستند ان کے مستند سے بہتر تھا۔ اسی طرح خارجیوں میں کوئی زندیق و غالی نہ تھا...جبکہ ان میں زندیق و غالی اتنے ہیں جنہیں اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔
اہل ِ علم نے بیان کیا ہے کہ رافضیوں کی ابتدا کرنے والا ایک زندیق عبد اللہ بن سبا تھا...وہ ظاہر مسلمان اور باطن میں یہودی تھا ...اس نے اسلام میں فساد داخل کرنے کے لیے بھیس بدلا ...جیسے کہ پولس نصرانی اصلاً یہودی نے عیسائیت میں فساد داخل کرنے کے لیے عیسائیت اختیار کی۔ اسی طرح ان کے ائمہ کی اکثریت ''زندیق'' ہے...وہ ''رفض'' کا اظہار اس لیے کرتے ہیں کیونکہ یہ اسلام کی عمارت کو ڈھانے کا راستہ ہے جیسے کہ ائمہ ملحدین نے کیا جو کہ سرزمینِ آذر بائیجان میں معتصم کے عہد میں بابک الخرمی کے ساتھ ظاہر ہوئے اور ان کا نام الخرمیۃ تھا، المحمرہ ا ور قرامطہ الباطنیہ جو عراق وغیرہ میں ظاہر ہوئے انہوں نے حجرِ اسود چرا لیا جو ایک مدت تک ان کے پاس رہا جیسے کہ ابی سعید الجنابی اور اسکے پیرو کار۔ اسی طرح وہ لوگ جو ارضِ مغرب میں ظاہر ہوئے پھر وہ مصر میں گھسے اور وہاں قاہرہ بنایا اور دعویٰ کیا کہ وہ فاطمی ہیں۔ اہلِ علم النسب کے اتفاق کے ساتھ یہ لوگ رسول اللہ ﷺکے نسب سے بری ہیں اور ...اصل میں ان کا نسب یہودیوں اور مجوسیوں سے ملتا ہے اور اہلِ علم کے اتفاق کے ساتھ یہ لوگ یہودیوں اورعیسائیوں سے بڑھ کر اللہ کے نبی ﷺکے دین سے دور ہیں... بلکہ ان کے غالی و ملحد جو جنابِ علی رضی اللہ عنہ کو الٰہ مانتے ہیں جیسے کہ اہلِ دور الدعوۃ جو خراسان ، شام اور یمن وغیرہ میں تھے۔
یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف تاتاریوں کے سب سے بڑے زبان و ہاتھ کے ساتھ معاون و مدد گار ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں کے خلاف یہودیوں و عیسائیوں کی بات کو ترجیح دیتے ہیں...اسی لیے کافر بادشاہ ہلاکو خان ان کے''بتوں ''کو قائم رکھتا تھا۔ جبکہ خارجی تو لوگوں میں سب سے سچے اور عہد کے پاسدار لوگ تھے...جبکہ یہ لوگ سب سے بڑے جھوٹے اور بد عہد ہیں۔
فتویٰ طلب کرنے والے کا یہ کہنا!!
کہ وہ محمد ﷺکی لائی شریعت پر ایمان رکھتے ہیں!
تو یہ عین جھوٹ ہے بلکہ انہوں نے محمد ﷺکی لائی ہوئی ہر چیز کا انکار کیا جسکا احاطہ صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کو ہے پس کبھی تو وہ نصوصِ ثابتہ کا انکار کرتے ہیں اور کبھی معانی التنزیل کا انکار کرتے ہیں۔ ان کی ذلالتوں میں سے جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اور جو ذکر نہیں کیا، اس کے متعلق ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ باتیں محمدﷺ کی شریعت کی مخالف ہیں!
بے شک اللہ نے اپنی کتاب میں صحابہ رضوان اللہ علیہم کی ثناء بیان کی ہے اور ان کے لیے استغفار کا ذکر کیا ہے جس کی حقیقت کے یہ (رافضی) منکر ہیں...اور اللہ نے قرآن میں جمعہ ، جہاد، اطاعتِ اولی الامر کا ذکر کیا ہے جس سے یہ خارج ہیں ... اسی طرح اللہ نے اپنی کتاب میں مومنوں سے دوستی رکھنے اور ان سے محبت رکھنے، آپس میں بھائی چارہ قائم رکھنے اور اصلاح کرنے کا حکم دیا ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم اس سے خارج نہیں ہیں...اسی طرح اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے کافروں سے دوستی لگانے سے منع کیا اور رافضی اس سے بھی خارج ہیں...اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اپنی کتاب میں مسلمانوں کے خون ،عزت، ان کی غیبت اور ہمز ولمز کے حرام ہونے کا حکم دیا ہے اوریہ رافضی لوگوں میں سب سے زیادہ اسے حلال جانتے ہیں...اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اپنی کتاب میں جماعت کے ساتھ التزام کا حکم دیا اور تفرق سے منع کیا ہے اوریہ رافضی اللہ کے اس حکم کے بھی منکر ہیں...اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اپنی کتاب میں رسولﷺ کی اطاعت، آپکی محبت اور اتباع کا حکم دیا ہے اور یہ اس سے بھی خارج ہیں...اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے زوجین کے حقوق کا ذکر کیا ہے اوروہ اس سے بھی بری ہیں...اللہ سبحانہٗوتعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے لیے خالص توحید، ملک، عبادت ِبے شرکت کا حکم دیا اور یہ مشرک ہیں اور جیسے کہ ان کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ لوگ سب سے زیادہ قبروں کی تعظیم کرنے والے ہیں اور انہیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے علاوہ بت بنا کر پوجتے ہیں...یہ ایسا باب ہے جس کا ذکر بہت طویل ہے...اسی طرح اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے اسماء و صفات کا ذکر کیا ہے جس کے ساتھ وہ کفر کرتے ہیں...اس نے اپنی کتاب میں انبیاء کے قصے ذکر کیے ہیں اور مشرکین کے لیے استغفار سے منع کیا ہے جبکہ وہ اس سے انکاری ہیں...وہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر چیز کا خالق ہے اور جو چاہتا ہے ہوتا ہے اور اس کے علاوہ کسی کی کو ئی قوت نہیں لیکن وہ اس بات کے بھی منکر ہیں!
