• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیر سرکاری روئیت ھلال کمیٹیوں کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟؟؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
شمولیت
جولائی 11، 2015
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
10
اسی سے متعلقہ ایک بھائی کے مسجد میں درس اور سوال و جواب کی نشت کو مضون کی شکل کسی سے دلوائی ہے جو یہاں پیسٹ کر رہا ہوں کیونکہ اچھا لگا تھا
 
شمولیت
جولائی 11، 2015
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
10
تمہید:
اللہ کے دین اور شریعت کا غلبہ دین اسلام میں ایک انتہائی مطلوب چیز ہے اور یہ عین فطرت بھی ہے پس اسی سے امن قائم ہوا بھی ہے اور مستقبل میں بھی اسی سے ہو گا اور اسی وجہ سے لوگ اس طرف راغب بھی ہوتے ہیں اور باطل یہی نہین چاہتا پس وہ شروع دن سے ہی اس کے خلاف کوششوں میں مصروف ہے اب اس میں اسکے لئے کوششیں کرنے والوں کا طریقہ ومنہج بھی اکثر غلط ہو جاتا ہے جس وجہ سے باطل فائدہ اٹھاتا ہے اور اس شریعت کے نفاذ کو بدنام کرتا ہے
اس فریضہ کے لئے کوشش کرنا حقیقت میں یہ سلفی علماء ہی کا کام ہے مگر جب ہم اس میں خاطر خواہ محنت نہیں کرتے جتنی کہ کرنی چاہئے تو اس خلا کو پر کرنے کے لئے غلط لوگ آگے آ جاتے ہیں جس سے الٹا شریعت اور جہاد بدنام ہو جاتا ہے اور باطل تو یہی چاہتا ہے باطل کی انہیں کوششوں میں ایک کوشش یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی طرح اس شریعت کے نفاذ کی سوچ کو معاشرے میں اس قدر بدنام کر دیا جائے کہ صحیح العقیدہ اور اہل علم اس کے لئے سوچنا اور محنت کرنا ہی چھوڑ دیں تاکہ پھر اگر اس خلا کو پر کرنے کے لئے کوئی جاہل آئے تو اسکو اپنی مرضی سے جذبات میں لا کر اتنا مجبور کر دیا جائے کہ یہ سب آپس میں ہی لڑتے رہیں
پس میرے خیال میں پاکستان کی روئیت ہلال کمیٹی کے چیرمین کے کندھے پر بندوق رکھ کر جو ہر سال پشاور اور باقی ملک کے لوگوں کے درمیان اختلاف کروایا جاتا ہے اسکی وجہ بھی زیادہ یہی ہے کہ جس علاقے کے لوگوں نے شریعت کا نام زیادہ لیا ہے انکو ہی اتنا بدنام کر دیا جائے اور دوسرا لوگوں پر شریعت کے نفاذ کے معاملے میں اتنے اشکال پیدا کر دیئے جائیں کہ وہ اس شریعت سے ہی متنفر ہو جائیں مثلا یہ باور کرایا جائے کہ مولوی تو چاند پر اکٹھے نہیں ہو سکتے تو کن کی شریعت نافذ کریں گے اسی طرح کہا جاتا ہے کہ شریعت نافذ کرنی ہے تو مولوی بتائیں کس کی کریں شیعہ کی بریلوی کی دیوبندی کی یا اہل حدیث کی۔ اس مضمون میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ اس کمیٹی کی شرعی حیثیت کا علمی یانظری پہلو سب کے سامنے رکھا جائے تاکہ لوگوں کو اصل بات کا احساس موجود رہے البتہ نظری طور پر جو پہلو قابل عمل ہے اسکو بھی واضح کیا گیا ہے کہ ان علمی کمزوریوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے عملی طور پر ہمیں کیا کرنا ہو گا
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
جولائی 11، 2015
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
10
روئیت ہلال پر معتدل موقف:

پاکستان میں چاند کی روئیت کے مسئلہ پر سلفی علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے جس میں ہر گروہ کو اپنے اجتہاد کا حق حاصل ہے اس سلسلے میں درست موقف یہی ہے کہ ہر گروہ دوسرے گروہ کو اپنے دلائل سے قائل تو کر سکتا ہے مگر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کسی گروہ کو نہیں کرنا چاہئے کہ دوسرے کے دالئل ہی نہ سنیں جائیں یا پھر دوسرے کو کافر اور منافق یا پھر خارجی دہشت گردوں کی صف میں کھڑا کر دیا جائے

پس اس مضمون میں ہم اپنے دلائل بھی رکھیں گے مگر دوسرے کو اس وقت تک گمراہ نہیں کہیں گے جب تک اسکے پاس کوئی جائز تاویل ہو گی
 
شمولیت
جولائی 11، 2015
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
10
موضوع کو سمجھنے کے لئے مختصر تعارف:

کسی علاقے میں چاند کے نکل آنے اور نیا مہینہ شروع ہو جانے کے لئے ہمارے پاس تین ذریعے ہیں

پہلا ذریعہ یہ ہے کہ سائنسی یا علم فلکیات کے مطابق چاند کی پوزیشن کو متعین کر کے نیا مہینہ شروع ہونے کا اعلان کیا جائے مگر اس بات پر تقریبا سب متفق ہیں کہ ایسا نہیں کیا جا سکتا

دوسرا یہ ہے کہ خود چاند دیکھ کر نیا مہینہ شروع ہو جانے کا اعلان کیا جائے اور حدیث میں اسکی تائید ہوتی ہے پس اس میں سلفی علماء میں کوئی اختلاف نہیں

تیسرا ذریعہ یہ ہے کہ خود تو چاند نہ دیکھا ہو مگر کسی اور مسلمان نے دیکھا ہو اور اسکی گواہی کی بنیاد پر نیا مہینہ شروع ہونے کا اعلان کیا جائے تو حدیث میں اسکی تائید موجود ہے اور اس مسئلہ پر کسی کو اختلاف نہیں کہ اس طرح کسی کی گواہی کو بنیاد بنا کر چاند کی روئیت کا اعلان کیا جا سکتا ہے


تو پھر سوال ابھرتا ہے کہ جب یہ تین ہی ذریعے ہیں اور ان میں پہلے کے غلط ہونے پر اتفاق ہے اور باقی دو کے درست ہونے پر اتفاق ہے تو پھر مزید اختلاف کیوں پیدا ہوتا ہے

تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ اصل اختلاف تیسرے ذریعے کی وضاحت سے شروع ہوتا ہے جس میں سب علماء اتنی بات پر تو اتفاق کرتے ہیں کہ روئیت کے لئے ایک مسلمان کی گواہی کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے مگر کیا ہر مسلمان (چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی رہتا ہو اور کیسا ہی اسکا عقیدہ ہو) کی گواہی کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے

اس سلسلے میں دو خصوصیات بتائی جاتی ہیں جن کے حاملین کی گواہی کو ہی چاند کے اعلان کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے ان دو خصوصیات کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے


1 ۔ گواہی دینے والے کا عقیدہ توحید پر ہونا

ابن عباس رضى الله عنھما کی حدیث: “جَاءَ أَعْرَابِىٌّ إِلَى النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ إِنِّى رَأَيْتُ الْهِلاَلَ فَقَالَ : أَتَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ؟. قَالَ نَعَمْ. قَالَ : أَتَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ؟. قَالَ : نَعَمْ. قَالَ:يَا بِلاَلُ أَذِّنْ فِى النَّاسِ فَلْيَصُومُوا غَدًا

(سنن أبي داود محقق وبتعليق الألباني : 2/ 274 , سنن الترمذي : 3/ 74 , سنن النسائي بأحكام الألباني : 4/ 132 وصححه ابن خزيمه وابن حبان والحاکم)

