• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فتوی سے متعلق

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
فتوی سے متعلق فوائد
شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ​

دین میں فتویٰ نویسی کے لیے ان فوائد کی معرفت ضروری ہے تاکہ فتویٰ میں بصیرت پیدا ہو اور تقول علی اللہ کا مرتکب نہ ہو۔ یہ فوائد بکثرت ہیں، بعض اہم درج ذیل ہیں:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
پہلا فائدہ:
مفتی کو درج ذیل حالتوں میں فتوی سے گریز کرنا چاہیے:
1---سخت غصے کی حالت۔
2---سخت بھوک کی حالت۔
3--- پریشان کن غم۔
4---سخت خوف۔
5---اُونگھ کا غلبہ۔
6---قلبی شغل کا غلبہ۔
7---ضرورت قضائے حاجت۔
تو جب اپنے نفس میں ایسی کوئی چیز محسوس کرے جس سے وہ حال اعتدال میں نہ رہے اور تثبت و تبین میں کمال نہ رہے تو فتوی سے گریز کرے کیونکہ اللہ کے دین میں فتوی دینا بڑی ذمہ داری کا کام ہے اس لیے متنبہ رہنا واجب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
دوسر افائدہ:

اہلیت کے بغیر فتویٰ دینے والا نا فرمان ہے اور اس قسم کے مفتی مقرر کرنے والے حکمران بھی گنا ہ و نافرمانی میں برابر کے شریک ہیں۔ امام احمد و امام ابن ماجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: جو علم کے بغیر لوگوں کو فتوے دیتا ہے تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہے۔

امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی سے مسئلہ پوچھا جائے تو جواب دینے دے پہلے یہ سوچ لے کہ جنت میں جانا چاہتا ہے یا جہنم کا ایندھن بننا چاہتا ہے اور آخرت میں اسکی نجات کی کیا صورت ہوگی ، پھر اس مسئلے میں جواب دے۔
ان سے کسی مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا میں نہیں جانتا ، کہا گیا یہ تو معمولی اور آسان سا مسئلہ ہے تو آپ غصہ ہوئے اور فرمایا علم میں کوئی بھی چیز معمولی نہیں، تم نے اللہ تعالی کا یہ قول نہیں سنا:
ترجمہ: یقینا ہم تم پر بہت بھاری بات عنقریب نازل کریں گے(مزمل:5)

امام احمد نے فرمایا: جو فتویٰ دینا شروع کرے اس نے بہت بڑا کام کرنا شروع کردیا ہے انتہائی ضرورت کے بغیر اس کام سے بچنا چاہیے، لا ادری (میں نہیں جانتا) نصف علم ہے، بہت سے ایسے مسائل میں جن کی دلیل نہ ملے ،فتوے دینا جنون ہے۔
عبداللہ بن مسعور رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تیسرا فائدہ:

مفتی پر نص کے خلاف فتویٰ دینا حرام ہے اگرچہ وہ اسکے مذھب کے موافق ہو اسکی مثال یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے بارے میں پوچھا جائے جس نے صبح کی ایک رکعت ادا کی تھی کہ سورج طلوع ہوگیا تو اب وہ اپنی نماز پوری کرے یا نہیں تو کہے کہ نماز پوری نہ کرے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: وہ اپنی نماز پوری کرے۔

یا جیسے کسی مرنے والے کے بارے میں پوچھا جائے جس کے روزے رہ گئے ہوں اس کا ولی اسکی طرف سے روزے رکھ سکتا ہے؟ تو کہا جائے کہ ولی کو اسکی طرف سے روزے نہیں رکھنے چاہیے حالانکہ صاحب شرع صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
جو مرجائے اور اسکے ذمہ روزے ہوں تو اس کا ولی اسکی طرف سے روزے رکھے۔

