• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم غزوۂ بدر کبریٰ - اسلام کا پہلا فیصلہ کن معرکہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

غزوۂ بدر کبریٰ
اسلام کا پہلا فیصلہ کن معرکہ


غزوے کا سبب:
غزوۂ عشیرہ کے ذکر میں ہم بتا چکے ہیں کہ قریش کا ایک قافلہ مکے سے شام جاتے ہوئے نبیﷺ کی گرفت سے بچ نکلا تھا۔ یہی قافلہ جب شام سے پلٹ کر مکہ واپس آنے ولا تھا تو نبیﷺ نے طلحہ بن عبید اللہؓ اور سعید بن زیدؓ کو اس کے حالات کا پتا لگا نے کے لیے شمال کی جانب روانہ فرمایا۔ یہ دونوں صحابی مقامِ حوراء تک تشریف لے گئے اور وہیں ٹھہرے رہے۔ جب ابو سفیان قافلہ لے کر وہاں سے گزرا تو یہ نہایت تیز رفتاری سے مدینہ پلٹے اور رسول اللہﷺ کو اس کی اطلاع دی۔
اس قافلے میں اہل مکہ کی بڑی دولت تھی ، یعنی ایک ہزار اونٹ تھے جن پر کم ازکم پچاس ہزار دینار (دوسو ساڑھے باسٹھ کلو سونے ) مالیت کا سازوسامان بار کیا ہو ا تھا درآں حالیکہ اس کی حفاظت کے لیے صرف چالیس آدمی تھے۔
اہل ِ مدینہ کے لیے یہ بڑا زرّین موقع تھا جبکہ اہل ِ مکہ کے لیے اس مالِ فراواں سے محرومی بڑی زبردست فوجی ، سیاسی اور اقتصادی مار کی حیثیت رکھتی تھی اس لیے رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کے اندر اعلان فرمایا کہ یہ قریش کا قافلہ مال ودولت لیے چلا آرہا ہے اس کے لیے نکل پڑو۔ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بطور ِ غنیمت تمہارے حوالے کردے۔
لیکن آپﷺ نے کسی پر روانگی ضروری نہیں قرار دی بلکہ اسے محض لوگوں کی رغبت پر چھوڑ دیا کیونکہ اس اعلان کے وقت یہ توقع نہیں تھی کہ قافلے کے بجائے لشکر ِ قریش کے ساتھ میدانِ بدر میں ایک نہایت پُر زور ٹکر ہوجائے گی اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینے ہی میں رہ گئے۔ ان کا خیال تھا کہ رسول اللہﷺ کا یہ سفر آپ کی گزشتہ عام فوجی مہمات سے مختلف نہ ہوگا۔ اور اسی لیے اس غزوے میں شریک نہ ہونے والوں سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی۔
اسلامی لشکر کی تعداد اور کمان کی تقسیم:
رسول اللہﷺ روانگی کے لیے تیار ہوئے تو آپ کے ہمراہ کچھ اُوپر تین سو افراد تھے۔ (یعنی ۳۱۳ یا ۳۱۴ یا ۳۱۷ ) جن میں سے ۸۲ یا ۸۳ یا ۸۶ مہاجر تھے اور بقیہ انصار۔ پھر انصار میں سے ۶۱ اَوس سے تھے اور ۱۷۰ قبیلہ خزرج سے۔ اس لشکر نے غزوے کا نہ کوئی خاص اہتمام کیا تھا نہ مکمل تیاری۔ چنانچہ پورے لشکر میں صرف دو گھوڑے تھے (ایک حضرت زُبیرؓ بن عوام کا اور دوسرا حضرت مقدادؓ بن اسود کندی کا )اور ستر اونٹ ، جن میں سے ہر اونٹ پر دو یاتین آدمی باری باری سوار ہوتے تھے۔ ایک اونٹ رسول اللہﷺ ، حضرت علیؓ اور حضرت مرثدبن ابی مرثد غنویؓ کے حصے میں آیا تھا جن پر تینوں حضرات باری باری سوار ہوتے تھے۔
مدینہ کا انتظام اور نماز کی امامت پہلے پہل حضرت ابنِ اُمّ ِ مکتومؓ کو سونپی گئی ، لیکن جب نبیﷺ مقام ِ رَوْحاء تک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ﷺ نے حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذرؓ کو مدینہ کا منتظم بنا کر واپس بھیج دیا، لشکر کی تنظیم اس طرح کی گئی کہ ایک جیش مہاجرین کابنایا گیا اور ایک انصار کا۔ مہاجرین کا علَم حضرت علی بن ابی طالب کو دیا گیا اورا نصار کا علَم حضرت سعدؓ بن معاذ کو۔ اور جنرل کمان کا پرچم جس کا رنگ سفید تھا حضرت مصعب بن عمیر عبدریؓ کو دیا گیا۔ میمنہ کے افسر حضرت زُبیر بن عوامؓ مقرر کیے گئے او رمَیْسَرہ کے افسر حضرت مقداد بن اسودؓ -- اور جیسا کہ ہم بتاچکے ہیں ، پورے لشکر میں صرف یہی دونوں بزرگ شہسوار تھے -- ساقہ کی کمان حضرت قیسؓ بن ابی صَعْصَعہ کے حوالے کی گئی اور سپہ سالارِ اعلیٰ کی حیثیت سے جنرل کمان رسول اللہﷺ نے خود سنبھالی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بدر کی جانب اسلامی لشکر کی روانگی:
رسول اللہﷺ اس نامکمل لشکر کو لے کر روانہ ہوئے تو مدینے کے دہانے سے نکل کر مکہ جانے والی شاہراہ عام پر چلتے ہوئے بئرروحاء تک تشریف لے گئے۔ پھر وہاں سے آگے بڑھے تو مکے کا راستہ بائیں جانب چھوڑدیا اور داہنے جانب کتراکر چلتے ہوئے ناز یہ پہنچے (منزل مقصود بدر تھی ) پھر نازیہ کے ایک گوشے سے گزر کر وادی رحقان پارکی۔ یہ نازیہ اور درۂ صفراء کے درمیان ایک وادی ہے۔ اس وادی کے درۂ صفراء سے گزرے۔ پھر درہ سے اتر کر وادی صفراء کے قریب جاپہنچے اور وہاں سے قبیلہ جہینہ کے دوآدمیوں، یعنی بسیس بن عمر اور عدی بن ابی الزغباء کو قافلے کے حالات کا پتا لگانے کے لیے بدر روانہ فرمایا۔
بدر کا انتخاب کیوں کیا ؟