جبکہ فتویٰ صرف مختصر اشاروں کا متحمل ہے نہ تفاصیل کا!
یہ بات قطعاً معلوم ہے کہ خوارج کا ایمان اس شریعت پر جسے محمد ﷺلے کر آئے ان رافضیوں کے ایمان سے بہت بڑا ہے۔ جب امیر المو منین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کیا اور ان کے لشکر کے اموال کو بطور غنیمت لیا تو یہ لوگ با الاولیٰ اس بات کے حق دار ہیں کہ ان کے ساتھ قتال کیا جائے اور ان کے اموال لیے جائیں جیسے کہ امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خوارج کے اموال لیے۔ پس اگر علم وغیرہ کی طرف نسبت رکھنے والا کوئی شخص کسی تأویل کیساتھ یہ اعتقاد رکھے کہ ان کے ساتھ قتال کرنا باغی خارجیوں کے خلاف قتال کرنے کی مانند ہے جیسے کہ امام کے ساتھ معاملہ میں ہوا۔ جیسے امیر المو منین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا اہل جمل و صفین کے خلاف قتال...تو ایسا شخص غلطی پر اور اسلام کی شریعت و خصوصیت کے ساتھ جاہل ہے جو اسلام سے خارج ان لوگوں کی شریعت کے ساتھ تخصیص کر رہا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ اگر اسلام کی شریعت کے ساتھ ملکوں کی سیاست چلاتے تو یہ باقی سارے بادشاہوں کی طرح تھے۔ جبکہ یہ لوگ نفسِ شریعت و سنتِ رسول اللہ ﷺ سے خارج ہیں ۔یہ تو خوراج و حروریۃ سے بھی شریر تر ہیں اور ان کے لیے کوئی تأویل جائز نہیں۔ کیونکہ تاویلِ سائغ اسی شخص کے لیے جائز ہے جو اس کے حامل کو مقرر کرے جب اس میں جواب نہ ہو جیسے کہ علماء کا متنازع امور میں اجتہاد کرنا۔ ان لوگوں کا کتاب و سنت و اجماع میں کوئی حصہ نہیں۔ لیکن ان کی تأویلیں مانعین زکوۃ کی تاویل کی طرح ہیں جیسے خوارج ، یہود اور نصاریٰ کا حال ہے اور یہ اہل ُالاَہْوا کی بد ترین تأویلیں ہیں۔
بعض فقہاء نے اپنی مختصرات میں ان مسائل کے لیے کوئی تحقیق نہیں پائی اور اکثر ائمہ مصنفین نے اپنی تصانیف میں شریعت کے اعتقادی و عملی اصول سے خارج لوگوں جیسے کہ خوارج اور مانعین ِزکوۃ،کے ساتھ قتال کا ذکر امام کے خلاف خروج کے ابواب میں کیا ہے جیسے کہ اہلِ جمل و صفین ۔لیکن یہ بات غلط ہے بلکہ کتاب و سنت اور اجماعِ صحابہ نے اس میں فرق کیا ہے جیسے کہ اکثر ائمہ فقہ وسنت وتصوف اور ائمہ علم الکلام نے اس کاذکر کیا ہے۔
نبی ﷺ سے ایسی نصوص وارد ہیں جو انہیں اور ان کے گروہ کو شامل ہیں۔ جیسے کہ مسلم نے اپنی صحیح میں ابو ہریرۃ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا {من خرج من الطاعة وفارق الجماعة ثم مات مات میتة الجاھلیة ومن قتل تحت رایة عمیہ، یغضب للعصبیة ویقاتل للعصبیة فلیس منی و من خرج علی امتی یضرب برھا وفاجرھا ولا یتحاشی من مومنھا ولا یفی لذی عھدھا فلیس منی}جو اطاعت سے خارج ہو ا اور جس نے جماعت کو چھوڑا اور پھر وہ مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جس نے کسی جاہلیت کے جھنڈے تلے قتال کیا، عصبیت کے لیے غصہ ہوا اور اسی کے لیے قتال کیا تو وہ مجھ سے نہیں۔ اور جس نے میری امت کے خلاف خروج کیا اور اس کے نیک و بد کو مارا اور نہ ہی اس کے مومن کا خیال کیا اور نہ ہی امت کے ذی عہد کے ساتھ عہد کو پورا کیا تو وہ مجھ سے نہیں۔ پس اس حدیث میں آپ ﷺ نے باغیوں کا ذکر فرمایا جو سلطان کی اطاعت سے اور مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہیں۔
اسی طرح آپﷺ نے فرمایا کہ اگر ان میں سے کوئی ایک مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا کیونکہ جاہلیت کے لوگوں کا کوئی امام نہیں ہوتا بلکہ ان کی ایک جماعت دوسرے پر غلبہ پاتی ہے۔ پھر آپ نے اہلِ عصبیت کا ذکر کیا جیسے کہ وہ لوگ جو نسب پر قتال کرتے ہیں مثلاً قیس اور یمن۔ پس آپ نے ذکر کیا جو ان جھنڈوں کے نیچے لڑتا ہوا مارا گیا تو وہ آپ کی امت سے نہیں ۔ پھر آپ نے فسادی باغی دشمن خوارج وغیرہ کا ذکر کیا کہ جس نے ان جیسا فعل کیا تو وہ اس امت سے نہیں۔
