• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غزوہ ہند والی روایات

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
آپ نے بالکل صحیح فرمایا،،،،،جزاک اللہ خیراً
ان احادیث کو کیش کروانے والے بڑی جرات سے مصروف عمل ہیں ؛؛
اور ان کے اس رویہ سے منکرین حدیث اور لبرل طبقہ سرے سے ایسی احادیث کا انکار کردیتا ہے
جزاک اللہ خیراً
درست فرمایا -ویسے موجودہ سیاسی تناظر میں تو یہ کام اور بھی آسان ہو گیا ہے-
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
مسند احمد کی روایت ہے

حدثنا هُشيم عن سَيَّار عن جَبْر بن عَبِيدَة عن أبي هريرة، قال: وعدَناِ رسول الله – صلى الله عليه وسلم – في غزوة الهند، فإن اسْتُشْهِدْتُ كنتُ من خير الشهداء، وإن رجعت فأنا أبو هريرة المُحَرَّرَةُ.


جَبْر بن عَبِيدَة ، أبي هريرة سے روایت کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے غزوہ ہند کا وعدہ کیا پس اگر اس کو پاؤ تو میں سب سے بہتر شہداء میں سے ہوں گا


الذھبی کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں کہتے ہیں

جبر بن عبيدة، أو جبير: عن أبي هريرة، مجهول


احمد شاکر نے اس روایت کو صحیح کہا ہے لیکن انہوں نے اس کی کوئی بھی مظبوط دلیل نہیں دی بلکہ یہ راوی مجھول ہے اس کی نہ توثیق ہے نہ جرح اور ایسے راویوں کو مجھول ہی کہا جاتا ہے اس کی مثالیں اتنی زیادہ ہیں کہ بے حساب – لہذا یہ روایت صحیح نہیں – البانی اور شعيب الأرناؤوط بھی اس کو ضعيف الإسناد کہتے ہیں اسی راوی کی سند سے سنن الکبری نسائی ، مستدرک حاکم، سنن الکبری البیہقی بَابُ مَا جَاءَ فِي قِتَالِ الْهِنْدِ میں روایت ہوئی ہے

عصمت الله کتاب غزوہ ہند میں اس کو پیش کرتے ہیں لیکن اس مجھول راوی کا اتا پتا ان کو بھی نہیں

عصمت الله صاحب کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس روایت کو امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں لکھا ہے

جرح و تعدیل کی کتابوں میں اس روایت کو لکھا گیا ہے کیونکہ اس مخصوص روایت کو صرف جبر بن عبيدة ہی نقل کرتا ہے نہ کہ یہ کوئی خوبی کی بات ہے

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا الْبَرَاءُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَلِيلِي الصَّادِقُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: «يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْثٌ إِلَى السِّنْدِ وَالْهِنْدِ، فَإِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُ فَاسْتُشْهِدْتُ فَذَاكَ، وَإِنْ أَنَا فَذَكَرَ كَلِمَةً رَجَعْتُ وَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ قَدْ أَعْتَقَنِي مِنَ النَّارِ


ابو ھریرہ کہتے ہیں

میرے دوست رسول الله نے مجھے بتایا کہ اس امت میں سند اور ہند کی طرف روانگی ہو گی اگر کوئی اس کو پائے تو ٹھیک اور اگر واپس پلٹ آئے تو میں ابو بریرہ ایک محرر ہو گا جس کو الله جہنم سے آزاد کر دے گا

شعيب الأرناؤوط اس کو إسناده ضعيف کہتے ہیں عصمت الله کتاب غزوہ ہند میں اس کو بڑے طمطراق کے ساتھ پیش کرتے ہیں جبکہ اسنادہ ضعیف

الحسن البصري کے لئے کہا جاتا ہے – لم يسمع من أبي هريرة انہوں نے ابو ھریرہ رضی الله عنہ سے نہیں سنا

نعیم بن حماد کی چوتھے درجے کی کتاب الفتن کی روایات بھی عصمت الله صاحب نے پیش کی ہیں مثلا کعب الاحبار کا قول جس کو حدیث کہا ہے اور اس کے ساتھ رضی الله عنہ بھی لگا دیا ہے کہ گویا وہ کوئی صحابی ہو- قول ہے

حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ كَعْبٍ، قَالَ: «يَبْعَثُ مَلِكٌ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ جَيْشًا إِلَى الْهِنْدِ فَيَفْتَحُهَا، فَيَطَئُوا أَرْضَ الْهِنْدِ، وَيَأْخُذُوا كُنُوزَهَا، فَيُصَيِّرُهُ ذَلِكَ الْمَلِكُ حِلْيَةً لَبَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَيُقْدِمُ عَلَيْهِ ذَلِكَ الْجَيْشُ بِمُلُوكِ الْهِنْدِ مُغَلَّلِينَ، وَيُفْتَحُ لَهُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، وَيَكُونُ مَقَامُهُمْ فِي الْهِنْدِ إِلَى خُرُوجِ الدَّجَّالِ»


