• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غزوہ بدر سے متعلق سوال

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

شیخ محترم @اسحاق سلفی @خضر حیات

جنگ بدر رمضان کے مہینے میں ہوئی اس مہینہ میں شیاطین کو جکڑ لیا جاتا ہے لیکن بدر کے میدان میں شیطان حاضر تھا ؟

اسکا جواب درکار ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جنگ بدر رمضان کے مہینے میں ہوئی اس مہینہ میں شیاطین کو جکڑ لیا جاتا ہے لیکن بدر کے میدان میں شیطان حاضر تھا ؟
اسکا جواب درکار ہے
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

رمضان المبارك ميں شيطان جكڑے ہونے كے باوجود جنگ بدر ميں انسانى شكل ميں كفار كا ساتھ دينے كيسے آيا
يہ معروف ہے كہ جنگ بدر مں شيطان كافروں كے ساتھ انسانى شكل ميں موجود تھا، اور يہ جنگ رمضان المبارك ميں ہوئى، اشكال يہ پيدا ہوتا ہے كہ شيطان اس وقت جكڑا ہوا كيوں نہ تھا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب ::
الحمد للہ:
اول:
سيرت اور تفسر كى كتب ميں مشہور ہے كہ شيطان معركہ بدر ميں موجود تھا، اور اس نے سراقہ بن مالك كى شكل اختيار كر ركھى تھى، اور يہ واقعہ درج ذيل فرمان بارى تعالى كى تفسير ميں بيان كيا جاتا ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

{ اور جب شيطان ان كے اعمال كو ان كے ليے مزين بنا كر پيش كر رہا تھا اور كہہ رہا تھا كہ لوگوں ميں سے كوئى بھى آج تم پر غلبہ حاصل نہيں كر سكتا، ميں تو خود تمہارا حمايتى ہوں، ليكن جب دونوں جماعتيں نمودار ہوئيں تو وہ اپنى ايڑيوں كے بل پيچھے ہٹ گيااور كہنے لگا ميں تو تم سے برى ہوں، ميں وہ كچھ ديكھ رہا ہوں جو تم نہيں ديكھ رہے، ميں اللہ سے ڈرتا ہوں، اور اللہ تعالى سخت عذاب دينے والا ہے }الانفال ( 48 ).

ليكن يہ كسى بھى صحيح سند كے ساتھ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، بلكہ اسے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا جاتا ہے، اور اس كى سند بھى محل نظر ہے جو كہ على بن ابى طلحہ كى روايت ہے وہ ابن عباس سے بيان كرتے ہيں كہ:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے:
" جنگ بدر والے دن ابليس اپنے لشكر كے ساتھ آيا جسے ميں نے بنى مدلج كے ايك شخص سراقہ بن مالك بن جعشم كى صورت ميں ديكھا، چنانچہ شيطان مشركوں سے كہنے لگا: آج تم پر كوئى بھى غالب نہيں آ سكتا، ميں تمہارے ساتھ ہوں، جب لوگوں نے صفيں بنائيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مٹى كى ايك مٹھى لى اور اسے مشركوں كے چہروں پر پھينكا تو وہ پيٹھ كر بھاگ گئے، اور جبريل ابليس كى طرف گيا جب ابليس نے جبريل كو ديكھا اور ابليس كا ہاتھ ايك مشرك كے ہاتھ ميں تھا، ابليس نے اس سے اپنا ہاتھ چھڑايا اور اپنا لاؤ لشكر لے كر الٹے پاؤں بھاگ گيا.
ايك شخص نے كہا: او سراقہ تم تو كہتے تھے كہ ميں تمہارے ساتھ ہوں ؟

اس نے جواب ديا:
ميں تو وہ كچھ ديكھ رہا ہوں جو تم نہيں ديكھ رہے، ميں اللہ سے ڈرتا ہوں، اور اللہ تعالى بڑا شديد عذاب والا ہے .

