• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غموں کو دور کرنے میں نیک اعمال کا کردار

شمولیت
نومبر 24، 2012
پیغامات
265
ری ایکشن اسکور
502
پوائنٹ
73
اظہر نذیر [1]
اصلاح معاشرہ​
غموں کو دور کرنے میں نیک اعمال کا کردار
یہ مضمون ایک عربی کتاب کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے۔ جس میں موجودہ دور کی پریشانیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عمومی نفسیاتی تجزیہ کیا گیا تھا۔جسے قاری اظہر نذیر صاحب نے اردو دان حضرات کے لیے ترتیبی اور اسلوبی تبدیلیوں کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ادارہ
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على هادي الأنام وخاتم الأنبياء والمرسلين نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين، ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين، أما بعد:
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے نیک اور صالح اعمال آخرت میں اللہ کے حضور اس کے لئے سفارش کریں گے ہی۔ لیکن کئی احادیث اور آیات کے مطابق وہ اس دنیا میں بھی کبھی کبھار خدائے لم یزل کے سامنے دست شفاعت دراز کرتے ہیں۔اور ان کی وجہ سے انسان کو بعض پریشانیوں ، دکھوں اور مصیبتوں سے نجات بھی ملتی ہے۔اس سلسلے میں واضح رہے کہ کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت اورا طاعت جیسے اعمال کرتا ہے تو اللہ کو ان کی ضرورت و حاجت نہیں بلکہ یہ اللہ اپنے بندوں پر اپنی رحمت اور فضل کی وجہ سے غموں سے نجات دلاتا ہے۔
بہر حال آئیندہ اوراق میں اس بات کی وضاحت کرنے کوشش کی جائے گی کہ ایک انسان کو جو نفسیاتی اور جسمانی دکھ یا غم وغیرہ پہنچتے ہیں انہیں دور کرنے میں نیک اور صالح اعمال کیا کردار ادا کرتے ہیں؟
واضح رہے کہ مصیبتوں اور دکھوں کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں ۔ایک نفسیاتی اور اندرونی ، دوسری جسمانی اور بیرونی ذیل میں دونوں کابالتفصیل ذکر کرنا چاہوں گا۔
نفسیاتی پریشانیاں:
نفسیاتی پریشانیوں سے مراد وہ تمام نفسیاتی امراض اور جلد اثر کر جانے والے جذبات ہیں جن کی وجہ سے انسان اپنا توازن اور خود پہ کنٹرول کھو بیٹھتا ہے۔اگر چہ اس طرح کی پریشانیاں بہت زیادہ ہیں اور ان پر علیحدہ علیحدہ بالتفصیل بحث ہو سکتی ہے لیکن ہم ان میں سے صرف انہی کا ذکر کریں گے جن کا عام طور پر لوگ شکار ہوتے ہیں۔
1:الهم:(پریشانی)
انسان کا معمولی و غیر معمولی چیزوں کے بارے مسلسل پریشان رہنا الہم کہلاتا ہے ۔ بعض اوقات یہ پریشانی مستقبل میں درپیش چیلنجز اور مسئولیت کے بارہ میں ہوتی ہے ۔یہ ایسا نفسیاتی مرض ہے جو شیطان انسان کے دل میں وسوسوں کی صورت میں ڈالتا ہے اور اسکے روز مرہ کے معمولات کو 'اگرچہ وہ چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں' ایک پہاڑ کی صورت میں پیش کرتا ہے ۔یہ پریشانیاں انسان کو کمزور کردیتی ہیں اور انسان حوادثات زمانہ میں پھنس کر رہ جاتاہے ،خصوصا جب انسان اپنے خالق حقیقی سے کٹ جائے ، سنت نبوی سے اپنے مسائل کا حل تلاش نہ کرے اور اپنے ازلی دشمن کی پیروی کرے تو اللہ تعالی انسان کو ان پریشانیوں کے ذریعے آزماتے ہیں تا کہ انسان معصیت کو چھوڑتے ہوئے رجوع الی اللہ کرے اور اپنے پیدا کرنے والے کی رضا و منشاء کے مطابق چلے ۔
ان آلام ومصائب سے تب ہی چھٹکارا ممکن ہے جب انسان اخلاص کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہو اور اعمال صالحہ بجا لائے ، اپنی معصیت و سرکشی ترک کرکے انتہائی عاجزی اختیار کرے، ایسے ہی تلاوت قرآن اور کثرت استغفار کو اللہ کی بار گاہ میں وسیلہ بنائے‎تاکہ وہ غفور و رحیم ذات غموں کو دور کردے اور اسے عافیت و سکون عطا فرمائے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان پریشانیوں سے نکلنے اور علاج کیلئے کئی دعاؤں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے:
«مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ، جَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا، وَمِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ»[1]
''جس نے استغفار کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ، اللہ تعالی اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ اور غموں سے راحت کا سامان پیدا فرمادے گا ۔ اور اسے ایسے مقامات سے رزق مہیا فرمائے گا جن کا اسے وہم گمان بھی نہ ہوگا''
نبی ﷺ نے غم و پریشانی کے وقت کی ایک دعا سکھلائی جب بھی کوئی آلام و مصائب کے وقت یہ دعا پڑےگا اللہ ضرور اسے غموں سے نجات دے گا اور اسکی پریشانیوں کو خوشیوں میں تبدیل کردے گا:

«مَا قَالَ عَبْدٌ قَطُّ إِذَا أَصَابَهُ هَمٌّ وَحَزَنٌ: اللهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، وَابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ، سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي، وَنُورَ صَدْرِي، وَجِلَاءَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي، إِلَّا أَذْهَبَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ هَمَّهُ، وَأَبْدَلَهُ مَكَانَ حُزْنِهِ فَرَحًا»[2]
''اے اللہ ! میں تیرا بندہ ہوں ، تیرے بندے کا بیٹا ہوں ، تیری بندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ، تیرا حکم مجھ پر جاری ہے میرے بارے میں تیرا فیصلہ عدل ہے ، میں تجھ سے تیرے ہر اس خالص نام کے ساتھ سوال کرتا ہوں جو تو نے خود اپنا نام رکھا ہے یا اسے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھلایا ہے یا علم الغیب میں اسے اپنے پاس رکھنے کو ترجیح دی ہے کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار اور میرے سینے کانور اورمیرے غم کا مداوا اور میرے فکر کو لے جانے والا بنادے ''
یہی وجہ ہے کہ رحمت کائنات ہموم و غموم سے بہت زیادہ پناہ مانگتے تھے اور یہ دعا پڑھتے تھے:

«اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَمِّ وَالحَزَنِ، وَالعَجْزِ وَالكَسَلِ، وَالجُبْنِ وَالبُخْلِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ»[3]
''اے اللہ ! میں غم اور پریشانی سے،عاجز ہو جانے سے ، سستی سے ، بخل ،بزدلی و قرض کے بوجھ سےاور لوگوں کے غالب آجانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔''
2۔حزن: (غم)
اسے ماہرین نفسیات کی اصطلاح میں ''کآبہ'' کےنام سے پہچاناجاتا ہے۔ یہ لفظ اکثر ان غموں پر بولا جاتا ہے جو کسی معین حادثہ کی پیش آنے کی وجہ سے لگ جاتے ہیں یا کئی حادثات کا نتیجہ ہوتے ہیں جیسے اپنے کسی عزیز کی گمشدگی ،مالی خسارہ ،طویل مرض کا لگ جانا یا نامناسب سوسائٹی کے ساتھ رہنا پڑھ جائے۔ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اسباب ہوتے ہیں جو انسان کے ہاں اس طرح کے غم کو پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں ، یہ ایک طبعی وفطری معاملہ ہے چنانچہ جب اس کے اسباب پائے جائیں گے تو یہ صورت حال ضرور پیدا ہو گی ۔ تقریبا ہر انسان اس میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ایسے میں ان غموں سے چھٹکا را صرف قرآنی احکامات اورسنت نبوی سے ہی ممکن ہے ۔ اسوۂ رسول ﷺ سے ایسی ہی رہنمائی ہمیں ا س وقت ملتی جب آپﷺ کے لخت جگر کی وفات ہوئی۔ اس حادثے کا آپﷺ نے گہرا اثر لیتے ہوئے فرمایا تھا، اے ابراہیم !تیری جدائی نے اتنا غمگین کردیا ہے کہ آنکھیں بہہ رہی اور دل افسردہ ہے لیکن ہم زبان سے صرف وہی کہتے ہیں جس سے ہمارا رب راضی ہو ۔
یعقوب ﷤ نے بھی آپﷺسےپہلے یوسف﷤ کی گمشدگی کےوقت اللہسے شکایت کی تھی:

﴿قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ﴾[4]
''یعقوب نے کہا : میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد صرف اللہ سے کرتا ہوں ''
جب اس طرح کے حالات ایک طویل مدت رہتے ہیں اور انسان مسائل حل کرنے یا ان کا سامنا کرنے سے خود کو عاجز پاتا ہے تو مزید آنے والے مصائب پر اسکی فکر مندی بڑھ جاتی ہے ، تب یہ ایک نفسیاتی پریشانی بن جاتی ہے اور باقی امراض کی طرح اسکا علاج بھی ضروری ہو جاتا ہے ۔ اگر ان حالات پر توجہ نہ دی جائے تو انسانی طبعیت میں ایسے بڑے رخنے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں جہاں سے شیطان کوداخل ہونے کا مسلسل موقع ملتا رہتا ہے ، پھر وہ جس طرح چاہتا ہےبہکاتا ہے ،معاصی ومنکرات کو انسان کے لیے مزین کردیتاہے ۔
ان مصائب کے بھنور سے انسان کو نکالنے کے لیے ، جو انسان کو امراض کی طرف دھکیل دیتے ہیں ، بہت ساری احادیث ہیں ، یہ احادیث جہاں انسان کو سکون دیتی ہیں وہاں ساتھ ساتھ مصائب میں زیادتی کو روکتی ہیں یہاں تک کہ انسان گناہوں سے بچ جاتا ہے اور رحمت الہی سے اس کے معاملات ٹھیک ہونے شروع ہو جاتے ہیں ۔ نبیﷺ نے اپنے صحابہ اور اپنے بعد اپنی امت کو یہ بات سکھلائی کہ اعمال صالحہ کرنے سے نہ رکیں۔ یہ انسان کے ایمان و یقین کو مضبوط کرتے ہیں اور اللہ کی رضا و منشاء پر راضی رہنے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔
یہ وہی غم ہے جو اللہ کے نبی یعقوب﷤ کو لاحق ہوا تھا۔ جب انکی آنکھوں کی ٹھنڈک ،انتہائی محبوب لخت جگر یوسف ﷤ کے ایک طویل عرصہ تک گم ہونے کی وجہ سے جو پریشانی ملی ‎کہ ان کے بارہ کچھ بھی معلوم نہ تھا ، لیکن اس کے بعد جب دوسرا بیٹابھی اپنے بھائیوں کے ساتھ مصر کے تجارتی سفر میں کھو گیا تو انہیں یہ حزن ،یہ غم چمٹ گیا لیکن انہوں نے مایوسی کو اختیار نہ کیا بلکہ وہ اللہ وعدے کے مطابق پختہ رہے اور بلکہ اس سے ان کا تعلق باللہ اور بھی مضبوط ہوگیا ،اللہ کے ساتھ اوراللہ کی حکمت بالغہ پر یقین میں اضافہ ہوگیا۔ وہ صبر اور بدلہ کی امید کرتے ہوئے صرف اور صرف اللہ سے فریاد کناں ہوئے۔
﴿قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ﴾
اللہ کے علاوہ کسی معبود،بادشاہ ،صنم کے سامنے نہ جھکے اور نہ ہی کسی کاہن و فریب خور اور دھوکے باز سے فریاد کی۔ ان کے اتنے بڑے غم کی کشادگی اور خوشی کا یہی سبب تھا جو ناقابل بیان ہے کہ جب خوش خبری دینے والا یوسف ﷤ کی قمیص لایا تو وہ اپنے ان آلام اور نفسیاتی پریشانیوں سے نکل آئے جو یوسف اور اسکے بھائی کے فراق میں ان کے ساتھ چمٹ گئیں تھیں اور انکی بینائی لوٹ آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]متعلم جامعہ لاہور الاسلامیہ
[2] ألباني : ضعيف،السلسة الضعيفة: 705
[3] السلسلة الصحيحة:972 -
[4] صحيح بخاری:5425
[5] يوسف : 86
(جاری ہے ۔۔۔۔۔)
 
