• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غذائیت کی کمی کا مسئلہ؛ خالص دودھ اہم کردار ادا کر سکتا ہے

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
غذائیت کی کمی کا مسئلہ؛ خالص دودھ اہم کردار ادا کر سکتا ہے

محمد فواد اتوار 6 دسمبر 2015

دودھ کے بارے میں معلومات کی کمی کے باعث لوگ تذبذب کا شکار رہتے ہیں، جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا ضروری ہے ۔ فوٹو : فائل

پانی جس طرح ہر انسان کے زندہ رہنے کیلئے ضروری ہے، اسی طرح ہر جاندار کو زندہ رہنے کیلئے غذائیت (Nutrition) سے بھرپور خوراک کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

غذائیت انسان کی خوراک کا سب سے اہم جزو ہے۔ خوراک اگر غذائیت سے بھرپور ہو تو انسان صحت مند اور توانا دکھائی دیتا ہے اور اگر اس سے عاری ہو تو انسان کو صحت کے مسائل سے دوچار کر دیتی ہے۔ دنیا میں اس وقت خوراک میں نیوٹریشن کی کمی کی وجہ سے متعدد بیماریاں جنم لے رہی ہیں، جن کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سمیت کئی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔

ماہرینِ طب خوراک میں غذائیت کی کمی کے باعث مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ پر متفکر ہیں، کیوں کہ انسانی صحت غذائیت سے جڑی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ اپنی غذائی ضروریات کا بہتر خیال رکھتے ہیں، کیوں کہ انہیں اپنی خوراک کے متعلق زیادہ آگاہی ہوتی ہے۔ وہاں محفوظ خوراک کا تصور عرصہ دراز قبل ہی جنم لے چکا تھا، جس کے باعث وہاں کے رہنے والے غذائیت کے حساب سے خوراک کا استعمال کرتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میںلوگوں کی اکثریت کے خیالات ابھی بھی دقیانوسی ہیں، کیوں کہ یہاں لوگ ٹیکنالوجی سے زیادہ ٹوٹکوں پر انحصار کرتے ہیں۔

اب تھوڑی بات کرلی جائے کہ غذائیت کیا ہے اوریہ اصطلاح کب شروع ہوئی؟ نیوٹریشن پر تحقیق کا عمل چھٹی صدی قبل از مسیح سے شروع ہو گیا تھا۔ چین میں خوراک کو دو درجوں یعنی گرم (Hot) اور سرد (Cold) میں تقسیم کرلیا گیا، گرم خوراک میں گوشت اور مصالحہ جات والی ساری چیزیں شامل ہیں جبکہ سبزیوں اور پھلوں کو سرد خوراک کہا جاتا ہے۔

بقراط (Hippocrates) نے چار سو قبل مسیح میںاپنے پیٹ کی بیماری کے بعد لوگوں کو مشورہ دیا’’ چلیں خوراک کو اپنے لیے دوائی بنائیں اور دوائی کو خوراک‘‘ اس نے لوگوں کو بتایا کہ خوراک میں غذائیت سب سے زیادہ اہمیت کی حامل چیز ہے۔ 17 ویں صدی میں وٹامن کی کمی سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر باقاعدہ ریسرچ کا آغاز ہوا اور اس پر کئی کتابیں بھی لکھی گئیں۔
اسی صدی کے آخر میں خوراک میں پائے جانے والے کئی اجزاء دریافت ہوئے، جیسے کاربن، نائٹروجن، ہائیڈروجن وغیرہ وغیرہ۔ 19 ویں صدی کے شروع میں خوراک کی غذائیت کو ناپنے کیلئے کیلوری متعارف کروائی گئی۔ 1906ء میں سر فیڈرک ہوپکنز نے دودھ سے متعلق لوگوں کو بتایا کہ اس میں وٹامنز، پروٹینز، منرلز کی کتنی مقدار موجود ہے اور یہ انسانی صحت کیلئے کتنا ضروری ہے۔

غذائی اجزا (Nutrients) دو طرح کے ہوتے ہیں، جن میں سے ایک Macro Nutrients اور دوسرے کو Micro Nutrients کہا جاتا ہے۔ Macro کا مطلب ایسے غذائی اجزا جن کی جسم کو زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں پانی، پروٹین، کاربوہائیڈریٹس اور فیٹس شامل ہے اور Micro سے مراد ایسے اجزاء جن کی جسم کوقدرے کم ضرورت ہوتی ہے، جن میں منرلز اور وٹامنز شامل ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق جنوبی ایشیا میں غربت اور خوراک کی کمی کی وجہ سے لاکھوں بچے غذائی قلت کا شکار ہیں ۔

