• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غلام احمد پرویز کے ایمان بالقرآن کی حقیقت

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
غلام احمد پرویز کے ایمان بالقرآن کی حقیقتhttp://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html

مضمون نگار: پروفیسر حافظ محمد دین قاسمی
پہلی قسط: ماہنامہ محدث اگست 2009، شمارہ: 331، جلد 41، عدد8

شیطان اس حقیقت
سے خود واقف ہے کہ وہ اپنی دعوتِ ضلالت کو ضلالت کے نام سے اگر پیش کرے گا تو وہ ہرگز قابل قبول نہ ہوگی، چنانچہ وہ ہمیشہ یہ حربہ اختیارکرتا رہا ہے کہ وہ گمراہی کو ہدایت کے روپ میں پیش کرے۔ جھوٹ کو لباسِ صدق پہنائے، بے دینی کو دین کے بھیس میں سامنے لائے اور خلقِ خداکو دھوکہ دینے کے لئے فریب ِکار کی بجائے ناصحِ درد مند کا بہروپ اپنائے۔ اگر وہ فساد کو صلاح کانقاب نہ اوڑھے اور خود بے نقاب ہوکر سامنے آئے تو کوئی اس کے فریب میں نہ آئے۔ وہ اپنی شیطنت کو پارسائیت کے پردے میں پیش کرتاہے اور یوں وہ ابناے آدم کو اپنی مفاد پرستیوں کی بھینٹ چڑھاتا ہے۔ اس تکنیک سے وہ بنی نوع انسان کو جس تباہی و بربادی سے ہم کنار کرتا ہے اس کے سامنے ہلاکو اور چنگیز خان تو رہے ایک طرف، ہٹلر اور امریکی بُش کی تباہیاں بھی ماند پڑ جاتی ہیں ۔

نہ صرف تاریخ انسانیت بلکہ اسلام کی سرگذشت بھی اس حقیقت پر شاہد ہے کہ ہر عصر و مصر میں ملحد اور بے دین لوگوں نے ہدایت کے نام پر ضلالت کو، اسلام کے نام پر بے دینی کو، سچ کے نام پرجھوٹ کو اورقرآن کے نام پرخلافِ قرآن افکار و نظریات کو پھیلانے کی مذموم کوششیں کی ہیں ۔ اِن ہی کوششوں میں ایک کوشش وہ بھی ہے جو ہمارے دور میں مغربیت کی ذہنی غلامی اور اشتراکیت کی فکری اسیری میں مبتلا ہوکر چوہدری غلام احمد پرویز نے قرآنِ کریم کے نام پر دامِ ہم رنگ زمین بچھا کر کی ہے، اس کے نتیجہ میں مغربی معاشرت کے عادات و اطوارکو، اشتراکیت کے معاشی نظام کے ساتھ ملا کر اس قرآن کے نام پر پیش کیا ہے جس کے بغیر ہی ان سب اُمور کو عصر حاضر کی گمراہ قومیں پہلے سے اپنائے ہوئے تھیں ۔

جناب غلام احمد پرویز تہذیب ِغالب کے یکے از خدامِ بے دام تھے یا زر خرید غلام تھے؟ اسے ہم اللہ پر چھوڑتے ہیں جو عالم الغیب والشہادہ اور علیم بذات الصدور ہے۔ لیکن یہ بات بہرحال واضح ہے کہ جو کام مغربی ممالک کے ملحد فلاسفہ اوربے دین دانشور،مسلم معاشروں میں براہِ راست خود نہیں کرسکتے تھے، وہ کام ہمارے 'مفکر ِقرآن'،'قرآنی دانشور' بن کرکرتے رہے ہیں ۔ ان کی پچاس سالہ 'قرآنی خدمات' کا مغز اور خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ وہ زبان اپنی استعمال کرتے تھے مگر بولی غیروں کی بولتے تھے۔ دماغ تو اُن کا اپنا تھا مگر اس میں فکر غیروں کی تھی۔ الفاظ تو وہ قرآن ہی کے استعمال کرتے تھے مگر ان کے پیکروں میں تصورات اشتراکیت اور مغربی معاشرت سے مستعار و مستورد تھے۔چنانچہ وہ اپنی جن 'قرآنی خدمات' پرگولڈن جوبلی مناکر سطحِ ارض سے بطن زمین میں منتقل ہوئے، ان پر یہودی علماء و پیشوا، نصرانی احبار و رہبان، الحاد و دہریت کے پُشتی بان، زندقہ و سیکولرزم کے علمبردار، سب خوش وخرم ہوکر ان کی تعریف و تحسین میں رطب اللسان ہوکر اُنہیں ہدیۂ تبریک اور گل ہائے تہنیت پیش کرتے ہیں ۔ جب کہ عالم اسلام کے علماء بیک زبان ہوکر ان پر فتواے کفر عائد کرتے ہیں ۔

'مفکر ِقرآن' کی تعلّی آمیز انانیت
'مفکر ِقرآن' صاحب جس قدر قرآن، قرآن کی رٹ لگایا کرتے تھے، اُسی قدر وہ قرآن سے گریزاں اور کتاب اللہ سے کنارہ کش تھے۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ وہ اپنے مقابلے میں جملہ اہل علم کو قرآن سے بے خبر اورجاہل قرار دیا کرتے تھے۔ چنانچہ انانیت کے ساتویں آسمان پر محو ِپرواز رہتے ہوئے وہ بلااستثنا تمام علماے کرام کے متعلق یہ اعلان کیاکرتے تھے :
''حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرات قرآن سے قطعاً نابلد ہوتے ہیں ۔'' [SUP]1http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a1[/SUP]

ایک اور مقام پرعلما کے خلاف بڑا تحقیر آمیز رویہ اپناتے ہوئے، لیکن غرور و تکبر کی انتہائی بلندیوں پر براجمان ہوکر یہ فتویٰ داغتے ہیں :
''ہمارا مُلّاطلوعِ اسلام میں پیش کردہ دعوت کاجواب دلائل و براہین سے تو دے نہیں سکتا (اس لئے کہ یہ دعوت قرآن کی دعوت ہے او رمُلّا بے چارہ قرآنی نور سے محروم ہوتاہے۔)''[SUP]2http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a2[/SUP]

ایک اورموقع پر اُسی اہانت آمیز لب و لہجہ میں جو علما کے خلاف ان کامستقل وطیرہ تھا، یہ فرماتے ہیں :
''مُلّا کے پاس نہ علم ہوتاہے، نہ بصیرت، نہ دلائل ہوتے ہیں ، نہ براہین۔'' [SUP]3http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a3[/SUP]

اورمولانامودودی جن کی گھٹیا مخالفت میں 'مفکر ِقرآن' صاحب مرتے دم تک پرویزی حیلے اختیارکرتے رہے ہیں ، یہ فتویٰ ان کے متعلق داغتے ہیں ۔

ایک اور مقام پر مولانا مودودی کے خلاف یہ فتویٰ بھی رسید کیا گیاہے :
''ہم مودودی کو نہ دین کا عالم مانتے ہیں ، نہ کوئی مفکر۔''[SUP]4http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a4[/SUP]

چنانچہ 'مفکر ِقرآن' صاحب اپنے عقیدت مندوں کے جھرمٹ میں علماء کرام پر 'قدامت پرستی' کالیبل لگاکر اپنے متعلق تعلّی آمیز خود ستائی کا اظہار بایں الفاظ کیا کرتے تھے :
''جو کچھ میں قرآن سے پیش کرتاہوں ، اس کی تردید کے لئے چونکہ ہمارے قدامت پرست طبقہ کے پاس دلائل و براہین نہیں ہوتیں ، اس لئے وہ خود بھی مشتعل ہوتاہے اور عوام کو بھی مشتعل کرتاہے۔'' [SUP]5http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a5[/SUP]

أعلم الناس بالقرآن کی پندار افزائی
'مفکر ِقرآن' صاحب خود أعلم الناس بالقرآن کے پندار میں مبتلاہوکر یہی پندار اپنے نیاز مندوں میں بھی پیدا کیا کرتے تھے اور اُنہیں اس زعم میں مبتلا کیا کرتے تھے کہ تیرہ چودہ صدیوں بعد جو قرآنی آواز طلوعِ اسلام کے ذریعہ بلند ہورہی ہے، آپ لوگ ہی اس کے واحد امین ہیں ، باقی ساری دنیا اس آواز کا گلاگھونٹتی چلی آرہی ہے۔

تیرہ سوسال کے بعد پھرسے خالص قرآن کی آواز طلوعِ اسلام کی وساطت سے بلند ہونی شروع ہوئی ہے۔ [SUP]6http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a6[/SUP]
اس سرزمین سے تیرہ سو سال کے بعد پہلی بار قرآن کی آواز اُٹھی ہے او رقدرت کو یہ منظور ہے کہ تیرہ سو سال کے بعد ایک بار پھر قرآنی نظام اپنی عملی شکل میں سامنے آئے۔ [SUP]7http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a7[/SUP]
اس وقت ساری دنیامیں قرآنِ خالص کی آواز صرف آپ کی اس ننھی سی جماعت کی طرف سے بلند ہورہی ہے۔ [SUP]8http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a8[/SUP]
صدرِاوّل کے بعد ہماری تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ قرآنی نظام کی آواز بلند ہورہی ہے۔ [SUP]9http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a9[/SUP]

پورے عالم اسلام میں ادارہ طلوعِ اسلام ہی وہ واحد ادارہ ہے جس نے چاروں طرف سے چھائی ہوئی مایوسیوں میں مسلمانوں کو پکارا اور بتایاکہ ان کی ذلت ورسوائی کاواحد سبب یہ ہے کہ وہ خدا کی دی ہوئی کتاب اور اس عطا فرمودہ روشنی سے دور جا پڑے ہیں ۔ مسلمانوں کی باز آفرینی کے لئے یہی ایک صورت ہوسکتی ہے کہ جس طرح خدا کی دی ہوئی روشنی نے اس قوم کو آج سے چودہ سو سال پہلے ترقی اور عروج کے بامِ ثریاتک پہنچا دیاتھا۔ یہ قوم پھر اُسی مینارۂ نور سے کسب ِضیا سے کرے اوراپنی زندگی کو اسی قالب میں ڈھال لے ۔ادارہ طلوع اسلام قریب تیس سال سے قرآن کریم کی آواز کو بلند کررہاہے۔ [SUP]10http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a10[/SUP]

چنانچہ ایک مقام پر 'مفکر ِقرآن' اپنے منہ آپ میاں مٹھو بنتے ہوئے، اپنے حلقہ احباب کو یہ باورکرواتے ہیں کہ
۶۔ اس وقت ملک میں خالص فکری تحریک صرف آپ کی ہے، باقی سب وقتی ہنگامہ آرائیاں ہیں ، جن میں اسلام کا نام لیاجاتاہے، جیسے خطوں کی پیشانی پر ۷۸۶ لکھ دیا جاتا ہے، لیکن نفس مضمون سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ [SUP]11http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a11[/SUP]
۷۔ اس وقت ساری دنیا میں صرف آپ کی یہ مختصر سی جماعت ہے، جوپیغام خداوندی کی مئے بے درد و صاف کو شفاف اوربے رنگ پیمانوں میں پیش کررہی ہے۔ [SUP]12http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a12[/SUP]

ایک اور مقام پر خود نمائی اور خود ستائی کے ساتویں آسمان پرمحو ِپروازکرتے ہوئے 'مفکر قرآن' یوں تسلی آمیز انداز میں فرماتے ہیں :
''ہمارے ہاں ، نہ کوئی ایسا صاحب ِفکر نکلا جو یہ سوچ سکے کہ قوم کی یہ حالت کیوں ہوگئی اورنہ کوئی ایسا صاحب ِعمل جو اس بے راہ ہجوم کا ہاتھ پکڑ کر اُسے راستہ پرلگا دے۔ سارے ملک میں لے دے کے، ایک طلوعِ اسلام کی آواز تھی (اور ہے) جو صحرا میں کھوئے ہوئے اس کارواں کے منتشر افراد کے لئے بانگ ِدرا تھی۔''[SUP]13http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a13[/SUP]

چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 'طلوعِ اسلام' نے بھی اپنے قارئین کو اس فریب ِیقین میں مبتلا کیا کہ ''آؤ لوگو! یہیں نورِ خدا پاؤ گے!''
''اس وقت ،ملک جن ہنگامی حالات سے دوچار ہے، ان میں قوم کوقرآنی راہنمائی کی اشد ضرورت ہے او ریہ راہنمائی اُسے طلوعِ اسلام کے علاوہ اور کہیں سے نہیں مل رہی ہے۔ ''[SUP]14http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a14[/SUP]

راہنمائی قرآن کی یا تہذیب ِمغرب کی؟
حالانکہ جس چیز کو 'مفکر ِقرآن' اور طلوعِ اسلام، قرآنی راہنمائی قرار دیتے ہیں وہ قطعاً اور ہرگز ہرگز قرآنی راہنمائی نہیں ہے، بلکہ وہ صرف مارکسی اشتراکیت ہے جس پر قرآنی ٹھپہ لگا کرمغربی معاشرت کے عادات و اطوار کے ساتھ اُسی طرح ملاکر پیش کیاگیاہے، جس طرح اکبر بادشاہ نے مذاہب ِشتیّٰ کے بے جوڑ عناصر کوملا کر'دین الٰہی' بناکر پیش کیاتھا۔

ایمان بالقرآن کے دعاوی پرویز
جہاں تک 'مفکر قرآن' کے ایمان بالقرآن کا تعلق ہے تو اس کی اصل حقیقت ذلک قولھم بأفواھھم سے زیادہ نہیں ہے،وہ اگرچہ اپنے ایمان بالقرآن کاڈھنڈورا پیٹا کرتے تھے اور قرآنِ کریم ہی کو واحداتھارٹی اور سند قرار دیا کرتے تھے، لیکن عملاً اُن کے ہاں سند و معیار علماے مغرب کی تحقیقات ہی تھیں ۔ نظریاتی اور قولی و قلمی حیثیت سے ایمان بالقرآن کی بابت اُن کے بلند بانگ دعاوی کی ایک جھلک مندرجہ ذیل اقتباسات میں ملاحظہ فرمائیے:
۱۔ صحت و سقم کامعیار میزانِ قرآنی ہے نہ میرا دعویٰ ، نہ غیر کی تردید۔ اس لئے اگر کوئی میری گذارشات کو باطل ٹھہراتا ہے تو اُسے کہو کہ اس کے لئے قرآن کی بارگاہ سے سند لائے۔[SUP]15http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a15[/SUP]
۲۔ ہمارے نزدیک دین کامعیار فقط کتاب اللہ ہے،خواہ اس کی تائید میں ہزار حدیثیں بھی ایسی کیوں نہ پیش کردی جائیں ، جن کے راویوں میں جبرائیل و میکائیل تک کا بھی نام شامل کردیاگیا ہو۔[SUP]16http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a16[/SUP]
۳۔ صحیح اور غلط کے پرکھنے کا ایک ہی معیار ہے یعنی یہ کہ اس کے متعلق قرآن کا کیا فیصلہ ہے۔ جیسے قرآن صحیح قرار دے، وہ صحیح ہے خواہ اُسے ایک آدمی بھی صحیح نہ مانتا ہو، اور جسے وہ غلط قرار دے، وہ غلط ہے خواہ اُسے ساری دنیا مسلمہ کی حیثیت سے جانتی ہو۔ [SUP]17http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a17[/SUP]
۴۔ قانون کے صحیح ہونے کی سند نہ زید ہے نہ بکر، نہ اسلاف ہیں نہ اخلاف۔ اس کی سند ہے اللہ کی کتاب جو اس کے مطابق ہے وہ صحیح ہے۔ جو اس کے خلاف ہے وہ غلط ہے خواہ اسے کسی کی بدنیتی یانادانی، کسی بڑی سے بڑی ہستی کی طرف بھی منسوب کیوں نہ کردے۔ [SUP]18http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a18[/SUP]
۵۔ سوال یہ ہے کہ کسی چیز کے 'درحقیقت صحیح' ہونے کا معیار کیاہے؟ قرآن کی رُو سے وہ معیار یہ ہے کہ جو بات کتابِ خداوندی کے مطابق ہو، وہ صحیح ہے اور جو اس کے خلاف ہو وہ غلط ہے۔ [SUP]19http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a19[/SUP]
۶۔ کسی بات کے لئے اسلامی یا غیراسلامی ہونے کے لئے کسی انسان کی سند کافی نہیں ہوسکتی۔ اس کے لئے سند صرف خدا کی کتاب کی ہونی چاہئے۔[SUP]20http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a20[/SUP]
۷۔ ہمارے پاس خدا کی کتاب موجود ہے، جس کی روشنی میں ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ جو کچھ کسی اور انسان نے کہا ہے (خواہ وہ اس وقت موجود ہے یا ہم سے پہلے گزر چکا ہے) اسے پرکھے۔اگر وہ اس کتاب کے مطابق ہے تو اسے صحیح تسلیم کرلیاجائے، اگر اس کے خلاف ہے تو مسترد کردیاجائے۔ [SUP]21http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a21[/SUP]
۸۔ طلوعِ اسلام کا مسلک یہ ہے کہ حق اور باطل کا معیار قرآن ہے۔ہر وہ بات جو قرآن کے مطابق ہے، صحیح ہے۔[SUP]22http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a22[/SUP]
۹۔ دین کے معاملہ میں حق و باطل اور صحیح و غلط کا معیار قرآنِ کریم ہے۔[SUP]23http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a23[/SUP]
۱۰۔ ہمارے سامنے ہدایت و ضلالت کامعیار قرآنِ مجیدہے۔ [SUP]24http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a24[/SUP]
تِلـــــک عشـــــرۃ کاملـــــــۃ !!



