• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غم ،دکھ ،پریشانی اور مصیبتوں کا علاج

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
غم ،دکھ ،پریشانی اور مصیبتوں کا علاج
1
سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جسے بھی کبھی کوئی غم اورپریشانی پہنچے تو وہ یہ الفاظ کہے تو اللہ تعالی اس کے غم اور پریشانی کوختم کردے گا اور اس کی جگہ اسے خوشی نصیب کرے گا ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم اسے سیکھ نہ لیں تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کیوں نہیں بلکہ یہ ضروری ہے کہ جو انہیں سنے اس کو اس کا علم حاصل کرنا چاہۓ ) مسند احمد اور یہ حدیث صحیح ہے ۔
وہ الفاظ یہ ہیں ( اللهم اني عبدك وابن عبدك وابن امتك ناصيتي بيدك ماض في حكمك عدل في قضاؤك اسألك بكل اسم هو لك سميت به نفسك أوعلمته احدا من خلقك أو أنزلته في كتابك أو استأثرت به في علم الغيب عندك أن تجعل القرآن ربيع قلبي ونور صدري وجلاء حزني وذهاب همي)

الراوي: عبدالله بن مسعود المحدث: أحمد شاكر- المصدر: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 6/153
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
''اے اللہ میں تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا اورتیری بندی کا بیٹا ہوں میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ، تیرا حکم مجھ میں جاری ہے میرے بارہ میں تیرا فیصلہ عادلانہ ہے ، میں تجھ سے تیرے ہر اس خاص نام کے ساتھ سوال کرتا ہوں جوتو نے خود اپنا نام رکھا ہے یا اسے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کووہ سکھایا ہے ،یا اسے تو نے اپنے پاس علم غیب میں رکھنے کوترجیح دی ہے ، کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار میرے سینہ کا نوربنا ، اور میرے غم کو دور کرنے والا اورمیرے فکرکو لے جانے اور ختم کرنے والا بنا ''۔
شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ اس حدیث کے فوائد میں کہتے ہیں :
1- غم و فکر اللہ تعالی کی طرف سے ہیں اور انہیں دور کرنے کی قوت بھی اسی کے پاس ہے
2- توحید کا اقرار اور اس پر قیام رب کی رضامندی اور رحمت کا سبب ہے ۔
3- اللہ تعالی کے نام صرف نناونے ہی نہیں ہیں بلکہ ان کی تعداد صرف اللہ تعالی کو معلوم ہے
4- حصول مطلوب کا بہترین وسیلہ اللہ تعالی کے پاک نام ہیں ۔
5- قرآن کی تلاوت ، اس پر غور و فکر اور اس کا اہتمام فکر و پریشانی کا بہترین علاج ہے ۔
2
دکھی اور مصیبت میں مبتلا لوگوں کی مدد کرنا
صحیح مسلم< ذکر دعا و استغفار کا بیان
باب : تلاوت قرآن اور ذکر کے لئے اجتماع کی فضلیت کے بیان میں
جلد سوم:حدیث نمبر 2352
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس آدمی نے کسی مومن سے دنیا میں مصبیتوں کو دور کیا اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کی مصیبتوں کو دور کرے گا اور جس نے تنگ دست پر آسانی کی اللہ اس پر دنیا میں اور آخرت میں آسانی کرے گا اور اللہ اس بندے کی مدد میں ہوتے ہیں جو اپنے بھائی کی مدد میں لگا ہوتا ہے اور جو ایسے راستے پر چلا جس میں علم کی تلاش کرتا ہو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ذریعہ جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں اور جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے اور اس کی تعلیم میں مصروف ہوتے ہیں ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے اور رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ ان کا ذکر اپنے پاس موجود فرشتوں میں کرتے ہیں اور جس شخص کو اس کے اپنے اعمال نے پیچھے کردیا تو اسے اس کا نسب آگے نہیں بڑھا سکتا۔
3
اللہ کا ذکر
شیخ محمد صالح المجد لکھتے ہیں :
''پریشانی کا سب سے بہتر علاج اللہ تعالی کا ذکر ، اورنماز کی پاپندی اورفارغ رہنے سے پرہیز ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے ذکر کے متعلق کچھ اس طرح ارشاد فرمایا :
{ جولوگ ایمان والے ہیں ان کے دل اللہ تعالی کے ذکر سے اطمينان حاصل کرتے ہیں ، یاد رکھو اللہ تعالی کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے } الرعد ( 27 ) ۔
اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب بھی کسی معاملہ پیش آتا آپ نماز پڑھنی شروع کردیتے ۔ دیکھیں مسند احمد ، سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1319 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع میں اسے حسن قرار دیا ہے دیکھیں صحیح الجامع حدیث نمبر ( 4703 ) ۔
لیکن فراغت ایک ایسی بیماری ہے جو غلط اورردی قسم کے افکارات وخیالات کا دروازہ کھولتی ہے جس کے نیتجہ میں پریشانی وتنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اس لیے جب بھی آپ پریشانی اورتنگی محسوس کریں فوری طور پر وضوء کریں اورنماز پڑھنا شروع کردیں اور تلاوت قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول رہيں ۔
اوراسی طرح آپ نفع مند اعمال میں مشغول رہیں جن میں خاص کر صبح اورشام کے اذکار اوراسی طرح سونے کھانے پینے اورگھر میں داخل ہونے اورباہر نکلنے کے اذکار کا احتیاط کریں ۔
اللہ تعالی کی قضا وتقدیر پرایمان رکھنے والے مسلمان شخص کے لائق نہيں کہ وہ روزی یا پھر اولاد یا پھرعمومی طورپر مستقبل کے بارہ میں پریشان ہو کیونکہ یہ سب کچھ اس کی پیدائش سے بھی قبل لکھا جاچکا ہے ، لیکن ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ اپنی معصیت وگناہ کے بارہ میں پریشان ہو کہ اس نے اپنے رب کے حقوق میں کمی کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے ۔
اوراس کمی وکوتاہی کا علاج یہ ہے کہ جتنی جلدی ہوسکے ان گناہوں سے توبہ کرلی جائے اوران کے بدلے میں اعمال صالحہ میں جلدی کرنی چاہیے ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے اہل ایمان کے لیے اچھی زندگی کا وعدہ کیا ہے
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ جومرد وعورت بھی اعمال صالحہ کرے اوروہ مومن بھی ہو توہم اسے اچھی زندگی دیں گے اور جوکچھ وہ اعمال کرتے رہے ہیں ان کا بدلہ بھی اچھا اوربہتر دیں گے } النحل ( 97 ) ۔''
4
قرآن و سنت پر عمل
قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ ﴿١٢٣﴾
فرمایا، تم دونوں یہاں سےاتر جاؤ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو، اب تمہارے پاس کبھی میری طرف سے ہدایت پہنچے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وه بہکے گا نہ تکلیف میں پڑے گا (123)
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ﴿١٢٤﴾