ایک اعرابی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا میں نے چاند دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی الہ (مشکل کشا و حاجت روا) نہیں ہے تو اسنے کہا کہ جی ہاں (میں گواہی دیتا ہوں) آپ سلی اللہ علیہ وسلم نے (مزید) کہا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اسنے کہا جی ہاں (میں اسکی بھی گواہی دیتا ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اے بلال لوگوں میں اعلان کر دو کہ کل روزہ رکھیں

ایک اہل حدیث کی بنیاد ہی عقیدہ توحید پر ہوتی ہے تو کسی بھی اہل حدیث عالم کے ہاں یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مشرک کے پیچھے نماز پڑھے یا اسکو اپنی بیٹی دے تو وہ کیسے کسی مشرک کی گواہی کو قبول کر سکتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح حدیث بھی موجود ہو کہ مشرک کی گواہی قبول نہیں کی جا سکتی جیسا کہ اوپر عقیدے کے اختلاف میں اعرابی کی حدیث کا ذکر ہے اس میں کیونکہ اعرابی مجہول الحال تھا پس اس اعرابی سے پہلے یہ گواہی لی گئی کہ کیا تو اللہ کے الہ (مبعنی مشکل کشا حاجت روا) ہونے کی گواہی دیتا ہے یہاں الہ کا معنی کرنے کی ضرورت اس لئے ہے کیونکہ یہاں خالی کسی سے مجرد کلمہ پڑھوانا مقصود نہیں بلکہ اسکی عقیدے کا پتا کرنا مقصود ہے پس آج جب معاشرے کے اندر شرک کرنے والے کو کوئی اہل حدیث غیراللہ کی عبادت کرنے سے منع کرتا ہے تو وہ مشرک جواب دیتا ہے کہ ہم تو کلمہ لاالہ الا اللہ پڑھتے ہوئے جب یہ اقرار کرتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو ہم کیسے غیراللہ کی عبادت کرتے ہیں تو اہل حدیث کہتا ہے کہ آپ الہ کے معنی کو مشکل کشا یا حاجت روا سمجھ کر کلمہ نہیں پڑھتے پس وہ اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ آپ اس طرح کہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی الہ بمعنی مشکل کشا و حاجت روا نہیں تو وہ مشرک ایسا ترجمہ کے ساتھ کلمہ پڑھنے سے انکار کر دیتا ہے

پس اس پر تمام سلفی علماء کا اتفاق ہے کہ کسی مشرک کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی


2۔ گواہی دینے والے اور قبول کرنے والے کا مطلع ایک ہونا

اس میں علماء میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ مطلع کے مختلف ہونے میں میں کسی عالم کو اختلاف نہیں ہے کیونکہ مطلع مختلف ہوتے ہیں مگر کیا مطلع کا اعتبار کیا جائے گا یعنی اس کے مختلف ہونے پر گواہی کو رد کر دیا جائے گا اس پر علماء کا اختلاف موجود ہے جس میں دونوں طرف بڑے بڑے علماء اور سلف صالحین شامل ہیں مثلا ناصر الدین البانی رحمہ اللہ وغیرہ پوری دنیا میں سے گواہی قبول کرنے کو درست سمجھتے ہیں جبکہ مطلع کے مختلف ہونے پر گواہی رد کرنے کو درست سمجھتے ہیں

اس اختلاف کو مختصرا سمجھتے ہیں

مطلع کے اختلاف کے ذکر کے بغیر مطلقا کسی بھی مسلمان کی گواہی پر چاند کی روئیت کا اعتبار کرنے پرصحیح، مرفوع اور صریح احادیث موجود ہیں کہ تم کسی کی بھی گواہی پر چاند دیکھنے کا اعلان کر سکتے ہو جبکہ ان احادیث کے عموم کو مقید کرنے کے لئے ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جو حدیث کریب کے نام سے مشہور ہے جس میں ابن عباس نے مکہ میں رہتے ہوئے اہل شام کی روئیت کو قبول نہ کرنے کا فتوی دیا ہے اور اپنے اس عمل کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرتے ہوئے کہا کہ