'مفکر ِقرآن' کے وسیع لٹریچر میں سے مُشتے نمونہ از خروارے کے طور پر یہ وہ چند اقتباسات ہیں جن میں فقط قرآن ہی کے واحد معیار، اسی کے تنہا سند ہونے اور اسی کے پیمانۂ ردّ و قبول اور اسی کے کسوٹی ٔ حق و باطل ہونے اور اسی کے فرقانِ صحت و سقم ہونے اور اسی کے میزانِ ہدایت و ضلالت ہونے کے خوش کن دعاوی مرقوم ہیں ۔ ان 'خوش کن دعاوی'کی حیثیت دراصل کسی بد دیانت اور فریب کار تاجر کی دکان میں موجود اُن اصلی اورکھری چند اشیا کی سی ہے جنہیں وہ اپنے جعلی اور کھوٹے سروسامان کی بہتات میں مصلحتاً رکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ اعلانات 'مفکر ِقرآن' کے فی الواقع ہاتھی کے وہ دانت ہیں جو صرف دکھانے ہی کے کام آتے ہیں ۔

دنیا میں ہر شخص اچھے سے اچھا خیال، بہتر سے بہتر نظریہ، خوب سے خوب تر فکر،مستحسن سے مستحسن تر فلسفہ ہر وقت پیش کرسکتا ہے، لیکن زمانے کا بے رحم صراف، ایسے کسی خیال، نظریے، فکر یافلسفے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا جو عمل کی کسوٹی پر پورا نہیں اُترتا۔ ہمارے 'مفکر قرآن' کے یہ سب خوش کن دعاوی اس وقت بے وقعت اور بے وزن ہوکر رہ جاتے ہیں جب وہ مسائل حیات کے حل کے لئے قرآنِ کریم کی بجائے مغربی تحقیقات کی طرف یہ کہتے ہوئے رجوع فرماتے ہیں کہ اُمت ِمسلمہ تو تقلیدی جمود کا شکار ہے جسے دیکھ کر اُن جیسے 'نابغہ عصر' اور 'مجتہد ِمطلق' کو بڑی کوفت ہوتی ہے اور پھر یہی کوفت ان الفاظ کا روپ دھار لیتی ہے:
''سلیم ! تمہیں اپنا سینہ چیر کر درد و کرب کی ان تلاطم خیزیوں کو کس طرح دکھاؤں جنہوں نے مجھ پر راتوں کی نیند اور دن کا چین حرام کررکھاہے۔ سلیم !
میرے دیدۂ تر کی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالہ نیم شب کا نیاز
مری خلوت و انجمن کا گداز
تم نہیں دیکھ سکتے کہ میں پاکستان کے وسیع وعریض خطہ پر نگاہ ڈالتا ہوں تو عام طور پر یہ دیکھتا ہوں کہ
نہ کہیں لذتِ کردار، نہ افکارِ عمیق٭
اور ایک ٹھنڈی سانس سے یہ کہہ کرخاموش ہوجاتا ہوں کہ
آہ! محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق[SUP]25http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a25[/SUP]

اطاعت ِ قرآن کی بجائے تقلید ِ مغرب
چنانچہ ہمارے'مفکرقرآن' صاحب جو اُمت ِمسلمہ کو کیفیت ِجمود اور حالت ِتقلید میں دیکھ کر ٹھنڈی سانس سے یہ کہہ کرخاموش ہوجایا کرتے تھے کہ ''آہ! محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق''، وہ تفسیر قرآن کی کوہ کنی میں ''اپنے دیدۂ تر کی بے خوابیوں کو''، ''اپنے پوشیدہ دل کی بے تابیوں '' کو ، ''اپنے نالۂ نیم شب کے نیاز'' کو اور اپنی ''خلوت و انجمن کے گداز'' کو وقف ِراہِ تقلید مغرب کئے ہوئے تھے۔ کیونکہ مغرب میں 'زوالِ تحقیق' کی بجائے 'عروجِ تقلید' موجود ہے۔ وہ قرآنی حقائق کی بجائے، تحقیقاتِ مغرب کو حتمی، قطعی اور یقینی قراردیا کرتے تھے۔ وہ 'ابہاماتِ قرآن' کو تہذیب ِغالب کے انکشافات و اکتشافات کی روشنی میں کھولا کرتے تھے، جہاں کہیں وہ قرآنی حقائق اور مغربی تحقیقات میں ٹکراؤ ہوتاتھا، وہ وہاں تحقیقاتِ مغرب کو شرفِ تقدم عطا کرکے قرآنِ کریم کو اُن کے مطابق ڈھال دینے پر جت جایا کرتے تھے تاکہ خدا کی کتاب 'جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ' ہوجائے اور کوئی نہ کہہ سکے کہ از منۂ مظلمہ میں نازل ہونے والی یہ کتاب آج کے 'روشن دور' کی 'علم و بصیرت' کی کسوٹی پر پوری نہیں اُترتی۔

اس امر کے اثبات میں اگرچہ متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ، لیکن مقالے کی تنگ دامنی کے باعث چند مثالوں پراکتفا کیاجاتاہے :

پہلی مثال: انسانوں میں تصورِ خدا کیسے پیداہوا؟
بنی نوع انسان میں خدا کا تصور،عقیدۂ اُلوہیت او رایمان باللہ کا نظریہ کیسے پیدا ہوا؟
اس سوال کاواضح اور اطمینان بخش جواب ازروے قرآن یہ ہے کہ ایسا وحی ٔ خداوندی کی بنا پرہوا۔ لیکن ہمارے 'مفکر ِقرآن' کی عقل و دانش اور 'قرآنی بصیرت' اس کا کوئی او رہی جواب فراہم کرتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے یہ جواب:

''جب انسانی شعور نے آنکھ کھولی تو اپنے آپ کو عجیب دنیامیں پایا۔ سرپر آتش باری کرنے والا ایک عظیم اورمہیب گولہ، چاروں طرف بڑے بڑے پہاڑ، ادھر اُدھر ساحل ناآشنا سمندر اور اس کی خوفناک تلاطم انگیزیاں ، یہاں وہاں کف بردہاں اور سیلاب درآغوش دریاؤں کی خوف سامانیاں ، میلوں تک ڈراؤنے جنگل اور ان میں بڑے بڑے خطرناک درندے اور اژدہے، کبھی بادل کی لرزہ خیز گرج، کبھی زلزلوں کی تباہ کاریوں کاہجوم، شش جہات میں اس قسم کی خوفناک بلاؤں کا ہجوم و اژدہام اور ان کے اندر گھرا ہوابے یارو مددگار اور بے سروسامان تنہا ابن آدم۔آپ سوچئے کہ ان حالات میں خارجی کائنات کے متعلق اس کاردّعمل اس کے سوا کیاہوسکتا تھا کہ جو بلا سامنے آئے، یہ گڑگڑانا شروع کردے۔جہاں کوئی خطرہ آنکھ دکھائے یہ اس کے سامنے سرنگوں ہوجائے۔اس طرح فطرت کی مختلف قوتیں اس کا 'اِلٰہ' او ریہ اس کا پرستار بن گیا۔ چاند، سورج، ستارے، گرج، کڑک، بارش، آندھی، آگ، دریا،سانپ، شیر، حتیٰ کہ وبائی امراض، سب دیوی دیوتا تصور کرلئے گئے اور ان کی بارگاہ میں نذونیاز، منت و سماجت اور مدح و ستائش سے اُنہیں خوش رکھنے اور راضی رکھنے کی تدابیر اختیار کی جانے لگیں ۔ یہ تھا(اُس ماحول میں ) انسان کااوّلین ردّعمل۔ خارجی کائنات کے متعلق رفتہ رفتہ اسی ردّعمل نے مذہب کی شکل اختیار کرلی اور آپ جانتے ہیں کہ جب کوئی عقیدہ یا تصور مذہب کی شکل اختیار کرلے تو حالات کتنے ہی کیوں نہ بدل جائیں اس میں تبدیلی نہیں آیا کرتی، چنانچہ دنیا کے بیشتر مذاہب کائنات کے متعلق انسان کے اس اوّلین ردّعمل کے مظاہر ہیں ۔ ''[SUP]26http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a26[/SUP]

'مفکرقرآن' کا قطعی خلافِ قرآن فلسفہ
'مفکر ِقرآن'کایہ اقتباس اس امر کو واضح کردیتاہے کہ انسان نے اپنی زندگی کی ابتدا عقیدہ توحید سے نہیں بلکہ نظریۂ شرک سے کی تھی۔ یہ نظریہ دراصل دین بیزار، اسلام دشمن، توحید مخالف اور دہریت پسندقوموں کافلسفہ ہے جسے اُنہوں نے 'خدا سے بیزارعقل' کی کسوٹی پرپرکھ کر پیش کیا ہے اور ہمارے'مفکر ِقرآن' نے اپنی فکری اسیری اور ذہنی غلامی کی بنا پر اسے من وعن قبول کرلیاہے حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ انسان نے اپنے سفر حیات کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں عقیدۂ توحیدکی روشنی میں کی تھی نہ کہ کفر و شرک کی ظلمت میں ۔ انسان کو پیداکرنے کے بعد اس کی رہنمائی کرنا خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھاہے جیسا کہ قرآنِ کریم میں بکثرت مقامات پرخداے قدوس کی اس ذمہ داری کو بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً :
وَعَلَى ٱللَّهِ قَصْدُ ٱلسَّبِيلِ وَمِنْهَا جَآئِرٌ‌ۭ...﴿٩﴾...سورۃ النحل
''اور راہِ راست دکھانا اللہ ہی کے ذمہ ہے جب کہ ٹیڑھے راستے میں موجود ہیں ۔''

إِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدَىٰ ...﴿١٢﴾...سورۃ الیل
''اور ہم پر ہی یہ لازم ہے کہ ہم رہنمائی کریں ۔''

اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلا انسان جو پیدا کیا تو اسے علم وحی سے نوازا۔ مرتبۂ نبوت عطافرمایاتاکہ وہ علم کی روشنی میں ، نہ کہ جہالت و بے خبری کی تاریکی میں ، اپنے سفر حیات کاآغاز کرے۔

تنقید بر 'دلائل پرویز'
اپنے 'مفکر قرآن' کے وہ دلائل جو اُنہوں نے'خارجی کائنات'کے متعلق انسان کے اوّلین ردّعمل کے ضمن میں پیش کئے ہیں تو وہ دراصل 'دلائل' نہیں بلکہ دانشورانِ مغرب کی چچوری ہوئی وہ ہڈیاں ہیں جنہیں منکرین حدیث اپنے منہ سے اُگل رہے ہیں اور حیرت بالاے حیرت یہ امر ہے کہ تہذیب ِمغرب کے سحر میں گرفتار یہ غلام فطرت لوگ اپنی اسلامی حس اور تنقیدی قوت کو سرے سے ہی کھو چکے ہیں یہاں تک کہ مغرب سے جو کچھ بھی آتا ہے، اُسے وحی سمجھ کر من وعن قبول کرلیا جاتا ہے۔ اس کی بہترین مثال اسی زیر بحث معاملہ میں دیکھی جاسکتی ہے کہ انسانی دنیامیں خدا اورمذہب کے تصور کی پیدائش میں کس طرح فلاسفۂ مغرب کی اندھی تقلید کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو محض خوف کی 'پیدوار' قرار دیا گیا ہے۔نیز یہ کہ کاروانِ انسانیت کے سفر کاآغاز علم وحی کی روشنی میں نہیں بلکہ جہل و بے علمی کی تاریکی میں ہواتھا اورنہیں معلوم کہ سفر ارتقا کی کتنی منزلیں طے کر ڈالنے کے بعد اور مدتِ دراز کی کشتی ٹھوکریں کھانے کے بعد اس کارواں کو توحید و اسلام کی روشنی دکھائی دی۔ یہ سب کچھ دراصل اسلامی فلسفۂ تاریخ سے قطعی جہالت و ناواقفیت کانتیجہ ہے اور ساتھ ہی فلسفۂ مغرب سے شدید فکری مغلوبیت اور ذہنی مرعوبیت کا بھی۔ بیدار مغز مسلم مفکرین نے جنہیں تہذیب ِمغرب کی چمک دمک متاثر نہ کرسکی، اپنی جاندار تنقید سے مغربی فلسفہ کے تاروپود کو بکھیرکر رکھ دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے درج ذیل اقتباس... مولاناامین احسن اصلاحی لکھتے ہیں :
''یہ بات کہ مذہب کا آغاز اَن دیکھی قوتوں کے خوف سے ہوا ہے او ریہی جذبہ انسان کے جذبات میں اوّلین اور قدیم جذبہ ہے، بالکل بے سروپا ہے۔انسانوں میں جو خوف پایا جاتاہے اس کی اصل حقیقت، زوالِ نعمت کااندیشہ ہے۔خود کاتجزیہ کیجئے تو صاف نظر آئے گا کہ خوف نام ہے اس چیز کاکہ آپ کو کسی ایسی چیز کے چھن جانے یااُس سے محروم ہوجانے کا اندیشہ یا خطرہ پیداہوگیا ہے جو آپ کو حاصل بھی ہے اور عزیز بھی۔مثلاً انسان کو اپنی زندگی عزیز ہے، زندگی کا سروسامان عزیز ہے، اپنے بیوی بچے عزیز ہیں ۔ اس لئے وہ ان چیزوں کی طرف سے اندیشہ میں ہوتا ہے کہ کہیں یہ چیزیں چھن نہ جائیں ۔ دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہر خوف سے پہلے کسی نعمت کاشعور بھی لازمی ہو او رپھر اس کی شکرگزاری کا جذبہ پیداہونا بھی ناگزیر ہوا۔

اس نظریہ کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جو چیزیں انسان کے اندر خوف کی حالت پیدا کرتی ہیں ، وہ دنیاکے عام واقعات میں سے نہیں ۔ زلزلے روز نہیں آیاکرتے، آتش فشاں پہاڑ روز نہیں پھٹتے، بجلیاں روز نہیں کڑکتیں ،وبائیں روز نہیں پھوٹتیں اور طوفان کا شور بھی کوئی روزمرہ کاواقعہ نہیں ۔ اس کے برعکس تارے روز چمکتے ہیں ، سورج روز چمکتا ہے، چاند روز چمکتا ہے اور اپنی روپہلی چاندنی کی چادر روز دشت و جبل میں بچھاتا ہے۔ آسمان کی نیلگونی ہر لمحہ باصرہ نوازی کرتی ہے۔ ابر ِکرم کی تردستیاں اور درختوں کی ثمر باریاں ہرموسم میں موجود رہتی ہیں ۔ پھر کس قدر حریت کی بات ہے کہ مظاہر فطرت کی گاہ گاہ کی گھرکیاں اور دھمکیاں تو انسان کو اس درجہ مرعوب کردیں کہ وہ ان کی پوجا کرنے لگ جائے، لیکن منعم غیب کی ساری فیاضیاں بالکل بے اثر ہوکر رہ جائیں اور انسان میں شکر و سپاس کا کوئی ولولہ پیدانہ کریں ۔ اس لئے انسان کے مشاہدۂ کائنات اور مشاہدۂ النفس کی فطری راہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ نعمتوں اور رحمتوں کے مشاہدہ سے اس پر ایک منعم حقیقی کی شکرگزاری کا جذبہ اور احساس طاری ہوا اور پھر اس جذبہ کی تحریک سے وہ اُس کی بندگی کی طرف مائل ہوا، گویا دین کاآغاز توحید سے ہوا،اس میں کجی پیدا کرکے شرک کی راہ انسان نے بعد میں اختیار کی۔''[SUP]27http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a27[/SUP]

ہمارے 'مفکر قرآن' چونکہ ذہنا ًاور کلیا ً فلسفہ سے مرعوب و مسحور تھے۔ اس لئے وہ مقہور و مجبور تھے کہ اس سوال کے جواب میں کہ بنی نوع انسان میں خدا کاتصور کیسے پیداہوا؟ وہی فلسفہ اپنائیں جس کی روشنی میں اہل مغرب کے ہاں انسان کاسفر حیات(توحید کی روشنی میں نہیں بلکہ)شرک و کفر کی تاریکیوں میں ہواتھا او رپھر اسی فلسفۂ باطلہ کی لاج رکھتے ہوئے، اُنہوں نے اپنی فکری مرعوبیت اورذ ہنی غلامی کاکھلا کھلا ثبوت فراہم کرڈالا ہے۔ یہ طرزِعمل خود اس حقیقت کو بے نقاب کردیتا ہے کہ 'مفکر ِقرآن' کس طرح قرآن کانام لے کر، فکر ِفرنگ اور فلسفۂ مغرب کی پیروی کیا کرتے تھے۔

عمر بھر کے مطالعۂ قرآن کے بعد بھی قرآن سے بے خبری
'مفکر ِقرآن' اپنی ستائش آپ کرتے ہوئے اکثر اپنی عمر بھر کی قرآنی تحقیق و ریسرچ کاڈھنڈورا پیٹاکرتے تھے، مثلاً
''میں ، اے برادرانِ گرامی قدر! قرآنِ کریم کاطالب علم ہوں ، میں نے اپنی عمر کابیشتر حصہ اس کتابِ عظیم کی روشنی میں اپنی بصیرت کے مطابق اسلام کے بنیادی تصورات کامفہوم متعین کرنے میں صرف کیا ہے اورمیری اس کوشش کاماحصل،میری تصانیف کے اَوراق میں محفوظ ہے۔''[SUP]28http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a28[/SUP]