اور (ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے (124)
5​
رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا میں اپنی دعا کا وقت درود کے لیے وقف کرتا ہوں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ تیرے سارے دکھوں اور غموں کے لیے کافی ہوگا اور تیرے گناہوں کی بخشش کا باعث ہوگا'' اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ فضل الصلاة علی النبی،للالبانی ،رقم الحدیث 7
 

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
مجھے بھی یہ دعاء بہت پسند ہے لیکن ضعیف ہے۔
مسند احمد ۔
وہ الفاظ یہ ہیں ( اللهم اني عبدك وابن عبدك وابن امتك ناصيتي بيدك ماض في حكمك عدل في قضاؤك اسألك بكل اسم هو لك سميت به نفسك أوعلمته احدا من خلقك أو أنزلته في كتابك أو استأثرت به في علم الغيب عندك أن تجعل القرآن ربيع قلبي ونور صدري وجلاء حزني وذهاب همي)
اس کی سند میں عبد الرحمن بن عبداللہ بن مسعود مدلس راوی ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں۔ (حسن المسلم ، صفحہ 108) فی تحقیق شیخ المحدث حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ)
 

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
5​
رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا میں اپنی دعا کا وقت درود کے لیے وقف کرتا ہوں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ تیرے سارے دکھوں اور غموں کے لیے کافی ہوگا اور تیرے گناہوں کی بخشش کا باعث ہوگا'' اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ فضل الصلاة علی النبی،للالبانی ،رقم الحدیث 7

اس کی سند ضعیف ہے۔
اسے عبدالوہاب بن علی السبکی نے طبقات الشافعیہ الکبریٰ (128/1) میں اسماعیل بن اسحاق القاضی کی سند سے ، ترمزی (2457) احمد بن حنبل (المسند 136/1) اور حاکم (513/1) وغیرہم نے سفیان ثوری کی سند سے روایت کیا ہے۔