ھٰکذا أمرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمیعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا تھا کہ اس طرح روئیت کو قبول نہ کرنا اس سے اگرچہ حدیث صحیح مرفوع ہو جاتی ہے مگر صریح نہیں ہے کیونکہ یہاں ھکذا کا اشارہ کس چیز کی طرف ہے یہ واضح نہیں ہے پس یہ حدیث صحیح اور مرفوع تو ہے مگر صریح نہیں ہے جبکہ یہ اس حدیث کی تخصیص نہیں کر سکتی جس میں کسی کی بھی گواہی پر روزہ رکھنے کا کہا گیا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جب رفع یدین کا مناظرہ ہوتا ہے تو اس میں یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ رفع یدین منسوخ ہونے کی کوئی صحیح مرفوع اور صریح حدیث دکھائیں کیونکہ دوسری حدیث کو منسوخ یا اس میں تخصیص کرنے کے لئے حدیث کو صریح بھی ہونا چاہئے یعنی اس میں ایک سے زیادہ احتمال نہ ہوں

اب یہاں یہ حدیث مطلع کے اختلاف کے معتبر ہونے کے سلسلے میں غیر صریح ہے کیونکہ یہاں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ تو بتایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق یہ روئیت قبول نہیں مگر یہ نہیں کہا کہ مطلع کے اختلاف کی وجہ سے انکی گواہی کو قبول نہیں کیا جا رہا بلکہ کچھ بھی وجہ بیان نہیں کی اسی لئے بعد میں محدثین نے اسکی مختلف علتیں نکالیں جن میں ایک بڑی علت مطلع کا اختلاف بھی نکالی گئی ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ دوسری علتیں بھی نکالی گئی ہیں مثلا چونکہ یہ خبر مہینہ کے آخر پر پہنچی تو اب رمضان کے اختتام پر اسکو قبول کرنا درست نہیں تھا اسی طرح کچھ محدثین نے یہ علت بھی نکالی ہے کہ افطار کے لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں دو گواہیوں کے لینے کا حکم ہے پس کریب کی ایک گواہی چونکہ افطار کرنے کا سبب بن رہی تھی تو قبول نہیں کی گئی

یہی بات شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی میں ذکر فرمائی ہے

:"وَقَدْ أَجَابَ أَصْحَابُنَا بِأَنَّهُ إنَّمَا لَمْ يُفْطِرْ لِأَنَّهُ لَمْ يَثْبُتْ عِنْدَهُ إلَّا بِقَوْلٍ وَاحِدٍ فَلَا يُفْطِرُ بِهِ"

"ہمارے اصحاب نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ دراصل ابن عباس رضی اللہ عنہ نے افطار (رمضان کا اختتام) اسلئے نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک یہ رویت صرف ایک راوی کے قول سے ثابت ہورہی تھی جو کہ افطار کیلئے کافی نہ تھی" (مجموع الفتاوى جلد ۲۵ صفحہ ۱۰۸)اسی ضمن میں امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں

: "فأما حديث كريب فإنما دل على أنهم لا يفطرون بقول كريب وحده‏"

"جہاں تک حدیث کریب کا تعلق ہےتو دراصل وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہوں (ابن عباس اور اہل مدینہ) نے اکیلے کریب کی گواہی پر افطار (رمضان کا اختتام) نہیں کیا"(المغني جزء رابع کتاب الصیام صفحہ ۳۲۹ طبع دار عالم الکتب ریاض)

اسی طرح کچھ کہتے ہیں کہ یہاں ھکذا کا اشارہ رسول اللہ کے اس حکم کی طرف ہے جس میں غیر واضح ہونے کی صورت میں تیس پورے کرنے کا حکم ہے

