• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فاطمہ بنت اسد کی وفات پر آپﷺ کا اپنے اور تمام انبیاء کے وسیلے سے دعا کرنا

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
فتاویٰ جات: وسیلہ
فتویٰ نمبر : 13835

سیدنا علی رضی اللہ کی والدہ اور ان کیلئے انبیاء کے وسیلے سے دعاء

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال : ۔کیا یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد (رضی اللہ عنہما) کی وفات پر ’’بحق نبیک و الانبیاء الذین من قبلی‘‘ یعنی انبیاء کے وسیلے سے دعا مانگی تھی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روح بن صالح کی بیان کردہ ایک روایت میں آیا ہے:

’’حدثنا سفیان الثوری عن عاصم الاحول عن انس بن مالک قال:
لما ماتت فاطمة بنت اسد بن هاشم ام علی، دخل علیها رسول الله صلی الله علیه وسلم فجلس عند راسها فقال: رحمک الله یا امی، کنت امی بعد امی، تجوعین و تشبعینی و تعرین و تکوسننی و تمنعین نفسک طیب الطعام و تطمعینی، تریدین بذلک وجه الله والدار الآخرة، ثم امر ان تغسل ثلاثا و ثلاثا، فلما بلغ الماء الذی فیه الکافور سکبه علیها رسول الله صلی الله علیه وسلم بیده، ثم خلع رسول الله صلی الله علیه وسلم قمیصه فالبسه ایاه و کفنت فوقه، ثم دعا رسول الله صلی الله علیه وسلم اسامة بن زید و ابا ایوب الانصاری و عمر بن الخطاب و غلاما اسود لیحفروا فحفروا قبرها فلما یلغوا اللحمد حفره رسول الله صلی الله علیه وسلم بیده و اخرج ترابه بیده، فلما فرغ دخل رسول الله صلی الله علیه وسلم فاضجع فیه وقال:
الله الذی یحیی و یمیت و هو حی لایموت، اغفرلامی فاطمة بنت اسد و لقنها حجتها و وسع علیها مدخلها بحق نبیک والانبیاء الذین من قبلی، فانک ارحم الراحمین، ثم کبر علیها اربعا، ثم ادخلوها القبر هو والعباس وابوبکر الصدیق رضی الله عنهم۔‘‘

ہمیں سفیان ثوری نے حدیث بیان کی، انھوں نے (عن کے ساتھ) عاصم الاحول سے، انھوں نے انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے، انھوں نے فرمایا:

جب جناب علی رضی اللہ عنہ کی والدہ: فاطمہ بنت اسد بن ہاشم (رضی اللہ عنہما) فوت ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے پھر آپ ان کے سر کی طرف بیٹھ گئے تو فرمایا: اے میری ماں! اللہ تجھ پر رحم کرے، میری (حقیقی) ماں کے بعد تو میری ماں تھی، تو خود بھوکی رہتی اور مجھے خوب کھلاتی، تو کپڑے (چادر) کے بغیر سوتی اور مجھے کپڑا پہناتی، تو خود بہترین کھانا نہ کھاتی اور مجھے کھلاتی تھی، تمھارا مقصد اس (عمل) سے اللہ کی رضامندی اور آخرت کاگھر تھا۔

پھر آپ ﷺ نے حکم دیا کہ انھیں تین، تین دفعہ غسل دیا جائے، پھر جب اس پانی کا وقت آیا جس میں کافور (ملائی جاتی) ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے ان پر پانی بہایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اتار کر انھیں پہنا دی اور اسی پر انھیں کفن دیا گیا۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید، ابو ایوب الانصاری، عمر بن الخطاب اور ایک کالے غلام کو بلایا تاکہ قبر تیار کریں پھر انھوں نے قبر کھودی، جب لحد تک پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ سے کھودا اور اپنے ہاتھ سے مٹی باہر نکالی پھر جب فارغ ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قبر میں داخل ہوکر لیٹ گئے اور فرمایا:
اللہ ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے اور وہ زندہ جاوید ہے کبھی نہیں مرے گا۔