ان(رافضی)لوگوں میں یہ تینوں وصف بدرجہ اَتم جمع ہیں بلکہ انہوں نے اس سے بھی زیادہ کر لیے ہیں۔ پس یہ اطاعت و جماعت سے خارج ہیں، مومن و معاہد کو قتل کرتے ہیں اور مسلمانوں کے کسی والی کی اطاعت قبول نہیں کرتے چاہے وہ عادل ہو یا فاسق ہو اور صرف اس کی پیروی کرتے ہیں ...جسکا کوئی وجود ہی نہیں! ۔یہ لوگ عصبیت پر بلکہ عصبیت کی بری ترین قسم ذوی الانساب پر لڑتے ہیں۔ جبکہ یہ عصبیت ایک فاسد دین کے لیے ہے۔ ان کے دل مسلمانوں کے صلحاء ، کبارو صغار کے متعلق غیظ و دھوکہ سے بھرے پڑے ہیں اور ان کی سب سے اعلیٰ عبادت مسلمانوں کے اولیاء اللہ ...متقدمین و متأخرین ...کو لعن طعن کرنا ہے۔ ان کامسلمانوں کے خلاف خروج کرنا اور مومن و معاہد کوقتل کرنا، یہ ان کا حال ہے جبکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہی مومن ہیں اور ساری امت کافر ہے۔
مسلم نے اپنی صحیح میں محمد بن شریح سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا
{انہ ستکون ہناة وہناة، فمن أراد أن یفرق امر ھذہ الا مة وھی جمع فاضربوہ بالسیف کائنا من کان}بے شک بنا مشقت ورنج کے بہت سی مصیبتیں آئیں گی پس جو شخص اس امت کو تفرقہ میں ڈالنا چاہے جبکہ وہ متحد ہو تو اسے تلوار سے مارو اور ایک روایت میں ہے{فاقتلوہ} اسے قتل کردو اور ایک روایت میں ہے {من اتاکم و امرکم جمیع علی رجل واحد یرید ان یشق عصاکم ویفرق جماعتکم فاقتلوہ} جو کوئی تمہارے پا س اس حال میں آئے کہ تم ایک آدمی کے حکم پر متفق ہو اور وہ تمہارے اندر اختلاف ڈالنا چاہتا ہے تو ایسے شخص کو قتل کردو چاہے وہ جو کوئی بھی ہو۔ جبکہ یہ (رافضی)لوگ سب سے زیادہ اس بات کے حریص ہیں کہ مسلمانوں کی جماعت میں تفریق پھیلے۔ وہ مسلمانوں کے کسی ولی الامر کی اطاعت نہیں بجالاتے چاہے وہ عادل ہو یا فاسق...نہ ا طاعت کے معاملے میں اور نہ ہی کسی اور امر میں وہ اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب سے بڑا اصول تکفیر ، لعن طعن اور بہترین حکمرانوں کو گالی دینا ہے... جیسے کہ خلفائے راشدین، علمائے مسلمین اور ان کے مشایخ... کیونکہ وہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ہر وہ شخص جو امام معصوم پر ایمان نہیں رکھتا ...جس کا کوئی وجود ہی نہیں...تو وہ اللہ اور اس کے رسول ا پر ایمان نہیں لایا۔
یہ لوگ خارجی حرورریۃ سے بھی بڑھ کے بد تر ہیں ...اور اہل الاہواء سے بھی بڑھ کر کیونکہ ان کا مذہب خارجیوں کے شر سے بھی بڑھ کر شریر کو شامل ہے۔ یہ اس لیے کہ خوارج پہلے اہل الاہواء تھے جو سنت اور جماعت سے خارج ہوئے ایسے دور میں جب خلفائے راشدین باقی تھے، مہاجرین و انصار موجود تھے، علم کا ظہور تھا، امت میں عدل تھا، نبوت کا نور تھا، دلیل کی حکومت تھی...اللہ رب العزت نے اس دین کو حجت و قدرت کے ساتھ تمام ادیان پر غالب کردیا تھا۔ خارجیوں کے خروج کا سبب وہ افعال تھے جو امیر المو منین عثمان و علی اور آپ کے ساتھیوں رضوان اللہ علیہم سے سرزد ہوئے جس میں تاویل کی گنجائش موجود ہے...لیکن انہوں نے اس کا احتمال قبول نہ کیا بلکہ اسے اجتہاد کی جگہ بنا دیا... تو نیکیوں کو گناہ بنا ڈالا اور گناہوں کو کفر بنادیا اور اسی لیے وہ جنابِ ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کے دور میں نہ نکلے کیونکہ اس وقت ان کی تاویلیں کمزور تھیں۔
یہ بات معلوم ہے کہ جب بھی نبوت کا نور واضح ہوا مخالف بدعت اسی قدر کمزور پڑگئی...اسی لیے پہلی بدعت دوسری سے خفیف تھی اور دوسری بدعت پہلی کی برائی اور زیادتی کو لیے ہوئے تھی۔ جیسے کہ سنت کی حالت ہے کہ وہ جتنی اصل حالت پر ہوگی اتنا ہی نبی ﷺ کے اسوہ کے اقرب ہو گی اور افضل ہو گی،پس سنت بدعت کی ضد ہے۔ جس قدر وہ آپ سے قریب ہوگی جیسے جناب ِ ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہم کی سیرت تو وہ اس سے افضل ہوگی جو متاخر ہے جیسے کہ عثمان و علی رضی اللہ عنہم کی سیرت۔ جب بدعت اس کی ضد میں جس قدر دور ہو گی تو قریب سے بھی شریر تر ہوگی جیسے کہ قریب کا زمانہ خوارج کا ہے۔ پس اس طرح کی باتیں کرنا تو آپﷺکے زمانے میں ہی شروع ہوا لیکن ان کا اجتماع و قوت جنابِ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ظاہر ہوئی۔
