• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غصہ اور اس کے اسباب وعلاج

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
غصہ اور اس کے اسباب وعلاج
تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)

غصہ ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے ،یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے ،اس وجہ سے ہر شخص کے اندر اس فطرت کا وجود ہے اور مشاہدہ میں بھی آتا ہے ۔ ایسانہیں ہے کہ غصہ امیروں کی دولت ہے ، اور فقیر ومسکین کو کبھی غصہ نہیں آتا ۔یہ ہرانسان کی صفت ہے، بچپن سے لیکر بڑھاپے تک اس کا ظہور ہوتا ہے جو اس بات کی ناقابل تردیدعلامت ہے کہ غصہ انسانی فطرت وطبیعت کا جزء لاینفک ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول کے کلام سے بھی واضح طورپر معلوم ہوتا ہے ۔اللہ تعالی مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :
الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ
ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (آل عمران:134)
ترجمہ: جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ، غصّہ پینے والے اور لوگوں سے درگُزر کرنے والے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے ۔
اور نبی ﷺ نے فرمایا:
لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ.(صحیح البخاری:6114)
ترجمہ: پہلوان وہ نہیں ہے جو کشتی لڑنے میں غالب ہو جائے بلکہ اصلی پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پائے بے قابو نہ ہو جائے۔
قرآنی آیت اور حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے غصہ انسانی فطرت ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس فطرت کو اسلام نے دباکر اورقابو میں رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں:
أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَوْصِنِي ، قَالَ : لَا تَغْضَبْ فَرَدَّدَ مِرَارًا ، قَالَ : لَا تَغْضَبْ۔(صحیح البخاری:6116)
ترجمہ: ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے آپ کوئی نصیحت فرما دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر۔ انہوں نے کئی مرتبہ یہ سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر۔
ایک بات واضح ہوگئی کہ غصہ فطرت انسانی ہے تاہم اس پہ قابو نہ رکھنے سے بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ میاں بیوی میں جدائی، اولاد ووالدین میں دوری، بہن وبھائی میں اختلاف، فرد ومعاشرہ میں بگاڑ ، دنیا میں ظلم وبربریت اور فتنہ وفساد کی جڑ غصہ ہے ۔ جب تک غصہ دبا ہوتا ہے تب تک فتنہ دبا ہوتا ہے اور جب غصہ بے قابو ہوجاتا ہے تو فتنہ وفساد بھی اپنا منہ کھول لیتا ہے ۔ ایسے موقع سے شیطان کافی فائدہ اٹھاتا ہے ۔ وہ دو فریق میں نفرت وانتقام کی آگ بھڑکاتا ہے اور انسان بلادریغ ایک دوسرے کا خون کر بیٹھتا ہے۔ غصہ کے برے اثرات انسانی جسم وروح پر بھی مرتب ہوتے ہیں ۔ چہرہ دیکھ کر ہم بھانپ سکتے ہیں کہ آدمی غصے میں ہے ، رگیں پھول جانا ، چہرہ سرخ ہوجانااور سانسوں میں تیزی پیدا ہونا غصہ ہونے کی علامت ہے۔
یہ معدے کی شکایت، کولیسٹرول کی زیادتی، آنتوں کی پریشانی، قوت مدافعت کی کمی،فالج کا خطرہ اور دل کے امراض کاسبب ہے ۔ اسی طرح مرض یرقان سے لیکر سر، یادداشت، غوروفکر اور نظام اعصاب تک متاثر کرتا ہے بلکہ موت کا بھی راستہ ہموار کرسکتا ہے۔
جب سماج ومعاشرہ کی تباہی کااصل سبب غصہ ہے تو پھر ہمیں اس کے اسباب معلوم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان اسباب سے پہلو تہی اختیار کرکے غصہ پر قابو پایا جا سکے ۔
