• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیر اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ کرنے والے ۔ ۔ اہلسنت کا منہج تعامل

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
غیر اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ کرنے والے
ارشاد ربانی ہے ۔

﴿وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ۝۴۴﴾ (ماۗئدۃ:۴۴)
''جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں۔''

جنادہ بن امیہ  کہتے ہیں :ہم عبادہ بن صامت؄ کی عیادت کے لیے ان کے ہاں گئے تو انہوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺنے ہم سے بیعت لی کہ ہر مشکل وآسانی اور تنگی وخوشحالی' ہر حال میں امیر کی بات سنیں گے اور اطاعت کریں گے 'جب تک امیر واضح کفر کا مرتکب نہ ہو جس کی تمہارے پاس اللہ کی طرف سے دلیل ہو ۔ (بخاری :۷۰۵۶،مسلم:۱۷۰۹)
کلمہ گو حکمرانوں کا اسلام کے علاوہ کسی اور قانون کو شارع عام بنانے (یعنی وہ قانون کہ جس سے لوگوں کے مابین فیصلے کیے جاتے ہوں اور جس کا ماننا ہر ایک پر لازم ہو)کی کفریہ بدعت کا آغاز امام ابن کثیراور امام ابن تیمیہ کے دور سے ہوا ۔جب تاتاریوں نے کلمہ پڑہنے کے باوجود دین ِ اسلام کی بجائے ''یاسق ''نامی قانون کو فیصلوں کے لیے مرجع و مصدر قرار دیا۔ امام ابن کثیر اور اس وقت کے دیگر علماء نے انہیں اس عمل کی وجہ سے کافر قرار دیا ۔

اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے امام ابن کثیر لکھتے ہیں:

﴿اَفَحُكْمَ الْجَاہِلِيَّۃِ يَبْغُوْنَ۝۰ۭ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ۝۵۰ۧ﴾ (الماۗئدۃ:۰ ۵)
''تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں حالانکہ جو لوگ اﷲ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اﷲ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں۔''

اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کی تردید کرتا ہے جو اس کے ان احکام سے اعراض کرتے ہیں جن میں خیر ہی خیر ہے۔ جن میں ہر قسم کے شر سے روکا گیا ہے اور ایسی آراء، اقوال اور اصطلاحات کی طرف رجوع کرتے ہیں جن کو ان لوگوں نے وضع کیا جو شریعت اسلامیہ کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں جیسے تاتاریوں نے چنگیز خان کی تقلید اور اس کی آراء کے مطابق فیصلے کرنے شروع کردیئے۔ چنگیز خان نے یاسق کے نام سے ایک دستور مرتب کیا جو حقیقت میں مختلف مذاہب ۔ مثلاً یہودیت و نصرانیت اور ملت اسلامیہ سے اخذ شدہ تھا اور اس انتخاب میں بھی اس نے اپنی خواہشات اور ذاتی نظریہ کو ملحوظ رکھا۔ یہ ایسا مجموعہ ہے جسے اس کے پیرو کار کتاب و سنت پر مقدم قرار دیتے اور اس کو مقدس سمجھتے ہیں پس جو شخص ایسے فعل کا مرتکب ہوگا وہ کافر ہے جس سے اس وقت تک جنگ کی جائے گی جب تک کتاب و سنت کی طرف رجوع نہ کرلے اور معمولی سے معمولی اور بڑے سے بڑے تنازع میں کتاب و سنت کوحَکَم نہ مان لے۔'' (بحوالہ ہدایۃ المستفید ص 1074)

فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن عبد الرحمن آلِ جبرین  فرماتے ہیں :
''ہم کہتے ہیں کہ جوکوئی اللہ تعالی کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے (اللہ کے دین کو ) ناقص یا حقیر جانتے ہوئے یا یہ عقیدہ رکھے کہ دوسرا قانون اس کی نسبت زیادہ اصلاح کرنے والااورنفع بخش ہے پس وہ کافرہے اورملتِ اسلامیہ سے خارج ہے ۔ اورجو لوگوں کے لیے اسلامی شریعت کے مخالف قانون بناتے ہیں تاکہ لوگ اس قانون پرعمل کریں یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب ان کا یہ عقیدہ بھی ہو کہ خلافِ شریعت قانون مخلوق کے لیے زیادہ اصلاح کرنے کی صلاحیت رکھنے والا اورزیادہ نفع بخش ہے کیونکہ عقلی اورفطری طورپریہ بات مسلم ہے کہ انسان ایک راستہ چھوڑکر اس کا مخالف راستہ اسی صورت میں اختیارکرتاہے جبکہ اس کا عقیدہ ہو کہ جس راستہ کو وہ اختیار کررہا ہے وہ فضیلت والاہے اورجسے چھوڑرہا ہے وہ ناقص ہے ۔(الفتاوی الشرعیہ فی المسائل العصریہ من فتاوی علماء البلد الحرام ۔صفحہ نمبر۷۰'۷۱)
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
اگر ہم ان احکامات کو حکمرانوں سے ہٹ کر انفرادی طور پر اپنی زندگیوں میں لاگو کرلیں تو حکمران چاہئے جیسا بھی قانون بنائیں وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ کوا اپنی بناوٹ اپنے مزاج اور اپنی آواز کے بناء ناپسندیدہ پرندہ ہے اور ہنس صرف اپنے تاج کی بناء پر کتنا پرکشش اور اچھا پرندہ نظر آتا ہے لیکن انسان جسے اللہ رب العالمین نے اشرف الخلوق ہونے کا شرف بخشاء ذرا ماضی میں جھانکیں تو اللہ رب العالمین نے ایک ایسے پرندے سے نہ جس کی آواز پرکشش نہ جس کا رنگ دلکش نہ جس کا مزاج اس پرندے سے اللہ رب العالمین نے اس اشرف المخلوق کو کیسی نصیحت سکھائی جب حضرت آدم علیہ سلام کے صاحبزادے نے اپنے بھائی کو قتل کر کے ایسے ہی چھوڑ دیا تب ایک کوے نے آکر دوسرے کوے پر جو کے ہلاک ہوچکا تھا مٹی ڈالی اور اسے مکمل مٹی سے ڈھک دیا یہ واقعہ دیکھ کر اس قتل کرنے والے کو خود پر شدید ندامت گزری۔۔۔ اب دیکھیں دونوں ہی اللہ کی مخلوق ہیں اللہ رب العالمین چاہتے تو کیا یہ خیال آدم علیہ السلام کے قاتل بیٹے کے ذہن میں نہیں ڈال سکتے تھے؟؟؟۔۔۔ ڈال سکتے تھے کیونکہ اللہ وحدہ لاشریک قادرومطلق ہیں ہر چیز پر۔۔۔ سوال یہ ہے اس واقعے سے ہم نے کیا سیکھا؟؟؟۔۔۔ اللہ فرماتا ہے کہ اگر تم ہمارے دین سے پھر جاؤ گے تو ہم اُن لوگوں (کافروں) میں سے لوگوں کو اٹھائیں جو دین میں تم سے زیادہ بہتر ہوں گے دیکھ لیں یورپ اور امریکہ میں جو اسلام پھیل رہا ہے اس کو کوئی قبر پرست یا کوئی بدعتی ہے؟؟؟۔۔۔

دوسری مثال سعودی عرب میں سب جانتے ہیں کے نماز کے دوران کاروباری سرگرمیاں روک دی جاتی ہیں اور نماز کے بعد سے وہ سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوجاتی ہیں لیکن اس قانون کے باوجود بھی دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں نے جو کے مسلمان ہیں اگر نماز نہیں پڑھنی تو وہ گھر چلے جاتے ہیں یا کہیں کسی کونے میں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں کے نماز ختم ہو اور وہ دنیاوی امور کو دوبارہ سے جاری کرسکیں اب دیکھیں نماز پر حدیث ہے کہ کفر اور اسلام کے بیچ فرق نماز ہے دوسری حدیث جس نے فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑی اس پر شریعت کا حکم موجود ہے۔۔۔۔

ہر شخص کو اللہ تعالٰی نے عقل عطاء فرمائی ہے جو دوسروں سے قدرے مختلف بھی ہے کم بھی ہے اور کہیں پر زیادہ بھی اسی لئے معاشرے میں عامیوں کی تعداد عالموں سے زیادہ ہے معاشرہ افراد کی جمع ہے اور افراد کی اکائی فرد ہے کیا کبھی ہم نے اپنے بچوں کی تربیت کرتے وقت اس بات کو سامنے رکھا کے کل انہوں نے معاشرے کا ایک فرد بننا ہے؟؟؟۔۔۔ یہ بڑا ہی سنجیدہ سوال ہے۔۔۔ اگر ایک باپ اپنی زندگی اور دنیاوں امور کو سنجیدگی اور دینی احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے گزارے تو اس کی اولاد کے لئے وہی رول ماڈل ہے لیکن ہم نے صرف بچوں کو قرآن کی تعلیم دے کر یہ سمجھ لیا کے مسلمان ہونے کے ناتے جو ہماری ذمہ داری تھی وہ ہم نے پوری کردی حالانکہ ایسا نہیں ہے۔۔۔۔ دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں ہم پابندی سے مسجد میں جاکر کتنی نمازیں ہیں جو ادا کرتے ہیں؟؟؟۔۔۔ جھوٹ جسے بولنے سے منع فرمایا گیا ہے وہ ہم بات بات پر بول رہے ہوتے ہیں۔۔۔