يہ اس وقت ہوا جب اس نے فرشتوں كو ديكھا تھا "
اسے امام طبرى نے تفسير طبرى ( 13 / 7 ) ميں روايت كيا ہے، اور طبرانى نے المعجم الكبير ( 5 / 47 ) ميں رفاعۃ بن رافع الانصارى سے بھى اسى طرح ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے، ليكن اس كى سند بھى ضعيف ہے، اس سند ميں عبد العزيز بن عمران ضعيف راوى شامل ہے، اس راوى كى وجہ سے الھيثمى نے مجمع الزوائد ( 6 / 82 ) ميں اس روايت كو ضعيف قرار ديا ہے.

ہو سكتا ہے ان دو رايتوں كو درج ذيل مرسل روايت تقويت ديتى ہو.

طلحہ بن عبيد اللہ بن كريز بيان كرتے ہيں كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يوم عرفہ كے دن ابليس اللہ كى رحمت اور گناہوں سے بخشش اور معافى كے نزول كى بنا پر اتنا چھوٹا اور حقير و ذليل اور غضبناك ہوتا ہے جو كسى اور دن ميں نہيں ديكھا گيا، ليكن جنگ بدر كے دن اس نے جو كچھ ديكھا تو اس سے كم رہ گيا.

صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ابليس نے جنگ بدر كے دن كيا ديكھا تھا؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اس نے ديكھا كہ جبريل امين فرشتوں كى صفيں سيدھى كر رہے ہيں "
موطا امام مالك حديث نمبر ( 944 ).

قولہ: " يزع الملائكۃ " يعنى جبريل امين فرشتوں كى لڑائى كے ليے ترتيب لگا رہے تھے، اور ان صفيں سيدھى كر رہے تھے.
يہ قصہ كئى ايك طرق سے مروى ہے، احتمال ہے كوئى ايك صحيح اور مقبول ہو.

رہا سائل كے دوسرے اشكال كا جواب تو وہ كئى ايك وجہ سے ديا جا سكتا ہے:
1 ـ سراقہ بن مالك كى صورت ميں اختيار كرنے والا شيطانوں ميں سے ايك شيطان تھا، ليكن جن شيطانوں كو جكڑا جاتا ہے وہ بڑے شيطان ہوتے ہيں.

امام نسائى رحمہ اللہ نے عتبۃ بن فرقد رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" رمضان المبارك ميں آسمان كے دروازے كھول ديے جاتے ہيں، اور جہنم كے دروازے بند كر ديے جاتے ہيں، اور ہر سركش شيطان جكڑ ديا جاتا ہے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 2108 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح سنن نسائى ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور ابن خزيمہ رحمہ اللہ نے صحيح ابن خزيمہ ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب رمضان المبارك كى پہلى رات ہوتى ہے تو جنوں ميں سے سركش قسم كے شيطان جكڑ ديے جاتے ہيں "
اس پر باب باندھتے ہوئے كہتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے فرمان: " اور شيطانوں كو جكڑ ديا جاتا ہے "

سے جنوں ميں سے سركش قسم كے جن مراد ليے ہيں، نہ كہ سارے شيطان، كيونكہ بعض پر شيطان كا نام صادق آتا ہے.
2 ـ يہ يقينى طور پر كہنا ممكن نہيں كہ روزوں كى فرضيت كى ابتدا ميں ہى شيطان جكڑ ديے جاتے تھے، كيونكہ روزے تو ايك ہجرى ميں فرض ہوئے تھے، اور جنگ بدر دو ہجرى ميں ہوئى، ہو سكتا ہے شيطانوں كا جكڑنا جنگ بدر كے بعد شروع ہوا ہو.
3 ـ شيطانوں كا جكڑنا تو صرف مومن روزے داروں كے ليے ہے نہ كہ كافروں كے حق ميں.