(1) غصہ بھڑکنے کا ایک اہم سبب تکبر ہے ، جس کے پاس تکبر ہوگا وہ بات بات پر غصہ ہوگا اورلوگوں کو حقیر سمجھتے ہوئے اس پر زیادتی کرے گا ۔ اس لئے اسلام نے تکبر کی مذمت بیان کی ہے اور متکبر شخص پر جنت ممنوع کردیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
لا يَدْخُلُ الجَنَّةَ مَن كانَ في قَلْبِهِ مِثْقالُ ذَرَّةٍ مِن كِبْرٍ.(صحیح مسلم:91)
ترجمہ:وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی کبروغرور ہوگا۔
جسے اپنی آخرت کی فکر ہوگی وہ کبھی تکبر کی نجاست میں ملوث ہوکر جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔
(2) بدگوئی ، لفاظی،بلاضرورت طول کلامی ،کٹھ جحتی ، استہزا،سخت کلامی ، ایڑیل پن،غیبت،بدمزاجی، چڑچڑاپن یعنی بداخلاقی کے جتنے اوصاف ہیں ان سے غصہ جنم لیتا ہے اور آپس میں نفرت پیدا ہوتی ہے اس لئے مومن کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ نہایت سیدھا سادا اور شریف النفس ہوتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : المؤمنُ غرٌّ كريمٌ ، والفاجرٌ خِبٌّ لئيمٌ.(صحيح أبي داود:4790)
ترجمہ: مومن بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے اور فاجر فسادی اور کمینہ ہوتا ہے۔
ہم کم سے کم بات کریں، خود کو اخلاق حسنہ سے مزین کریں اور زبان کی آفتوں سے بچیں کہ یہی بڑی سے بڑی مشکلات لانے والی ہے اسی لئے تو رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَن يَضْمَن لي ما بيْنَ لَحْيَيْهِ وما بيْنَ رِجْلَيْهِ أضْمَن له الجَنَّةَ.(صحيح البخاري:6474)
ترجمہ: جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے تو میں اس کے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے : من حسنِ إسلامِ المَرءِ تركُه ما لا يعنيه(صحيح الترمذي:2317)
ترجمہ: فضول باتوں کو چھوڑ دینا، آدمی کے اسلام کی اچھائی کی دلیل ہے۔
ان تمام دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ میں اخلاق وکردار والا، ضرورت بھر نرمی اور ادب سے بات کرنے والا، زبان کا صحیح استعمال کرنے والا اور حجت کے وقت خاموش ہونے والا ہو وہ غصہ کی آفات سے بچ جائے گا۔
(3) سماج میں کئی طبقے ہیں ، ان میں جاہل ونادان بڑی کثرت سے موجود ہیں ، ان احمقوں کا کام شریف لوگوں کو چھیڑنا اور ان کے جذبات برانگیختہ کرکے فساد برپا کرنا ہوتا ہے ۔ ایسے موقع پر ایک شریف انسان کا شعار جاہلوں کی جہالت وبدتمیزی پہ صبروخاموشی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے :وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (الفرقان:63)
ترجمہ: اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔
یہاں سلام کہنے سے مراد ہے جہالت پہ خاموشی اختیار کرنا۔ اسی سورت میں آگے اللہ کا ارشاد ہے :
إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا (الفرقان:72)
ترجمہ: اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں ۔
یہاں بھی شرافت سے گزر جانے کا مطلب ہے بدکلامی پہ خاموشی اختیار کرنا اور جو بدکلامی پہ خاموشی اختیار کرلے وہ فتنے سے محفوظ ہوجائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :مَن صَمت نَجا(صحيح الترمذي:2501)
ترجمہ: جس نے خاموشی اختیار کی اس نے نجات پالی۔
(4) کبھی ہم انتقام لینے میں حق بجانب ہوتے ہیں کیونکہ ہم پر ظلم کیا گیا ہوتا ہے مگر انتقام مزیدبگاڑ وفساد اور غیض وغضب کا پیش خیمہ ہے اس وجہ سے اسلام نے معاف کرنے والے کو سراہا ہے ۔اللہ تعالی فرماتا ہے :وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (الشوری: 37)
ترجمہ: وہ لوگ جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں اور جب غصے میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں۔
