• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فتنے فساد کے وقت چھپ کر رہنے والامال دار متقی شخص

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
فتنے فساد کے وقت چھپ کر رہنے والامال دار متقی شخص

سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ۔))1
''بلاشبہ اللہ تبارک وتعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والے، مالدار اور فتنہ و فساد کے وقت چھپ کر رہنے والے بندے سے محبت فرماتے ہیں۔''
یہاں اس حدیث مبارک میں مذکور لفظ ''اَلتّقِی'' سے مراد: وہ شخص ہے کہ جو ایمان بالغیب کے تقاضے پورے کرتا ہو، نماز قائم کرتا ہو، جو کچھ اللہ تبارک و تعالیٰ نے عطا کر رکھا ہے اس رزق میں سے خرچ کرتا ہو۔ جو کچھ شریعت مطہرہ میں سے (بصورت قرآن و سنت) نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نازل کیا گیا اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نازل کیا گیا ہے (تورات، زبور، انجیل و صحائف وغیرہ) ان سب پر ایمان رکھتے ہوئے، آخرت پر مکمل ایمان و یقین رکھتا ہو۔ اپنے عہد، معاہدے کو پورا کرتا ہو۔ اللہ عزوجل کی حرام کردہ چیزوں سے بچتا ہو اور اس شریعت مطہرہ کی اطاعت و تابع داری کرتا ہو کہ جسے خاتم الانبیاء والمرسلین سیّد الاوّلین والآخرین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے کر بھیجا گیا ہے۔
''اَلْغَنِيُّ''...2 سے مراد نفس کی دولت مندی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجِ ذیل فرمان کے موجب یہی معنی زیادہ پسندیدہ ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح مسلم، کتاب الزہد/ باب۔ الدنیا سبحن للمؤمن وجنّۃ للکافر/ حدیث: ۷۴۳۲۔
2 تفصیل کے لیے: فتح الباری جلد ۱۱، ص ۲۷۲ اور ۲۷۳ دیکھئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَیْسَ الْغَنِیَ عَنْ کَثْرَۃِ الْعَرَضِ وَلٰکِنَّ الْغِنَی غَنِیَ النَّفْسِ۔))1
''دولت مندی زیادہ مال و اسباب ہونے کے سبب نہیں ہوتی بلکہ مالداری نفس کے غنی ہونے کے ساتھ ہوتی ہے۔''
اس حدیث کی شرح میں ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں: مالداری کی حقیقت کثرتِ مال سے نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے وافر مال دے رکھا ہے مگر وہ دیے گئے مال پر قناعت نہیں کرتے۔ بلکہ مزید مال کے لیے جدوجہد کرتے رہتے ہیں چاہے جہاں سے بھی مال اُن کے پاس آئے۔ (اس بات کی وہ پرواہ نہیں کرتے کہ مال حلال طریقے سے آتا ہے یا حرام طریقے سے)۔ گویا وہ اپنی شدتِ حرص و طمع کی وجہ سے تہی دست ہوتے ہیں۔ بلکہ درحقیقت مالداری تو نفس کی غنا ہے۔ نفس کی مالداری و غنا یہ ہے کہ آدمی اُس رزق پر مستغنی ہوجائے جو اُسے اللہ کریم کی طرف سے عطا ہو، اسی پر وہ قناعت کرے۔ زیادہ کی طلب پر طمع اور حرص نہ کرے اور نہ ہی زیادہ رزق کی طلب میں الحاء و التجا سے کام لے۔ یوں گویا کہ وہ مالدار ہے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث مبارک کا معنی یہ ہے کہ: نفع بخش مالداری یا بہت بڑی مالداری و دولت مندی یا قابل تعریف وہ شخص ہوتا ہے جو نفس کا غنی ہو۔ تفصیل اس کی یوں ہے کہ: جب آدمی کا نفس طمع و حرص والی چیزوں سے مستغنی ہوجائے تو وہ عزت و عظمت والا ہوجاتا ہے۔ اور اُسے اس غنائِ نفس سے زیادہ مرتبہ و مقام، شرف و منزلت اور تعریف حاصل ہوتی ہے کہ جتنی اُس آدمی کو حاصل جو اپنے طمع و حرص کی وجہ سے فقیر النفس ہے۔ اس لیے کہ نفس کا فقر آدمی کو اس کے بخل اور ہمت کے توڑ بیٹھنے کی وجہ سے انتہائی رذیل و خسیس اُمور و افعال کا عادی بنا دیتا ہے۔ زیادہ لوگ اس کی مذمت کرنے لگتے ہیں اور لوگوں کے ہاں اس کی قدر و منزلت کم ہوجاتی ہے۔ چنانچہ وہ ہر حقیر آدمی سے بھی زیادہ حقیر اور ہر ذلیل آدمی سے بھی زیادہ ذلیل ہوجاتا ہے۔
حاصل کلام یہ ہوا کہ: نفس کے غناء سے متصف آدمی، جو کچھ اُسے اللہ تعالیٰ نے دے رکھا ہو اُس پر وہ قناعت کرنے والا ہوتا ہے۔ بغیر ضرورت کے وہ زیادہ رزق کے طلب کرنے پر حرص و طمع سے کام نہیں لیتا اور نہ ہی وہ رزق کے طلب کرنے میں زیادہ گڑگڑاہٹ سے کام لیتا ہے اور نہ ہی وہ مانگتے وقت چمٹ ہی جاتا ہے۔ بلکہ اللہ عزوجل نے جو اُس کی قسمت میں لکھ رکھا ہے اُس پر وہ راضی رہتا ہے۔ گویا وہ ہمیشہ مالدار ہی رہتا ہے۔ اس کے برعکس نفس کے فقر سے متصف آدمی اس رزق پر قانع نہیں ہوتا کہ جو اسے ربِ کائنات کی طرف سے دیا جائے بلکہ وہ تو ہمیشہ مال کے زیادہ حاصل کرنے میں جس طرح بھی ممکن ہو کوشش میں لگا رہتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح البخاری/کتاب الرقاق/ حدیث : ۶۴۴۶۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
پھر اگر اس سے کوئی اس کی مطلوب چیز اُسے حاصل نہ ہوسکے تو وہ متأسف و غمگین ہوجاتا ہے۔ گویا وہ مال کا بھی فقیر ٹھہرا۔ اس لیے کہ جو اسے ملا ہے اُس پر وہ مستغنی نہیں ہوا۔ تویوں جانیے کہ وہ درحقیقت مالدار ہے ہی نہیں۔
امام طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ممکن ہے کہ نفس کے غنی سے مراد علمی اور عملی کمالات کا حصول لیا جائے۔ اسی بات کی طرف تو شاعر نے بھی اشارہ کیا ہے۔


وَمَنْ یُنْفِقِ السَّاعَاِت فِيْ جَمْعِ مَالِہِ
مَخَافَۃَ فَقْرٍ فَالَّذِيْ فَعَلَ الْفَقْرَ


''اور جو آدمی فقر و فاقہ سے ڈر کر اپنے تمام اوقات کو مال جمع کرنے میں صرف کرتا ہے تو یہی وہ شخص ہے کہ جس نے فقر نفس کو پالا ہے۔''
یعنی ضروری تو یہ تھا کہ آدمی اپنے اوقات کو حقیقی مالداری (نفس کے غنا) کے لیے صرف کرتا اور یہ اوقات کا خرچ کرنا تھا کمالات کو حاصل کرنا، نہ کہ مال کو جمع کرنا۔ اس لیے کہ مال کے جمع کرنے میں فقر ہی بڑھتا ہے۔ نفس کے غنی (جمع مال کے غنی) کا ذکر تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بطور احسان فرمایا ہے۔
چنانچہ فرمایا:
{وَوَجَدَکَ عَائِلًا فَأَغْنٰیo} [الضحیٰ:۸]
''اور اللہ رب العالمین نے تمہیں (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نادار، تہی دست پایا، سو اُس نے مالدار کردیا۔''
تو یہ آیت کریمہ نفس کے غنا پر دلالت کر رہی ہے۔ اس لیے کہ آیت کریمہ مکی ہے اور یہ بات کسی بھی صاحب علم پر پوشیدہ نہیں ہے کہ مکی دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح خیبر سے پہلے پہلے تک جو مالی حالت تھی۔ مال کی بہت کمی تھی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