''مہ و سال کے شمارسے میں ۹جولائی ۱۹۷۸ء کو اپنی عمر رواں کے پچھتّر سال پورے کررہاہوں ۔ یہ کوئی ایسا اہم واقعہ نہیں تھا جس کا خصوصیت کے ساتھ طلوعِ اسلام کے صفحات میں ذکر کیا جاتا۔ قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ میں اپنی موجودہ قرآنی فکر اور اس کی نشرواشاعت کے سلسلہ میں پچاس سال پورے کررہاہوں ۔ عام اصطلاح میں اسے 'گولڈن جوبلی' کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ میرے نزدیک یہ پچاس سالہ 'جوبلی' دنیا کے ہر متاع سے زیادہ گراں مہا اور اس کی یاد، سب سے زیادہ وجہ ِنشاطِ روح ہے اور نشاط و انبساط کے یہی وہ احساسات ہیں جن میں اپنے بے شمار دیدہ ونادیدہ اَحباب و رفقا اور متفقین کو شریک کرنے کے لئے میں نے اس کا تذکرہ ضروری سمجھا ہے۔ میں جب ساحلِ عمر کے ریگ ِرواں پر ان پچاس سالہ نقوش کو مرتسم دیکھتا ہوں تو حیرت میں جو متن اپنے سامنے رکھا تھا، اس میں مجھے اس قدر کامیابی حاصل ہوئی ہے، اس سے میرا سرنیاز اس بارگاہِ عتبۂ عالیہ پر بے ساختہ جھک جاتا ہے جس کی عطا کردہ راہنمائی کے بغیر اس کامیابی کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں ہوسکتا تھا اورحیرت یہ کہ تمام دنیاوی علائق کے باوجود (جن میں کم وبیش تیس سال ملازمت کے بھی شامل ہیں ) میں نے انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں تن تنہا یہ طویل مسافت کیسے طے کرلی۔ ''[SUP]29http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a29[/SUP]

بلاشبہ 'مفکر ِقرآن' نے قرآنی مطالعہ و تحقیق میں پچاس سال صرف کرڈالے، لیکن اس کانتیجہ کیا نکلا؟ یہ کہ وہ لغت ہائے حجازی کے قارون تو بن گئے، لیکن قرآن کی روح اُن پر بے نقاب نہ ہوسکی، کیوں ؟ صرف اس لئے کہ ان کی آنکھوں پرایک مخصوص رنگ کی عینک چڑھی ہوئی تھی، اوردورانِ مطالعہ انہیں ہر چیز اُسی عینک ہی کے رنگ میں دکھائی دیتی رہی اور قرآنِ کریم کی وہ واضح آیات جو فکر ِمغرب کی تردید کرتے ہوئے یہ اعلان کرتی ہیں کہ کاروانِ انسانیت نے اپنا سفر، کفر وشرک اور جہالت و بے علمی کی تاریکیوں میں نہیں بلکہ عقیدئہ توحید اور علم وحی کی روشنی میں شروع کیاتھا، اُن کی نگاہوں سے اوجھل ہی رہیں ۔صرف دو آیات ملاحظہ فرمائیے :

وَمَا كَانَ ٱلنَّاسُ إِلَّآ أُمَّةً وَ‌ٰحِدَةً فَٱخْتَلَفُوا۟ ۚ...﴿١٩﴾...سورۃ یونس
''اور لوگ تو ایک ہی اُمت تھے پھر اُنہوں نے اختلاف کیا۔''

كَانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةً وَ‌ٰحِدَةً فَبَعَثَ ٱللَّهُ ٱلنَّبِيِّـۧنَ مُبَشِّرِ‌ينَ وَمُنذِرِ‌ينَ...﴿٢١٣﴾...
''(ابتدا میں )سب کچھ لوگ ایک ہی طریقے پر تھے۔ (پھریہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے جو مبشر اورمنذر تھے۔''

یہ دونوں آیات فکر ِپرویز کی تردیدکرتی ہیں جو اُنہوں نے 'مفکر ِقرآن' کی حیثیت سے مغرب سے اپنی ذہنی مرعوبیت کے باعث اپنارکھاتھا۔ پہلی آیت کے تحت مولاناامین احسن اصلاحی لکھتے ہیں :
''ضمناً اس سے جدید فلسفیوں کے اس نظریہ کی بھی تردید ہوگئی کہ انسان نے دین کاآغاز شرک سے کیا، پھر درجہ بدرجہ اِرتقا کرتے ہوئے توحید تک پہنچا۔ قرآن اس کے برعکس یہ کہتا ہے کہ خدا نے شروع ہی سے انسان کو توحیدکی تعلیم دی،لیکن گمراہوں نے اس میں اختلاف پیدا کرکے فتنے کھڑے کردیئے۔ہم نے فلسفۂ جدید کے اس باطل نظریہ کی تردید اپنی کتاب'حقیقت ِتوحید' میں تفصیل سے کی ہے۔''[SUP]30http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a30[/SUP]

اور دوسری آیت کے تحت مولانا عبدالماجد دریابادی فرماتے ہیں :
''آیت نے ایک بڑی گرہ کھول دی۔ فرنگی 'محققین' حسب ِمعمول مدتوں اس باب میں بھٹکتے رہے اور ان میں اکثر یہی کہے گئے کہ انسان کا ابتدائی مذہب شرک یاتعددِ آلہہ تھا۔ شروع شروع میں وہ ایک ایک چیز کو خدا سمجھتا تھا اور عقیدۂ توحید تک نسلی انسانی بہت سی ٹھوکریں کھانے کے بعد اور عقلی اور دماغی ارتقا کے بڑے طویل سفر کے بعد پہنچی ہے۔ قرآنِ مجیدنے اس خرافی نظریہ کوٹھکرا کر صاف اعلان کردیا کہ نسلِ انسانی آغازِ فطرت میں دینی حیثیت سے ایک اور واحد تھی۔ اس میں 'مذہب' و 'اَدیان' کے یہ تفرقے کچھ بھی نہ تھے۔امت ِواحدہ میں جس وحدت کا ذکر ہے، ظاہر ہے کہ اس سے دینی و اعتقادی وحدت ہی مراد ہے:

کانوا علی شریعۃ من الحق[SUP]31http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a31[/SUP]
إنھم کانوا علی دین واحد وھو الإیمان والحق ھذا قول أکثر المحققین[SUP]32http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a32[/SUP]

صدیوں کی اُلٹ پھیر اور قیل و قال کے بعد اب آخری فیصلہ بڑے بڑے ماہرین اَثریات، انسانیات و اجتماعیات (سرچارلس مارسٹن، پروفیسر لنگڈن اور پروفیسر شمڈٹ) کا یہی ہے کہ انسان کا اوّلین دین، دینِ توحیدتھا۔ ''[SUP]33http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a33[/SUP]

'مفکر ِقرآن' کی اندھی تقلیدمغرب
لیجئے، اب تو مغربی مفکرین بھی اپنی تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچ رہے ہیں کہ انسان کا اوّلین دین، دینِ توحید تھا۔لیکن ہمارے 'مفکر ِقرآن' ماڈرن ہوکر بھی ابھی تک اس مسئلہ میں 'قدامت پرستی' پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ دراصل 'مفکر ِقرآن' صاحب یہاں کے اس جدید طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے ذہنوں پر مغرب کی اندھی پیروی کے باعث ایساجمود و تعطل طاری ہوگیا ہے کہ اگروہاں سے کوئی غلط بات بھی صادر ہوجائے تو اُسے 'وحی' قرار دے کر ہاتھوں ہاتھ لے لیاجاتا ہے اورمسائلِ حیات کے حل کے لئے پوری مقلدانہ سعادت مندی کے ساتھ اُن ہی نسخوں کو آزماڈالاجاتا ہے جو دراصل یہاں کے لئے بنائے ہی نہیں گئے تھے۔

اہل مغرب دورِ حاضر کی غالب تہذیب کے علمبردار ہونے کی حیثیت سے اپنے مجوزہ نسخوں کو مجتہدانہ بصیرت سے برتتے ہیں اور حسب ِضرورت ان میں ترمیم بھی کرلیتے ہیں ، لیکن یہاں کے مقلد تو ایسے کور چشم واقع ہوئے ہیں کہ اپنے وطن، ماحول، حالات، الغرض ہر چیز سے آنکھیں بند کرتے ہوئے مریض کی آخری ہچکی تک وہی نسخہ استعمال کرتے رہیں گے، اِلا یہ کہ خود وہیں سے ترمیم کی کوئی اطلاع آجائے۔ لیکن بعض ضدی قسم کے عطائیوں کا تو یہ حال ہے کہ جس غلط بات کو ایک مرتبہ تقلید ِیورپ میں اختیار کرلیا ہو، اُسے پھر دانتوں سے پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ بعدازاں اب اگر وہاں کے مفکرین کی تحقیقات مںج بھی وہ غلط قرار دی گئی ہو تو بھی یہاں کے مقلدین اس کی تردید و تکذیب پرآمادہ نہیں ہوتے۔ فما کانوا لیؤمنوا بما کذبوا من قبل !

اب یہاں دیکھئے، مفکرینِ مغرب مثلاً سرچارلس مارسٹن، پروفیسر لنگڈن اور پروفیسر شمڈٹ وغیرہ اپنی جدید تحقیقات کے باعث سابقہ نظریہ کو ترک کرکے اس تحقیق و انکشاف پرمتفق ہو رہے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کاآغاز کفر و شرک کی ظلمتوں اور جہالت و بے خبری کی تاریکیوں میں نہیں کیا بلکہ عقیدۂ توحید اورعلم وحی کی روشنی میں کیاتھا، لیکن ہمارے ہاں تجدد پسند دانشورابھی تک مغرب کی پرانی تحقیق پرجمے ہوئے ہیں جو صریحاً خلافِ قرآن ہے۔

دوسری مثال: انکارِ نبوت ِ آدم:
ملت ِاسلامیہ کاچودہ صدیوں پرمحیط لٹریچر اس حقیقت پر شاہد ہے کہ ہردور کے مفکرین و مجتہدین،مفسرین و محدثین، علماء و فقہا، مؤرخین و اصحابِ سیر نے حضرت آدم علیہ السلام کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا ایک برگزیدہ پیغمبر اور نبی تسلیم کیا ہے، لیکن ہمارے'مفکر ِقرآن' اُنہیں نبی تسلیم نہیں کرتے اور اس کے لئے بایں الفاظ دلیل پیش کرتے ہیں :
''سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ قصۂ آدم میں کہا گیا ہے کہ خدانے آدم کو بالتصریح ایک حکم دیا اور آدم نے اس سے معصیت برتی، اس قسم کی معصیت کسی نبی کا شیوہ نہیں ہوسکتا... حضرات انبیا تو رہے ایک طرف، جیسا کہ بتایا جاچکا ہے،ابلیس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہے کہ {إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَـٰنٌ...﴿٤٢﴾...سورۃ الحجر} ''یقینا میرے بندوں پرتجھے غلبہ حاصل نہیں ہوگا۔'' [SUP]34http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a34[/SUP]

یہاں دو باتیں قابل غور ہیں :
اوّلاً یہ کہ ... آدم علیہ السلام کی یہ معصیت تھی کس قسم کی؟ جس کے متعلق خود پرویز صاحب فرماتے ہیں کہ ''اس قسم کی معصیت، کسی نبی کا شیوہ نہیں ہوسکتی۔''

حقیقت یہ ہے کہ آدم علیہ السلام، نہ تو معصیت کوش تھے اور نہ ہی نافرمانی ربّ کا وہ کوئی ارادہ رکھتے تھے۔ بات صرف یہ ہوئی کہ بقول پرویز صاحب:
''{وَقَاسَمَهُمَآ إِنِّى لَكُمَا لَمِنَ ٱلنَّـٰصِحِينَ ...﴿٢١﴾...سورۃ الاعراف}''شیطان نے قسمیں کھا کر کہا: جو کچھ میں کہہ رہا ہوں ، اس میں میرا کوئی فائدہ نہیں ۔ میں یہ سب کچھ تمہاری خیرخواہی کے لئے کررہا ہوں ۔''[SUP]35http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a35[/SUP]

اور حضرت آدم علیہ السلام جن کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ کوئی فرد اللہ کے نام کی قسم کھاکر کسی کودھوکہ دے سکتاہے، اپنی فطری سادگی کی بنا پراس شیطانی چکمہ کا شکار ہوگئے، پھر یہ دھوکہ دہی کی واردات بھی پہلی ہی تھی کہ اس سے قبل اُنہیں کبھی کسی فریب دہی اور دھوکہ بازی کی صورتِ حال کا سامنا نہ ہواتھا، بلکہ اس وقت تک آدم علیہ السلام اپنی فطرت کی سادگی اور پاکیزگی پرقائم تھے کہ جھوٹ، دھوکہ اور فریب جیسے رذائل سے ان کاتعارف ہی نہ ہوا تھا۔ اس لئے وہ شیطان کے فریب میں آگئے پھر کیا حضرات انبیا، عالم الغیب ہوتے ہیں کہ کسی بدباطن کے دھوکہ میں نہ آئیں ؟ کیا یہ واقعی اس قسم کی معصیت تھی جس سے انبیاے کرام بالاتر ہوا کرتے ہیں ؟ آخر وہ کسوٹی اور معیار تو بیان کیا جاتا جس کی رو سے انبیا کی معصیت اور غیر انبیا کی معصیت میں فرق کیا جاسکے۔

لغزشِ یونس او رپرویز
پھر از روے قرآن حضرت یونس علیہ السلام سے جو کچھ سرزد ہوا ،کیا وہ آدم علیہ السلام کی لغزش سے بڑی لغزش نہ تھی، حالانکہ نبوتِ یونس ؑکے خود پرویز صاحب بھی قائل ہیں ۔

حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق خودپرویز صاحب لکھتے ہیں :
''... وہ قوم کی مخالفت سے سخت گھبرا گیا اور پیشتر اس کے کہ اسے خدا کی طرف سے ہجرت کرنے کا حکم ملتا، وہ اپنے فرائض منصبی کو چھوڑ کر وہاں سے روانہ ہوگیا...''[SUP]36http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a36[/SUP]

پھرایک اور مقام پر حضرت یونس علیہ السلام کی لغزش کی وضاحت بایں الفاظ کرتے ہیں :
''خدا کی طرف سے ہجرت کا حکم، اُس وقت ملاکرتاہے جب اس قوم کا حق و صداقت کو قبول کرنے کا اِمکان باقی نہ رہے۔ اس سے پہلے وہاں سے چلے جانا گویا اپنے فرائضِ منصبی کو چھوڑ دینا ہے۔ یہی یونس علیہ السلام کی اجتہادی غلطی تھی۔''[SUP]37http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a37[/SUP]

اب غور فرمائیے کہ حضرت یونس علیہ السلام سے جوکچھ سرزد ہوا وہ ان کی اپنی طرف سے بغیر کسی 'ناصح'کی پھسلاہٹ کے واقع ہوا، اور اُنہوں نے بطن ماہی میں أَن لَّآ إِلَـٰهَ إِلَّآ أَنتَ سُبْحَـٰنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ کہہ کر اعترافِ لغزش بھی کیا اورمعافی بھی مانگی۔

دوسری طرف، حضرت آدم علیہ السلام سے جو کچھ واقع ہوا، وہ ان کی آزادانہ مرضی کانتیجہ نہ تھا۔ ابلیس کے اس فریب کانتیجہ تھا جو اس نے ناصح و شفیق کا روپ دھارکر خدا کی قسمیں کھا کر دیا تھا۔اگر ابلیس اُنہیں یہ چکمہ نہ دیتا تو ان سے یہ امر سرزد ہی نہ ہوتا۔بخلاف ازیں حضرت یونس علیہ السلام سے جو کچھ وقوع پذیر ہوا، اس میں ابلیس یا کسی اور 'شفیق ناصح' کا عمل دخل تھا ہی نہیں ،لیکن ہمارے 'مفکر ِقرآن' حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ''اس قسم کی معصیت کسی نبی کا شیوہ نہیں ہوسکتا'' یعنی کسی کی قسموں پراعتبار کرکے اسے شفیق ناصح جان کر اگر کسی سے لغزش ہوجائے تو یہ تو نبی کا شیوہ نہیں ہوسکتا، لیکن اگر کسی نبی سے ایسے حکم خدا کی نافرمانی ہوجائے جو سب انبیا کے لئے ہجرت کے لئے ایک مستقل ضابطہ کی حیثیت رکھتا ہے تو ایسی نافرمانی ''نبی کا شیوہ ہوسکتی ہے۔'' قربان جائیے'مفکر قرآن' کی اس 'قرانی فہم و بصیرت 'کے!