پاکستان میں خواتین اور چھوٹی بچیوں کی حالت غذائیت کی کمی کی وجہ سے بہت تشویش ناک ہے، جب یہی بچیاں مائیں بنتی ہیں تو یہ کمزور بچوں کو جنم دیتی ہیں اور غذائیت کی یہ کمزوری جنم در جنم چلتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے برعکس حالیہ چند سالوں میں چین میں کم عمر بچوں کی غذائیت پر بہت توجہ دی گئی جس کی وجہ سے چھوٹے بچوں کی صحت میں واضح بہتری نظر آتی ہے۔

غذائی اجزا مختلف چیزوں میں مختلف مقدار میں ہوتے ہیں اور عموماً بہترین غذائیت کیلئے تازہ پھلوں، تازہ جوسز، مچھلی ،بکرا، گائے کا گوشت استعمال کیا جاتا ہے اور ان تمام چیزوں کو غذائیت سے بھرپور کہا جاتا ہے، مگر زمانہ قبل از مسیح سے لے کر آج تک تمام سائنسدان اور محقق اس بات پرمتفق ہیں کہ دودھ انسان کی خوراک کا سب سے بنیادی جزو ہے۔ دودھ وہ خوراک ہے، جو بچے کو پیدائش کے بعد سب سے پہلے دی جاتی ہے۔

سائنس نے یہ بات ثابت کی ہے کہ دودھ سب سے جلدی ہضم ہوتا ہے اور یہ انسانی جسم کی تمام ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ امریکہ دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ بھارت دوسرے نمبر پرہے۔

اسی طرح بھیڑ کا دودھ سب سے زیادہ چین میں پیدا ہوتا ہے، ترکی دوسرے نمبر پر ہے۔ بکری کا دودھ سب سے زیادہ بھارت میں پیدا ہوتا ہے، بنگلہ دیش دوسرے جبکہ پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح بھینس کا دودھ سب سے زیادہ بھارت میں حاصل کیا جاتا ہے اور پاکستان اس میں دوسرے نمبر پر ہے۔ جدید ریسرچ کے مطابق بھینس کے دودھ میں سب سے زیادہ کیلشیم، فیٹس اور انرجی پائی جاتی ہے۔ بھیڑ کا دودھ دوسرے ، گائے کا تیسرے اور بکری کا دودھ چوتھے نمبر پر ہے۔

اپنی تمام تر افادیت کے ساتھ دودھ ایک حساس چیز ہے اور اگر اس کو فوری طور پر محفوظ نہ کیا جائے تو یہ جراثیم کے باعث خراب ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ تو مضرصحت بھی بن جاتا ہے۔ دودھ کو استعمال سے پہلے حفظان صحت کے مطابق ابالنا ضروری ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ڈیری اور اس کی پراڈکٹس خالص ہوتی ہیں، کیوں کہ وہاں حکومتی قوانین اور دیگر سہولیات کے باعث ملاوٹ کا عنصر نہ ہونے کے برابر ہے مگر جنوبی ایشیا میں دودھ میں ملاوٹ کی وجہ سے بچوں تک کو خالص دودھ میسر نہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکامیں اب تک ایسے قوانین نہیں بنائے گئے جو لوگوں تک خالص اور محفوظ دودھ کی رسائی ممکن بنائے۔ دودھ میں غذائیت کی کمی کی سب سے پہلی وجہ گوالے خود ہیں۔

