• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غزوہ تبوک کا ایک واقعہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!
کیا یہ واقعہ صحیح الاسناد ہے؟

ایک منافق کہہ رہا تھا کہ ہمارے یہ قرآن خواں لوگ بڑے پیٹو، اور بڑے فضول اور بڑے بزدل ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب اس کا ذکر ہوا تو یہ عذر پیش کرتا ہوا آیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو یونہی وقت گزاری کے لیے ہنس بول رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں تمہارے ہنسی کے لیے اللہ تعالیٰ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن ہی رہ گیا ہے یاد رکھو! اگر کسی کو ہم معاف کر دیں گے تو کسی کو سخت سزا بھی کریں گے“،

اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار جا رہے تھے یہ منافق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار پر ہاتھ رکھے پتھروں سے ٹھوکریں کھاتا ہوا یہ کہتا ہوا ساتھ جا رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف دیکھتے بھی نہ تھے جس مسلمان نے اس کا یہ قول سنا تھا اس نے اسی وقت جواب بھی دیا تھا کہ تو بکتا ہے جھوٹا ہے تو منافق ہے۔ یہ واقعہ جنگ تبوک کے موقعہ کا ہے، مسجد میں اس نے یہ ذکر کیا تھا۔
(تفسیر ابن جریر الطبری)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کیا یہ واقعہ صحیح الاسناد ہے؟
ایک منافق کہہ رہا تھا کہ ہمارے یہ قرآن خواں لوگ بڑے پیٹو، اور بڑے فضول اور بڑے بزدل ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس واقعہ کے دو پہلو ہیں :
(۱) پہلا یہ کہ یہ واقعہ ثابت ہے یا نہیں ؟
تو واضح ہو کہ یہ واقعہ قرآن سے ثابت ہے ،
سورۃ التوبہ جس کی آیت (۶۵ ) کی تفسیر میں آپ کی پیش کردہ روایات منقول ہیں ، سورہ توبہ کی یہ آیات بالاتفاق غزوہ تبوک کے پس منظر میں ہیں
امام ابن کثیر اپنی تفسیر میں اسی سورہ کی آیہ (۳۸ ) کے تحت لکھتے ہیں :
يا أيها الذين آمنوا ما لكم إذا قيل لكم انفروا في سبيل الله اثاقلتم إلى الأرض أرضيتم بالحياة الدنيا من الآخرة فما متاع الحياة الدنيا في الآخرة إلا قليل (38)
اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ چلو اللہ کے راستے میں کوچ کرو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو۔ کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگانی پر ہی ریجھ گئے ہو۔ سنو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یونہی سی ہے۔ (38)

ابن کثیرؒ لکھتے ہیں :
هذا شروع في عتاب من تخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك، حين طابت الثمار والظلال في شدة الحر وحمارة (1) القيظ، فقال تعالى: {يا أيها الذين آمنوا ما لكم إذا قيل لكم انفروا في سبيل الله} أي: إذا دعيتم إلى الجهاد في سبيل الله {اثاقلتم إلى الأرض} أي: تكاسلتم وملتم إلى المقام في الدعة والخفض وطيب الثمار، {أرضيتم بالحياة الدنيا من الآخرة} أي: ما لكم فعلتم (2) هكذا أرضا منكم بالدنيا بدلا من الآخرة
ثم زهد تبارك وتعالى في الدنيا، ورغب في الآخرة، فقال: {فما متاع الحياة الدنيا في الآخرة إلا قليل}

یعنی اس آیت سے غزوہ تبوک اور جہاد سے گریزاں لوگوں پر عتاب کا بیان شروع ہورہا ہے ٭٭
اس غزوہ کے موقع پر ایک طرف تو گرمی سخت پڑ رہی تھی دوسری طرف پھل پک چکے تھے اور درختوں کے سائے بڑھ گئے تھے، ایسے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دور دراز کے سفر کے لیے تیار ہو گئے غزوہ تبوک میں اپنے ساتھ چلنے کو سب سے فرما دیا۔ کچھ لوگ جو رہ گئے تھے انہیں تنبیہ کی گئی ان آیتوں کا شروع اس آیت سے ہے کہ جب تمہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کی طرف بلایا جاتا ہے تو تم کیوں زمین میں دھنسنے لگتے ہو؟ کیا دنیا کی ان فانی چیزوں پر ریجھ کر آخرت کی باقی نعمتوں کو بھلا بیٹھے ہو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر آگے چل کر اس واقعہ کے متعلق (آیت ۶۴ ) میں فرمایا :
يحذر المنافقون أن تنزل عليهم سورة تنبئهم بما في قلوبهم قل استهزئوا إن الله مخرج ما تحذرون (64)