زندگیان ہم سے پہلے کی قوموں نے بھی گذاری ہیں ہم میں اور اُن میں کیا فرق تھا؟؟؟۔۔۔ وہ اگر بھوکے ہوتے تو پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتے تھے لیکن آج؟؟؟۔۔۔۔ اُمتی آکر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتا ہے بھوک کی وجہ سے اس نے ایک پتھر باندھا ہوا ہے تو اللہ کے نبی دکھاتے ہیں کہ انہوں نے دو باندھے ہوئے ہیں۔۔۔ اللہ کے بنائے ہوئے قانون کے بات ہم بعد میں کریں گے لیکن یہاں پر ایک سوال چھوڑے جارہا ہوں۔۔۔ کیا ہم اللہ کو اپنا رب مانتے ہیں؟؟؟۔۔۔ اگر جواب ہاں میں تو سورۃ الاحزاب میں ہے۔۔۔ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ الحسنۃ۔۔۔ اور اگر نہیں مانتے تب بھی قانون رب العالمین کا ہی چلتا ہے کل نفس ذائقہ الموت۔۔۔ یہ قانون کوئی بدل کر دکھا دے۔۔۔ اگر نہیں بدل سکتا تو اللہ کے بنائے ہوئے کس قانون کو اُس نے بدلا؟؟؟۔۔۔ زندگی کوئی نفع نہیں ہے اگر سنجیدگی سے سوچیں تو یہ ایک وقفہ ہے ایک مہلت ہے خود انسان کے لئے جو رحمٰن کی بندگی اور اس کے دشمن شیطان سے دشمنی کے لئے دی گئی ہے۔۔۔ گذارنے کے جائز اور ناجائز طریقے بھی بیان کردیئے ہیں۔ اللہ کے قانون کو کوئی نہیں بدل سکتا اور جو لوگ اللہ کے قانون کی موجودگی میں فیصلے اپنی پسند سے کرتے ہیں تو وہ اس افسوس کے چند سالوں کی زندگی جو مہلت ہے اسے ضائع کررہے ہیں۔۔۔ اگر ہم واقعی مسلمان ہیں تو ہمیں ایک چیز ذہن میں رکھنی چاہئے اور وہ یہ ہم نے اپنے اعمال کا جواب خود اللہ کو دینا ہے وہاں پر ہم سے کسی کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا جائے گا۔۔۔

اللہ رب العالمین نے کتنی پیاری بات بیان فرمائی ہے۔۔۔ ملاحظہ کیجئے بس ہم صرف اس ہی کلام کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کے معاشرے سے ہر قسم کی برائی کو دور کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

وَالْعَصْرِ ﴿١﴾ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ ﴿٢﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴿٣﴾​
زمانے کی قسم بیشک (بالیقین) انسان سرتا سر نقصان میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان ﻻئے اور نیک عمل کیے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی​
واللہ اعلم۔​
والسلام علیکم۔​
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ ربی
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ایسا رب ہے جس نے کائنات کو اپنی مرضی سے تخلیق کیا، اسے شکل و صورت سے آراستہ و پیراستہ کیا۔ اس کے اصول و ضوابط اور مقاصد زندگی متعین کئے۔ بہت سی مخلوق کو اختیار تفویض نہیں کیا گیا۔ اور چند ایک کو اختیار کا خوبصورت عطیہ عطا فرمایا۔
اللہ تعالی نے انسان کو بعد میں پیدا کیا پہلے اس کی تمام ضروریاتِ زندگی کو عدم سے وجود بخشا۔ اور جو جو چیز انسان کے لئے مسخر کی گئی ہے وہ اپنے حدود سے تجاوز نہیں کرتی۔ الا باذن اللہ۔ چنانچہ آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل ان کی زندگی کے ثبات کے لئے پہلی چیز یعنی ہوا وغیرہ کو پیدا کیا اور پوری پوری مقدار میں اسے مہیا کیا۔ ہوا کی ترکیب بھی پیدا فرمائی۔ انسان جب ہوا کو اپنے پھیپھڑوں میں لے جانے کے بعد خارج کرے گا تو کتنی آلودہ ہو گی اور اس کی آلودگی کو کیسے ختم کرنا ہے اس کے لئے کونسی کونسی چیزیں ہوں گی جو اسے فلٹر کریں گی۔ یہ سب کچھ علام الغیوب نے پہلے ہی مہیا فرما دیں۔
اب آدم علیہ السلام کے دل کو لبھانے کے لئے اور ان کی تسکین کے لئے مونس و غمخوار ہمنوا انہی کے جسم سے پیدا فرما دیا۔
پھر ان دونوں سے کثیر مرد و عورتیں کو پیدا فرمایا۔ ان کے لئے کھانے پینے کا نظام۔
غرض جس جس چیز کی
جب جب ضرورت پڑی
اس وقت سے پہلے پیدا فرمائی
عین اس وقت پر عطا فرمائی
نہ وقت سے پہلے اور نہ وقت کے بعد
پورے پورے اندازے کے ساتھ مہیا کیا۔ کم نہ زیادہ