رسول اللہﷺ کی منزل مقصود مقام بدر تھا کیونکہ ابوسفیان کا قافلہ جس کا روانی شاہراہ سے آرہا تھا وہ مقام بدر سے گزرتی تھی اور دستور تھا کہ قافلے یہاں پہنچ کر پڑاؤ ڈالتے تھے اور یہ مقام بدر کوئی ایک میل لمبا اوراس سے کچھ کم چوڑا ایک میدان ہے۔ جو ہر طرف بلند وبالا اور ناقابل عبور پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ آنے جانے کے لیے ان پہاڑوں کے درمیان صرف تین یا چار راستے ہیں۔ آپﷺ کا پلان غالباً یہ تھا کہ قافلہ یہاں اترپڑے۔ اس کے بعد ان راستوں کو بند کرکے اسے گھیر لیا جائے۔ اس صورت میں کوئی آدمی یا کوئی اونٹ بچ کر جانہیں سکتا تھا۔ غالباً اسی لیے آپﷺ دھیمی رفتار سے اور بدر کے رخ سے قدرے ہٹ کر جارہے تھے۔
مکے میں خطرے کا اعلان:
دوسر ی طرف قافلے کی صور ت ِ حال یہ تھی کہ ابو سفیان جوا س کا نگہبا ن تھا ، حددرجہ محتاط تھا۔ اسے معلوم تھا کہ مکے کا راستہ خطروں سے پُر ہے ، اس لیے وہ حالات کا مسلسل پتا لگاتا رہتا تھا اور جن قافلوں سے ملاقات ہوتی تھی ان سے کیفیت دریافت کرتا رہتا تھا ، چنانچہ اس کا جلد ہی یہ اندیشہ قوی ہوگیا کہ محمدﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قافلے پر حملے کی دعوت دے دی ہے ، لہٰذا اس نے فوراً ضمضم بن عمرو غفاری کو اجرت دے کر مکے بھیجا کہ وہاں جاکر قافلے کی حفاظت کے لیے قریش میں نفیر ِعام کی صدا لگائے۔ ضمضم نہایت تیزرفتاری سے مکہ آیا اور عرب دستور کے مطابق اپنے اونٹ کی ناک چیڑی، کجاوہ الٹا ، کرتا پھاڑا اور وادی ٔ مکہ میں اسی اونٹ پر کھڑے ہو کر آواز لگائی: ''اے جماعت قریش ! قافلہ ... قافلہ ... تمہارا مال جو ابوسفیان کے ہمراہ ہے اس پر محمد (ﷺ ) اور اس کے ساتھی دھاوا بولنے جارہے ہیں۔ مجھے یقین نہیں کہ تم اسے پاسکو گے۔ مدد...مدد...''
جنگ کے لیے اہل مکہ کی تیاری:
یہ آواز سن کر لوگ ہر طرف سے دوڑ پڑے۔ کہنے لگے :محمد اور اس کے ساتھی سمجھتے ہیں کہ یہ قافلہ بھی ابن حضرمی کے قافلے جیسا ہے ؟ جی نہیں ! ہر گز نہیں۔ اللہ کی قسم ! انہیں پتا چل جائے گا کہ ہمارا معاملہ کچھ اور ہے۔ چنانچہ سارے مکے میں دوہی طرح کے لوگ تھے یاتو آدمی خود جنگ کے لیے نکل رہا تھا یا اپنی جگہ کسی اور کو بھیج رہا تھا اور اس طرح گویا سبھی نکل پرے۔ خصوصاً معزز ین مکہ میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہا۔ صرف ابو لہب نے اپنی جگہ ایک قرضدار کو بھیجا۔ گردوپیش کے قبائل ِ عرب کو بھی قریش نے بھرتی کیا اور خود قریشی قبائل میں سے سوائے بنوعدی کے کوئی بھی پیچھے نہ رہا ، البتہ بنوعدی کے کسی بھی آدمی نے اس جنگ میں شرکت نہ کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مکی لشکر کی تعداد:
ابتدا میں مکی لشکر کی تعداد تیرہ سو تھی جن کے پاس ایک سو گھوڑے اور چھ سو زرہیں تھیں۔ اونٹ کثرت سے تھے جن کی ٹھیک ٹھیک تعداد معلوم نہ ہوسکی۔ لشکر کا سپہ سالار ابو جہل بن ہشام تھا۔ قریش کے نو معزز آدمی اس کی رسد کے ذمے دار تھے۔ایک دن نو اور ایک دن دس اونٹ ذبح کیے جاتے تھے۔
قبائل بنو بکر کا مسئلہ:
جب مکی لشکر روانگی کے لیے تیار ہو گیا تو قریش کو یاد آیا کہ قبائل بنوبکر سے ان کی دشمنی اور جنگ چل رہی ہے، اس لیے انہیں خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ قبائل پیچھے سے حملہ نہ کردیں اور اس طرح وہ دشمنوں کے بیچ میں نہ گھر جائیں۔ قریب تھا کہ یہ خیال قریش کو ان کے ارادۂ جنگ سے روک دے ، لیکن عین اسی وقت ابلیس لعین بنو کنانہ کے سردار سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی کی شکل میں نمودار ہوا اور بولا :''میں بھی تمہارا رفیق کا رہوں اور اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ بنو کنانہ تمہارے پیچھے کوئی ناگوار کام نہ کریں گے۔''
جیش مکہ کی روانگی:
اس ضمانت کے بعد اہلِ مکہ اپنے گھروں سے نکل پڑے اور جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے: ''اِ تراتے ہوئے، لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے ، اور اللہ کی راہ سے روکتے ہوئے ''،مدینہ کی جانب روانہ ہوئے۔جیسا کہ رسول اللہﷺ کاارشاد ہے :''اپنی دھارا ور ہتھیار لے کر ، اللہ سے خار کھاتے ہوئے اور اس کے رسولﷺ سے خار کھاتے ہوئے ، جوشِ انتقام سے چور اور جذبۂ حمیت وغضب سے مخمور ، اس پر کچکچائے ہوئے کہ رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہؓ نے اہل ِ مکہ کے قافلوں پر آنکھ اٹھانے کی جرأت کیسے کی ؟ بہر حال یہ لوگ نہایت تیز رفتاری سے شمال کے رخ پر بدر کی جانب چلے جارہے تھے کہ وادی عسفان اور قدید سے گزرکر جحفہ پہنچے تو ابو سفیان کا ایک نیا پیغام موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ آپ لوگ اپنے قافلے ، اپنے آدمیوںاور اپنے اموال کی حفاظت کی غرض سے نکلے ہیں اور چونکہ اللہ نے ان سب کو بچا لیا ہے، لہٰذا اب واپس چلے جائیے۔
قافلہ بچ نکلا :