ثانیاً یہ کہ ... پرویز صاحب کا یہ استدلال کہ ... '' شیطان نے آدم پر غلبہ پالیاجبکہ نبی تو رہا ایک طرف وہ اللہ کے مخلص بندوں پر بھی حاوی نہیں ہوسکتا۔'' از حد لغو استدلال ہے، جو 'مفکر ِقرآن' کے غلبۂ شیطان کی حقیقت سے بے بہرہ ہونے کا نتیجہ ہے۔

غلبۂ شیطان یا مسِ شیطان؟
غلبۂ شیطان کا اصل مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے جملہ اُمور میں نہیں تو اکثر و بیشتر معاملات میں شیطان کا پیرو بن جائے اور شیطان کو اس پر اس قدر قابوحاصل ہوجائے کہ وہ راہِ راست پر نہ رہنے پائے، رہا کسی ایک آدھ معاملے میں ، شیطانی وسوسہ یاابلیسی نسیان کا شکار ہوجانا، تو اسے غلبۂ شیطان سے تعبیر کرناسوئے تعبیر ہے۔ اسے بیش از بیش'مسّ شیطان' کہا جاسکتا ہے، چنانچہ قرآن مجید خود 'غلبۂ شیطان' اور 'مسِ شیطان' میں فرق کرتاہے۔ وہ اوّل الذکر کے متعلق یہ کہتا ہے کہ إنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنٌ (۱۵؍۴۲) ''یقینامیرے بندوں پر تجھے غلبہ حاصل نہیں ہوگا۔'' اور 'مس شیطان' کے بارے میں خود قرآنِ کریم ہی میں یہ مذکور ہے کہ اہل تقویٰ حضرات بھی بعض اوقات اس سے محفوظ نہیں رہ پاتے، تاہم خدا کی یاد جب اُن کی آنکھیں کھول دیتی ہے تو ان کی خفیہ یا مدھم بصیرت میں بیداری یا جلا پیدا ہوجاتی ہے اور وہ 'مس شیطان' کے اثر سے چھٹکارا پالیتے ہیں ۔ قرآن مجید اس سلسلہ میں یہ فرماتا ہے:

إِنَّ ٱلَّذِينَ ٱتَّقَوْا۟ إِذَا مَسَّهُمْ طَـٰٓئِفٌ مِّنَ ٱلشَّيْطَـٰنِ تَذَكَّرُ‌وا۟ فَإِذَا هُم مُّبْصِرُ‌ونَ ...﴿٢٠١﴾...سورۃ الاعراف
''بے شک جو لوگ تقوی شعار ہیں انہیں جب شیطان کی طرف سے وسوسہ پہنچتا ہے اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ان کو آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔

جو لوگ 'غلبۂ شیطان' اور 'مسِ شیطان' میں فرق و امتیاز کی تفصیلی وضاحت چاہتے ہیں ، اُنہیں چاہئے کہ وہ میری کتاب'تفسیر مطالب ُالفرقان کا علمی اور تحقیقی جائزہ' کا مطالعہ فرمائیں ۔اس میں اثباتِ نبوتِ آدم کا تفصیلی تذکرہ بھی موجود ہے۔

انکارِ نبوت آدم علیہ السلام کی اصل وجہ؟
حضرت آدم علیہ السلام کی نبوت کے انکار کی اصل وجہ دراصل وہ فلسفہ تاریخ ہے جسے مغرب نے پیش کیاہے اور پرویز صاحب اُسے دل و جان قبول کرچکے ہیں ۔ نبوتِ آدم کا اقرار و اعتراف اس فلسفۂ تاریخ سے میل نہیں کھاتا جبکہ اسلامی فلسفۂ تاریخ کی رو سے آدم ؑ کی نبوت کوقبول کئے بغیر چارۂ کارنہیں ،کیونکہ روئے زمین پر اوّلین انسان کے ظہور پذیر ہونے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلسلۂ رشدو ہدایت کا اِجرا و آغاز ، رحمت ِخداوندی کا ویسا ہی ناگزیر تقاضا ہے جیسا انسان کی مادی ضروریات کو پورا کرنا۔

قرآن کریم کی رُو سے تخلیقِ بشر (آدم ؑ) کا مقصد ہی زمین میں خلافت کے فرائض کو انجام دینا ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ انسان اللہ کی مرضی اور ہدایت پر چلے۔اگر وہ خدائی رہنمائی سے انحراف کرتاہے تو نہ صرف یہ کہ خلافت کی بجائے بغاوت کی راہ اختیار کرتا ہے بلکہ وہ مستحق سزا بھی ٹھہرتا ہے اور یہ سزا دنیا میں ضیقِ قلب اور آخرت میں دخولِ جہنم کی صورت میں ہوگی، لیکن اگر وہ اپنے فرائض مرضاتِ الٰہیہ کے تابع انجام دیتا ہے تو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی انعامِ خداوندی کا مستحق قرار پاتاہے۔ آدمؑ کو زمین پر اُتارتے وقت یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دی تھیں :

فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّى هُدًى فَمَنِ ٱتَّبَعَ هُدَاىَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ ﴿١٢٣ وَمَنْ أَعْرَ‌ضَ عَن ذِكْرِ‌ى فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُ‌هُۥ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ أَعْمَىٰ ﴿١٢٤﴾...سورہ طہ
''اب اگر میری طرف سے تمہیں ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا، وہ نہ بھٹکے گا، نہ بدبختی میں مبتلاہوگا اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا، تو اس کے لئے دنیامیں بھی تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز بھی ہم اسے اندھا کرکے اُٹھائیں گے۔''

چنانچہ آدمؑ جو ابوالبشر اور اولیٰ الانسان تھے، اُسے امورِ خلافت کی انجام دہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے نورِ ہدایت سے نوازا اور مقامِ نبوت پرسرفراز فرمایا۔اس طرح انسانی معاشرہ کی ابتدا کفر و شرک او رالحاد و دہریت کی تاریکیوں میں ہونے کی بجائے توحید و رسالت اور رشد و ہدایت کی روشنی میں ہوئی۔ لیکن 'مفکر ِقرآن' کے قلب و ذہن اور حواس و مشاعر پر جو فلسفہ اپنی مضبوط گرفت قائم کرچکا ہے، اس کی رُو سے انسانی معاشرہ کی ابتدا، کفروشرک یاالحاد و دہریت سے ہوئی تھی او رپھررفتہ رفتہ یہ معاشرہ ارتقائی منازل طے کرتا ہوا توحید تک پہنچا۔ اس طرح بہت بعد میں کہیں جاکر سلسلۂ وحی و رسالت آغاز پذیر ہوا۔ ابتدائی انسانی معاشرہ کے متعلق پرویز صاحب فرماتے ہیں :
''قوموں کے عروج و زوال میں اس بات کو بڑا دخل ہے کہ خارجی کائنات اورOuter Space کے بارے میں ان کا نظریہ کیا ہے؟ انسان کے شعور نے جب پہلے پہلے آنکھ کھولی تو فضا اور ماحول اس کے خلاف تھا، سر پرآگ برسانے والا شعلہ، آندھیاں ، جھکڑ، بجلی کی کڑک، بادلوں کی گرج، بپھرے ہوئے دریا اور ان کے درمیان نہتا اور تنہا انسان، نہتا یوں کہ فکرودانش میں پختگی پیدا نہ ہوئی تھی۔ وہ فطرت کی طاقتوں کے سامنے جھکنے لگا، انسان کا یہ ابتدائی مذہب (خود ساختہ) خود کا پیدا کردہ تھا۔ اس وقت انسان حوادث کے اسباب و علل سے بھی واقف نہ تھا۔ فطرت کے مظاہر ہرجگہ خدا کی شکل اختیارکرلیتے تھے۔''[SUP]38http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#a38[/SUP]

علم الانسان کے اس فلسفہ کی رو سے جب انسانی معاشرہ کا آغاز مظاہر فطرت سے مرعوبیت کی بنا پر اُنہیں خدا ماننے کے صورت میں ہوا، تو ظاہر ہے کہ اس فلسفہ کی رو سے ابتدائی انسانی زندگی میں نبوت و رسالت اور خدائی رشد و ہدایت کو ماننے کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی جسے قرآن پیدائشِ آدمؑ کے ساتھ ہی آغاز پذیرقرار دیتا ہے اور ہمارے 'مفکر ِقرآن' چونکہ مغربی فلسفہ و تحقیق سے بُری طرح مرعوب و مغلوب ہیں او راہل مغرب کی فکری غلامی اور ذہنی اسیری میں مبتلا ہیں لہٰذا وہ کسی ایسی صورت حال کے قائل نہیں ہوسکتے جس میں انسانی معاشرہ کی ابتدا نور وحی اور ضیاے ہدایت میں ہوناقرار پائے، کیونکہ وحی و ہدایت کا وجود نبوت و رسالت کے وجود کو مستلزم ہے۔ 'مفکر ِقرآن'کی طرف سے انکارِنبوتِ آدم کی تہہ میں یہی مغربی فلسفہ کارفرما ہے۔

وہ قرآن کے حقائق اور جدید تحقیقات میں کہیں تضاد و تصادم پائیں تو ان کارویہ یہ نہیں ہوتاکہ قرآنی حقائق کو حتمی، قطعی اور یقینی قرار دے کر 'جدیدتحقیقات' کو یہ کہہ کر ردّ کر دیں کہ ''یہ تحقیقات ابھی خام ہیں ، ممکن ہے مستقبل کے علمی انکشافات اُنہیں ردّ کرکے وہ چیز پیش کردیں جومطابق وحی ہو۔'' بلکہ وہ یہ روش اختیار کیاکرتے ہیں کہ ''قرآن کے اس مقام کی تشریح ممکن ہے کہ آئندہ کے علمی انکشافات اور آثارِ قدیمہ کے حقائق سے ہوجائے۔'' اس طرح وہ ہمیشہ قرآن پر ان تحقیقات کو شرفِ تقدم بخشا کرتے تھے جواہل مغرب نے پیش کی ہوں ، انکار نبوت آدم میں بھی یہاں یہی لم کارفرما ہے۔اس سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ'مفکر ِقرآن' کا راسخ ایمان قرآنِ کریم پرتھا؟ ...یا تحقیقات مغرب پر؟''
[HR][/HR]
حوالہ جات


[SUB]1.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b1[/SUB] طلوعِ اسلام: جون۱۹۵۶ء ص۶
[SUB]2.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b2[/SUB] طلوعِ اسلام: مئی ۱۹۵۳ئ، ص۴۷
[SUB]3.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b3[/SUB] طلوع اسلام: ۵ فروری ۱۹۵۵ئ، ص۴
[SUB]4.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b4[/SUB] طلوع اسلام: جون ۱۹۵۳ء ، ص۶
[SUB]5.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b5[/SUB] طلوعِ اسلام: اگست ۱۹۷۳ئ، ص۳۶
[SUB]6.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b6[/SUB] طلوعِ اسلام: نومبر۱۹۵۳ئ، ص۱۳
[SUB]7.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b7[/SUB] طلوعِ اسلام: نومبر۱۹۵۴ئ، ص۱۱
[SUB]8.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b8[/SUB] طلوعِ اسلام: دسمبر۱۹۶۴ئ، ص۸۷
[SUB]9.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b9[/SUB] طلوعِ اسلام: جون ۱۹۶۶ئ،ص۷۸
[SUB]10.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b10[/SUB] طلوعِ اسلام: جولائی ۱۹۶۹ئ، ص۷۳
[SUB]11.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b11[/SUB] طلوعِ اسلام: دسمبر۱۹۶۷ئ، ص۵۲
[SUB]12.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b12[/SUB] طلوع اسلام، نومبر۱۹۶۹ء ، ص۶۸
[SUB]13.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b13[/SUB] طلوع اسلام: اکتوبر۱۹۷۱ئ، ص۵۱
[SUB]14.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b14[/SUB] طلوعِ اسلام: جنوری ۱۹۷۲ئ، ص۴۵
[SUB]15.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b15[/SUB] طلوعِ اسلام: مئی۱۹۵۲ئ،ص۴۸
[SUB]16.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b16[/SUB] طلوعِ اسلام: نومبر۱۹۵۳ئ، ص۳۷
[SUB]17.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b17[/SUB] طلوعِ اسلام، فروری ۱۹۵۴ئ، ص۲۵
[SUB]18.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b18[/SUB] طلوعِ اسلام: مارچ ۱۹۵۹ئ، ص۹
[SUB]19.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b19[/SUB] طلوعِ اسلام: ستمبر۱۹۵۹ئ، ص۶
[SUB]20.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b20[/SUB] طلوعِ اسلام: جنوری ۱۹۶۰ئ، ص۵۸
[SUB]21.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b21[/SUB] طلوعِ اسلام: جون ۱۹۶۷ء ص۶۲
[SUB]22.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b22[/SUB] طلوعِ اسلام، فروری ۱۹۶۸ئ، ص۶۰
[SUB]23.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b23[/SUB] شاہکارِ رسالت، گذرگاہ خیال: ص۳۹
[SUB]24.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b24[/SUB] طلوعِ اسلام: جنوری ۱۹۵۹ئ، ص۳۱
[SUB]25.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b25[/SUB] سلیم کے نام': ج۱؍ ص۵۱
[SUB]26.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b26[/SUB] اسلام کیا ہے؟' ص ۱۹۴
[SUB]27.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b27[/SUB] فلسفے کے بنیادی مسائل: ص۳۵
[SUB]28.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b28[/SUB] طلوعِ اسلام:جنوری ۱۹۷۳ئ، ص۲۷
[SUB]29.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b29[/SUB] طلوعِ اسلام: جولائی ۱۹۷۸ئ، ص۶
[SUB]30.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b30[/SUB] تدبر قرآن، جلد۴ ص۳۵
[SUB]31.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b31[/SUB] ابن جریر، عن ابن عباس
[SUB]32.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b32[/SUB] تفسیر کبیر
[SUB]33.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b33[/SUB] تفسیرماجدی: صفحہ ۸۳، حاشیہ ۷۷۲
[SUB]34.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b34[/SUB] تفسیر مطالب الفرقان: ج۲؍ ص۶۳
[SUB]35.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b35[/SUB] مفہوم القرآن: آیت ۷؍۲۱
[SUB]36.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b36[/SUB] برقِ طور: ص۲۸۹
[SUB]37.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b37[/SUB] برقِ طور: ص۲۸۹،۲۹۰
[SUB]38.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/45-aug-2009/1137-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat.html#b38[/SUB] طلوعِ اسلام: اکتوبر۱۹۵۹ء ص۲۳
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
غلام احمد پرویز کے ایمان بالقرآن کی حقیقت (2)

مضمون نگار: پروفیسر حافظ محمد دین قاسمی
دوسری قسط: ماہنامہ محدث نومبر 2009، شمارہ: 332، جلد 41، عدد11


'مفکر قرآن' جس قدر قرآن، قرآن کی رٹ لگایا کرتے، اسی قدر وہ قرآنِ کریم سے گریزاں اور کتاب اللہ سے کنارہ کش تھے۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ وہ اپنے مقابلے میں جملہ اہل علم کو قرآن سے بے خبر اور جاہل قرار دیا کرتے تھے جس کی تفصیل پہلی قسط میں گزر چکی ہے۔ مفکر قرآن کے ایمان بالقرآن کی حقیقت ذلک قولہم بأفواہہم سے زیادہ نہیں ہے۔ اگر چہ وہ اپنے ایمان بالقرآن کا ڈھنڈورا خوب پیٹا کرتے لیکن عملاً ان کے ہاں سند و معیار علماے مغرب کی تحقیقات تھیں ۔ اس امر کے اثبات میں متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ، لیکن مقالے کی تنگ دامنی کے سبب محض چند مثالوں پر اکتفا کیا جاتاہے، جن میں سے دو کا تذکرہ گذشتہ قسط میں ہوچکا ہے، مزید مثالیں یہاں ملاحظہ فرمائیں :

تیسری مثال :عمر نوح علیہ السلام
قرآنِ کریم بہ نص صریح یہ بیان کرتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال اپنی قوم میں رہے۔ ہردورکے علماء و مفکرین، فقہاء و مجتہدین، اہل سیر و مؤرّخین، نوح علیہ السلام کی عمر نو سو پچاس (۹۵۰) سال لکھتے اور مانتے چلے آرہے ہیں ، حتیٰ کہ اسی مسئلہ میں اُن معتزلہ تک نے بھی انکار نہ کیاتھا جنہیں عقلی تیرتُکے لڑا کر دور کی کوڑی لاتے ہوئے نرالی اُپچ اختیارکرنے کا شوقِ فضولیات بہ مقدارِ وافر ملاتھامگر دورِ جدیدمیں معدودے چند لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ وہ اس قدر طویل العمر نہیں تھے، بس زیادہ سے زیادہ دو اڑھائی سو سال تک ان کی عمر تھی۔ یہ بات اُنہوں نے کسی علمی تحقیق و تفتیش کی بنا پر نہیں کہی ،بلکہ صرف اس لیے کہی کہ محسوسات کے خوگر انسان کو اس قدر لمبی عمر عقلاً مستبعد دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ عقل کے یہ غلام قرآنی نصوص میں قیاسی تیر تُکوں سے کام لے کر اس طویل العمری کو اس قدر قصیر العمری میں بدلنے پر جت گئے جس سے ان کی عقلی استبعاد کاازالہ ہوجائے۔ اس سلسلہ میں آنجہانی غلام احمد پرویز کی عمر بھر کی قرآنی تحقیق و تدقیق کا ثمرہ ملاحظہ فرمائیے۔ لیکن پہلے وہ آیت ایک نظر دیکھ لیجئے جس میں عمر نوحؑ، ۹۵۰ سال مذکور ہے :
وَلَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا...﴿١٤﴾...سورۃ العنکبوت
''ہم نے نوح ؑ کو اسکی قوم کی طرف بھیجا تو وہ پچاس سال کم ایک ہزارسال انکے درمیان رہا۔''

اب قرآنِ کریم کی اس صراحت کے بعد 'مفکر ِقرآن' صاحب مفہوم آیت کو مسخ و تحریف کانشانہ بنانے کی خاطر خواہ مخواہ یہ سوال اُٹھاتے ہیں :
''اس سے سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا حضرت نوح ؑ کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی۔''[SUP]1http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a1[/SUP]

