• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فجر میں آنکھ نہ کھلتی ہو تو صحیح وظیفہ

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
میں نے یہ پوچھا تھا کہ کیا جن علما ء وھابیہ نے ضعیف احادیث کو فضائل واعمال میں قابل عمل قرار دیا ، تو کیا بقول آپ کے انہوں نے اُمت کو گمراہ کیا؟
سنئے امام دقیق العید علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے :
محترم بھائی
یہ علماء وہابیہ کون ہیں ؟
کیا یہ امام دقیق العید کون ہیں ، کیا یہ بھی وہابیہ میں سے ہیں ؟
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
وھابی علماء کے نام درج ذیل ہیں جن کا میں نے حوالہ دیا تھا۔
حافظ عبداللہ محدث روپڑی۔مولانا محمد اسماعیل سلفی۔شیخ الکل مولانا نذیر حسین دھلوی۔مولانا ثناء اللہ امرتسری۔
ابن دقیق العید کا نام محمد بن علی بن وہب المالکی ہے، ابوالفتح کنیت ہے ،تقی الدین لقب ہے اور ابن دقیق العید عرف ہے، سن وفات سات سو دو ہجری ہے۔
حافظ شمس الدین ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں اور امام ابن کثیر دمشقی نے البدایہ والنہایہ میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
وھابی علماء کے نام درج ذیل ہیں جن کا میں نے حوالہ دیا تھا۔
حافظ عبداللہ محدث روپڑی۔مولانا محمد اسماعیل سلفی۔شیخ الکل مولانا نذیر حسین دھلوی۔مولانا ثناء اللہ امرتسری۔
بہت شکریہ آپ نے وضاحت فرمائی ۔
لیکن یہ بات ابھی مکمل نہیں ، میری گذارش کا مقصد تھا کہ ان علماء کو وہابیہ کہنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی ۔
بلکہ مجھے تو ابھی تک ’’ وہابیہ ‘‘ کا ہی پتا نہیں کہ وہ کون ہوتے ہیں ؟
اسلئے براہ کرم وضاحت فرما دیجئے ۔ شکریہ
اور یہ بتا دیجئے کہ امام ابن دقیق بھی وہابیہ میں سے ہوتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
آپ میرے اصل سوال سے مجھے دُور لے گئے ہیں، میں نے عمر اثری صاحب سے جو سوال کیا تھا اُس کا جواب نہیں ملا۔
آپ کہتے ہیں کہ مجھے وھابیہ کا پتا نہیں کہ وہ کون ہوتے ہیں ، تو مختصر عرض ہے کہ پاک وہند میں غیر مقلدین جو کسی امام کی تقلید نہیں کرتے،ان کو وھابی کہتے ہیں ، یہ اپنے آپ کو اھل حدیث بھی کہتے ہیں،آپ پاکستان میں رہتے ہیں تو عجیب سی بات ہے کہ آپ کو وھابیوں کا علم نہیں۔
جیسا کہ نواب صدیق حسن خاں بھوپالی غیر مقلد نے اپنی کتاب کا نام ہی ترجمان وھابیہ رکھا۔
امام ابن دقیق العید علیہ الرحمہ مالکی تھے جیسا کہ اوپر اُن کے نام کے ساتھ لکھا ہوا بھی ہے ،آپ پڑھ کر بھی پوچھ رہے ہیں؟میں نے ان کی کتاب کا حوالہ دیا ہے ،اگر یہ حوالہ ان کی کتاب میں نہیں تو آپ اعتراض کریں ، ان کو تو میں نے وھابی لکھا ہی نہیں ،آپ مجھے میرے اصل سوال پر ہی رہنے دیں آپ کی مہربانی ہوگی۔میں نے جن کو وھابی علماء لکھا ہے اُن کے نام لکھ دئیے ہیں۔
لہذا میں اور بحث میں جاتا ہی نہیں۔
trjman.jpg

،
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
ساتھ میں یہ بھی بڑھا دیتے
لیکن صحیح حدیث قابل عمل نہیں ہے
آپ کب سے نظر التفات علماء وہابیہ یا اہل حدیث یا ۔۔۔۔ الخ پر کرنے لگے ۔ فورم پر مراسلے میں سادگی سے کہا گیا کہ صحیح ثابت حدیث قابل عمل نہیں ! اس پر راست جواب دیں کہ آپ نے بذات خود کیا سمجہا اور اب اسکا علمی جواب آپ کے پاس کیا هے؟ دوم علمی دلائل مع سندات ہوں ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
کوئی ایسا شخص جسکا انتقال 702 هجری میں هو چکا هو اس کا تعلق محمد بن عبد الوهاب سے جوڑنا کیسا رهیگا خصوصا اس وقت جب آپ اسی شخص کو بطور دلیل و شہادت پیش کر رہے هوں ؟!!