پھر جنابِ علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کلامِ رفض ظاہر ہوا لیکن انہیں قوت و شوکت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ملی بلکہ رافضیت کا نام بھی اس وقت ظاہر ہوا جب زید بن علی بن الحسین رضی اللہ عنہ نے پہلے سو سال بعد خروج کیا...جب جنابِ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر زبانیں دراز ہونا شروع ہوئیں اور ان بدعتیوں نے انکی خلافت کا انکار کیا تو انہیں رافضی یعنی منکر کہا گیا اور انہوں نے یہ اعتقاد رکھا کہ ابو جعفر ہی امام ِ معصوم ہیں اور کچھ دوسرے لوگوں نے آپ کی اتباع کا دعویٰ کیا تو ان کا نام زیدیہ پڑگیا۔
پھر صحابہ کے اواخر زمانہ میں تکلم کے سبب قدریۃ اور مرجئہ کی بدعت کا ظہور ہوا تو صحابہ کی باقیات نے اس کا رد کیا ...جیسے کہ ابن عمر، ابن عباس، جابر بن عبد اللہ، ابوسعید اور واثلہ بن اسقع وغیرہم رضی اللہ عنہم۔لیکن ان لوگوں کو کوئی قوت و شوکت نہ مل سکی تا آنکہ بعد میں معتزلہ اور مرجئہ کی کثرت ہوگئی۔
پھر تابعین کے اواخر عہد میں جہمیۃ کی بدعت کا ظہورہوا جو ''صفات''کی نفی کرنے والے تھے لیکن انہیں سلطان و شوکت دو سو سال بعد جاکے ملی جب ابو العباس المامون الرشید کا دور آیا۔ اس نے لوگوں کو آزمائش میں ڈالا اور کتابیں لکھوائیں یہان تک کہ عجمی رومیوں ،یونانیوں وغیرہم کی کتب کے تراجم سامنے آئے۔
اسی کے زمانے میں ''الخرمیہ''ظاہر ہوئے۔ یہ لوگ تو زندیق و منافق تھے جو صرف اپنا اسلام ظاہر کرتے تھے اور بعد میں یہ قرامطہ، باطنیۃ اور اسماعیلیۃمیں تقسیم ہوگئے۔ان کی اکثریت رفض کو حلال جانتی ہے۔
اسی طرح رافضہ امامیۃ تین سو سال بعد بنی بویۃ کے عہد میں ظاہر ہوئے...ان کے اندر عام گمراہ اہلِ اہواء تھے...ان میں خارجیت تھی...ان میں رفض و قدریت اور تجہم جمع تھا۔
ایک عالم جب غور کرتاہے کہ کتاب و سنت کی کون سی نصوص کاا ن لوگوں نے نقض کیا ہے... تو وہ دیکھے گا کہ اس کا احاطہ سوائے اللہگ کے کوئی نہیں کرسکتا۔ پس یہ ساری باتیں بیان کرتی ہیں کہ ان کے اندر خوارج حروریۃ اور اس کا بھی اضافہ ہے۔ اسی طرح خارجی حروریۃ تو قرآن کی اتباع کو اپنی آراء کے ساتھ جائز قرار دیتے تھے اور ان سنتوں کی اتباع کا دعویٰ کرتے تھے جن کے بارے میں ان کا زعم ہے کہ وہ قرآن کے مخالف ہیں۔ جبکہ رافضی اہل بیت کی اتباع کا دعویٰ کرتے ہیں اور یہ زعم رکھتے ہیں کہ ان میں معصوم ہیں جن پرعلم کی کوئی چیز مخفی نہیں اور وہ...عمداًو سہواً...غلطی کا ارتکاب نہیں کرتے...جبکہ قرآن کی اتباع پوری امت پر واجب ہے بلکہ وہ اصلِ ایمان ہے اور ہدایت کا سرچشمہ ہے جس کے ساتھ اللہ نے اپنے رسول ﷺکو مبعوث کیا ہے۔ اسی طرح اہلِ بیتِ رسول اللہ ﷺ کی محبت، دوستی اور ان کے حقوق کی رعایت واجب ہے اور یہ وہ {الثقلان}دو مضبوط کڑے ہیں جن کی اللہ کے نبی ﷺنے وصیت کی۔
پس مسلم نے اپنی صحیح میں زید بن ارقم سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مکہ و مدینہ کے درمیان ایک مقام غدیر جسے ''خُمْ''کہا جاتا ہے میں خطبہ دیا
{ایھا الناس،انی تارک فیکم الثقلین} اے لوگو میں تمہارے اندر دو مضبوط کڑے چھوڑے جارہا ہوں اور ایک روایت میں ہے
{احدھما اعظم من الآخر کتاب اللّٰہ فیہ الھدی والنور}جن میں ایک دوسرے سے بڑا ہے، اللہ کی کتاب جس میں ہدایت و روشنی ہے! پس آپ نے کتاب اللہ میں ترغیب دلائی اور ایک روایت میں ہے
{ھو حبل اللّٰہ من اتبعہ کان علی الھدیٰ ومن ترکہ کان علی الضلالة وعترتی اھل بیتی أذکرکم اللّٰہ فی اھل بیتی،أذکرکم اللّٰہ فی اھل بیتی،أذکرکم اللّٰہ فی اھل بیتی}وہ اللہ کی رسی ہے جس نے اسے پکڑ لیا وہ ہدایت پر ہے اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہی پر ہے اور میری اولاد میرے اہلِ بیت ...اور میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں...میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں...میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں!تو زید بن ارقم سے کہا گیا آپ کے اہلِ بیت کون ہیں؟ تو انہوں نے کہا اہلبیت وہ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ...آلِ عباس، آلِ علی، آلِ جعفر اور آلِ عقیل رضی اللہ عنہم۔ جبکہ قرآن کے اتباع پر دلالت کرنے والی نصوص کثرت کے ساتھ ہیں جن کے یہاں ذکر کی احتیاج نہیں!
