• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غصہ میں طلاق

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/6931/206/
طلاق کامسئلہ

ہفتہ دو ہفتے میں ایک باریہ واقعہ ضرور سامنے آتا ہے۔ کہ کوئی مسلمان غصہ میں یا بغیر غصہ کے ہی سہی ایک جلسہ میں تین بار طلاق دیتا ہے یا حمل یا ماہواری کے زمانہ میں طلاق دیتا ہے۔ تو ان تمام حالتوں میں بعض مولوی طلاق بائن کا فتویٰ لگادیتے ہیں۔ جو بالکل غلط ہوتا ہے۔ چند باتیں یاد درکھئے۔
غصے کی طلاق سرے سے ہی طلاق ہوتی ہی نہیں۔ لہذا رجوع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
2۔ ماہواری کے ایام میں بھی طلاق طلاق نہیں ہوتی۔ طہر کی حالت شرط لازم ہے۔

  1. پھر تو کبھی طلاق واقع ہوگی ہی نہیں۔ بھلا پیار محبت میں طلاق کون دیتا ہے۔ اوراس حدیث کا کیا مطلب ہوگا؟
ثلاث جدهن جد وهزلهن جد : النکاح والطلاق والرجعة.(ترمذی، ابوداؤد)
تین چیزیں ایسی ہیں کہ ارادہ کریں پھر بھی درست ہیں اور مذاق کریں پھر بھی صحیح مراد ہے : نکاح، طلاق، رجوع

[FONT=Jameel Noori Nastaleeq, Jameel Nastaleeq, Alvi Nastaleeq, Minhaj, Urdu Naskh AsiaType, Tahoma][/FONT]ماہواری کے ایام میں بھی طلاق طلاق نہیں ہوتی۔ اگر اس بارے میں کوئی صحیح حدیث مل جائے تو نوازش ہوگی۔

@سرفراز فیضی
@انس
@خضر حیات
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
غصہ كى حالت ميں طلاق كا حكم

امرأة مسلمة قال لها زوجها كثيرا وهو في حالة غضب شديد أنت طالق فما حكم ذلك خاصة وهم لديهم أطفال ؟.

الحمد لله
سئل الشيخ ابن باز رحمه الله عمن تسيء إليه زوجته وتشتمه ، فطلقها في حال الغضب فأجاب :
(إذا كان الطلاق المذكور وقع منك في حالة شدة الغضب وغيبة الشعور ، وأنك لم تدرك نفسك، ولم تضبط أعصابك، بسبب كلامها السيئ وسبها لك وشتائمها ونحو ذلك ، وأنك طلقت هذا الطلاق في حال شدة الغضب وغيبة الشعور ، وهي معترفة بذلك ، أو لديك من يشهد بذلك من الشهود العدول ، فإنه لا يقع الطلاق ؛ لأن الأدلة الشرعية دلت على أن شدة الغضب – وإذا كان معها غيبة الشعور كان أعظم - لا يقع بها الطلاق .

ومن ذلك ما رواه أحمد وأبو داود وابن ماجه عن عائشة رضي الله عنها أن النبي عليه الصلاة والسلام قال : "لا طلاق ولا عتاق في إغلاق" .