ابو سفیان کے بچ نکلنے کی تفصیل یہ ہے کہ وہ شام سے کاروانی شاہراہ پر چلا تو آرہا تھا لیکن مسلسل چوکنا اور بیدار تھا۔ اس نے اپنی فراہمی اطلاعات کی کوشش بھی دو چند کر رکھی تھیں۔ جب وہ بدر کے قریب پہنچا تو خود قافلے سے آگے جاکر مجدی بن عمرو سے ملاقات کی اور اس سے لشکر ِ مدینہ کی بابت دریافت کیا۔ مجدی نے کہاـ :''میں نے کوئی خلافِ معمول آدمی تو نہیں دیکھا البتہ دوسوار دیکھے جنہوں نے ٹیلے کے پاس اپنے جانور بٹھائے۔ پھر اپنے مشکیز ے میں پانی بھر کر چلے گئے۔'' ابو سفیان لپک کر وہاں پہنچا اور ان کے اونٹ کی مینگنیاں اُٹھا کر توڑ یں تو اس میں کھجور کی گٹھلی برآمد ہوئی۔ ابو سفیان نے کہا : اللہ کی قسم ! یہ یثرب کا چارہ ہے۔ اس کے بعد وہ تیزی سے قافلے کی طرف پلٹا اور اسے مغرب کی طرف موڑکر اس کا رخ ساحل کی طرف کردیا اور بدر سے گزرنے والی کا روانی شاہراہ کو بائیں ہاتھ چھوڑدیا۔ اس طرح قافلے کو مدنی لشکر کے قبضے میں جانے سے بچالیا اور فوراْ ہی مکی لشکر کو اپنے بچ نکلے کی اطلاع دیتے ہوئے اسے واپس جانے کا پیغام دیا جو اسے جحفہ میں موصول ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مکی لشکر کا ارادہ ٔ واپسی اور باہمی پھُوٹ:
یہ پیغام سن کر مکی لشکر نے چاہا کہ واپس چلا جائے لیکن قریش کا طاغوت اکبر ابو جہل کھڑا ہوگیا اور نہایت کبر وغرور سے بولا :'' اللہ کی قسم! ہم واپس نہ ہوں گے یہاں تک کہ بدر جاکر وہاں تین روز قیام کریں گے اور اس دوران اونٹ ذبح کریں گے۔ لوگوں کو کھانا کھلائیں گے اور شراب پلائیں گے۔ لونڈیاں ہمارے لیے گانے گائیں گی اور سار ا عرب ہمارا اور ہمارے سفر واجتماع کا حال سنے گا اور اس طرح ہمیشہ کے لیے ان پر ہماری دھاک بیٹھ جائے گی۔''
لیکن ابو جہل کے علی الرغم اخنس بن شُرَیْق نے یہی مشورہ دیا کہ واپس چلے چلو مگر لوگوں نے اس کی بات نہ مانی اس لیے وہ بنو زہرہ کے لوگوں کو ساتھ لے کر واپس ہوگیا کیونکہ وہ بنو زہرہ کا حلیف اور اس لشکر میں ان کا سردار تھا۔ بنو زہرہ کی کل تعداد کوئی تین سو تھی۔ ان کا کوئی بھی آدمی جنگ بدر میں حاضر نہ ہوا۔ بعد میں بنو زہرہ اخنس بن شریق کی رائے پر حددرجہ شاداں وفرحاں تھے اور ان کے اندر اس کی تعظیم واطاعت ہمیشہ برقرار رہی۔
بنو زہرہ کے علاوہ بنو ہاشم نے بھی چاہا کہ واپس چلے جائیں لیکن ابو جہل نے بڑی سختی کی اور کہا کہ جب تک ہم واپس نہ ہوں یہ گروہ ہم سے الگ نہ ہونے پائے۔
غرض لشکر نے اپنا سفر جاری رکھا۔ بنو زہرہ کی واپسی کے بعد اب اس کی تعداد ایک ہزار رہ گئی تھی اور اس کا رخ بدر کی جانب تھا۔ بدر کے قریب پہنچ کر اس نے ایک ٹیلے کے پیچھے پڑاؤ ڈالا۔یہ ٹیلہ وادی کے حدود پر جنوبی دہانے کے پاس واقع ہے۔
اسلامی لشکر کے لیے حالات کی نزاکت:
ادھر مدینے کے ذرائع اطلاعات نے رسول اللہﷺ کو جبکہ ابھی آپﷺ راستے ہی میں تھے اور وادی ذفران سے گزررہے تھے قافلے اور لشکردونوں کے متعلق اطلاعات فراہم کیں۔ آپﷺ نے ان اطلاعات کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد یقین کر لیا کہ اب ایک خون ریز ٹکراؤ کا وقت آگیا ہے اور ایک ایسا اقدام ناگزیر ہے جو شجاعت وبسالت اور جرأت وجسارت پر مبنی ہو۔ کیونکہ یہ بات قطعی تھی کہ اگر مکی لشکر کو اس علاقے میں یوںہی دندناتا ہوا پھرتے دیا جاتا تو اس سے قریش کی فوجی ساکھ کو بڑی قوت پہنچ جاتی اور ان کی سیا سی بالادستی کا دائرہ دور تک پھیل جاتا۔ مسلمانوں کی آواز دب کر کمزور ہو جاتی اور اس کے بعد اسلامی دعوت کو ایک بے روح ڈھانچہ سمجھ کر اس علاقے کا ہرکس وناکس ، جو اپنے سینے میں اسلام کے خلاف کینہ وعداوت رکھتا تھا شر پر آمادہ ہوجاتا۔
پھر ان سب باتوں کے علاوہ آخر اس کی کیا ضمانت تھی کہ مکی لشکر مدینے کی جانب پیش قدمی نہیںکرے گا اور اس معرکہ کو مدینہ کی چہار دیواری تک منتقل کرکے مسلمانوں کو ان کے گھروں میں گھس کر تباہ کرنے کی جرأت اور کوشش نہیں کرے گا ؟ جی ہاں ! اگر مدنی لشکر کی جانب سے ذرا بھی گریز کیا جاتا تو یہ سب کچھ ممکن تھا اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو مسلمانوں کی ہیبت وشہرت پر تو بہرحال اس کا نہایت بُرا اثر پڑتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مجلس شوریٰ کاا جتماع:
حالات کی اس اچانک اور پُر خطر تبدیلی کے پیش نظر رسول اللہﷺ نے ایک اعلیٰ فوجی مجلس شوریٰ منعقد کی۔ جس میں درپیش صورتِ حال کا تذکرہ فرمایا اور کمانڈروں اور عام فوجیوں سے تبادلہ ٔ خیالات کیا۔ اس موقع پر ایک گروہ خون ریز ٹکراؤ کا نام سن کرکانپ اٹھا اور اس کا دل لرزنے اور دھڑکنے لگا۔ اسی گروہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
كَمَا أَخْرَ‌جَكَ رَ‌بُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِ‌يقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِ‌هُونَ ﴿٥﴾ يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنظُرُ‌ونَ ﴿٦﴾ (۸: ۵،۶)
