• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غزوہ احدپر اعتراض کا جواب درکار ہے جواب

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
بزدلی اور دوغلہ پن، سُنت کی روشنی میں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تصویر کا پہلا رُخ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اُحد کے دن ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اگر میں شہید کر دیا گیا تو میرا ٹھکانہ کہاں ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت میں"۔ (یہ سن کر) اس نے وہ کھجوریں پھینکیں جو اس کے ہاتھ میں تھیں، پھر وہ لڑتا رہا حتیٰ کہ شہید ہو گیا۔
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ احد، حدیث 4046)
عوف بن حارث (ابن عفراء) کہنے لگے: "اللہ کے رسول! ربِ کریم اپنے بندے کے کس کام سے ہنستا ہے؟" آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: "وہ آدمی جو بغیر زرہ اور خود کے دشمن پر جھپٹ پڑے۔" انہوں نے فوراً زرہ اتار پھینکی، پھر تلوار پکڑی اور دشمن پر ٹوٹ پڑے حتیٰ کہ شہید ہو گئے۔"
(سیرۃ ابن ہشام ج2 ص322)
یہ سیرت نبوی کا ایک رُخ ہے جس میں جب دوسروں کے بچے مروانے ہوتے تھے تو ان کو جنت کہ کہانیاں سُنا سُنا کر دشمنوں کے نرغے میں بھیج دیا جاتا۔ حتیٰ کہ لوہے کے حفاظتی لباس زرہ تک اتروا کر انہیں دشمنوں میں جھونکا گیا کہ جاؤ ہمارے دشمنو کو بھی مارو اور خود بھی مرو اور اس کے بدلے اللہ خوش بھی ہو گا اور جنت بھی دے گا۔ ان مسلمانوں کو جنت اور شہید ہو کر نام نہاد اللہ کی رضا کے لئے اس قدر برانگیختہ کیا جاتا کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ وہ شہید ہو جائے اور وہ اس کے لئے حفاظتی زرہ تک نہ پہنتے۔ چنانچہ اُحد کے واقعات میں ہے کہ
جنگ کے لئے جاتے ہوئے حضرت عمر نے اپنے بھائی حضرت زید سے کہا: "تم میری زرہ لے لو۔" زید کہنے لگے: "جس طرح آپ کی خواہش ہے شہید ہونے کی اُسی طرح میں بھی شہادت کا آرزو مند ہوں۔" آخرکار دونوں میں سے کسی نے بھی زرہ نہیں پہنی۔" (مجمع الزوائد ج5 ص298)
اب اس کے مقابلے میں اپنا حال دیکھئے:
تصویر کا دوسرا رُخ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اُحد کے دن اوپر تلے دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں۔ (سنن ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی لبس الدروع، حدیث 2590)
اندازہ لگائیے اس بزدلی اور دوغلے پن کا کہ دوسروں کو کہنا کہ اللہ کو خوش کرنا ہے تو بغیر کسی حفاظتی لباس کے دشمن کے نرغے میں گھس جاؤ، شہید ہو جاؤ اور اپنا حال یہ کہ بغیر دشمن کی صفوں میں گھسے ہی دو دو زرہیں پہن رکھی ہیں، وہ بھی اس حال میں کہ بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں سے ہر ایک کے پاس زرہ تو دور تلوار تک نہ ہوتی تھی۔
پھر یہ بھی مد نظر رکھئے کہ بذعم خویش یہ نبی اس بات کے بھی دعویدار رہے کہ اللہ نے ان کی حفاظت کا خصوصی ذمہ لے رکھا ہے کہ دشمنوں سے انہیں بچائے گا۔
اس اُحد کے ہی میدان میں جس میں خود آنجناب نے دو دو زرہیں بھی پہن رکھی تھیں، حال یہ تھا کہ جب کافروں نے حملہ کیا اور کچھ آنجناب تک بھی آ پہنچے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ارد گرد سات انصار اور دو قریش صحابی تھے۔ جب دشمن بالکل بالمقابل آ گیا تو بجائے خود بھی مقابلہ کرنے کے اس عظیم بہادر جرنیل نے پھر فرمایا:
"جو ان مشرکین کو مجھ سے دور کرے گا، اُس کے لئے جنت ہے، یا (فرمایا:) وہ جنت میں میرا ساتھی ہے۔"
یعنی خود مقابلہ نہیں کرنا پھر دوسروں کو جنت کا لولی پاپ دے دیا اور اس کے ماننے والے اندھے عقیدتمند بھی اس کے دفاع میں قربان ہوتے رہے حتیٰ کہ سات کے سات انصار شہید ہو گئے۔ اپنی اس بزدلی کا خود بھی احساس تھا چنانچہ دو ساتھ رہ جانے والے قریشی ساتھیوں سے فرمایا: ہم نے اپنے ان ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا۔"
اس تفصیلی واقعہ کے لئے دیکھئے صحیح مسلم (کتاب الجہاد و السیر، باب غزوۃ احد، حدیث 4641)
خود لڑنے کی ہمت کم ہی پائی تھی جناب نے، چنانچہ اپنے ترکش سے بھی سارے تیر نکال کر اپنے ایک صحابی سعد بن ابی وقاص کو دے دیے اور اسے لڑنے کے لئے ابھارتے ہوئے کہا: "ان پر تیروں کی بارش کرو، میرے ماں باپ تجھ پر قربان۔" (صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث 4055)
آہ! جان کس قدر پیاری چیز ہے، دوسرے مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔ اس پر بھی بس نہیں ابو طلحہ نامی صحابی اپنی ڈھال لے کر خود بھی اپنے اس نبی کے اوپر ڈھال بنا ہوا تھا۔ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث 4064)
دوسرے اپنی جان وارتے رہے اور اتنے مشکل حالات میں بھی یہ نیچے دُبکے بیٹھا رہا۔ سر اٹھا کر دشمن کو دیکھنے کی کوشش کرتا تو یہ اندھے عقیدتمند کہتے: "میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ سر نہ اُٹھائیں، مبادا کافروں کا کوئی تیر آپ کو لگ جائے۔ میرا سینہ آپ کے سینے کے آگے قربانی کے لئے موجود ہے۔" (صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث 4064)
اس پر پھر یاد کیجئے کہ یہ سب اس حال میں ہو رہا ہے کہ آنجناب نے دو دو زرہیں بھی پہن رکھی ہیں، پھر بھی بہادری کا یہ حال ہے۔ دوسروں کو شہید کروانے کے لئے لمبی لمبی چھوڑنا اور ایک جنگ میں زرا سے جان پر بنی تو کیا حال ہو گیا جناب کا۔
مگر جس طرح وہاں کے اندھے عقیدتمندوں کو یہ سمجھ نہیں تھی کہ مذہب کا کاروبار کرنے والے موت ہمیشہ دوسروں میں بانٹتے ہیں، افسوس کہ آج بھی عقیدت کے مارے یہ بات سمجھ نہیں پاتے
تحریر ۔
سعد رضا


