• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فاتحہ خوانی اور نیاز حرام ہے ؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ایصال گناہ کو جواب تو یوسف ثانی صاحب نے ارشاد فرمادیا میں یہاں صرف ایصال ثواب کی دلیل عرض کئے دیتا ہوں

يا رسولَ اللهِ ! إنَّ أمي ماتت ، أفأتصدقُ عنها ؟ قال : نعم . قلتُ : فأيُّ الصدقةِ أفضلُ ؟ قال : سقْيُ الماءِ
الراوي : سعد بن عبادة | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح النسائي

الصفحة أو الرقم: 3666 | خلاصة حكم المحدث : حسن

خلاصہ یہ کہ حضرت سعد عبادہ جو کہ ایک جلیل قدر اور سخی صحابی ہیں اور یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے ابوبکر کی بعیت نہیں کی تھی انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے اپنی والدہ مرحومہ کو ایصال ثواب کرنے کےلئے ایک کنواں بنوا دیا تھا۔ جو بایں نام سے مشہور ہوگیا تھا۔ کہ کنویں کا ثواب سعد کی ماں کےلئے ہے۔

اور ایک دلیل آپ کے گھر کی بھی ہوجائے تاکہ آپ کے لئے ایسے قبول کرنے میں مزید آسانی ہوجائے
مولوی ثناء اللہ امر تسری اپنے کتاب "فتاویٰ ثنائیہ " میں لکھتے ہیں کہ
نذرا للہ کا ثواب میت کو پہنچانا جائز ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے۔ هذا لام سعد
فتاویٰ ثنائیہ،جلد 01 ص 108
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ میت کیلئے صدقہ جاریہ ۔۔بشکل پانی کا کنواں ۔۔اولاد کی طرف سے ہوسکتا ہے ؛
یعنی اولاد والدین کیلئے کنواں لگا کر ثواب کا ذریعہ بنا سکتی ہے ؛

لیکن۔۔۔۔کتنا دجل ۔۔اور ۔۔فریب ہے کہ اکثر اسی حدیث شریف کو ۔۔تیجے ،چالیسویں ،اور جمعرات کے کھانے کی دلیل بنا کر پیش کیا جاتا ہے
اور سادہ لوح مسلمانوں کو ۔۔اس دجل ۔۔سے الو بنایا جاتا ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ویسے اپنے دجل وفریب کے آشکار ہونے پر اس طرح غصے میں آنا آپ کا حق اور عین فطرت کے مطابق ہے اور مشاہدہ بھی یہی کیا جاتا کہ جب کسی کا جھوٹ پکڑا جائے تو وہ بہت غصے میں آکر شور مچاتا اور ایسے ہی موقع پر شاید یہ محاورہ بولا جاتا ہے کہ " چور مچائے شور"
آپ نے سوال کچھ اس طرح تحریر کیا تھا