نہ معلوم کہ یہ سوال کہاں سے اور کیونکر پیداہوگیا؟ جب کہ قرآنِ کریم نے بالفاظِ صریح خود ساڑھے نو سو سال کی عمر بیان کردی ہے۔ حتیٰ کہ خود پرویز صاحب کااپنا ترجمہ آیت بھی اسی حقیقت کو واضح کررہا ہے۔
''اور ہم نے نوحؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا اوروہ ان میں پچاس برس کم، ہزارسال رہا۔'' [SUP]2http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a2[/SUP]

اس کے بعد اپنے موقف کے اثبات کے لیے ایک سے بڑھ کرایک رکیک تاویلات پیش کی ہیں ۔ جن کی تردید کی یہاں گنجائش نہیں ،جو اہل علم اس پوری بحث کو دیکھنا چاہیں وہ میری کتاب 'تفسیر مطالب الفرقان کا علمی اور تحقیقی جائزہ' کامطالعہ فرمائیں ۔

انکارِ طول عمر کی لِم
'مفکر قرآن' کے نزدیک خداے قدوس کی بیان کردہ کسی حقیقت کی تردید کے لیے بس یہی بات کافی ہے کہ وہ اسے عقلاً مستبعد سمجھتے ہوں ۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
''عربی لغت میں سنة کا اِطلاق فصل پر بھی ہوتا ہے جو سال میں چار ہوتی ہیں یعنی چار فصلوں کاایک سال ہوتاہے۔اس اعتبار سے ألف سنة کے معنی ہوں گے اڑھائی سو سال اور عامًا پورے سال کو کہتے ہیں ۔ اس لیے اگر خمسین عامًا (پچاس سال) کو اس میں سے منہا کردیا جائے توباقی دو سو سال رہ جاتے ہیں اور اتنی عمر کچھ ایسی مستبعد نہیں ۔''

لمبی عمر کو عقلاً مستبعد جاننا، یہ ہے وہ لِم جو اللہ کی بیان کردہ صریح اور واضح مدت کی تاویل بلکہ تحریف کی تہہ میں کار فرما ہے۔'مفکر قرآن' کی یہ 'تحقیق' اپنی پُشت پرکوئی علمی قوت نہیں رکھتی، بلکہ یہ محض ظن و تخمین اور قیاس ورائے کانتیجہ ہے جس کی تہہ میں لمبی عمر کااستبعادِ عقلی ہی پایا جاتاہے۔ چنانچہ وہ خود بھی خدا کی صریح اور واضح مدت کے مقابلہ میں اپنی قصیر العمری کی تاویل پیش کرنے کی جسارت کرتے بھی ہیں تو اُنہیں قیاسات سے بالاتر کوئی اہمیت نہںی دیتے، جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں :
''یہ بہرحال قیاسات ہیں ، تاریخی تحقیقات کسی یقینی نقطہ تک پہنچیں گی تو اس کا حتمی مفہوم سامنے آئے گا۔'' [SUP]3http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a3[/SUP]

کیاستم ظریفی ہے کہ فرمانِ ایزدی {فَلَبِثَ فِیْـِھْم اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّاخَمْسِیْنَ عَامًا} (العنکبوت:۱۴)سے تو حتمی معنی واضح نہیں ہوتا، اس لیے قیاسات اورظن و تخمین کے گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں اور ساتھ ہی تاریخی تحقیقات کا انتظار ہورہا ہے کہ وہ آکر قرآن کے ان 'غیر واضح مفاہیم' میں سے کسی 'حتمی مفہوم' کا تعین کریں گی۔
بموخت عقل ز حیرت ایں چہ بو العجبی است

عمر نوح ؑ اوراقتباساتِ پرویز
ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس مقام پر پرویز صاحب ہی کے ماضی کے دو اقتباسات پیش کردیں تاکہ ان کی 'مفکر قرآن' ہونے کی حیثیت کے ساتھ 'شہنشاہِ تضادات' ہونے کی حیثیت بھی واضح ہوجائے :
''دور حاضر کے انسان کے لیے جو سوا سوسال کے عمر کے آدمیوں کو دور دور سے دیکھنے کے لیے آتا ہے، اور نہایت حیرت و استعجاب سے ان سے اس درازئ عمر کے اسباب دریافت کرتا ہے۔ اتنی لمبی عمر بمشکل یاد کئے جانے کے قابل ہے(اس وجہ سے بعض احباب عاماً سے مراد مہینے لینے پر مجبور ہورہے ہیں ) لیکن حضرت نوحؑ کا زمانہ قبل از تاریخ ہے جس کی تفاصیل کے متعلق ابھی تک بالتحقیق کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔(تورات کی رو سے) حضرت نوحؑ، حضرت آدم ؑ سے دسویں پشت میں آتے ہیں اور ان کے تمام اسلاف کی عمریں آٹھ آٹھ نو نو سو سال کی لکھی ہوئی ہیں ۔ لہٰذا ایک ایسے بعید ترین زمانے میں جب ہنوز انسان کے اعصاب دورِ حاضر کے برق آگیں تمدن اور رعد آمیز فضا کے مہلک اثرات کا شکار نہیں ہوئے تھے اور اُسے ارضی و سماوی آفات کے مقابلے کے لیے قوی ہیکل جسم اور فولادی عضلات عطا کئے گئے تھے، اتنی لمبی عمریں کچھ باعث تعجب نہیں ہوسکتیں ''۔ [SUP]4http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a4[/SUP]
اس اقتباسِ پرویز میں دو باتیں بالکل واضح ہیں :
اوّلاً یہ کہ ... وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ ''حضرت نوحؑ کا زمانہ قبل از تاریخ ہے۔'' (حالانکہ 'مفہوم القرآن' کے حاشیہ صفحہ ۹۱۲ کی رُو سے وہ عمر نوحؑ کی بابت 'قرآنی ابہام' کی وضاحت کے لیے تاریخی تحقیقات کے منتظر رہے ہیں ) اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ جب دورِ نوحؑ کا تعلق زمانہ قبل از تاریخ سے ہے تو پھر قرآن کے اس صاف اور صریح بیان کے بعد کہ ''نوحؑ ساڑھے نو سو سال اپنی قوم میں رہے۔''ان تاریخی تحقیقات کاانتظار کس شوق میں کیاجارہا ہے جواگر مل بھی گئیں تو ان کا مبنی برظن و تخمین ہونا واضح ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ اگر صحت و استنادکے پہلو سے دیکھا جائے تو یہ'تاریخی تحقیقات' (جن کی راہ میں 'مفکر قرآن' صاحب عمر بھر اپنی پلکیں بچھائے رہے) ضعیف سے ضعیف حدیث کے مرتبے کو بھی نہیں پہنچتیں لیکن ستیاناس ہو اس غلامانہ ذہنیت کا جو مغرب کی طرف سے آنے والی ہرمبنی برظن و تخمین ''تاریخی تحقیق' کو تو مستند اور قابل اعتماد سمجھتی ہے اور احادیث ِرسولؐ کو ظنی کہہ کرردّ کردیتی ہے اور رجعت الی القرآن کے نعرہ کے تحت قرآنی تفسیر کو ان ہی 'تاریخی تحقیقات' کی روشنی میں مرتب کرتی ہے، اور یوں مغربی افکارو نظریات کو قرآن پرشرفِ تقدم عطا کرتی ہے۔لیکن اگر کوئی شخص قرآن کی تفسیر صاحب ِقرآن علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طرزِعمل کی روشنی میں کرے تو یہی ذہنیت اسے'عجمی اسلام' قرار دیتی ہے اور 'مفکر قرآن' اگر اشتراکیت اورمغرب کی فساد زدہ معاشرت اور حیاسوز تمدن کی روشنی میں تفسیر قرآن پیش فرمائیں تو گویا یہ 'خالص عربی اسلام' ہے۔

ثانیاً یہ کہ ... پرویز صاحب تورات کی بیان کردہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ''حضرت نوحؑ، آدم ؑ سے دسویں پشت میں آتے ہیں ۔'' اس سے یہ واضح ہے کہ آدم ایک مخصوص فرد کا نام ہے، ورنہ اگر آدمؑ سے مراد ہرفرد و بشر لیاجائے(جیسا کہ پرویز صاحب کاگمانہے) تو نوح ؑ اور ان کے درمیان دس پشتوں کا یہ فاصلہ بے معنی ہوکر رہ جاتاہے۔

اِزالہ استبعادِ عقلی کے لیے ایک اور اقتباسِ پرویز
حضرت نوح علیہ السلام کی درازئ عمر پرعقلی استبعاد کے ازالہ کے لیے پرویز صاحب مزید فرماتے ہیں :
''چین کے مشہور مذہب TAOISM کاایک بہت بڑا مبلغ اور رشیKawag جس کی پیدائش چوتھی صدی ق م کی ہے، اپنی کتاب میں سمجھاتا ہے کہ عمر بڑھانے کاطریقہ کیا ہے؟ اس کے بعد وہ لکھتا ہے کہ ''میں بارہ سو سال سے اسی طریق کے مطابق زندگی بسر کررہا ہوں اور اس پر بھی میرا جسم روبہ انحطاط نہیں ہے۔''(Sacred Book of the East (Taoism) Translated by Janes Legce, P.25) (معارف القرآن: ج۲؍ حاشیہ بر صفحہ ۳۷۷)

نیرنگی دوراں دیکھئے کہ کل تک پرویز صاحب خود درازئ عمر کے عقلی استبعاد کا اِزالہ کرنے والوں میں تھے اور آج وہ خود اس عقلی استبعاد کا شکار ہوکر دور خیز اور خود ساختہ اُن ہی رکیک تاویلات قرآن پر اُتر آئے ہیں ، جن کی وہ کل تردید کیا کرتے تھے۔

مزاج پرویز کاایک بنیادی پہلو
اس بحث کوختم کرنے سے پہلے مزاجِ پرویز کے ایک بنیادی پہلو کی نشاندہی ضروری ہے جس کا ظہور و صدور دیگر مقامات پر بالعموم اور یہاں بالخصوص ہواہے۔ پرویز صاحب اگر واقعی قرآن کو حجت اور سند سمجھتے تو ان پر لازم تھاکہ وہ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّاخَمْسِیْنَ عَامًاسے ۹۵۰ سال ہی مراد لیتے۔پھر جو کوئی اس طویل العمری پرشک و شبہ کااظہار کرتا تواسے یہ ہدایت فرماتے کہ وہ علمی انکشافات کا ابھی اور انتظار کرے تاآنکہ قرآن (وحی) کا یہ مفہوم ثابت ہوجائے۔'' یہی رویہ ان کے لیے زیبا تھا اور ایک مقام پر خود اُنہوں نے اسے اختیار بھی کیاتھا، چنانچہ قصۂ صاحب ِموسیٰ ؑ کے ضمن میں اُنہوں نے یہی ہدایت فرمائی کہ
''عقل اپنی محدود معلومات کی بنا پر وحی کے کسی حکم کے خلاف اعتراض کرتی ہے، لیکن جب اس کی معلومات میں اضافہ ہوجاتا ہے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جو کچھ وحی نے کہا تھا، وہ سچ تھا۔لہٰذا عقل کے لیے صحیح روش یہی ہے کہ وہ وحی کی بات تسلیم کرنے اور اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتی رہے۔ جب اسے صحیح معلومات حاصل ہوجائیں گی تو وہ خود بخود وحی کی تصدیق کردے گی۔'' [SUP]5http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a5[/SUP]

یہ وہ اُصولی بات ہے جس کی وہ تلقین کیا کرتے تھے لیکن یہاں ان کااپنا طرزِعمل اس تلقین کے برعکس ہے کہ وہ اب وحی کی بیان کردہ عمر نوحؑ کو عقلاً مستبعد سمجھتے ہیں اور قیاسات کی بنا پر آیات کی رکیک تاویلات پرتُل جاتے ہیں اور قرآنی الفاظ میں عمر نوحؑ کے متعلق ایک نیا تصور داخل کرتے ہیں اور زبانِ حال سے یہ فرماتے ہیں کہ ''ان قیاسی مفاہیم کو قبول کرلو یہاں تک کہ علمی تحقیقات عمر نوحؑ کے کسی قطعی مفہوم کو سامنے لے آئیں ۔رہاقرآنِ کریم کابیان کردہ مفہوم تو وہ 'غیر واضح' ہے۔''

اب ظاہر ہے کہ یہ طرزِ عمل وہی شخص اختیارکرسکتا ہے جو قرآنی بیان پریقین کرنے کی بجائے خارج از قرآن نظریات کے سامنے سرجھکا چکا ہو اور پھر اس کوشش میں جُت گیا ہو کہ قرآن چھیل چھال کر اپنے دل و دماغ میں رچے بسے خیالات کے مطابق ڈھال دیا جائے ورنہ قرآنِ مجیدپرپختہ یقین اورمستحکم ایمان رکھنے والا کوئی شخص یہ طرزِ عمل کبھی اختیار نہیں کرسکتا۔

چوتھی مثال: قتل ابناے بنی اسرائیل
یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ فرعونِ مصر نے ولادتِ موسوی سے قبل ابناے بنی اسرائیل کو قتل کرنے کا ظالمانہ سلسلہ شروع کررکھا تھا، خود قرآنِ مجیدبھی اس حقیقت کی تائید کرتا ہے۔ مگر طلوعِ اسلام کے روحِ رواں جناب غلام احمد پرویز کو اس سے انکار ہے۔چنانچہ قرآنِ کریم کے ہر اُس مقام پر جہاں فرعون کے ہاتھوں ابناے بنی اسرائیل کاقتل مذکور ہے، اُنہوں نے یہ تاویل (بشرطیکہ اسے تحریف کی بجائے تاویل کہا بھی جاسکے) فرمائی ہے کہ فرعون اور آلِ فرعون فرزندانِ بنی اسرائیل کو ''جو ہر انسانیت سے محروم رکھنے کی کوشش'' کہا کرتے تھے نہ کہ اُنہیں جان سے مار دینے کی۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
''يُذَبِّحُ أَبْنَآءَهُمْ وَيَسْتَحْىِۦ نِسَآءَهُمْ'' ...﴿٤﴾...سورۃ القصص ) اس کا عام ترجمہ یہ ہے کہ '' وہ ان کے اَبناء کو قتل کرتا اور ان کی نساء کو زندہ رکھتا اور اس طرح اس میں فساد برپاکرتارہتا'' یہ الفاظ دو ایک دیگر مقامات پر بھی آئے ہیں ۔(مثلاً الاعراف:۱۲۷،غافر:۲۵،البقرۃ:۴۹) ہمارے ہاں ان الفاظ کامفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ فرعون نے حکم دے رکھاتھا کہ بنی اسرائیل کے ہاں جتنے بھی بچے پیداہوں ، ان میں سے لڑکوں کوپیدا ہوتے ہی قتل کردیاجائے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔یہ مفہوم صحیح نہیں ، اسے تورات سے لیا گیا ہے۔'' [SUP]6http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a6[/SUP]

ہمیں افسوس ہے کہ مقالہ کی تنگ دامنی نہ تو ہمیں اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اقتباسِ بالا میں سوے تعبیر کے ذریعہ جو کرشمہ سازی کی گئی ہے، اس کاپردہ چاک کیاجائے اورنہ ہی اس بات کی کہ موقف ِ پرویز کے جملہ دلائل کاتفصیلی رد پیش کیا جائے اورنہ ہی اس امر کی کہ علماے سلف و خلف کے موقف کادلائل و براہین سے اثبات کیا جائے۔ ان جملہ اُمور پرتفصیلی بحث کے لیے میری کتاب 'تفسیر مطالب الفرقان کاعلمی اور تحقیقی جائزہ' کامطالعہ فرمائیے۔
یہاں موضوع کی مناسبت سے صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ'مفکر ِقرآن' کے ایمان بالقرآن کی حقیقت کیا ہے؟

انکارِ قتل ابناے بنی اسرائیل کی وجہ
چنانچہ وہ جس وجہ سے قتلِ ابناے بنی اسرائیل کاانکارکرتے ہیں ، وہی اس امر کو واضح کردیتی ہے کہ وہ فی الواقع قرآن کومانتے ہیں یاغیرقرآن کو؟ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ
''اس وقت تک مصر کی قدیم تاریخ سے جس قدر پردے اُٹھے ہیں ، ان میں سے بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کردینے کاکوئی واقعہ سامنے نہیں آیا ہے۔ ممکن ہے جب تاریخ کے مزید اوراق سامنے آئیں تو ان میں اس کے متعلق کوئی ذکر ہو، اس وقت تک صرف تورات میں یہ ملتا ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو مارنے کاحکم دے رکھا تھا۔ (کتابِ خروج)لیکن تاریخی نقطۂ نگاہ سے موجودہ تورات کی جو حیثیت ہے وہ اربابِ علم سے پوشیدہ نہیں ہے۔'' [SUP]7http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a7[/SUP]