سعید بن سلام العطار جمہور کے نزدیک سخت مجروح و متروک راوی ہے۔ لیکن قبیصہ بن عقبہ اور امام وکیع بن الجراح نے اس کی متابعت کر رکھی ہے۔
یہ سند دو وجہ سے ضیعف ہے ۔

اول: عبداللہ بن محمد بن عقیل قول راجح میں جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔
دوم: سفیان ثوری قول راجح میں طبقہ ثالثہ کے مدلس تھے اور یہ روایت عن سے ہے۔
شعب الایمان (1580) میں اس کیا ایک ضعیف شاہد بھی ہے۔


(فضائل درود و سلام از حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ، صفحہ 56)
 

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
مجھے بھی یہ دعاء بہت پسند ہے لیکن ضعیف ہے۔
مسند احمد ۔
وہ الفاظ یہ ہیں ( اللهم اني عبدك وابن عبدك وابن امتك ناصيتي بيدك ماض في حكمك عدل في قضاؤك اسألك بكل اسم هو لك سميت به نفسك أوعلمته احدا من خلقك أو أنزلته في كتابك أو استأثرت به في علم الغيب عندك أن تجعل القرآن ربيع قلبي ونور صدري وجلاء حزني وذهاب همي)
اس کی سند میں عبد الرحمن بن عبداللہ بن مسعود مدلس راوی ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں۔ (حسن المسلم ، صفحہ 108) فی تحقیق شیخ المحدث حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ)
بھائی اس حدیث پر علامہ البانی رحمہ اللہ نے بحث کی ہے آپ بھی پڑھ لیں :