ترجمہ :
منافقوں کو ہر وقت اس بات کا کھٹکا لگارہتا ہے کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی سورت نہ اترے جو ان کے دلوں کی باتیں انہیں بتلا دے۔ کہہ دیجئے کہ تم مذاق اڑاتے رہو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کرنے والاہے جس سے تم ڈر دبک رہے ہو۔ (64)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اگلی آیت میں فرمایا :
ولئن سألتهم ليقولن إنما كنا نخوض ونلعب قل أبالله وآياته ورسوله كنتم تستهزئون (65)
اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے ره گئے ہیں ؟۔ (65)
اس کی تفسیر میں ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں :
قال أبو معشر المديني (3) عن محمد بن كعب القرظي وغيره قالوا: قال رجل من المنافقين: ما أرى قراءنا هؤلاء إلا أرغبنا بطونا، وأكذبنا ألسنة، وأجبننا عند اللقاء. فرفع ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء إلى رسول الله وقد ارتحل وركب ناقته، فقال: يا رسول الله، إنما كنا نخوض ونلعب. فقال: {أبالله وآياته ورسوله كنتم تستهزئون} إلى قوله: {مجرمين} وإن رجليه لتنسفان (4) الحجارة وما يلتفت إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو متعلق بنسعة رسول الله صلى الله عليه وسلم.
وقال عبد الله بن وهب: أخبرني هشام بن سعد، عن زيد بن أسلم، عن عبد الله بن عمر قال: قال رجل في غزوة تبوك في مجلس (5) ما رأيت مثل قرائنا هؤلاء، أرغب بطونا، ولا أكذب ألسنا، ولا أجبن عند اللقاء. فقال رجل في المسجد: كذبت، ولكنك منافق. لأخبرن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم ونزل القرآن. قال عبد الله بن عمر: وأنا رأيته متعلقا بحقب ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم تنكبه (6) الحجارة (7) وهو يقول: يا رسول الله، إنما كنا نخوض ونلعب. ورسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: {أبالله وآياته ورسوله كنتم تستهزئون لا تعتذروا قد كفرتم بعد إيمانكم} .
وقد رواه الليث، عن هشام بن سعد، بنحو من هذا (8)
وقال ابن إسحاق: وقد كان جماعة من المنافقين منهم وديعة بن ثابت، أخو بني أمية بن زيد، من بني عمرو بن عوف، ورجل من أشجع حليف لبني سلمة يقال له: مخشن (9) بن حمير يشيرون إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو منطلق إلى تبوك، فقال بعضهم لبعض: أتحسبون جلاد بني الأصفر كقتال العرب بعضهم بعضا؟ والله لكأنا بكم غدا مقرنين في الحبال، إرجافا وترهيبا للمؤمنين، فقال مخشن (10)

مشہور تابعی محمد بن کعب قرظیؒ کہتے ہیں ایک منافق کہہ رہا تھا کہ ہمارے یہ قرآن خواں لوگ بڑے پیٹو، اور بڑے فضول اور بڑے بزدل ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب اس کا ذکر ہوا تو یہ عذر پیش کرتا ہوا آیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو یونہی وقت گزاری کے لیے ہنس بول رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں تمہارے ہنسی کے لیے اللہ تعالیٰ و رسول صلی اللہ علیہ وسلماور قرآن ہی رہ گیا ہے یاد رکھو! اگر کسی کو ہم معاف کر دیں گے تو کسی کو سخت سزا بھی کریں گے“،

اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار جا رہے تھے یہ منافق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار پر ہاتھ رکھے پتھروں سے ٹھوکریں کھاتا ہوا یہ کہتا ہوا ساتھ جا رہا تھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف دیکھتے بھی نہ تھے جس مسلمان نے اس کا یہ قول سنا تھا اس نے اسی وقت جواب بھی دیا تھا کہ تو بکتا ہے جھوٹا ہے تو منافق ہے۔ یہ واقعہ جنگ تبوک کے موقعہ کا ہے، مسجد میں اس نے یہ ذکر کیا تھا۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:16928:مرسل) اس میں ابو معشر ضعیف ہے ، اور محمد بن کعب ؒ تابعی ہیں اس لئے روایت مرسل ہے

سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ تبوک جاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منافقوں کا ایک گروہ بھی تھا جن میں ودیعہ بن ثابت اور مخشی بن حمیر وغیرہ تھے۔ یہ آپس میں کہ رہے تھے کہ نصرانیوں کی لڑائی عربوں کی آپس کی لڑائی جیسی سمجھنا سخت خطرناک غلطی ہے اچھا ہے انہیں وہاں پٹنے دو پھر ہم بھی یہاں ان کی درگت بنائیں گے۔
اس پر ان کے دوسرے سردار مخشی نے کہا: ”بھئی ان باتوں کو چھوڑو ورنہ یہ ذکر پھر قرآن میں آئے گا۔ کوڑے کھا لینا ہمارے نزدیک تو اس رسوائی سے بہتر ہے“
ابن اسحاقؒ بھی تابع التابعی ہیں لہذا یہ روایت بھی مقطوع ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا پہلو تو آپ نے دیکھا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ غزوہ تبوک میں منافقین نے توہین و گستاخی والا رویہ اپنایا ،
اب دوسرا پہلواس واقعہ کا یہ ہے کہ :
منافقین کی گستاخی کی تفصیلات ، اور الفاظ بتانے والی روایات سنداً ضعیف ہیں ،
لہذا اصل بات اور واقعہ تو بہرحال ثابت و واضح ہے کہ کچھ منافقین نے غزوہ تبوک کے موقع پر اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی توہین کا ارتکاب کیا
جسے اللہ نے آشکار کرکے انہیں رسوا کیا ۔
 
Top