جبکہ اصل میں سوال کچھ اس طرح ہے

آپ خود ہی ملاحظہ فرمالیں کہ کتنا فرق ہے
میاں صاحب جب آپ نے ہماری پوسٹ میں مولوی احمد رضا بریلوی کا فتوی جمعرات شریف کے رد میں دیکھا تو گھبراہٹ میں یہی فتوی ہاتھ خود دوبارہ سجا سنوار کر پیش کردیا ۔۔۔یہ دیکھے بغیر کہ اب ۔۔تیجے ،اور جمعرات شریف کی خیر نہیں ۔۔۔
تو ہم آپ کی فرمائش پر اس تیجا توڑ اور جمعرات شکن فتوی کو مزید ’’ نکھار کر ‘‘پیش کرتے ہیں ؛
مولوی احمد رضا خان عرف امن میاں کسی دن حقہ شریف کے بغیر بے مزہ بیٹھے تھے ،کہ باد نکہت بہاری کو اٹھکھیلیاں سوجھیں ،،،اور ایک سائل نے میت کے یہاں
مروجہ کھانے کی ’‘ شرعی حیثیت ’‘ پوچھ ڈالی ۔
مولوی احمد رضا چونکہ حقہ شریف کی عدم دستیابی کے سبب ’’ بھرے بیٹھے ‘‘ تھے ،انہوں نے ’’ غصہ شریف ‘‘ میں ’’ جمعرات اور تیجے شریف کی وہ خبر لی کہ الامان و الحفیظ ‘‘
فتوی میں میت والوں کے کھانا کھانے کی ’‘شناعت ‘‘ میں چن چن کر حدیث و فقہ کے دلائل شریفہ جمع کر کے لکھ ڈالے ؛
اور فتوی شریف میں درج ذیل حدیث تو فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے :
’’ اولاً یہ دعوت خود ناجائز وبدعت شنیعہ قبیحہ ہے۔ امام احمد اپنے مسند اور ابن ماجہ سنن میں بہ سند صحیح حضرت جریر بن عبداللہ بجلی سے راویت ہے:
کنا نعد الاجتماع الی اھل المیّت وصنعۃ الطعام من النیاحۃ ۱؎۔
ہم گروہِ صحابہ اہل میّت کے یہاں جمع ہونے اور ان کے کھانا تیار کرانے کو مردے کی نیاحت سے شمار کرتے تھے۔
(۱؎ مسند احمد بن حنبل مروی از مسند عبداللہ بن عمرو دارالفکر بیروت ۲ /۲۰۴)
(سنن ابن ماجہ باب ماجاء فی النہی عن الاجتماع الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۱۷)
کتنی واضح حدیث پاک ہے کہ :میت کے گھر جمع ہونا ،اور وہاں کھانے کی دعوت اڑانا ۔۔اسی طرح حرام و ممنوع ہے ،جس طرح نوحہ خوانی حرام اور قبیح ہے ؛
اب اس حدیث جسے تم نے اور احمد رضا نے دلیل بنایا ہے، اس میں پہلے دوسرے دن کی تخصیص نہیں ؛اور نہ سود سے لئے گئے پیسے سے دعوت کے کھانے کی بات ہے،میت کے ہاں سے کسی دن بھی کھاو ، وہ اس حدیث شریف کی رو سے حرام ہی ہوگا ؛
کتنا دجل اور فریب ہے کہ ظالم مولوی اور ان کے گمراہ پیروکار ۔۔مرنے والے کے گھر کو اپنے دادا جی کا ڈیرہ سمجھ کر روزانہ ،اور ہر جمعرات اور تیجے پر یتیم اور بیوہ کے مال کو اڑانے پہنچ جاتے ہیں ؛
حالانکہ بے چارہ مولوی احمد رضا صاحب، حدیث شریف کے ساتھ ساتھ ’’ اپنی فقہ شریف ‘‘سے بھی ثابت کرتے ہیں ،کہ میت کے گھر اجتماع ،اور وہاں سے کھانا کھانا سخت برا کام ہے ۔بیچاری بیوہ ،اور یتیموں کا مال مت لٹاو ۔۔اللہ سے ڈرو ان پر رحم کرو،
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ایصال گناہ کو جواب تو یوسف ثانی صاحب نے ارشاد فرمادیا میں یہاں صرف ایصال ثواب کی دلیل عرض کئے دیتا ہوں

يا رسولَ اللهِ ! إنَّ أمي ماتت ، أفأتصدقُ عنها ؟ قال : نعم . قلتُ : فأيُّ الصدقةِ أفضلُ ؟ قال : سقْيُ الماءِ
الراوي : سعد بن عبادة | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح النسائي

الصفحة أو الرقم: 3666 | خلاصة حكم المحدث : حسن

خلاصہ یہ کہ حضرت سعد عبادہ جو کہ ایک جلیل قدر اور سخی صحابی ہیں اور یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے ابوبکر کی بعیت نہیں کی تھی انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے اپنی والدہ مرحومہ کو ایصال ثواب کرنے کےلئے ایک کنواں بنوا دیا تھا۔ جو بایں نام سے مشہور ہوگیا تھا۔ کہ کنویں کا ثواب سعد کی ماں کےلئے ہے۔

اور ایک دلیل آپ کے گھر کی بھی ہوجائے تاکہ آپ کے لئے ایسے قبول کرنے میں مزید آسانی ہوجائے
مولوی ثناء اللہ امر تسری اپنے کتاب "فتاویٰ ثنائیہ " میں لکھتے ہیں کہ
نذرا للہ کا ثواب میت کو پہنچانا جائز ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے۔ هذا لام سعد
فتاویٰ ثنائیہ،جلد 01 ص 108
محترم بہرام صاحب -