حضرت ام عمارہ انصار کی عورتوں میں سے تھیں ہجرت کے بعد اکثر لڑائیوں میں شریک ہوئیں جنگ احد کےوقت انکی عمر تینتالیس سال تھی
انکے خاوند اور دو بیٹے بھی لڑائ میں شریک تھے فرماتی ہیں
جنگ میں جب کافروں کو غلبہ ہونے لگا تو میں حضور کے قریب پہنچ گئ جو ادھر کا رخ کرتا اسکو ہٹاتی تھی ابتدا میں ڈھال بھی نہ تھی بعد میں ملی جس پر کافروں کا حملہ روکتی تھی کمر پر اک کپڑا باندھ رکھا تھا جسکے اندر چیتھڑے بھرے ہوۓ تھے کہ جب کوئ زخمی ہو جاۓ تو چیتھڑا نکال کر اسکے زخم بھر سکوں، حضور پاک کی حفاظت میں خود بھی کئ جگہ سے زخمی ہوئی، بارہ تیرہ وار لگے جن میں سے اک بہت سخت تھا، ام سعید کہتی ہیں میں نے ان کے مونڈھے پر اک بڑا اور گہرا زخم دیکھا پوچھا کہ یہ کس طرح پڑا تو کہا احد کی لڑائ میں ابن قمیہ یہ کہتا ہوا آگے بڑھا کہ بتاؤ محمد کہاں ہے اگر آج وہ بچ گیا تو میری نجات نہیں، مصعب بن عمیر اور چند آدمی اسکے سامنے آۓ میں بھی آگے بڑھی اس نے میرے مونڈے پر وار کیا میں نے بھی اسکے جسم پر کئ وار کئے مگر اسکی دوہری زرہ تھی اسلئے وار کارگر نہ ہوۓ. جنگ میں دشمن گھڑ سوار تھے اور ہم پیدل جب کوئ حملہ کرتا میں ڈھال پر اسکا وار روکتی اور اسکے گھوڑے کی ٹانگ پر وار کرتی گھوڑا اور سوار گرتے تو حضور فورآ میرے لڑکے کو آواز دیتے اور ہم ماں بیٹا مل کر اسکو نمٹا دیتے.
اسی جنگ میں اک بار اک کافر سامنے آیا تو حضور نے مجھ سے کہا یہی ہے جس نے تیرے بیٹےکو زخمی کیا میں نے آگے بڑھ کر اسکی پنڈلی پر وار کیا تو وہ زخمی ہوکر بیٹھ گیا، حضور مسکراۓ اور فرمایا کہ بیٹے کا بدلہ لے لیا. اسکے بعد ہم نے اس کو نمٹا دیا.