کعب نے کہا کہ بیت المقدس کے بادشاہ کی جانب سے ہندوستان کی جانب لشکر روانہ کیا جائے گا پس ہند کو پامال کیا جائے گا اور اس کے خزانوں پر قبضہ کریں گے اور اس سے بیت المقدس کو سجائیں گے وہ لشکر ہند کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائے گا اور مشرق و مغرب فتح کرے گا اور دجال کا خروج ہو گا


اس کی سند میں الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ اور کعب کے درمیان مجھول راوی ہے جس کا نام تک نہیں لیا گیا- عصمت الله صاحب بھی اس کو منقطع کہتے ہیں تو پھر دلیل کیسے ہو گئی

ضعیف احادیث کی بنیاد پر لوگوں کو گمراہ کرنا مجھول راویوں پر یقین کرنا کہاں کا انصاف ہے

غزوہ ہند کی روایت نہایت کمزور ہیں اور اگر یہ صحیح بھی ہوں تو یہ غزوہ محمد بن قاسم رحمہ الله علیہ کی سربراہی میں ہو چکا ہے

اسی طرح کا مغالطہ ترکوں کو بھی ہوا اور کئی سو سال تک ترک بخاری کی قیصر کے شہر پر حملہ والی روایت کو اپنے خلفاء پر ثبت کرتے رہے جبکہ وہ لشکر جس نے سب سے پہلے قیصر کے شہر پر حملہ کیا وہ یزید بن معاویہ رحمہ الله علیہ کا لشکر تھا نہ کہ کوئی اور

یونانی لوگوں نے اندر سے منسوب اندر ندی کو انڈس ندی کہا اور وقت کے ساتھ عربوں میں یہی مقام ہند کہلایا
 
شمولیت
جنوری 16، 2012
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
163
پوائنٹ
49
جتنے بھی اہل حدیث جماعت الدعوۃ سے جلتے ہیں سب اپنے دل میں جانتے ہیں کہ ان کا جہاد حق پر ہے لیکن اپنے آپ کو ذرا کچھ زیادہ علمی ظاہر کرنے کے لیے اپنی ناک چھوٹی نہیں کرتے
سب کے سب جانتے ہیں کہ خالص جہاد یہی ہے باقی کفریہ جہاد ہے جو مسلمانوں پر ہوتا ہے بس وہی بات اپنی علم اور فقاہت کا تکبر اہل حدیثیت پر غالب آجاتا ہے
 
شمولیت
جنوری 31، 2017
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
تو پھر جماعت الدعوه کا کیا ہوگا جبکہ یہ جماعت تو صرف موجودہ ہندوستان سے ہی جہاد کے لئے بنائی گئی ہے ( سوچنے والا آئیکن)
بھائی جان. یہ دعوٰی ہی سراسر غلط ہے. پہلے صاحب مضمون سے اس دعوے کی دلیل تو مانگیں. ہندوستان کی اس قدر وکالت نجانے کیوں کی جا رہی ہے؟ باقی رہا وہ مدینہ قیصر پر حملے والی حدیث سے اس کو ملانا تو یہ دھوکہ دہی کے علاوہ کچھ نہیں. مدینہ قیصر والی حدیث میں اول جیش یعنی سب سے پہلے حملہ آور لشکر کی قید ہے جبکہ غزوہ ہند والی حدیث میں ایسی کوئی قید نہیں ہے. موجودہ پاکستان واقعی ہندوستان کا حصہ رہا ہے. لیکن اب یہ ہندو مشرکوں سے آزاد کردہ مسلم ملک ہے. ہندوستان کا باقی حصہ جو ہندو مشرکوں کے تسلط میں ہے اس کی آزادی اور وہاں اعلائے کلمۃاللہ کے لیے جہاد بلاشبہ وہی بشارت دیا ہوا غزوہ ہند ہی ہے. اور جماعۃ الدعوۃ کشمیریوں کی مدد کے ذریعے اسی عظیم عمل میں مصروف ہے. اللہ تعالٰی مدد فرمائے. آمین
 

عمیر سعد

مبتدی
شمولیت
فروری 01، 2017
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
18
مسند احمد کی روایت ہے

حدثنا هُشيم عن سَيَّار عن جَبْر بن عَبِيدَة عن أبي هريرة، قال: وعدَناِ رسول الله – صلى الله عليه وسلم – في غزوة الهند، فإن اسْتُشْهِدْتُ كنتُ من خير الشهداء، وإن رجعت فأنا أبو هريرة المُحَرَّرَةُ.


