• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فتنۂ انکارِ حدیث از حافظ حسن مدنی

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بسم الله الرحمن الرحيم​
فتنۂ انکارِ حدیث

حافظ حسن مدنی​
نوٹ

ماہنامہ ’محدث‘ لاہور کی اشاعت خاص ’’فتنہ انکار حدیث نمبر‘‘ کی فہرست پر جانے کےلیے یہاں کلک کریں
برصغیر میں انکارِ حدیث کا فتنہ چند صدیوں سے زوروں پر ہے۔اس کی بعض صورتیں ایسے صریح انکارِ حدیث پر مبنی ہیں جس کے حامل کا مسلمان رہنا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔جبکہ استخفاف حدیث جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں اکثر وبیشتر پایا جاتا ہے۔مرض ایک ہی ہے اگرچہ اس کی علامات مختلف صورتوں میں سامنے آتی ہیں۔
اس فتنہ کے بنیادی اسباب میں دین سے لاعلمی، غیرمسلم تہذیب سے مرعوبیت اور سیاسی و فکری محکومی سرفہرست ہیں۔ یہ پڑھے لکھے تجدد پسندحضرات کا فتنہ ہے، جو علومِ اسلامیہ سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے اسلام اور اس کے اوامرو نواہی سے جذباتی عقیدت رکھتے ہیں، نہ ان کا جذبہ ایمانی کوئی قابل رشک ہوتا ہے۔ برصغیر میں مغرب کی فکری بالا دستی اس فتنہ کا بنیادی محرک رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ۷،۸ سو سال اسلامی حکومت رہنے کے باوجود انکارِ حدیث کی ابتدا اس دور میں ہوئی جو انگریز کی غلامی کا دور ہے۔ برصغیر میں اس فتنہ کی ابتدا سرسیداحمد خان نے کی جو مسلمانانِ برصغیر کو انگریز کی محکومیت اور فکری مرعوبیت تسلیم کرانے والے پہلے نمایاں فرد تھے۔ چند دہائیاں قبل فتنہ انکارِ حدیث کا مرکزی کردار جس شخص نے ادا کیا، وہ غلام احمد پرویز تھا جو انگریزی حکومت کاملازم اور فکری طور پر ان کی علمی برتری کا قائل تھا۔موجود دور میں بھی انکارِ حدیث کی زمامِ کار جن کے ہاتھوں میں ہے، ان میں اکثر انگریزی علوم و فنون کے پروردہ ہیں، ان کی ذ ہنی ساخت میں یورپ کی علمی رِفعت رچی ہوئی ہے۔
عالم عرب میں بھی جہاں جہاں اسلام کو فکری سطح پر یورپ سے واسطہ پڑا، وہاں اس فتنہ نے پرپرزے نکالے۔ چنانچہ برصغیر کے بعد مصر اس فتنہ کا زیادہ شکار ہوا جہاںاس کی تردید کے لئے زبردست لٹریچر بھی وجود میں آیا، اسکے بعد شام و بیروت کے مفکرین میں انکارِ حدیث کے جراثیم نے نشوونما پائی۔ خلیجی ممالک ایسی علمی اور فکری کشمکش سے دوچار نہیں ہوئے، وہاں اس کا زہر بھی بہت زیادہ نہیں پھیلا۔
صدرِ اسلام میں یہ فتنہ معتزلہ میں شروع ہوا۔ اوراسوقت اس کی وجہ یونانی فلسفہ سے مرعوبیت تھی۔ محدثین کی زبردست کوششوں سے اس فتنہ کا استیصال ہوا۔ اس کے بعدتیرہویں صدی ہجری میں یورپ کی یلغارکے بعد انکارِ حدیث کے جراثیم نے دوبارہ جنم لیا۔اس سلسلہ میں مستشرقین کی کوششیں بھی شامل ہیں اور اکثر منکرین حدیث انہی کے افکار کے خوشہ چین ہیں۔
منکرین حدیث کے بعض مشترک افکار پر مختصر تبصرہ پیش خدمت ہے :
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