''بحث الشيخ الألباني رحمه الله في الصحيحة حديث رقم :
199
- " ما أصاب أحدا قط هم و لا حزن ، فقال : اللهم إني عبدك و ابن عبدك و ابن أمتك
ناصيتي بيدك ماض في حكمك عدل في قضاؤك ، أسألك بكل اسم هو لك سميت به نفسك ،
أو علمته أحدا من خلقك ، أو أنزلته في كتابك ، أو استأثرت به في علم الغيب عندك
أن تجعل القرآن ربيع قلبي و نور صدري و جلاء حزني و ذهاب همي . إلا أذهب الله
همه و حزنه و أبدله مكانه فرجا . قال : فقيل : يا رسول الله ألا نتعلمها ؟ فقال
بلى ينبغي لمن سمعها أن يتعلمها " .
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 337 :
رواه أحمد ( 3712 ) و الحارث بن أبي أسامة في مسنده ( ص 251 من زوائده )
و أبو يعلى ( ق 156 / 1 ) و الطبراني في " الكبير " ( 3 / 74 / 1 ) و ابن حبان
في " صحيحه " ( 2372 ) و الحاكم ( 1 / 509 ) من طريق فضيل بن مرزوق حدثنا
أبو سلمة الجهني عن القاسم بن عبد الرحمن عن أبيه عن عبد الله قال :
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره .
و قال الحاكم :
" حديث صحيح على شرط مسلم ، إن سلم من إرسال عبد الرحمن بن عبد الله عن أبيه ،
فإنه مختلف في سماعه من أبيه " .
و تعقبه الذهبي بقوله :
" قلت : و أبو سلمة لا يدري من هو و لا رواية له في الكتب الستة " .
قلت : و أبو سلمة الجهني ترجمه الحافظ في " التعجيل " و قال :
" مجهول . قاله الحسيني . و قال مرة : لا يدري من هو . و هو كلام الذهبي في
" الميزان " ، و قد ذكره ابن حبان في " الثقات " ، و أخرج حديثه في " صحيحه " ،
و قرأت بخط الحافظ بن عبد الهادي : يحتمل أن يكون خالد بن سلمة .
قلت : و هو بعيد لأن خالدا مخزومي و هذا جهني " .
قلت : و ما استبعده الحافظ هو الصواب ، لما سيأتي ، و وافقه على ذلك الشيخ أحمد
شاكر رحمه الله تعالى في تعليقه على المسند ( 5 / 267 ) و أضاف إلى ذلك قوله :
" و أقرب منه عندي أن يكون هو " موسى بن عبد الله أو ابن عبد الجهني و يكنى أبا
سلمة ، فإنه من هذه الطبقة " .
قلت : و ما استقر به الشيخ هو الذي أجزم به بدليل ما ذكره ، مع ضميمة شيء آخر
و هو أن موسى الجهني قد روى حديثا آخر عن القاسم بن عبد الرحمن به ، و هو
الحديث الذي قبله فإذا ضمت إحدى الروايتين إلى الأخرى ينتج أن الراوي عن القاسم
هو موسى أبو سلمة الجهني ، و ليس في الرواة من اسمه موسى الجهني إلا موسى بن
عبد الله الجهني و هو الذي يكنى بأبي سلمة و هو ثقة من رجال مسلم ، و كأن
الحاكم رحمه الله أشار إلى هذه الحقيقة حين قال في الحديث " صحيح على شرط مسلم
... " فإن معنى ذلك أن رجاله رجال مسلم و منهم أبو سلمة الجهني و لا يمكن أن
يكون كذلك إلا إذا كان هو موسى بن عبد الله الجهني . فاغتنم هذا التحقيق فإنك
لا تراه في غير هذا الموضع . و الحمد لله على توفيقه .
بقي الكلام على الانقطاع الذي أشار إليه الحاكم ، و أقره الذهبي عليه ، و هو
قوله :
" إن سلم من إرسال عبد الرحمن بن عبد الله عن أبيه ... " .
قلت : هو سالم منه ، فقد ثبت سماعه منه بشهادة جماعة من الأئمة ، منهم سفيان
الثوري و شريك القاضي و ابن معين و البخاري و أبو حاتم ، و روى البخاري في
" التاريخ الصغير " بإسناد لا بأس به عن القاسم بن عبد الرحمن بن عبد الله
بن مسعود عن أبيه قال :
" لما حضر عبد الله الوفاة ، قال له ابنه عبد الرحمن : يا أبت أوصني ، قال :
ابك من خطيئتك " .
فلا عبرة بعد ذلك بقول من نفى سماعه منه ، لأنه لا حجة لديه على ذلك إلا عدم
العلم بالسماع ، و من علم حجة على من يعلم .
و الحديث قال الهيثمي في " المجمع " ( 10 / 136 ) :
" رواه أحمد و أبو يعلى و البزار و الطبراني و رجال أحمد رجال الصحيح غير
أبي سلمة الجهني و قد وثقه ابن حبان " !
قلت : و قد عرفت مما سبق من التحقيق أنه ثقة من رجال مسلم و أن اسمه موسى
بن عبد الله . و لم ينفرد بهذا الحديث بل تابعه عبد الرحمن بن إسحاق عن القاسم
بن عبد الله بن مسعود به ، لم يذكر عن أبيه .
أخرجه محمد بن الفضل بن غزوان الضبي في " كتاب الدعاء " ( ق 2 / 1 - 2 )
و ابن السني في " عمل اليوم و الليلة " ( 335 ) ، و عبد الرحمن ابن إسحاق
و هو أبو شيبة الواسطي متفق على تضعيفه .
ثم رأيت الحديث قد رواه محمد بن عبد الباقي الأنصاري في " ستة مجالس "
( ق 8 / 1 ) من طريق الإمام أحمد ، و قال مخرجه الحافظ محمد بن ناصر أبو الفضل
البغدادي :
" هذا حديث حسن عالي الإسناد ، و رجاله ثقات " .
و للحديث شاهد من حديث فياض عن عبد الله بن زبيد عن أبي موسى رضي الله عنه
قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره نحوه .
أخرجه ابن السني ( 343 ) بسند صحيح إلى فياض و هو ابن غزوان الضبي الكوفي قال
أحمد : ثقة . و شيخه عبد الله بن زبيد هو ابن الحارث اليامي الكوفي .
قال ابن أبي حاتم ( 2 / 2 / 62 ) عن أبيه :
" روى عنه الكوفيون " . و لم يذكر فيه جرحا و لا تعديلا .
قلت : فهو مستور ، و مثله يستشهد بحديثه إن شاء الله تعالى .
و الحديث قال الهيثمي :
" رواه الطبراني و فيه من لم أعرفه " .
قلت : و كأنه يعني عبد الله بن زبيد ، و عليه فكأنه لم يقف على ترجمته في
" الجرح و التعديل " ، و لو أنه لم يذكر فيه تعديلا أو تجريحا ، فإن العادة أن
لا يقال في مثله " لم أعرفه " ، كما هو معلوم عند المشتغلين بهذا العلم الشريف
.
( تنبيه ) وقع في هامش المجمع تعليقا على الحديث خطأ فاحش ، حيث جاء فيه :
" قلت ( القائل هو ابن حجر ) : هذا الحديث أخرجه أبو داود و الترمذي و النسائي
من رواية عبد الجليل بهذا الإسناد ، فلا وجه لاستدراكه . ابن حجر " .
و وجه الخطأ أن هذا التعليق ليس محله هذا الحديث ، بل هو الحديث الذي في
" المجمع " بعد هذا ، فإن هذا لم يروه أحد من أصحاب السنن المذكورين ، و ليس في
إسناده عبد الجليل ، بل هو في إسناده الحديث الآخر ، و هو عن أبي بكرة رضي الله
عنه ، فأخطأ الناسخ أو الطابع فربط التعليق بالحديث الأول ، و هو للآخر ، و خفي
ذلك على الشيخ أحمد شاكر رحمه الله ، فإنه بعد أن أشار لهذا الحديث و نقل قول
الهيثمي السابق في تخريج الحديث قال :
" و علق عليه الحافظ ابن حجر بخطه بهامش أصله ... " .
ثم ذكر كلام الحافظ المتقدم !
و جملة القول أن الحديث صحيح من رواية ابن مسعود وحده ، فكيف إذا انضم إليه
حديث أبي موسى رضي الله عنهما . و قد صححه شيخ الإسلام ابن تيمية و تلميذه
ابن القيم ، هذا و قد صرح بذلك في أكثر من كتاب من كتبه منها " شفاء العليل "
( ص 274 ) ، و أما ابن تيمية فلست أذكر الآن في أي كتاب أو رسالة ذكر ذلك .''
 

