• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیر مقلدیت کا طلسم: شیخ عبدالمعید مدنی (علی گڑھ)

شمولیت
ستمبر 11، 2013
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
غیر مقلدیت کا طلسم​
فضیلۃ الشیخ عبدالمعید مدنی (علی گڑھ)​
ٹائمس آف انڈیا ۱۴؍جولائی ۲۰۱۶ء ؁ کے شمارے میں صفحہ ۴؍پر ایک خبر چھپی جو زیر ملاحظہ آئی۔ دارالعلوم دیوبند کے مفتیوں نے فتوی دیا ہے کہ مسٹر ذاکر نائک دعوت و افتاء کے اہل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک ان کی نا اہلی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ غیر مقلد ہیں، پینٹ کوٹ پہنتے ہیں، سبحان اللہ۔
ان کا ایسا فتوی نیا نہیں ہے، ان کے فتوؤں کے فتنے ہمیشہ جاگتے رہتے ہیں۔ یہ اکثر (FANTACY OF FATWA) کی دنیا ہی میں رہتے ہیں۔ یعنی اگر وہ مقلد ہوتے تو دعوت و افتا کے اہل ہو سکتے تھے۔ ان کے ہاں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی عالم ہوئے بغیر شیخ العرب و العجم بن سکتے ہیں۔ بریلویت اور دیوبندیت کے دونوں زاویوں کو ملا سکتے ہیں، ان کے ہاں پالن حقانی داعی کبیر بن سکتے ہیں، کلیم صدیقی عالم نہ ہوتے ہوئے دعوت دین کے اتھارٹی بن سکتے ہیں، عبدالکریم پاریکھ صاحب عربی جانے بغیر قرآن کریم کا ترجمہ کر سکتے ہیں، مفسر بن سکتے ہیں، تبلیغی جماعت کی ان پڑھ فوج داعی بن سکتی ہے۔ لیکن فتوی کی طلسماتی دنیا میں جینے والے مفتیان دیوبند کے نزدیک ذاکر نائک داعی نہیں بن سکتے ہیں کیوں کہ غیر مقلد ہیں، یہ فتوی نہیں دین کی دکانداری کا اشتہار ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائک بریلویوں اور شیعوں کے نزدیک دہشت گردی سے جڑے ہوئے ہیں، وہابی اور سلفی ہیں۔ بھگوا دہشت گردی بھی ان کا تعلق دہشت گردی سے جوڑتی ہے۔ ایران کے سعودی عرب مخالف رویے نے بریلوی اور شیعہ حضرات یا صوفی قبوری اور رافضی حلقوں کو ایک ساتھ جوڑ دیا ہے۔ در اصل وہابیت کوئی چیز ہے ہی نہیں یہ ایک سیاسی ہتھکنڈہ ہے جسے ایران ترکی اور مغربی استعماریوں نے احیاء اسلام کی جہود کو تاراج کرنے کے لیے استعمال کیا تھا اور تین صدیوں سے اس کا استعمال ہو رہا ہے۔
صوفیوں قبوریوں اور مقلدوں نے اسی ہتھکنڈے کو دعوت کتاب و سنت کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا اور کیے جارہے ہیں۔ اب ساری دنیا میں دعوت و کتاب و سنت اور داعیان کتاب و سنت کے خلاف ’’وہمی وہابیت‘‘ کے بینر تلے سارے صلیبی صہیونی رافضی صوفی قبوری بھگوا بریگیڈ اکٹھا ہو جاتے ہیں اور اب اکثر تحریکی بھی اس اسلام اور مسلم دشمنی ایکا کا حصہ بن جاتے ہیں۔
جو مساکین وہابیت کے ہجّے بھی نہیں جانتے میڈیا مباحثے میں، ٹی وی ٹاک پر وہ بھی چھجے دار ھدھدی، مشرومی ٹوپیان پہن کر آجاتے ہیں اور سامعین و قارئین کو ٹوپی پہنانا شروع کر دیتے ہیں اور سب کا بخار صرف سلفیوں اہل حدیثوں پر اترتا ہے۔ باطل پرستوں کی یہ جنگ جاری رہے گی ختم نہ ہوگی، نہ دعوت کتاب و سنت کا قافلہ تھکے گا نہ داعیان دعوت کتاب و سنت تھکیں اور ہاریں گے البتہ یہ سارے فرقے اور جتھے ضرور فنا ہو جائیں گے جو ان کو سانپوں کی طرح ڈستے اور بچھوؤں کی طرح ڈنک مارتے ہیں۔