نبی ﷺ نے فرمایا: مانَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِن مالٍ، وما زادَ اللَّهُ عَبْدًا بعَفْوٍ، إلَّا عِزًّا، وما تَواضَعَ أحَدٌ لِلَّهِ إلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ.(صحیح مسلم:2588)
ترجمہ: صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کے معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی بھی اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے۔
(5) غصہ کا ایک بھیانک سبب، تشدد پر مبنی حالات سے دورچارہونا یا پرتشدد افلام کا مشاہدہ کرنا یا شدت والے ماحول اور دوستی استوار کرنا ہے۔ ہمیں ایسے شدت پسند ماحول ، شدت پسند دوست اور پرتشدد مناظروافلام دیکھنے سے باز رہنا چاہئے ورنہ ایسی شدت اور اس کا ردعمل غصہ کی شکل میں ہمارے جسم وروح میں سرایت کرے گا۔
(6) شیطان ہماری رگوں میں گردش کرتا ہے اسے معلوم ہے کہ انسانی طبیعت میں غصہ موجود ہے بس اس میں اشتعال پیدا کرنا ہے اس کے بعد خود ہی شیطانی عمل ظہورپذیر ہوتا ہے ۔ اس بات کو اچھی طرح محسوس کریں اور شیطانی حملے سے بچتے رہیں ۔ اس کےلئے نمازوں کی پابندی، اذکار پہ مداومت اور جلوت وخلوت میں اللہ کا خوف پیدا کرنا ہے ۔
(7) اللہ سے بے خوف ہونا، معصیت پہ اصرار کرنا اور دینی تعلیمات کے حصول اور ان پر عمل کرنے سے گریز کرنا بھی انسانی طبیعت میں غصہ بھڑکانے کا کام کرسکتا ہے۔ آدمی جس قدر متقی ہوگا، گناہوں سے پرہیز کرے گا ، دین کا علم حاصل کرے گا اور اسے عملی جامہ پہنائے گا وہ اللہ کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ بندوں کے حقوق بھی عمدگی کے ساتھ ادا کرے گا اور کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا۔
(8) موجودہ زمانے میں کسی کے خلاف بات کرنا بھی غصہ کا سبب ہے ، حد تو یہ ہے کہ حق گوئی پر بھی غصہ کیا جاتا ہے ۔ ان دونوں امورمیں حکمت وبصیرت لازم ہے یعنی بات کرنے میں سلیقہ اور حکمت چاہئے اور اپنے خلاف حق بات سننے پر بجائے غصہ ہونے کے اسے قبول کرنا چاہئے۔
(9) ذہنی تناؤ اور الجھن کا شکار ہونا بھی غصہ پیدا کرنے کا سبب ہے ۔ آج کے زمانے میں اکثریت ٹینشن کا بوجھ پال رہی ہے ۔ کسی کو دولت تو کسی کو غربت ، کسی کو تجارت توکسی کو سیاست، کسی کو گھریلو تو کسی کوسماجی تناؤ نے ٹینشن کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں چہار دانگ عالم میں لوٹ مار،اختلاف وانتشار، قتل وٖغارت گری، فتنہ وفساداور ظلم وتعدی عروج وانتہا کو ہے۔ اسلام نے ہمیں زندگی گزارنے کے سنہرے اصول دئے ہیں ،انہیں برتنے والا ہر طرح کی مایوسی، پریشان خیالی اور فکر واضطراب سے بچا رہے گا۔
(10) جہاں عصبیت ہوگی وہاں غصہ بھی اپنی جگہ بنائے گا اور موقع بموقع ظاہر ہوکر بگاڑ پیدا کرتا رہے گا ، آج کے دور میں فساد کی بڑی وجہ عصبیت بھی ہے۔ کہیں پرقومی عصبیت نے تو کہیں پر قبائلی عصبیت نے تباہی مچا رکھی ہے۔ خاندانی عصبیت یا لسانی عصبیت نے بھی صالح سماج کا خون کیا ہے۔مسلمانوں کے درمیان مسلکی عصبیت نے تو اس قوم کو کئی ٹکڑوں میں بانٹ دیا اور یہ قوم اپنی طاقت واتحاد کھوکر بھی خوش ہے۔ اسلام نے جسے اپنا بھائی کہا ہے عصبیت میں مسلمان اسے اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور جسے دشمن کہا گیا ہے اسے اپنا دوست بنارہے ہیں ۔اے کاش ہمیں عصبیت سے چھٹکارا مل جائے تو سماج کی بہتری کے ساتھ ساتھ دینی اعتبار سے بھی ہماری ترقی ہوگی۔

غصہ کے وقت فوری تدابیر
اوپر چند اسباب بیان کئے گئے ہیں جو غصہ لانے کا سبب بنتے ہیں اگر ان سے بچا جائے تو غصہ پر انسان قابو پالےگا اور اس کے برے انجام سے زندگی بھر بچتا رہے گا۔ اگر خدانخواستہ غصہ آجائے تو ہمیں فوری طور پر کیا کرنا چاہئے؟