جنگ احد میں اسی ابن قمیہ کا اک وار حضورپاک کے خود کےحلقوں پر پڑا جسکے نتیجے میں حلقے حضور پاک کے گال میں دھنس گئے اور خون بہنے لگا، جبکہ اس واقعہ سے زرا پہلے کسی کافر نے حضور پر پتھر پھینک مارا تھا جس سے حضورپاک کے دو دانت مبارک شہید ہوگئے تھے

علی سینا کے بقول دو زرہوں کے بوجھ کی وجہ سے رسول کریم کا چلنا مشکل ہوتا تھا، آپ اپنے دوسرے ساتھیوں کی مدد سے چلا کرتے تھے۔ کبھی کبھار آپ ہاتھ میں دھول لے کر منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے اور پھر اس دھول کو کفار کی طرف اچھال دیتے۔ دھول کو دشمن کی طرف اچھالنا ہی آپ کا سب سے بڑا بہادری ک کارنامہ ہوا کرتا تھا

جسنے معراج میں اللہ کو روبرو دیکھا ہو اسکے ایمان کی تو یہ کیفیت ہونی چاہیے کہ اکیلا نہتا نکل کھڑا ہوا، کیونکہ اللہ کے نبی نے دنیا میں اپنا مقصد پورا کئیے بغیر تو مرنا نہیں تھا، اللہ نے مرنے ہی نہیں دینا تھا، تو پھر دو دو زرہ کی کیا ضرورت تھی، یعنی نبی کو خود ہی اللہ کی قدرت پر یقنین نہیں تھا، انکو اللہ سے زیادہ زرہ پر اعتبار تھا؟ پھر دوسروں کو شہادت کی ترغیب دینا تو عین منافقت اور انتہا درجہ بزدلی ہے۔
بیان کردہ پہلی دونوں روایات آج کے دور میں خودکش حملوں کے لیے صریح جواز ہیں
A.J
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
بزدلی اور دوغلہ پن، سُنت کی روشنی میں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تصویر کا پہلا رُخ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اُحد کے دن ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اگر میں شہید کر دیا گیا تو میرا ٹھکانہ کہاں ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت میں"۔ (یہ سن کر) اس نے وہ کھجوریں پھینکیں جو اس کے ہاتھ میں تھیں، پھر وہ لڑتا رہا حتیٰ کہ شہید ہو گیا۔
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ احد، حدیث 4046)
عوف بن حارث (ابن عفراء) کہنے لگے: "اللہ کے رسول! ربِ کریم اپنے بندے کے کس کام سے ہنستا ہے؟" آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: "وہ آدمی جو بغیر زرہ اور خود کے دشمن پر جھپٹ پڑے۔" انہوں نے فوراً زرہ اتار پھینکی، پھر تلوار پکڑی اور دشمن پر ٹوٹ پڑے حتیٰ کہ شہید ہو گئے۔"
(سیرۃ ابن ہشام ج2 ص322)
یہ سیرت نبوی کا ایک رُخ ہے جس میں جب دوسروں کے بچے مروانے ہوتے تھے تو ان کو جنت کہ کہانیاں سُنا سُنا کر دشمنوں کے نرغے میں بھیج دیا جاتا۔ حتیٰ کہ لوہے کے حفاظتی لباس زرہ تک اتروا کر انہیں دشمنوں میں جھونکا گیا کہ جاؤ ہمارے دشمنو کو بھی مارو اور خود بھی مرو اور اس کے بدلے اللہ خوش بھی ہو گا اور جنت بھی دے گا۔ ان مسلمانوں کو جنت اور شہید ہو کر نام نہاد اللہ کی رضا کے لئے اس قدر برانگیختہ کیا جاتا کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ وہ شہید ہو جائے اور وہ اس کے لئے حفاظتی زرہ تک نہ پہنتے۔ چنانچہ اُحد کے واقعات میں ہے کہ
جنگ کے لئے جاتے ہوئے حضرت عمر نے اپنے بھائی حضرت زید سے کہا: "تم میری زرہ لے لو۔" زید کہنے لگے: "جس طرح آپ کی خواہش ہے شہید ہونے کی اُسی طرح میں بھی شہادت کا آرزو مند ہوں۔" آخرکار دونوں میں سے کسی نے بھی زرہ نہیں پہنی۔" (مجمع الزوائد ج5 ص298)
اب اس کے مقابلے میں اپنا حال دیکھئے:
تصویر کا دوسرا رُخ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اُحد کے دن اوپر تلے دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں۔ (سنن ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی لبس الدروع، حدیث 2590)
اندازہ لگائیے اس بزدلی اور دوغلے پن کا کہ دوسروں کو کہنا کہ اللہ کو خوش کرنا ہے تو بغیر کسی حفاظتی لباس کے دشمن کے نرغے میں گھس جاؤ، شہید ہو جاؤ اور اپنا حال یہ کہ بغیر دشمن کی صفوں میں گھسے ہی دو دو زرہیں پہن رکھی ہیں، وہ بھی اس حال میں کہ بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں سے ہر ایک کے پاس زرہ تو دور تلوار تک نہ ہوتی تھی۔
پھر یہ بھی مد نظر رکھئے کہ بذعم خویش یہ نبی اس بات کے بھی دعویدار رہے کہ اللہ نے ان کی حفاظت کا خصوصی ذمہ لے رکھا ہے کہ دشمنوں سے انہیں بچائے گا۔
اس اُحد کے ہی میدان میں جس میں خود آنجناب نے دو دو زرہیں بھی پہن رکھی تھیں، حال یہ تھا کہ جب کافروں نے حملہ کیا اور کچھ آنجناب تک بھی آ پہنچے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ارد گرد سات انصار اور دو قریش صحابی تھے۔ جب دشمن بالکل بالمقابل آ گیا تو بجائے خود بھی مقابلہ کرنے کے اس عظیم بہادر جرنیل نے پھر فرمایا:
"جو ان مشرکین کو مجھ سے دور کرے گا، اُس کے لئے جنت ہے، یا (فرمایا:) وہ جنت میں میرا ساتھی ہے۔"
یعنی خود مقابلہ نہیں کرنا پھر دوسروں کو جنت کا لولی پاپ دے دیا اور اس کے ماننے والے اندھے عقیدتمند بھی اس کے دفاع میں قربان ہوتے رہے حتیٰ کہ سات کے سات انصار شہید ہو گئے۔ اپنی اس بزدلی کا خود بھی احساس تھا چنانچہ دو ساتھ رہ جانے والے قریشی ساتھیوں سے فرمایا: ہم نے اپنے ان ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا۔"
اس تفصیلی واقعہ کے لئے دیکھئے صحیح مسلم (کتاب الجہاد و السیر، باب غزوۃ احد، حدیث 4641)
خود لڑنے کی ہمت کم ہی پائی تھی جناب نے، چنانچہ اپنے ترکش سے بھی سارے تیر نکال کر اپنے ایک صحابی سعد بن ابی وقاص کو دے دیے اور اسے لڑنے کے لئے ابھارتے ہوئے کہا: "ان پر تیروں کی بارش کرو، میرے ماں باپ تجھ پر قربان۔" (صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث 4055)
آہ! جان کس قدر پیاری چیز ہے، دوسرے مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔ اس پر بھی بس نہیں ابو طلحہ نامی صحابی اپنی ڈھال لے کر خود بھی اپنے اس نبی کے اوپر ڈھال بنا ہوا تھا۔ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث 4064)
دوسرے اپنی جان وارتے رہے اور اتنے مشکل حالات میں بھی یہ نیچے دُبکے بیٹھا رہا۔ سر اٹھا کر دشمن کو دیکھنے کی کوشش کرتا تو یہ اندھے عقیدتمند کہتے: "میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ سر نہ اُٹھائیں، مبادا کافروں کا کوئی تیر آپ کو لگ جائے۔ میرا سینہ آپ کے سینے کے آگے قربانی کے لئے موجود ہے۔" (صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث 4064)
اس پر پھر یاد کیجئے کہ یہ سب اس حال میں ہو رہا ہے کہ آنجناب نے دو دو زرہیں بھی پہن رکھی ہیں، پھر بھی بہادری کا یہ حال ہے۔ دوسروں کو شہید کروانے کے لئے لمبی لمبی چھوڑنا اور ایک جنگ میں زرا سے جان پر بنی تو کیا حال ہو گیا جناب کا۔
مگر جس طرح وہاں کے اندھے عقیدتمندوں کو یہ سمجھ نہیں تھی کہ مذہب کا کاروبار کرنے والے موت ہمیشہ دوسروں میں بانٹتے ہیں، افسوس کہ آج بھی عقیدت کے مارے یہ بات سمجھ نہیں پاتے
تحریر ۔
سعد رضا