(اے اللہ!) میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اور اس کی دلیل انھیں سمجھا دے، اپنے نبی اور مجھ سے پہلے نبیوں کے (وسیلے) سے ان کی قبر کو وسیع کردے، بے شک تو ارحم الراحمین ہے۔

پھر آپ نے ان پرچار تکبیریں کہیں، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)، عباس اور ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہما (تینوں) نے اسے قبر میں اتار دیا۔ (المعجم الاوسط للطبرانی ۱۵۲/۱۔ ۱۵۳ ح۱۹۱، وقال: ’’تفروبہ روح بن صلاح‘‘ و عنہ ابو نعیم الاصبہانی فی حلیۃ الاولیء ۱۲۱/۳، و عندہ: یرحمک اللہ… الحمدللہ الذی یحیی…، وعنہ ابن الجوزی فی العلل المتناہیہ ۲۶۸/۱، ۲۶۹ ح۴۳۳)

یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے و مردود ہے:

اول: اس کا راوی روح بن صلاح جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف و مجروح ہے۔

ابن عدی نے کہا: ’’وفی بعض حدیثہ نکرۃ‘‘
اور اس کی بعض حدیثوں میں منکر روایات ہیں۔ (الکامل ۱۰۰۶/۳، دوسرا نسخہ ۶۳/۴)

ابن یونس المصری نے کہا: ’’روت عنہ مناکیر‘‘ اس سے منکر روایتیں مروی ہیں۔ (تاریخ الغرباء بحوالہ لسان المیزان ۴۶۶/۲، دوسرا نسخہ ۱۱۰/۳)

امام دارقطنی نے کہا: ’’کان ضعیفا فی الحدیث، سکن مصر‘‘
وہ حدیث میں ضعیف تھا، مصر می رہتا تھا۔ (الموتلف و المختلف ۱۳۷۷/۳)

اابن ماکولا نے کہا: ’’ضعفوہ فی الحدیث‘‘ انھوں نے اسے حدیث میں ضعیف قرار دیا ہے۔ (الاکمال ۱۵/۵، باب شبابہ و شبانہ و سیابہ)

حافظ ذہبی نے کہا: ’’لہ مناکیر‘‘ اس کی منکر روایتیں ہیں۔ (تاریخ الاسلام ۱۶۰/۱۷)

ابن الجوزی نے روح بن صلاح کو اپنی کتاب المجروحین (۲۸۷/۱) میں ذکر کیا اور اس کی بیان کردہ حدیث مذکور کو ’’الاحادیث الواھیۃ‘‘ یعنی ضعیف احادیث میں ذکر کیا۔ (دیکھئے العلل المتاہیہ: ۴۳۳)

احمد بن محمد بن زکریا ب ابی عتاب ابوبکر الحافظ البغدادی، اخومیمون (متوفی ۲۹۶ھ) نے کہا: ہمارا اس پر اتفاق ہوا کہ مصر میں علی بن الحسن السامی، روح بن صلاح اور عبدالمنعم بن بشیر تینوں کی حدیثیں نہ لکھیں۔ (لسان المیزان ۲۱۳/۴۔ ۲۱۴، سوالات البرقانی الصغیر: ۲۰، بحوالہ المکتبۃ الشاملۃ و سندہ صحیح)

ابن عدی، ابن یونس، دارقطنی، ابن ماکولا، ذہبی، ابن جوزی اور احمد بن محمد بن زکریا البغدادی (سات محدثین) کے مقابلے میں حافظ ابن حبان نے روح بن صلاح کو کتاب الثقات میں ذکر کیا۔ (۲۴۴/۸)

حاکم نے کہا: ’’ثقہ مامون، من اھل الشام‘‘ (سوالات مسعود بن علی السجزی: ۶۸، ص۹۸)