علامہ ابو العباس قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ان روزے داروں سے شيطان بند كيا جاتا ہے جو روزہ پورى شروط كے ساتھ ركھتے ہوں اور روزے كے آداب كا خيال كريں.
ديكھيں: شرح الزرقانى على الموطا ( 3 / 137 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بعض اوقات جكڑا ہوا شيطان بھى اذيت ديتا ہے، ليكن باقى ايام كے علاوہ رمضان كے ايام ميں يہ بہت كم اور كمزور ہوتا ہے، اس ليے جس كا روزہ كامل ہو اس سے شيطان دور رہتا ہے، ليكن جس كا روزہ ناقص ہو اس سے كامل روزے والے كى طرح دور نہيں ہوتا.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 25 / 246 ).
اس سے يہ ظاہر ہوا كہ غزوہ بدر ميں جنگ شروع ہونے سے قبل شيطان كا مشركين كے پاس آنے ميں كوئى اشكال نہيں.
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 39736 ) اور ( 12653 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم
الاسلام سوال و جواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اس سلسلے میں حضرت مولنا شاہ محمد اسحق دہلوی رحمہ اللہ کی تقریر سب سے بہتر ہے جس سے نہ صرف یہ کہ مسئلہ مذکور میں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا بلکہ اس بارے میں منقول تمام احادیث میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے۔ حضرت موصوف فرماتے ہیں کہ سرکش شیطانوں کا قید ہونا جیسا کہ یہ حدیث بتا رہی ہے مخصوص افراد کی نسبت سے ہے اسی طرح مطلقا شیاطین کا قید ہونا جیسا کہ اس باب کی پہلی حدیث سے ثابت ہوا دوسرے مخصوص افراد کی نسبت سے ہے مطلب یہ ہے کہ سرکش شیاطین کو تو فاسق لوگوں کو بہکانے سے روک دیا جاتا ہے چنانچہ ایسے لوگ رمضان میں گناہ کم کرتے ہیں البتہ چھوٹے موٹے شیطان انہیں بہکاتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے کچھ نہ کچھ گناہ ان سے سرزد ہوتے رہتے ہیں اور مطلقاً شیاطین صلحاء اور نیک لوگوں کو بہکانے سے روک دئیے جاتے ہیں چنانچہ وہ کبیرہ گناہوں سے باز رہتے ہیں اور اگر بتقاضائے بشریت ان سے کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو وہ توبہ اور استغفار کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا اشکال کا ایک دوسرا جواب یہ ہے کہ کچھ گناہ تو ایسے ہوتے ہیں جو شیاطین کے بہکانے سے سرزد ہوتے ہیں اور کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں جو خود اپنے نفس کے تقاضہ سے صادر ہوتے ہیں چنانچہ جو گناہ شیطان کے بہکانے سے سرزد ہوتے ہیں ان گناہوں سے تو لوگ رمضان میں محفوظ رہتے ہیں اور جو گناہ خود اپنے نفس کے تقاضہ سے ہوتے ہیں وہ رمضان میں بھی صادر ہوتے رہتے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اللہ کی حکمت اور کاریگری ہے ، اس میں کچھ بھی حتمی کہنا مشکل ہوتا ہے ۔
جیسا ثابت ہو ، ویسا ہی مان لینا چاہیے ۔ توجیہات کرلینے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن اصول یہ ہونا چاہیے ، جو کچھ قرآن او رحدیث میں آگیا ، اس کی توجیہ سمجھ آئے نہ آئے ، سو فیصد درست ہے ، لیکن انسان ’ و ما اوتیتم من العلم إلا قلیلا ‘ کے تحت اس کی حقیقت اور حکمت کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔
رمضان کے مہینے کے ادب و احترام کے لیے ، مسلمانوں کو نیکی پر ابھارنے کے لیے شیطان جکڑ دیے جاتے ہیں ، لیکن جب کسی مومن بندے سے شیطان کو ذلیل کروانا ہو ، یا اس بابرکت مہینے میں کسی منکر اور کافر کو مزید رسوا کرنا مقصود ہو تو اللہ تعالی کسی شیطان کو چھوڑنے کے لیے کسی کا پابند تو نہیں ہوگا ؟
 
Top