''جیسا کہ تجھے تیرے رب نے تیرے گھر سے حق کے ساتھ نکالا اور مومنین کا ایک گروہ ناگوار سمجھ رہا تھا۔ وہ تجھ سے حق کے بارے میں اس کے و اضح ہوچکنے کے بعد جھگڑرہے تھے گویا وہ آنکھوں دیکھتے موت کی طرف ہانکے جارہے ہیں۔ ''
لیکن جہاں تک قائدین لشکر کا تعلق ہے توحضرت ابوبکرؓ اُٹھے اور نہایت اچھی بات کہی۔ پھر عمر بن خطابؓ اٹھے اور اُنہوں نے بھی نہایت عمدہ بات کہی۔ پھر حضرت مقداد بن عمروؓ اٹھے اور عرض پرداز ہوئے : ''اے اللہ کے رسول !(ﷺ ) اللہ نے آپ کو جو راہ دکھلائی ہے اس پر رواں دواں رہئے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اللہ کی قسم !ہم آپ سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنو اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ :
فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَ‌بُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (۵: ۲۴)
''تم اور تمہارا رب جاؤ اور لڑو ہم یہیں بیٹھے ہیں۔''
بلکہ ہم کہیں گے کہ آپﷺ اور آپ کے پروردگار چلیں اور لڑیں اور ہم بھی آپﷺ کے ساتھ ساتھ لڑیں گے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اگر آپ ﷺ ہم کو برکِ غما د تک لے چلیں تو ہم راستے والوں سے لڑتے بھڑتے آپﷺ کے ساتھ وہاں بھی چلیں گے۔ ''
رسول اللہﷺ نے ان کے حق میں کلمہ خیر ارشاد فرمایا اور دعا دی۔
یہ تینوں کمانڈر مہاجرین سے تھے جن کی تعداد لشکر میں کم تھی۔ رسول اللہﷺ کی خواہش تھی کہ انصار کی رائے معلوم کریں کیونکہ وہی لشکر میں اکثریت رکھتے تھے اور معرکے کا اصل بوجھ انہیں کے شانوں پر پڑنے والاتھا۔ درآں حالیکہ بیعت ِ عقبہ کی رُو سے ان پر لازم نہ تھا کہ مدینے سے باہر نکل کر جنگ کریں اس لیے آپﷺ نے مذکور ہ تینوں حضرات کی باتیں سننے کے بعد پھر فرمایا: ''لوگو! مجھے مشورہ دو ۔'' مقصود انصار تھے اور یہ بات انصار کے کمانڈر اور علمبردار حضرت سعدؓ بن معاذؓ نے بھانپ لی ، چنانچہ انہوں نے عرض کیا کہ واللہ ! ایسا معلو م ہوتا ہے کہ اے اللہ کے رسول ! آپ کا رُوئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ نے فرمایا : ہاں !
انہوں نے کہا :''ہم تو آپﷺ پر ایمان لائے ہیں ، آپﷺ کی تصدیق کی ہے اور یہ گواہی دی ہے کہ آپ جوکچھ لے کر آئے ہیں سب حق ہے اور اس پر ہم نے آپﷺ کو اپنی سمع وطاعت کا عہد ومیثاق دیا ہے ، لہٰذا اے اللہ کے رسولﷺ ! آپﷺ کا جو ارادہ ہے اس کے لیے پیش قدمی فرمایئے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر آپﷺ ہمیں ساتھ لے کر اس سمندر میں کودنا چاہیں تو ہم اس میں بھی آپ کے ساتھ کود پڑیں گے۔ ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے گا۔ہمیں قطعاً کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ کل آپﷺ ہمارے دشمن سے ٹکراجائیں۔ ہم جنگ میں پامرد اور لڑنے میں جوانمرد ہیں اور ممکن ہے اللہ آپﷺ کو ہمارا وہ جوہر دکھلائے جس سے آپﷺ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں ، پس آپﷺ ہمیں ہمراہ لے کر چلیں، اللہ برکت دے۔''
ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت سعدؓ بن معاذ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ غالبا ً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ ہے کہ انصار اپنا یہ فرض سمجھتے ہیں کہ وہ آپﷺ کی مدد محض اپنے دیا ر میں کریں اس لیے میں انصار کی طرف سے بول رہا ہوں اور ان کی طرف سے جواب دے رہاہوں۔ عرض ہے کہ آپﷺ جہاں چاہیں تشریف لے چلیں ، جس سے چاہیں تعلق استوار کریں اور جس سے چاہیں تعلق کاٹ لیں۔ ہمارے مال میں سے جو چاہیں لے لیں اور جو چاہیں دے دیں اور جو آپﷺ لے لیں گے وہ ہمارے نزدیک اس سے زیادہ پسندیدہ ہوگا جسے آپﷺ چھوڑ دیں گے اور اس معاملے میں آپﷺ کا جوبھی فیصلہ ہوگا ہمار ا فیصلہ بہرحال اس کے تابع ہوگا۔ اللہ کی قسم !اگر آپﷺ پیش قدمی کرتے ہو ئے برکِ غماد تک جائیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ ساتھ چلیں گے اور اگر آپ ہمیں لے کر سمندر میں کودنا چاہیں تو ہم اس میں بھی کود جائیں گے۔
حضرت سعدؓ کی یہ بات سن کر رسول اللہﷺ پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ آپﷺ پر نشاط طاری ہوگئی۔ آپﷺ نے فرمایا : ''چلو اور خوشی خوشی چلو۔ اللہ نے مجھ سے دوگروہوں میں سے ایک کا وعدہ فرمایا ہے۔ واللہ! اس وقت گویا میں قوم کی قتل گاہیں دیکھ رہا ہوں۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اسلامی لشکر کا بقیہ سفر:
اس کے بعد رسول اللہﷺ ذفران سے آگے بڑھے اور چند پہاڑی موڑ سے گزر کر جنہیں اصافر کہا جاتا ہے دیت نامی ایک آبادی میں اترے۔ اور حنان نامی پہاڑ نماتودے کو دائیں ہاتھ چھوڑ دیا۔ اور اس کے بعد بدر کے قریب نزول فرمایا۔