قال جماعة من أهل العلم : الإغلاق : هو الإكراه أو الغضب ؛ يعنون بذلك الغضب الشديد ، فالغضبان قد أغلق عليه غضبه قصده ، فهو شبيه بالمعتوه والمجنون والسكران ، بسبب شدة الغضب ، فلا يقع طلاقه . وإذا كان هذا مع تغيب الشعور وأنه لم يضبط ما يصدر منه بسبب شدة الغضب فإنه لا يقع الطلاق .
والغضبان له ثلاثة أحوال :
الحال الأولى : حال يتغيب معها الشعور، فهذا يلحق بالمجانين ، ولا يقع الطلاق عند جميع أهل العلم .
الحال الثانية : وهي إن اشتد به الغضب ، ولكن لم يفقد شعوره ، بل عنده شيء من الإحساس ، وشيء من العقل ، ولكن اشتد به الغضب حتى ألجأه إلى الطلاق ، وهذا النوع لا يقع به الطلاق أيضاً على الصحيح .
والحال الثالثة : أن يكون غضبه عاديا ليس بالشديد جدا ، بل عاديا كسائر الغضب الذي يقع من الناس ، فهو ليس بملجئ ، وهذا النوع يقع معه الطلاق عند الجميع ) انتهى من فتاوى الطلاق ص 19- 21، جمع: د. عبد الله الطيار، ومحمد الموسى.
وما ذكره الشيخ رحمه الله في الحالة الثانية هو اختيار شيخ الإسلام ابن تيمية وتلميذه ابن القيم رحمهما الله ، وقد ألف ابن القيم في ذلك رسالة أسماها : إغاثة اللهفان في حكم طلاق الغضبان ، ومما جاء فيها :
( الغضب ثلاثة أقسام :
أحدها : أن يحصل للإنسان مبادئه وأوائله بحيث لا يتغير عليه عقله ولا ذهنه , ويعلم ما يقول , ويقصده ; فهذا لا إشكال في وقوع طلاقه وعتقه وصحة عقوده .
القسم الثاني : أن يبلغ به الغضب نهايته بحيث ينغلق عليه باب العلم والإرادة ; فلا يعلم ما يقول ولا يريده , فهذا لا يتوجه خلاف في عدم وقوع طلاقه , فإذا اشتد به الغضب حتى لم يعلم ما يقول فلا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله في هذه الحالة , فإن أقوال المكلف إنما تنفذ مع علم القائل بصدورها منه ، ومعناها ، وإرادته للتكلم .
القسم الثالث : من توسط في الغضب بين المرتبتين , فتعدى مبادئه , ولم ينته إلى آخره بحيث صار كالمجنون , فهذا موضع الخلاف , ومحل النظر , والأدلة الشرعية تدل على عدم نفوذ طلاقه وعتقه وعقوده التي يعتبر فيها الاختيار والرضا , وهو فرع من الإغلاق كما فسره به الأئمة) انتهى بتصرف يسير نقلا عن : مطالب أولي النهى 5/323 ، ونحوه في زاد المعاد مختصرا 5/215 ، وينظر: الموسوعة الفقهية الكويتية (29/ 18).
وعلى الزوج أن يتقي الله تعالى ، وأن يتجنب استعمال لفظ الطلاق ، حتى لا يفضي ذلك إلى خراب بيته وانهيار أسرته .
كما أننا نوصي الزوج والزوجة معاً بأن يتقيا الله في تنفيذ حدوده وأن يكون هناك نظر بتجرّد إلى ما وقع من الزوج تجاه زوجته هل هو من الغضب المعتاد الذي لا يمكن أن يكون الطلاق عادة إلا بسببه ، وهو الدرجة الثالثة التي يقع فيها الطلاق باتفاق العلماء وأن يحتاطا لأمر دينهما بحيث لا يكون النظر إلى وجود أولاد بينكما باعثاً على تصوير الغضب بما يجعل المفتي يفتي بوقوعه ـ مع علم الطرفين أنه أقلّ من ذلك ـ.
وعليه فإن وجود أولاد بين الزوجين ينبغي أن يكون دافعاً لهما للابتعاد عن استعمال ألفاظ الطلاق والتهوّر فيها ، لا أن يكون دافعاً للتحايل على الحكم الشرعيّ بعد إيقاع الطلاق والبحث عن مخارج وتتبّع رخص الفقهاء في ذلك .

نسأل الله أن يرزقنا جميعاً البصيرة في دينه وتعظيم شعائره وشرائعه .
والله أعلم .

الإسلام سؤال وجواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ
غصہ كى حالت ميں طلاق كا حكم
------------------------
ايك مسلمان خاتون كے خاوند نے غصہ كى حالت ميں كئى بار " تجھے طلاق " كے الفاظ كہے ہيں، اس كا حكم كيا ہے خاص كر ان كے بچے بھى ہيں ؟

