• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیر اللہ کی قسم

شمولیت
جون 01، 2017
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
20
غیراللہ کی قسم!
تحریر : غلام مصطفی ظہیر امن پوری
اللہ کی قسم کھانا اس کی تعظیم ہے۔جب آپ کسی اور کی قسم کھاتے ہیں تو اسے اللہ کی تعظیم میں شریک بنا لیتے ہیں، یہ توحید کے منافی ہے۔اس لئے اسے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔نیز یہ حرام ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے۔
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ(م :463ھ)لکھتے ہیں:
لَا یَجُوزُ الْحَلِفُ بِغَیْرِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ فِی شَیْء ٍ مِنَ الْأَشْیَاء ِ وَلَا عَلَی حَالٍ مِنَ الْأَحْوَالِ وَہَذَا أَمْرٌ مُجْتَمَعٌ عَلَیْہِ .
'' کسی بھی صورت یا کسی بھی حال میں غیر اللہ کی قسم اٹھانا جائز نہیں، اس پر اجماع ہے۔''
(التّمہید لما فی المؤطّا من المعاني والأسانید :336/4)
حافظ ابن حجررحمہ اللہ(852ھ)لکھتے ہیں:
قَالَ الْعُلَمَاء ُ السِّرُّ فِی النَّہْیِ عَنِ الْحَلِفِ بِغَیْرِ اللَّہِ أَنَّ الْحَلِفَ بِالشَّیْءِ یَقْتَضِی تَعْظِیمَہُ وَالْعَظَمَۃُ فِی الْحَقِیقَۃِ إِنَّمَا ہِیَ لِلَّہِ وَحْدَہُ .
''اہل علم کہتے ہیں کہ کسی چیز کی قسم اٹھانااس کی تعظیم اور عظمت کا اقرار ہے اور حقیقی عظمت صرف اللہ کے لئے ہے، اس لئے غیراللہ کی قسم کھانے سے منع کیا گیا ہے۔''
(فتح الباری :351/11 )
1 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تحلفوا بآبائکم، ولا بأمہاتکم، ولا بالأنداد، ولا تحلفوا إلا باللہ، ولا تحلفوا باللہ إلا وأنتم صادقون .
''اپنے آباء واجدادکی قسم اٹھاؤ ،نہ اپنی ماؤں کی اور نہ ہی غیر اللہ کی ، صرف اللہ کی قسم اٹھائیں، اور اللہ کی قسم بھی تب اٹھائیں جب آپ سچے ہوں۔''
(سنن أَبي داوٗد : 3248، سنن النّسائي : 380، السّنن الکبریٰ للبیہقي : 29/10، وسندہ، حسنٌ )
2 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کی قسم کھائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ألا إن اللہ ینہاکم أن تحلفوا بآبائکم، من کان حالفا فلیحلف باللہ أو لیصمت .
''خبردار ! اللہ نے آپ کو آباء واجدادکی قسمیں اٹھانے سے منع کیا ہے، جسے قسم اٹھانی ہو اللہ کی قسم اٹھائے۔''
(صحیح البخاری : 6646، صحیح مسلم : 1646)
3 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
إن اللہ ینہاکم أن تحلفوا بآبائکم قال عمر: فواللہ ما حلفت بہا منذ سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ذاکرا ولا آثرا .
''اللہ نے آباء واجدادکی قسم اٹھانے سے منع کیا ہے، عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا ہے ، تب سے میں نے ماں باپ کی قسم نہیں اٹھائی، جان بوجھ کر ، نہ نقل کرتے ہوئے۔''
(صحیح البخاری : 6648،صحیح مسلم : 1642)
4 سیدنا عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَحْلِفُوا بِالطَّوَاغِیت، وَلَا بِآبَائِکُمْ .
''ظاغوت اور آباء واجداد کی قسم مت کھاؤ۔''
(صحیح مسلم : 1648)
5 سیدہ قتیلہ بنت صفیہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ ایک یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا :
إِنَّکُمْ تُنَدِّدُونَ، وَإِنَّکُمْ تُشْرِکُونَ تَقُولُونَ: مَا شَاء َ اللَّہُ وَشِئْتَ، وَتَقُولُونَ: وَالْکَعْبَۃِ، " فَأَمَرَہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادُوا أَنْ یَحْلِفُوا أَنْ یَقُولُوا: وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ، وَیَقُولُونَ: مَا شَاء َ اللَّہُ، ثُمَّ شِئْتَ .