پس کچھ فقہاء کے ہاں جب یہاں ایک سے زیادہ علتوں کا احتمال ہے تو پھراس ظنی معاملہ سے ایک قطعی معاملہ کی تخصیص نہیں کی جا سکتی لیکن اسکے برعکس جمہور اسلاف اس حدیث کریب کو مطلع کے اختلاف پر ہی محمول کرتے چلے آئے ہیں

پس درست موقف یہ ہے کہ مطلع کے اختلاف پر ہر فریق دلائل کو دیکھ کر راجح مرجوح کی حد تک تو اپنا نظریہ رکھ سکتا ہے مگر دوسرے کی نیت پر شک کرنے یا اسکو گمراہ سمجھنے کی بجائے اسکو اجتہادی غلطی پر تصور کیا جا سکتا ہے واللہ اعلم
 
شمولیت
جولائی 11، 2015
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
10
گفتگو کا دائرہ کار:

ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جب بات شروع کرنے سے پہلے اصل اختلاف ہمارے علم میں نہ ہو کہ جس کو ہم حل کرنا چاہتے ہیں تو ہر دفعہ بات سلجھنے کی بجائے الجھتی جاتی ہے پس اس مضمون میں ہم سب سے پہلے اصل موضوع کا تعین کر لیتے ہیں تاکہ ہر لمحہ یہ دیکھا جا سکے کہ ہماری گفتگو اسی کو سلجھانے میں صرف ہو رہی ہے یا نہیں

پس ہمارا موضوع (یعنی گفتگو کا دائرہ کار) مندرجہ ذیل ہے

کیا ہمیں صرف حکومت پاکستان کی طرف سے قائم کردہ کمیٹی کے روئیت کے فیصلے کو ہی ہر لحاظ سے حرف آخر ماننا چاہئے یا پھر اس سے ہٹ کر چاند کی روئیت کا فیصلہ کرنا چاہئے

اس سلسلے میں معاملے کو دو پہلووں سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ دونوں کے لحاظ سے معاملے کا حل مختلف ہے

A۔علمی یا نظری پہلو

B۔ عملی پہلو
 
شمولیت
جولائی 11، 2015
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
10
A۔نظری یا علمی پہلو:

اس سے مراد نظریاتی یا علمی دلائل کی بنیاد پر رکھا جانے والا موقف ہے اس پہلو سے درست موقف یہی ہے کہ حکومت پاکستان کی کمیٹی کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرنا غلط ہے پس جو گروہ اس کمیٹی کے اعلان کو ہی صرف درست سمجھتا ہے تو اس پر بہت سے علمی اعتراضات وارد ہوتے ہیں جو نمبر وار نیچے ذکر کیے جاتے ہیں


اعتراض نمبر 1 ۔عقیدے کےاختلاف میں غلطی:

اس کمیٹی کا طریقہ کار یہ ہے کہ اسکے ممبران خود بھی چاند دیکھتے ہیں اور فون وغیرہ پر پورے ملک سے لوگوں سے بھی گواہی لیتے ہیں اب پہلی بات تو یہ کہ اس کمیٹی کی اکثریت مشرکین پر مشتمل ہے اور اسکا ہیڈ بھی عموما مشرک ہی رہا ہے البتہ کچھ توحید والے بھی ہوتے ہیں اب چاند کا اعلان مندرجہ ذیل میں سے کسی بھی صورت میں کیا جا سکتا ہے

· کوئی کمیٹی کا ممبر خود چاند دیکھے تو یہ ممبر مشرک بھی ہو سکتا ہے اور موحد بھی پہلے تو موحد ہونے کے چانس کم ہوتے ہیں دوسرا اس طرح خود چاند دیکھنے کے چانس بھی کم ہوتے ہیں تیسرا اگر ممکن بھی ہو جائے تو موحد عوام پر واضح ہی نہیں کیا جاتا کہ کسی موحد ممبر نے دیکھا ہے یا نہیں اور نہ ہی وہ موحد عالم لوگوں کو یہ بتاتا ہے کہ بے فکر ہو جاو میں نے خود چاند دیکھا ہے ظاہر ہے ایسا کہنے کے بعد اسکا نشیمن اس حکومت کمیٹی کے گلشن میں کہاں گنوارا کیا جائے گا