پہلے آپ اپنے دلائل کے حق میں دی گئی اس حدیث کا صیح طور پر مطالعہ تو کرلیتے - یہ حدیث صیح بخاری میں بھی ہے اور اس میں الله کے نبی نے حضرت سعد بن عبادہ رضی الله عنہ کو ان کی والدہ کی مانی ہوئی منّت پوری کرنے کی اجازت دی تھی جو انہوں نے اپنی وفات سے پہلے مانی تھی -

ابن عباس ؓ نے خبر دی ، انہیں سعد بن عبادہ ؓ نے بتای اکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نذر کے بارے میں پوچھا جو ان کی والدہ کے ذمہ باقی تھی اور ان کی موت منت پوری کرنے سے پہلے ہو گئی تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ماں کی طرف سے مانی گئی منّت پوری کر دیں ۔ چنانچہ بعد میں یہی طریقہ مسنون قرار پایا ۔ صحیح بخاری ، کتاب الایمان والنذور-

منت مُردے کے سر سے اس قرض کو اتارنے کے لئے پوری کی جاتی ہے جسکا مرنے والے نے خود اپنی زندگی میں اللہ سے وعدہ کیا لہذا منت یا نذر کے حوالے سے ہر حدیث میں یہی ملتا ہے کہ اولاد کو علم تھا کہ مرنے والے والدین نے کوئی منت مانی لیکن پوری نہیں کر پائے لہذا حکم دیا گیا کہ پورا کرو۔

جب کہ ایصال ثواب میں کئے جانے والے نیک کام کا ثواب مردے کو بخشنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے یعنی آپ اپنے طور سے ہی نیکیاں کر کر کے انکا ثواب مرنے والے کے کھاتے میں ڈالتے رہیں تاکہ اسکے گناہ کم ہو جائیں اور ثواب زیادہ، بھلا یہ کیونکر ممکن ہے؟ یعنی اگر ایک امیر لیکن انتہا کے گناہگار اور ظالم انسان کی وفات کے بعد اگر اسکے لواحقین پیسہ پانی کی طرح بہا دیں اور ہزاروں قران پڑھ کر انکا ثواب اسے ارسال کر دیں اور صدقے کی دیگ پر دیگ چڑھائیں تو کیا اس سب سے اسکی مغفرت ہو جائے گی یعنی اسکے لئے بھیجے گئے ثواب کے کاموں یا نیکیوں کی تعداد اسکے عمر بھر کے گناہوں اور ظلم و زیادتیوں سے بڑھ جائیں گے اور دوسری طرف ایک غریب گناہگار آدمی صرف اسلئے جہنم میں جھونک دیا جائے گا کیونکہ اسکے پیچھے ایصال ثواب کی صورت میں ڈھیروں نیکیاں نہیں بھیجی گئیں؟ کیا اللہ کے نظام کے ساتھ اس طرح سے کھلواڑ کیا جا سکتا ہے؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ میت کیلئے صدقہ جاریہ ۔۔بشکل پانی کا کنواں ۔۔اولاد کی طرف سے ہوسکتا ہے ؛
یعنی اولاد والدین کیلئے کنواں لگا کر ثواب کا ذریعہ بنا سکتی ہے ؛

لیکن۔۔۔۔کتنا دجل ۔۔اور ۔۔فریب ہے کہ اکثر اسی حدیث شریف کو ۔۔تیجے ،چالیسویں ،اور جمعرات کے کھانے کی دلیل بنا کر پیش کیا جاتا ہے
اور سادہ لوح مسلمانوں کو ۔۔اس دجل ۔۔سے الو بنایا جاتا ہے
اس کا کیا کریں کہ گھر کے بھیدی نے ہی لنکا کو ڈھا دیا یہ کہہ کر کہ

نذرا للہ کا ثواب میت کو پہنچانا جائز ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے۔ هذا لام سعد
کیا یہاں بھی مولوی صاحب حقہ شریف کی عدم دستیابی کے سبب ’’ بھرے بیٹھے ‘‘ تھے ،انہوں نے ’’ غصہ شریف ‘‘ میں اس حدیث سے صدقہ جاریہ کی بجائے نذر اللہ کا ثواب میت کو پہچانے کو جائز قرار دے دیا اور دلیل میں وہی حدیث پیش فرمادی جس سے آپ صدقہ جاریہ کا باطل استدلال فرمارہیں
اب یہ ۔۔۔۔کتنا دجل ۔۔اور ۔۔فریب ہے کہ اکثر اسی حدیث شریف کو ۔۔صرف صدقہ جاریہ کی دلیل بنا کر پیش کیا جاتا ہے
اور سادہ لوح مسلمانوں کو ۔۔اس دجل ۔۔سے الو بنایا جاتا ہے


