• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فاتحہ خوانی اور نیاز حرام ہے ؟

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ تو اجماع صحابہ نقل کر رہے ہیں ۔کہ:
اور امام بخاری یہ ثابت کردیا کہ امی عائشہ اس اجماع سے خارج ہیں !!!!
یعنی یہ کسی ایک صحابی کی بات ۔۔یا ۔۔رائے نہیں ،سب صحابہ کا اتفاقی فیصلہ تھا ۔۔جسے مولوی احمد رضا نے ’’ بطور دلیل ‘‘ اپنے فتوی میں درج فرمایا ہے،
چلیں آپ کے اس اعتراف سے وہابیہ کا وہ اعتراض باطل ہوگیا کہ "اہل سنت احادیث کی دلیل نہیں لیتے بلکہ اہل سنت کی دلیل ان کے امام کی رائے ہے "
ویسے کتنے افسوس کی بات ہے کہ آپ ’‘ اعلی حضرت ‘‘ کے فتوی شریف کی دلیل کو ’‘ بے وقعت ’‘ بنانے پر تلے ہیں ،
میں کیا اور میری اوقات کیا !
اس دلیل کو بے وقعت بنانے کی جسارت میں بھلا کس طرح کرسکتا ہوں !
یہ جرات تو امام بخاری فرمارہے ہیں کہ جن امور کو جریر بن عبداللہ بجلی نوحہ کی مثل سمجھ رہے ہیں اور اس پر بقول آپ کے صحابہ کا اجماع ہے ان امور کے بارے میں امام بخاری کہتے ہیں یہ اعمال امی عائشہ بحسن وخوبی انجام دیتی رہی ہیں کہیں یہ روایت امام بخاری نے " حقہ شریف "کی عدم دستیابی کی وجہ سے بیان نہ کردی ہو کیونکہ خیرسے امام بخاری بھی عجمی ہی ہیں اور بلاد عجم میں حقہ شریف کا استعمال صدیوں سے ہورہا ہے باقی اللہ بہتر جانتا ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
لب و لہجہ کو درست رکھیں ، کج بحثی سے گریز کریں ، وقت ان چیزوں میں صرف کریں جو آپ کے لیے تا قیامت صدقہ جاریہ رہیں ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم محمدعلی صاحب ۔
آپ نے بخاری کی جس حدیث کو پیش فرماکر یہ ثابت کرنے کی نا کام کوشش کی ہے سعد بن عبادہ نے صرف مرحومہ ماں کی نذر پوری کرنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت فرمایا تو آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ایک دوسرا معاملہ ہے جوکہ حضرت سعد بن عبادہ کی مرحوم والدہ کی نذر کے بارے ہے اور ایک بات اور اس سے صاف ہوگئی کہ آپ جو قرآنی آیات سے باطل استدلال فرماکر یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش فرمارہے تھے کہ کسی کے کئے گئے عمل کا فائدہ صرف ایسی کو ہوسکتا ہے کسی دوسرے کونہیں آپ کے اس باطل تخیل کا رد خود آپ کی پیش کی گئی حدیث سے ہوجاتا کہ نذر تو پوری کی بیٹے نے اور فائدہ ہوا والدہ کو
یہ تو ہوا حضرت سعد بن عبادہ کی والدہ کی نذر کا معاملہ لیکن صحیح بخاری ہی میں ایک حدیث بیان ہوئی جس میں کہا گیا ہے امام بخاری کہتے ہیں کہ
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، کہا ہم کو مخلد بن یزید نے خبر دی ، انہیں ابن جریج نے خبر دی ، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم نے خبر دی ، انہوں نے عکرمہ سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ ہمیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی ماں عمرہ بنت مسعود کا انتقال ہوا تو وہ ان کی خدمت میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! میری والدہ کا جب انتقال ہوا تو میں ان کی خدمت میں حاضر نہیں تھا۔ کیا اگر میں کوئی چیز صدقہ کروں تو اس سے انہیں فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے۔
اردو ترجمہ داؤد راز