الحمد للہ:
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر كسي شخص كو اس كى بيوى اس كے ساتھ برا سلوك كرے اور اسے گالياں دے، اور غصہ كى حالت ميں بيوى كو طلاق دے دے تو اس كا حكم كيا ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" اگر تو مذكورہ طلاق شدت غضب اور شعور نہ ہونے كى حالت ميں ہوئى ہے، اور بيوى كى بدكلامى اور گاليوں كى بنا آپ اپنے آپ پر كنٹرول نہ ركھتے تھے اور اپنے اعصاب كے مالك نہ تھے، اور آپ نے شدت غضب اور شعور نہ ہونے كى حالت ميں طلاق دى اور بيوى بھى اس كا اعتراف كرتى ہے، يا پھر عادل قسم كے گواہ ہيں جو اس كى گواہى ديتے ہوں تو پھر طلاق واقع نہيں ہوئى.
كيونكہ شرعى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شدت غضب ـ اور اگر اس ميں شعور اور احساس بھى جاتا رہے ـ ميں طلاق نہيں ہوتى.
ان دلائل ميں مسند احمد اور ابو داود اور ابن ماجہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اغلاق كى حالت ميں نہ تو غلام آزاد ہوتا ہے اور نہ ہى طلاق ہوتى ہے "
اہل علم كى ايك جماعت نے " اغلاق " كا معنى يہ كيا ہے كہ اس سے مراد اكراہ يعنى جبر يا غصہ ہے؛ يعنى شديد غصہ، جسے شديد غصہ آيا ہو اس كا غصہ اسے اپنے آپ پر كنٹرول نہيں كرنے ديتا، اس ليے شديد غصہ كى بنا پر يہ پاگل و مجنون اور نشہ كى حالت والے شخص كے مشابہ ہوا، اس ليے اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى.
اور اگر اس ميں شعور و احساس جاتا رہے، اور جو كچھ كر رہا ہے شدت غضب كى وجہ سے اس پر كنٹرول ختم ہو جائے تو طلاق واقع نہيں ہوتى.
غصہ والے شخص كى تين حالتيں ہيں:
پہلى حالت:
جس ميں احساس و شعور جاتا رہے، اسے مجنون و پاگل كے ساتھ ملحق كيا جائيگا، اور سب اہل علم كے ہاں اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى.
دوسرى حالت:
اگرچہ شديد غصہ ہو ليكن اس كا شعور اور احساس نہ جائے بلكہ اسے اپنے آپ پر كنٹرول ہو اور عقل ركھتا ہو، ليكن غصہ اتنا شديد ہو كہ اس غصہ كى بنا پر اسے طلاق دينے پر مجبور ہونا پڑے، صحيح قول كے مطابق اس شخص كى بھى طلاق واقع نہيں ہوگى.
تيسرى حالت:
عام قسم كا غصہ ہو اور بہت شديد اور زيادہ نہ ہو، بلكہ عام سب لوگوں كى طرح غصہ ہو تو يہ ملجئ نہيں كہلاتا اور اس قسم كى سب علماء كے ہاں طلاق واقع ہو جائيگى " انتہى
ديكھيں: فتاوى الطلاق جمع و ترتيب ڈاكٹر عبد اللہ الطيار اور محمد الموسى صفحہ ( 19 - 21 ).
شيخ رحمہ اللہ نے دوسرى حالت ميں جو ذكر كيا ہے شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہ اللہ كا بھى يہى اختيار ہے، اور پھر ابن قيم رحمہ اللہ نے اس سلسلہ ميں ايك كتابچہ بھى تاليف كيا ہے جس كا نام " اغاث? اللھفان في حكم طلاق الغضبان " ركھا ہے، اس ميں درج ہے:

غصہ كى تين قسميں ہيں:
پہلى قسم:
انسان كو غصہ كى مباديات اور ابتدائى قسم آئے يعنى اس كى عقل و شعور اور احساس ميں تبديلى نہ ہو، اور جو كچھ كہہ رہا ہے يا كر رہا ہے اس كاادراك ركھتا ہو تو اس شخص كى طلاق واقع ہونے ميں كوئى اشكال نہيں ہے، اور اس كے سب معاہدے وغيرہ صحيح ہونگے.
دوسرى قسم:
غصہ اپنى انتہائى حد كو پہنچ جائے كہ اس كا علم اور ارادہ ہى كھو جائے اور اسے پتہ ہى نہ چلے كہ وہ كيا كر رہا ہے اور كيا كہہ رہا ہے، اور وہ كيا ارادہ ركھتا ہے، تو اس شخص كى طلاق نہ ہونے ميں كوئى اختلاف نہيں.
چنانچہ جب اس كا غصہ شديد ہو جائے چاہے وہ علم بھى ركھتا ہو كہ وہ كيا كہہ رہا ہے تو اس حالت ميں بلاشك و شبہ اس كے قول كو نافذ نہيں كيا جائيگا، كيونكہ مكلف كے اقوال تو اس صورت ميں نافذ ہوتے ہيں جب قائل كى جانب سے صادر ہونے اور اس كے معانى كا علم ركھتا ہو، اور كلام كا ارادہ ركھتا ہو.
تيسرى قسم:
ان دو مرتبوں كے درميان جس كا غصہ ہو، يعنى مباديات سے زيادہ ہو ليكن آخرى حدود كو نہ چھوئے كہ وہ پاگل و مجنون كى طرح ہو جائے، تو اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے.
شرعى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ اس كى طلاق اور آزاد كرنا اور معاہدے جن ميں اختيار اور رضامندى شامل ہوتى ہے نافذ نہيں ہونگے، اور يہ اغلاق كى ايك قسم ہے جيسا كہ علماء نے شرح كى ہے " انتہى كچھ كمى و بيشى كے ساتھ
منقول از: مطالب اولى النھى ( 5 / 323 ) اور زاد المعاد ( 5 / 215 ) ميں بھى اس جيسا ہى لكھا ہے.
خاوند كو چاہيے كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اللہ سے ڈرے اور طلاق كے الفاظ استعمال كرنے سے اجتناب كرے، تا كہ اس كے گھر كى تباہى نہ ہو اور خاندان بكھر نہ جائے.
اسى طرح ہم خاوند اور بيوى دونوں كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے حدود اللہ كا نفاذ كريں اور يہ ہونا چاہيے كہ كوئى ايسى نظر ہو جو ديكھے كہ خاوند كى جانب سے بيوى كے معاملہ ميں جو كچھ ہوا ہے كيا وہ عام غصہ كى حالت ميں ہوا ہے يعنى تيسرى قسم ميں جس ميں سب علماء كے ہاں طلاق واقع ہو جاتى ہے.
اور انہيں اپنے دينى معاملہ ميں احتياط سے كام لينا چاہيے اور يہ مت ديكھيں كہ دونوں كى اولاد ہے، جس كى بنا پر يہ تصور كر ليا جائے كہ جو كچھ ہوا وہ غصہ كى حالت ميں ہوا اور فتوى دينے والے كو اس كے وقوع پر آمادہ كر دے ـ حالانكہ دونوں يعنى خاوند اور بيوى كو علم تھا كہ يہ اس سے كم درجہ ركھتا تھا ـ.
اس بنا پر اولاد كا ہونا خاوند اور بيوى كو طلاق جيسے الفاظ ادا كرنے ميں مانع ہونا چاہيے، يہ نہيں كہ اولاد ہونے كى وجہ سے وہ شرعى حكم كے بارہ ميں حيلہ بازي كرنا شروع كر ديں اور طلاق واقع ہو جانے كے بعد اس سے كوئى مخرج اور خلاصى و چھٹكارا حاصل كرنے كى كوشش كريں، اور فقھاء كرام كى رخصت كو آلہ بنا ليں.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہم سب كو دين كے شعائر اور قوانين ميں بصيرت سے نوازے.
واللہ اعلم .​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
غصہ کی حالت میں طلاق دینے کا بیان۔

سنن ابی داود
باب الطلاق على غيظ
باب: غصہ کی حالت میں طلاق دینے کا بیان۔
حدثنا عبيد الله بن سعد الزهري ان يعقوب بن إبراهيم حدثهم قال:‏‏‏‏ حدثنا ابي عن ابن إسحاق عن ثور بن يزيد الحمصي عن محمد بن عبيد بن ابي صالح الذي كان يسكن إيليا قال:‏‏‏‏ خرجت مع عدي بن عدي الكندي حتى قدمنا مكة فبعثني إلى صفية بنت شيبة وكانت قد حفظت من عائشة قالت:‏‏‏‏ سمعت عائشة تقول:‏‏‏‏ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:‏‏‏‏ " لا طلاق ولا عتاق في غلاق ". قال ابو داود:‏‏‏‏ الغلاق اظنه في الغضب.
محمد بن عبید بن ابوصالح (جو ایلیاء میں رہتے تھے) کہتے ہیں کہ میں عدی بن عدی کندی کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ میں مکہ آیا تو انہوں نے مجھے صفیہ بنت شیبہ کے پاس بھیجا، اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیثیں یاد کر رکھی تھیں، وہ کہتی ہیں: میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”زبردستی کی صورت میں طلاق دینے اور آزاد کرنے کا اعتبار نہیں ہو گا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ غلاق کا مطلب غصہ ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۵۵)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱۶ (۲۰۴۶)، مسند احمد (۶/۲۷۶) (حسن) قال الشيخ الألباني: حسن
یہ حدیث حسن ہے ، ملاحظہ ہو:ا رواء الغلیل: ۲۰۴۷ ، وصحیح ابی داود: ۶؍ ۳۹۶)وضاحت: ۱؎ : اس باب کے الفاظ کی روایت تین طرح ہے: «على غيظ» ، «على غضب» ، «على غلطٍ» اور حدیث میں «غلاق» ، «إغلاق» جس کے معنی مؤلف نے غضب کے لئے ہیں ، حالانکہ کوئی بھی آدمی بغیر غیظ و غضب کے طلاق نہیں دیتا، اس طرح تو کوئی طلاق واقع ہی نہیں ہو گی ، اس لئے «إغلاق» کا معنی ’’زبردستی‘‘ لینا بہتر ہے ، اور تحقیقی بات یہی ہے کہ زبردستی لی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
Muhammad ibn Ubayd ibn Abu Salih who lived in Ayliya said: I went out with Adi ibn Adi al-Kindi till we came to Makkah. He sent me to Safiyyah daughter of Shaybah who remembered a tradition (that she had heard) from Aishah. She said: I heard Aishah say: I heard the Messenger of Allah ﷺ say: There is no divorce or emancipation in case of constraint or duress (ghalaq). Abu Dawud said: I think ghalaq means anger.
English Translation Reference:, Book 12, Number 2188
قال الشيخ الألباني: حسن
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ہنسی مذاق میں طلاق دینے کا بیان۔