(1) سب سے پہلےشیطان سے اللہ کی پناہ مانگنا چاہئے کیونکہ وہی اصل محرک ہے جو دل میں وسوسہ ڈال کر طبیعت کے اندرونی حصے سے غصہ کو باہر نکال دیا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے : وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ(الأعراف:200)
ترجمہ: اگر تمہیں شیطان کی طرف سے چو کا لگے (یعنی شیطان غصے کو مشتعل کر دے) تو اللہ کی پناہ مانگ یقینا وہی سننے والا ، جاننے والا ہے۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے :إذا غَضِبَ الرجلُ فقال أعوذُ باللهِ سَكَنَ غضبُه(صحيح الجامع:695)
ترجمہ: جب آدمی کو غصہ آئے اور اللہ سے پناہ مانگ لے تو اس کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔
صحیحین میں دوشخص کے گالی گلوج کا ذکر ہے ، ان میں سے ایک کا چہرہ غصے میں سرخ ہوجاتا ہے اور رگیں پھول جاتی ہیں، آپ ﷺ نے اس غصہ ہونے والے شخص کے پاس آکر فرمایا : إني لأعلم كلمة لو قالها لذهب عنه : أعوذ بالله من الشيطان الرجيم (صحيح البخاري: 3282،صحيح مسلم:2610)
ترجمہ: میں ایک کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ اسے کہہ لے تو اس کی یہ کیفیت دور ہوجائے ، وہ کلمہ ہے" اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم " (میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں)۔
(2) اس کے بعد فورا زبان پہ خاموشی اختیار کرلینی چاہئے کیونکہ جس قدر زبان کھولے گا، غلط الفاظ نکلیں گے اور غصہ میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ، اسی لئے نبی ﷺ نے فرمایا: إذا غَضِبَ أحدُكم فلْيسكتْ(صحيح الجامع:693)
ترجمہ:جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے خاموشی اختیار کرنا چاہئے۔
(3) اپنی حالت تبدیل کرلینا چاہئے یعنی کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں اور بیٹھے ہوں یا بیٹھنے سے غصہ دور نہ ہو تو لیٹ جائیں۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں :
إذا غضبَ أحدُكم وهو قائمٌ فلْيجلسْ، فإن ذهبَ عنه الغضبُ وإلاَّ فلْيَضْطَجِعْ.(صحيح أبي داود:4782)
ترجمہ: جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہوتو چاہئے کہ بیٹھ جائے، اب اگر اس کا غصہ رفع ہوجائے تو بہتر ہے ورنہ پھرلیٹ جائے ۔
(4) غصہ کے وقت بعض حدیث میں وضو کرنا اور بعض حدیث میں غسل کرنا آیا ہے ان دونوں قسم کی احادیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے،اس لئے غصہ کے وقت وضو یا غسل کرنے کو نبی ﷺ کی طرف منسوب نہیں کیا جائے گا تاہم اہل علم نے لکھا ہے کہ غصہ کے وقت ٹھنڈے پانی کا استعمال مفید ہے، اس لئے غصہ کے وقت پانی پی لیا جائے یا ہاتھ منہ دھل لیا جائے تو بہتر ہی ہوگا۔
نوٹ : مضمون جاری ہے ، ان شاء اللہ
 
Last edited:

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
غصہ اور اس کے اسباب وعلاج (دوسری اور آخری قسط)

غصہ روکنے والے اسباب:

غصہ اور نرمی دونوں اوصاف ہر انسانی فطرت میں موجود ہے ، کوئی غصہ زیادہ کرتا ہے اور نرمی کا دامن چھوڑدیتا ہے اور کوئی نرم مزاجی اپناتا ہے اور غصہ کم رکھتا ہے ۔ گویا ایک انسان اپنی فطرت کو بدل نہیں سکتا مگر غصہ کو کم ضرور کرسکتا ہے ۔ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ جب غصہ آجائے تو اس کا فوری علاج کیا ہے ؟ اب یہاں بتانا چاہتا ہوں کہ آپ غصہ کو ہمیشہ کنٹرول میں کیسے رکھ سکتے ہیں ؟
سب سے پہلے نمبر پہ ان تمام اسباب سے بچنا ہے جو غصہ بھڑکانےاور غصہ میں زیادتی پیدا کرنے والے ہیں ۔ پہلے غصہ دلانے والے اسباب ذکر کئے جاچکے ہیں۔ ان میں تکبر، برے اخلاق، لوگوں کی جہالت ونادانی ،بے صبری،انتقام کا جذبہ، تشدد پہ مبنی فلم بینی،شیطانی عمل،ذہنی تناؤ، عصبیت وغیرہ ہیں ۔