1۔عقل پرستی

یورپ کا موجودہ ارتقا، اُن کی نظر میں ان کی ذہانت، معروضیت اور عقل پسندی کا مرہونِ منت ہے۔ ریشنل ازم (Rationalism) مذہب کے بگڑے ہوئے تصور ’اندھے ایمان‘ (Blind Faith) کے ردّ عمل میں ایک باقاعدہ تحریک کے طور پر یورپ میں سرگرم ہوا اور اس کے قوی اثرات مسلسل چلے آرہے ہیں۔ انسان کو اپنی عقل اور توجیہ پسندی پر ہمیشہ سے بڑا اعتماد رہا ہے اور اس عقل کے استعمال سے اگر اسے کچھ کامیابی حاصل ہو جائے تو پھر وہ ’عقل پرستی‘ تک پہنچا دیتی ہے۔
انکارِ حدیث کا فتنہ بھی چونکہ مغرب کی علمی مرعوبیت کا شاخسانہ ہے، اسلئے یہاں بھی عقل پسندی کے گہرے رحجانات پائے جاتے ہیں۔ اکثر منکرین حدیث نے احادیث کو تسلیم کرنے میں عقلی حجت بازیاں کی ہیں اور حدیث کی صحت جانچنے کیلئے یہ اُصول متعارف کرایا ہے کہ وہی احادیث قابل قبول ہیں جو عقل انسانی کو اپیل کرتی ہیں۔
مغرب نے احیاء علوم کی تحریک کے بعد جہاں علمی و فنی میدان میں پیش رفت کی ہے، وہاں فن استدلال کو بھی سائنسی خطوط پر استوار کیا ہے جس میں یہی عقل پرستی شدت سے کارفرما ہے۔ تحقیق کا سائنسی اُسلوب اسے قرار دیا جاتا ہے جو اعداد و شمار، عقل و منطق اور معروضیت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔ اس اسلوبِ تحقیق میں اُمورِ غیبیہ، مذہب اور الہامی تصورات کو کوئی وزن نہیں دیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ وحی کی بنیاد پر کی جانے والی تحقیق کو مغرب میں باضابطہ اور مستند تحقیق شمار نہیں کیا جاتا۔
اس لحاظ سے ایک مسلمان اور غیر مسلم کے زاویۂ فکر و نظر اور اسلوبِ استدلال میں بڑا نمایاں فرق ہے۔ اسلام میں عقل کو استعمال کرنے، اس پر اعتماد کرنے اور اس کی نشوونما کرنے کی بڑی ترغیب ملتی ہے لیکن اس کی بعض کوتاہ حدود کا اعتراف بھی موجود ہے۔ ایک مسلمان عقل پر بے جا اعتماد کرنے کی بجائے اپنی عقل کو خالق کائنات کی رہنمائی میں چلانے کا پابند ہے اور وہ اپنی عقل کو اس حد تک آزاد نہیں کرسکتا کہ وہ اپنے خالق اور اس کی ہدایات پربھی اعتراضات کرنا شروع کردے۔ کیونکہ بہت سے دائرے ایسے ہیں جہاں انسانی عقل بے بس ہوجاتی ہے اور سائنس ومنطق بھی قاصرنظر آتی ہے۔
وحی کی تشریح میں عقل وبصیرت کو استعمال کرنا اسلام کامطلوب ہے جبکہ وحی پر اعتراض کے میدان میںعقل کو کھڑا کرنا عقل کے ساتھ ظلم اور اپنے خالق کی ہدایات کے ساتھ ناانصافی ہے۔عقل سے وحی یعنی اسلام کوسمجھنے کی کوشش تو قابل تعریف ہے لیکن عقل سے اسلامی تعلیمات کو گھڑا نہیں جاسکتا۔
موجودہ دور کے مسائل میں ایک بڑا مسئلہ اُسلوبِ استدلال کی تبدیلی کا ہے۔ اسلام میں استدلال کا اسلوب تو یہ ہے کہ جہاں فرمانِ الٰہی یا حدیث ِنبوی آجائے تو اس کی استنادی حیثیت کی توثیق کرنے کے بعد اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیا جائے۔ عقلی توجیہات، معروضی تک بندیاں اور منطقی صغرے کبرے مزید تائید کے لئے ہیں جو اطمینانِ قلبی کا موجب ہوتے ہیں، اسلام ان کی اجازت دیتا ہے لیکن اسلام میں کسوٹی بننے کا مقام بنیادی طور پر وحی الٰہی کو ہی حاصل ہے۔