پھر ہماری شریعت نے بتایا کہ اس رب نے قرآن مجید کی شکل میں ہمارے پاس موجود اپنی کلام میں سب سے پہلا حکم جو ارشاد فرمایا ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۲۱ۙ الَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً۝۰۠ وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ۝۰ۚ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلہِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۲۲
لوگو! اپنے پروردگار کی عبات کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو۔ جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے مینہ برسا کر تمہارے کھانے کے لیے انواع و اقسام کے میوے پیدا کئے۔ پس کسی کو اللہ کا ہمسر نہ بناؤ۔ اور تم جانتے تو ہو۔

وہ لوگ آنکھوں میں گھوم رہے ہیں جنہیں یہ کہا گیا کہ ایسی شاہانہ زندگی اور نوکری مت چھوڑو۔ جواب میں ان لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے۔ ہم تمہارے فیصلوں، قوانین اور اس پرتعیش زندگی کو اپنے رب کے فیصلوں اور قوانین پر قربان کرتے ہیں۔ ہمارا رب کمزور نہیں کہ ہمیں یہ چیزیں دوبارہ سے عطا نہ فرما سکے۔ اللہ اکبر۔ وہ سب سے بڑا ہے۔ وہ الوہاب ہے۔ وہ الودود ہے۔ دینی طور یہ کوئی زیادہ پڑھے لکھے لوگ نہ تھے اور نہ ہی دنیاوی تعلیم میں مہارت تامہ رکھتے تھے بلکہ درمیانے علم کے لوگ تھے اور ہزاروں میں تھے۔

پھر انہیں آنکھوں نے دیکھا کہ ان کو اللہ تعالی نے پھر سے نوازا۔

دنیا میں سب سے زیادہ مشکل کام میری ناقص عقل میں یہی تو ہے کہ اللہ کو رب ماننا اور پھر اس پر استقامت اختیار کر لینا۔ کسی کی کوئی ملامت، کوئی جذبہ، کوئی سفارش، کوئی محبت، کوئی نفرت، کوئی مشغلہ، کوئی قانون، کوئی موٹیویشن غرض کسی بھی طرح اس بات پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا کہ میرا رب تو اللہ ہے۔

اگر اس راستے میں بے گھر ہونا پڑے، بے آبرو ہونا پڑے، مقدمات کا سامنا کرنا پڑے، بھوکا رہنا، سونا پڑے اور اسی قبیل کی دیگر آزمائشیں آئیں تو بھی اللہ کی حاکمیت کو ثابت کرتے ہوئے اللہ تعالی کے مخالف فیصلوں، قوانین اور دیگر چیزوں سے ایک طرف ہو جانا اور اپنی لو اپنے رب سے لگانا ہی تو مقصودِ الٰہی ہے۔

توکل بھی عبادت ہے۔ ان ہزاروں لوگوں نے اللہ کو رب ماننے کے بعد اللہ پر توکل ہی تو کیا ہے۔اور اپنی 20 سالہ 22 سالہ 25 سالہ نوکری کو ٹھوکر مارتے ہوئے استعفے دے دیئے حالانکہ یہ جانتے تھے معاشرے میں ان کے روابطہ نہیں ہیں۔ لوگ انہیں عام طور پر پاگل کہتے ہیں۔ جس نظم و نسق میں انہوں نے شعوری زندگی گزاری ہے عام معاشرے میں انہیں میسر نہیں ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ دین کے اکثر دعویداروں کے قول و فعل میں تضاد اپنی انتہاء کو پہنچا ہوا ہے۔ جو لوگ جھوٹ، وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت سے روکتے ہیں ان کا یہ عمل دعوت و تبلیغ کی حد تک ہی محدود ہے۔ الا ماشاء اللہ۔

کسی کی ذات پر تنقید مقصود نہیں ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی نامکمل دھندلی سی تصویر ہے۔ اگر کسی کی دل آزاری ہو تو اللہ کے لئے معاف فرما دیجیے اور کل قیامت کے دن گریبان نہ پکڑیئے گا۔

اللہ تعالی ہم سب کو حق کا فہم عطا فرمائے اور اس پر عمل و استقامت عطا فرمائے آمین
 
Top