صحيح البخاري

الصفحة أو الرقم: 2756
فائدہ

سنن نسائی کی روایت سے معلوم ہوا کہ سعد بن عبادہ نے اپنی والدہ کے ایصال ثواب کے لئے صدقہ کرنے بارے میں معلوم کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں کرو تو انھوں نے ایک کنواں اللہ کی نذر کیا اور صحیح بخاری کی روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت سعد بن عبادہ نے اپنے والدہ کی مانی ہوئی نذر کو پورا کیا اور صحیح بخاری کی حدیث ایک دوسری حدیث سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرض کیا کہ اگر میں کوئی چیز صدقہ کروں تو اس سے میری مرحومہ والدہ فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا تو حضرت سعد بن عبادہ نے اپنے باغ کو اپنی والدہ کے ایصال ثواب کے لئے اللہ کی نذر کیا
اس سے کیا ثابت ہوا ؟
1۔ وفات شدہ لوگوں کی نذر پوری کی جائے گی
2۔ وفات شدہ لوگوں کو ایصال ثواب کیا جائے
3۔ اس ایصال ثواب کا فائدہ مرحوم مسلمانوں پہنچتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتنے واضح فرمامین کے ہوتے ہوئے اگر کوئی اپنے گمراہ امام کی پیروی میں ایصال ثواب کو ناجائز اور بدعت کہے تو یہ اس کی مرضی ہے کیونکہ ہمارا کام صرف حق کو بیان کردینا ہے ھدایت عطاء کرنا اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے ۔
والسلام
محترم -

آپ نے پھر ایک مرتبہ حضرت سعد بن عبادہ رضی الله عنہ کی اس روایت کو ایصال ثواب کے اثبات میں ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے -

’’حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہم جو بنی ساعدہ میں سے تھے، ان کی والدہ فوت ہو گئیں۔ اس موقع پر وہ ان کے پاس نہیں تھے۔ (جب واپس پہنچے)تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا : یا رسول اللہ، میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور میں ان کے پاس نہیں تھا۔ کیا کوئی چیز جو میں ان کی طرف سے صدقہ کروں، انھیں فائدہ دے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اس پر انھوں نے کہا: آپ گواہ رہیے، یہ میرا مخراف (نامی باغ) ان (کے نام) پر صدقہ ہے‘‘ (بخاری )

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سعد کو اپنی والدہ کی طرف سے کسی وصیت کی توقع تھی۔ انھیں یہ توقع کیوں تھی، اس کا جواب بخاری ہی کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہو جاتا ہے:

عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما أن سعد بن عبادۃ رضی اﷲ عنہ استفتی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ، فقال: ان أمی ماتت وعلیہا نذر. فقال: اقضہ عنہا.
’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور ان پر ایک نذر کا ادا کرنا واجب تھا۔ آپ نے جواب میں کہا: ان کی طرف سے نذر پوری کردو۔‘‘ (بخاری)

اس روایت سے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے اضطراب کی وجہ سامنے آتی ہے۔ ان کو معلوم تھا کہ ان کی والدہ نے نذر مانی ہوئی تھی۔ انھیں یہ اندازہ تھا کہ وہ یہ نذر پوری نہیں کر سکیں۔ انھیں یہ خیال آیا کہ اگر وہ والدہ کے پاس ہوتے تو وہ فوت ہونے سے پہلے اپنی نذر کے بارے میں ضرور بات کرتیں۔ میرے نہ ہونے کی وجہ سے وہ بات نہ کرسکیں، پھر لوگوں نے انھیں بتایا کہ وہ کوئی وصیت اس لیے نہیں کر سکیں کہ ان کے اپنے پاس کچھ نہیں تھاتواس چیز نے انھیں اورمضطرب کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مشورے کے لیے چلے آئے۔چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی والدہ کی تمنا کی تکمیل کی اجازت دے دی۔ یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ مرنے والے پر اللہ تعالیٰ کا اسی طرح ایک قرض تھا، جس طرح اس پر انسانوں کا قرض ہوتا ہے اور جس طرح اولاد انسانوں کا قرض ادا کرتی ہے، اسی طرح اللہ کا یہ قرض بھی ادا کر ے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بات بیان بھی کی ہے- یہاں یہ بات ذین میں رہے کہ صالح اولاد جب اپنے والدین کے اعمال خیر کی تکمیل کرتی ہے یا انھیں جاری رکھتی ہے تو یہ چیز، چونکہ انھی (والدین) کے عمل کا تسلسل ہے۔ چنانچہ اس کا اجران کے مرنے کے بعد بھی ان کو ملتا رہتا ہے۔ حقیقی طور پر یہ ان کا اپنا عمل تھا جس کی تکمیل اولاد نے کی- اس کا ایصال ثواب کے تصور سے کوئی تعلق نہیں - ایصال ثواب کا مطلب ہے ایک شخص کا اپنے ذاتی عمل کا ثواب ایک مرنے والے شخص کو پہنچانا - یہ تصور قرآن کی رو سے باطل ہے -