''اَلْخَفِيُّ''... سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو عبادت کے لیے گھر بار اور معاشرے سے الگ تھلگ ہوکر ہلکی آواز سے اللہ کا ذکر کرنے والا ہو۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((رُبَّ أَشْعَثَ مَدْفُوْعٍ بِالْأَبْوَابِ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَأَبَرَّہُ...))1
''بہت سارے پریشان حال لوگ، گردوغبار سے اٹے ہوئے بالوں والے ایسے ہیں کہ جنہیں دروازوں پر سے دھکیلا جائے مگر یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اعتماد پر اگر وہ قسم کھابیٹھیں تو اللہ تعالیٰ اُن کی قسم کو سچا کر دکھائے۔''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح مسلم، کتاب البرّ والصلۃ، حدیث : ۶۶۸۲۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یعنی لوگوں کے ہاں ان کی کوئی قدر و قیمت نہ ہو۔ وہ ان کو اپنے دروازوں سے دور دھکیل دیں اور انہیں حقیرجانتے ہوئے اپنے دروازوں سے دور کردیں۔ مگر اللہ رب العالمین کے ہاں اُن کی اتنی قدر و قیمت ہوتی ہے کہ اگر وہ اللہ عزوجل پر بھروسہ رکھتے ہوئے اس کی قسم کھالیں تو اللہ کریم ان کی قسم کو ضرور پوری کرتا ہے۔ یعنی ایسے اللہ کے دوست اگر کسی چیز کے واقع ہونے کے لیے قسم اٹھالیں تو اللہ تعالیٰ اپنے اس ولی کے سوال کو پورا کرتے ہوئے اس کی عزت کی خاطر اس چیز کو واقع کردیتے ہیں۔ یہ بات ان کی اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر و منزلت کی بڑائی کی وجہ سے ہوتی ہے اگرچہ وہ لوگوں کے ہاں حقیر ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں قسم کا ایک معنی: دعا کا بھی کیا گیا ہے اور قسم کے پورا کرنے کا مطلب اُس کی دعا کی قبولیت ہے۔1
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ پرہیزگار، متقی، چھپ کر اللہ کی عبادت کرنے والے کو پسند کرتے ہیں۔ چھپ کر اللہ کی عبادت کرنے والا یہ متقی آدمی کہ اگر وہ اوجھل ہوجائے تو وہ گم شدہ شمار نہیں ہوتا (کہ لوگ اسے تلاش کرتے پھریں) اور اگر موجود ہو تو اس کی خاص پہچان نہیں ہوتی (کہ اُس کی موجودگی کی معاشرے میں کوئی خاص ضرورت ہو) نہ ہی تو وہ خیر، بھلائی کے لیے باہمی تعاون کرتا ہے اور نہ ہی علم و عمل کا اظہار کرتا ہے۔ نہ ہی اس کی مخلوق کے دلوں میں کوئی جاہ و منزلت ہوتی ہے۔ رب کریم کی اطاعت میں مخلوق کی اطاعت کے بغیر صرف اللہ تعالیٰ کی اطلاع پر ہی وہ قناعت کرتا ہے اور وہ صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثناء پر ہی قناعت کرتا ہے۔ اسے لوگوں کی تعریف کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ شہرت و ناموری کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ کا ذکر چھپا کر کرنے کو وہ فضیلت دیتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 تفصیل کے لیے دیکھئے: شرح صحیح مسلم للنووی جلد ۱۶، ص ۱۷۴، ۱۷۵۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top