• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب کے نزدیک صحیح بخاری میں ضعیف احادیث کی وجوہات؟١

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
جب کوئی کسی پر اعتراض کرتا ھے تو اس کی اس کے نزدیک وجوہات ہوتی ہیں خواہ وہ غلط ہی ہو اس نے تو اپنے علمی زاویے میں رہ کر کام کرنا ھے جسیے بے شمار منکرین حدیث صحیح بخاری پر اعتراضات کرتے ہیں کیونکہ ان کی علمی فکرمیں کجی ہوتی ہے ، وہ اصول حدیث سے عاری ، فہم سلیم سے خالی ، قرآن و حدیث کی حجت ہونے میںتشکیک ڈالنے والے ، محدثین کی خدمات کو لات مار کر ایسا قدم اٹھاتے ہیں جس سے اللہ کی پناہ ۔واضح دین اسلام کی تخفیف و تحقیر و تذلیل کرتے ہیں ۔انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
بریلوی طبقہ فکر جن کی حالت زار ہر کسی پر عیاں ہے ،جب وہ صحیح بخاری کی شرح لکھے گا اس سے کیا بخاری کی تائید کرے گا ۔کلا۔طاہر القادری نے بھی صحیح بخاری پر دروس دئے ،احمد رضا بریلوی نے بھی حدیث پر کام کیا ،اسی طرح دیوبندی اور حنفی بھی اسی زمرے میں آتے ہیں اس کی مثال کے لئے فیض الباری دیکھ لیں یا کوثری حنفی کی خدمات کا مطالعہ کر لیں ۔
ان تمہیدی باتوں کے بعد عرض ہے کہ سعیدی بریلوی صاحب نے صحیح مسلم کی بھی شرح لکھی ہے وہ شرح راقم کے مطالعہ میں بلکہ کئی سال سے اس پر نقد لکھ رہا ہوں مگر صحیح مسلم کی کسی بھی روایت کو وہ ضعیف نہیں کہتے مگر صحیح بخاری کو کیوں تنقید کا نشانہ بنایا ؟اس کی وجوہات اہل علم سے مخفی نہیں ۔اور نہ ان کو لکھنے کی ضرورت ہے ۔
وہ کیا اصول ہیں جن کی بنا پر سعیدی بریلوی صاحب نے صحیح بخاری کی احادیث کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔
سعیدی بریلوی صاحب کا پہلا اصول :
لکھتے ہیں :’’ صحیح بخاری میں ایسے راویوں کی تعداد کافی زیادہ ہے جو جہمی ،قدری رافضی یا مرجئہ عقائد کے حامل تھے ۔‘‘(نعمۃ الباری :ج١ص٩٤ سطر ٨)

غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب نے پہلی وجہ یہ بیان کی ہے کہ بخاری میں جہمی قدری وغیرہ راوی موجود ہیں ۔؟؟؟؟!!!!
راقم عرض کرتا ھے کہ سعیدی صاحب کی یہ بات اصول حدیث سے بے خبری پر دلالت کرتی ہے ۔
محدثین راوی کی عدالت و ضبط کو دیکھتے تھے اس کے عقیدے کو نہیں ،کسی راوی کا قدری وغیرہ ہونا راوی کے ضبط اور عدالت میں مضرنہیں ہے بشرطیکہ وہ بدعت کے داعیوں میں سے نہ ہوں ۔تو اس کی حدیث قبول ھے اور خصوص اس کی حدیث کی صحت پر امت مسلمہ کا اجماع بھی ہو چکا ہو ۔
محدثین کے اقوال ملاحظہ کریں ۔
امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا کیا تم مرجئی اور قدری سے حدیث لکھتے ہیں فرمایا :ہاں:جب تک وہ اس کی طرف دعوت نہ دے اور اس میں کلام کثیر نہ کرے ۔(الضعفائ لابن حبان :ج١ ص ٨٢)
ابن حبان فرماتے ہیں :’’ہمارے ائمہ اہل حدیث کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایک صدوق اور متقن راوی اس میںبدعت ہو وہ اس کی طرف دعوت نہ دیتا ہو تو اس کی حدیثوں سے حجت پکڑنا صحیح ھے ۔(تاریخ الثقات لابن حبان)حآفظ ابن حجر نے کہا :امام ابن حبان کا نقل کردہ اتفاق تو محل نظر ھے لیکن سب سے زیادہ انصاف والا مذہب یہ ہے کہ جو بدعت کا داعی نہ ہو اس کی روایت قبول کی جائے گی اور داعی کی روایت رد کر دی جائے گی ۔(ہدی الساری :٣٨٥)
حافظ ذہبی لکھتے ہیں:مجھ پرن جو چیز واضح ہوئی ہے وہ یہ ھے کہ جوراوی بدعت کی طرف مائل ہوگا لیکن بدعت کے سرداروں میں سے نہیں ہے اور نہ وہ اس بدعت کی گہرائی میں جاتا ہے اس کی حدیث قبول کی جائے گی ۔(سیر اعلام النبلائ:ج٧ص١٥٤)
فائدہ:بدعت مکفرہ کے مرتکب کی روایت مردود ھے اور قدری سے مراد تقدیر کا منکر نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد وہ راوی ہے جو کہتا ہے ’’الشر من الشیطان‘‘شر شیطان کی طرف سے ہے ۔(التنکیل :ج١ص٤٢،٥٢)اور تشیع سے مراد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو عام صحابہ پر مقدم کرتا ھے جو سیدنا علی کو ابوبکر و عمر پر مقدم کرتا ہے اس کو رافضی کہتے ہیں ۔(ہدی الساری:ص٤٩٥)
سرفراز خان صفدر دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :’’یہ بے چارے اصول حدیث میں بالکل کورے ہیں محمد بن خاذم بخاری و مسلم کے مرکزی راوی ہیں اصول حدیث کی رو سے راوی کا خارجی یا جہمی ،معتزلی یا مرجی وغیرہ ہونا اس کی ثقاہت پر قطعا اثر انداز نہیں ہوتا اور صحیحین میں ایسے راوی بکثرت ہیں ۔‘‘(احسن الکلام :ج١ص٤٩)

قارئین کرام :اس شخص کی حالت کیا ہے جو اصول حدیث کے اس بنیادی مسئلے سے عاری ہے اور اسی بنیاد پر صحیح بخاری کی احآدیث کو ضعیف قرار دے رہا ہے ۔انا للہ و انا الیہ راجعون
مکمل رد دکیھے البشارہ ڈاٹ کام
 
Top