اسی طرح نبی ﷺ سے بطریقِ حسّانؓ مروی ہے کہ آپ نے اپنے اہلِ بیت کے متعلق فرمایا
{ والذی نفسی بیدہ لا یدخلون الجنة حتیٰ یحبوکم من اجلی} اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک میری وجہ سے تم سے محبت نہ رکھیں۔ بے شک اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ہمیں آلِ محمد پر صلاۃ پڑھنے کا حکم دیا ہے اور انہیں صدقہ سے پاک رکھا ہے جو لوگوں کا میل کچیل ہے اور ان کے لیے خمس اور فئی میں حق رکھا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا جیسے کہ صحیح میں ثابت ہے
{ان اللّٰہ اصطفیٰ بنی اسماعیل و اصطفیٰ کنانة من بنی اسماعیل واصطفیٰ قریشا من کنانة و اصطفیٰ بنی ہاشم من قریش واصطفانی من بنی ھاشم فا نا خیرکم نفساً وخیرکم نسباً} بے شک اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل کو پسند کیا اور بنی اسماعیل سے کنانہ کو اور کنانہ سے قریش کو اور بنی ہاشم کو قریش سے اور مجھے بنی ہاشم سے منتخب فرمایا اور میں تم سب میں حسب و نسب میں بہتر ہوں۔
اگر ہم یہاں حقوقِ قرابت اور حقوقِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا بھی ذکریں تو خطاب بہت طویل ہوجائے گا ...پس اس کے دلائل کتاب و سنت میں بے شمار ہیں۔ اسی لیے صحابہ کے اور قرابت کے حقوق کی رعایت رکھنے پر اہل السنۃ والجماعۃ کا اجماع ہے...اسی لیے انہوں نے ان تمام ناصبیوں سے برأت کا اظہار کیا جو جنابِ علی بن ابی طالب کو کافر کہتے ہیں اور ان پر فسق کا بہتان لگاتے ہیں اور اہلِ بیت کی حرمت کی تنقیص کرتے ہیں۔ مثلاً جو انکی حکومت میں مخالفت کرتا ہے، یا ان کے واجب حقوق ادا کرنے سے اعراض برتتا ہے یا یزید بن معاویۃ رضی اللہ عنہ کی تعظیم میں مبالغہ آمیزی کرتا ہے!۔ اسی طرح اہل السنۃ نے ان رافضیوں سے برأت کا اظہار کیا جو صحابہ اور جمہور مومنین کے بارے میں طعن کرتے ہیں اور عام نیک اہلِ قبلہ کی تکفیر کرتے ہیں ۔اہل السنۃجانتے ہیں کہ یہ لوگ گناہ وگمراہی میں اپنے پہلوں سے زیادہ ہیں جیسے کہ ہم نے ذکر کیا کہ یہ محارب رافضہ خوارج سے بڑھ کے شریر ہیں اور ہر دو گروہوں نے ایک راہ کو پکڑا ہے،لیکن قرآن ان دونوں میں بہت ہی عظیم ہے۔ اس لیے خوارج رافضیوں سے کم گمراہ تھے جبکہ یہ دونوں گروہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺکی سنت کے ،صحابہ کے ،آپ ﷺکی قرابت ،خلفائے راشدین کی سنت کے اور آپ ﷺکی اولاد و اہلِ بیت کے مخالف ہیں۔
علمائے اصحابِ احمد وغیرہم نے اجماع الخلفاء اور اجماعِ اولادِ رسول ﷺکے بارے میں اختلاف کیا کہ کیا وہ حجت ہے اور اسکی اتباع واجب ہے؟ جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ دونوں ہی حجت ہیں اور انکی اتباع واجب ہے کیونکہ نبیﷺنے فرمایا {علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین من بعدی تمسکوا بھا وعضوا علیھا بالنواجذ} تم پر میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت واجب ہے اسے مضبوطی کے ساتھ دانتوں سے پکڑو۔ یہ حدیث سنن میں وارد ہے اور صحیح ہے۔اور آپ ﷺ نے فرمایا
{انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللّٰہ وعترتی، و انھما لن یفترقا حتیٰ یردا علی الحوض} میں تمہارے اندر دو مضبوط ثقلان چھوڑے جا رہاہوں اللہ کی کتاب اور میری اولاد اور یہ دونوں اس وقت تک جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے حوض پر وارد ہوں{اسے ترمذی نے حسن کہا اور کہا کہ اس میں نظر ہے}۔ اسی طرح خلفائے راشدین کے عہد میں اہل مدینۃ النبی کا اجماع بھی بمنزلہ واجب کے ہے۔
یہاں مقصود یہ ہے کہ...!
یہ بیان کیا جائے کہ یہ محارب گروہ رافضہ وغیرہم ان خارجیوں سے بدتر ہیں جن کے قتل کی نص نبی ﷺنے بیان فرمائی ہے اور ان کے ساتھ قتال کی ترغیب دی ہے۔ یہ اس امر کی حقیقت کو جاننے والے علماء کے درمیان متفق علیہ مسئلہ ہے۔پھر ان میں بعض علماء ایسے ہیں جنہوں نے خوارج کی تمام اصناف و اقسام کو اس میں شامل کیا ہے جبکہ بعض کی رائے یہ ہے کہ وہ باب تنبیہ و فحویٰ یا ان کے اس معنیٰ میں ہونے کی وجہ سے اس میں داخل ہیں۔
ذیل کی حدیث متنوع الفاظ کے ساتھ وارد ہے۔ صحیحین میں ہے اور یہ لفظ بخاری کے ہیں۔ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں
{اذا حدثتکم عن رسول اللّٰہ احدیثاً فواللّٰہ لأن أخِرَّ من السماء احب الی من ان اکذب علیہ واذا حدثتکم فیما بینی وبینکم فان الحرب خدعة وانی سمعت رسول اللّٰہﷺ یقول سیخرج قوم فی آخرالزمان حداث الاسنان سفھاء الاحلام یقولون من خیر قول البریة لا یجاوز ایمانھم حناجرھم یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیة فأینما لقیتموھم فاقتلوھم فان فی قتلھم اجراً لمن قتلھم یوم القیامة} جب میں تمہیں کوئی حدیث رسول اللہ ﷺ سے بیان کروں تو مجھے یہ بات پسند ہے کہ مجھے آسمان سے گرا دیا جائے کہ میں جنابِ رسالتماٰب پر جھوٹ بولوں اور جب میں کوئی بات ایسی بیان کروں جو میرے اور تمہارے درمیان ہو تو جنگ دھوکہ کا نام ہے اور بے شک میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آخر زمانے میں ایک قوم نکلے گی کم عمربہت زیادہ باتیں بنانے والے اور کج فہم لوگ،وہ خلقت میں بہت اچھی بات کہیں گے لیکن ایمان ان کے حلق سے متجاوز نہ ہوگا۔ وہ دین سے ایسے خارج ہوں گے جیسے تیر کمان سے خارج ہوتا ہے۔ پس جہاں بھی تم انہیں ملو قتل کردو کہ ان کے قتل کرنے میں قیامت کے دن اجر ہے۔