شمولیت
نومبر 24، 2012
پیغامات
265
ری ایکشن اسکور
502
پوائنٹ
73
القلق :(اضطراب)
ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ انسان کا کسی مخفی اور غیر معروف چیز کے اپنے اوپر واقع ہونے کا خوف محسوس کرنا قلق ( اضطراب ) کہلاتاہے ۔ قلق ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جو کسی کو بھی لاحق ہوتی ہے تو وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہے ، نہ خود میں ٹھراؤ اور نہ ہی اپنے ماحول میں امن پاتا ہے ،بلکہ ایسے شخص میں ہمہ وقت اضطراب اور طبیعت میں کشیدگی و کھینچاؤ کی کیفیت رہتی ہے ۔ یہ تکلیف عموما کسی غیر مانوس چیز کو دیکھنے ، اچانک حملے یا اخلاقیات سے گرے ''جواری ، شراب نوش،دھوکے باز '' رفقاء کے ملنے اور غیر محفوظ مستقبل کا خوف دامن گیر ہونے والے شیطانی وسوسوں سے جنم لیتی ہے۔ یہ چیزیں انسان میں اندرونی کوتاہیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ ان کی وجہ سے انسان اوران شیطانی وسوسوں کے درمیان ایک ذہنی کشمکش شروع ہو جاتی ہے جن پر شیطان کو موقع ہاتھ آتا ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے ،بھٹکائے ،شکوک و شبہات اور ذہنی ،فکری و نفسیاتی ٹکراؤ پیدا کرئے۔ظاہر بات ہے ان قوتوں پر شیطان کو غلبہ دے دیا گیا ہے ۔ اسکی یہی بات اللہ نے بیان فرمائی :

﴿قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ(82)إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ (83)﴾ [1]
وہ کہنے لگا'' تیری عزت کی قسم !میں سب ( انسانوں ) کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا ۔بجز تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص کرلیا ہے ''
جب انسان ہموم و غموم کی کی حقیقت اور اسباب کو جان لیتا ہے تو ان کا علاج کرنا او ران سے چھٹکا را بھی ممکن ہو جاتا ہے کیونکہ اللہ نے شیطان کی حالت کو واضح کردیا کہ وہ لوگوں کے درمیان پھوٹ ڈالے گا اور ان کے تمام امور میں وسواس کو داخل کرے گا جن سے بچنا ناگزیر ہے ۔ایسے ہی اللہ نے اپنے بندوں کے لئے طریقہ علاج اور دواء کو بھی بیان کردیا تا کہ جوں ہی یہ بیماریاں ان پر نازل ہوں تو ان سے نکلنا ممکن ہو ،یقینا یہ علاج اطاعت الہی ، رضائے الہی کو موجب اعمال صالح اور کثرت سے جلوت و خلوت میں ذکرباری تعالی ہے ۔