جبکہ جدید تعلیم یافتہ حضرات جدید علم الکلام کی رو سے استدلال کی بنیاد صرف عقلی توجیہات کو بناتے ہیں اور آخر میں تائید کی غرض سے حدیث ِنبوی یا آیت ِقرآنی بھی لے آتے ہیں۔ اس طرزِ استدلال کی نشاندہی علما اور دانشوروں کے اسلوبِ استدلال کے تقابلی مطالعہ سے بخوبی ہوسکتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی جب سے جدید علم وفن نے اپنا سکہ جمایا ہے اور ذہنوں نے اہل مغرب کی فکری غلامی قبول کی ہے، تب سے نہ صرف ہمارا عام بلکہ مقبول دینی لٹریچربھی اسی کی مثال پیش کرتا ہے۔ پڑھے لکھے طبقوں میں قرآن و حدیث کی بجائے عقلی و منطقی معروضات زیادہ مقبول ہیں۔ اسی تعقل پسندی کا شاخسانہ انکارِ حدیث بھی ہے۔ اگر عقل انسانی پر بے جا اعتماد ہوجائے تو وہ حدیث ِنبوی کو بھی چیلنج کرنے لگتی ہے اور مغربی علوم و فنون کے ارتقا اور ان کی عقل پسندی کا نقصان دہ پہلوہے کہ
ہمارے ہاں بھی ان کے خوشہ چین طبقے نے اس طرزِ فکر کو فروغ دیا ہے اور احادیث کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کردیا ہے۔ یورپ کو یہ عقل پسندی گوارا ہوسکتی تھی کہ انکے ہاں الہامی ہدایات نہ صرف تحریف شدہ ہیں بلکہ بنیادی طور پر بھی اس قابل نہیں کہ موجودہ دور میں قابل عمل ہوں چنانچہ محرف الہامی تعلیمات پر ایمان لانے کی بجائے وہ اپنی رائے وعقل پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اسلام نہ صرف ایک مکمل اورحتمی دین ہے بلکہ تحقیق وتدوین کے اعلیٰ معیاروں پر بھی محفوظ ہے۔
اسلئے مسلمانوں کو عقلی برتری پر مبنی رجحانات زیب نہیں دیتے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔تدوین حدیث

منکرین حدیث میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو احادیث کو اس شرط پر قبول کرتے ہیں کہ وہ انسانی عقل کے مطابق ہوں۔ جبکہ بعض منکرین حدیث ایسے ہیں جو احادیث کی تدوین پر عدمِ اعتماد کی وجہ سے کلی طور پر احادیث ِنبوی کو قبول نہیں کرتے۔قرآن جو حدیث کی بنسبت اعلیٰ معیار پر محفوظ ہے، وہ دونوں کی استنادی تحقیق میں بنیادی فرق ملحوظ رکھے بغیر دونوں کے لئے یکساں اسلوب اور مساوی درجہ حفاظت کا تقاضا کرتے ہیں۔حالانکہ قرآن کلام الٰہی ہونے کی حیثیت سے الفاظ کی حفاظت کا اسلوب چاہتا ہے جبکہ حدیث مرادِ الٰہی ہونے کے ناطے مفہوم کی حفاظت کے اصولوں پر روایت وتدوین ہوتی ہے۔
اسی طرح منکرین حدیث موجودہ حالات پر قیاس کرتے ہوئے صحیح تجزیہ کئے بغیر برسوں قبل کے حالات کو اپنے دور کے اندازوں کے مطابق پرکھنا چاہتے ہیں۔ انسان کی محدود عقل و فراست میں یہ صلاحیت بڑی نادر ہے کہ وہ حالات کے معروضی فرق کو ملحوظ رکھ کر ہر دور کے تقاضوں اور اس کے مسلمات کو سمجھ سکے۔ جس طرح ہمارے مغرب گزیدہ مفکرین نے اسلام کے اسلوبِ استدلال کو ملحوظ نہ رکھ کر اور دونوں کے معروضی حالات کا فرق نہ کرکے جدید علم الکلام کو اپنایا اور اس کو ترقی یافتہ قرار دیا جو کہ دراصل جذبہ ایمان و ایقان کی کمزوری کا مظہر ہے، اسی طرح دورِ نبوت میں حفاظت کے تقاضوں کو آج کے دور کے حفاظت کے تقاضوں سے پرکھنا بھی ایسی ہی بڑی غلطی ہے۔ موجودہ دور میں اگر کتابت کو حفاظت کا معتمد ذریعہ مانا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیشہ سے کتابت ہی معتمد اور مستند ترین ذریعہ چلا آرہا ہو۔بلکہ شاید بہت جلد انفرمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت اب کتابت وتدوین بھی اپنی موجودہ حیثیت برقرار نہ رکھ سکے۔
اسلام کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے، نبی آخرالزمان پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا تو ضروری تھا کہ قیامت تک ایک مکمل دین انسانوں کے لئے محفوظ ترین صورت میں موجود ہو۔ اسی طرح اسلام کے احکام اپنے پیروکاروں کے لئے ہمیشہ ایک جیسے رہے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شے پہلے مخاطب صحابہ کرام کے لئے تو دین کا درجہ رکھتی ہو اور بعد میں آنے والوں کے لئے اس کی کوئی دینی حیثیت نہ ہو۔ احادیث ِنبویہ کی تعمیل صحابہ کرام پر فرض تھی اور وہ اپنے نبی کے احکامات ماننے کے پابند تھے، ضروری ہے کہ ان پر لاگو شرعی احکام آگے بھی اسی حیثیت سے منتقل ہوں۔کیونکہ اسلام تب ہی اللہ کا بھیجا ہوا دائمی آخری دین ہوسکتا ہے جب وہ قیامت تک اپنی اصل شکل اور برابر حیثیت میں سب کے لئے موجود ہو۔ دین کی حفاظت کی یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوںکے ذریعے اس طرح سادہ انداز میں پوری کرائی ہے جو ہر دور میں حفاظت کا آسان اور مروّ جہ انداز رہا ہے۔ اور اس پر عمل کرنا، اس کے تقاضے بجا لانا انسانوں کے لئے بآسانی ممکن رہا ہے۔چنانچہ ابتدا میں قرآن وحدیث کو بحفاظت آگے منتقل کرنے کے لئے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ بنیادی طور پر حافظہ پر اعتماد کا طریقہ ہے، جس کو بعد میں کتابت او ردیگر ذرائع سے بھی تقویت دی گئی ہے۔
منکرین حدیث نے یہ فرض کرلیا ہے کہ قرآن تو گویا ہمیشہ سے تحریری شکل میں محفوظ چلا آتا ہے، جبکہ حدیث کی تدوین میں زیادہ اعتماد حافظہ پر رہا ہے ، اس لئے احادیث ناقابل اعتماد ہیں۔ جبکہ اگر معمولی غور وفکر سے بھی کام لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ موجودہ قرآن کی حفاظت بھی تحریر کی بجائے حافظہ (تلاوت وادا) ہی کی مرہونِ منت ہے۔ ذیل میں ہم حافظہ اور کتابت کے تقابلی مطالعہ کے علاوہ ان دلائل کو پیش کرتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کی حفاظت میں بھی اصل اعتماد ’حافظہ‘اور ’ادا‘ پر رہا ہے، اور اسی سے ملتی جلتی صورتحال روایت وتعامل کی شکل میں احادیث ِنبویہ کی ہے۔
حافظہ پر اعتماد کی بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں :
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر1:
حافظہ انسان کی فطری بنیادی صلاحیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ابتدائے آفرینش سے، جب فن کتابت وجود میں بھی نہیں آیا تھا، انسان اپنی روز مرہ یادداشت کے لئے حافظہ پر ہی اعتماد کرتا تھا۔ عرب کا حافظہ بڑا مثالی تھا حتیٰ کہ تحریر کرنے کو عیب اور حافظہ کی کمزوری خیال کیا جاتا تھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر2:
حافظہ کے لئے کسی آلہ یا کاغذ کی ضرورت نہیں بلکہ یہ صلاحیت ہر ذی شعور میںپائی جاتی ہے۔ دورِ نبوی میں کاغذ تو بالکل نادر، اور چمڑے وغیرہ بھی بہت کم موجود تھے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر3:
دورِ نبوی میں فن تحریر اس قدر سادہ تھا کہ آج کا حافظ ِ قرآن بھی اس دور کے لکھے قرآن کو نہیں پڑھ سکتا۔ اس میں نقاط اور حرکات جو عربی زبان میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں، کا استعمال بڑی دیر بعد شروع ہوا۔ چنانچہ دورِ نبوی کے فن کتابت میں وہ قوت نہیں تھی کہ وہ قرآن کی پوری طرح حفاظت کرسکے۔ صیغوں اور نقاط کا فرق بھی حافظے میں ہی محفوظ تھا۔تجوید (مخارج وصفات) کا لحاظ تو بالکلیہ تلاوت وادا پر ہی منحصر ہے، اسی طرح واقعات کی صحیح نشاندہی روایت کی استنادی حیثیت کی مرہونِ منت ہے۔
عالم عرب اور برصغیر دونوں میں رسم عثمانی میں ہی شائع ہونے والے قرآن کے رموز و علامات میں آج بھی اتنا فرق ہے کہ حفاظِ قرآن کے علاوہ دیگر پاکستانی مسلمان عربی رسم الخط میں چھپے قرآن کریم سے تلاوت میں مشکل محسوس کرتے ہیں کیونکہ دونوں میں علامات اور کلمات لکھنے میں اختلاف پایا جاتاہے۔ قرآن کریم کا رسم الخط ایک باقاعدہ فن ہے جس میں بعض اُمور پر علما میں بھی اختلافات موجود ہیں۔
نوٹ
ہمارے بعض کم علم لوگ اسے علم رسم الخط کے اختلافات سمجھنے کی بجائے قرآن میں تحریف بنانا شروع کردیتے ہیں۔ دوسال قبل ماہنامہ ’طلوعِ اسلام‘ میں ایسا ہی ایک مضمون شائع ہوا جس میں فلوریڈا کے ایک پرویزی قلمکارنے مدینہ منورہ کے کنگ فہد کمپلیکس سے شائع ہونے والے قرآن کریم کے لاکھوں نسخہ جات جو ہرسال حجاجِ کرام میں تقسیم کئے جاتے ہیں، کو تحریف ِقرآن کی ایک عظیم سازش قرار دیا اور مسلمانوں کو اس کے خلاف منظم ہونے کی دعوت دی ۔ لیکن یہ کم علمی او رجہالت کے سوا کچھ نہیں۔قرآن کریم کی کتابت کے اُصول آج بھی عربی زبان کی کتابت سے جابجامختلف ہیں اور ان اصولوں کو ملحوظ رکھے بغیر قرآن کو لکھنا جائز نہیں۔ کیونکہ قرآنِ کریم کے لکھنے میں رسم عثمانی کی پابندی بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم عرب میں شائع ہونے والی کتب میں قرآنی آیات کی کمپوز نگ نہیں کی جاتی بلکہ اس کی کتابت ہی لگائی جاتی ہے۔یہی طریقہ زیادہ حفاظت والا اور قرآن کریم کے زیادہ لائق ہے۔ جب ان کے خیال میں قرآن کو وہی فن کتابت حفاظت مہیا کررہا ہے جو چند صدیوں بعد مدوّن ہوا تو پھر منکرین حدیث اس رسم الخط کا کیا کریں گے جو چند صدیوں بعد وجود میں آیا۔ آیا اس میں عجمی سازش کا امکان بھی وہ پید اکرلیں گے!!