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
آپ میرے اصل سوال سے مجھے دُور لے گئے ہیں، میں نے عمر اثری صاحب سے جو سوال کیا تھا اُس کا جواب نہیں ملا۔
آپ نے ایک الگ بات چھیڑ دی. ضعیف احادیث فضائل اعمال کے باب میں حجت ہیں یا نہیں. یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے. اور اتنے لمبے موضوع پر بات کرنے کے لۓ فی الحال وقت نہیں ہے. میرے امتحانات اپنے آمد کا اشارہ دے رہے ہیں
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
میں نے یہ پوچھا تھا کہ کیا جن علما ء وھابیہ نے ضعیف احادیث کو فضائل واعمال میں قابل عمل قرار دیا ، تو کیا بقول آپ کے انہوں نے اُمت کو گمراہ کیا؟
اب آپ کو عبارت تو نہیں سمجھا سکتا. آپ پتہ نہیں کہاں کہاں پہونچ گئے. ابھی تو میں نے آغاز تک نہیں کیا آپ اختتام تک پہنچنے لگے
 
شمولیت
جنوری 13، 2013
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
64
حكم العمل بالحديث الضعيف

اختلف العلماء –رحمهم الله تعالى- في جواز العمل بالحديث الضعيف على مذهبين :
المذهب الأول : جواز العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال دون الحلال والحرام ، وهو مذهب جماعة من أهل العلم ، ونقله النووي على أنه إجماع كما في المجموع (2/94) و (3/226) ، وهو إجماع مردود كما سيأتي في المذهب الثاني ، ولم أقف على دليل صحيح يعتمد عليه يستند عليه أصحاب هذا المذهب إلا أن الحديث الضعيف ليس كالحديث الموضوع ، فالعمل به وإن كان عملا بظن مرجوح لكن يعمل به بشروط تجعله يستأنس بالعمل به في الترغيب والترهيب وفضائل الأعمال ، وهذه الشروط هي :
الشرط الأول : أن لا يكون شديد الضعف ، فإذا كان شديد الضعف ككون الراوي كذابا ، أو فاحش الغلط ، فلا يجوز العمل به .
الشرط الثاني : أن يكون الضعيف مندرجاً تحت أصل عام من أصول الشريعة ، فيخرج ما يخترع بحيث لا يكون له أصل معمول به أصلاً .
الشرط الثالث : أن لا يعتقد عند العمل به ثبوته عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم , لئلا ينسب إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم ما لم يثبت عنه , بل يعتقد الاحتياط .
الشرط الرابع : أن لا يتعلق بصفات الله تعالى ولا بأمر من أمور العقيدة .
الشرط الخامس : أن يكون موضوع الحديث الضعيف في فضائل الأعمال ، ولا يتعلق بحكم من أحكام الشريعة من الحلال والحرام ونحوها .
الشرط السادس : أن لا يعارض حديثاً صحيحاً ثابتاً عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أو أصلاً من أصول الشريعة .