﴿أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (28) ﴾[2]
''یاد رکھو !دل اللہ کے ذکر سے ہی مطمئن ہوتے ہیں''
ہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اعمال صالحہ جو اللہ نے واجب کیے ہیں ان میں اضطراب جیسی پریشانیوں اور ان کے اثرات سے نکلنے کے وسیع راستے موجود ہیں ، انہی میں سے یہ ہے کہ اللہ کی مخلوقات آسمان و زمین ،لیل و نہار اور جمیع آیات میں گہرا سوچ بچار کر کے ان سے عبرت حاصل کرکے ان غموں سے نجات مل سکتی ہے ۔ بلکہ یہی و ہ تفکر اور گہری سوچ ہے جس ذریعے ان غموں سے چھٹکاراممکن ہے ۔ جیسے اللہ کے برگزیدہ پیغمبر ابراہیم خلیل اللہ نےنبوت سے پہلے اپنے اردگرد کے بت پرستانہ ماحول سے تنگ آکر شکایت کی تھی ؟ہاں ! وہ اللہ کی بادشاہت میں غور و فکر ہی تھا کہ پہلے ستاروں اور پھر چاند کی طرف اشارہ کیا(ان سے مایوس ہو کر ) سورج کی طرف امیدیں لگائیں کہ شاید یہ میرے دکھوں کا مداوا ہو لیکن جب اس آفتاب کو بھی اس وسیع کائنات میں ڈوبتے دیکھا تو انہوں نے اپنی قوم کے فعل سے براءت کا اظہار کرتے ہوئے اللہ وحدہ کی عبودیت کا اعلان کیا جو اس پورے نظام فلکیات کی تدبیر کرتا ہے تو اللہ نے ابراہیم کی اس اضطرابی اور قلق کی کیفیت کو درو کردیا اور ان کے شکوک وشبہات کو یقین میں بدلتے ہوئے انہیں منصب اعلی رسالت پر سرفراز کیا ۔فرمان باری نازل ہوا

﴿وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ (75) فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ (76) فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ (77) فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ (78) إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (79) ﴾[3]
''اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کانظام سلطنت دکھا رہے تھے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے ۔پھر جب اس پر رات طاری ہوئی تو انہوں نےایک ستارہ دیکھا تو کہنے لگے کیا یہ ہےمیرا رب؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو ابراہیم کہنے لگے :میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا تو بولے : کیا یہ ہے میرا رب ؟ جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے اگر میرے رب نے میری رہنمائی نہ کی تو میں تو گمراہ لوگوں میں سے ہو جاؤں گا ۔پھر جب سورج کو جگمگاتا ہوا دیکھا تو بولے : یہ میرا رب ہے ؟ یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے : اے میری قوم ! جن(سیاروں کو ) تم اللہ کا شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں ۔ میں نے تو اپنا چہرہ یکسو ہو کر اس ذات کی طرف کرلیا ہے جس نے آسانوں اور زمین کو پیدا کیا اورمین شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں ۔''
رسالت مآب ﷺ نے بھی ایمان والوں کو یہی نصیحت کی تھی کہ:
«دع ما يريبك إلى مالا يريبك »[4]
''جو چیز تمہیں اضطراب میں ڈالے اسے ایسی چیز کے لئے چھوڑ دے جویقینی ہو۔'' اور یہ اس وقت تک چھوڑے رکھیں جب تک آپ قلق و اضطراب اور شک کی کیفیت سے نکل کر ایمان و یقین کی راہ پر گامزن ہو سکیں ۔
الخوف :(ڈر)
بعض ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ خوف ایک ایسی کیفیت کانام ہے جس میں نفسیاتی بےچینی اور اعصابی تناؤ محسوس کرتا ہے۔عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔مسلسل خوف و ہراس کی کیفیت میں رہتے ہوئے انسان سرکش ہو جاتا ہے۔ حالات سے بےگانہ ہو جاتا ہے۔
واضح رہے کہ خوف کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ایک ایجابی و مثبت اور دوسرا سلبی و منفی کا نوعیت کا خوف۔
مثبت یہ ہے کہ اللہ کے عذاب و سزا کا خوف ہو۔ یہ ہر انسان کے لئے ضروری اور مطلوب ہے ۔بلکہ یہی وہ خوف ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ عبادت صرف اللہ کی کر نی چاہیے۔ یہ انسان کی زندگی میں رویے کی اصلاح کرتا ہے۔ فرد اور معاشرے کے باہمی تعلق میں توازن بھی اسی سے ممکن ہے۔ مومنین کو اللہ تعالیٰ نے اسی صفت خوف سے متصف کیا ہے۔

﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا﴾[5]
''سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور جب اللہ کی آیات انہیں سنائی جائیں تو انکا ایمان بڑھ جاتاہے ''
لہذا ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ خوف الہی کو اپنا دست و بازو بنالے جس کے ذریعے اپنی تمام مساعی کو اللہ کی طرف لپکنے میں لگادے ۔اسی سے دنیا و آخرت میں اپنے مقاصد کے حصول کی امید رکھے ۔
منفی نوعیت کا خوف وہ ہوتا ہے جس میں غیر اللہ سے ڈرا جائے۔یا اطاعت الہی میں مانع ہو یا جس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انسان اللہ کی نافرمانی مول لےبیٹھتا ہے۔جیسے جادوں گروں اور دجالین کا خوف
فطری اور پیدائشی خوف کی ایک تیسری قسم بھی بنائی گئی ہے ،یعنی وہ خوف جو بذات خود مثبت یا منفی میں سے کسی نوعیت کا بھی حامل نہیں جیسے وہ انسان جو اندھیروں کا عادی نہیں ہوتا اسے تاریکیوں سے ڈر لگنا شروع ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تاہم خوف کی یہ نوعیت اگرچہ بذات خود تو معصیت کے ارتکاب اور ترک اطاعت میں کوئی دخل نہیں رکھتی لیکن اگر یہی صورت بندے کے لئے کسی فعل معصیت میں مانع ہو جائے یا کسی فعل اطاعت کا موجب بن جائے تو یہ بھی مثبت اور منفی ہو جاتی ہے۔
سلبی صورت میں خوف کو ایک نفسیاتی پریشانی اور اللہ کی طرف سے آزمائش سمجھنا چا ہیے جیسا کہ فرمان الہی ہے۔

﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156)﴾ [6]
ہم ضرور تمہیں خوف اور فاقہ میں مبتلا کرکے،نیز جان و مال اور پھلوں کے خسارہ میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے ۔اور ( اے نبی ﷺ!) ایسے صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے کہ جب انہیں کوئی مصیبت آئے تو فورا کہہ اٹھتے ہیں کہ : ہم خود بھی اللہ ہی کی ملک ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے ۔''
اسی طرح خوف کی متعدد صورتیں ہیں جیسا کہ موت کا خوف ،لوگوں کا ڈر ،کسی بیماری کا خوف ،فقرو غربت کا خوف اورغیر محفوظ مستقبل کا خوف ان کے علاوہ متعدد ایسے اسباب و موثرات ہیں جو انسان میں خوف کو جنم دیتے ہیں
ان آلام ومصائب سے نکلنے کاذریعہ صرف اور صرف توجہ الی اللہ ہے اور یقین کامل رکھنا کہ اللہ تعالی ہر قوت سے بالا تر ہے ، ہر سرکش پر ہاوی ہے ، یہ اسی کی شا ن ہے کہ اس کی ملکیت و بادشاہت پر کوئی غالب نہیں آسکتا ، اس کائنا ت میں کچھ بھی ایسا نہیں کہ اسکے امر اور حکمت کے بغیر حرکت کرسکے ،جب اس درجہ کا ایمان و یقین انسان کو حاصل ہوتا ہے تو ان پریشانیوں کی تکالیف اور ان کے اثر و رسوخ سے خود کو آزاد کر سکتاہے ، عالم یکسوئی اور عالم شجاعت کی منازل کو طے کرسکتاہے ۔ چنانچہ وہ بے خوف ہوکر محنت کرتا ہے۔ مشقت اٹھاتا ہے۔حلات بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔کیونکہ وہ اپنی زندگی کو ایک ایسی ذات منسلک کر لیتاہے جو ہر چیز پر غالب اور سخت گیر ہے۔

﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ﴾[7]
''جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اس پر ڈٹ گئے ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں ۔ نہ ڈرو اور نہ غمگین ہو اور اس جنت کی خوشی مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے ''
کیا ہی خوب ہے جو خوف کے وقت بولنے کے لئے کہا گیا ہے "حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ" ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہی سنہری الفاظ ابراہیم ﷤ نے اس وقت بولے تھے جب ان کو آگ میں ڈالا گیا اور یہی موتی زبان نبوت سے نکلے تھے ۔

﴿الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ﴾[8]
یہ وہ لوگ ہیں کہ جب لوگوں نے ان سے کہا کہ ''لوگوں نے تمہارے مقابلے کو ایک بڑا لشکر جمع کر لیا ہے لہذا ان سے بچ جاؤ '' تو ان کا ایمان اور بھی زیادہ ہو گیا اور کہنے لگے ''ہمیں تو اللہ یہ کافی ہے او روہ بہت اچھا کار ساز ہے ''
يہی وہ بات تھی جو اس امت کے رسول وسردار نے اپنےرفیق صدیق اکبر کو سفر ہجرت میں غار ثورمیں کہی تھی کہ جب کفار قریش غار ثور کے دروازے پر پہنچ گئے تھے کیونکہ کامیاب ہونے والوں کے لئے قریش نے مال اورعہدہ کا اعلان کررکھا تھا ،جب صدیق نے کہا تھا اے اللہ کے رسول !اللہ کی قسم ! اگر ان میں سے کسی نے بھی اپنے قدموں کی طرف دیکھ لیا تو ہم نظر آجائیں گے تب رسول رحمت نے اطمینان سے حقیقت سمجھاتے ہوئے جواب دیا تھا «يا ابا بکر!ما بالک باثنین الله ثالثهما؟»[9]ان دو کا کیا بگاڑا جاسکتا ہے جن کا تیسرا اللہ ہو ۔
دین اسلام نے بعض پریشان کن مسائل کا ابتداء ہی سے ایسا علاج کیا ہے کہ انسان شیطانی وسواس میں داخل ہونے سے بچ سکے ، جیسا کہ موت کا خوف ہے۔ اللہ تعالی نے موت کی حقیقت کو واضح کردیا کہ اس سے فرار ممکن نہیں ۔ لیکن اللہ نے اس کے مقررہ وقت کو لوگوں سے مخفی رکھا اور انسان جب تک بھی اس موت سے بھاگتا رہے وہ اللہ کی بادشاہت سے باہر نہیں نکل سکتا وہ جہا ں بھی ہوگا اللہ اسے حاضر کرلے گا ،جیسا کہ فرمان باری ہے :

﴿قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ﴾[10]
''آپ ان سے کہہ دیجئے :جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تو تمہیں آکے رہے گی ''
لوگوں کا خوف : اللہ نے خوف حقیقی کی طرف اشارہ کیا جو کہ انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنے خالق سے ڈرے نہ کہ لوگوں کا خوف اپنے اوپر طاری کرے ،ارشاد ربانی ہے:

﴿فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ﴾[11]
''تم لوگوں سے ڈرنے کی بجائے مجھ سے ڈرو''
فقر کے خوف کا سرے سے ہی اسلام نے انکار کیا ہے کیونکہ جو خالق ہے وہی رازق ہے ، اور بندوں کا رزق بندوں کی بجائے بندوں کے خالق کے ہاتھ میں ہے

﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا﴾[12]
''اور مفلسی کے اندیشہ سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ۔ انہیں اور خود تمہیں بھی رزق ہم دیتے ہیں ۔ انہیں قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔''

﴿وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ﴾ [13]
'' اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور وہ کچھ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے ۔''
لہذا ثابت ہوا کہ وہ اعمال صالح ہی ہیں جو انسان میں تعلق باللہ کی قوت کو پیدا کرتے ہیں اور یہی وہ قوت ہے جو اضطراب ، خوف مذموم اورامراض نفسیہ میں پیش آنے والے خوف کو زائل کرتی ہے ۔
[1] ص : 82 ، 83
[2] الرعد:28
[3] الانعام:75تا79
[4] ألباني : صحيح- "السلسلة الصحيحة:219
[5] الانفال:2
[6] البقرة:155، 156
[7] فصلت:30
[8] آل عمران:173
[9] -صحيح بخاری:4663
[10] الجمعة:8
[11] المائدة:44
[12] الاسراء:31
[13] الذاريات:22
(جاری ہے ۔۔۔۔)
 