رہ گئی بات مسٹر ذاکر کی تو واضح رہے وہ اہل حدیث یا سلفی نہیں ہیں وہ غیر مقلد ہیں۔ اہل حدیث ہونے اور غیر مقلد ہونے میں بڑا تفاوت ہے، عدم تقلید اہل حدیث کے لیے ایک گالی ہے، گمراہی کا فتوی ہے اور جو اہل حدیث کو غیر مقلد کہے وہ فاسق ہے، اہل حدیث کے نزدیک تقلید اور عدم تقلید دونوں گمراہی ہیں اور جوڑواں بہنیں ہیں۔
اہل حدیثیت اور سلفیت کا مطلب ہے دین کو سمجھنے اس پر عمل کرنے اور زندگی میں اسے نافذ کرنے کا وہ نظام جو رسول پاک ﷺ نے صحابہ کرام کو دیا اور بتلایا اور اس پر چلایا اور انھوں نے اسے اپنایا اور اس کو اپنی زندگی میں عملی طور پر نافذ کیا اور بعد میں اسے مستند تابعین اور تبع تابعین نے اپنایا۔ اسے قیامت تک کے لیے ایک مستند منہج بنا دیا گیا اور اسے اپنانے والوں کو کامیابی کی بشارت ملی۔ رسول پاک ﷺ نے دین دیا تو منہج دین بھی دیا، یعنی دین کو کیسے سمجھیں اور کیسے اس پر عمل کریں۔
تقلید کا مطلب ہے اصول کے بجائے رجال کو اور ان کی فکر و فہم کو مستند پیمانۂ رفض و قبول اور منہج فکر و عمل بنالیا جائے، اصول کے بجائے رجال کو اور ان کی فکر و فہم کو منہج فکر و عمل بنانے سے نقصان یہ ہوا کہ دین برحق کے بالقابل دین رجال کھڑا ہو گیا اور دین کی دکانداری شروع ہو گئی۔ اتباع رسول کے بجائے تقلید رجال شروع ہو گئی۔ پھر تقلید کی کئی شکلیں نمودار ہوئیں، تزکیہ نفس میں رجال کی تقلید، عقیدے میں رجال کی تقلید، فروعات یافقہ میں رجال کی تقلید۔ حق یہ تھا کہ انھیں اصول کی کسوٹی پر کسا پرکھا جاتا ہے۔ حق کو مان لیا جاتا اور باطل کو رفض کر دیا جاتا ہے۔ لیکن رجال میں غلو پسندی وہ رنگ لائی کہ رجال کی تقلید ہی مستقلا اصول اور ضوابط بن گئے اور پھر عقائد کو افکار و آراء رجال کی سطح پر اتار لایا گیا۔ قرآن وسنت کے نصوص کی حرمت اور حجیت ختم ہو گئی۔ تزکیہ کے نام پر چمتکار پھر رقص و سرود، روا، نسخ شریعت بجا، شریعت و طریقت کا باطل نظریہ لازم، قبر پرستی عبادت، غلو فی الرجال کے سبب اور رجال بالغیب کے عقیدے کے تحت رجال کی الوہیت و ربوبیت طے، عملی زندگی میں اباحیت طبقاتی نظام، دین کے نام پر جنگ دنیا داری اور دکانداری عام، یہ ہے تقلید کی کہانی، تقلید میں اہل تشیع کی ذہنیت بھی اہل سنت کہلانے والے مقلدین کی ذہنیت کی طرح ہوتی ہے۔
عدم تقلید کا مطلب ہے کسی نظام کو نہ ماننا صرف من مانی کرنا۔ خارجی عموما غیر مقلد ہوتے ہیں، خارجیت چاہے کلی ہو یا جزئی اسے علم راس نہیں آتا۔ کہا جاتا ہے کتے کو گھی ہضم نہیں ہوتی، ٹھیک اسی طرح خارجی کو علم نہیں ہضم ہوتا۔ اسے تفقہ بصیرت اور دینی سوجھ بوجھ سے دشمنی ہوتی ہے، یہ فریب خوردہ کرگسوں کی ٹیم ہیں۔ بس چند نعرے ان کا آسرا ہوتے ہیں۔ یہ جب اسلام کے سیاسی نظام سے بغاوت کرتے ہیں تو قتل و خونریزی اور تکفیر ان کی پہچان بن جاتی ہے اور جب جزئی خارجیت اختیار کرتے ہیں تو اسلام کے نظام تعلیم و تعلم اور علماء سے باغی ہو جاتے ہیں اور ہر سرپھرا دانشور، مفتی اور داعی بن جاتا ہے۔