اسی طرح طبیعت میں نرمی پیدا کرنا، عبادت پہ اجتہاد کرنا، کثرت سے روزہ رکھنا، زبان کوذکر الہی سے تر رکھنا، فضول گوئی سے بچنا بلکہ خاموشی کی صفت اختیار کرنا، صدقہ وخیرات کرنا، فقراءومساکین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، گناہ کبیرہ اورفحش کاموں سے بچناغصہ کم کرنے میں معاون ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (الشورى:37)
ترجمہ:اور کبیرہ گناہوں سے اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں اور غصے کے وقت (بھی) معاف کر دیتے ہیں ۔
اس آیت میں کبیرہ گناہوں سے بچنےاور فحش کاموں سے رکنے کا ذکرکرکےاللہ نے مومن کی ایک صفت یہ بھی بیان کی کہ وہ غصہ کے وقت معاف کردیتے ہیں ۔مزید ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ اللہ نے ہمیں غصہ کا انتقام لینے کی طاقت دی ہے مگر معاف کرنے والا اللہ کے نزدیک بہتر انسان ہے ۔ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے خرچ کرنے والے ، غصہ روکنے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والےکی تعریف کی ہے ۔ فرمان الہی ہے :
الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ
ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (آل عمران:134)
ترجمہ:جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ، غصّہ پینے والے اور لوگوں سے درگُزر کرنے والے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے۔
اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ غصہ روک سکتے ہیں ،یہ کوئی ایسی صفت نہیں ہے جس پہ بندوں کا اختیار نہ ہو۔اگر غصہ پہ قابو نہیں پایا جاسکتا تو پھر ہرکمزور اپنے سے طاقتورسے بدلہ لے لیتا ، اس طرح دنیا میں کوئی ظلم نہیں کرتا مگر ظالم سے کمزور وں کابدلہ نہ لینا اس بات کی دلیل ہے کہ کمزور نے اپنے غصہ پہ قابو رکھ لیا تاکہ کہیں وہ ظالم سے مزید ظلم کے شکار نہ ہوجائے ۔قدرت رکھتے ہوئے معاف کردینے والا جنت میں من پسند حور منتخب کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں :
من كظمَ غيظًا وَهوَ يستطيعُ أن ينفذَه دعاهُ اللَّهُ يومَ القيامةِ علَى رءوسِ الخلائقِ حتَّى يخيِّرَه في أيِّ الحورِ شاءَ(صحيح الترمذي:2021)
ترجمہ:جو شخص غصہ ضبط کر لے حالانکہ وہ اسے کر گزرنے کی استطاعت رکھتا ہو، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ وہ جس حور کو چاہے منتخب کر لے۔
غصہ اختیاری معاملہ ہے ، کوئی غصے میں کسی کا قتل کردے تو دنیا کی عدالت بھی اس کی سزا معاف نہیں کرے گی اور اللہ کے یہاں سزا تو ہوگی ہی ۔ ایک انسان جب اس حیثیت سے کہ غصہ کا انجام برا ہے ، اس پہ اللہ کے یہاں مواخذہ ہوگا، سوچے گا تو اس کا غصہ نرم ہوگا اور غصے میں بھی معصیت کا کوئی کام کرنے سے بچے گا۔نبی ﷺ نے غصہ کے وقت حق گوئی کی اللہ سے دعا مانگی ہے ، فرمان رسولﷺ ہے :
أسألُكَ كلمةَ الحقِّ في الرِّضا والغضَبِ(صحيح النسائي:1304)
ترجمہ: اے اللہ میں تجھ سے خوشی اور غصہ دونوں حالتوں میں کلمہ حق کہنے کی توفیق مانگتا ہوں ۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں ڈرنے پر یہ کلمات کہنے کو سکھلاتے تھے:
أعوذُ بِكَلماتِ اللَّهِ التَّامَّةِ ، من غَضبِهِ وشرِّ عبادِهِ ، ومن هَمزاتِ الشَّياطينِ وأن يحضُرونِ(صحيح أبي داود:3893)
ترجمہ: میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے کلموں کی اس کے غصہ سے اور اس کے بندوں کے شر سے اور شیاطین کے وسوسوں سے اور ان کے میرے پاس آنے سے۔

اللہ اوراس کے رسول کا غصہ :