اگر ہم اپنی طرف سے ایصال ثواب کے پارسل قرآن خوانیوں ، تیجہ ، چالیسواں ، برسی ، میلاد کی صورت میں مردوں کو پہنچانا شروع کردیں -یہ سوچ کر کہ اس سے مردہ بخشا جائے گا - تو اس سے قرآن کا اصول انصاف متزلزل ہو جائے گا - ہر شخص جو جی میں آے اس دنیا میں کرے اور کرے اور اپنے عزیز اقارب کو مرتے ہوے وصیت کر جائے کہ میرے مرنے کے بعد قران خوانیوں اور چالیسویں اور برسی کی صورت میں مجھے ثواب کے پارسل ضرور بھیجتے رہنا -تا کہ میں الله کی بارگاہ میں بخشا جاؤں -

جب کہ الله کا قانون تو کہتا ہے کہ :

وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ- سوره النجم -وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ- ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ سوره النجم ٣٩-٤١

اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوہشش کرتا ہے-اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب پرکھی جائے گی-پھر اسے پورا بدلہ دیا جائے گا-

وَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ۖ أَنْتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ سوره یونس ٤١
اوراگر تجھے جھٹلائیں تو کہہ دے میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے تم میرے عمل کے جواب دہ نہیں اور میں تمہارے عمل کا جواب دہ نہیں ہوں-

فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ سوره التوبه ٨٢

سو ان کو چاہیے کہ وہ تھوڑا سا ہنسیں اور زیادہ روئیں ان کے اعمال کے بدلے جو کرتے رہے ہیں-

قرانی آیات سے بات روز روشن طرح واضح ہے کہ انسان کو صرف اسی عمل کا بدلہ ملے گا جو خود اس دنیا کر گیا - یعنی اچھے اعمال کا صلہ جنّت کی اور برے اعمال کا صلہ دوزخ کی میں- یہ بھی الله کی ثواب دید پر موخر ہے کہ الله کسی کے گناہ قیامت کے دن مٹا دے اور اسے اپنی رحمت میں شامل کرلے یا کسی پھر اس کو سزا دے - لیکن یہ انسان کا اپنا عمل ہے جس سے اس کی باز پرس ہوگی- کسی دوسرے کا عمل ایک انسان کے کھاتے میں نہیں ڈالا جائے گا

الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن رکھے (آمین)
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
صالح اولاد جب اپنے والدین کے اعمال خیر کی تکمیل کرتی ہے یا انھیں جاری رکھتی ہے تو یہ چیز، چونکہ انھی (والدین) کے عمل کا تسلسل ہے۔ چنانچہ اس کا اجران کے مرنے کے بعد بھی ان کو ملتا رہتا ہے
اب اگر کوئی اولاد اپنے والد کے اعمال خیر تکمیل یعنی اس کے والد نے اس کے دادا کے لئے تیجہَ، چالسواں برسی وغیرہ کا کھانا پکا کر صدقہ کیا اور یہی عمل اگر یہ اپنے والد کے لئے کرے اور اپنے والد کے اس عمل کو جاری رکھے تو یقینا اس کا اجر مرنے والے کو ملتا ہے
امید ہے اب اس بحث کو ختم کر دیا جائے گا
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اب اگر کوئی اولاد اپنے والد کے اعمال خیر تکمیل یعنی اس کے والد نے اس کے دادا کے لئے تیجہَ، چالسواں برسی وغیرہ کا کھانا پکا کر صدقہ کیا اور یہی عمل اگر یہ اپنے والد کے لئے کرے اور اپنے والد کے اس عمل کو جاری رکھے تو یقینا اس کا اجر مرنے والے کو ملتا ہے
امید ہے اب اس بحث کو ختم کر دیا جائے گا
میں بھی یہاں اس مثال کے ساتھ اس بحث کو ختم کرنا چاہوں گا -