حضرت ام عمارہ انصار کی عورتوں میں سے تھیں ہجرت کے بعد اکثر لڑائیوں میں شریک ہوئیں جنگ احد کےوقت انکی عمر تینتالیس سال تھی
انکے خاوند اور دو بیٹے بھی لڑائ میں شریک تھے فرماتی ہیں
جنگ میں جب کافروں کو غلبہ ہونے لگا تو میں حضور کے قریب پہنچ گئ جو ادھر کا رخ کرتا اسکو ہٹاتی تھی ابتدا میں ڈھال بھی نہ تھی بعد میں ملی جس پر کافروں کا حملہ روکتی تھی کمر پر اک کپڑا باندھ رکھا تھا جسکے اندر چیتھڑے بھرے ہوۓ تھے کہ جب کوئ زخمی ہو جاۓ تو چیتھڑا نکال کر اسکے زخم بھر سکوں، حضور پاک کی حفاظت میں خود بھی کئ جگہ سے زخمی ہوئی، بارہ تیرہ وار لگے جن میں سے اک بہت سخت تھا، ام سعید کہتی ہیں میں نے ان کے مونڈھے پر اک بڑا اور گہرا زخم دیکھا پوچھا کہ یہ کس طرح پڑا تو کہا احد کی لڑائ میں ابن قمیہ یہ کہتا ہوا آگے بڑھا کہ بتاؤ محمد کہاں ہے اگر آج وہ بچ گیا تو میری نجات نہیں، مصعب بن عمیر اور چند آدمی اسکے سامنے آۓ میں بھی آگے بڑھی اس نے میرے مونڈے پر وار کیا میں نے بھی اسکے جسم پر کئ وار کئے مگر اسکی دوہری زرہ تھی اسلئے وار کارگر نہ ہوۓ. جنگ میں دشمن گھڑ سوار تھے اور ہم پیدل جب کوئ حملہ کرتا میں ڈھال پر اسکا وار روکتی اور اسکے گھوڑے کی ٹانگ پر وار کرتی گھوڑا اور سوار گرتے تو حضور فورآ میرے لڑکے کو آواز دیتے اور ہم ماں بیٹا مل کر اسکو نمٹا دیتے.
اسی جنگ میں اک بار اک کافر سامنے آیا تو حضور نے مجھ سے کہا یہی ہے جس نے تیرے بیٹےکو زخمی کیا میں نے آگے بڑھ کر اسکی پنڈلی پر وار کیا تو وہ زخمی ہوکر بیٹھ گیا، حضور مسکراۓ اور فرمایا کہ بیٹے کا بدلہ لے لیا. اسکے بعد ہم نے اس کو نمٹا دیا.


جنگ احد میں اسی ابن قمیہ کا اک وار حضورپاک کے خود کےحلقوں پر پڑا جسکے نتیجے میں حلقے حضور پاک کے گال میں دھنس گئے اور خون بہنے لگا، جبکہ اس واقعہ سے زرا پہلے کسی کافر نے حضور پر پتھر پھینک مارا تھا جس سے حضورپاک کے دو دانت مبارک شہید ہوگئے تھے

علی سینا کے بقول دو زرہوں کے بوجھ کی وجہ سے رسول کریم کا چلنا مشکل ہوتا تھا، آپ اپنے دوسرے ساتھیوں کی مدد سے چلا کرتے تھے۔ کبھی کبھار آپ ہاتھ میں دھول لے کر منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے اور پھر اس دھول کو کفار کی طرف اچھال دیتے۔ دھول کو دشمن کی طرف اچھالنا ہی آپ کا سب سے بڑا بہادری ک کارنامہ ہوا کرتا تھا