· کمیٹی کا کوئی ممبر پورے ملک سے کسی بھی چاند دیکھنے والے سے گواہی لے کر چاند کا اعلان کرے ایسی صورت میں اوپر بیان کی گئی حدیث کے مطابق یہ شرط ہے کہ مجہول الحال سے اس بات کی گواہی لی جائے کہ وہ اللہ کو الہ بمعنی مشکل کشا و حاجت روا مانتا ہے کہ نہیں مگر یہاں دو قباحتیں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے یہ گواہی درست نہیں ٹھہرتی پہلی یہ کہ جو ممبر گواہی لے رہا ہے وہ خود مشرک ہو سکتا ہے ایسی صورت میں وہ مجہول الحال گواہی دینے والے سے یہ کیسے پوچھے گا کہ تم اللہ کو الہ بمعنی مشکل کشا و حاجت روا مانتے ہو جبکہ وہ خود ایسا نہیں مانتا دوسری قباحت یہ ہے کہ اگر گواہی لینے والا موحد بھی ہو تو وہ کبھی بھی گواہی دینے والے سے یہ کبھی نہیں پوچھ سکتا کہ تم اللہ کو الہ بمعنی مشکل کشا و حاجت روا مانتے ہو وہ یہ گواہی لے بھی کیسے سکتا ہے اسکو کمیٹی سے ہی نکال دیا جائے گا


پس ان دو صورتوں کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں جسکی بنیاد پر حکومتی کمیٹی چاند کا اعلان کرے اور یہ دونوں صورتیں درست نہیں ہیں پس اسکے نتیجے میں کیا گیا اعلان کیسے درست ہو سکتا ہے ہاں اگر کوئی سلفی عالم آج کے مشرک کو مشرک ہی نہیں سمجھتا تو اسکے نظریے کے مطابق کمیٹی کا اعلان درست ہو سکتا ہے کیونکہ گواہی دینے والا مشرک شیعہ یا بریلوی جب مشرک ہی نہیں تو اسکی گواہی کو رد کیسے کیا جا سکتا ہے لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ عالم ہر مشرک شیعہ و بریلوی کے پیچھے نماز پڑھنے اور اسکو اپنی بیٹی کا رشتہ دینے کا قائل ہو اگر وہ ان چیزوں کا تو قائل نہیں اور انکے شرک کی وجہ سے انکے پیچھے نماز پڑھنے اور رشتہ دینے کو نا جائز کہتا ہے تو پھر چاند کی گواہی لیتے ہوئے اس شرک کو بھول جانا کچھ اور ثابت کرتا ہے واللہ اعلم
 
شمولیت
جولائی 11، 2015
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
10
اعتراض نمبر2 ۔مطلع کے اختلاف میں غلطی :

جو سلفی عالم پاکستانی حکومت کی روئیت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو ہی درست مانتا ہے اور پاکستان سے باہر (مثلا سعودی عرب وغیرہ) میں چاند نظر آنے کو یہ کہ کر رد کرتا ہے کہ مطلع کا اختلاف کرنا لازمی ہے تو پھر بھی اسکے کمیٹی کے فیصلے کو درست کہنے پر مندرجہ ذیل بڑے اعتراضات اٹھتے ہیں

· مطلع کا تعین ایک ملک سے کرنا کسی صورت ممکن نہیں اور آج تک اس مطلع کے بارے کوئی تعین نہیں کر سکا کہ مطلع کی حد کیا ہے