میری بہرام صاحب سے ذاتی دشمنی ہو جاتی ہے - میں ان پر ناحق ظلم و زیادتی کرتا ہوں ان کے حق پر ڈاکہ ڈالتا ہوں اور ان سے معافی طالب کیے بغیر مجھے موت آ جاتی ہے -یوم حشر میں الله مجھے بخش دیتا ہے - اب بہرام صاحب بڑے پریشان ہوتے ہیں اور الله سے کہتے ہیں کہ "اے الله جواد صاحب نے تو دنیا میں میرا جینا حرام کردیا تھا مجھ پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑ ڈالے اور تو نے اس کو بخش دیا - یہ کیا ماجرا ہے؟؟ - الله فرماتا ہے کہ اس شخص کے مرنے کے بعد اس کی آل اولاد اور عزیز و اقارب نے اس کے ایصال ثواب کے لئے خوب قرآن خوانیاں کرائیں ، تیجے ، چالیسویں کیے ، صدقے دیے -نیکیوں کے خوب پارسل ارسال کیے جس سے اس کا نامہ اعمال نیکیوں سے بھر گیا اور گناہ مٹ گئے -اور جس انسان کی نیکیاں زیادہ ہوں اس کو بخشنے کا میرا وعدہ ہے- اب تم اس سے کیوں پرشان ہوتے ہو - تمہارا بھی تو دنیا میں یہی عقیدہ تھا کہ قرآن خوانی ، تیجہ ، چالیسویں، برسی ، وغیرہ سے مردہ کی ایصال ثواب ممکن ہے - تو اب اس کی بخشش سے تمہارا کیا لینا دینا ؟؟

بس اتنا بتا دیں بہرام صاحب کہ کیا قیامت کے دن یہ ممکن ہو سکتا ہے؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اب اگر کوئی اولاد اپنے والد کے اعمال خیر تکمیل یعنی اس کے والد نے اس کے دادا کے لئے تیجہَ، چالسواں برسی وغیرہ کا کھانا پکا کر صدقہ کیا اور یہی عمل اگر یہ اپنے والد کے لئے کرے اور اپنے والد کے اس عمل کو جاری رکھے تو یقینا اس کا اجر مرنے والے کو ملتا ہے
امید ہے اب اس بحث کو ختم کر دیا جائے گا
اس بحث کو اس لئے ختم کردیا جائے کہ اس سے ناحق مال کھانے کی بدعت پر زد پڑتی ہے ؟؟
اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
﴿وَلا تَأكُلوا أَموٰلَكُم بَينَكُم بِالبـٰطِلِ...﴿١٨٨﴾... سورة البقرة
’’ ایک دوسرے کا مال ناحق مت کھاو ‘‘

اہل بدعت کی بھی عجیب معکوس عقل ہوتی ہے ،اپنے مذہب کے فتوی کے خلاف عمل کو عین سعادت سمجھ کر ادا کرتے ہیں
دیکھئے ان کے مذہب کا فتوی تو یہ ہے:


فتاوٰی امام قاضی خاں کتاب الحظر و الاباحۃ میں ہے:یکرہ اتخاذ الضیافۃ فی ایام المصیبۃ لانھا ایام تاسف فلا یلیق بھا مایکون للسرور ۳؎۔غمی میں ضیافت ممنوع ہے کہ یہ افسوس کے دن ہیں تو جو خوشی میں ہوتاہے ان کے لائق نہیں۔
لیکن مذہب کے مقلد مصر ہیں کہ ہم بہرحال ایام مصیبت میں کھانے کی دعوت ضرور کرنی ہے ؛
قاضی خان صاحب اس کے خلاف فتوی دیتے ہیں تو دیتے رہیں؛؛؛
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
تیجے ،چالیسویں اور جمعراتیں ۔۔کھانے ،کھلانے والے چونکہ اپنے آپ کو فقہ کا مقلد کہتے ہیں
اور ان کے فقہاء نے میت والوں کی طرف سے کھانا کھلانے کو منع کرتے ہوئے ۔۔
دوسروں کو تاکید کی ہے کہ وہ اہل میت کو کھانا کھلائیں ؛


فقہ شافعی کے نامور عالم اورمصنف ’’ الإمام أبو محمد الشيرازي - رحمه الله تعالى -
في المهذب:(ويستحب لأقرباء الميت وجيرانه أن يصلحوا لأهل الميت طعاماً)
کہ میت کے ہمسائیوں کیلئے مستحب ہے کہ وہ اپنے ہاں سے کھانا بناکر اہل میت کو کھلائیں ‘‘
اور اس کی شرح ’‘ المجموع ’‘ میں ہے کہ :
قَالَ الشَّافِعِيُّ فِي الْمُخْتَصَرِ وَأُحِبُّ لِقَرَابَةِ الْمَيِّتِ وَجِيرَانِهِ أَنْ يَعْمَلُوا لِأَهْلِ الْمَيِّتِ فِي يَوْمِهِمْ وَلَيْلَتِهِمْ طَعَامًا يُشْبِعُهُمْ فَإِنَّهُ سُنَّةٌ وَفِعْلُ أَهْلُ الْخَيْرِ قال اصحابنا ويلح علهيم فِي الْأَكْلِ‘‘
یعنی امام شافعی فرماتے ہیں : میرے نزدیک یہ پسندیدہ بات ہے کہ ہمسائے اور رشتہ دار ۔۔اہل میت کو کم از کم ایک دن ،رات کا کھانا اپنی طرف سے کھلائیں ؛
اور شارح کہتے ہیں کہ وہ زور دیکر کھانا کھلائیں ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہی فتوی فقہ حنفی کا بھی ہے ؛ حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ‘‘ میں ہے