جسنے معراج میں اللہ کو روبرو دیکھا ہو اسکے ایمان کی تو یہ کیفیت ہونی چاہیے کہ اکیلا نہتا نکل کھڑا ہوا، کیونکہ اللہ کے نبی نے دنیا میں اپنا مقصد پورا کئیے بغیر تو مرنا نہیں تھا، اللہ نے مرنے ہی نہیں دینا تھا، تو پھر دو دو زرہ کی کیا ضرورت تھی، یعنی نبی کو خود ہی اللہ کی قدرت پر یقنین نہیں تھا، انکو اللہ سے زیادہ زرہ پر اعتبار تھا؟ پھر دوسروں کو شہادت کی ترغیب دینا تو عین منافقت اور انتہا درجہ بزدلی ہے۔
بیان کردہ پہلی دونوں روایات آج کے دور میں خودکش حملوں کے لیے صریح جواز ہیں
A.J
@خضر حیات
@عبدہ
 
شمولیت
جنوری 16، 2012
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
163
پوائنٹ
49
اس بندے کو اتنا بھی نہیں پتا کہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے ہی نہیں کہ نبیؐ نے اللہ کو رو برو دیکھا تھا،پہلے صحیح سے مطالعہ تو کرے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
تحریر میں دو لفظ استعمال کیے گئے ہیں ’ بزدلی ‘ اور ’ دوغلہ پن ‘ ، جبکہ بطور دلیل اور شواہد جو روایات ، احادیث اور واقعات نقل کیے ہیں ، ان سے صحابہ کرام کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت ، جرأت و بہادری ، اور جنت کی طرف اشتیاق ظاہر ہوتا ہے ۔
اللہ کےر سول صلی اللہ علیہ وسلم معاذ اللہ اگر بزدل ہوتے ، تو مدینہ سے اکیلے گھوڑے پر سوار ہو کر حالات کی خبر کے لیے نہ نکلتے ، حتی کہ جب صحابہ کرام کو خبر ہوئی تو آپ صورت حال جان کر واپس لوٹ رہے تھے ۔
جو بزدل ہو ، وہ اکیلا پوری دنیا سے ٹکر نہیں لیتا ! اپنے خاندان کی مخالفت کو جھیلا ، قریش مکہ کی پرواہ نہیں کی ، تمام عرب قبائل کی دہشت آپ کو حق کی آواز بلند کرنے پر نہیں روک سکی ، ایسا بزدل دنیا میں کوئی ہے ؟
جو اکیلا سرداران طائف کے سامنے جاکر کلمہ توحید کی دعوت دے ، وہ بزدل کہلائے گا ؟ وقت کے فرعوں سے ٹکر لینے والا بھی بزدل ہے تو پھر ملحدوں کی بہادری پر دو حرف ہیں ، جو کسی سردار تو کیا ، کسی عام آدمی کے سامنے اپنے ناپاک عزائم کے اظہار سے ڈرتے ہیں ، اور انٹرنیٹ کے پیچھے چھپ کر اپنے ضمیر کا گند انڈیلتے ہیں ۔
بزدل تعاقب کے باوجود کبھی لا تحزن ان اللہ معنا کہتے ہوئے سرراہ نہیں چلتا رہتا !!
ملحدین کی سوچ کا فرق ہے ، ورنہ دو بہادروں میں سے اگر ایک دوسرے پر اپنی جان وارنے کی کوشش کرے ، تو اس سے دوسرا بزدل نہیں ہوجاتا ۔
دوسری بات یہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم باوجود اہلیت کے کسی پر تلوار نہیں اٹھاتےتھے ، کیونکہ نبی کا قاتل اور مقتول دونوں ہی عام لوگوں سے زیادہ بدبخت قرار دیے گئے ہیں ۔ ( ویسے اگر اللہ کی یہ مرضی ہوتی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت لوگوں کو میدان جنگ قتل کیا ہوتا تو ان کمینوں نے کہنا تھا یہ ایک خوانخوار نبی تھا ، جو کہ اب بھی بکواس کرتے ہیں )
رہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہ کرام کو شجاعت و بہادری پر بشارتیں دینا ، تو یہ اللہ کی طرف سے انعام تھا ، جو آپ کے ذریعے اللہ تعالی نے آپ کے صحابہ کرام کو دیا ۔ اور یہ دین ابتلاء و آزمائش کا نام ہے ، ورنہ اللہ کےلیے تو کوئی مشکل نہیں کہ اللہ تعالی بطور رسول ہی کوئی فرشتہ بھیج دیتا ، یا اللہ کےر سول کے حفاظت کے لیے فرشتے یوں مقرر کردیے جاتے کہ جو آگے بڑھتا ، ان دیکھی تلواروں سے دو ٹکڑے ہوجاتا ، اور فرشتے بھی کیا ، اللہ چاہتا تو کسی کافر کا آپ کی طرف ہاتھ اٹھنے سے پہلے اس کو بے جان کردیتا ، اگر اٹھانے دیا تو وہیں اس کو پتھر بنادیتا ، اور اگر اس کا تیر چل گیا تھا تو اس تیر کو اسی کے پیچھے لگادیتا ۔۔۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ملحدین کو یہ باتیں کیسی سمجھائی جائیں ؟ یہ چاہتے ہیں کہ ہم پر فورا پتھر برسیں ، یا ہماری بستیاں الٹی جائیں ، یا ہمارے ہاتھ ٹوٹ جائیں ، یا ہماری آنکھیں اندھی ہوجائیں ۔۔۔۔ تو تب ہم مانیں گے کہ کوئی خالق بھی ہے ، حالانکہ یہ بھی اللہ تعالی کی منشا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ ہے کہ اس امت پر پہلی قوموں کی طرح کے عذاب نہیں آئیں گے ۔