جاسوسی کا اقدام:
یہاں پہنچ کر رسول اللہﷺ نے اپنے رفیق ِ غار حضرت ابوبکرؓ کو ہمراہ لیا اور حود فراہمی ٔ اطلاعات کے لیے نکل پڑے۔ ابھی دور ہی سے مکی لشکر کے کیمپ کا جائزہ لے رہے تھے کہ ایک بوڑھا عرب مل گیا۔ رسول اللہﷺ نے اس سے قریش اور محمدﷺ واصحابِ محمد کا حال دریافت کیا - دونوں لشکر وں کے متعلق پو چھنے کا مقصد یہ تھا کہ آپﷺ کی شخصیت پر پردہ پڑارہے - لیکن بڈھے نے کہا :'' جب تک تم لوگ یہ نہیں بتاؤ گے کہ تمہارا تعلق کس قوم سے ہے میں بھی کچھ نہیں بتاؤں گا۔'' رسول اللہﷺ نے فرمایا : جب تم ہمیں بتادو گے تو ہم بھی تمہیں بتادیں گے۔ اس نے کہا : اچھا تو یہ اس کے بدلے ہے؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اس نے کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ محمدﷺ اور ان کے ساتھی فلاں روز نکلے ہیں۔ اگر مجھے بتانے والے نے صحیح بتایا ہے تو آج وہ لوگ فلاں جگہ ہوں گے۔اور ٹھیک اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں اس وقت مدینے کا لشکر تھا اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قریش فلاں دن نکلے ہیں۔ اگر خبر دینے والے نے صحیح خبر دی ہے تو وہ آج فلاں جگہ ہوں گے۔اور ٹھیک اس جگہ کا نام لیا جہاں اس وقت مکے کا لشکر تھا۔
جب بڈھا اپنی بات کہہ چکاتو بولا : اچھا اب یہ بتاؤ کہ تم دونوں کس سے ہو ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ہم لوگ پانی سے ہیں اور یہ کہہ کر واپس چل پڑے۔ بڈھا بکتا رہا۔ ''پانی سے ہیں ''کیا ؟ کیا عراق کے پانی سے ہیں؟
لشکر ِمکہ کے بارے میں اہم معلومات کا حصول:
اسی روز شام کو آپﷺ نے دشمن کے حالات کا پتا لگانے کے لیے نئے سرے سے جاسوسی دستہ روانہ فرمایا۔ اس کاروائی کے لیے مہاجرین کے تین قائد علی بن ابی طالب ، زُبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ یہ لوگ سیدھے بدر کے چشمے پر پہنچے۔ وہاں دوغلام مکی لشکر کے لیے پانی بھر رہے تھے۔ انہیں گرفتار کر لیا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر کیا۔ اس وقت آپﷺ نماز پڑھ رہے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان دونوں سے حالات دریافت کیے۔ انہوں نے کہا : ہم قریش کے سقے ہیں ، انہوں نے ہمیں پانی بھرنے کے لیے بھیجا ہے قوم کو یہ جواب پسندنہ آیا۔ انہیں توقع تھی کہ یہ دونوں ابوسفیان کے آدمی ہوں گے -- کیونکہ ان کے دلوں میں اب بھی بچی کھچی آرزو رہ گئی تھی کہ قافلے پر غلبہ حاصل ہو -- چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان دونوں کی ذرا سخت پٹائی کردی اور انہوں نے مجبور ہو کر کہہ دیا کہ ہاں ہم ابو سفیان کے آدمی ہیں۔ اس کے بعدمارنے والوں نے ہاتھ روک لیا۔
رسول اللہﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو ناراضی سے فرمایا : جب ان دونوں نے صحیح بات بتائی تو آپ لوگوں نے پٹائی کردی اور جب جھوٹ کہا تو چھوڑدیا۔ اللہ کی قسم! ان دونوںنے صحیح کہا تھاکہ یہ قریش کے آدمی ہیں۔
اس کے بعدآپ نے ان دونوں غلاموں سے فرمایا : اچھا ! اب مجھے قریش کے متعلق بتاؤ۔ انہوں نے کہا : یہ ٹیلہ جو وادی کے آخری دہانے پر دکھائی دے رہا ہے قریش اسی کے پیچھے ہیں۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا : لوگ کتنے ہیں؟ انہوں نے کہا : بہت ہیں۔ آپﷺ نے پوچھا : تعداد کتنی ہے ؟ انہوں نے کہا : ہمیں معلوم نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : روزانہ کتنے اُونٹ ذبح کرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : ایک دن نو اور ایک دن دس۔ آپﷺ نے فرمایا : تب لوگوں کی تعداد نو سو اور ایک ہزار کے درمیان ہے۔ پھر آپﷺ نے پوچھا : ان کے اندر معززین قریش میں سے کون کون ہیں؟ انہوں نے کہا : ربیعہ کے دونوں صاحبزادے عتبہ اور شیبہ اور ابو البختری بن ہشام ، حکیم بن حزام ، نوَفل بن خُوَیْلد ، حارث بن عامر ، طعیمہ بن عدی ، نضر بن حارث، زمعہ بن اسود ، ابوجہل بن ہشام ، اُمیہ بن خلف اور مزید کچھ لوگوں کے نام گنوائے۔ رسول اللہﷺ نے صحابہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: ''مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہارے پاس لا کر ڈال دیا ہے۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بارانِ رحمت کا نزول:
اللہ عزوجل نے اسی رات ایک بارش نازل فرمائی جو مشرکین پر موسلا دھار برسی۔ اور ان کی پیش قدمی میں رکاوٹ بن گئی لیکن مسلمانوں پر پھوار بن کر بر سی۔اور انہیں پاک کردیا ، شیطان کی گندگی (بزدلی) دور کردی اور زمین کو ہموار کر دیا۔ اس کی وجہ سے ریت میں سختی آگئی اور قدم ٹکنے کے لائق ہوگئے۔ قیام خوشگوار ہو گیا اور دل مضبوط ہوگئے۔
اہم فوجی مراکز کی طرف اسلامی لشکر کی سبقت:
اس کے بعد رسول اللہﷺ نے اپنے لشکر کو حرکت دی تاکہ مشرکین سے پہلے بدر کے چشمے پر پہنچ جائیں اور اس پر مشرکین کو مُسلط نہ ہونے دیں۔ چنانچہ عشاء کے وقت آپﷺ نے بدر کے قریب ترین چشمے پر نزول فرمایا۔ اس موقعے پر حضرت حباب بن منذرؓ نے ایک ماہرفوجی کی حیثیت سے دریافت کیاکہ یارسول اللہ!(ﷺ ) کیا اس مقام پر آپ اللہ کے حکم سے نازل ہوئے ہیں کہ ہمارے لیے اس سے آگے پیچھے ہٹنے کی گنجائش نہیں یا آپ نے اسے محض ایک جنگی حکمتِ عملی کے طور پر اختیار فرمایا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : یہ محض جنگی حکمتِ عملی کے طور پر ہے۔ انہوں نے کہا: ''یہ مناسب جگہ نہیں ہے۔ آپﷺ آگے تشریف لے چلیں اور قریش کے سب سے قریب جو چشمہ ہو اس پر پڑاؤ ڈالیں۔ پھر ہم بقیہ چشمے پاٹ دیں گے اور اپنے چشمے پر حوض بنا کر پانی بھر لیں گے ، اس کے بعد ہم قریش سے جنگ کریں گے تو ہم پانی پیتے رہیں گے اور انہیں پانی نہ ملے گا۔'' رسول اللہﷺ نے فرمایا :''تم نے بہت ٹھیک مشورہ دیا۔'' اس کے بعد آپﷺ لشکر سمیت اُٹھے اور کوئی آدھی رات گئے دشمن کے سب سے قریب ترین چشمے پر پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا۔ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حوض بنایا اور باقی تمام چشموں کو بند کر دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مرکز قیادت:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چشمے پر پڑاؤ ڈال چکے تو حضرت سعد بن معاذؓ نے یہ تجویز پیش کی کہ کیوں نہ مسلمان آپﷺ کے لیے ایک مرکزِ قیادت تعمیر کردیں تاکہ خدانخواستہ فتح کے بجائے شکست سے دوچار ہونا پڑ جائے یا کسی اور ہنگامی حالت سے سابقہ پیش آجائے تو اس کے لیے آپ پہلے ہی سے مستعد رہیں ، چنانچہ انہوں نے عرض کیا :
''اے اللہ کے نبیﷺ ! کیوں نہ ہم آپﷺ کے لیے ایک چھپر تعمیر کردیں جس میں آپﷺ تشریف رکھیں گے اور ہم آپ ﷺ کے پاس آپ ﷺ کی سواریاں بھی مہیا رکھیں گے۔ اس کے بعد دشمن سے ٹکر لیں گے۔ اگر اللہ نے ہمیں عزت بخشی اور دشمن پر غلبہ فرمایا تو یہ وہ چیز ہوگی جو ہمیں پسند ہے ، اور اگر دوسری صورت پیش آگئی تو آپﷺ سوار ہوکر ہماری قوم کے ا ن لوگوں کے پاس جارہیں گے جو پیچھے رہ گئے ہیں۔ درحقیقت آپﷺ کے پیچھے اے اللہ کے نبیﷺ ! ایسے لوگ رہ گئے ہیں کہ ہم آپﷺ کی محبت میں ان سے بڑھ کر نہیں۔ اگر انہیں یہ اندازہ ہوتا کہ آپﷺ جنگ سے دوچار ہوں گے تو وہ ہرگز پیچھے نہ رہتے۔ اللہ ان کے ذریعے آپﷺ کی حفاظت فرمائے گا۔ وہ آپ ﷺ کے خیر خواہ ہوں گے اور آپﷺ کے ہمراہ جہاد کریں گے۔''
اس پر رسول اللہﷺ نے ان کی تعریف فرمائی اور ان کے لیے دعائے خیر کی ، اور مسلمانوں نے میدان جنگ کے شمال مشرق میں ایک اونچے ٹیلے پر چھپر بنایا جہاں سے پورا میدانِ جنگ دکھائی پڑتاتھا۔ آپﷺ کے اس مرکزِ قیادت کی نگرانی کے لیے حضرت سعد بن معاذؓ کی کمان میں انصار نوجوانوں کا ایک دستہ منتخب کردیا گیا۔
لشکر کی ترتیب اور شب گزاری:
اس کے بعد رسول اللہﷺ نے لشکر کی ترتیب فرمائی1 اور میدان جنگ میں تشریف لے گئے ، وہاں آپﷺ اپنے ہاتھ سے اشارہ فرماتے جارہے تھے کہ یہ کل فلاںکی قتل گاہ ہے ، ان شاء اللہ ، اور یہ کل فلاں کی قتل گاہ ہے ، ان شاء اللہ ،2 اس کے بعد رسول اللہﷺ نے وہیں ایک درخت کی جڑ کے پا س رات گزاری اور مسلمانوں نے بھی پُر سکون نفس اور تابناک اُفق کے ساتھ رات گزاری۔ ان کے دل اعتماد سے پُر تھے اور انہوں نے راحت وسکون سے اپنا حصہ حاصل کیا۔ انہیں یہ توقع تھی کہ صبح اپنی آنکھوں سے اپنے رب کی بشارتیں دیکھیں گے۔
إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَ‌كُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِ‌جْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْ‌بِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ (۸: ۱۱)
''جب اللہ تم پر اپنی طرف سے امن وبے خوفی کے طور پر نیند طاری کررہا تھا اور تم پر آسمان سے پانی برسارہا تھا تاکہ تمہیں اس کے ذریعے پاک کردے اور تم سے شیطان کی گندگی دور کر دے اور تمہارے دل مضبوط کر دے اور تمہارے قدم جمادے۔''
یہ رات جمعہ ۱۷ رمضان۲ ھ کی رات تھی اور آپ اس مہینے کی ۸ یا ۱۲ تاریخ کو مدینے سے روانہ ہوئے تھے۔
میدانِ جنگ میں مکی لشکر کی آمداور ان کا باہمی اختلاف:
دوسری طرف قریش نے وادی کے دہانے کے باہر اپنے کیمپ میں رات گزاری اور صبح اپنے تمام دستوں سمیت ٹیلے سے اتر کر بدر کی جانب روانہ ہوئے۔ ایک گروہ رسول اللہﷺ کے حوض کی جانب بڑھا۔ آپﷺ نے فرمایا:'' انہیں چھوڑ دو۔'' مگر ان میں سے جس نے بھی پانی پیا وہ اس جنگ میں مارا گیا۔ صرف حکیم بن حزام باقی بچا جو بعد میں مسلمان ہوا، اور بہت اچھا مسلمان ہوا۔ اس کا دستور تھا کہ جب بہت پختہ قسم کھانی ہوتی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے : جامع ترمذی ، ابواب الجہاد ، باب ماجاء فی الصف والتعبیہ ۱/۲۰۱