ويستحب لجيران الميت والأباعد من أقاربه تهيئة طعام لأهل الميت يشبعهم يومهم وليلتهم لقوله صلى الله عليه وسلم: "
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791

لیکن جب میں آپ کی اصح کتاب بعد کتاب اللہ کا مطالعہ کرتا ہوں تو میں حیرت کے سمندر میں غرق ہوجاتا ہوں جریر بن عبداللہ جن امور کو نوحہ گری شمار فرمارہے ہیں وہ دونوں امور حضرت امی عائشہ خود انجام دیتی ہوئی نظر آتی ہیں
ترجمہ داؤد راز
ہم سے یحییٰ بن بکیرنے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، ان سے عقیل بن خالد نے ، ان سے ابن شہاب زہری نے ، ان سے عروہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب کسی گھر میں کسی کی وفات ہو جاتی اور اس کیوجہ سے عورتیں جمع ہوتیں اور پھر وہ چلی جاتیں۔ صرف گھر والے اورخاص خاص عورتیں رہ جاتیں تو آپ ہانڈی میں تلبینہ پکانے کا حکم دیتیں۔ وہ پکایا جاتا پھر ثرید بنایا جاتا اور تلبینہ اس پر ڈالا جاتا۔ پھر ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتیں کہ اسے کھاؤ کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ تلبینہ مریض کے دل کو تسکین دیتا ہے اور اس کا غم دور کرتا ہے۔
صحیح بخاری ،حدیث نمبر : 5417
امی عائشہ کے اس اثر میں اہل میت کے یہاں جمع ہونے کا ثبوت مل جاتا اور اہل میت کو کھانا پکانے کا حکم تو امی عائشہ خود فرمارہی ہیں اور اس کھانا پکانے حکم کے وقت خاص خاص عورتیں بھی اہل میت کےیہاں جمع ہیں یعنی جریر بن عبداللہ کے نزدیک امی عائشہ نوحہ گری فرمارہی ہیں سبحان اللہ
ام المومنین صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا اہل میت کو ’‘ تلبینہ ’‘ بنا کر کھلانے کو مردود ’’تیجہ ،جمعرات ،چالیسویں ‘‘ کیلئے دلیل بنانا ،خالص دجل اور فریب ہے ،اور سیدہ ام المومنین کی توہین کا محض ایک گھٹیا بہانہ ‘‘
ام المومنین صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا اہل میت کو ’‘ تلبینہ ’‘ بنا کر کھلانے کو مردود ’’تیجہ ،جمعرات ،چالیسویں ‘‘ کیلئے دلیل بنانا ،خالص دجل اور فریب ہے ،اور سیدہ ام المومنین کی توہین کا محض ایک گھٹیا بہانہ ‘‘
’‘ تلبینہ والی اس روایت کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ ’’ جب جنازہ اٹھنے کے بعد اہل میت کے گھر سے دوسرے لوگ چلے جاتے ،اور گھر کے غم زدہ افراد ہی رہ جاتے
تو سیدہ ام المومنین ان پریشان حال پسماند گان کو ۔۔ان کا غم دور کرنے کیلئے ’’ تلبینہ ‘‘ بنا کر کھلاتیں ،،
صحیح بخاری ہی میں دوسرے مقام پر یہی روایت اس بات کی وضاحت کے ساتھ موجود ہے :
’’ عن عائشة رضي الله عنها: أنها كانت تأمر بالتلبين للمريض وللمحزون على الهالك، وكانت تقول: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن التلبينة تجم فؤاد المريض، وتذهب ببعض الحزن»

یعنی ’’ مریض اور دکھی ،غم زدہ ‘‘ کیلئے تلبینہ بنواتیں ۔کہ یہ غم کم کرنے کا سبب اور مقوی قلب ہے ؛؛