ملحدوں کو یہ لمبی چوڑی باتیں سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ، اس طرح کے منکروں کا ایک ہی حل ہے ، بزدلی بہادری دیکھنی ہے تو آجائیں میدان میں ۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
تحریر میں دو لفظ استعمال کیے گئے ہیں ’ بزدلی ‘ اور ’ دوغلہ پن ‘ ، جبکہ بطور دلیل اور شواہد جو روایات ، احادیث اور واقعات نقل کیے ہیں ، ان سے صحابہ کرام کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت ، جرأت و بہادری ، اور جنت کی طرف اشتیاق ظاہر ہوتا ہے ۔
اللہ کےر سول صلی اللہ علیہ وسلم معاذ اللہ اگر بزدل ہوتے ، تو مدینہ سے اکیلے گھوڑے پر سوار ہو کر حالات کی خبر کے لیے نہ نکلتے ، حتی کہ جب صحابہ کرام کو خبر ہوئی تو آپ صورت حال جان کر واپس لوٹ رہے تھے ۔
جو بزدل ہو ، وہ اکیلا پوری دنیا سے ٹکر نہیں لیتا ! اپنے خاندان کی مخالفت کو جھیلا ، قریش مکہ کی پرواہ نہیں کی ، تمام عرب قبائل کی دہشت آپ کو حق کی آواز بلند کرنے پر نہیں روک سکی ، ایسا بزدل دنیا میں کوئی ہے ؟
جو اکیلا سرداران طائف کے سامنے جاکر کلمہ توحید کی دعوت دے ، وہ بزدل کہلائے گا ؟ وقت کے فرعوں سے ٹکر لینے والا بھی بزدل ہے تو پھر ملحدوں کی بہادری پر دو حرف ہیں ، جو کسی سردار تو کیا ، کسی عام آدمی کے سامنے اپنے ناپاک عزائم کے اظہار سے ڈرتے ہیں ، اور انٹرنیٹ کے پیچھے چھپ کر اپنے ضمیر کا گند انڈیلتے ہیں ۔
بزدل تعاقب کے باوجود کبھی لا تحزن ان اللہ معنا کہتے ہوئے سرراہ نہیں چلتا رہتا !!
ملحدین کی سوچ کا فرق ہے ، ورنہ دو بہادروں میں سے اگر ایک دوسرے پر اپنی جان وارنے کی کوشش کرے ، تو اس سے دوسرا بزدل نہیں ہوجاتا ۔
دوسری بات یہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم باوجود اہلیت کے کسی پر تلوار نہیں اٹھاتےتھے ، کیونکہ نبی کا قاتل اور مقتول دونوں ہی عام لوگوں سے زیادہ بدبخت قرار دیے گئے ہیں ۔ ( ویسے اگر اللہ کی یہ مرضی ہوتی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت لوگوں کو میدان جنگ قتل کیا ہوتا تو ان کمینوں نے کہنا تھا یہ ایک خوانخوار نبی تھا ، جو کہ اب بھی بکواس کرتے ہیں )
رہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہ کرام کو شجاعت و بہادری پر بشارتیں دینا ، تو یہ اللہ کی طرف سے انعام تھا ، جو آپ کے ذریعے اللہ تعالی نے آپ کے صحابہ کرام کو دیا ۔ اور یہ دین ابتلاء و آزمائش کا نام ہے ، ورنہ اللہ کےلیے تو کوئی مشکل نہیں کہ اللہ تعالی بطور رسول ہی کوئی فرشتہ بھیج دیتا ، یا اللہ کےر سول کے حفاظت کے لیے فرشتے یوں مقرر کردیے جاتے کہ جو آگے بڑھتا ، ان دیکھی تلواروں سے دو ٹکڑے ہوجاتا ، اور فرشتے بھی کیا ، اللہ چاہتا تو کسی کافر کا آپ کی طرف ہاتھ اٹھنے سے پہلے اس کو بے جان کردیتا ، اگر اٹھانے دیا تو وہیں اس کو پتھر بنادیتا ، اور اگر اس کا تیر چل گیا تھا تو اس تیر کو اسی کے پیچھے لگادیتا ۔۔۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ملحدین کو یہ باتیں کیسی سمجھائی جائیں ؟ یہ چاہتے ہیں کہ ہم پر فورا پتھر برسیں ، یا ہماری بستیاں الٹی جائیں ، یا ہمارے ہاتھ ٹوٹ جائیں ، یا ہماری آنکھیں اندھی ہوجائیں ۔۔۔۔ تو تب ہم مانیں گے کہ کوئی خالق بھی ہے ، حالانکہ یہ بھی اللہ تعالی کی منشا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ ہے کہ اس امت پر پہلی قوموں کی طرح کے عذاب نہیں آئیں گے ۔
ملحدوں کو یہ لمبی چوڑی باتیں سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ، اس طرح کے منکروں کا ایک ہی حل ہے ، بزدلی بہادری دیکھنی ہے تو آجائیں میدان میں ۔
جزاک اللہ خیر
 