 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
امام احمد اپنے مسند اور ابن ماجہ سنن میں بہ سند صحیح حضرت جریر بن عبداللہ بجلی سے راویت ہے:
کنا نعد الاجتماع الی اھل المیّت وصنعۃ الطعام من النیاحۃ ۱؎۔
ہم گروہِ صحابہ اہل میّت کے یہاں جمع ہونے اور ان کے کھانا تیار کرانے کو مردے کی نیاحت سے شمار کرتے تھے

كنَّا نعُدُّ الاجتماعَ إلى أهلِ الميِّتِ وصَنيعةِ الطَّعامِ بعدَ دَفنِهِ مِنَ النِّياحَةِ
الراوي : جرير بن عبدالله | المحدث : أحمد شاكر | المصدر : مسند أحمد

الصفحة أو الرقم: 11/126 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح

جریر بن عبد اللہ کا اثر، وہ کہتے ہیں کہ: "ہم اہل میت کیلئے اکٹھا ہونا ، اور ان کے کھانا تیار کرانے کو مردے کی نیاحت سے شمار کرتے تھے
اس حدیث میں جریر بن عبداللہ بجلی کی ایک رائے پیش کی گئی ہے کہ جس نکات یہ ہیں
اول : اہل میت کے یہاں جمع ہونا
دوم : اہل میت سے کھانا تیار کروانا ( نوٹ یاد رہے یہاں صرف کھانا تیار کروانے کی بات کی گئی ہے کھانا کھانے کی نہیں )
سوم: اور یہ دونوں امر ان کے نزدیک نوحہ گری کی طرح تھے
لیکن جب میں آپ کی اصح کتاب بعد کتاب اللہ کا مطالعہ کرتا ہوں تو میں حیرت کے سمندر میں غرق ہوجاتا ہوں جریر بن عبداللہ جن امور کو نوحہ گری شمار فرمارہے ہیں وہ دونوں امور حضرت امی عائشہ خود انجام دیتی ہوئی نظر آتی ہیں
ترجمہ داؤد راز
ہم سے یحییٰ بن بکیرنے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، ان سے عقیل بن خالد نے ، ان سے ابن شہاب زہری نے ، ان سے عروہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب کسی گھر میں کسی کی وفات ہو جاتی اور اس کیوجہ سے عورتیں جمع ہوتیں اور پھر وہ چلی جاتیں۔ صرف گھر والے اورخاص خاص عورتیں رہ جاتیں تو آپ ہانڈی میں تلبینہ پکانے کا حکم دیتیں۔ وہ پکایا جاتا پھر ثرید بنایا جاتا اور تلبینہ اس پر ڈالا جاتا۔ پھر ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتیں کہ اسے کھاؤ کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ تلبینہ مریض کے دل کو تسکین دیتا ہے اور اس کا غم دور کرتا ہے۔
صحیح بخاری ،حدیث نمبر : 5417
امی عائشہ کے اس اثر میں اہل میت کے یہاں جمع ہونے کا ثبوت مل جاتا اور اہل میت کو کھانا پکانے کا حکم تو امی عائشہ خود فرمارہی ہیں اور اس کھانا پکانے حکم کے وقت خاص خاص عورتیں بھی اہل میت کےیہاں جمع ہیں یعنی جریر بن عبداللہ کے نزدیک امی عائشہ نوحہ گری فرمارہی ہیں سبحان اللہ
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
فاتحہ ، چہلم ۔ تیجہ وغیرہ میں اہل میت کے ورثا مسلمانوں کو کھانا کھلا کر اس کا ثواب میت کو پہنچاتے ہیں اب یہ دیکھا جا ئے کہ محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس اسلام کی تبلیغ فرمائی اس اسلام (نوٹ یادرہے یہاں محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والے اسلام کی بات کی گئی ہے نا کہ محمد بن عبدالوھاب نجدی کے اسلام کی ) میں کھانا کھلانے کی اہمیت کیا ہے اس کے لئے آپ ہی کی اصح کتاب بعد کتاب اللہ یعنی صحیح بخاری کا مطالعہ کرتے ہیں
امام بخاری کہتے ہیں :