2 مسلم عن انس ، مشکوٰۃ ۲ /۵۴۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کہتا: ''لا والذی نجانی من یوم بدر۔'' ''قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے بدر کے دن سے نجات دی۔''
بہر حال جب قریش مطمئن ہوچکے تو انہوں نے مدنی لشکر کی قوت کا اندازہ لگانے کے لیے عمیر بن وہب جمحی کو روانہ کیا۔ عمیر نے گھوڑے پر سوار ہوکر لشکر کا چکر لگایا، پھر واپس جاکر بولا : ''کچھ کم یا کچھ زیادہ تین سو آدمی ہیں ، لیکن ذرا ٹھہرو۔ میں دیکھ لوں ان کی کمین گاہ یا کمک تو نہیں ؟'' اس کے بعد وہ وادی میں گھوڑا دوڑاتا ہو ادور تک نکل گیا لیکن اسے کچھ دکھائی نہ پڑا، چنانچہ اس نے واپس جا کر کہا:''میں نے کچھ پایا تو نہیںلیکن اے قریش کے لوگو! میں نے بلائیں دیکھی ہیں جو موت کو لادے ہوئے ہیں۔ یثرب کے اونٹ اپنے اوپر خالص موت سوار کیے ہوئے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کی ساری حفاظت اور ملجا وماویٰ خود ان کی تلواریں ہیں۔ کوئی اور چیز نہیں۔ اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں کہ ان کا کوئی آدمی تمہارے آدمی کو قتل کیے بغیر قتل نہ ہوگا ، اور اگر تمہارے خاص خاص افراد کو انہوں نے مار لیا تو اس کے بعد جینے کا مزہ ہی کیاہے ! اس لیے ذرا اچھی طرح سوچ سمجھ لو۔''
اس موقعے پر ابو جہل کے خلاف -جو معرکہ آرائی پر تُلا ہوا تھا - ایک اور جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا جس میں مطالبہ کیا گیا جنگ کے بغیر مکہ واپس جائیں۔ چنانچہ حکیم بن حزام نے لوگوں کے درمیان دوڑ دھوپ شروع کردی۔ وہ عُتبَہ بن ربیعہ کے پاس آیا اور بولا :''ابو الولید ! آپ قریش کے بڑے آدمی اور واجب الاطاعت سردار ہیں ، پھر آپ کیوں نہ ایک اچھا کام کرجائیں جس کے سبب آپ کا ذکر ہمیشہ بھلائی سے ہوتا رہے۔ '' عتبہ نے کہا : حکیم! وہ کون سا کام ہے ؟ اس نے کہا: '' آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور اپنے حلیف عمرو بن حضرمی کا معاملہ - جو سریہ نخلہ میں مارا گیا تھا - اپنے ذمے لے لیں۔'' عتبہ نے کہا:'' مجھے منظور ہے۔ تم میری طرف سے ا س کی ضمانت لو۔ وہ میرا حلیف ہے ، اس کی دیت کا بھی ذمے دار ہوں اور اس کا جو مال ضائع ہوا اس کا بھی۔''
اس کے بعد عتبہ نے حکیم بن حزام سے کہا :''تم حنظلیہ کے پوت کے پاس جاؤ کیونکہ لوگوں کے معاملات کو بگاڑنے اور بھڑکانے کے سلسلے میں مجھے اس کے علاوہ کسی اور سے کوئی اندیشہ نہیں۔'' حنظلیہ کے پوت سے مراد ابوجہل ہے۔ حنظلیہ اس کی ماں تھی۔
اس کے بعد عتبہ بن ربیعہ نے کھڑے ہو کر تقریر کی اور کہا :''قریش کے لوگو! تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں سے لڑ کر کوئی کارنامہ انجام نہ دوگے۔ اللہ کی قسم ! اگر تم نے انہیں مار لیا تو صرف ایسے ہی چہرے دکھائی پڑیں گے جنہیں دیکھنا پسند نہ ہوگا ، کیونکہ آدمی نے اپنے چچیرے بھائی کو یا خالہ زاد بھائی کویا اپنے ہی کنبے قبیلے کے کسی آدمی کو قتل کیا ہو گا۔ اس لیے چلے چلو اور محمد (ﷺ ) اور سارے عرب سے کنارہ کش ہورہو۔ اگر عرب نے انہیں مارلیا تویہ وہی چیز ہوگی جسے تم چاہتے ہو ، اور اگر دوسری صورت پیش آئی تو محمد (ﷺ ) تمہیں اس حالت میں پائیں گے کہ تم نے جو سلوک ان سے کرنا چاہا تھا اسے کیا نہ تھا۔''
ادھر حکیم بن حزام ابوجہل کے پاس پہنچا تو ابو جہل اپنی زِرَہ درست کر رہا تھا۔ حکیم نے کہا کہ اے ابو الحکم ! مجھے عتبہ نے تمہارے پاس یہ اور یہ پیغام دے کر بھیجا ہے۔ ابو جہل نے کہا :''اللہ کی قسم! محمد (ﷺ ) اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ کر عتبہ کا سینہ سوج آیا ہے ، نہیں ہرگز نہیں۔ واللہ ! ہم واپس نہ ہوں گے یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور محمد (ﷺ )کے درمیان فیصلہ فرمادے۔ عتبہ نے جو کچھ کہا ہے محض اس لیے کہا ہے کہ وہ محمد (ﷺ ) اور اس کے ساتھیوں کو اونٹ خور سمجھتا ہے اور خود عتبہ کا بیٹا بھی انہیں کے درمیان ہے اس لیے وہ تمہیں ان سے ڈراتا ہے۔'' - عتبہ کے صاحبزادے ابو حذیفہ قدیم الاسلام تھے اور ہجرت کر کے مدینہ تشریف لاچکے تھے- عتبہ کو پتا چلا کہ ابو جہل کہتا ہے۔ ''اللہ کی قسم عتبہ کا سینہ سوج آیا ہے۔'' تو بولا : ''اس سرین پر خوشبو لگا کر بزدلی کا مظاہرہ کرنے والے کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ کس کا سینہ سوج آیا ہے میرا یا اس کا ؟ '' ادھر ابوجہل نے اس خوف سے کہ کہیں یہ معارضہ طاقتور نہ ہوجائے ، اس گفتگو کے بعد جھٹ عامر بن حضرمی کو - جو سریہ عبد اللہ بن جحش کے مقتول عمرو بن حضرمی کا بھائی تھا - بلا بھیجا اور کہا کہ یہ تمہارا حلیف - عتبہ - چاہتا ہے کہ لوگوں کو واپس لے جائے حالانکہ تم اپنا انتقام اپنی آنکھ سے دیکھ چکے ہو، لہٰذا اٹھو ! اور اپنی مظلومیت اور اپنے بھائی کے قتل کی دہائی دو۔ اس پر عامر اُٹھا اور سرین سے کپڑا اٹھا کر چیخا۔ واعمراہ، واعمراہ ، ہائے عمرو، ہائے عمرو۔ اس پر قوم گرم ہوگئی۔ ان کا معاملہ سنگین اور ان کا ارادہ ٔ جنگ پختہ ہوگیا اور عتبہ نے جس سوجھ بوجھ کی دعوت دی تھی وہ رائیگاں گئی۔ اس طرح ہوش پر جوش غالب آگیا اور یہ معارضہ بھی بے نتیجہ رہا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