اسی طرح صحیح مسلم میں زید بن وہب سے مروی ہے کہ وہ اس جیش میں شامل تھے جو علی رضی اللہ عنہ کی معیت میں خوارج کی طرف نکلا تو علی ؓ نے فرمایا اے لوگو میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت سے ایک قوم نکلے گی وہ قرآن پڑھیں گے لیکن تمہاری تلاوت ان کے مقابل کم معلوم ہوگی،تمہاری نمازیں ان کے مقابلے میں حقیر، اورتمہارے روزے ان کے مقابلے میں کچھ نہ ہوں گے۔وہ قرآن پڑہیں گے اور خیال کریں گے کہ وہ ان کی مواقفت کر رہا ہے لیکن وہ ان پرحجت ہو گا... ان کی نمازیں بلند نہ کی جائیں گی وہ اسلام سے ایسے خارج ہوں گے جیسے ایک تیر کمان سے خارج ہوتا ہے۔ ان کو پانے والا جیش اگر یہ جان لے کہ ان کے متعلق ان کے نبی ﷺکی زبان سے کیا بشارت صادر ہوئی ہے تو وہ عمل چھوڑ دیں اور اس کی نشانی یہ ہے ان کے اندر آدمی ایسے ہے کہ ان کے کٹے ہوئے بازو پر ایک پھوڑا ہے جو پستان کی مانند اور اس پر سفید بال ہیں۔ اللہ کی قسم میں امید رکھتا ہوں کہ یہی وہ لوگ ہیں... انہوں نے محرم خون کو گرایا ہے اور لوگوں پر غارتگری کی ہے... پس اللہ کا نام لیکر ان سے لڑنے کے لیے نکلو...۔صحیح مسلم میں کاتبِ علی ؓبن ابی طالب عبد اللہ بن رافع سے روایت ہے کہ جب حروریۃ نے خروج کیا تو میں ان کے ساتھ تھا وہ (حروریۃ) کہنے لگے'' لا حکم الا اللہ'' تو جنابِ علی نے فرمایا
{کلمة حق ارید بھا الباطل، ان رسول اللّٰہ ﷺ وصف ناسا انی لأعرف صفتھم فی ھوء لاء۔ یقولون الحق بالسنتھم لا یجاوز ھذا منھم۔ واشار الی حلقہ۔ من ابغض خلق اللّٰہ الیہ منھم رجل أسود احدی یدیہ طبی شاة او حلمة ثدی}یہ کلمہ ء حق ہے جس سے مراد باطل ہے، بے شک رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کی صفت بیان کی ہے اور میں ان کی صفت ان لوگوں میں اچھی طرح پہچانتا ہوں وہ اپنی زبان سے حق کہتے ہیں لیکن وہ ان کے یہاں سے متجاوز نہیں ہوتا ...اور انہوں نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا...اللہ کی مخلوق کے بدترین لوگ اور ان میں ایک ایسا سیاہ آدمی ہے اس کے ایک ہاتھ پر بکری کے تھنوں کی مانند یا پستان کے سرکی مانند ایک نشان ہے۔ پھر جب علی رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا تو انہوں نے کچھ نہ پایا تو آپ نے فرمایا(انظروا) تلاش کرو تو انہوں نے دیکھا اور کچھ نہ پایا تو آپ نے فرمایا
{ارجعوا فوا للّٰہ ماکَذَبتُ ولاکُذِبتُ مرتین او ثلاثاً} پھر آپ نے دو یا تین مرتبہ فرمایا لوٹ جاؤ اللہ کی قسم نہ میں نے جھوٹ کہا نہ ہی جھٹلایا جاؤں گا۔
یہ علامت جسے نبی ﷺ نے ذکر کیا ہے یہ ان کے سب سے پہلے نکلنے والے آدمی کی ہے جبکہ یہ صرف اسی قوم تک مخصوص نہیں کیونکہ اس کے علاوہ احادیث میں یہ خبر وارد ہے کہ یہ لوگ دجال کے زمانے تک نکلتے رہیں گے...اور مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خوارج صرف اسی فوج کے ساتھ مخصوص نہ تھے۔ اسی طرح وہ صفات جن کی آپ انے صفت بیان کی ہے اس فوج کے علاوہ پر بھی عام ہیں اسی لیے صحابہؓ اس حدیث کو مطلقاً لیتے تھے۔ جیسے کہ وہ حدیث جو ابی سلمہ اور عطاء بن یسار سے مروی ہے کہ وہ دونوں ابو سعید ؓ کے پاس آئے اور ان سے حروریۃ کے متعلق سوال کیا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کچھ سنا ہے تو انہوں نے کہا میں نہیں جانتا لیکن میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ اس امت میں ایک قوم نکلے گی اور میں نہیں جانتا وہ کون ہیں کہ تم اپنی نمازیں ان کے مقابلہ میں حقیر جانو گے وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے متجاوز نہ ہوگا اور دین سے ایسے خارج ہوں گے جیسے تیر کمان سے خارج ہوتا ہے... (یہ لفظ مسلم کے ہیں)۔
اسی طرح صحیحین میں ابو سعید ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں جب نبی ﷺ مالِ غنیمت تقسیم فرمارہے تھے کہ ایک آدمی عبد اللّٰہ ذوالخویصرۃ التمیمی آیا اور ایک روایت میں ہے کہ آپ کے پاس بنی تمیم کا ایک آدمی ذوالخویصرۃ آیا تو وہ کہنے لگا اے اللہ کے رسول عدل کیجیے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا تو ہلاک ہو کون عدل کرے گا اگر میں عدل نہ کروں گا اگر میں عدل نہ کروں تو میں خسارہ میں ہوجاؤں اور ناکام ہو جاؤں تو جنابِ عمر بن الخطابؓ نے عرض کی مجھے اجازت دیجیے میں اس کی گردن اڑا دوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایااسے چھوڑدو ، اسکے کچھ ساتھی ہوں گے تم اپنی نمازیں ان کے مقابلے میں حقیر پاؤ گے اور اپنے روزے ان کے مقابلے میں کم تر پاؤ گے وہ دین سے ایسے خارج ہوں گے جیسے تیر کما ن سے خارج ہوتا ۔
پس ان لوگوں کی اصل گمراہی ہے ان کا ائمہ ء ہدایت اور مسلمانوں کی جماعت کے بارے میں اعتقاد کہ وہ عدل سے خارج ہیں اور گمراہ ہیں۔ یہ رافضہ اور ان جیسے گروہو ں کا مأخذ ہے پھر وہ یہ کہتے ہیں کہ جسے وہ ظلم دیکھتے ہیں وہ ان کے نزدیک کفر ہے اور اس کے بعد وہ اس کفر پر احکام گھڑتے اورمرتب کرتے ہیں۔ پس یہ تین مقامات ہیں دین سے نکل جانے والے حروریۃ ،رافضہ وغیرہم کے اور ہر ایک مقام میں انہوں نے دین کا ایک اصول ترک کیا یہاں تک کہ وہ دین سے ایسے نکلے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے!
