• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیرت کا جنازہ ہے ...ذرا دھوم سے نکلے

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
غیرت کا جنازہ ہے ...ذرا دھوم سے نکلے


ویڈیو
.
اور خوب دھوم سے نکل رہا ہے - کل ایک دوست نے بتایا کہ اسلام آباد میں ایک چائے والا ہے - اس کی تصویر فیس بک پر وائرل ہو گئی ، خوبی اس کی یہ نہیں کہ چائے بہت کمال کی بناتا ہے - کمال اس کا کسب نہیں ، اس کی شکل ٹہری - بجا کہ خوبصورت رہا ہو گا ، لیکن جس طرح اس کی قیمت لگ رہی ہے ، جیسے اس کی تعریفیں ہو رہی اور اس کے ساتھ سیلفیاں لی جا رہی ہیں - یوں گمان ہو رہا ہے کہ جیسے سدوم میں آ نکلے ہیں ..... بہت سے دوست "سدوم" کے بارے میں نہیں جانتے ، یہ لوط علیہ السلام کی قوم کے شہر کا نام تھا ، جس پر اللہ کا عذاب اس کے باسیوں کی بداعمالیوں کے سبب آیا تھا - اسی طرح ایک مصر کی قوم تھی کہ جس میں یوسف علیہ السلام جا اترے ، ان کے حسن کا جب چرچا ہوا تو زنان مصر نے اسی گھٹیا رویے کا مظاھرہ کیا تھا -

معروف صحافی جاوید چوہدری کی ویب سائٹ کے مطابق اس چائے والے کے ساتھ بیسیوں لڑکیاں سیلفی بنوا چکی ہیں ، اور اس کام میں نوجوان بھی پیچھے نہیں ہیں ، لیکن صحافی صاحب کی خبر کا کمال کا حصہ وہ ہے جس میں موصوف کے حسن کے تذکرے ہیں ، اس کی آنکھوں کی خوبصورتی کی تفصیل ہے .... میں پڑھ رہا تھا تو مجھے یوں لگا کہ میں آل سدوم کے شہر میں آ نکلا ہوں .... اور سوچ رہا تھا کہ کسی قوم کی غیرت کا جنازہ یوں ہی نکلا کرتا ہے -

چائے والے کو ماڈلنگ کی پیشکش ہو رہی ہے ، اور کھین فلموں اور ڈراموں میں لے جانے کی "آفرز" - ایک دوست نے اس پر بہت خوبصورت تبصرہ کیا کہ پہلے حلال کماتا تھا اور اب حرام کمائے گا - ابھی تک اس بات کی کوئی خبر نہیں آئ کہ کسی "صاحب" کو بھی یہ حسن پسند آیا ہے یا نہیں .... لیکن صاحب لوگوں کی بگڑی اولادوں اور بیٹیوں کو تو بہت پسند آیا ہے .....

افسوس من حیث القوم ہم بہت ہی گر گئے ہیں - ہم اللہ سے بس یہی دعا کرتے ہیں کہ چند افراد کے اعمال کا بدلہ قوم سے نہ لے - میں حیران ہوں کہ ابھی پچھلے دنوں خبر تھی کہ اسلام آباد میں شدید زلزلے کی پیشین گوئی ہے لیکن ان کے دل کس قدر مردہ ہو چکے ہیں کہ اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہی نہیں

.........ابوبکرقدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069


خوبصورتی کا مجسمہ دیکھنا ہو تو یہ شہید مجاہد مسلمان دیکھ لو. واللہ مردانہ وجاہت و رعنائی کا پیکر ہیں جن کے نقوش پہ حوریں بھی فریفتہ ہو گئی ہوں گی. چہروں سے ٹپکتا ایمان کا جلال بڑے بڑے خانوادوں، نوابوں اور شاہ زادوں کے چہرے پر بھی نہ ہوگا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
چائےوالا Chaiwala