سنن ابی داود
باب الطلاق على الهزل
باب: ہنسی مذاق میں طلاق دینے کا بیان۔
حدثنا القعنبي حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد عن عبد الرحمن بن حبيب عن عطاء بن ابي رباح عن ابن ماهك عن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ " ثلاث جدهن جد وهزلهن جد:‏‏‏‏ النكاح والطلاق والرجعة ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں ایسی ہیں کہ انہیں چاہے سنجیدگی سے کیا جائے یا ہنسی مذاق میں ان کا اعتبار ہو گا، وہ یہ ہیں: نکاح، طلاق اور رجعت“۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطلاق ۹(۱۱۸۴)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱۳(۲۰۳۹)، (تحفة الأشراف: ۱۴۸۵۴) (حسن) (شواہد اور آثار صحابہ سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہے ، ورنہ عبدالرحمن بن حبیب کو نسائی نے منکرالحدیث کہا ہے اور حافظ ابن حجرنے لین الحدیث ، ملاحظہ ہو: ارواء الغلیل ۱۸۲۵)
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
الفاظ کی روایت تین طرح ہے: «على غيظ» ، «على غضب» ، «على غلطٍ» اور حدیث میں «غلاق» ، «إغلاق» جس کے معنی مؤلف نے غضب کے لئے ہیں ، حالانکہ کوئی بھی آدمی بغیر غیظ و غضب کے طلاق نہیں دیتا، اس طرح تو کوئی طلاق واقع ہی نہیں ہو گی ، اس لئے «إغلاق» کا معنی ’’زبردستی‘‘ لینا بہتر ہے ، اور تحقیقی بات یہی ہے کہ زبردستی لی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
جزاک اللہ خیرا۔ اب بات سمجھ میں آتی ہے۔ ورنہ "غصہ میں طلاق نہیں ہوتی " والی با تو سمجھ سے بالا تر ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جزاک اللہ خیرا۔ اب بات سمجھ میں آتی ہے۔ ورنہ "غصہ میں طلاق نہیں ہوتی " والی با تو سمجھ سے بالا تر ہے۔
محترم ثانی صاحب اس اقتباس کو ایک دفعہ بغور ملاحظہ فرمائیں :
’’غصہ والے شخص كى تين حالتيں ہيں:​
پہلى حالت:
جس ميں احساس و شعور جاتا رہے، اسے مجنون و پاگل كے ساتھ ملحق كيا جائيگا، اور سب اہل علم كے ہاں اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى.
دوسرى حالت:
اگرچہ شديد غصہ ہو ليكن اس كا شعور اور احساس نہ جائے بلكہ اسے اپنے آپ پر كنٹرول ہو اور عقل ركھتا ہو، ليكن غصہ اتنا شديد ہو كہ اس غصہ كى بنا پر اسے طلاق دينے پر مجبور ہونا پڑے، صحيح قول كے مطابق اس شخص كى بھى طلاق واقع نہيں ہوگى.​
تيسرى حالت:
عام قسم كا غصہ ہو اور بہت شديد اور زيادہ نہ ہو، بلكہ عام سب لوگوں كى طرح غصہ ہو تو يہ ملجئ نہيں كہلاتا اور اس قسم كى سب علماء كے ہاں طلاق واقع ہو جائيگى ‘‘