سیکولرزم نے عدم تقلید کو بڑھاوا دیا اور ہر مدعی علم داعی مفتی خطیب مصلح اور دانشور بن گیا اور چند نعروں کی بنیاد پر انھیں دین کی ٹھیکیداری مل گئی۔ عجوبہ پسندی، تماش بین اور مداری پن پر دیوانگی نے جاہلوں اور عوام کو ایسا مہمیز کیا ہے کہ انھوں نے ایسے بے پڑھے لکھے داعیوں مفتیوں دانشوروں اور مصلحین کو سند دینا شروع کر دیا اور وہی دعوت، افتاء اور اصلاح کے اعمال کے متعلق فیصلے دینے لگے۔
عدم تقلید کو بڑھاوا تحریکیت سے سب سے زیادہ ملا۔ تحریکیت زدہ سارے لونڈے سرپھرے علم و بصیرت سے عاری اصلاح و دعوت کی ٹھیکیداری کے دعوی دار بن گئے، عجب کبر ان کے ریشے ریشے میں سما گیا، علوم دین اور علماء کا یہ باغی گروہ دین کے طے کردہ دعوت، افتاء خطابت، اصلاح تزکیہ و تربیت کے اصول و ضوابط اور ان اعمال کی استناد و ثقاہت کا دشمن بن گیا اور دین کے دئیے علماء کے درجات کا منکر ہو گیا اور علوم دینیہ کو نظر انداز کرنا اپنا وطیرہ بنا لیا۔ اس تحریکی رویے سے مسلم سماج و معاشرے میں وہ انتشار آیا کہ سارا دین اور دین کے مطابق سماجی تعلیمی اور عملی سیٹ اپ پارہ پارہ ہوگیا۔ مغربیت کا غضب کیا کم تھا۔ تحریکی غضب نے اندرونی طور پر مسلم سماج کے کچھ تعلیم یافتہ اعلی طبقے کو انتشار پسندی کا شکار بنا دیا۔اس نے اہل سنت کے متفقہ عقائد کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ عصرانیت اپنا کر حالات کے مطابق کبھی یہ معتزل کبھی ملحد، کبھی منکر حدیث، کبھی منکر صحابہ، کبھی خارجی، کبھی شیعہ، کبھی علمانی بنتے پھرے اور لاکھوں مسلمانوں کی خونریزیز کی یا خونریزی کا سبب بنے۔
اس وقت سارے عالم میں سب سے بڑا خطرناک مسلم سماج اور معاشرے کے لیے یہی عدم تقلید ہے جس علمانیت اور تحریکیت نے پروان چڑھایا ہے اور اسے پنپنے کا موقع دیا ہے۔ وقت کے غیر مقلدین، جہالت کی سواری، نعروں کے رسیا، نعروں پر مرنے جینے والے علم کے دشمن علوم دینیہ سے عناد رکھنے والے، علماء کے باغی و دشمن دعوت و جہاد افتاء و اصلاح کے اصول و ضوابط کے منکر اور ان کی انجام دہی کی استناد و ثقاہت سے بے پروا، جگہ جگہ دعوت و افتاء کی دکانیں کھولے بیٹھے ہیں۔
سارے غیر مقلدین سیکولر تعلیم یافتہ اور تحریکی ہیں اور تحریکی نہیں تو سیکولر تعلیم یافتہ انٹرنیٹ ملا ہیں۔ سارے غیر مقلدین نظریاتی طور پر خارجی ہوتے ہیں اور جب یہ عملی خاجیت اختیار کرتے ہیں اور محدود دائرے میں رہتے ہیں تو علماء کے متعلق فتوی دیتے ہیں۔ انھیں گمراہ جاہل بتاتے ہیں اور عوام میں یہ علماء کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں اور یہ جہلاء ہر شے میں فتوی دینے لگتے ہیں۔ خود گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں۔ تحریکی غیر مقلدین ہر جگہ اپنے سوا کسی کو مانتے نہیں اور غیر تحریکی غیر مقلدین ہندوستان کے متعلق کہتے ہیں کہ یہاں عالم ہیں ہی نہیں ملک سے باہر کسی ملک کے کسی سرپھرے کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