اور جیسے پوچھا جائے کہ ایک شخص نے اپنا سامان بیچا پھر مشتری مفلس ہو گیا اور وہ بیچی ہوئی چیز بعینہ مشتری کے پاس پائی گئی تو کیا بیچنے والا اس کا زیادہ حقدار ہے کہ نہیں؟ تو یہ کہے کہ وہ زیادہ حقدار نہیں اور صاحب شرع صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: وہ زیادہ حقدار ہے۔

اور جیسے رمضان میں بھول کر کھانے پینے والے کے بارے میں پوچھا جائے کہ کیا وہ اپنا روزہ پورا کرے؟ توکہے کہ وہ اپنا روزہ پورا نہ کرے اور صاحب شرع صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: وہ اپنا روزہ پورا کرے۔

اور جیسے ذی ناب درندے کے بارے میں پوچھا جائے کہ وہ حرام ہے؟ تو کہے کہ"حرام نہیں" اور صاحب شرع صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :ذی ناب درندے کا کھانا حرام ہے۔

اور جیسے پوچھا جائے کہ رکوع اور سجدے میں پیٹھ سیدھی نہ کرنے والے نمازی کی نماز ہوجاتی ہے؟ پس کہے کہ "ہوجاتی ہے" اور صاحب شرع صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: رکوع اور سجدے میں پیٹھ سیدھی نہ کرنے والے کی نماز نہیں ہوتی۔

اور اگر پوچھا جائے اولاد کو عطیہ دینے میں تفضیل کا مسئلہ درست ہے کہ نہیں اور یہ ظلم ہے کہ نہیں تو کہے کہ درست ہے اور ظلم نہیں۔
اور صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: یہ درست نہیں اور فرماتے ہیں :مجھے ظلم پر گواہ مت بناؤ۔

اور جیسے ہبہ کرنے والے کے بارے میں پوچھا جائے کہ اسکا اپنے ہبہ میں رجوع حلال ہے کہ نہیں؟ تو کہے کہ ہاں اسکے لیے ہبہ میں رجوع جائز ہے لیکن والد اور قرابت والے کے لیے رجوع درست نہیں اور صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: کسی بھی ہبہ کرنے والے کا اپنے ہبہ میں رجوع حلال نہیں البتہ والد اپنی اولاد کو اگر ہبہ کرے تو اس میں رجوع کر سکتا ہے۔

اور جیسے پوچھا جائے کہ کیا مسلمان کافر کے بدلے میں قتل کیا جا سکتا ہے؟ تو کہے کہ ہاں مسلمان کافر کے بدلے میں قتل کیا جا سکتا ہے اور صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مسلمان کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔

اور جیسے گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلے کے بارے میں پوچھا جائے تو کہے کہ درست نہیں اور صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ اور ایک قسم کے ساتھ فیصلہ کیا ہے۔

اور جیسے ایک رکعت وتر کے بارے میں پوچھا جائے تو کہے کہ ایک رکعت وتر جائز نہیں اور صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو پانچ وتر پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے ، جو تین وتر پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے اور جو ایک وتر پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔
اور فرمایا ہے: اگر طلوع صبح کا خوف ہو تو وہ ایک رکعت پڑھ لے۔

اور اگر پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ کا پوچھا جائے تو کہے کہ ہاں اس میں زکوٰۃ فرض ہے اور صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔

اور اگر پوچھا جائے کہ تیمم میں ایک ضرب کلائی کے جوڑ تک کفایت کرتی ہے کہ نہیں؟ تو کہے کہ کفایت نہیں کرتی اور صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم کی نص صریح ہے کہ کفایت کرتی ہے اور اس نص کا کوئی مدفع نہیں اور اس جیسی اور بہت سی نظائر ہیں جسے آپ اعلام الموقعین میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