الشرط السابع : أن لا يشتهر ذلك لئلا يعمل المرء بحديث ضعيف فيُشَرّع ما ليس بشرع , أو يراه بعض الجهال فيظن أنه سنة صحيحة .
الشرط الثامن : أن يبين ضعفه عند روايته للناس حتى لا ينسب إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم ما لم يقله ، وحتى لا يغتر العامة به .
كلّ هذه الشروط ذكرها العلماء القائلون بجواز العمل بالحديث الضعيف صيانة للشريعة حتى لا ينسب إليها ما ليس منها .
المذهب الثاني : عدم جواز العمل بالحديث الضعيف مطلقاً ، وهو مذهب جماعة من أهل العلم .
قال القاسمي في قواعد التحديث ص (70) : (لا يعمل به مطلقاً لا في الأحكام ولا في الفضائل ، حكاه ابن سيد الناس في عيون الأثر عن يحيى بن معين ، ونسبه في فتح المغيث لأبي بكر بن العربي ، والظاهر أن مذهب البخاري ومسلم ذلك أيضاً ، يدل عليه شرط البخاري في صحيحه ، وتشنيع الإمام مسلم على رواية الضعيف كما أسلفناه ، وعدم إخراجهما في صحيحهما شيئاً منه ، وهذا مذهب ابن حزم -رحمه الله- أيضاً حيث قال في الملل والنحل : ((ما نقله أهل المشرق والمغرب أو كافة عن كافة أو ثقة حتى يبلغ إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم إلا أن في الطريق رجلاً مجروحاً بكذب أو غفلة أو مجهول الحال فهذا يقول به بعض المسلمين ، ولا يحل عندنا القول به ، ولا تصديقه ولا الأخذ بشيء)) انتهى )
وقال الحافظ ابن حجر تبيين العجب ص (4) : (ولا فرق في العمل بالحديث في الأحكام ، أو في الفضائل ، إذ الكل شرع ) .
وقال الشوكاني وبل الغمام (1/53) : (وقد سوغ بعض أهل العلم العمل بالضعيف في ذلك مطلقا ، وبعضهم منع من العمل بما لم تقم به الحجة مطلقاً ، وهو الحق) .
وقال الشيخ أحمد شاكر شرح ألفية السيوطي ص (84) : (والذي أراه أن بيان الضعف في الحديث الضعيف واجب في كلّ حال ؛ لأن ترك البيان يوهم المطلع عليه أنه حديث صحيح … وأنه لا فرق بين الأحكام وبين فضائل الأعمال ونحوها في عدم الأخذ بالرواية الضعيفة ، بل لا حجة لأحد إلا بما صح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من حديث صحيح أو حسن ) .
ورجح هذا المذهب الشيخ الألباني( ينظر : تمام المنة ص (34) ، ومقدمة صحيح الترغيب والترهيب ) .
فالمسألة ليس فيها إجماع كما زعم الإمام النووي –رحمه الله تعالى- فالخلاف محفوظ .
والمذهب الثاني هو الراجح بلا شك ، وذلك للأدلة الآتية :
الدليل الأول : عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ –رضي الله عنه- عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : ((مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ))(رواه مسلم رقم الحديث (1) ) .
وجه الاستدلال : أن النبي صلى الله عليه وسلم بين أنه من حدث بحديث يرى -يظن- أنه كذب يعني لم يقله النبي صلى الله عليه وسلم فهو أحد الكاذبين ، فالذي يروي الحديث الضعيف ويعمل به داخل في هذا الوعيد ، لأنه يروي الحديث الضعيف ويحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم ويرى في نفس الوقت أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يقله ، ومع ذلك يعمل به على أن فيه فضيلة ، فهذه الفضيلة إما لأنه يعتقد أنها من النبي صلى الله عليه وسلم وهذا باطل ، وإما أنها لأدلة أخرى صحيحة فلا عبرة إذا بهذا الحديث ولا في روايته ، وإما من عند نفسه ، وهذا أمر محرم لأن الذي يستحب الأمور الشرعية ويبين فضلها هو الشارع فقط .