صحیحین میں ابو سعیدؓ سے مروی ہے
{یقتلون اھل الاسلام ویدعون اھل الاوثان لئن ادرکتھم لأقتلنھم قتل عاد}وہ اہلِ اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں سے دوستیاں لگائیں گے اور میں انہیں پالوں تو قومِ عاد کی طرح انہیں قتل کردوں۔ پس سارے خارجیوں کی یہی صفت ہے جیسے رافضہ وغیرہم۔ وہ اہلِ قبلہ کے خون مباح ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ ان کے نزدیک مرتد ہیں اور وہ مسلمانوں کے خون کو زیادہ مباح جانتے ہیں بنسبت کافروں کے خون کے مباح ہونے کے جو کہ مرتد نہیں ہیں کیونکہ مرتد اپنے غیر سے بدتر ہوتا ہے۔
اسی طرح حدیثِ ابی سعیدؓ میں ہے کہ نبی ﷺ نے ایسی قوم کا ذکر کیا جو آپ ا کی امت میں ہو گی
{یخرجون فی فرقة من الناس سیماھم التحلیق}وہ لوگوں کے ایک ایسے گروہ میں نکلیں گے جن کی نشانی سر مونڈھنا ہو گا ۔آپ ﷺنے فرمایا
{ھم شر الخلق او من شر الخلق تقتلھم أدنیٰ الطائفتین الی الحق} وہ بدترین مخلوق ہوں گے یا وہ ایسی بد مخلوق ہوں گے جنہیں ایسا گروہ قتل کرے گا جو حق کے سب سے زیادہ قریب ہوگا۔پس یہ نشان پہلے لوگوں کا تھا جو پستان کی مانند تھا کیونکہ یہ ان کا وصفِ لازم تھا۔
اسی طرح امام بخاری و مسلم نے صحیحین میں حدیث ِ سہل بن حنیف کو اسی معنی میں روایت کیا ہے اور بخاری نے اسے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے جبکہ مسلم نے اسے ابی ذر، رافع بن عمرو اور جابر بن عبد اللہ وغیرہم سے روایت کیا ہے۔ نسائی نے ابو برزہ سے روایت کیا ہے کہ انہیں کہا گیا کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو خوارج کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا ہاں میں نے اپنے دونوں کانوں سے سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ...
{ان رسول اللّٰہ اتی بمال فقسمہ فأعطیٰ من عن یمینہ ومن عن شمالہ ولم یعط من وراء ہ شیئاً فقام رجل من ورائہ فقال یا محمد! ماعدلت فی القسمہ۔ رجل اسود مطموم الشعر علیہ ثوبان ابیضان۔ فغضب رسول اللہ غضباً شدیداً و قال لہ واللّٰہ لاتجدون بعدی رجلاً ھو اعدل منی ثم قال یخرج فی آخر الزمان قوم کأن ھذا منھم یقرئون القرآن لایجاوز تراقیھم یمرقون من الاسلام کما یمرق السھم من الرمیة سیماھم التحلیق لا یزالون یخرجون حتیٰ یخرج آخرھم مع الدجال فاذا لقیتموھم فاقتلوھم ھم شر الخلق والخلیقة}رسول اللہ کے پاس کچھ مال لایا گیا تو آپ نے اپنے دائیں بیٹھے ہوؤں کو اور اپنے بائیں بیٹھے ہوؤں کو دیا اور جو آپ کے پیچھے بیٹھے تھے انہیں کچھ نہ دیا تو ایک آدمی آپ کے پیچھے سے کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے محمدﷺ آپ نے تقسیم میں عدل نہیں کیا... یہ ایک کالا گھنگھریالے بالوں والا حبشی تھا اور اس نے دو سفید کپڑے پہن رکھے تھے۔تو نبی ﷺبہت سخت غصہ ہوئے اور فرمایا اللہ کی قسم تم لوگ میرے بعد مجھ سے بڑھ کر کوئی عادل نہ پاؤ گے۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا کہ آخر زمانہ میں ایک قوم نکلے گی گویا کہ یہ انہیں میں سے ہے وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے اوپر نہ چڑھے گا وہ اسلام سے ایسے خارج ہوں گے جیسے کہ تیر کمان سے نکلتا ہے ان کی نشانی سر مونڈھنا ہوگی اور وہ نکلتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا۔ پس جب تم انہیں ملو قتل کردو کہ وہ مخلوق کے بد ترین لوگ ہیں۔
صحیح مسلم میں عبد اللہ بن صامت سے مروی ہے وہ ابی ذرؓ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا
{ان بعدی من امتی...او سیکون بعدی من امتی...قوم یقرؤن القرآن لایجاوز حلاقیھم، یخرجون من الدین کما یخرج السھم من الرمیة ثم لا یعودون فیہ ھم شر الخلق والخلیقة}بے شک میرے بعد یا میرے بعد میری امت سے ایک قوم ہوگی جو قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے متجاوز نہ ہوگا وہ دین سے ایسے خارج ہوں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے پھر وہ کبھی دین کی طرف نہ لوٹیں گے وہ بہت ہی برے پیدا کیے گئے لوگ ہیں۔ ابن صامت کہتے ہیں پھر میں رافع بن عمرو الغفاری سے ملا جو الحکم بن عمرو الغفاری کے بھائی ہیں ۔ میں نے کہاوہ حدیث کیا ہے جو میں نے ابو ذر سے ایسے اور ایسے سنی ہے؟ اور میں نے ساری حدیث ذکر کی۔ تو انہوں نے کہا اور میں نے اسے رسول اللہﷺسے خود سنا۔
یہ معانی اس قوم وغیرہم کے متعلق موجود ہیں جن کے خلاف جناب علی رضی اللہ عنہ نے قتال کیا ہے۔ جبکہ ہم کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے ساتھ قتال رسول اللہ ﷺ کے حکم کے سبب کیا جیسے کہ بیان کیا جاتا ہے کہ نبی ﷺنے کفار سے قتال کیا یعنی جنسِ کفار سے قتال کیا۔ اگر چہ کفر کی مختلف انواع ہیں اوراسی طرح شرک کی مختلف انواع ہیں۔ جیسے کہ عرب جن بتوں کو الٰہ مانتے تھے وہ ایسے نہ تھے جنہیں ہند، چین اور ترک پوجتے تھے... لیکن جو کلمہ انہیں جمع کرتا ہے اور اس معنی میں لے کر آتا ہے وہ ہے لفظِ''شرک''۔
اسی طرح دین سے نکلنا اور اس سے خارج ہونا ہر اس شخص کو شامل ہے جو اس معنیٰ میں آئے اور ایسے لوگوں کے ساتھ امرِ نبی ﷺکے ساتھ قتال واجب ہے جیسے کہ ان(رافضی)لوگوں کے ساتھ قتال واجب ہے۔ اگرچہ اسلام سے خارج ہونے اور اس سے نکلنے کی بہت سی اقسام ہیں لیکن ہم نے بیان کیا ہے کہ رافضہ کا خروج اور ان کا دین سے نکلنا بہت ہی عظیم ہے۔
پس ان میں کسی گرفت میں آئے(مقدور علیہ) کو قتل کرنا...جیسے الحروریۃ اور رافضہ وغیرہ...اس میں فقہاء کے دو اقوال ہیں اور وہ دو روایتیں ہیں امام احمد سے اور صحیح یہ ہے کہ ان میں کسی کا قتل جائز ہے جبکہ وہ اپنے مذہب کی طرف دعوت دیتا ہو اور اس سے فساد برپا ہوتا ہو...بے شک نبی ﷺ نے فرمایا... اینما لقیتموھم فاقتلوھم...جہاں بھی انہیں پاؤ قتل کردو!