اور اسلاف طیب کا نکیر وغضب ایسے لوگوں پر بڑا شدید ہےجو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رائے و قیاس اور استحسان یا لوگوں میں کسی کے قول کے ساتھ معارضہ کرتے ہیں، اور حدیث کے ساتھ تعارض کی مثالیں بیان کرنے والے کو وہ ترک کرتے تھے اور وہ حدیث رسول اللہ کے لیے سوائے انقیادوتسلیم اور سمع وطاعہ کے ساتھ قبول کرنے کے اور کسی کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور اسے قبول کرنے کے لیے عمل وقیاس شہادت اور قول فلان کی موافقت تک توقف کو خاطر میں نہیں لاتے تھے بلکہ وہ اللہ کے اس قول پر عمل کرتے تھے۔
ترجمہ: اور دیکھو کسی مومن مردو عورت کو اللہ اور اسکے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیا رباقی نہیں رہتا۔(احزاب:36)

اور اس قول پر:
ترجمہ: سو قسم ہے تیرے پروردگارکی! یہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلےآپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور نا خوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔(النساء:65)
اور اس جیسی اور بہت سی آیتیں۔
لیکن اب ایسا دور آیا کہ اگر کسی کو کہا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، انہوں نے ایسے فرمایا ہے ، تو حدیث کو سنتے ہی کہہ کر رد کردیتے ہیں کہ اس کا قائل کون ہے؟ اور قائل کے معلوم نہ ہونے کو حدیث کی مخالفت اور ترک کی دلیل بنالیتے ہیں۔

اگر وہ خیر خواہی سے کام لیں تو انہیں معلوم ہوجائے کہ یہ سب سے بڑی باطل بات ہے اور رسول کی سنن ثابتہ اس جہالت کے ساتھ رد کرنا درست نہیں اور جہالت کا عذر پیش کرنا سب سے بڑی قباحت ہے اور یہ اعتقاد رکھے کہ اس سنت کی مخالفت میں اجماع منعقد ہوچکا ہے۔ یہ حقیقت میں مسلمانوں کی جماعت پر سوءِ ظن ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت میں اتفاق کو ان کی طرف منسوب کررہا ہے اور اس اجماع کا عذر پیش کرنے میں اس سے بڑی قباحت اس حدیث کے قائل کے بارے میں اسکا عدم علم اور جہالت ہے تو اس سے سنت پر جہالت کی تقدیم لازم آئی۔ واللہ المستعان۔

ائمہ اسلام میں سے کسی نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل نہ کیا جائے جب تک اس پر عمل کرنے والے معلوم نہ ہوجائے، رب کعبہ کی قسم! حدیث پر عمل کرنے کے لیے یہ کوئی شرط نہیں کہ یہ معلوم کیا جائے کہ اس کا قائل کون ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
چوتھا فائدہ:

مفتی پر لازم ہے کہ وہ نصوص میں فاسد تاویلوں سے گریز کرے۔ اگر اس سے کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ کی تفسیرو تشریح پوچھی جائے تو وہ اپنے مذہب و خواہش کی موافقت کے لیے باطل تاویلوں کے ذریعے اپنے ظاہر سے نہ ہٹائے اور جو اس کا مرتکب ہو تو وہ فتویٰ سے روکے جانے کا مستحق ہے امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: حدیث اپنے ظاہر پر ہی رہے گی۔

اور عقائد کی کتابوں میں مذکور ہے کہ کتاب وسنت اپنے ظاہری معنی پر ہی جاری ہونگے ہاں اگر ظاہر سے ہٹا کر کسی اور معنی پر عمل کرنے کی دلیل موجود ہو تو ظاہری معنی چھوڑا جاسکتا ہے۔ عالم میں سارے فساد کا سبب فاسد تاویل ہی ہے اہل کتاب کا طریقہ درست رہا جب وہ تاویل کرنے لگے تو ایسے فساد میں واقع ہوئے کہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
پانچواں فائدہ:

مفتی پر لازم ہے کہ وہ ایسے اہل علم سےجن کے علم پر اسے بھروسہ ہو مشورہ کرتا رہے اور ازخود جواب دیکر اپنے آپ کو اونچا نہ کرے اور فتووں میں اپنے علاوہ دیگر اہل علم کی مدد حاصل کرے۔