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
جزاک اللہ خیر ابو عکاشہ بھائی ۔ میرے خیال میں جس حصہ کو آپ نے سرخ رنگ سے نمایاں کیا ہے وہ اصل وضاحت ہے اگر ہو سکے تو اس کا ترجمعہ کر دیں تا کہ مجھ جیسوں کو معاملہ سمجھنے میں آسانی ہو سکے۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ۔
 

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
میں نے ایک بھائی (اللہ انہں جزائے خیر دے آمین) کی مدد سے اس کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور یہ بات سمجھ آئی ہے کہ۔

علامہ البانی کی ساری بحث عبدالرحمن بن عبداللہ بن مسعود کے اپنے والد سے سماع پر ہے
اس میں تدلیس کے موضوع پر ایک لفظ بھی نہیں ہے
اور اس روایت پر اعتراض یہی ہے کہ عبدالرحمن بن عبداللہ بن مسعود مدلس ہیں اور اس خآص روایت میں ان کے سماع کی تصریح موجود نہیں ہے

اعتراض تدلیس تھا۔
جواب مطلقا سماع پر ہے۔
بھائِی تدلیس تو ہوتی ہی تب ہے جب سماع ثابت ہو اگر سماع ہی ثابت نہ ہو اور عن بھی ہو تو منقطع ہوتی ہے۔

اگر میں غلط سمجھا ہوں تو مہربانی کر کہ بتا دیں۔ جزاک اللہ خیر۔
 

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
میں نے ایک بھائی (اللہ انہں جزائے خیر دے آمین) کی مدد سے اس کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور یہ بات سمجھ آئی ہے کہ۔

علامہ البانی کی ساری بحث عبدالرحمن بن عبداللہ بن مسعود کے اپنے والد سے سماع پر ہے
اس میں تدلیس کے موضوع پر ایک لفظ بھی نہیں ہے
اور اس روایت پر اعتراض یہی ہے کہ عبدالرحمن بن عبداللہ بن مسعود مدلس ہیں اور اس خآص روایت میں ان کے سماع کی تصریح موجود نہیں ہے

اعتراض تدلیس تھا۔
جواب مطلقا سماع پر ہے۔
بھائِی تدلیس تو ہوتی ہی تب ہے جب سماع ثابت ہو اگر سماع ہی ثابت نہ ہو اور عن بھی ہو تو منقطع ہوتی ہے۔

اگر میں غلط سمجھا ہوں تو مہربانی کر کہ بتا دیں۔ جزاک اللہ خیر۔
بھائی امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو امام مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اگر عبدالرحمن رحمہ اللہ کا اپنے والد عبداللہ بن عتبہ رحمہ اللہ) سے سماع ثابت ہوجائے
اور اسی چیز کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے
دوسری بات جہاں تک میں مجھے علم ہے مذکورہ بالا روای کانام عبدالرحمن بن عبداللہ بن عتبہ بن عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) ہے
اور دوسری بات علامہ البانی نے اس حدیث کی شاھد ایک دوسری حدیث ذکر کی ہے جو سیدنا ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
واللہ تعالٰی اعلم
 
Top