نیلی آنکھوں والے چائےفروش کے پیچھے میڈیا ہاتھ دھو کر پڑ چکا ہے, جبکہ اس سے بھی زیادہ حسن وجمال کا مالک وہ کشمیری نوجوان وانی شھید کسی کو نظر نہ آیا!!
دراصل چائےوالے کو تو میڈیا بگاڑنا چاہتا ہے جبکہ وانی تو اللہ کے فضل سے بہت سے بھٹکے ہوے لوگوں کو راہِ راست پہ لانے کا ذریعہ بن چکا تھا. میڈیا میں اس کی پذیرائی کا مطلب تھا کہ شاید میڈیا بھی اچھی چیزیں دکھانے لگا ہے، جبکہ میڈیا کے بارے میں ایسا سوچنا بھی پاپ ہے!!
چائے والے کا دماغ اتنا خراب کر دیا گیا ہے کہ جسے انگریزی کی اے بی سی بھی نہیں آتی, وہ خواب دیکھنے لگا ہے کہ اسے اگر ہالی ووڈ میں کام ملا تو وہ بخوشی قبول کرے گا.
بقول عمار چوہدری اس سے میڈیا نے ہر طرح کا الٹا سیدھا سوال کیا لیکن یہ سوال کسی نے بھی نہیں پوچھا کہ کیا تم نے پاکستانی قوم سے زیادہ کسی کو فارغ بھی پایا ہے کہ جو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تمہاری آنکھوں پہ مری جا رہی ہے. حیرت کی بات ہے کہ اس کی دیوانوں میں اکثریت لڑکیوں کی ہے!!

ھاشم یزمانی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
14656370_1319656271401809_6736963452065120271_n.jpg


☕ اے چائے والے میر ی بات سن !


✋ آپ اللہ کے نبی یوسف علیہ السلام سے زیادہ خوبصورت نہیں!
لیکن ان کا قصہ یاد کیجئے جب عزیز مصرکی بیوی نے ان کو ورغلانے کی کوشش کی تو انہوں نے جواب میں کہا:

{ مَعَاذَ اللّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الظَّالِمُون }


اللہ کی پناہ! وہ میرا رب، مجھے اس نے بہت اچھی طرح رکھا ہے۔ بے انصافی کرنے والوں کا بھلا نہیں ہوتا ۔[يوسف:23]

-------------------------------
یہ لوگ آپ کو غلط راستے کی طرف بلا رہے ہیں ان کی چال کو سمجھیں اللہ تعالی نے ان جیسے لوگوں کے بارے میں فرمایا:

{ وَاللّهُ يُرِيدُ أَن يَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَيُرِيدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أَن تَمِيلُواْ مَيْلاً عَظِيمًا }

اور اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول کرے اور جو لوگ خواہشات کے پیرو ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم اس سے بہت دور ہٹ جاؤ۔ [النساء:27]

-------------------------------
آپ جیسے چائے بیچنے والے ان لوگوں سے ہر لحاظ سے بہتر ہیں جو فحاشی و عریانیت پھیلا کر دنیا وآخرت کو تباہ کررہے ہیں!
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
وہ آنکھیں بھی نیلی تھیں –


آصف محمود

چائے والے ایک پشتون کی تصویر زیر بحث ہے اور اب میڈیا میں اس کی نیلی آنکھوں پر غزلیں کہی جا رہی ہیں۔ ہردفعہ جب اس کی وجاہت اور خوبصورتی پر کوئی مصرعہ اٹھاتا ہے، میرے اندر کچھ ٹوٹ سا جاتا ہے اور ایک آواز لہو رلا دیتی ہے: ’ زماں کونترے زماں کونترے‘۔

یہ اسلام آباد کا ڈی چوک تھا۔ ڈرون حملوں کے متاثرین نے یہاں ایک کیمپ لگا رکھا تھا۔ میں اس کیمپ سے اپنا ٹاک شو ریکارڈ کرنے وہاں پہنچا تو ایک گاڑی سے محمد علی درانی نکلے اور اظہارِ یک جہتی کے لیے ان بچوں کے بوسے لینے لگ گئے جن کے جسمانی اعضاء ڈرون حملوں میں ضائع ہو چکے تھے۔ میں نے ایک بچے سے، جس کی دونوں ٹانگیں اور ایک آنکھ ضائع ہو چکی تھی، پوچھا تم اس آدمی کو جانتے ہو؟ اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ میں نے وزیرستان کے عبدالکریم سے کہا کہ اس بچے کو بتاؤ کہ یہ مولوی صاحب پرویز مشرف کے وزیر تھے۔ درانی صاحب کی التجائیہ نظروں کے باوجود عبدالکریم نے پشتو میں بچے کو ساری صورت حال بتا دی۔ اس بچے نے جو جوب دیا وہ سن کر ہم سکتے کے عالم میں کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ بچے نے کہا:

”میں انہیں کسی اسلامی جماعت کا رہنما سمجھ رہا تھا، یہ مشرف کے وزیر نکلے، لیکن کوئی بات نہیں، یہاں یہ ہمارے مہمان ہیں۔“

میں نے بہت سے لوگوں سے پختونوں کی مہمان نوازی کا سن رکھا تھا لیکن یہ اتنے زیادہ اعلی ظرف کے حامل ہوں گے، اس کا میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ آپ ذرا تصور کر کے دیکھیے ایک چودہ پندرہ سال کا بچہ، جس کی دونوں ٹانگیں کٹ چکی ہوں، ایک آنکھ ضائع ہو چکی ہو، اتنی اعلی قدروں کا مظاہرہ کرے۔ میں کتنی ہی دیر حیرت سے اسے تکتا رہا۔

درانی چلے گئے تو میں نے ریکارڈنگ شروع کر دی۔ ریکارڈنگ کے دوران میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹی سی بچی مسلسل بولے چلے جا رہی تھی۔ وہ عبد الکریم کی قمیض پکڑ کر کھینچتی اور کہتی ”ذماں کونترے ذماں کونترے“۔ میں نے کیمپ کے مہتمم اور مترجم عبدالکریم سے پوچھا یہ بچی کیا کہنا چاہ رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایک ڈرون حملے میں اس کے مکان کا ایک حصہ جزوی طور پر تباہ ہو گیا ہے۔اس حصے میں انہوں نے کبوتر رکھے ہوئے تھے وہ سب مر گئے۔اس لئے یہ مجھے کہہ رہی ہے کہ آپ کو بتاﺅں کہ اس کے کبوتر بھی مار دیے گئے۔’زماں کونترے زماں کونترے‘( میرے کبوتر، میرے کبوتر)۔ میں نے اس معصوم سی بیٹی کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ اسے اردا نہیں آتی تھی اور میں پشتو نہیں جانتا تھا۔ لیکن اس کی آنکھیں بول رہی تھیں اور میں آنکھوں کے سارے شکوے سمجھ رہا تھا۔ مجھے عباس تابش یاد آ گئے؛

”اس کو کیا حق ہے یہاں بارود کی بارش کرے
اس کو کیا حق ہے مرے رنگلے کبوتر مار دے“

پروگرام تو ختم ہو گیا لیکن ایک عرصہ اس بچی کی آواز میرے کانوں میں گونجتی رہی”زماں کونترے ، زماں کونترے“۔

مجھے صرف اتنا کہنا ہے ، اس بچی کی معصوم آنکھیں بھی بہت نیلی تھیں۔ میں بتانا چاہتا ہوں، جس بچے کی دونوں ٹانگیں کٹ چکی تھیں، اس کی آنکھ میں جھیلوں کے عکس تھے، پشتونوں کے خوبصورت بچے اور کسی پری دیس سے اتری دیومالائی کشش والی کتنی ہی معصوم بیٹیاں ڈرون حملوں میں مار دی گئیں۔ کیا کوئی جانتا ہے ان میں سے کتنی آنکھیں جھیلوں جیسی گہری اور آسمان جیسی نیلگوں تھیں، کتنی پلکوں میں قوس قزح کے رنگ تھے، کتنے معصوم اس حال میں مار دیے گئے کہ ان کے ہونٹوں سے ماں کے دودھ کی خوشبو بھی، ابھی جدا نہیں ہوئی تھی۔

نیلی آنکھوں کے بچاریو! کبھی اس قتل گاہ میں بند ہونے والی معصوم آنکھوں کو بھی دیکھنا، وہ آنکھیں بھی نیلی تھیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میری آنکھیں خریدو گے؟