ذاکر نائک صاحب انھیں غیر تحریکی غیر مقلدین میں سے ایک ہیں۔ رافضی بریلوی اور بھگوا نقطۂ نظر جو ان کے متعلق ہے وہ سو فیصد غلط ہے۔ دیوبندی نقطۂ نظر اس حد تک صحیح ہے کہ وہ غیر مقلد ہیں لیکن وہ جناب کو اہل حدیثوں میں محسوب کریں یہ ان کا فسق ہے، ذاکر نائک کو دہشت گردی سے جوڑنے والے جھوٹے، پاپی، حاسد اور جاہل ہیں اور شدید مذمت کے مستحق ہیں۔
ذاکر نائک کو تماش بینوں نے داعی عظیم، عالم کبیر اور مفتی ماہر بنا دیا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ وہ نہ عربی جانتے ہیں نہ علوم دینیہ سے آگاہ ہیں، قرآن کی ایک آیت صحیح طرح ان سے نہیں پڑھی جاتی نہ انھیں اردو آتی ہے، ہمارے احباب مدنی علماء کرام جو ان کے ادارے میں کام کرتے تھے ان کی تفصیلات کے مطابق وہ خود کو علوم دینیہ سے بے خبری کے باوجود مجتہد اعظم سے کم نہیں جانتے۔ درجنوں دینی مسائل میں وہ اپنی الگ رائے بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی دینی جانکاری بس اتنی ہے، مدنی علماء ان کے لیے مختلف موضوعات پر تقریریں لکھتے تھے یہ ان کا انگریزی ترجمہ کرکے رٹتے تھے موضوع پر سوالات تیار کرواتے تھے ان کے جوابات تیار کرواتے تھے اور رٹتے تھے۔ تب پبلک میں آکر آموختہ سناتے تھے اور مفتی بنتے تھے۔ علماء کرام کی یہی لکھی ہوئی تقریریں اور جناب کی رٹی ہوئی کل ان کا سرمایہ علم ہیں، اسی آموختہ کی بناء پر اب وہ مفتی بھی ہیں داعی کبیر بھی ہیں اسکالر بھی ہیں، خطیب بھی ہیں، مصنف بھی ہیں۔ ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آدمی گاڑی چلائے لیکن نہ اسے راہ و منرل کا پتہ ہو، نہ ڈرائیوری میں مہارت ہو، ایسے آدمی کے متعلق ہر وقت یہ ڈر ہوتا ہے کہ کب راستہ بھول جائے اور کب کسی کھڈ میں گر جائے۔
ان کو احمد دیدات کی رہنمائی میں تقابل ادیان کا شوق پیدا ہوگیا ہے۔ دراصل تقابل ادیان ایک ’’استشراقی موضوع‘‘ ہے۔ مسلمانوں کے لیے حرام ہونا چاہیے کہ یہ موضوع اٹھائیں۔ رسول گرامی ﷺ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر سخت ناراض ہوئے جب انھوں نے آپ کے سامنے تورات کے کچھ اوراق لاکر پڑھنا شروع کیا، آپ نے فرمایا ’’لوکان موسی حیا ما وسعہ الا اتباعی‘‘ (اگر موسی زندہ ہوتے تو انھیں میری اتباع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا)۔
دین محمدی آخری ہدایت الٰہی ہے، اس سے پہلے انبیاء کی ساری تعلیمات و کتب منسوخ ہیں۔ ارشاد ربانی ہے : ’’ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الآخرۃ من الخاسرین‘‘۔ اسلام کے سوا دیگر دین کو ماننا ناقابل قبول ہے اور ایسا انسان آخرت میں خسارہ یاب ہے۔
تقابل ادیان کا موضوع اس وقت فیشن کا موضوع بنا ہوا ہے، دین میں جن کو مہارت نیہں ہے وہ تقابل ادیان کے ذریعے دیگر باطل اور منسوخ ادیان کو استناد عطا کرتے ہیں اور فتنہ بنتے ہیں۔ ہمارے علی گڑھ میں ایک صاحب پر غیر مسلموں کے درمیان دعوت و تبلیغ کا بھوت سوار ہوا۔ انھوں نے ہندوستانی ادیان اور اسلام کے درمیان موازنے کا شوق پالا اور باطل ادیان کی تائید کرنے لگے بلکہ سب کو حق مان لیا اور فتوی دینے لگے جیسا ہرے راما کرشنا والے کہتے ہیں مذہب تو سب برابر ہیں۔ وہ اس حد تک آگے نکل گئے کہ کہنے لگے رامائن یا گیتا یا بائبل یا قرآن جو بھی صلاۃ میں پڑھو صلاۃ کی ادائیگی ہو جائے گی سب اللہ کا کلام ہیں۔ اس تقابل ادیان کے سبب بہت سے غیر مسلم اسلام قبول کرنے سے باز رہے اور اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوگئے۔ مذہب تو برابر ہیں جہلا کے تقابل ادیان کا نتیجہ یہی ہے۔ ذاکر صاحب کو بھی تقابل ادیان کا بڑا شوق ہے۔ سوچنے کی بات ہے جن ادیان کو اللہ تعالی نے عملی اعتبار سے زیرو بنا دیا، ان کی اسلام سے کیا نسبت کیا زیرو اور ہیرو کا مقابلہ ہو سکتا ہے۔ وقت ضرورت علماء کبار ایسا کر سکتے ہیں جیسے علامہ ابن تیمیہ، قاضی سلیمان منصورپوری اور مولانا امرتسری رحمہم اللہ نے کیا۔ جن کو نہ اسلام کی تعلیمات کی صحیح اور مستند جانکاری ہے نہ دیگر ادیان کی وہ کیوں اس موضوع کو کھیل بنائیں۔ ذاکر صاحب کی ایک بڑی الجھن یہ بھی ہے کہ خود کو داعی کبیر، مفتی عظیم دکھلانے کا اتنا شوق رکھتے ہیں کہ مکرو فریب بھی خوب کرتے ہیں۔
داعی اعظم بننے کے بعد یہ ماہر تعلیم بھی بن گئے اور ہائی اسکائی معیار کا توہماتی اسکول کھولا اور فیس ۲۵؍ہزار سے چالیس ہزار ماہانہ۔ جس ملک میں ۶۰؍فیصد مسلم بچے شہروں میں اسکول نہیں جا سکتے، ایک خیراتی ادارے کی یہ فیس، یہ جیب تراشی ہوئی یا ڈکیتی!! اور نصاب تعلیم چوں چوں کا مربہ اصلاتعلیم سیکولر اور نام اسلامک مشن اسکول۔ ان کی دیکھا دیکھی کئی جگہوں پر اسی طرح کے فراڈ ماہر تعلیم اور فراڈ اسکول قائم ہو گئے ملت کے بچوں اور والدین سے کھلواڑ کرنے کے لیے۔
اور مشکل یہ ہے ایسے فراڈ لوگوں کو سعودی اداروں سے پشت پناہی مل جاتی ہے۔ پتہ نہیں کس مٹی کے بنے ہیں ان کے ذمہ دار کہ سارے جھوٹے فراڈی منافقین اور مکار وہیں رسائی بنا لیتے ہیں۔ہندوستان کی حد تک تو یہی دیکھنے میں آرہا ہے، یہ سارے پیٹو اور جیبو ملت کے اندر کرپشن فساد اور دین فروشی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں اور جیبی سائز ادارے کھول کر ضمائر خریدتے اور خیانت کا بازار گرم کرتے ہیں اور جب ان کے کرتوت نمایاں ہوتے ہیں تو سعودی اداروں کو افسوس ہوتا ہے۔ یہ اللہ والے انجام سوچے بغیر دین و ملت اور انسانیت کی خدمت کے جذبے میں دست تعاون بڑھا دیتے ہیں، ہم فیجی میں تھے تو پتہ چلا تونگا جزیرے میں یہودی بھی خود کو مسلمان بتاکر سعودی عرب سے تعاون لے آئے۔
ذاکر نائک سے گزارش ہے کہ فراڈ کا رویہ ترک کیجیے۔ فریب کاریوں اور دنیاداریوں سے توبہ کر لیجیے غیر مقلدیت چھوڑ کر اہل حدیث بن جائیے، مستند علماء کی زیر نگرانی میں کام کیجیے جس حد تک آپ کو علم ہے اخلاص سے دعوت کا کام کیجیے، دعاۃ اور علماء کی ٹیم تیار کیجیے اور چندہ کے پیسوں کو جائز جگہوں پر استعمال کیجیے، شفافیت کو ہاتھ سے جانے نہ دیں، خیرات کے پیسے امانت ہیں، ذاتی ملکیت نہیں ہیں اور جتنا علم ہے اسی میں رہیں۔ غیر مقلد بن کر دین کو بیچیں کھائیں گے تو ایک کلٹ (CULT) بن کر مسلمانوں کی گمراہی کا سامان بن جائیں گے۔ امید ہے کہ ذاکر صاحب ہماری باتیں سنیں گے اور اپنے استاذ احمد دیدات کی طرح انکساری اختیار کریں گے اور اخلاص کو اپنا لیں گے ان سے کوئی فتوی پوچھتا تھا تو صاف کہہ دیتے تھے میں عالم نہیں ہوں علماء سے رجوع کیجیے۔