'مفکر ِقرآن' کی ذہنی غلامی اور فکری اسیری
اقتباسِ بالا نے پرویز صاحب کی مغرب کے مقابلے میں ذہنی غلامی اور فکری اسیری کو بالکل بے نقاب کرکے رکھ دیاہے۔ قرآنِ کریم بالفاظِ صریحہ فرعون کے متعلق یہ کہتا ہے کہ''يُذَبِّحُ أَبْنَآءَهُمْ وَيَسْتَحْىِۦ نِسَآءَهُمْ'' ...﴿٤﴾...سورۃ القصص ) ''وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کیا کرتاتھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھا کرتاتھا'' فرعونیوں کے متعلق بھی قرآن صراحت سے بیان کرتاہے کہ ''يُذَبِّحُونَ أَبْنَآءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَآءَكُمْ...﴿٤٩﴾...سورہ البقرۃ''وہ تمہارے بچوں کو ذبح کیا کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کوزندہ رہنے دیا کرتے تھیـــــــ۔''ایک دوسرے مقام پر ''یذبحون''کی جگہ ''یُقَتِّلُوْنَ'' کے الفاظ آئے ہیں یعنی ''خوب قتل کیاکرتے تھے۔'' الغرض قرآن کریم نے یذبحون کہا ہو یا یقتلون، دونوں کامعنی 'جان سے مار ڈالنا' ہی ہے۔ لیکن ہمارے 'مفکر قرآن' کو یہ حقیقی اور عام فہم مفہوم قابل قبول نہیں کیوں ؟ محض اس لیے کہ ابھی تک حجری اور اثری انکشافات نے اس معنی کی تصدیق نہیں کی۔ گویا اصلی قابل اعتماد ماخذ الفاظ کلام اللہ نہیں ہیں بلکہ تاریخی آثار اور انکشافاتِ آثارِ قدیمہ ہیں ۔لہٰذا قرآنی مفہوم ان ہی کی روشنی میں متعین کیاجائے گا یعنی قرآنی الفاظ کا مفہوم قطعی نہیں بلکہ تاریخی آثار و کتبات سے برآمد شدہ مفہوم ہی قطعی ہے۔ یہ رویہ مغرب کی انتہائی ذہنی غلامی کا غماز ہے۔

'مفکر قرآن' پڑھتے تو قرآن ہی رہے ہیں مگر سوچتے رہے ہیں تہذیب ِغالب کی تحقیقات کی روشنی میں ۔ آنکھیں تو اُن کی اپنی تھیں مگر دیکھتے رہے ہیں مغرب کے زاویۂ نگاہ سے۔ کان تو اُن کے اپنے ہی تھے، مگر سنتے رہے ہیں علماے مغرب کی سخن سازیاں ۔ الفاظ تو وہ قرآن ہی کے اپنی زبان سے ادا کرتے رہے ہیں مگر ان کے اندر معانی وہ فکر جدید سے لے کر داخل کیا کرتے تھے۔ زبان تو ان کی اپنی تھی،مگر بات غیروں ہی کی کیا کرتے تھے۔دماغ تو ان کا اپنا ہی تھا مگر اس میں سوچ اور فکر اَغیار ہی کی تھی: لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُ‌ونَ بِهَا وَلَهُمْ ءَاذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَآ ۚ أُو۟لَـٰٓئِكَ كَٱلْأَنْعَـٰمِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْغَـٰفِلُونَ ...﴿١٧٩﴾...سورۃ الاعراف

مزید برآں ہمارے 'مفکر قرآن' ہوں یا دیگر منکرینِ حدیث، اُن کی یہ بات کس قدر قابل توجہ ہے اورموجب ِصد حیرت ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور آپؐ کے اُسوۂ حسنہ کے متعلق بخاری، مسلم، موطا اور دیگر کتب ِحدیث کی شہادتوں کو بلا تکلف ردّ کردیتے ہیں اور محققین مغرب کی آثارِ قدیمہ سے ماخوذ تاریخی شہادت کو قبول کرلیتے ہیں حالانکہ یہ تاریخی شہادتیں اُن شہادات کے مقابلہ میں کوئی وزن نہیں رکھتیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں پائی جاتی ہیں ۔ منکرین حدیث مغرب کی جن تاریخی شہادتوں پر اعتماد کرتے ہیں ، ان میں سے قوی سے قوی ذریعہ بھی ابن ماجہ، حاکم، بیہقی کی ضعیف سے ضعیف روایت کے مقابلہ مں بھی ہیچ ہے۔ لیکن بُرا ہو ذہنی غلامی کا، ستیاناس ہو دماغی مغلوبیت کا، بیڑہ غرق ہو فکری اسیری کا، جس کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ؎

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر!

ہمارے'مفکر قرآن' فرماتے ہیں کہ قتل ابناے بنی اسرائیل کو مقتول و مذبوح قرار دینے والی آیات میں 'جان سے مار ڈالنے' کامفہوم اس لیے قابل قبول نہیں کہ ''اس وقت تک مصر کی قدیم تاریخ سے جس قدر پردے اُٹھے ہیں ، ان میں سے بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرنے کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیاہے، ممکن ہے جب تاریخ کے مزید اوراق سامنے آئیں تو ان میں اس کے متعلق کوئی ذکر ہو۔ کیایہ عجیب بات نہیں کہ قرآنی الفاظ کے قطعی مفہوم کونظر انداز کرکے مصر کی تاریخ پر سے مزید پردوں کے اُٹھنے کاانتظار کرتے کرتے وہ شخص مرگیا جواُٹھتے بیٹھتے قرآن قرآن کی رٹ لگائے رکھتا تھا اور قرآن کے اوّل و آخر سند ہونے کی دہائی دیا کرتاتھا۔ اب گویا حیاتِ پرویز ہی میں جب اثری تحقیقات میں سے کوئی ایسی شہادت مل جاتی جو ولادتِ موسیٰ علیہ السلام کے وقت اسرائیلی بچوں کو'جان سے مار ڈالنے' کا انکشاف کرڈالتی تو پھر'مفکر قرآن' ایک اور قلابازی کھاتے اور مفہوم قرآن از سر نو بدل کر کچھ اور ہوجاتا اورجب تک کوئی ایسی شہادت نہیں مل پاتی اس وقت تک 'پیروانِ دعوتِ قرآنی' پر لازم ہے کہ وہ 'مفکر قرآن' کے اندازاً بتائے ہوئے قیاسی معانی ہی کو سینے سے لگائے رکھیں ۔

تورات اور پرویز
اور یہ بھی کیا خوب کہا ہے کہ ''اسرائیلی بچوں کو سچ مچ مار ڈالنے کا فرعونی حکم صرف تورات میں پایا جاتاہے مگر موجودہ تورات 'ساقط الاعتبار' ہے۔'' یہاں ہمارے 'مفکر قرآن' کا یہ دو رُخا پَن بھی قابل غور ہے کہ اُنہوں نے جب اور جہاں چاہا تورات کے اُن واقعات کو بھی جو مطابقِ قرآن ہیں یہ کہہ کر رد کردیا کہ یہ واقعات تورات جیسی ساقط الاعتبار کتاب سے ماخوذ ہیں '' (مثلاً یہی قتل ابناے بنی اسرائیل کے واقعات) لہٰذا ناقابل قبول ہیں ۔لیکن دوسری طرف توراتِ محرفہ کے جن واقعات کو وہ اپنے منسوب الی القرآن تصورات کے موافق پاتے ہیں اُنہیں وہ ہاتھوں ہاتھ قبول کرلیتے ہیں (مثلاً نظامِ یوسفی میں اقتصادی نظام) پھر اُس وقت نہ تورات اُنہیں تحریف شدہ نظر آتی ہے اور نہ ہی ساقط الاعتبار۔

پھر 'مفکر قرآن' صاحب کا یہ دو رُخا پَن بھی ملاحظہ فرمائیے کہ قرآنِ کریم اگر یہ کہہ دے کہ''فرعون ابناے بنی اسرائیل کو قتل اور ذبح کیا کرتاتھا اور ان کی خواتین کو زندہ رکھاکرتا تھا۔'' تو یہ قرآنی بیان 'مفکر قرآن' کے لیے قابل قبول نہیں ہے اور اسے مردود قرار دینے کے لیے یہ فرماتے ہیں کہ ''یہ تورات جیسی ساقط الاعتبار کتاب سے ماخوذ تصور ہے۔'' لیکن دوسری طرف وہ خود ایک ایسی ہی حقیقت کو جب اہل کتاب کی مذہبی کتابوں سے پیش کرتے ہیں تو بغیر کسی تردد، دغدغہ، تامل اور حیل و حجت کے 'حقیقت ِواقعہ' قرار دے کر قبول کرتے ہیں ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
''انجیل متی میں یہ بھی مذکور ہے کہ ہیرودلیسس نے بیت اللحم اور اس کی سرحدوں کے تمام بچوں کو جن کی عمر دو برس یا اس سے کم تھی، قتل کردیا تھا۔'' [SUP]8http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a8[/SUP]

غور فرمائیے، انجیل متی کی سند پر ہیرودلیسس کا قتل اطفالِ مسلّم ومعتبر ہے لیکن قرآن کی سند پر قتل اطفال بنی اسرائیل غیر مسلّم ہے :
شعور و فکر کی یہ کافری معاذ اللہ!

ایک قابل غور امر
قرآنِ کریم نے ابناے بنی اسرائیل کی ہلاکت کے سلسلہ میں تقتیل اور تذبیح کے الفاظ استعمال کئے ہیں جو قتل اور ذبح کے الفاظ سے نکل کر باب تفعیل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قتل یا تقتیل (جس کے 'مفکر قرآن' نے چھ معانی کے چوہے جبل لغات سے کھود نکالے ہیں ) کی وضاحت ذبح (یا تذبیح) کے لفظ سے فرمادی ہے، جس کاواحد معنی 'جان سے مارڈالنا' ہی ہے۔ 'مفکر ِقرآن' اس خدائی وضاحت کو نظر انداز کرڈالتے ہیں کیوں ؟ کس لئے؟ صرف اور صرف اس لیے کہ اُنہیں اپنے'مزعومات' قرآنی حقائق کی نسبت زیادہ عزیز و محبوب ہیں ۔ یہ 'مزعومات' دراصل وہ تصورات ہیں جو مغرب کی ذہنی غلامی اور فکری اسیری کے باعث اُنہوں نے اپنے قلب و دماغ میں راسخ کررکھے ہیں اور اب ان ہی کی تائید کے لیے ایک طرف وہ تفسیر قرآن کی آڑ میں حد تحریف کو پہنچی ہوئی رکیک و خسیس تاویلات کے درپے رہتے ہیں اور دوسری طرف مصری کتبات، آثارِ قدیمہ کی تحقیقات اور مزید تاریخی انکشافات کے منتظر رہتے ہیں جو اُن کے نزدیک قرآن سے بھی بڑھ کر قطعی الثبوت ہیں تاکہ ان کی روشنی میں تقتیل ابناء والی قرآنی آیات کے مفہوم کو متعین کیا جاسکے، حالانکہ تاریخ اور قرآن کی حیثیت کو بہ تکرار و اعادہ وہ یوں بیان کیاکرتے ہیں کہ
''تاریخ بہرحال ظنی ہے اور اس کے مقابلہ میں قرآن ایک یقینی شہادت ہے۔'' [SUP]9http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a9[/SUP]

لیکن یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ'مفکر قرآن' جو ہمیشہ عقل و دانش کی روشنی میں قرآن کی تفسیر قرآن ہی سے کرنے کے مدعی رہے ہیں قرآن کی قتل اطفال اور ذبح ابناء بنی اسرائیل سے متعلقہ آیات (جوقرآن ہونے کی بنا پرقطعی اوریقینی ہیں ) کی تفسیر تاریخی آثارِ مصر سے کرنا چاہتے ہیں جن پرسے اٹھنے والے پردوں کے بعد بھی جو کچھ سامنے آئے گا، وہ بہرحال ظنی ہی ہوگا۔

پانچویں مثال: واقعہ قتل نفس اور ذبح بقرہ
سورۃ البقرۃ میں ذبح البقرہ کے واقعہ کے ضمن میں قتلِ نفس کا واقعہ بایں الفاظ مذکور ہے :
وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَٱدَّ‌ٰرَ‌ٰ‌ْٔتُمْ فِيهَا ۖ وَٱللَّهُ مُخْرِ‌جٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ ﴿٧٢﴾ فَقُلْنَا ٱضْرِ‌بُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَ‌ٰلِكَ يُحْىِ ٱللَّهُ ٱلْمَوْتَىٰ وَيُرِ‌يكُمْ ءَايَـٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٧٣...سورۃ البقرۃ
''اور تمہیں یاد ہے وہ واقعہ جب تم نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا، تب اس ضمن میں باہم جھگڑے اور ایک دوسرے پر الزام قتل تھوپنے لگے اور اللہ اُس امر کو کھولنے والا تھا جسے تم چھپا رہے تھے۔ تب ہم نے کہا: لاشِ مقتول کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ، دیکھو! اللہ یوں اپنی نشایاں دکھاتے ہوئے لوگوں کو زندگی بخشتا ہے تاکہ تم سمجھ سے کام لو۔''

اس آیت کی تفسیر میں قریب قریب جملہ علماے تفسیر نے یہ لکھا ہے کہ جس گائے کو ذبح کرنے کا حکم اس سے متصل پہلی آیات میں دیا گیا ہے، اسی کے گوشت کو مقتول کی لاش کے ساتھ لگانے کاحکم دیاگیا ہے:فَقُلْنَا ٱضْرِ‌بُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ﴿٧٣﴾...سورۃ البقرۃ) اس کے نتیجہ میں مقتول کچھ دیر کے لیے زندہ ہوا اور اپنے قاتل کا نام بتا کر ہمیشہ کے لیے پھر موت کی نیندسوگیا اور قاتل کو اس کے جرم کی سزا دے دی گئی۔

تفسیر قرآن میں اَحوط و انسب رویہ
لیکن پرویز صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں علماء کے اس تفسیری موقف کو نظر انداز کرکے ایک ایسی بات کہی ہے جو کسی حد تک ان کے اَنسب و احوط رویہ کی غماز ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
''اضربوہ ببعضھاکی تفسیر میں اتنا کچھ لکھا گیا ہے کہ خواب کثرتِ تعبیر سے پریشان ہوگیا ہے لیکن بایں ہمہ بات ویسی کی ویسی ہی مشکل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور اس کا صحیح مفہوم تاریخی انکشافات کی روشنی میں ہی متعین ہوسکتاہے جس طرح فرعون کی لاش کے محفوظ رکھے جانے کا بیان ایک تاریخی واقعہ تھا۔ صدیوں تک اس آیت کی تفسیر میں مختلف قیاس آرائیاں ہوتی رہیں لیکن جب تاریخ نے اپنے چہرہ سے نقاب اُٹھایا تو مصر کے تہہ خانہ میں اس آیت کی تفسیر مجسم نظر آگئی۔ اسی طرح محولہ صدر واقعہ بھی تاریخ سے متعلق ہے قیاس آرائیوں سے اس کا صحیح مفہوم متعین نہیں ہوسکتا۔ یہ آیت بھی ابھی متشابہات کی فہرست میں ہے، تاریخ اپنا کوئی اور ورق الٹے گی تو اس وقت یہ آیت محکمات کی فہرست میں منتقل ہوجائے گی۔ قرآنی حقائق و معارف زمانہ کے شکن درشکن گیسوؤں میں لپٹے ہوئے ہیں ۔ علم انسانی کی نسیم سحری جوں جوں ان پیچوں کو کھولتی جاتی ہے یہ گوہر آبدار حسین آویزوں کی طرح وجۂ درخشندگی عالم ہوتے جاتے ہیں ۔'' [SUP]10http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a10[/SUP]

یہ تفسیری موقف پرویز صاحب نے ۱۹۳۵ء میں اختیار کیاتھاجس کے تحت ایسی آیات کومتشابہات میں سمجھتے ہوئے اس کی تفسیر کو یہ کہہ کر معرضِ اِلتوا و انتظار میں ڈال دیا تھا کہ ''جب تک تاریخ اس طرح کی کوئی مجسم تفسیر پیش نہیں کردیتی جیسی کہ فرعون کے بدن کو محفوظ رکھنے والی آیت میں پیش کی گئی ہے، اس وقت تک اسے متشابہات میں سے ہی سمجھا جائے گا۔''نیز اُنہوں نے یہ بھی فرمایا تھاکہ 'قتل نفس'کے زیر بحث واقعہ مںا بھی 'قیاس آرائیوں ' سے اس کامفہوم متعین نہیں ہوسکتا۔

کاش! 'مفکر قرآن' اپنے اس اُصول پرقائم رہتے اور تفسیرقرآن میں اپنی رائے، ظن اور گمان کودخیل نہ بناتے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد ان کی فضاے دماغی میں ایک لہر اُٹھی اور ظن و تخمین اور گمان و تخریص پر مبنی ایک خالص قیاسی تفسیر بایں الفاظ صفحۂ قرطاس پر مرتسم ہوگئی :
''ہم جو کچھ سمجھ سکے ہیں ، وہ یہ ہے کہ توہم پرستیوں سے لوگوں کی نفسیاتی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ وہ ذرا سے خلافِ معمول واقعہ کا سامنا نہیں کرسکتے اور اس کے احساس سے ان پرلرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ یہی کیفیت بنی اسرائیل کی ہوچکی تھی اور واقعۂ قتل میں ان کی نفسیاتی حالت کو تحقیق مجرم کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ ان سے کہا گیا کہ مشتبہ ملزموں میں سے ایک ایک شخص، لاش کے قریب سے گزرے اور لاش کا کوئی حصہ اُٹھاکر اس شخص کے جسم سے چھوا جائے، ملزم کی پہچان ہوجائے گی۔ ظاہر ہے کہ اس سے مجرم کی جو حالت ہوئی ہوگی، وہ اس کے داخلی احساسات کی غماز بن گئی ہوگی۔ اس طرح جب مجرم کاتعین ہوگیا تو اس سے قصاص لے لیا گیا۔ قرآن نے قصاص کے متعلق کہا ہے کہ اس میں رازِ حیات ہے۔ یہ بہرحال ہمارا قیاس ہے حقیقت اس وقت ہی سامنے آئے گی جب تاریخی انکشافات اس کی نقاب کشائی کریں گے۔''[SUP]11http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a11[/SUP]