یہ علم دینی مدارس بالخصوص مدارس تجوید و قراء ت میں بالتفصیل پڑھایا جاتا ہے۔ مزید برآں مختلف قراء ات میں شائع شدہ قرآنِ کریم دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان مغاربہ اور مشارقہ کے طرزِ کتابت میں بھی بڑا اختلاف ہے مثلاً مغاربہ کے ہاں ’ن‘ میں نقطہ نہیں لکھا جاتا، ’ق‘ کے نیچے ایک نقطہ ہوتا ہے اور ’ف‘ بغیرنقطہ کے لکھی جاتی ہے، جبکہ اہل مشرق کا طرزِ کتابت اس سے مختلف ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر4:
فن کتابت کے متحیرالعقل ارتقا کے باوجود آج بھی حافظہ زیادہ جامع ہے۔ اس کی مدد سے ایک شے کو یاد کرنا اور اسے ادا کرنا، دونوں زیادہ آسانی سے اور بہتر طور پر مکمل ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم کے تلفظ اور ادائیگی کی تفصیلات کا ’فن کتابت‘ آج بھی احاطہ نہیںکرتا۔ گذشتہ برسوں میں خلیجی ممالک میں بعض ایسے مصاحف شائع ہوئے ہیں جن میں ادائیگی کے رموز مثلاً اِ خفاء و ادغام اور مد وقصر وغیرہ کو ۲۴ رنگوں سے نمایاں کیا گیا ہے۔ آج سے چند برس قبل تک اس کا تصور بھی نہیں تھا۔ دیگر قراء اتِ قرآن بالخصوص روایت ِوَرش میں تحریر کئے جانے والے قرآنِ کریم میں ادائیگی کے رموز کے لئے رنگوں کا استعمال عرصہ سے متداول ہے۔ اس کے باوجود آج بھی فن کتابت میں قرآنِ کریم کی ادائیگی کی مکمل تفصیلات محفوظ نہیں ہوسکتیں۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی حفاظت تلقی واداء کے ذریعے ہوئی ہے جبکہ حدیث کی حفاظت تحمل وروایت کے ذریعے !!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر5:
دورِ نبوی میں آلاتِ کتابت اور کاغذ عام میسر نہ تھا۔ چنانچہ عہد ِنبوی میں قرآن اگر مکمل صورت میں موجود تھا تو وہ حفاظ ِقرآن کے سینوں میں تھا۔ کاغذ یا چمڑے پرتو قرآن متفرق اور بکھرا ہوا تھا۔ اسی لئے محققین کے نزدیک قرآنِ کریم کی آیات کی ترتیب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے کیونکہ آیات کی ترتیب کے بغیر ایک مسلسل مضمون نہیں مل سکتا۔جبکہ سورتوں کی ترتیب میں علما متفق نہیں ہیں۔ جمہور محدثین کے ہاں ان ٹھیکریوں، چوڑی ہڈیوں اور کھجور کی چھالوں پر لکھے ہوئے قرآن کو پہلے تو حفاظِ قرآن نے ہی ’صحف‘ کی شکل عہد ِصدیقی میں دی۔پھر سورتوں کی مکمل ترتیب اور خاص رسم الخط میں حضرت عثمان نے مصحف کی صورت قرآن جمع کیا۔ لہٰذا ’جامع القرآن ‘ کا لقب آج تک انہی کے لئے خاص ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر6:
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی حفظ و ادا کی صورت ملا نہ کہ بصورتِ کتابت ، جبریل امین ؑ اور نبی رحمت ﷺ اس کو حافظے کی مدد سے صحابہ کرام کو پہنچایا کرتے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر7:
اس امر کی شہادت بھی قرآن میں موجود ہے کہ قرآنِ کریم کی دنیا میں حفاظت کس طرح ہوئی:
’’ بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِیْ صُدُوْرٍ الَّذِيْنَ اُوْتُوْا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِاٰيَاتِنَا اِلاَّ الظّٰلِمُوْنَ‘‘(العنکبوت: ۴۹)
’’بلکہ وہ (قرآن) تو واضح آیات ہیں جو ان لوگوں کے سینے میں محفوظ ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے۔ اور ہماری آیات سے بے انصاف لوگوں کے سوا کوئی انکار نہیں کرتا۔‘‘
 
Top