اور یعقوب بن سفیان الفارسی نے اس سے روایت لی۔ (موضح اوہام الجمع و التفریق للخطیب ۹۶/۲، و فیہ علی بن احمد بن ابراہیم البصری شیخ الخطیب)

مختصر یہ کہ جمہور علماء کی جرح کے مقابلے میں تین کی توثیق مردود ہے۔

دوم: روح بن صلاح (ضعیف) اگر بفرض محال ثقہ بھی ہوتا تو یہ سند سفیان ثوری (مدلس) کی تدلیس (عن) کی وجہ سے ضعیف ہے۔

سفیان ثوری کے بارے میں محمد عباس رضوی بریلوی نے کہا:

’’یعنی سفیان مدلس ہے اور روایت انہوں نے عاصم بن کلیب سے عن کے ساتھ کی ہے اور اصول محدثین کے تحت مدلس کا عنعنہ غیرمقبول ہے جیسا کہ آگے ان شاء اللہ بیان ہوگا۔‘‘ (مناظرے ہی مناظرے ص۲۴۹)

امام سفیان ثوریؒ کی تدلیس کے بارے میں مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: ۶۷ ص۱۱۔۳۲
خلاصۃ التحقیق یہ ہے کہ سوال میں روایت مذکورہ غیر ثابت ہونے کی وجہ سے ضعیف و مردود ہے۔

نیز دیکھئے سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للالبانی (۳۲/۱۔ ۳۴ ح۲۳ وقال: ضعیف)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)۔۔۔شیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ تعالی
ج2ص542
محدث فتویٰ
 
Last edited:

Abdul Mussavir

مبتدی
شمولیت
ستمبر 22، 2017
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
25
اسلام علیکم جزاکاللہ خیرا

کچھ لوگوں کا اعتراض ہے کہ

1) ابن عدی منہاج تھا کہ جب وہ کسی شخص بارے میں منکر کہتے تو اُسکی منکر روایت ضرور نقل کرتے لیکن یہ روح بن صالح کی منکر روایت نقل نہیں کری

2) ابن عدی نے جس وجہ سے یہ جس روایت سے روح کو ضعیف کہا وہ خود روایت ضعیف ہے الکامل میں .

3) تمام محدثین نے جرہ کی وجہ بیان نہیں کری صرف ابن عدی کی جرح نقل کری جو مبھم ہے۔؟
 

Abdul Mussavir

مبتدی
شمولیت
ستمبر 22، 2017
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
25
اس راوی کو ابن حبان حکیم نے سقہ کہا ہے اور امام یعقوب بن سفیان نے اسے روایت لی ؟
 

ابوطلحہ بابر

مشہور رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 03، 2013
پیغامات
674
ری ایکشن اسکور
843
پوائنٹ
195
کیا اس راوی کے لیے تعدیل کے اقوال بھی ثابت ہیں؟
علاہ ازیں تعدیل کے مقابلے میں جرح مفسر موجود ہے، اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جرح مفسر کو تعدیل پر ترجیح دی جائے گی۔
جواب ماخذ: (مجلہ محدث، شمارہ: 265، دسمبر 2002، ذوالقعدہ 1423، جلد: 34، عدد: 12، مضمون: توسّل واستعانت)

مکمل جواب:
مذکورہ روایت (المعجم الکبیر:۸۷۱) اور (المعجم الاوسط : ۱۹۱) وغیرہ میں موجود ہے، لیکن یہ روایت کئی وجوہات کی بنا پر قابل استدلال نہیں۔ مثلاً
(1) اس کی سند میں روح بن صلاح راوی متکلم فیہ ہے جسے دارقطنی اور ابن عدی وغیرہ جیسے کبار محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے، اگرچہ حاکم اور ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے لیکن حاکم اور ابن حبان کا جرح و تعدیل میں متساہل ہونا معروف ہے۔ دیکھئے (فتح المغیث : ۳؍۳۵۹) ، (لسان المیزان : ۱؍۱۴) اس لئے یہ راوی ضعیف ہے۔