ہم سے حدیث بیان کی عمرو بن خالد نے، ان کو لیث نے، وہ روایت کرتے ہیں یزید سے، وہ ابوالخیر سے، وہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے کہ ایک دن ایک آدمی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو۔
ترجمہ داؤد راز
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 28

یعنی اس حدیث کی رو سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والے اسلام میں پہلی بہترین چیز یہ ہے کہ کھانا کھلایا جائے اور فاتحہ ، چہلم ۔ تیجہ وغیرہ میں کھانا ہی کھلایا جاتا تو جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ " اطاعت صرف اللہ اور اس کی رسول کی " لیکن اس معاملے میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتنے واضح فرمان کے ہوتے ہوئے اور اس کی مخالفت کرتے ہوئے محمد بن عبدالوھاب نجدی کی اطاعت کرنے لگتے ہیں اللہ ھدایت عطاء فرمائے آمین
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
کلمہ حق ، مراد باطل
پھر میں جو آپ کے لئے دعا کروں یا آپ میرے لئے دعا کریں تو کیا آپکی دعا سے جو کچھ مجھے دنیا آخرت میں ملے گا کیا یہ میری کوشش کی وجہ سے ہوگا
محترم بہرام صاحب -

کلمہ بھی حق ہے اور مراد بھی حق ہے- ویسے دعا تو زندوں کے لئے بھی کی جاتی ہے تو "ایصال ثواب" صرف مردہ انسانوں کے لئے کیوں؟؟ - قرآن تو زندوں کے لئے نصیحت ہے تو پھر قرآن خوانی مردوں کے لئے کیوں ؟؟

وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُبِينٌ -لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَ يَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ -سورہ یٰسین ٦٩-٧٠
اور ہم نے اپنے نبی کو شعرگوئی نہیں سکھائی اور نہ ہی یہ اس کے شایان شان تھا- یہ تو صرف ایک نصیحت اور واضح قرآن ہے- تاکہ جو زندہ ہے اسے ڈرایا جائے اور کافروں پر حجت اتمام ہوجائے-
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
كنَّا نعُدُّ الاجتماعَ إلى أهلِ الميِّتِ وصَنيعةِ الطَّعامِ بعدَ دَفنِهِ مِنَ النِّياحَةِ
: مسند أحمد، حكم المحدث : إسناده صحيح
جریر بن عبد اللہ کا اثر، وہ کہتے ہیں کہ: "ہم اہل میت کیلئے اکٹھا ہونا ، اور ان کے کھانا تیار کرانے کو مردے کی نیاحت سے شمار کرتے تھے
اس حدیث میں جریر بن عبداللہ بجلی کی ایک رائے پیش کی گئی ہے کہ جس نکات یہ ہیں
اول : اہل میت کے یہاں جمع ہونا
دوم : اہل میت سے کھانا تیار کروانا ( نوٹ یاد رہے یہاں صرف کھانا تیار کروانے کی بات کی گئی ہے کھانا کھانے کی نہیں )
سوم: اور یہ دونوں امر ان کے نزدیک نوحہ گری کی طرح تھے
میاں صاحب ! آپ شاید ۔۔تیجے ، چالیسویں ۔۔کی ’’ امن میاں ‘‘ کے ہاتھوں درگت بنتے دیکھ کر حواس کھو بیٹھے ہیں ؛
کون جاہل کہتا ہے کہ جریر بن عبداللہ بجلی کیاس حدیث میں انکی رائے بیان کی گئی ہے ؟

جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ تو اجماع صحابہ نقل کر رہے ہیں ۔کہ:
( كنَّا نعُدُّ الاجتماعَ إلى أهلِ الميِّتِ وصَنيعةِ الطَّعامِ )ہم تمام صحابہ میت کے ہاں سے کھانا کھانے کو نوحہ جیسا برا کام سمجھتے تھے ‘‘