سید امجد حسین بخاری

پير 24 اکتوبر 2016


634817-eyes-1477304628-592-640x480.jpg
اے اہل پاکستان! اگر چائے والے کی مخمور آنکھوں سے فرصت ملے تو مظلوم کشمیری بھائیوں اور بہنوں کی آنکھوں کی طرف بھی توجہ کرنا۔
خمار سے بھرپور نیلی آنکھیں، ان آنکھوں میں کیا تھا؟ ہر مرد و زن اس کے خمار میں مبتلا تھا۔ آنکھوں کا دیوانہ میں بھی ہوں ان آنکھوں میں حُسن تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ زوم کرکے دیکھا، ملٹی میڈیا پر بڑی اسکرین کے ذریعے دیکھا۔ ان آنکھوں میں مجھے شوخی دکھائی نہیں دی، وہ ادائیں نظر نہ آئیں۔ وہ اشارے بھی سمجھ نہیں آئے جو پوری دنیا کی نازنینوں، حسیناؤں اور دوشیزاؤں نے ایک نگاہ میں پہچان لئے۔ جی میں انہی آنکھوں کی بات کررہا ہوں جو اسلام آباد کے ایک ہوٹل پر چند ایام قبل تو گاہگوں کی راہ تکتی تھیں لیکن آج پاکستان و ہندوستان سمیت دنیا بھر کی خواتین ان آنکھوں کو تکنا چاہتی ہیں۔

مجھے ان آنکھوں میں حیا نظر آئی، رزق حلال کی طلب دکھائی دی، اللہ کریم کی نعمتوں کا شکرانہ جھلکتا محسوس ہوا لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی نگاہوں نے ان آنکھوں کو کھوج لیا۔ انہیں ان آنکھوں کو بیچنے کا ہُنر بخوبی آتا ہے۔ مگر مجھے انہی آنکھوں کے بھارت میں تذکرے نے پریشان کردیا۔ جی ہاں اُسی بھارت میں ان آنکھوں کا تذکرہ جس کی فوج نے ہزاروں نوجوان، بزرگوں، عورتوں اور بچوں کو اپنی پیلٹ گنوں کے ذریعے بینائی سے محروم کردیا۔ پاکستانی قوم ان بینائی سے محروم افراد کی آنکھوں کی آواز بن رہی تھی کہ اچانک پاکستان سے ہی ایک نیلی آنکھوں والا خوبرو نوجوان سوشل میڈیا کی زینت بنا۔ پاکستان سے زیادہ اس کی پذیرائی بھارت میں ہوئی۔ اخبارات، میگزینز اور ٹی وی چینلز نے اس کی تعریفوں میں آسمان و زمین ایک کردئیے۔ میگزینز کے مرکزی صفحے اسی نوجوان کی تصویروں سے مزین ہونے لگے۔

ایک جانب اس نوجوان کی شہرت کی وجہ سے مجھ جیسا واجبی شکل و صورت کا حامل نوجوان حسد میں مبتلا ہو رہا تھا تو دوسری جانب دوشیزائیں اس پر فریفتہ ہوئی جا رہی تھیں۔ اسی کشمکش کے دوران ایک دوست نے مجھے پیغام بھیجا۔

’’اے اہل پاکستان! اگر چائے والے کی مخمور آنکھوں سے فرصت ملے تو مظلوم کشمیری بھائیوں اور بہنوں کی آنکھوں کی طرف بھی توجہ کرنا کہ جن کی بینائی پیلٹ گن کے چھروں سے ضائع ہوگئی ہے‘‘۔

اس دوست کے پیغام نے میرے رونگٹے کھڑے کردئیے۔ میں سوچنے لگا کہ کشمیر کے نوجوانوں کی بینائی سے اس نوجوان کی آنکھوں کا کیا تعلق؟ کشمیر میں مظالم ہو رہے ہیں، ساری دنیا جانتی ہے مگر اس نوجوان کی شہرت کا کشمیریوں کی جدوجہد سے کیا تعلق؟ اس دوران ہندوستان کے ایک مشہور انگریزی روزنامے کی شہہ سرخی میری نظروں سے گزری۔ اخبار نے پاکستانی وجیہہ نوجوان کو نیا ایٹم بم قرار دیا۔ بھارتی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا صارفین بھی بڑی تعداد میں اس کی تعریفوں میں مصروف و مگن نظر آئے۔ جی ہاں اس نوجوان کی تصویر کو اتنا زیادہ شیئر کیا گیا کہ کشمیر کے معصوم بچے جن کی آنکھیں ضائع ہوگئیں، جو دنیا کے رنگوں، بہار کے موسموں، چنار کے پتوں کے نظاروں سے محروم ہوگئے۔ انہیں ہم نے بھلا دیا۔