اس میں ’’تیجہ ،جمعرات ،چالیسویں ‘‘ جیسے مردود اور ظالمانہ عمل کا ثبوت کہاں سے نکل آیا ،،،؟؟؟
 
Last edited:

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یعنی امام شافعی فرماتے ہیں : میرے نزدیک یہ پسندیدہ بات ہے کہ ہمسائے اور رشتہ دار ۔۔اہل میت کو کم از کم ایک دن ،رات کا کھانا اپنی طرف سے کھلائیں ؛
اور شارح کہتے ہیں کہ وہ زور دیکر کھانا کھلائیں ‘‘
لیکن امی عائشہ تو بقول امام بخاری اہل میت کو حکم دیتی ہیں کہ "تم خود کھانے کے لئے فلاں چیز پکاؤ " یہاں نا ہمسائیوں کے اہل میت کے لئے کھانا کا انتظام کرنے کی بات نہ رشتہ داروں کی یعنی یہ امام کا یہ قول صحیح حدیث کے خلاف ہے اس لئے اس سے دلیل دینا آپ کے لئے سود مند نہیں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اس میں ’’تیجہ ،جمعرات ،چالیسویں ‘‘ جیسے مردود اور ظالمانہ عمل کا ثبوت کہاں سے نکل آیا ،،،؟؟؟
یا تو آپ نے یہ پوسٹ پڑھی نہیں یا کوئی اور بات ہے اس لئے ایک بار پھر پیش کئے دیتا ہوں
كنَّا نعُدُّ الاجتماعَ إلى أهلِ الميِّتِ وصَنيعةِ الطَّعامِ بعدَ دَفنِهِ مِنَ النِّياحَةِ
الراوي : جرير بن عبدالله | المحدث : أحمد شاكر | المصدر : مسند أحمد

الصفحة أو الرقم: 11/126 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح

جریر بن عبد اللہ کا اثر، وہ کہتے ہیں کہ: "ہم اہل میت کیلئے اکٹھا ہونا ، اور ان کے کھانا تیار کرانے کو مردے کی نیاحت سے شمار کرتے تھے
اس حدیث میں جریر بن عبداللہ بجلی کی ایک رائے پیش کی گئی ہے کہ جس نکات یہ ہیں
اول : اہل میت کے یہاں جمع ہونا
دوم : اہل میت سے کھانا تیار کروانا ( نوٹ یاد رہے یہاں صرف کھانا تیار کروانے کی بات کی گئی ہے کھانا کھانے کی نہیں )
سوم: اور یہ دونوں امر ان کے نزدیک نوحہ گری کی طرح تھے
لیکن جب میں آپ کی اصح کتاب بعد کتاب اللہ کا مطالعہ کرتا ہوں تو میں حیرت کے سمندر میں غرق ہوجاتا ہوں جریر بن عبداللہ جن امور کو نوحہ گری شمار فرمارہے ہیں وہ دونوں امور حضرت امی عائشہ خود انجام دیتی ہوئی نظر آتی ہیں
ترجمہ داؤد راز
ہم سے یحییٰ بن بکیرنے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، ان سے عقیل بن خالد نے ، ان سے ابن شہاب زہری نے ، ان سے عروہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب کسی گھر میں کسی کی وفات ہو جاتی اور اس کیوجہ سے عورتیں جمع ہوتیں اور پھر وہ چلی جاتیں۔ صرف گھر والے اورخاص خاص عورتیں رہ جاتیں تو آپ ہانڈی میں تلبینہ پکانے کا حکم دیتیں۔ وہ پکایا جاتا پھر ثرید بنایا جاتا اور تلبینہ اس پر ڈالا جاتا۔ پھر ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتیں کہ اسے کھاؤ کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ تلبینہ مریض کے دل کو تسکین دیتا ہے اور اس کا غم دور کرتا ہے۔
صحیح بخاری ،حدیث نمبر : 5417
امی عائشہ کے اس اثر میں اہل میت کے یہاں جمع ہونے کا ثبوت مل جاتا اور اہل میت کو کھانا پکانے کا حکم تو امی عائشہ خود فرمارہی ہیں اور اس کھانا پکانے حکم کے وقت خاص خاص عورتیں بھی اہل میت کےیہاں جمع ہیں یعنی جریر بن عبداللہ کے نزدیک امی عائشہ نوحہ گری فرمارہی ہیں سبحان اللہ
 
Top