''آپ غیر اللہ کی پکار کرتے ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں، آپ کہتے ہیں، جو اللہ نے چاہا اور جو آپ نے چاہا، آپ کہتے ہیں ،کعبہ کی قسم ! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ قسم اٹھانے کا ارادہ ہو تو یوں کہیں ، کعبہ کے رب کی قسم ! صحابہ اس کے بعد یوں کہتے تھے کہ جو اللہ نے چاہا ،پھر آپ نے چاہا۔''
(مسند الامام احمد : 371/6، سنن النسائی : 3773، وسندہ حسن)
6 سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من حلف بالأمانۃ فلیس منا .
''جس نے امانت کی قسم اٹھائی وہ ہم میں سے نہیں۔''
(مسند الامام احمد : 352/5، سنن ابی داود : 3253، المستدرک علی الصحیحین : 398، وسندہ صحیح)
اس حدیث کو اما م ابن حبان رحمہ اللہ( (4363نے صحیح کہا ہے۔امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے ''صحیح '' کہا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔حافظ نووی رحمہ اللہ اور حافظ منذری رحمہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔(ریاض الصالحین :493/1 ، الترغیب والترہیب :82/3)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رجال احمد رجال الصحیح ، خلاا لولید بن ثعلبۃ وہو ثقۃ.
''ولید بن ثعلبہ کے علاوہ اس کے سبھی راوی صحیح والے ہیں اور ولید بن ثعلبہ ثقہ ہیں۔''

(مجمع الزوائد :332/4)
امانت اللہ کی صفت نہیں ،بل کہ مخلوق ہے۔ثابت ہوا مخلوق کی قسم کھانا ممنوع ہے۔
7 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من حلف فقال فی حلفہ: واللات والعزی، فلیقل: لا إلہ إلا اللہ.
''جس نے قسم یوں اٹھائی، لات و عزیٰ کی قسم! تو لاالہ الا اللہ پڑھ لے ۔''
(صحیح البخاری : 4860، صحیح مسلم : 1648)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ( 774 ھ)فرماتے ہیں:
ہَذَا مَحْمُولٌ عَلَی مَنْ سَبَقَ لِسَانُہُ فِی ذَلِکَ، کَمَا کَانَتْ أَلْسِنَتُہُمْ قَدِ اعْتَادَتْہُ فِی زَمَنِ الْجَاہِلِیَّۃِ .
''زمانہ جاہلیت میں چوں کہ ایسی قسمیں عادت بن چکی تھیں ، اس لئے فرمایا گیا کہ حسب عادت اگر ایسا کلمہ زبان سے نکل جائے تو لاالہ الا اللہ پڑھ لیں۔''
(تفسیر ابن کثیر : 4/30سورۃ النجم : 19)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ( (748 فرماتے ہیں:
وَقد کَانَ فِی الصَّحَابَۃ من ہُوَ حَدِیث عہد بِالْحلف بہَا قبل إِسْلَامہ فَرُبمَا سبق لِسَانہ إِلَی الْحلف بہَا فَأمرہ النَّبِی صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم أَن یُبَادر بقول لَا إِلَہ إِلَّا اللہ لیکفر بذلک مَا سبق إِلَی لِسَانہ .
''وہ لوگ چوں کہ ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، اس لئے بسا اوقات ان کے زبان سے ایسی قسم نکل جاتی تھی، اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاکہ فورا لاالہ الا اللہ کہہ دیں ،سبقت لسانی کا کفارہ بن جائے گا۔''
(الکبائر للذہبی : ص ، 101)
علامہ سندھی حنفی لکھتے ہیں:
أَیْ بِلَا قَصْدٍ بَلْ عَلَی طَرِیقِ جَرْیِ الْعَادَۃِ بَیْنَہُمْ لِأَنَّہُمْ کَانُوا قَرِیبِی عَہْدٍ بِالْجَاہِلِیَّۃِ (لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ) اسْتِدْرَاکًا لِمَا فَاتَہُ مِنْ تَعْظِیمِ اللَّہِ تَعَالَی فِی مَحَلِّہِ وَنَفْیًا لِمَا تَعَاطَی مِنْ تَعْظِیمِ الْأَصْنَامِ صُورَۃً وَأَمَّا مَنْ قَصَدَ الْحَلِفَ بِالْأَصْنَامِ تَعْظِیمًا لَہَا فَہُوَ کَافِرٌ نَعُوذُ بِاللَّہِ.