اس اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ ’’ غصہ میں طلاق نہیں ہوتی ‘‘ والی بات علی الاطلاق نہیں ہے ۔اسی طرح یہ کہنا کہ ’’ غصہ میں طلاق ہر حال میں ہوجاتی ہے ‘‘ یہ بات بھی درست نہیں ۔
کیونکہ یہ دونوں عبارتیں علماء کے متفقہ فیصلے کے خلاف ہیں جیساکہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے کلام میں گزرا ۔
واللہ اعلم۔​
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
محترم ثانی صاحب اس اقتباس کو ایک دفعہ بغور ملاحظہ فرمائیں :
’’غصہ والے شخص كى تين حالتيں ہيں:
پہلى حالت:
جس ميں احساس و شعور جاتا رہے، اسے مجنون و پاگل كے ساتھ ملحق كيا جائيگا، اور سب اہل علم كے ہاں اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى.
دوسرى حالت:
اگرچہ شديد غصہ ہو ليكن اس كا شعور اور احساس نہ جائے بلكہ اسے اپنے آپ پر كنٹرول ہو اور عقل ركھتا ہو، ليكن غصہ اتنا شديد ہو كہ اس غصہ كى بنا پر اسے طلاق دينے پر مجبور ہونا پڑے، صحيح قول كے مطابق اس شخص كى بھى طلاق واقع نہيں ہوگى.
تيسرى حالت:
عام قسم كا غصہ ہو اور بہت شديد اور زيادہ نہ ہو، بلكہ عام سب لوگوں كى طرح غصہ ہو تو يہ ملجئ نہيں كہلاتا اور اس قسم كى سب علماء كے ہاں طلاق واقع ہو جائيگى ‘‘

اس اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ ’’ غصہ میں طلاق نہیں ہوتی ‘‘ والی بات علی الاطلاق نہیں ہے ۔اسی طرح یہ کہنا کہ ’’ غصہ میں طلاق ہر حال میں ہوجاتی ہے ‘‘ یہ بات بھی درست نہیں ۔
کیونکہ یہ دونوں عبارتیں علماء کے متفقہ فیصلے کے خلاف ہیں جیساکہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے کلام میں گزرا ۔
واللہ اعلم۔​
سر جی! میں نے تو اسحاق سلفی صاحب کے جواب نمبر-3 کو کوٹ کیا ہے۔ اور آپ جواب نمبر-2 کا حوالہ دے رہے ہیں۔ جواب نمبر-3 میں کچھ یوں لکھا ہے:
حدثنا عبيد الله بن سعد الزهري ان يعقوب بن إبراهيم حدثهم قال:‏‏‏‏ حدثنا ابي عن ابن إسحاق عن ثور بن يزيد الحمصي عن محمد بن عبيد بن ابي صالح الذي كان يسكن إيليا قال:‏‏‏‏ خرجت مع عدي بن عدي الكندي حتى قدمنا مكة فبعثني إلى صفية بنت شيبة وكانت قد حفظت من عائشة قالت:‏‏‏‏ سمعت عائشة تقول:‏‏‏‏ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:‏‏‏‏ " لا طلاق ولا عتاق في غلاق ". قال ابو داود:‏‏‏‏ الغلاق اظنه في الغضب.
محمد بن عبید بن ابوصالح (جو ایلیاء میں رہتے تھے) کہتے ہیں کہ میں عدی بن عدی کندی کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ میں مکہ آیا تو انہوں نے مجھے صفیہ بنت شیبہ کے پاس بھیجا، اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیثیں یاد کر رکھی تھیں، وہ کہتی ہیں: میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”زبردستی کی صورت میں طلاق دینے اور آزاد کرنے کا اعتبار نہیں ہو گا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ غلاق کا مطلب غصہ ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۵۵)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱۶ (۲۰۴۶)، مسند احمد (۶/۲۷۶) (حسن) قال الشيخ الألباني: حسن
یہ حدیث حسن ہے ، ملاحظہ ہو:ا رواء الغلیل: ۲۰۴۷ ، وصحیح ابی داود: ۶؍ ۳۹۶)وضاحت: ۱؎ : اس باب کے الفاظ کی روایت تین طرح ہے: «على غيظ» ، «على غضب» ، «على غلطٍ» اور حدیث میں «غلاق» ، «إغلاق» جس کے معنی مؤلف نے غضب کے لئے ہیں ، حالانکہ کوئی بھی آدمی بغیر غیظ و غضب کے طلاق نہیں دیتا، اس طرح تو کوئی طلاق واقع ہی نہیں ہو گی ، اس لئے «إغلاق» کا معنی ’’زبردستی‘‘ لینا بہتر ہے ، اور تحقیقی بات یہی ہے کہ زبردستی لی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
اس حوالہ پر آپ کا تبصرہ کیا ہے؟
اگر «إغلاق» کا معنی ’’زبردستی‘‘ لیا جائے تو لا طلاق ولا عتاق في غلاق مطلقاً درست ہوجاتا ہے۔ جبکہ اگر ابوداؤد کے اخذ کردہ معنی "غضب" کو لیا جائے تو پھر اس غضب یا غصہ کے تین مفہوم کرنے پڑتے ہیں۔ پہلے اور آخری مفہوم میں مسئلہ متضاد ہے اور دوسرے مفہوم میں مختلف فیہ ۔
@انس
@سرفراز فیضی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سر جی! میں نے تو اسحاق سلفی صاحب کے جواب نمبر-3 کو کوٹ کیا ہے۔ اور آپ جواب نمبر-2 کا حوالہ دے رہے ہیں۔ جواب نمبر-3 میں کچھ یوں لکھا ہے:

اس حوالہ پر آپ کا تبصرہ کیا ہے؟
اگر «إغلاق» کا معنی ’’زبردستی‘‘ لیا جائے تو لا طلاق ولا عتاق في غلاق مطلقاً درست ہوجاتا ہے۔ جبکہ اگر ابوداؤد کے اخذ کردہ معنی "غضب" کو لیا جائے تو پھر اس غضب یا غصہ کے تین مفہوم کرنے پڑتے ہیں۔ پہلے اور آخری مفہوم میں مسئلہ متضاد ہے اور دوسرے مفہوم میں مختلف فیہ ۔
@انس
@سرفراز فیضی
السلام علیکم :
باقی تفصیل سے قطع نظر اتنا عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی معلومات میں موجود دونوں صورتیں ،یا حل ،آپ کی خدمت میں پیش کردیئے ہیں ۔
قطعی فتوی کی صورت اس لئے نہیں دی کہ آپ نے پہلی پوسٹ میں جواب کے لئےفورم کے فضلاء حضرات کو ٹیگ کیا تھا۔
اس طرح مجھے بھی سیکھنے کا موقع مل جائے گا ،ان شاء اللہ تعالی
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/6931/206/
طلاق کامسئلہ

ہفتہ دو ہفتے میں ایک باریہ واقعہ ضرور سامنے آتا ہے۔ کہ کوئی مسلمان غصہ میں یا بغیر غصہ کے ہی سہی ایک جلسہ میں تین بار طلاق دیتا ہے یا حمل یا ماہواری کے زمانہ میں طلاق دیتا ہے۔ تو ان تمام حالتوں میں بعض مولوی طلاق بائن کا فتویٰ لگادیتے ہیں۔ جو بالکل غلط ہوتا ہے۔ چند باتیں یاد درکھئے۔
1۔ غصے کی طلاق سرے سے ہی طلاق ہوتی ہی نہیں۔ لہذا رجوع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
2۔ ماہواری کے ایام میں بھی طلاق طلاق نہیں ہوتی۔ طہر کی حالت شرط لازم ہے۔
@خضر حیات بھائی! اس فتویٰ میں تو کہا گیا ہے کہ غصے کی طلاق سرے سے ہی طلاق ہوتی ہی نہیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
مذکورہ بالا حدیث (لا طلاق ولا عتاق فی اغلاق )کے متعلق ایک مفید مضمون مزید پیش خدمت ہے ،اس کو بھی دیکھ لیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

السؤال:
أريد تفسيرا واضحا لحديث الرسول صلى الله عليه وسلم : ( لا طلاق في إغلاق ) .