یعنی یہ کسی ایک صحابی کی بات ۔۔یا ۔۔رائے نہیں ،سب صحابہ کا اتفاقی فیصلہ تھا ۔۔جسے مولوی احمد رضا نے ’’ بطور دلیل ‘‘ اپنے فتوی میں درج فرمایا ہے،
اور آپ نے بقلم خود ان کا یہ فتوی ہم تک پہنچایا ۔۔۔۔۔
ویسے کتنے افسوس کی بات ہے کہ آپ ’‘ اعلی حضرت ‘‘ کے فتوی شریف کی دلیل کو ’‘ بے وقعت ’‘ بنانے پر تلے ہیں ،
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ابن عباس ؓ نے خبر دی ، انہیں سعد بن عبادہ ؓ نے بتای اکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نذر کے بارے میں پوچھا جو ان کی والدہ کے ذمہ باقی تھی اور ان کی موت منت پوری کرنے سے پہلے ہو گئی تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ماں کی طرف سے مانی گئی منّت پوری کر دیں ۔ چنانچہ بعد میں یہی طریقہ مسنون قرار پایا ۔ صحیح بخاری ، کتاب الایمان والنذور-
محترم محمدعلی صاحب ۔
آپ نے بخاری کی جس حدیث کو پیش فرماکر یہ ثابت کرنے کی نا کام کوشش کی ہے سعد بن عبادہ نے صرف مرحومہ ماں کی نذر پوری کرنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت فرمایا تو آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ایک دوسرا معاملہ ہے جوکہ حضرت سعد بن عبادہ کی مرحوم والدہ کی نذر کے بارے ہے اور ایک بات اور اس سے صاف ہوگئی کہ آپ جو قرآنی آیات سے باطل استدلال فرماکر یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش فرمارہے تھے کہ کسی کے کئے گئے عمل کا فائدہ صرف ایسی کو ہوسکتا ہے کسی دوسرے کونہیں آپ کے اس باطل تخیل کا رد خود آپ کی پیش کی گئی حدیث سے ہوجاتا کہ نذر تو پوری کی بیٹے نے اور فائدہ ہوا والدہ کو
یہ تو ہوا حضرت سعد بن عبادہ کی والدہ کی نذر کا معاملہ لیکن صحیح بخاری ہی میں ایک حدیث بیان ہوئی جس میں کہا گیا ہے امام بخاری کہتے ہیں کہ
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، کہا ہم کو مخلد بن یزید نے خبر دی ، انہیں ابن جریج نے خبر دی ، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم نے خبر دی ، انہوں نے عکرمہ سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ ہمیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی ماں عمرہ بنت مسعود کا انتقال ہوا تو وہ ان کی خدمت میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! میری والدہ کا جب انتقال ہوا تو میں ان کی خدمت میں حاضر نہیں تھا۔ کیا اگر میں کوئی چیز صدقہ کروں تو اس سے انہیں فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے۔
اردو ترجمہ داؤد راز

صحيح البخاري

الصفحة أو الرقم: 2756
فائدہ

سنن نسائی کی روایت سے معلوم ہوا کہ سعد بن عبادہ نے اپنی والدہ کے ایصال ثواب کے لئے صدقہ کرنے بارے میں معلوم کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں کرو تو انھوں نے ایک کنواں اللہ کی نذر کیا اور صحیح بخاری کی روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت سعد بن عبادہ نے اپنے والدہ کی مانی ہوئی نذر کو پورا کیا اور صحیح بخاری کی حدیث ایک دوسری حدیث سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرض کیا کہ اگر میں کوئی چیز صدقہ کروں تو اس سے میری مرحومہ والدہ فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا تو حضرت سعد بن عبادہ نے اپنے باغ کو اپنی والدہ کے ایصال ثواب کے لئے اللہ کی نذر کیا
اس سے کیا ثابت ہوا ؟
1۔ وفات شدہ لوگوں کی نذر پوری کی جائے گی
2۔ وفات شدہ لوگوں کو ایصال ثواب کیا جائے
3۔ اس ایصال ثواب کا فائدہ مرحوم مسلمانوں پہنچتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتنے واضح فرمامین کے ہوتے ہوئے اگر کوئی اپنے گمراہ امام کی پیروی میں ایصال ثواب کو ناجائز اور بدعت کہے تو یہ اس کی مرضی ہے کیونکہ ہمارا کام صرف حق کو بیان کردینا ہے ھدایت عطاء کرنا اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے ۔
والسلام
 
Top