''اس سے مراد وہ قسم ہے جو بلا ارادہ منہ سے نکل جائے ، وہ لوگ چوں کہ نئے نئے مسلمان تھے ،اس لئے انہیں حکم ہوا کہ ایسی صورت میں فورا لا الہ الا اللہ پڑھ لیں ، یہ بتوں کی اس تعظیم کا کفارہ ہو جائے گا ،جو بلا ارادہ منہ سے نکل گئی اور اللہ کی تعظیم کا اقرار ہو جائے گا جو پہلے نہیں ہو سکا۔رہا جان بوجھ کر غیر اللہ کی قسم اٹھانے کا مسئلہ تواللہ کی پناہ !یہ کفر ہے۔''
(حاشیۃ السندھی علی النسائی :1/645)
8 سعد بن عبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، فَقُمْتُ وَتَرَکْتُ رَجُلًا عِنْدَہُ مِنْ کِنْدَۃَ، فَأَتَیْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ، قَالَ: فَجَاء َ الْکِنْدِیُّ فَزِعًا فَقَالَ: جَاء َ ابْنَ عُمَرَ رَجُلٌ فَقَالَ: أَحْلِفُ بِالْکَعْبَۃِ، فَقَالَ: لَا، وَلَکِنِ احْلِفْ بِرَبِّ الْکَعْبَۃِ، فَإِنَّ عُمَرَ کَانَ یَحْلِفُ بِأَبِیہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تَحْلِفْ بِأَبِیکَ، فَإِنَّہُ مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللَّہِ فَقَدْ أَشْرَکَ .
''میں اور کندہ قبیلے کا ایک شخص سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکی محفل میں تھے ، میں وہاں سے اٹھ کر سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی مجلس میں آگیا ، اتنے میں کندی بھی چلا آیا ،وہ ڈرا ہوا تھا ،کہنے لگا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکے پاس ایک شخص نے آکر کہا کہ میں کعبہ کی قسم کھاتا ہوں ، عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کعبہ کی نہیں ،رب کعبہ کی قسم کھاؤ ۔عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کی قسم کھائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:باپ کی قسم نہ کھائیے ، غیر اللہ کی قسم شرک ہے۔''
(مسند الامام احمد : 2/87، 87، 125، السنن الکبری للبیہقی :10/29 وسندہ صحیح ، واخرجہ احمد :2/125، وابو داود :3251، والترمذی : 1535

امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
حَدِیثُ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ: مَنْ قَالَ فِی حَلِفِہِ وَاللَّاتِ، وَالعُزَّی فَلْیَقُلْ: لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ :ہَذَا مِثْلُ مَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ: إِنَّ الرِّیَاء َ شِرْکٌ .
''سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر لات و عزی کی قسم کھا بیٹھو تو فورالا الہ الا اللہ پڑ ھ لو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریا کو شرک فرمایا ، ان دونوں احادیث کا مطلب ایک ہی ہے۔''
(سنن الترمذی تحت حدیث : 1535)
قاسم بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِکُمْ وَلَا بِالطَّوَاغِیتِ .
''طاغوت کی اور آباء کی قسم نہ اٹھائیں۔''
(مصنف ابن ابی شیبۃ : الجزء الملحق : ص ، 89، وسندہ صحیح)
امام طحاوی رحمہ اللہ( (321 فرماتے ہیں:
وَلَکِنَّہُ أُرِیدَ أَنْ لَا یَنْبَغِی أَنْ یُحْلَفَ بِغَیْرِ اللہِ تَعَالَی , وَکَانَ مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللہِ فَقَدْ جَعَلَ مَنْ حَلَفَ بِہِ کَمَا اللہِ تَعَالَی مَحْلُوفًا بِہِ , وَکَانَ بِذَلِکَ قَدْ جَعَلَ مَنْ حَلَفَ بِہِ أَوْ مَا حَلَفَ بِہِ شَرِیکًا فِیمَا یَحْلِفُ بِہِ، وَذَلِکَ عَظِیمٌ فَجُعِلَ مُشْرِکًا بِذَلِکَ شِرْکًا غَیْرَ الشِّرْکِ الَّذِی یَکُونُ بِہِ کَافِرًا بِاللہِ تَعَالَی خَارِجًا مِنَ الْإِسْلَامِ .
''مراد یہ ہے کہ غیر اللہ کی قسم کھانادرست نہیں ، غیر اللہ کی قسم کھانے والا ،اسے قسم میں اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے۔تو گویا غیر اللہ کی قسم کھانے والے نے شرک کا ارتکاب کیا ،لیکن یہ شرک وہ نہیں ، جس سے انسان دائرہ اسلام سے خار ج ہو جائے۔''
(مشکل الاثار للطحاوی : 2/297۔298)
مطلب یہ کہ غیر اللہ کی قسم اٹھانے والا، شرک اصغر کا مرتکب ہے۔جو کہ حرام و ممنوع ہے۔اس سے انسان اسلام سے خارج نہیں ہوتا کہ یہ اعتقادی نہیں بل کہ عملی شرک ہے۔
علامہ ابن العربی مالکی رحمہ اللہ(543)کہتے ہیں:
اراد بقولہ : قد کفر او اشرک ، شرک الاعمال وکفرہا ولیس المراد شرک الاعتقاد ولاکفرۃ .