الجواب :
الحمد لله
أخرج ابن ماجه (2046) ، وأحمد في مسنده (26360) ، وأبو يعلى في مسنده (4444) عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : (لَا طَلَاقَ وَلَا عَتَاقَ فِي إِغْلَاقٍ) وحسنه الألباني في " صحيح وضعيف سنن ابن ماجة "(2046) .
وقد اختلف العلماء في تفسير معنى الإغلاق : فبعضهم فسره بالإكراه ، قال الخطابي " معنى الإغلاق: الإكراه ، وكان عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وابن عمر وابن عباس رضي الله عنهم لا يرون طلاق المكرَه طلاقاً ، وهو قول شريح وعطاء وطاوس وجابر بن زيد والحسن وعمر بن عبد العزيز والقاسم وسالم ، وإليه ذهب مالك بن أنس والأوزاعي والشافعي وأحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه" انتهى من " معالم السنن "(3 / 242) .
وفي " التيسير بشرح الجامع الصغير " (2 / 501) :"( لَا طَلَاقَ وَلَا عَتَاقَ فِي إِغْلَاقٍ ) أي : إكراه ؛ لأن المكره يغلق عليه الباب ، ويُضيق عليه غالبا ، فلا يقع طلاقه عند الأئمة الثلاثة . وأوقعه الحنفية" انتهى.
وفسره بعض العلماء بأنه : " نهي عن إيقاع الطلقات الثلاث دفعة واحدة ، فيغلق عليه الطلاق حتى لا يبقى منه شيء ، كغلق الرهن ، حكاه أبو عبيد الهروي " انتهى من " زاد المعاد في هدي خير العباد " (5 / 195) .
وبعض العلماء فسره بالجنون ، وبعضهم فسره بالغضب الشديد ، جاء في "نيل الأوطار " (6 / 279): "قوله: (في إغلاق) .. فسره علماء الغريب بالإكراه ، روي ذلك في التلخيص عن ابن قتيبة والخطابي وابن السيد وغيرهم ، وقيل : الجنون ، واستبعده المطرزي ، وقيل: الغضب ، وقع ذلك في سنن أبي داود ، وفي رواية ابن الأعرابي ، وكذا فسره أحمد ، ورده ابن السيد فقال : لو كان كذلك ، لم يقع على أحد طلاق لأن أحدا لا يطلق حتى يغضب " انتهى .
وفي " إعلام الموقعين عن رب العالمين " (3 / 47) :" وقال الإمام أحمد في رواية حنبل: هو الغضب، وكذلك فسره أبو داود ، وهو قول القاضي إسماعيل بن إسحاق أحد أئمة المالكية ومقدم فقهاء أهل العراق منهم ، وهي عنده من لغو اليمين أيضا ، فأدخل يمين الغضبان في لغو اليمين ، وفي يمين الإغلاق ، وحكاه ابن بزيزة الأندلسي عنه ، قال : وهذا قول علي وابن عباس وغيرهما من الصحابة : أن الأيمان المنعقدة كلها في حال الغضب لا تلزم ، وفي سنن الدارقطني بإسناد فيه لين من حديث ابن عباس يرفعه: «لا يمين في غضب ، ولا عتاق فيما لا يملك» وهو وإن لم يثبت رفعه ، فهو قول ابن عباس، وقد فسر الشافعي: «لا طلاق في إغلاق» بالغضب ، وفسره به مسروق ؛ فهذا مسروق والشافعي وأحمد وأبو داود والقاضي إسماعيل، كلهم فسروا الإغلاق بالغضب ، وهو من أحسن التفسير ؛ لأن الغضبان قد أغلق عليه باب القصد بشدة غضبه ، وهو كالمكره ، بل الغضبان أولى بالإغلاق من المكرَه ؛ لأن المكرَه قد قصد رفع الشر الكثير بالشر القليل الذي هو دونه ، فهو قاصد حقيقة ، ومن هنا أوقع عليه الطلاق من أوقعه ، وأما الغضبان فإن انغلاق باب القصد والعلم عنه ، كانغلاقه عن السكران والمجنون، فإن الغضب غول العقل ، يغتاله كما يغتاله الخمر ، بل أشد ، وهو شعبة من الجنون ، ولا يشك فقيه النفس في أن هذا لا يقع طلاقه" انتهى .
والراجح في تفسير الحديث : أن الإغلاق يشمل الإكراه والجنون والعَتَه والغضب الشديد ، قال ابن القيم رحمه الله تعالى : " قال شيخنا [يعني : شيخ الإسلام ابن تيمية] : وحقيقة الإغلاق أن يُغلَق على الرجل قلبه ، فلا يقصد الكلام ، أو لا يعلم به ، كأنه انغلق عليه قصده وإرادته ، قلت: قال أبو العباس المبرد: الغلق : ضيق الصدر ، وقلة الصبر بحيث لا يجد مخلصا، قال شيخنا: ويدخل في ذلك طلاق المكره والمجنون ، ومن زال عقله بسكر أو غضب ، وكل من لا قصد له ، ولا معرفة له بما قال .
والغضب على ثلاثة أقسام :
أحدها : ما يزيل العقل ، فلا يشعر صاحبه بما قال ، وهذا لا يقع طلاقه بلا نزاع.
والثاني : ما يكون في مباديه ، بحيث لا يمنع صاحبه من تصور ما يقول وقصده ، فهذا يقع طلاقه . الثالث: أن يستحكم ويشتد به، فلا يزيل عقله بالكلية ، ولكن يحول بينه وبين نيته ، بحيث يندم على ما فرط منه إذا زال ، فهذا محل نظر، وعدم الوقوع في هذه الحالة قوي متجه" انتهى من " زاد المعاد في هدي خير العباد " (5 / 195).
والله أعلم .
موقع الإسلام سؤال وجواب
 
Top