پھر اس'قیاسی تفسیر' کو جس کے متعلق خود اُن کا اپنا اعتراف ہے کہ ''یہ ہمارا قیاس ہے۔'' عین مفہوم قرآن بناکر یوں پیش کرتے ہیں :
''ایک طرف تمہاری یہ حالت کہ ایک جانور کو ذبح کرنے میں اس قدر حیل و حجت اوردوسری طرف یہ عالم کہ ایک انسانی جان ناحق لے لی اوراسے خفیہ طور پر مار دیا اور جب تفتیش شروع ہوئی تو لگے ایک دوسرے کے سر الزام تھوپنے یعنی تم میں اتنی اخلاقی جرات بھی نہ تھی کہ جرم ہوگیاتو کھلے بندوں اس کااعتراف کرلیتے، لیکن جس بات کوتم چھپانا چاہتے تھے، خدا اُسے ظاہر کردینا چاہتا تھا تاکہ جرم بلاقصاص نہ رہ جائے۔

مشرکانہ توہم پرستیوں سے جن میں تم مبتلا ہوچکے تھے، انسان کی نفسیاتی کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ اسے کسی ذرا سی خلافِ معمول بات کا سامنا کرنا پڑے تو اس پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ (۲۲؍۳۱) چونکہ خدا تمہاری اس نفسیاتی کیفیت سے واقف تھا، اس نے قاتل کاسراغ لگانے کے لیے ایک نفسیاتی ترکیب بتائی ( جوانسان کی اُس زمانے کی ذہنی سطح کے اعتبار سے بڑی خلافِ معمول تھی) اُس نے کہا: تم میں سے ایک ایک جاؤ اوراپنے حصہ جسم کو لاش کے ساتھ لگا دو۔ (چنانچہ جو مجرم تھا، وہ جب لاش کے قریب پہنچا تو خوف کی وجہ سے اس سے ایسے آثار نمایاں ہوگئے جو اس کے جرم کی غمازی کرنے کے لیے کافی تھے) اس طرح اللہ نے اس قتل کے راز کو بے نقاب کردیا اورمجرم سے قصاص لے کر موت کو زندگی سے بدل دیا کیونکہ قصاص میں قوم کی حیات کاراز پوشیدہ ہوتا ہے۔(۲؍۱۷۹) اللہ اس طرح اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم عقل و شعور سے کام لے کر ایسے معاملات کو سلجھایا کرو اور اس حقیقت کوسمجھ لو کہ نفسیاتی تغیرسے (افراد سے آگے بڑھ کر)کس طرح خود قوموں کی حالت بدل جاتی ہے۔''[SUP]12http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a12[/SUP]

قرآنی الفاظ کے اختصارکوبھی دیکھئے اور پھر انہی الفاظ کے مفہوم کے طول وعرض کو بھی اور سوچئے کہ اگر یہی قرآنی مفہوم ہے تو کیا عرب کے اَن پڑھ اور سادہ مزاج بدؤوں کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ مفہوم آسکا ہوگا جبکہ اس مفہوم سے خود 'مفکر قرآن' بھی بایں علم و دانش اور حکمت و فضیلت ۱۹۳۵ء تک محروم تھے۔ پھر اس 'مفہوم القرآن' کو اس پہلو سے بھی دیکھئے کہ اس میں کس قدر قرآنی الفاظ کی رعایت پائی جاتی ہے اورکس قدر 'مفکر قرآن' کے اپنے قیاس وگمان کادخل ہے۔ پھر یہ کہ قیاس و گمان اور لفاظی کایہ مرکب ایک سادہ اور عام فہم عرب کو قرآن سے قریب تر کرے گا یا بعید تر؟ یہ ہرشخص خود محسوس کرسکتا ہے۔

پرویز صاحب کے اس 'مفہوم القرآن' کے مقابلہ میں مندرجہ ذیل مفہوم آیات کو بھی ملاحظہ فرمائیے جسے قرآنی الفاظ کی حدود میں رہ کر اس خوبی سے پیش کیاگیا ہے کہ قرآنی ترجمہ اور شرحِ مفہوم میں ربط و ہم آہنگی نمایاں ہوجاتی ہے اور عبارت بھی الفاظ کے اِسراف و تبذیر سے قطعی پاک ہے:
''اور (وہ زمانہ یادکرو) جب تم لوگوں (میں سے کسی) نے ایک آدمی کاخون کردیا پھر (اپنی براء ت کے لئے) ایک دوسرے پرڈالنے لگے اور اللہ کو اس امرکاظاہر کرنامقصود تھا جس کو تم (میں سے مجرم و مشتبہ لوگ) مخفی رکھناچاہتے تھے۔ اس لیے (ذبح بقرہ کے بعد) ہم نے حکم دیاکہ اس (مقتول کی لاش) کو اس (بقرہ) کے کوئی سے ٹکڑے سے چھو دو (چنانچہ چھوانے سے وہ زندہ ہوگیا۔ آگے اللہ تعالیٰ بمقابلہ منکرین قیامت کے اس قصہ سے استدلال اورنظر کے طور پر فرماتے ہیں کہ ) اسی طرح حق تعالیٰ (قیامت میں ) مردوں کو زندہ کردیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے نظائر (قدرت)تم کودکھلاتے ہیں اس توقع پر کہ تم عقل سے کام لیا کرو (اور ایک نظیر سے دوسری نظیر کے انکار سے باز آؤ)۔[SUP]13http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a13[/SUP]

حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ 'مفکر قرآن' کا کسی 'تاریخی انکشاف' کاانتظار بھی کوئی خوشگوار موقف نہیں ہے لیکن اس کی بجائے اپنے قیاس و گمان پرمبنی موقف کو الفاظ کابے تحاشا اسراف کرتے ہوئے لفاظی اور وہم و گمان کے مرکب کی شکل میں 'مفہوم القرآن' کے نام سے پیش کرنا اس سے بھی بدتر عمل ہے۔اعاذنا اﷲ من ذلک! یہ بحث اور یہ واقعہ بھی 'مفکر ِقرآن' کے ایمان بالقرآن کی حقیقت کو بے نقاب کر ڈالتا ہے۔

چھٹی مثال: رہبانیت ِمریم کی بابت خود ساختہ داستانِ پرویز
یہود بے بہبود نے حضرت مریم ؑ پر نہایت شرمناک الزامات لگائے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو (معاذ اللہ، ثم معاذ اللہ، نقل کفر کفر نباشد) براہِ راست ولد الزنا قرار دیا لیکن اس کے مقابلہ میں 'مفکر قرآن' نے اپنی ایک من گھڑت داستان کی رُو سے حضرت مریم ؑ پر یہی الزام بالواسطہ اس طرح عائد کیا :
''حضرت مریم ؑ ایک راہبہ کی زندگی بسر کررہی تھیں جسے دنیاوی علائق سے کچھ واسطہ نہیں ہونا چاہئے تھابلکہ ساری عمر تجرد میں گزاردینی چاہئے تھی۔آپ کوخدا کی طرف سے اشارہ ملا کہ اُنہیں متاہل زندگی بسر کرنی ہوگی کیونکہ اُنہیں ایک عظیم الشان رسول کی امین بننا ہے۔ اس طے شدہ اَمر (اَمْرًا مَقْضِیًّا) کے مطابق حضرت مریم ؑ نے خانقاہ کی زندگی چھوڑ کر عائلی زندگی اختیارکی، لیکن یہودیوں کے نزدیک یہ کوئی چھوٹا جرم نہ تھا۔ ایک راہبہ کی زندگی چھوڑ کر متاہل زندگی اختیار کرلینا، مشربِ خانقاہیت میں اِرتداد سے کم نہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس جذبۂ انتقام اور شکست ِپندار کو بھی ملحوظ رکھئے جو حضرت مریم ؑ کی اس روش سے اُن کے دلوں میں پیدا ہوا تھا کہ اُنہوں نے ہیکل کے پجاریوں میں سے کسی کے ساتھ شادی نہیں کی اور ہیکل سے باہر ایک دوسرے شخص سے شادی کرلی۔ ان وجوہات کی بنا پر اُنہوں نے حضرت مریم ؑ کو موردِ طعن و تشنیع بنایا اور اپنے جوشِ انتقام میں ، اس پیکر ِعفت و عصمت کے خلاف طرح طرح کے الزامات تراشے: {وَقَوْلِھِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُھْتَانًا عَظِیْمًا}(النسائ:۱۵۶) یعنی ان کے نزدیک ایک راہبہ کا اس طرح کا نکاح، نکاح ہی نہیں قرار پاسکتا تھا، اس لیے اُس کی اولاد کس طرح مستحسن نظروں سے دیکھی جاسکتی تھی''۔ [SUP]14http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a14[/SUP]

اس اقتباس کے پہلے ہی جملے میں واقع لفظ 'راہبہ' کے تحت حاشیہ میں 'مفکر قرآن' صاحب لکھتے ہیں :
''خانقاہیت کی زندگی مذہب ِعیسویت کی ایجاد نہیں ۔اس کے آثار اس سے پہلے یہودیوں کے ہاں بھی موجود تھے اور مصریوں میں بھی۔خود حضرت مریم ؑ کی ابتدائی زندگی کے حالات اس پر شاہد ہیں کہ یروشلم کے ہیکل میں راہب اور راہبات ہوتی تھیں ۔ یہ تارک الدنیا لوگ، عبادت میں مصروف رہتے اور انبیاے یہود کی پیشینگوئیوں کے تحت ایک آنے والے مسیح کا انتظار کرتے۔'' [SUP]15http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a15[/SUP]

'مفکرقرآن'کی اس داستانِ زُور کے نتیجہ میں چونکہ حضرت مریم ؑ ایک راہبہ کی زندگی بسر کررہی تھیں اور پھر چونکہ ایک راہبہ کی زندگی چھوڑ کر ''متاہل زندگی اختیار کرلینا، مشرب خانقاہیت میں ارتداد سے کم نہ تھا۔'' اس لیے ''اس طرح کا نکاح، نکاح ہی قرار نہیں پاسکتا تھا۔'' لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت اس پرویزی کہانی کی بدولت بھی ویسی ہی غیرمستحسن تھی جیسی یہود کے ہاں تھی۔ فرق اگر ہے تو یہ کہ یہودنے براہِ راست حضرت مریم ؑ پر الزام لگایا اور 'مفکر قرآن' نے اپنی خود ساختہ کہانی کی بنا پر بالواسطہ یہی الزام عائد کیا۔

پرویزی داستان میں 'غیر قرآنی اجزا'
بہرحال'مفکر قرآن' کی من گھڑت کہانی میں کم از کم مندرجہ ذیل چار اجزا وہ ہیں جو قرآن میں ہرگز ہرگز مذکور نہیں ہیں :
ایک تو یہ کہ مریم ؑ راہبہ کی زندگی گزار رہی تھی۔
ثانیاً یہ کہ رہبانیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے وجود پذیر تھی۔
ثالثاً یہ کہ حضرت مریمؑ ایسی راہبہ کی زندگی گزار رہی تھیں جن کو ساری عمر تجرد میں گزارنا تھی۔
رابعاً یہ کہ رہبانیت کی زندگی چھوڑ کر عائلی زندگی گزارنے پریہودی اُنہیں موردِطعن و تشنیع قرار دیتے تھے۔

قرآنِ مجید سے ان چاروں باتوں کا کہیں سراغ نہیں ملتا اورملے بھی کیسے جبکہ یہ ساری داستانِ زُور تقریباً دو ہزار سال بعد 'مفکر ِقرآن' کے سامری دماغ نے خود تراشی ہے، اس کے لیے سارا مواد محرف انجیلوں اور ان مغربی دانشوروں کی اَہوا سے ماخوذ ہے جن کی ذہنی غلامی اور فکری اسیری میں وہ مبتلا تھے، کیونکہ از روے قرآن نہ تو حضرت مریم ؑ راہبہ تھیں (کیونکہ رہبانیت اس کے بعد پیروانِ مسیح کی ایجادتھی) اورنہ ہی والدۂ مریم ؑ کے ذہن میں اُنہیں نذر ِ ہیکل کرتے وقت یہ خیال تھا کہ وہ تجرد کی زندگی بسر کرے گی اور اس کی اولاد نہیں ہوگی بلکہ اس کے برعکس اُن کی اَزدواجی زندگی اور پھر اس کے نتیجہ میں اُن کی ذرّیت کا شعور رکھتے ہوئے ہی وہ اپنی دعاء اِعاذہ میں اُن کا ذکر کررہی تھںں : وَإِنِّىٓ أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّ‌يَّتَهَا مِنَ ٱلشَّيْطَـٰنِ ٱلرَّ‌جِيمِ ...﴿٣٦﴾...سورۃ آل عمران) نیز نہ ہی ازروے قرآن اُس وقت رہبانیت کا نظام رواج پذیر تھا کیونکہ اس نظامِ رہبانیت کی ابتدا وابتداع، بعد میں پیروانِ مسیح کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ چنانچہ خود 'مفکر قرآن' صاحب مفہومِ آیات کے نام سے الفاظ کا جو کباڑخانہ پیش کیا کرتے تھے، ان میں بھی اس مسلک کو متبعین عیسیٰ ؑ کا ایجاد کردہ مسلک قرار دیا گیا ہے:
''پھر ہم نے ان کے بعد انہی کی نہج پر اور رسول بھی بھیجے اور (سلسلۂ بنی اسرائیل میں ) سب سے پیچھے عیسیٰ ابن مریم ؑ کوبھیجا اور اسے انجیل دی۔جو لوگ اس کی پیروی کرتے تھے ان کے دل میں خلق خدا کے لیے شفقت اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور ہمدردی کے جذبات پیداکردیئے (یعنی عیسیٰ ؑ کی تعلیم کایہ نتیجہ تھا)۔باقی رہا مسلک ِرہبانیت (خانقاہیت) جسے تم اس وقت ان کے ہاں مروّج دیکھتے ہو تو اسے اُنہوں نے از خود وضع کرلیاتھا۔''[SUP]16http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a16[/SUP]

مزید برآں رہبانیت کی بابت واقع لفظ ابتدعو کے مادہ (ب دع) کے متعلق خود پرویز صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ
''البدع وہ کام جو پہلے پہل ہواہو اور اس سے پہلے اس کی مثال موجود نہ ہو۔(ابن فارس) وہ رسی جسے پہلی بار نئے ریشے سے بٹا گیاہو۔ ''ركية بديعة'' نیاکھودا ہواکنواں ۔ نواب صدیق حسن خاں نے لکھاہے کہ جن الفاظ میں با کے ساتھ دال آئے، ان میں ابتداء اور ظہور کامفہوم مضمر ہوتا ہے۔''[SUP]17http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a17[/SUP]

ایمان قرآن پر یا غیر قرآن پر؟
یہاں پہنچ کر 'مفکر قرآن' جناب چودھری غلام احمد پرویز کے ایمان بالقرآن کی حقیقت کھل کرسامنے آجاتی ہے۔ ایک طرف قرآن یہ کہتا ہے کہ مسلک ِرہبانیت کے موجد عیسائی تھے۔ قبل ازیں ، اس کا وجود تک نہ تھا اور دوسری طرف 'مفکر قرآن' صاحب محض اپنی نرالی اُپچ کی لاج رکھنے کی خاطر یا علماے مغرب کی تقلید میں یہ کہتے ہیں کہ رہبانیت، عیسائیوں کی ایجاد نہیں بلکہ ان سے بہت پہلے یہودیوں اور مصریوں میں یہ مسلک رائج تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایمان بالقرآن کا تقاضا کیاہے؟ قرآن کی بات مانی جائے یا غیر قرآن کی؟ فرمانِ خداوندی قابل تسلیم و اطاعت ہو یا اقوالِ علماے مغرب؟ ایک سچی اور محفوظ کتاب کی بات مانی جائے یا جعلی اور محرف کتاب کی؟ اگر قرآنی حقائق اور اکتشافاتِ مغرب میں تعارض و تضاد پایا جائے تو کسے قبول کیا جائے اور کسے ردّ کیا جائے؟ آپ جو عمل بھی یہاں اختیارکریں گے وہ آپ کے اصل ایمان و اعتقاد کو ظاہر کردے گا۔اگر قرآن کی بات مانیں گے تو آپ کے ایمان بالقرآن کی عملاً تصدیق ہوجائے گی، اگر آپ آراے علماے مغرب کو تسلیم کریں گے تو (قرآن کی بجائے) اُن پر آپ کا اعتقاد و ایمان واضح ہوجائے گا اور آراے مغرب کو شرفِ تقدم بخشنے کا آپ کا یہ عمل اُس زبانی کلامی ایمان کی تردید کرڈالے گا جو قرآن کے بارے میں آپ ظاہر کرتے ہیں ۔ فی الواقع انسان کا عملی رویہ ہی وہ معیار ہے جو یہ واضح کرڈالتا ہے کہ اس کاایمان و اعتقاد قرآن پر ہے یاغیرقرآن پر۔