جَبْر بن عَبِيدَة ، أبي هريرة سے روایت کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے غزوہ ہند کا وعدہ کیا پس اگر اس کو پاؤ تو میں سب سے بہتر شہداء میں سے ہوں گا


الذھبی کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں کہتے ہیں

جبر بن عبيدة، أو جبير: عن أبي هريرة، مجهول


احمد شاکر نے اس روایت کو صحیح کہا ہے لیکن انہوں نے اس کی کوئی بھی مظبوط دلیل نہیں دی بلکہ یہ راوی مجھول ہے اس کی نہ توثیق ہے نہ جرح اور ایسے راویوں کو مجھول ہی کہا جاتا ہے اس کی مثالیں اتنی زیادہ ہیں کہ بے حساب – لہذا یہ روایت صحیح نہیں – البانی اور شعيب الأرناؤوط بھی اس کو ضعيف الإسناد کہتے ہیں اسی راوی کی سند سے سنن الکبری نسائی ، مستدرک حاکم، سنن الکبری البیہقی بَابُ مَا جَاءَ فِي قِتَالِ الْهِنْدِ میں روایت ہوئی ہے

عصمت الله کتاب غزوہ ہند میں اس کو پیش کرتے ہیں لیکن اس مجھول راوی کا اتا پتا ان کو بھی نہیں

عصمت الله صاحب کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس روایت کو امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں لکھا ہے

جرح و تعدیل کی کتابوں میں اس روایت کو لکھا گیا ہے کیونکہ اس مخصوص روایت کو صرف جبر بن عبيدة ہی نقل کرتا ہے نہ کہ یہ کوئی خوبی کی بات ہے

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا الْبَرَاءُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَلِيلِي الصَّادِقُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: «يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْثٌ إِلَى السِّنْدِ وَالْهِنْدِ، فَإِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُ فَاسْتُشْهِدْتُ فَذَاكَ، وَإِنْ أَنَا فَذَكَرَ كَلِمَةً رَجَعْتُ وَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ قَدْ أَعْتَقَنِي مِنَ النَّارِ


ابو ھریرہ کہتے ہیں

میرے دوست رسول الله نے مجھے بتایا کہ اس امت میں سند اور ہند کی طرف روانگی ہو گی اگر کوئی اس کو پائے تو ٹھیک اور اگر واپس پلٹ آئے تو میں ابو بریرہ ایک محرر ہو گا جس کو الله جہنم سے آزاد کر دے گا

شعيب الأرناؤوط اس کو إسناده ضعيف کہتے ہیں عصمت الله کتاب غزوہ ہند میں اس کو بڑے طمطراق کے ساتھ پیش کرتے ہیں جبکہ اسنادہ ضعیف

الحسن البصري کے لئے کہا جاتا ہے – لم يسمع من أبي هريرة انہوں نے ابو ھریرہ رضی الله عنہ سے نہیں سنا

نعیم بن حماد کی چوتھے درجے کی کتاب الفتن کی روایات بھی عصمت الله صاحب نے پیش کی ہیں مثلا کعب الاحبار کا قول جس کو حدیث کہا ہے اور اس کے ساتھ رضی الله عنہ بھی لگا دیا ہے کہ گویا وہ کوئی صحابی ہو- قول ہے

حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ كَعْبٍ، قَالَ: «يَبْعَثُ مَلِكٌ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ جَيْشًا إِلَى الْهِنْدِ فَيَفْتَحُهَا، فَيَطَئُوا أَرْضَ الْهِنْدِ، وَيَأْخُذُوا كُنُوزَهَا، فَيُصَيِّرُهُ ذَلِكَ الْمَلِكُ حِلْيَةً لَبَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَيُقْدِمُ عَلَيْهِ ذَلِكَ الْجَيْشُ بِمُلُوكِ الْهِنْدِ مُغَلَّلِينَ، وَيُفْتَحُ لَهُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، وَيَكُونُ مَقَامُهُمْ فِي الْهِنْدِ إِلَى خُرُوجِ الدَّجَّالِ»


کعب نے کہا کہ بیت المقدس کے بادشاہ کی جانب سے ہندوستان کی جانب لشکر روانہ کیا جائے گا پس ہند کو پامال کیا جائے گا اور اس کے خزانوں پر قبضہ کریں گے اور اس سے بیت المقدس کو سجائیں گے وہ لشکر ہند کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائے گا اور مشرق و مغرب فتح کرے گا اور دجال کا خروج ہو گا


اس کی سند میں الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ اور کعب کے درمیان مجھول راوی ہے جس کا نام تک نہیں لیا گیا- عصمت الله صاحب بھی اس کو منقطع کہتے ہیں تو پھر دلیل کیسے ہو گئی

ضعیف احادیث کی بنیاد پر لوگوں کو گمراہ کرنا مجھول راویوں پر یقین کرنا کہاں کا انصاف ہے