پاکستان میں جنوبی پنجاب کو ہی لے لیں یہاں پیٹ کی بیماریاں بہت زیادہ عام ہیں۔ شہروں اور دیہات دونوں جگہ بیماریاں موجود ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ گندے پانی کو دودھ میں ڈالنے اور دودھ کو نامکمل طریقے سے ابال کر استعمال کرنا ہے۔ نامکمل معلومات کی وجہ سے گھریلو خواتین بھی دودھ کا موثر استعمال نہیں کر پاتیں۔ گھر میں دودھ کبھی ساٹھ یا ستر اور کبھی تو ہلکی آنچ کی وجہ سے صرف 40 ڈگری سینٹی گریڈ پر ہی ابلتا ہے۔
اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتنی آنچ پر دودھ ابالنے سے اس کے بیکٹیریا مر جاتے ہیں، تو اس کا جواب نہیں میں ہے۔ بیکٹیریا ختم کرنے کیلئے دودھ کو کچھ وقت کیلئے مسلسل 72 ڈگری پر ابالنا ضروری ہے کیوں کہ دودھ کے تمام بیکٹیریاز اس سے کم آنچ پر نہیں مرتے۔کچھ گھریلو خواتین دودھ کو تیز آنچ پر زیادہ دیر تک ابالتی ہیں۔ اس سے بیکٹیریاکے ساتھ ساتھ دودھ میںشامل معدنیات بھی ختم ہو جاتی ہے اور دودھ کی طاقت کم ہو جاتی ہے۔ بعض تو اتنا زیادہ ابال دیتے ہیں کہ دودھ کی افادیت بالکل صفر ہو جاتی ہے۔
عموماً غور کیا جائے تو دیہات کے لوگوں کی صحت شہر کے لوگوں کی نسبت بہتر ہوتی ہے کیونکہ وہاں دودھ خالص ملنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ شہروں میں خالص دودھ کم ملتا ہے۔ دنیا میں دودھ کو محفوظ کرنے کیلئے مختلف ادوار میں مختلف طریقے استعمال کیے گئے اس وقت یورپ اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں دو طرح سے دودھ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک طریقہ کے مطابق دودھ کو پیسچرائزیشن کے عمل سے گزارا جاتا ہے تا کہ وہ محفوظ رہ سکے۔ اس سے دودھ کے محفوظ رہنے کی مدت دو سے تین دن ہوتی ہے، وہ بھی اگر اس کو آٹھ سینٹی گریڈ سے کم پر محفوظ کیا جائے، اس درجہ حرارت کو قائم رکھنے کیلئے چلرز اور چلرز کو چلانے کیلئے بجلی کا ہونا ضروری ہے۔

دوسرا طریقہ یو ایچ ٹی(Ultra Heat Treated) ہے۔ 1950ء کی دہائی سے دنیا میں دودھ کو بہترین طریقے سے ابال کر محفوظ کرنے کیلئے یو ایچ ٹی ٹیکنالوجی کا استعمال سویڈن کی ایک کمپنی ٹیٹرا پیک نے شروع کیا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں دونوں طریقوں سے دودھ کا استعمال بہت کم کیا جاتا ہے اور93 فیصد لوگ کھلا دودھ خریدتے ہیں۔

پاکستان میں موجود ملٹی نیشنل کمپنیوں نے لوگوں کو محفوظ دودھ پہنچانے کی کئی کوششیں کیں، لیکن آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ تذبذب کا شکار ہیں کہ کون سا دودھ استعمال کریں۔ عام لوگ سب سے پہلے یہ سوال کرتے ہیں کہ یو ایچ ٹی کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟ اس ٹیکنالوجی کے تحت دودھ کو ایک عمل کے ذریعے گرم کیا جاتا ہے جس کے تحت دودھ تین سے چار سیکنڈ تک 137 ڈگری تک گرم ہوتا ہے جس سے اس کے تمام بیکٹریاز مر جاتے ہیں اگلے تین چار سیکنڈ میں دودھ کو ٹھنڈا کردیا جاتا ہے جس سے اس کی نیوٹریشن یعنی غذائیت برقرار رہتی ہے۔ یہ تمام عمل ایک مکمل کنٹرولڈ ماحول میں ہوتا ہے جہاں ہوا اور روشنی کاگزرنہیں ہوتا جس سے دودھ محفوظ طریقے سے عام لوگوں تک پہنچتا ہے۔

پاکستان میں جہاں ہر عام آدمی یہ بات سوچ کر پریشان ہو جاتا ہے کہ اس کے بچوں کو خالص دودھ کیسے ملے؟موجودہ حالات میں تو اس کا سب سے موثر حل یہی نظر آتا ہے کہ آدمی خود گھر میں بھینس پال لے مگر ہر کوئی گھر میں بھینس نہیں رکھ سکتا تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کو دودھ میں غذائیت کی کمی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں سے کیسے بچا سکتے ہیں؟ تو اس کیلئے ہمارے ملک میں بھی سخت ڈیری قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ ہر گھر میں بھینس رکھنا مسئلے کا حل نہیں، اس کیلئے ہمیں ڈیری فارمنگ پر توجہ دینا چاہئے۔

ڈیری فارمنگ ایک منافع بخش صنعت ہے، جسے فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو ڈیری فارمنگ کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔اگر اٹھارہ کروڑ عوام کو صاف ستھرا اور محفوظ دودھ فراہم کرنا ہے تو ہمیں ڈیری آسٹریلیا، ڈیری آئرلینڈ جیسے ڈیری ماڈل اپنانے کی ضرورت ہے وگرنہ یہی صورتحال چلتی رہی تو آنے والے چند سالوں میں پاکستان میں کم وزن بچوں کی تعداد کم ہونے کی بجائے بڑھ جائے گی۔ ہیپاٹائٹس جیسی خطرناک بیماریوں کو شکست دینے کیلئے بھی ضروری ہے کہ لوگوں تک محفوظ دودھ پہنچے۔
 
Top