جی ہاں نیلی آنکھوں کی چمک نے جلتے چناروں کے سائے میں پیلٹ گن کا نشانہ بننے والے آنکھوں کے سپنوں کو دھندلا دیا۔ کشمیری نوجوانوں کی ایک سو ایام پر مشتمل جدوجہد انسٹاگرام پر کی گئی ایک پوسٹ نے تاریک راہوں میں دھکیل دی۔ ون پاؤنڈ فش کے ذریعے پاکستانی میڈیا پر شہرت حاصل کرنے والا لاہور میں آج نوکری کی خاطر دفاتر کے چکر لگا لگا کر مایوس ہوچکا ہے۔ کیا یہی حال اس نوجوان کا ہونے جارہا ہے جو اپنی تصویر وائرل ہونے سے قبل 5 سو یومیہ رزق حلال کما رہا تھا؟ کیونکہ اِس شہرت ملنے کے بعد یہ عین ممکن ہے کہ اُس کی خواہشات شاید یومیہ 5 سو روپے سے پوری نہ ہوسکیں۔ خیر میرا اختلاف اس نوجوان سے قطعاً نہیں، بلکہ اختلاف تو اُس طرز عمل سے ہے جس طرح پہاڑ پر چڑھایا گیا۔
اللہ جسے چاہے عزت دیتا ہے، رات و رات امیر بننے کے سپنے دیکھنے والے اب راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پرواز کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں لیکن ایک سوال میرے ذہن میں کھٹک رہا ہے کہ کیا بھارتی میڈیا نے کشمیر میں اپنی جگ ہنسائی سے بچنے کے لئے پاکستانی نوجوان کو مشہور کیا اور ساری پاکستانی قوم کی ترجیحات بدل کر رکھ دیں؟ پاکستانی نوجوان مرد و خواتین اپنے ملک کی تعریف سمجھ کر دھڑا دھڑ تصویر شئیر کرتے رہے۔ لیکن اس ساری مہم کے دوران نقصان ہوا تو ان معصوم آنکھوں کا، جن کو رستہ دکھانے کے لئے ہم نے اپنے دست و بازو پیش کئے تھے۔ جن کے لئے دنیا کی خوبصورتی اور رنگینی پاکستان کی صورت دکھائی دے رہے تھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک بار پھر مظلوم کشمیریوں کی آواز بن جائیں اور اِس حوالے سے پوری دنیا کے سامنے بھارت کا چہرہ بے نقاب کرنے کی اپنی مہم ایک بار پھر شروع کریں۔

گلیمر اور افسانوی دنیا کی تاریکیوں میں جانے کے بجائے حقیقی دنیا کا سامنا کریں۔ نان ایشوز پر اپنی صلاحیتیں صرف کرنے کے بجائے ملک کی سالمیت اور وقار کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ جب یہ تحریر تکمیل کے مراحل میں تھی تو مقبوضہ کشمیر سے میری کزن مصباح کا فیس بک پر پیغام موصول ہوا، جو کہ مشہور نظم کا ایک حصہ تھا۔

’’میری آنکھیں خریدو گے
سنو لوگو!
بڑی محبوب ہیں مجھ کو
میری یہ نیم تر آنکھیں
مگر اب بیچتا ہوں کہ
مجھے ایک خواب کا تاوان بھرنا ہے‘‘

اس پیغام کے بعد میں یہ بات سوچ رہا ہوں کہ آخر کب تک کشمیری اپنے خوابوں کا تاوان بھرتے رہیں گے۔ کب تک پیلٹ گنیں ان سے ان کی آنکھیں چھینتی رہیں گی؟ کب تک ہم ان کی آہوں، سسکیوں اور آنکھوں سے بہتے موتیوں کو نظر انداز کرتے رہیں گے؟ کب تک ایسا چلتا رہے گا؟ کب تک خون سے تر آنکھوں کو نظر انداز کرکے ہم نیلی آنکھوں کے حصار میں قید رہیں گے؟

http://www.express.pk/story/634817/
 
Top