غزوہ ہند کی روایت نہایت کمزور ہیں اور اگر یہ صحیح بھی ہوں تو یہ غزوہ محمد بن قاسم رحمہ الله علیہ کی سربراہی میں ہو چکا ہے

اسی طرح کا مغالطہ ترکوں کو بھی ہوا اور کئی سو سال تک ترک بخاری کی قیصر کے شہر پر حملہ والی روایت کو اپنے خلفاء پر ثبت کرتے رہے جبکہ وہ لشکر جس نے سب سے پہلے قیصر کے شہر پر حملہ کیا وہ یزید بن معاویہ رحمہ الله علیہ کا لشکر تھا نہ کہ کوئی اور

یونانی لوگوں نے اندر سے منسوب اندر ندی کو انڈس ندی کہا اور وقت کے ساتھ عربوں میں یہی مقام ہند کہلایا
تو پھر آپ سے گزارش ہے کہ آپ غزوہ ہند کی مخالفت کر کہ '' اکھنڈ بھارت "کے لیے کام کریں،، کیونکہ پھر یہی صورت رہ جاتی ہے، آج بے جے پی اور آر ایس ایس اسی نقشہ پر کام کر رہے ہیں، آپ ہندوستان کے خلاف جہاد نہیں کریں گے تو لازمی طور پر آپ کو اکھنڈ بھارت تسلیم کرنا پڑے گا، پھر اس کے نتیجے میں آپ کی '' شدی کرن '' بھی ہو گی، ایسا ہو گا اور لازماً ہو گا،، آپ کی یہ تاویلیں آپ کے کسی کام نہیں آئیں گی،، جتنی مخالفت آپ غزوہ ہند کے اس دور کی کر رہے ہیں کاش اتنی مخالفت آپ '' اکھنڈ بھارت کی کرتے،، لیکن
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

Sent from my MI 4W using Tapatalk
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ان لولی آل ٹائم کےآل ٹائم مراسلہ دیکھ کر میں ان کی حمایت میں تو کچھ نہیں کہوں گا، ہاں اپنا مؤقف بتلا سکتا ہوں، کہ میں ''اکھنڈ بھارت'' کے حق میں ہوں، اگر حکومت مسلمانوں کی ہو! اور صدیوں تک ''اکھنڈ بھارت'' اس صورت میں رہا ہے!
لیکن بعض افراد کا یہ پیمانہ کہ پاک بھارت جنگ کو اس غزوہ ہند کے مصداق ماننے نہ ماننے پر حق وباطل کا فیصلہ کرتے ہیں، میں اس سے قطعی متفق نہیں!
 

عمیر سعد

مبتدی
شمولیت
فروری 01، 2017
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
18
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ان لولی آل ٹائم کےآل ٹائم مراسلہ دیکھ کر میں ان کی حمایت میں تو کچھ نہیں کہوں گا، ہاں اپنا مؤقف بتلا سکتا ہوں، کہ میں ''اکھنڈ بھارت'' کے حق میں ہوں، اگر حکومت مسلمانوں کی ہو! اور صدیوں تک ''اکھنڈ بھارت'' اس صورت میں رہا ہے!
لیکن بعض افراد کا یہ پیمانہ کہ پاک بھارت جنگ کو اس غزوہ ہند کے مصداق ماننے نہ ماننے پر حق وباطل کا فیصلہ کرتے ہیں، میں اس سے قطعی متفق نہیں!
وہ اکھنڈ بھارت نہیں تھا بلکہ وہ خلافت اسلامیہ تھی، جبکہ اکھنڈ بھارت ہندوؤں کا خواب ہے، جسے پورا کرنے کے لیے وہ پاکستان کو مٹانا چاہتے ہیں، کون مسلمان اس اکھنڈ بھارت کو چاہے گا؟
باقی آپ غزوہ ہند کی احادیث کو ضعیف ثابت کر لیجیے، لیکن بھارت '' اکھنڈ بھارت،، کے لیے پاکستان سے جنگ ضرور کرے گا اور اس جنگ میں اسلامی نقطہ نظر سے مسلمانوں کو کس کا ساتھ دینا ہوگا، اس کا فیصلہ غزوہ ہند کے مخالفین کو کرنا ہے،،

Sent from my MI 4W using Tapatalk
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں ''اکھنڈ بھارت'' کے حق میں ہوں، اگر حکومت مسلمانوں کی ہو! اور صدیوں تک ''اکھنڈ بھارت'' اس صورت میں رہا ہے!
ملون الفاظ کو نظر انداز نہ کیا جائے!
اس کا فیصلہ غزوہ ہند کے مخالفین کو کرنا ہے،،
یہ کن لوگوں کے بارے میں ہے؟ بندہ کب غزوہ ہند کا مخالف قرار پاتا ہے؟
 
Top