· اس پر تو اتفاق ہے کہ کہ مطلع کا ایک ہونا سے مراد یہ ہےشرقا غربا وہ دو نقطے کے جن کے درمیان اس خاص دن چاند دیکھا جا سکتا ہے اسکو مختلف فقہاء نے مختلف فاصلہ شمار کیا ہے کچھ نے سائینسی توجیہات کی بجائے شریعت کی نصوص سے اسکو لنک کرنے کی کوشش کی ہے پس کچھ نے اسکو چند شہروں تک محدود کیا ہے کچھ نے ایک شہر تک اور کچھ نے قصر نماز کے فاصلے تک محدود کیا ہے مگر ان سب کا ایک پورے ملک پاکستان پر اطلاق نہیں کیا جا سکتا

· کچھ نے واقعی سائینسی دلائل سے اسکو متعین کرنے کی کوشش کی ہے مثلا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ نے ۵ درجے طول بلد یعنی شرقا غربا بتائے ہیں مگر ان پانچ درجوں پر بھی اعتراض یہ اٹھتا ہے کہ پہلے جب پاکستان اور بنگلہ دیش ایک تھا تو اس وقت مطلع اور تھا اور اب پاکستان کے علیحدہ ہونے سے مطلع سائینسی طور نہیں بدل سکتا مگر زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ہم نے اپنا فیصلہ یا بنگلہ دیش نے اپنا فیصلہ ہم سے علیحدہ کر لیا ہے

· اس سائنیسی طریقہ سے پانچ درجے کو متعین کرنے پر ایک بہت بڑا اور نا قابل تردید اعتراض اٹھتا ہے کہ شیخ عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ ایک بات یہ کہتے ہیں کہ کسی خاص دن چاند کے طلوع ہونے کا جو پہلا نقطہ ہے اس سے مزید مشرق میں پانچ درجے تک نظر آنے کے چانس ہیں پس اس کو ہم تسلیم کر لیتے ہیں مگر اسکے بعد جو انہوں نے فرض کیا ہے وہ درست نہیں وہ اسکے بعد کہتے ہیں کہ پس چاند جہاں نظر آئے وہاں سے مشرق میں پانچ درجے تک اسکی روئیت کا اعتبار ہو گا (البتہ ملکی حکومت چاہے تو اسکو پورے ملک تک لاگو کر سکتی ہے) اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ کیوں فرض کر لیا گیا کہ جہاں کسی مسلمان کو چاند نظر آیا ہے وہ اس خاص دن میں چاند کے طلوع ہونے کا پہلا نقطہ یا درجہ ہے ہو سکتا ہے وہ پہلے چار درجوں کے علاقے میں بادل کی وجہ سے نظر نہ آیا ہو اور اپنی آخری جگہ یعنی پانچویں درجہ والے علاقے میں نظر آیا ہو مثلا ایک خاص دن چاند کے 53 درجے طول بلد (مشرق) سے لے کر 57 درجے طول بلد (مشرق) تک نظر آنے کے چانس ہیں اب فرض کریں کہ 56 درجے طول بلد (مشرق) تک بادل کی وجہ سے نظر نہیں آیا لیکن 57 درجے طول بلد مشرق میں نظر آ گیا تو شیخ عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ کے مفروضے کے مطابق اب یہاں سے مزید پانچ درجے مشرق میں اسکے نظر آنے کے چانس ہیں پس 62 درجے طول بلد مشرق تک اسکی روئیت کا اعتبار ہو گا اور پاکستان کا علاقہ 62 سے لے کر تقریبا 75 تک ہے تو پھر پاکستان میں اسکی روئیت کا اعتبار کرتے ہوئے چاند کا اعلان کر دیا جائے گا مگر یہ سب کچھ اس سائینسی توجیہ کی سنگین خلاف ورزی ہو جائے گی جسکو بنیاد بنایا گیا ہے کیونکہ حقیقت میں تو چاند اس دن 57 درجے طول بلد مشرق سے آگے کہیں نظر آ ہی نہیں سکتا
 
Top