''یہا ں اعمال کا کفر و شرک مراد ہے ،نہ کہ اعتقاد کا۔''
(عارضۃ الاحوذی :7/19)
ابن قدامہ رحمہ اللہ(620ھ)فرماتے ہیں:
لِأَنَّ الْحَلِفَ بِغَیْرِ اللَّہِ سَیِّئَۃٌ، وَالْحَسَنَۃُ تَمْحُو السَّیِّئَۃَ، وَقَدْ قَالَ اللَّہُ تَعَالَی: (إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ) وَقَالَ النَّبِیُّ - صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ -: إذَا عَمِلْت سَیِّئَۃً، فَأَتْبِعْہَا حَسَنَۃً تَمْحُہَا . وَلِأَنَّ مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللَّہِ، فَقَدْ عَظَّمَ غَیْرَ اللَّہِ تَعْظِیمًا یُشْبِہُ تَعْظِیمَ الرَّبِّ تَبَارَکَ وَتَعَالَی، وَلِہَذَا سُمِّیَ شِرْکًا؛ لِکَوْنِہِ أَشْرَکَ غَیْرَ اللَّہِ مَعَ اللَّہِ - تَعَالَی - فِی تَعْظِیمِہِ بِالْقَسَمِ بِہِ، فَیَقُولُ: لَا إلَہَ إلَّا اللَّہُ. تَوْحِیدًا لِلَّہِ - تَعَالَی، وَبَرَاء َۃً مِنْ الشِّرْکِ.
''غیر اللہ کی قسم گناہ ہے اور نیکی گناہ کو مٹا دیتی ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے ، ''نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''گناہ ہو جائے تو ساتھ نیکی بھی کر لیں گناہ مٹ جائے گا۔''چوں کہ غیر اللہ کی قسم کھانے والا ، اللہ کی تعظیم میں اسے شریک بنا دیتا ہے۔اسی لئے غیر اللہ کی قسم کو شرک کہا گیا ہے۔یہ قسم کھا بیٹھیں تو فورا لا الہ الا اللہ کہہ دیں ، شرک سے براء ت کا اعلان ہو جائے گا۔''
(المغنی :13/438)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ(728ھ) فرماتے ہیں:
وَذَکَرُوا إجْمَاعَ الصَّحَابَۃِ عَلَی ذَلِکَ بَلْ ذَلِکَ شِرْکٌ مَنْہِیٌّ عَنْہُ.
''غیر اللہ کی قسم کے ناجائز ہونے پر صحابہ کا اجماع ہے، بل کہ یہ ممنوع شرک ہے۔''
(مجموع الفتاوی : 1/290)
نیز فرماتے ہیں:
اتَّفَقَ الْعُلَمَاء ُ عَلَی أَنَّہُ لَیْسَ لِأَحَدِ أَنْ یَحْلِفَ بِمَخْلُوقِ کَالْکَعْبَۃِ وَنَحْوِہَا.
''علماء کا اتفاق ہے کہ مخلوق مثلا کعبہ وغیر ہ کی قسم کھانا جائز نہیں۔''
(مجموع الفتاوی :3/398)
تنبیہ بلیغ:
1 ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، امور اسلام سے متعلق سوال کئے ، آپ نے رہنمائی کی تو کہنے لگا، میں اس سے زیادہ کروں گا نہ کم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَفْلَحَ، وَأَبِیہِ إِنْ صَدَقَ .
''اگر سچا ہے تو اس کے باپ کی قسم! یہ فلاح پاگیا۔''
(صحیح مسلم : 11)
2 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کون سا صدقہ اجر کے لحاظ سے افضل ہے ؟ فرمایا:
أَمَا وَأَبِیکَ لَتُنَبَّأَنَّہُ أَنْ تَصَدَّقَ
''تیرے باپ کی قسم !جب آپ صدقہ کریں گے تو آپ کو علم ہو جائے گا۔''
(صحیح مسلم : 1032)
قصدا غیراللہ کی قسم اٹھا نا اسلام کے کسی دور میں جائز نہیں رہا ،البتہ ابتدائے اسلام میں اگر کوئی بلا قصدو ارادہ مخلوق کی قسم اٹھالیتا تومواخذہ نہیںتھا ، بعد میں بغیر ارادے کے قسم اٹھانا بھی ممنو ع ہو گیا۔اب اگر کوئی بلا ارادہ بھی غیر اللہ کی قسم کھائے گا تو گناہ گار ہے اور توبہ لازم ہے۔رہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مخلوق کی قسم اٹھانا تو یہ ابتدائے اسلام کی بلا قصد قسموں سے ہے،جن سے بعد میں منع کر دیا گیا۔​
 
Top