غصہ ہونا اللہ اور اس کے رسول کی بھی صفت ہے ، اس لئے ہرقسم کا غصہ معیوب نہیں ہے بلکہ بعض جگہوں پراعتدال کے ساتھ غصہ امر مستحسن ہے ۔ اللہ تعالی کے غصہ کے متعلق رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
لَمَّا قَضَى اللَّهُ الخَلْقَ كَتَبَ في كِتابِهِ فَهو عِنْدَهُ فَوْقَ العَرْشِ إنَّ رَحْمَتي غَلَبَتْ غَضَبِي.(صحيح البخاري:3194)
ترجمہ: جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کر چکا تو اپنی کتاب (لوح محفوظ) میں ، جو اس کے پاس عرش پر موجود ہے ، اس نے لکھا کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے ۔
اللہ اپنے بندوں پر یونہی ناراض نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے احکام کی نافرمانی ہوتی ہے تو اللہ غصہ ہوتا ہے اور بندوں کو سزا دیتا ہے ، کبھی دنیا میں دیتا ہے اور کبھی آخرت میں دے گا اور کبھی دنیا وآخرت دونوں جگہ سزا دیتا ہے ۔ اللہ کے غصے سے متعلق قرآن کی چند آیات ملاحظہ کریں ۔
اللہ کا فرمان ہے:وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ
ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ (البقرۃ:61)
ترجمہ:ان پر ذلت اور مسکینی ڈال دی گئی اور اللہ کا غضب لے کر وہ لوٹے یہ اسلئے کہ وہ اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے: وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (النساء:93)
ترجمہ:اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، اس پر اللہ تعالٰی کا غضب ہے ، اسے اللہ تعالٰی نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي
ۖ وَمَن يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَىٰ (طہ:81)
ترجمہ:تم ہماری دی ہوئی پاکیزہ روزی کھاؤ ، اور اس میں حد سے آگے نہ بڑھو ورنہ تم پر میرا غضب نازل ہوگا اور جس پر میرا غضب نازل ہو جائے وہ یقیناً تباہ ہوا ۔
اس قسم کی کئی آیات ہیں طوالت کی وجہ سے صرف نظر کرتا ہوں ۔ یاد رکھیں ، اللہ کا غصہ دوزخ میں لے جانے کا سبب ہے ۔ نبی ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
إنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بالكَلِمَةِ مِن رِضْوانِ اللَّهِ، لا يُلْقِي لها بالًا، يَرْفَعُهُ اللَّهُ بها دَرَجاتٍ، وإنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بالكَلِمَةِ مِن سَخَطِ اللَّهِ، لا يُلْقِي لها بالًا، يَهْوِي بها في جَهَنَّمَ.(صحيح البخاري:6478)
ترجمہ:بندہ اللہ کی رضا مندی کے لیے ایک بات زبان سے نکالتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اسی کی وجہ سے اللہ اس کے درجے بلند کر دیتا ہے اور ایک دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضگی(غصہ) کا باعث ہوتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے۔
اللہ کے غیظ وغضب سے بچنے کے لئے بندہ اس کی نافرمانی سے بچتا رہے اور صدقہ کا خصوصی الزام کرے کہ یہ اللہ کا غصہ بجھا دیتا ہے ۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں : إنَّ الصدقةَ تُطْفِئُ غضبَ الربِّ ، وتَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوءِ(الترمذی:667)
ترجمہ: صدقہ رب کے غصے کو بجھا دیتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔
یہ حدیث سندا ضعیف ہے مگر اس کے پہلے حصے کو شیخ البانی نے کثرت شواہد کی بنیاد پر قوی کہا ہے ۔(تمام المنة:390)
نبی ﷺبھی غصہ ہوتے تھے ، وعظ ونصیحت کے وقت غصہ ہوتے، کسی کو جھگڑتے دیکھتے تو غصہ ہوتے، کسی کے بارے میں غلط سنتے یا کسی کو غلطی کرتے دیکھتے تو غضبناک ہوجاتے ۔اس سلسلے میں احادیث میں بے شمار واقعات موجود ہیں جن سب کا ذکر اس چھوٹے مضمون میں ممکن نہیں ہے ۔تاہم چند مثالیں آپ کے سامنے پیش کردیتا ہوں ۔