دونوں لشکر آمنے سامنے:
بہر حال جب مشرکین کا لشکر نمودار ہوا اور دونوں فوجیں ایک دوسرے کو دکھائی دینے لگیں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اے اللہ! یہ قریش ہیں جو اپنے پورے غرور وتکبر کے ساتھ تیری مخالف کرتے ہوئے اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاتے ہوئے آگئے ہیں۔ اے اللہ! تیری مدد ... جس کا تو نے وعدہ کیا ہے۔ اے اللہ! آج انہیںاینٹھ کر رکھ دے۔''
نیز رسول اللہﷺ نے عتبہ بن ربیعہ کو اس کے ایک سرخ اونٹ پر دیکھ کر فرمایا:
''اگر قوم میں کسی کے پاس خیر ہے تو سُرخ اونٹ والے کے پاس ہے۔ اگر لوگوں نے اس کی بات مان لی تو صحیح راہ پائیں گے۔''
اس موقع پر رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کی صفیں درست فرمائیں۔ صف کی درستگی کے دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ آپﷺ کے ہاتھ میںایک تیر تھا۔ جس کے ذریعے آپ صف سیدھی فرمارہے تھے کہ سواد بن غزیہ کے پیٹ پر، جو صف سے کچھ آگے نکلے ہوئے تھے ، تیر کا دباؤ ڈالتے ہوئے فرمایا : سواد ! برابر ہوجاؤ۔ سواد نے کہا :اے اللہ کے رسول ! آپ نے مجھے تکلیف پہنچادی بدلہ دیجیے۔ آ پ نے اپنا پیٹ کھول دیا اور فرمایا: بدلہ لے لو۔ سواد آپ سے چمٹ گئے اور آپﷺ کے پیٹ کا بوسہ لینے لگے۔ آپﷺ نے فرمایا : سواد اس حرکت پر تمہیں کس بات نے آمادہ کیا ؟ انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسولﷺ ! جو کچھ درپیش ہے آپ ﷺ دیکھ ہی رہے ہیں۔ میں نے چاہا کہ ایسے موقعے پر آپﷺ سے آخری معاملہ یہ ہو کہ میری جلد آپ ﷺ کی جلد سے چھو جائے۔ اس پر رسول اللہﷺ نے ان کے لیے دعائے خیر فرمائی۔
پھر جب صفیں درست ہو چکیں تو آپﷺ نے لشکر کو ہدایت فرمائی کہ جب تک اسے آپ کے آخری احکام موصول نہ ہوجائیں جنگ شروع نہ کرے۔ اس کے بعد طریقہ جنگ کے بارے میں ایک خصوصی رہنمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب مشرکین جمگھٹ کرکے تمہارے قریب آجائیں تو ان پر تیر چلانا اور اپنے تیر بچانے کی کوشش کرنا۔ 1(یعنی پہلے ہی سے فضول تیر اندازی کر کے تیروں کو ضائع نہ کرنا) اور جب تک وہ تم پر چھا نہ جائیں تلوار نہ کھینچنا۔ 2اس کے بعد خاص آپﷺ اور ابوبکرؓ چھپر کی طرف واپس چلے گئے اور حضرت سعد بن معاذؓ اپنا نگراں دستہ لے کر چھپر کے دروازے پر تعینات ہوگئے۔
دوسری طرف مشرکین کی صورت ِ حال یہ تھی کہ ابوجہل نے اللہ سے فیصلہ کی دعا کی۔ اس نے کہا :''اے اللہ ! ہم میں سے جو فریق قرابت کو زیادہ کاٹنے والا اور غلط حرکتیں زیادہ کرنے والا ہے اسے توآج توڑ دے۔ اے اللہ ! ہم میں سے جو فریق تیرے نزدیک زیادہ محبوب اور زیادہ پسندیدہ ہے آج اس کی مدد فرما۔'' بعد میں اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :
إِن تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ ۖ وَإِن تَنتَهُوا فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَعُودُوا نَعُدْ وَلَن تُغْنِيَ عَنكُمْ فِئَتُكُمْ شَيْئًا وَلَوْ كَثُرَ‌تْ وَأَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ (۸: ۱۹ )
'' اگر تم فیصلہ چاہتے تو تمہارے پاس فیصلہ آگیا ، اور اگر تم باز آجاؤ تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے ، لیکن اگر تم (اپنی ا س حرکت کی طرف ) پلٹو گے تو ہم بھی (تمہاری سزا کی طرف ) پلٹیں گے اور تمہاری جماعت اگر چہ وہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو تمہارے کچھ کام نہ آسکے گی۔ (اور یاد رکھوکہ ) اللہ مومنین کے ساتھ ہے۔''
نقطہ ٔ صفر اور معرکے کا پہلاایندھن:
اس معرکے کا پہلا ایندھن اسود بن عبد الاسد مخزومی تھا۔ یہ شخص بڑا اڑیل اور بد خلق تھا۔ یہ کہتے ہوئے میدان میں نکلا کہ میں اللہ سے عہد کرتا ہوں کہ ان کے حوض کا پانی پی کررہوں گا۔ ورنہ اسے ڈھا دوں گا یا اس کے لیے جان دے دوں گا۔ جب یہ اُدھر سے نکلا تو اِدھر سے حضرت حمزہ بن عبدا لمطلبؓ برآمد ہوئے۔ دونوں میں حوض سے پرے ہی مڈبھیڑ ہوئی۔ حضرت حمزہؓ نے ایسی تلوار ماری کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی سے کٹ کر اڑگیا اور وہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۲/۵۶۸
2 سنن ابی داؤد: باب فی سل السیوف عند اللقاء ۲/۱۳
 
Top