علماء اہل حدیث سے گزارش ہے کہ تمام سیکولر تعلیم یافتہ غیر مقلد جو اہل حدیثوں میں محسوب ہوتے ہیں ان کو مستند علماء کی نگرانی میں لانے کی کوشش کریں اور جو نہ مانیں ان کی خارجیت کی مذمت کریں اور ان کا بائیکاٹ کریں اور عوام کو ان کی طرف دھیان دینے سے بھی روکیں اور خبردار کریں۔ یہ وقت کا بہت بڑا فتنہ ہیں، انتشار امت کا سبب اور گمراہی کی اشاعت کا سبب۔
اصل قرآن و سنت کے اصول و ضابطے اور تعلیمات ہیں، ساری دعوتی افتائی تحریری تقریری سرگرمیاں اگر ان کے مطابق ہیں تو قابل قبول، ثمر آور مستند اور معتبر اور اگر ان کے مطابق نہیں ہیں تو فقط ہوس، فتنہ اور ذرۂ بے مقدار، مسلک حق کو بدنام کرنے کا ذریعہ اور اس کی شناخت مٹانے کے درپے، دین کے نام پر ساری غیر معتبر سرگرمیاں چاہے کسی جاہل سے سرزد ہوں چاہے عالم سے، فضاؤں میں انجام پائیں یا زمین پر، ممبر سے ادا ہوں یا ٹی وی سے سب مرفوض و مردود۔ دین میں مداری پن، دکھاوا، تماشا، ہوس زر، ہوس شہرت سخت معیوب ہیں۔
عوام اور رجال الشارع کے قبول تجیذ و تنکیر کا کوئی اعتبار نہیں۔ کم از کم علماء کو جائز اور معتبر اور مخلصانہ دینی جہود اور مداری پن و تماشا کے درمیان امتیاز کرنے کی صلاحیت کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
دعوت و تبلیغ پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے ایک جاہل مسلمان بھی دعوت و تبلیغ کر سکتا ہے لیکن اپنی صلاحیت بھر، اتھارٹی اور سند بننے کا دعوی نہیں کر سکتا۔ وہ بھی کہہ سکتا ہے صلاۃ ادا کرو، موحد بنو، دین کی پابندی کرو، اللہ کی محبت اور رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرو وغیرہ وغیرہ لیکن تفصیلات علماء کے حوالے۔ اسی طرح ایک سیکولر تعلیم یافتہ انکسار و تواضع کے ساتھ عمومی دین کی باتوں کی تبلیغ کر سکتا ہے اتھارٹی نہیں بن سکتا، تفصیلات علماء کے ذمہ۔ بالکل اسی طرح ذاکر نائک بھی عمومی دعوت و تبلیغ کر سکتے ہیں اسکالر اور اتھارٹی بننے کا ناٹک نہیں کر سکتے۔ ان کی عمومی دعوت میں اللہ تعالی وہ برکت دے سکتا ہے کہ سارے دیوبندی بریلوی اور شیعہ اس میدان میں ان سے پیچھے رہ جائیں، اخلاص، معرفت ذات اور تواضع شرط ہے۔ تماشا گیری، مداری پن، دنیا داری اور مکاری سے اجتناب لازم ہے۔
اور اگر اسلامی اسکالر بننے، دین میں سند بننے کا جذبہ ہے تو عربی زبان سیکھیں، علوم اسلامیہ میں مہارت پیدا کریں، پھر مستند عالم بن کر بات کریں، یہ ان کا حق ہے ان علوم پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ مستشرقین سارے کے سارے شیطان کے چیلے ہوتے ہیں۔ دین میں نقص نکالنے کے لیے وہ عربی اور علوم دینیہ سیکھ سکتے ہیں تو یہ کیوں نہیں، سستی شہرت اور سستے ایوارڈ کو یہ کیوں سب کچھ سمجھتے ہیں اور پبلک کو بے وقوف بناتے ہیں۔
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شیخ عبد المعید سلفی صاحب حفظہ اللہ ، کو ذاکر نائیک سے پتہ نہیں ، اتنی ’ خار ‘ کیوں ہے ؟!