(2) علاہ ازیں تعدیل کے مقابلے میں جرح مفسر موجود ہے، اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جرح مفسر کو تعدیل پر ترجیح دی جائے گی۔
(3) اس کے علاوہ سفیان ثوری مدلس راوی کے سماع کی صراحت بھی مذکور نہیں۔
(4) نیز روح بن صلاح سفیان ثوری سے روایت کرنے میں منفرد ہے۔ اس لئے محدثین کے ہاں ایسی روایت قابل استدلال نہیں ہوتی۔ خود امام طبرانی رحمہ اللہ نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ” اس روایت کو عاصم احول سے صرف سفیان ثوری نے روایت کیا ہے اور روح بن صلاح سفیان ثوری سے روایت کرنے میں متفرد ہے “ ۔ (المعجم الاوسط: ۱؍۱۵۳)
(5) سفیان ثوری ۱۶۱ھ میں فوت ہوئے جبکہ روح بن صلاح ۲۳۳ھ میں فوت ہوے اور ان دونوں راویوں کے درمیان تقریباً چوہتر (۷۴) سال کا وقفہ ، ہے علاوہ ازیں صلاح بن روح کے تعلّم حدیث کی پندرہ یا بیس سال کی عمر بھی ان میں داخل کریں تو یہ وقفہ ایک صدی کے قریب پہنچ جاتا ہے، اس لئے قوی امکان یہی ہے کہ روح بن صلاح کا سفیان ثوری سے سماع ثابت نہیں۔ اس کی مزید تقویت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابن حبان اس راوی کے متعلق فرماتے ہیں کہ ” روح بن صلاح مصری اپنے ہم وطن لوگوں سے ہی روایت کرتا ہے“ ۔ (کتاب الثقات : ۸؍۲۴۴) جبکہ سفیان ثوری کوفی ہیں۔ لہٰذا روح بن صلاح کا کوفہ جانا ثابت نہیں، اسی لئے امام مزی نے اسے سفیان ثوری کے شاگردوں میں شامل نہیں کیا۔ لہٰذا یہ روایت مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر سخت ضعیف ہے۔
یہ روایت دیگر اسناد سے بھی مروی ہے لیکن ان میں سے کوئی سند بھی صحیح ثابت نہیں مثلاً مجمع الزوائد (۹؍۲۵۷) کی سند میں سعدان بن ولید سابری مجہول راوی ہے۔ تاریخ مدینہ (۱؍۱۲۴) کی سند میں قاسم بن محمد ہاشمی ضعیف (متروک) راوی ہے۔ اس کے علاوہ اسناد مرسل، منقطع اور معضل ہیں۔ لہٰذا ایسی کسی روایت کو بطور پیش کرنا کسی محقق عالم کو زیب نہیں دیتا۔
 

Abdul Mussavir

مبتدی
شمولیت
ستمبر 22، 2017
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
25
شیخ ابن عدی کا ضعف کہنا کس وجہ سے ہے۔
بعض حضرات کا یہ کہنا ہے ابن عدی اور امام دارقطنی جرہ کی وجہ بیان نہیں کری لہٰذا یہ جرہ مبہم ہے۔
اسکے مقابلے امام حاکم اور ابن حبام کی توثیق قبول ہوگی۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
شیخ ابن عدی کا ضعف کہنا کس وجہ سے ہے۔
بعض حضرات کا یہ کہنا ہے ابن عدی اور امام دارقطنی جرہ کی وجہ بیان نہیں کری لہٰذا یہ جرہ مبہم ہے۔
جرح و تعدیل کے مسلم اماموں کا صرف حکم بتلانا جرح مقبول ہوتا ہے
اسکے مقابلے امام حاکم اور ابن حبام کی توثیق قبول ہوگی۔
ان دونوں کا تساہل معروف ہے
 
Top