اللہ تعالی نے بھی شاورھم فی الامر کہہ کر مشورے کا حکم دیا ہے اور مومنوں کی تو صفت بیان فرمائی ہے کہ وامرھم شوری بینھم (انکے کام آپس میں مشورے سے ہوتے ہیں)

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو جب کوئی نیا مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ اسکے لیے حاضر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
چھٹا فائدہ:

مفتی کے لیے درج ذیل مسنون دعا بکثرت پڑھتے رہنا چاہیے:
ترجمہ: اے اللہ جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل جیسے عظیم الشان فرشتوں کے رب، آسمان وزمین کے پیدا کرنےوالے غائب وحاضر کے جاننے والے، بندوں کے درمیان اختلافی امور میں تو ہی فیصلہ کرے گا، ان اختلافی امور میں اپنے اذن سے تو میری حق کی طرف رہنمائی فرما، یقینا تو ہی جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرماتا ہے۔

امام مکحول رحمہ اللہ"ماشاء اللہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ" فرماتے تھے۔

اور امام مالک رحمہ اللہ "ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ العظیم" فرماتے تھے۔

اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ انسان کو چاہیے کہ معلم ابراہیم علیہ السلام کی پناہ پکڑے۔

اسی وجہ سے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہا کرتے تھے "یا معلم ابراھیم علمنی" اے ابراھیم کے سکھانے والے مجھے بھی سکھادے۔

یہ تمام حسن نیت اخلاص قصد اور معلم اول یعنی انبیاءورسل کے معلم سے مدد طلب کرنے میں سچی توجہ کے مظاہر ہیں۔ جو شخص دین الہٰی کی تبلیغ اسکے بندوں کو ارشادونصیحت اور بلا علمتقول علی اللہ سے بچنے کی طرف صداقت کے ساتھ متوجہ ہو تو اللہ اسے نامراد نہیں کرتا، جب نیت ورغبت میں صداقت موجود ہو تو دو اجر اگر نہ ملیں تو ایک اجر سے ضرور نوازا جائے گا۔ واللہ المستعان۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ساتواں فائدہ:

اکثر اہل افتاء حق کو جانتے ہوئے جب دیکھتے ہیں کہ مسائل کی غرض کے موافق نہیں بلکہ مخالف ہے فتویٰ دینے سے گریز کرتے ہیں اکثر مفتی مستفتی سے اسکی غرض پوچھتے ہیں اگر جواب انکی غرض کے موافق ہو جواب لکھ کر دیدیتے ہیں اور بصورت عدم موافقت کسی دوسرے مفتی کے پاس بھیج دیتے ہیں اور یہ مطلقا جائز نہیں بلکہ اس میں تفصیل ضروری ہے اگر کسی ایسے مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا ہے جو علم اور سنت سے متعلق ہے یا عملی مسائل سےاسکا تعلق ہو جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نص موجود ہو تو مفتی کے لیے مسائل کی غرض کا لحاظ رکھتے ہوئے فتویٰ ترک کرنا اور اس میں توقف کرنے کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ یہ بڑا گناہ ہے کسی کی غرض کو اللہ ورسول پر مقدم کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ او ر اس مسئلے کا تعلق اجتہاد سے ہو اور اس کے نزدیک اس میں کوئی راجح قول نہ ہو تو اس میں فتویٰ دینا ترک کر دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
آٹھواں فائدہ:

بعض لوگ فتویٰ میں دلیل کے ذکر کو عیب سمجھتے ہیں حالانکہ یہ عیب سمجھنا اولیٰ بالعیب ہے فتوے کی روح اور اس کا جمال تو دلیل ہے تو فتویٰ میں اللہ ورسول کا کلام مسلمانوں کا اجماع صحابہ کے اقوال اور قیاس صحیح کا ذکر کرنا کیسے عیب ہوسکتا ہے فتویٰ کی زینت تو اللہ و رسول کا قول ہے، مفتی کا قول قبول کرنا تو واجب نہیں جب فتویٰ میں دلیل مذکور ہوتو مستفتی کے لیے اسکی مخالفت کرنا حرام ہے اور مفتی بلا علم فتویٰ کی زد سے بچ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو آپ سائل کو مطمئن کرنے کے لئے اس مسئلے کے نظائرو امثال بیان فرمایا کرتے تھے حالانکہ انکا اکیلا قول بھی حجت تھا تو کسی ایسے شخص کے بارے میں کیا خیال کیا جائے جس کا قول حجت نہیں، زیادہ سے زیادہ یہی ہوسکتا ہے کہ اس کا قول قبول کرنا جائز ہو اور بغیر حجت کے قابل قبول ہونا تو دور کی بات ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جب کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ فتویٰ میں حجت بیان کردیتے تھے اور کہتے تھے اللہ تعالی نے اس طرح فرمایا ہے، رسول اللہ نے اس طرح فرمایا ہے یا اس طرح کیا ہے اور سائل کی تسلی ہوجاتی تھی۔

صحابہ کے فتاوی میں غور کرنے پر یہ بکثرت مل سکتی ہے، پھر تابعین کا یہ طریقہ رہا کہ وہ حکم ذکر کر کے اسکی دلیل ذکر کرتے تھے اور اس کا علم بغیر دلیل کے کچھ کہنے سے مانع تھا۔

اور اسی طرح سائل بھی بلادلیل اس کا قول قبول کرنے سے انکار کرتا تھا وقت گزرتا گیا ، علم کا زمانہ دور ہوتا گیا ، اور کم ہمتی یہاں تک پہنچی کہ مفتی حضرات"ہاں" یا "نہیں" کے ساتھ جواب دینے لگے اور مسئلے کا ماخذ اور اس کی دلیل ذکر کرنا ترک کردیا گیا لیکن ساتھ ساتھ تقصیر کا اعتراف بھی کرتے تھے اور فتویٰ بالدلیل کو افضل سمجھتے تھے اس کے بعد حالات مزید وگرگوں ہوئے اور بات یہاں تک پہنچی کہ فتویٰ بالدلیل کو عیب سمجھنے لگے اور اس کی مذمت کیجانے لگی۔

اور شروح وحواشی کو دلیل کا درجہ دے دیا گیا اور قول الرسول کو قابل التفات نہ سمجھا گیا اور جب کسی فتویٰ کی دلیل پوچھی جاتی تو کہا جاتا ہے، ردالمحتار میں اس طرح مذکور ہے حالانکہ ردالمحتار کا مولف نہ نبی تھا، نہ صحانی اور نہ ہی امام مجتہد۔

اور اس کتاب میں رطب ویابس جمع ہیں، صد افسوس کہ آج کل کے مفتیوں کا شامی کے علاوہ کوئی ماخذ نہیں۔

واللہ المستعان۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
نواں فائدہ:

کبھی کبھی کسی مفتی سے کوئی کسی چیز کے بارے پوچھتا ہےتو یہ اس سے منع کردیتا ہے لیکن پوچھنے والے کو اس کے بدلے میں کسی اور مباح چیز تجویز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو گویا کہ اس نے باب محظور بند کر دیا اور باب مباح کھول دیا اور یہ کسی ناصح اور مشفق عالم کا کام ہے جو اللہ تعالی کی رضا کی خاطر اس طرح کرتا ہے علماء میں ایسے عالم کی مثال اطباء میں ناصح اور سمجھدار طبیب کی سی ہوتی ہے جو بیمار کو مضر اشیاء سے بچاتا اور مفید اشیاء بتاتا ہے اطباء ادیان وابدان کی یہی شان ہوتی ہے، حدیث صحیح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
ترجمہ: اور اللہ تعالی نے جو بھی نبی مبعوث فرمایا ہے اس پر حق ہے کہ اسے جو بھی بھلائی کی بات معلوم ہو اپنی امت کی اس کی طرف رہنمائی کرے اور جو بھی بری بات اسے معلوم ہو اس سے ان کو منع کرے۔
 
Top