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
شیخ معید کو اہل حدیث کا دفاع کرنا چاہئے نہ کہ مخالفت ۔ ہاں جو اصلاح کے قابل ہو اچھے ڈھنگ سے اس کی اصلاح کریں۔
 
شمولیت
اپریل 07، 2011
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
73
شیخ عبد المعید سلفی صاحب حفظہ اللہ ، کو ذاکر نائیک سے پتہ نہیں ، اتنی ’ خار ‘ کیوں ہے ؟!
دراصل برصغیر کے بہت سے اہل حدیث رد عمل میں آکر لا شعوری طور پر حزبیت کا شکار ہو گئے ہیں اور یہ ایک پریشان کن بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ اہل حق کو صرف حق کے لئے ولاء و براء قائم کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔
 
شمولیت
اپریل 07، 2011
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
73
عدم تقلید کا مطلب ہے کسی نظام کو نہ ماننا صرف من مانی کرنا۔
عدم تقلید کا یہ ایک نیا معنی اور مفہوم شیخ عبد المعید مدنی حفظہ اللہ نے جانے کہاں سے نکالا ہے ، عدم تقلید کا معنی ہے کسی کی بات کو بلا دلیل و حجت قبول نہ کرنا
رہ گئی بات مسٹر ذاکر کی تو واضح رہے وہ اہل حدیث یا سلفی نہیں ہیں وہ غیر مقلد ہیں
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب حفظہ اللہ اہل حدیث ، سلفی اور غیر مقلد ہیں
دراصل تقابل ادیان ایک ’’استشراقی موضوع‘‘ ہے۔ مسلمانوں کے لیے حرام ہونا چاہیے کہ یہ موضوع اٹھائیں
یہ فتوی دراصل تقابل ادیان کے صحیح مفہوم سے نا آشنائی کا نتیجہ ہے
سوچنے کی بات ہے جن ادیان کو اللہ تعالی نے عملی اعتبار سے زیرو بنا دیا، ان کی اسلام سے کیا نسبت کیا زیرو اور ہیرو کا مقابلہ ہو سکتا ہے۔
دراصل شیخ صاحب حفظہ اللہ یہ سمجھے ہیں کہ تقابل ادیان کا مطلب تمام ادیان کو برابر قرار دینا ہے ، یقیناً مستشرقین کے ہاں یہ مفہوم رہا ہو گا ، لیکن ذاکر نائیک صاحب حفظہ اللہ نے کبھی کسی دین کو اسلام کے برابر قرار نہیں دیا ، بلکہ ان کے نزدیک تقابل ادیان سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی مذہب کی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے وہ اسے اسلام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اسلام کی روشنی میں اس کی کجی واضح کرتے ہیں ، اس کی مثال یوں سمجھئے کہ کوئی زرگر اصلی اور نقلی سونے کو اکٹھا رکھ کر گاہک کو دکھائے کہ دیکھو بھائی اصلی سونے کی یہ خصوصیات ہیں اور نقلی سونے کی یہ علامتیں ۔
قت ضرورت علماء کبار ایسا کر سکتے ہیں جیسے علامہ ابن تیمیہ، قاضی سلیمان منصورپوری اور مولانا امرتسری رحمہم اللہ نے کیا۔
گویا شیخ صاحب حفظہ اللہ کو اعتراض تقابل ادیان کے موضوع پر نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ اس موضوع پر بات ذاکر نائیک صاحب کیوں کرتے ہیں ، تو ان سے بصد ادب گزارش ہے کہ جب آپ ایسے پختہ اہل علم یہ کام نہیں کریں گے تو کسی کو تو کرنا ہو گا ، میدان میں آئیے اور اس فریضے کو سرانجام دیجئے