شمولیت
نومبر 24، 2012
پیغامات
265
ری ایکشن اسکور
502
پوائنٹ
73
الیأس:(مایوسی)
مایوسی اس ذہنی کیفیت کو کہتے ہیں جس میں انسان اس وقت مبتلا ہوتا ہے جب وہ اپنی آرزوں کے ناموافق حالات پاتا ہے۔یہ امید کے بر عکس ہے ، ناامیدی ایک ایسا مرض ہے کہ جسے ہمیشہ منفی صورت میں اثر انداز ہونے والی پریشانی خیال کیا جاتاہے ۔اس سے پستیاں مقدر بنتی ہیں ۔مایوس انسان زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے چلا جاتاہے ۔ وہ غوروفکر کی صلاحیت کھوبیٹھتا ہے۔ اس سے انسانی آزادی ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ مایوسی سے ترقی و ایجادات اور حصول مقاصد میں بہت بڑی رکاوٹ آکھڑی ہوتی ہے ۔مایوس انسان کا شیطان متلاشی ہوتا ہے ۔ اس کے ملنے سے شیطان کی فرحت و سرور کی کوئی انتہاء نہیں رہتی۔ پھر وہ اللہ کے دشمنوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ جن پہلوؤں سے وہ غالب ہوتے ہیں انہیں خوشنما بنا کر پیش کرتا ہے۔ تاکہ یہ اپنے سارے نظام زندگی میں ان کے تابع ہو جائیں۔دشمنان اسلام کو ایک سپر طاقت کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ ان کی عقل و فکر اور صنعتی ترقی کو بڑا چڑھا کر دیکھاتا ہے۔ یہاں تک کہ مایوسیوں کے مارئے ہوئے لوگ پکا راٹھتے ہیں ''ان ترقی یافتہ قوموں کے ہم پلہ کیسے ہوسکتے ہیں ہماری حالت اور ان کی حالت کےکیسے برابر ہو سکتی ہے؟ '' یہ ایسی بڑی پریشانی اور خطرناک مرض ہے جسکی وجہ سے مسلمانوں کے بڑے بڑے لشکر بھی پاؤں تک روند دیے گئے ۔
ان سے نکلنے کا واحدراستہ یہی ہے کہ ان مایوسیوں کو چھوڑکر انسان خالص اللہ کی دعوت پر لبیک کہے اور اعمال صالحہ بجا لائے تاکہ اسکی پریشانیوں کو حل کرنا ممکن ہو۔ کیونکہ جتنے بھی انسان سے گناہ اور خطائیں ہوجائیں ،اللہ کی رحمت اور فضل سے پر امید رہنا چاہیے ، رحمت الہی اور فضل الہی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں جہاں انسان کے راہ نجات ممکن ہو ۔فرمان الہی ہے !

﴿قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ﴾ [1]
''آپ لوگوں سے کہہ دیجئے : اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ، اللہ یقینا سارے ہی گناہ معاف کردیتاہے کیونکہ وہ غفور رحیم ہے ''
اور صحیح حدیث قدسی میں بھی یہی بات آئی ہے

«يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً»[2]
''میں اپنے بندے کے ساتھ ہوں جو میرے متعلق وہ رکھتا ہے او رمیں اس کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرے اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر مجھے جماعت میں یاد کرے تو میں بھی اسے جماعت مین یاد کرتا ہوں اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہو تو میں ایک گز اس کے قریب ہوتاہوں او راگر وہ ایک گز قریب ہوتا ہے تو میں اس کے دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کرآتا ہوں ''
[1] الزمر:53
[2] صحیح بخاری:7405
 
Top