ابن محمد

مبتدی
شمولیت
ستمبر 05، 2016
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
25
السلام علیکم انگریزی میں جواب دینے کی معزرت چاہتا ہو
Command preservation during warfare is as important as needing dedicated soldiers that would fight selflessly to preserve a principal our uphold supremacy of a system.
One of the great strategy of warfare is decapitation where assination,murder of political leadership is used to cause chaos behind enemy lines.
What the messenger of Allah (Peace and blessings of Allah be upoun him) has shown through his sunnah by wearing armour and appointing a group to protect himself is an example of great leadership and awareness of miltary strategy.
His men would fight for the reward from Allah without any fear and he would command his troops under the protection of a dedicated protection squad,this is exactly how modern warfare is conducted; no general ever jumps straight into close combat but they all mange war from a far through command and control systems. Even for your paymasters, the miltary leadership sits thousands of miles away from bsttlefronts in andaman islands or in Europe or America depending on who your paymaster is.
Lastly you claim that Mohammad peace be upoun him saw Allah during the night jouney. In Muslim, Book 1, Chapter 78, hadith number 337 Ayesha (May Allah be pleased with her) said in no uncertain terms that whoever says what you said has attributed a lie against the prophet (PBUH) and in the essense of an another hadith the prophet said who ever attributed a lie upoun me his destination is hell. I have no doubt that unless you see the true guidance of islam, repent and follow it your eternal abode is indeed in the fire of hell.

والسلام ابن محمد
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
ایک بات میں بھی عرض کر دوں شاید کام آجاۓ یا قابل توجہ ہو.
جنگ کا سپہ سالار اور کمانڈر لوگوں کو طور طریقے بتانے کے لۓ ہوتا ہے. اور اسکی بہت اہمیت ہوتی ہے. اگر اسکو کچھ ہو جاۓ تو پھر سمجھ لیں کہ پورے لشکر کی ہار ہے. کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کمانڈر کو کچھ ہو جاتا ہے تو پورا لشکر درہم برہم ہو جاتا ہے. اسکا کچھ ہونا گویا پورے لشکر کی ہار ہے. اور اسکی مثال غزوہ احد ہے. صرف افواہ پھیلنے پر صحابہ کی کیا حالت ہو گئ تھی یہ بتانے کی ضرورت نہیں. ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو شہادت کے متمنی تھی. جیسا کہ حدیث میں ہے:
عن أبي هريرة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ ‏ والذي نفسي بيده وددت أني لأقاتل في سبيل الله فأقتل ثم أحيا ثم أقتل ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم أحيا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم أقتل ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم أحيا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم أقتل ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم أحيا ‏ ‏‏.‏ فكان أبو هريرة يقولهن ثلاثا أشهد بالله‏.‏
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میری آرزو ہے کہ میں اللہ کے راستے میں جنگ کروں اور قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں ، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان الفاظ کو تین مرتبہ دہراتے تھے کہ میں اللہ کو گواہ کر کے کہتا ہوں۔“ (بخاری: 7227)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم بزدل نہیں تھے. اگر بزدل ہوتے تو ایک موقع پر اکیلے تن تنہا کہیں گۓ تھے. (صحیح سے واقعہ یاد نہیں اور نہ حوالہ).

واللہ اعلم بالصواب
 
Top