دین کے نام پر ساری غیر معتبر سرگرمیاں چاہے کسی جاہل سے سرزد ہوں چاہے عالم سے، فضاؤں میں انجام پائیں یا زمین پر، ممبر سے ادا ہوں یا ٹی وی سے سب مرفوض و مردود۔
تو شیخ محترم پھر چڑھائی صرف ذاکر نائیک صاحب پر ہی کیوں ؟؟؟
دعوت و تبلیغ پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے ایک جاہل مسلمان بھی دعوت و تبلیغ کر سکتا ہے
لیکن صرف ذاکر نائیک صاحب نہیں کر سکتے
لیکن اپنی صلاحیت بھر، اتھارٹی اور سند بننے کا دعوی نہیں کر سکتا۔
میں نے ذاکر نائیک صاحب کے جتنے پروگرام دیکھے ہیں کبھی کسی ایک میں بھی انہوں نے خود کو اتھارٹی اور سند قرار نہیں دیا ، بلکہ وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ ’’ میں زیرو ہوں ‘‘
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
یہ سب جو هو رہا هے یا ہم کہتے ہیں یا ہم سے کہلوایا جا رہا هے ، کوئی مانے نا مانے ، یہی مطلوب هے اور اسی کی خواهش ہر مخالف اسلام رکهتا هے ۔ ہماری اپنی تقسیم اور کیا هی خوب منصوبہ هیکہ همارے اپنے هاتهوں ۔
هم ہیں کہ سمجهنا ہی نہیں چاہتے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ سمجهتے بوجهتے اور جان کر مخالفین کے ٹریپ کا شکار هوئے جا رہے هیں ۔
واللہ المستعان
 

Ukashah

رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
53
ری ایکشن اسکور
214
پوائنٹ
65
انڈیا کے موجودہ حالات کے تناظر میں لکھی گئی ایک اچھی تحریر ہے ۔ اختلاف کی گنجائش بہرحال موجود ہے ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
شیخ عبد المعید سلفی صاحب حفظہ اللہ ، کو ذاکر نائیک سے پتہ نہیں ، اتنی ’ خار ‘ کیوں ہے ؟!
محترم شیخ!
خار تو نہیں لیکن اختلاف بہرحال موجود ہے. اور شیخ حفظہ اللہ پہلے نہیں ہیں جنھوں نے ڈاکٹر حفظہ اللہ سے اختلاف کیا. بلکہ اس سے پہلے کئ جید اہلحدیث علماء اختلاف کر چکے ہیں.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب حفظہ اللہ اہل حدیث ، سلفی اور غیر مقلد ہیں
محترم اپنی معلومات دوبارہ جانچ لیں. ڈاکٹر صاحب اہلحدیث یا سلفی بالکل نہیں ہیں. بلکہ یہ اس کے خلاف ہیں. کچھ نوجوان انکی اسی بات سے متاثر ہو کر کہتے ہیں کہ اپنے آپکو اہل حدیث یا سلفی کہلوانا فرقہ واریت پھیلانا ہے. اور اپنے آپکو صرف مسلمان کہنا چاہیۓ. واللہ اعلم بالصواب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم شیخ!
خار تو نہیں لیکن اختلاف بہرحال موجود ہے. اور شیخ حفظہ اللہ پہلے نہیں ہیں جنھوں نے ڈاکٹر حفظہ اللہ سے اختلاف کیا. بلکہ اس سے پہلے کئ جید اہلحدیث علماء اختلاف کر چکے ہیں.
میری ناقص سوچ کے مطابق مجھے اس انداز کا محرک صرف ’ اختلاف ‘ نہیں لگا ، میں شیخ عبد المعید مدنی صاحب کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں ، اس لیے ان کی ہر تحریر کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں ، ذاکر نائیک کے بارے میں ان کے خیالات اور طرز اسلوب ان کی ’ عالمانہ و بزرگانہ ‘ شان کے منافی محسوس ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
 
Top