حقیقت یہ ہے کہ جس قرآن کے واحد مسند اور تنہا حجت ہونے کاڈھنڈورا 'مفکر ِقرآن' پیٹا کرتے تھے۔ اس پر ان کازبانی کلامی ایمان ہو تو ہو، عمل کی دنیا میں خوردبین لگا کر دیکھنے سے بھی اس کے اثرات دکھائی نہیں دیتے۔ وہ اپنی عملی زندگی میں قرآن کے نہیں بلکہ مغرب ہی کے پیروکار تھے قرآن کے نام پر جو کچھ وہ عمر بھر پیش کرتے رہے ہیں ، وہ سب کچھ بغیر کسی قرآن کے مغرب میں موجود ہے۔مخلوط سوسائٹی، مخلوط تعلیم، ترکِ حجاب، مردوزن کی مطلق مساوات (بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر نظریۂ افضلیت ِاُناث)، درونِ خانہ فرائض نسواں کی بجائے اُنہیں بیرونِ خانہ مشاغل میں منہمک کرنا، تعددِ ازواج کو معیوب قرار دینا، عورت کو خانگی مستقر سے اُکھاڑ کر اسے مردانہ کارگاہوں میں دھکیل دینا، خانگی زندگی میں عورت کو اس کے فطری وظائف سے منحرف کرکے اُسے قاضی و جج بلکہ سربراہِ مملکت تک کے مناصب پر براجمان کرنا وغیرہ جملہ اُمور میں سے آخر وہ کون سا امر ہے جسے'مفکر قرآن'نے کتاب اللہ میں سے کشید کر ڈالنے میں زحمت کشی نہ کی ہو اور وہ مغرب میں پہلے سے موجود نہ ہو۔ وہ اشتراکیت جس کاچوہا جبل قرآن سے کھود نکالنے میں 'مفکر قرآن' نے بڑی زحمت اور مشقت اُٹھائی ہے وہ اُن کے ایسا کرنے سے بہت پہلے روس، چین اور دیگر ممالک میں موجود تھی۔ 'مفکر قرآن' کا اس باب میں اصل 'اجتہادی کارنامہ' یہ ہے کہ اُنہوں نے جو کچھ بھی پیش کیا ہے، اسے مغرب کی اصطلاحوں میں پیش کرنے کی بجائے اپنی اصطلاحوں میں پیش کیا ہے مثلاً وہ اشتراکیت کو پیش کرتے ہیں تو اس کے اصل نام کے ساتھ نہیں بلکہ 'نظام ربوبیت' کے نام سے پیش کرتے ہیں ۔کارل مارکس کی 'جدلی مادیت' کافلسفہ ان کے ہاں 'حق و باطل کی کشمکش' قرار پاتا ہے۔'تاریخی وجوب' کی قوت کو وہ 'زمانے کے تقاضے' کہہ دیتے ہیں ۔ اب ظاہر ہے کہ زہرہلاہل کی بوتل پر آبِ حیات کالیبل چسپاں کردینے سے زہر کی اصل حقیقت تو نہیں بدل جاتی۔

الغرض قرآنِ کریم کا بیان یہ ہے کہ رہبانیت کی ابتداء و ابتداع عیسائیوں کے ہاتھوں ہوئی تھی، لیکن ہمارے 'مفکر قرآن' صاحب اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی پہلے کاقائم شدہ مسلک قراردیتے ہیں ۔ قرآن کے مقابلہ میں غیرقرآنی تصورات کو ترجیح دینا 'مفکر قرآن' کے ایمان بالقرآن کی حقیقت کو آفتابِ نصف النہار کی طرح واضح کردیتا ہے۔

ساتویں مثال: ولادت ِ عیسیٰ علیہ السلام ؛ قرآن اور 'مفکر قرآن'
اس آخری مثال میں اس امر کاپھر جائزہ لیاجارہا ہے کہ زیر بحث معاملہ میں پرویز صاحب اپنے عقائد و تصورات کو تابع قرآن رکھتے ہیں یانہیں ؟ اس ضمن میں اُنہوں نے جو کچھ بھی لکھنا تھا وہ اپنی کتاب 'شعلۂ مستور' میں لکھ چکے ہیں کیونکہ باقی ہرجگہ وہ یہی فرماتے ہیں کہ جسے تفصیل درکار ہو، وہ شعلۂ مستور کی طرف رجوع کرے۔جس کاصاف مطلب یہ ہے کہ مسئلہ زیربحث میں ان کے افکار و نظریات کی آخری ترجمان یہی کتاب ہے، اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں :
''اس(قرآن) میں بالتصریح کہیں نہیں لکھا کہ حضرت عیسیٰ ؑکی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی تھی، نہ ہی یہ لکھا ہے کہ آپ یوسف کے بیٹے تھے۔''[SUP]18http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a18[/SUP]

اب جب کہ قرآن سے بالتصریح یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن باپ پیداہوئے تھے یا باپ کے ذریعہ تواس کا لازمی اور منطقی تقاضا یہی قرار پاتا ہے کہ مکمل سکوت اختیار کیاجائے۔نہ اس بات پر زور دیا جائے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور نہ ہی اس بات پرکہ وہ باپ کے ذریعہ متولد ہوئے۔علمی دیانت بھی اسی خاموشی کو لازم ٹھہراتی ہے۔ قرآن کریم کے ایک مخلص اور خداترس طالب ِعلم کے لیے بھی صرف اور صرف یہی رویہ شایانِ شان ہے۔ نیز تقویٰ و پرہیزگاری کے علاوہ حکمت ومصلحت کے لحاظ سے بھی عافیت اسی طرزِ عمل میں ہے۔ لیکن ہمارے 'مفکر قرآن' صاحب نہ تو قرآن کی حدود میں رہناپسند کرتے ہیں (کہ آزادی، انسان کا 'بنیادی حق' ہے، جس سے محروم ہونا اُنہیں پسند نہیں ) اورنہ ہی سکوت و خاموشی اختیار کرنا چاہتے ہیں (کہ ایساکریں تو ان کی عقلِ عیار بیکار اور ان کا شغلِ قلم کاری تعطل کاشکار ہوکر رہ جاتے ہیں ) اس لیے وہ خود کو مجبور پاتے ہیں کہ قرآنی 'اَغلال و اِصر' سے آزاد ہوکر دنیاے مغرب کے اسلام دشمن 'محققین' (مثل رینان وغیرہ) کی اتباع میں ابن مریم ؑ کو 'ابن یوسف' بنا ڈالیں اور پھر اپنی بے معنی نکتہ آفرینیوں دور ازکارموشگافیوں اور خسیس و رکیک تاویلات کے ذریعہ اپنی ہر لمحہ بدلنے والی عقلِ عیار کی خاطر قرآنِ کریم کے محکم اور اٹل حقائق کو توڑا مروڑا جائے۔

پھر حرام ہے جو کبھی 'مفکر قرآن' صاحب یہ سوچیں کہ قرآنی حقائق کی شکست و ریخت کے نتیجہ میں معارف القرآن جلد سوم میں اس بحث پر جو کچھ لکھ چکے ہیں ، اس کے ساتھ قدم قدم پر تضادات و تناقضات کاکس قدر وسیع و عریض خار زار پیدا ہورہا ہے۔ بس اب ان کے قلب و ذہن پر ایک ہی دُھن سوار ہے کہ واقعہ ٔ ولادتِ مسیح علیہ السلام سے معجزانہ پہلو کو زائل کردیا جائے، خواہ اس کے لیے ترجمہ آیت اور مفہوم قرآن میں مسخ و تحریف سے کام لینا پڑے یا قواعد ِزبان کو پس پشت ڈالنا پڑے یابین القوسین اضافی الفاظ کے ذریعہ مدلولاتِ آیات کا حلیہ بگاڑنا پڑے، ان کی بلا سے ؎
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

قرآن بمقابلہ مغربیت اور روّیۂ پرویز
یہاں 'مفکر قرآن' صاحب کے 'قرآنی ذوق' اور 'علمی مزاج' کایہ پہلو بھی قارئین کرام سے مخفی نہیں رہنا چاہئے کہ قرآنی تصریحات اور مغربی تحقیقات میں جب تعارض واقع ہوجاتا ہے تو ان کے نزدیک قرآنی تصریحات کی بجائے مغربی تحقیقات ہی شرفِ تقدم کا مستحق قرارپاتی ہیں ۔ اس کے لیے ان کی دلیل یہ ہوا کرتی ہے کہ ''ہمارے ہاں تو جمود ہی جمود اور تقلید ہی تقلید ہے، تحقیق و ریسرچ کا کام تو ہے ہی نہیں ، یہ تو صرف مغرب ہی میں پایا جاتاہے۔ لہٰذا تحقیقاتِ مغرب کی طرف رجوع ناگزیر ہے۔'' اس سے قارئین کرام یہ نہ سمجھیں کہ پرویز صاحب تقلید سے بے زار اور گریزاں تھے۔ ایساہرگز نہیں تھا، وہ بڑے پختہ مقلد تھے اور انتہائی جامد اور اندھی تقلید میں مبتلا تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ تقلید ِکہن کی بجائے، تقلید ِنوپر قائم تھے۔ وہ تقلید ِقدیم پرخوب برسا کرتے تھے مگر تقلید ِجدید کاالتزام کیا کرتے تھے۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کی سخت مخالفت (بلکہ مذمت) کیا کرتے تھے۔ لیکن'امام' کارل مارکس ، 'امام' ماؤزے تنگ، 'امام' چارلس ڈارون اور 'امام' رینان کی تقلید ِجامد پر ڈٹے ہوئے تھے۔ اور وہ بھی اس حد تک کہ اگر کہیں قرآن اور ائمہ مغرب کے موقف میں غیرفیصلہ کن صورتحال (TIE) پڑ جاتی تو وہ مغرب ہی کے اماموں کی پیروی کو ترجیح دیتے ہوئے قرآن کوچھیل چھال کرکتاب اللہ کو مطابق مغرب بنانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ قرآنی تصریحات کو وہ اپنی اُس 'عقل عیار' کی کسوٹی پر پرکھا کرتے تھے جو مغربیت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی اور جسے وہ اپنی 'قرآنی بصیرت' کانام دیاکرتے تھے۔

ان ساتوں مثالوں سے یہ واضح ہے کہ 'مفکر قرآن' صاحب اگرچہ نام قرآن ہی کا لیا کرتے تھے لیکن ہدایت و ضلالت کا اصل معیار اُن کے ہاں تحقیقاتِ مغرب ہی تھیں ۔ وہ صحت و سقم کی جانچ پرکھ کے لیے اپنے دل و دماغ میں رچے بسے نظریات کو قرآنِ مجیدکی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے اکتشافاتِ مغرب ہی کی کسوٹی پر پرکھا کرتے تھے۔اپنے قلبی معتقدات کو قرآن پر حاوی رکھتے ہوئے ترازو، باٹ اور تولی جانے والی ہر شئے کو غلط ملط کر ڈالنے کے عادی تھے۔ قرآن، قرآن کی رَٹ لگاتے ہوئے بھی وہ اپنے قلبی آرا و افکار، ذہنی نظریات و معتقدات اوردماغی خیالات و تصورات کو اَصل قرار دے کر قرآنِ کریم کو ان کے مطابق ڈھالا کرتے تھے، نہ کہ ان (تخیلات و مزعومات) کو قرآن کے مطابق۔ پھر ایساکرتے ہوئے وہ ان لوگوں کی روش اپنایا کرتے تھے جو تاویل و تفسیر کے نام پر تحریف و ترمیم قرآن پرکمر بستہ رہے ہیں اور یہی رویہ ہمیشہ ہی سے ضالین اوربے توفیق لوگوں کا روّیہ رہاہے، لیکن بڑی ڈھٹائی اور بلند آہنگی سے وہ الٹا اعلان یہ کیا کرتے تھے :
''ہمارے سامنے ، ہدایت اور ضلالت کا معیارقرآنِ مجیدہے۔ اگر ہمیں اپنی ہدایت و ضلالت کااندازہ لگانا ہو تو اس کے لیے ہمیں یہ کرنا چاہئے کہ اپنے دماغ میں جواعتقادات ہوں ، اُنہیں قرآنِ مجید کی کسوٹی پرپرکھیں اور ایسا کرتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس بات کا التزام رکھیں کہ اپنے دماغ کے کسی عقیدہ کو قرآن پر اثر انداز نہ ہونے دیں ، ورنہ ترازو، باٹ اور جس چیز کو تولا جارہا ہے۔ سب خلط ملط ہوجائیں گے اور ہم فیصلہ نہیں کرسکیں گے کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا؟ میرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کوتمام مذاہب ، آرا و افکار ، عقائد و خیالات کے بارے میں اصل مانناچاہئے نہ یہ کہ ہم مذاہب و عقائد کو اصل مان کر پھر ان پر قرآنِ مجید کو پرکھیں اور پھر قرآن مجید میں تاویل و تحریف کریں جیسا کہ ضآلین اور بے توفیق لوگوں کا شیوہ رہاہے۔''[SUP]19http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#a19[/SUP]

'مفکر قرآن' کا اس 'وعظ ِ دل پذیر' کے ساتھ عمل کیا ہے، وہ مذکورہ بالا ساتوں مثالوں سے بخوبی عیاں ہے۔
[HR][/HR]
حوالہ جات
[SUB]1.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#b1[/SUB] تفسیر مطالب الفرقان: ۵؍۲۳۷
[SUB]2.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#b2[/SUB] تفسیر مطالب الفرقان:۵؍۲۳۷
[SUB]3.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#b3[/SUB] مفہوم القرآن:ص۹۱۲
[SUB]4.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#b4[/SUB] معارف القرآن: ج۲؍ ص۳۷۶
[SUB]5.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#b5[/SUB] مفہوم القرآن: ص۶۷۹
[SUB]6.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#b6[/SUB] تفسیر مطالب الفرقان : ج۲ ص۱۷۳
[SUB]7.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#b7[/SUB] لغات القرآن: ص۶۹۳،۶۹۴
[SUB]8.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#b8[/SUB] شعلہ مستور: حاشیہ بر ص۱۶
[SUB]9.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#b9[/SUB] طلوعِ اسلام، نومبر ۱۹۶۵ئ، ص۴۹
[SUB]10.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#b10[/SUB] معارف القرآن: ج۳؍ ص۳۵۶
[SUB]11.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#b11[/SUB] برقِ طور:ص۱۹۰،۱۹۱
[SUB]12.[/SUB] مفہوم القرآن:ص۲۵
[SUB]13.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#b13[/SUB] تفسیرمعارف القرآن از مفتی محمد شفیع: رحمۃ اللہ علیہ ج۱؍ص۲۴۶
[SUB]14.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#b14[/SUB] شعلۂ مستور: ص۱۱۴
[SUB]15.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#b15[/SUB] شعلۂ مستور: حاشیہ برصفحہ ۱۱۴
[SUB]16.[/SUB] مفہوم القرآن: ج۳؍ ص۱۲۸۴
[SUB]17.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#b17[/SUB] لغات القرآن: ج۱؍ ص۳۰۲
[SUB]18.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#b18[/SUB] شعلۂ مستور، ص۱۰۵
[SUB]19.http://mohaddis.com/mag2/shumarajaat/46-nov-2009/1144-ghulam-ahmed-pervaiz-k-eman-bil-quran-ki-haqeeqat-2-last.html#b19[/SUB] طلوعِ اسلام: جنوری ۱۹۵۹ء ص۳۱
 
شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90
بہت پیارا مضمون ھے جزاک اللہ شاکر بھائی سے رقوسٹ ہے کہ اس رسالہ میں اگر اور بھی کچھ آرٹیکل ہے تو پڑھنے کے لئے مہیا کئے جائے۔۔۔۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بہت پیارا مضمون ھے جزاک اللہ شاکر بھائی سے رقوسٹ ہے کہ اس رسالہ میں اگر اور بھی کچھ آرٹیکل ہے تو پڑھنے کے لئے مہیا کئے جائے۔۔۔۔
ریکوسٹ
Request
 
شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90
ریکوسٹ
Request
ھاھاھاھا۔۔۔۔۔بھائی کوئی جرمانہ تو نہیں ہوا نا۔۔۔میری انگلش، میری عربی اور میری اردو سب کمزور ہے امید ہے کے جلد سیکھ جاؤنگا۔۔۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بہت پیارا مضمون ھے جزاک اللہ شاکر بھائی سے رقوسٹ ہے کہ اس رسالہ میں اگر اور بھی کچھ آرٹیکل ہے تو پڑھنے کے لئے مہیا کئے جائے۔۔۔۔
بھائی، یہ آرٹیکل ماہنامہ محدث سے لیا تھا۔ اس کی یونیکوڈ سائٹ تیار ہے۔ بس اپ لوڈنگ کا کام جاری ہے۔ چند ایک ماہ تک آپ ماہنامہ محدث کے تمام شمارہ جات یونیکوڈ میں آن لائن مطالعہ کر سکیں گے، پی ڈی ایف اور ورڈ فارمیٹس میں ڈاؤن لوڈ کر سکیں گے، ان شاء اللہ۔
 
شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90
بھائی، یہ آرٹیکل ماہنامہ محدث سے لیا تھا۔ اس کی یونیکوڈ سائٹ تیار ہے۔ بس اپ لوڈنگ کا کام جاری ہے۔ چند ایک ماہ تک آپ ماہنامہ محدث کے تمام شمارہ جات یونیکوڈ میں آن لائن مطالعہ کر سکیں گے، پی ڈی ایف اور ورڈ فارمیٹس میں ڈاؤن لوڈ کر سکیں گے، ان شاء اللہ۔
جذاک اللہ خیرا کثیرا
 
Top