اور فرمایا لئن ادرکتھم لأقتلنھم قتل عاد...اگر میں انہیں پالوں تو انہیں قوم ِ عاد کی طرح قتل کر دوں!
اسی طرح امیر المو منین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے صبیغ بن عسل سے کہا
{لووجدتک محلوقا لضربت الذی فی عیناک}اگر میں نے تجھے سر مونڈھا ہوا پایا تو میں تیرا سر اڑا دوں گا!اور جیسے کہ امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن سبا کو بلا بھیجا جو سب سے پہلا رافضی تھا ... تاکہ اسے قتل کریں تو وہ بھا گ گیا!اور اس لیے کہ یہ لوگ زمین کے اوپر سب سے بڑے فسادی ہیں پس اگر ان کا فساد قتل کے بغیر نہ جاتا ہو تو انہیں قتل کردینا ہی بہتر ہے!
لیکن ان میں ہر ایک کو قتل کرنا واجب نہیں جب کہ اس سے کوئی ایسی بات ظاہر نہ ہو یا اس کے قتل میں کوئی راجح مفسدہ ہو... اسی لیے نبی ٔکائنات ﷺنے اس پہلے ابتداء کرنے والے خارجی کو قتل کرنے سے اجتناب کیا ...تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمدﷺ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں اور اس لیے کہ اس میں عام فساد برپا ہونے کا اندیشہ ہے۔ جب وہ پہلی دفعہ ظاہر ہوئے ان کے قتل کو ترک کردیا گیا کیونکہ اس وقت وہ خلقتِ کثیر تھے اور اطاعت وجماعت میں ظاہری طور پر داخل تھے...تو اہل ِ جماعت نے ان کے خلاف قتال نہیں کیا لیکن انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کے متعلق مخبرِ صادق ﷺنے خبر دی تھی!
جہاں تک ان کے کفر کا مسئلہ ہے!
تو اس میں بھی علماء کے دو مشہور اقوال ہیں اور وہ احمد بن حنبل سے دو روایتیں ہیں اور وہ دونوں اقوال خارجیوں ، اسلام سے خارج حروریۃ اور رافضہ وغیرہ کے متعلق ہیں۔
صحیح بات یہ ہے کہ یہ باتیں جو ان لوگوں کے مو نہوں سے سرزد ہوتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نبی ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کیساتھ کفر ہے۔ اسی طرح ان کے افعال جو مسلمانوں کے ساتھ جنسِ افعالِ کفار میں سے ہیں وہ بھی کفر ہیں۔ اور ہم نے اس کے دلائل بارہا مرتبہ ذکر کیے ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی ایک معین کی تکفیر اور پھر آگ میں اس کی ہمیشگی ثبوتِ شرائطِ کفر پر اور اس کے موانع کی نفی پرموقوف ہے۔ پس ہم نصوص کی بنیاد پر وعد و وعید کے باب میں تکفیر تفسیق کا قول مطلقاً کرتے ہیں اور کسی ایک معین پر یہ حکم لگاکر اسے اس عام کے مقتضی ٰمیں داخل نہیں کرتے کہ جسکا کوئی معارض نہیں اور یہ قاعدہ ہم نے''قاعدۃ التکفیر''واضح بیان کردیا ہے۔
اسی لیے نبی کائنات ﷺنے اس شخص پر کفر کا حکم نہیں لگایا جس نے کہا تھا کہ جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا دینا اور پھر میری راکھ پانی میں بہا دینا کہ اللہ کی قسم اگر اللہ قدرت رکھے گا تو وہ مجھے ایسا عذاب دے گا جیسا اسنے دونوں جہانوں میں کسی کو نہ دیا ہو گا۔ وہ اللہ کی قدرت کے بارے اور اس کو لوٹانے کے بارے میں شاکی تھا... اسی لیے علماء نے ایسے شخص کو جو محرمات میں سے کسی چیز کو حلال جانے، کافر قرار نہیں دیا کیونکہ اس کاعہد اسلام سے قریب ہے یا یہ کہ اس کی پرورش کسی بادیہ نشین علاقے میں ہوئی ہے۔ پس کفر کاحکم صرف رسالت ابلاغ کے بعد ہوگا۔
اور ان میں بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ جن کے پاس صرف مخالف نصوص پہنچتی ہیں... لیکن وہ نہیں جانتے کہ رسولﷺکو ان نصوص کے ساتھ مبعوث کیا گیا تھا۔ پس مطلقاً ایسا قول کفر ہے اور اس کے کہنے والے کی تکفیر تب ہی ہوگی جب اس پر حجت قائم ہوجائے کہ جس کا ترک کرنے والا کافر قرار پاتا ہے۔
واللّٰہُ سبحانہٗ وتعالیٰ اَعْلَمُ
مَجْمُوْعُ الْفَتٰاویٰ ابن تیمیة
صفحہ468تا501 ؍ جلد28