(1)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ گھر میں داخل ہوئے ، گھر میں ایک پردہ لٹکا ہوا تھا جس پر تصویریں تھیں ، اس کی وجہ سے نبی ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔(صحیح البخاری: 6109)
(2)ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! میں فجر کی نماز میں تاخیر کر کے اس لئے شریک ہوتا ہوں کہ فلاں صاحب فجر کی نماز بہت طویل کر دیتے ہیں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں :"فما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قطُّ أشد غضبًا في موعظة منه يومئذ"یعنی اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر غصہ ہوئے کہ میں نے نصیحت کے وقت اس دن سے زیادہ غضب ناک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا۔(صحیح البخاری: 6110)
(3)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ریشمی دھاریوں والا ایک جوڑا، حلہ عنایت فرمایا۔ میں اسے پہن کر نکلا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر غصہ کے آثار دیکھے۔ چنانچہ میں نے اس کے ٹکڑے کر کے اپنی عزیز عورتوں میں بانٹ دیئے۔ (صحیح البخاری: 5840)
(4)حضرت ابوہرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
خرجَ علَينا رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ ونحنُ نتَنازعُ في القَدرِ فغَضبَ حتَّى احمرَّ وجهُهُ ، حتَّى كأنَّما فُقِئَ في وجنتيهِ الرُّمَّانُ(صحيح الترمذي:2133)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف نکلے، اس وقت ہم سب تقدیر کے مسئلہ میں بحث و مباحثہ کر رہے تھے، آپ غصہ ہو گئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ایسا نظر آنے لگا گویا آپ کے گالوں پر انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں۔

ممنوع اور مطلوب غصہ:
ہر وہ غصہ ممنوع ہے جسے اللہ اور اس کے رسول ناپسند کریں۔ اس بات کو دوسرے لفظوں میں ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت میں غصے والا کوئی بھی کام کرنا ممنوع ہے مثلا کسی پربغیر غلطی کےغصہ ہونا، حق بات بولنے والے پر غصہ ہونا، ناحق پر ہوتے ہوئے بھی غصہ کرنا، انتقام کی آگ میں جلنا،کمزوروں کو دبانے کے لئے غصے کا اظہار کرنا، غصہ کے وقت فیصلہ کرنا، زبردستی دھونس جماکر دوسروں کا حق چھیننا ، طاقت ومال کے زعم میں تکبر کرنا، عہدومناصب کا ناجائز فائدہ اٹھانا، ماتحتوں پر رعب جمانا وغیرہ ۔ بیجا غصہ والا کام تو منع ہے ہی ، معصیت کا کوئی کام بھی اللہ کے غصہ کا سبب ہے ۔ ہم سے مطلوب ہے کہ منکر کے مٹانے میں حد اعتدال میں رہتے ہوئے غصہ کا اظہار کریں جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے بچوں کو ترک نماز پہ مارنے کا حکم دیا ہے، سرکشی پہ بیوی کو ہلکی مارمار نے کا ذکر ہے، برائی دیکھنے پر پہلے ہاٹھ سے مٹانے کا حکم ہوا ہے ، ان سارے کام میں غصہ کا عنصر شامل ہے ۔اس وجہ سے ہمیں حق ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی پر غصہ کا اظہار کریں اور غصہ بھی اس قدر نہ ہو کہ فائدہ کی بجائے الٹا نقصان ہوجائے اور اظہار غصہ میں مناسب وقت اور حکمت ودانائی بھی ضروری ہے ۔ بات بات پہ غصہ ، بے محل غصہ ، حد اعتدال سے بڑھا ہوا غصہ تباہی کا سبب ہے اس سے بچنا ضروری ہے ۔ مطلوب غصہ میں معیار یہ فرمان رسول ہے: ما انْتَقَمَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لِنَفْسِهِ في شيءٍ قَطُّ، إلَّا أنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ، فَيَنْتَقِمَ بهَا لِلَّهِ.(صحيح البخاري:6126)
ترجمہ: نبی ﷺ نے اپنی ذات کے لئے کسی سے بدلہ نہیں لیا البتہ اگر کوئی شخص اللہ تعالی کی حرمت وحد کو توڑتا تو آپ اس سے محض اللہ کی رضامندی کے لئے بدلہ لیتے ۔
 
Top