الدليل الثاني : الحديث الضعيف لا يفيد إلا الظن المرجوح ، كما سبق ، والظن لا يغني من الحق شيئاً ، بل الظن المرجوح جاء ذمه في القرآن والسنة ، كقوله تعالى : ﴿ وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلاَّ ظَنًّا إَنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللّهَ عَلَيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ﴾ سورة يونس: 36 ، وقوله تعالى : ﴿وَمَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنَّ الظَّنَّ لا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا﴾ سورة النجم: 28 ، وعن أَبي هُرَيْرَةَ –رضي الله عنه- عَنْ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : ((إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ …))( رواه البخاري رقم الحديث (5143) ، ومسلم رقم الحديث (6701)).
فالعمل بالحديث الضعيف مذموم داخل في هذه النصوص لأنه عمل بالظن المرجوح.
فإن قيل : إن العمل بالحديث الضعيف عندنا يشترط أن يدل عليه أصل من الشريعة ، فالعمل إذا يكون بالظن الراجح .
جوابه :
الجواب الأول : إن زعمتم أن العمل منكم كان بأصل الشريعة فلماذا تذكرون الفضل الوارد في الحديث الضعيف؟! فاستدلالكم في الحقيقة إنما هو بالحديث الضعيف ، وإن كان بالحديث الضعيف فقد عملتم بالظن المرجوح . فأنتم في الحالين عملتم بالظن المرجوح المذموم .
الجواب الثاني : عملكم بالحديث الضعيف مع أصل الشريعة لا يخلو إما أن هذا الأصل قوى الحديث الضعيف وعليه فإن الحديث حسن أو صحيح محتج به ، وهذا باطل لأن بحثنا معكم في الحديث الضعيف ، ولأنكم تقولون العمل بالحديث الضعيف لا الصحيح أو الحسن المحتج به ، وإن كان لم يتقوَ به وهذا هو المراد فإذاً أنتم عملتم بالحديث الضعيف فعملتم بالظن المرجوح المذموم ، فالعمل بالحديث الضعيف عمل بالظن المرجوح المذموم ، بلا شك .
الدليل الثالث : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ –رضي الله عنه- عَنْ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ : ((سَيَكُونُ فِي آخِرِ أُمَّتِي أُنَاسٌ يُحَدِّثُونَكُمْ مَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ ))( رواه مسلم رقم الحديث (7) ) .
وجه الاستدلال : أن النبي صلى الله عليه وسلم حذر من أخذ الحديث والرواية عن الضعفاء ، وذلك حتى لا يعمل بها ، والعمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال داخل في هذا التحذير النبوي بلا ريب ، وعليه لا يجوز العمل به .
قال المناوي( فيض القدير (4/174) ) : ((سيكون في آخر الزمان أناس من أمتي) يزعمون أنهم علماء (يحدثونكم بما لم تسمعوا به أنتم ولا آباؤكم) من الأحاديث الكاذبة والأحكام المبتدعة والعقائد الزائفة (فإياكم وإياهم) أي احذروهم وبعدوا أنفسكم عنهم ، وبعدوهم عن أنفسكم ، قال الطيبي : ويجوز حمله على المشهورين المحدثين ، فيكون المراد بها الموضوعات ، وأن يراد به ما هو بين الناس أي يحدثوهم بما لم يسمعوا عن السلف من علم الكلام ونحوه ، فإنهم لم يتكلموا فيه . وعلى الأول ففيه إشارة إلى أن الحديث ينبغي أن لا يتلقى إلا عن ثقة عرف بالحفظ والضبط وشهر بالصدق والأمانة عن مثله حتى ينتهي الخبر إلى الصحابي ، وهذا علم من أعلام نبوته ومعجزة من معجزاته فقد يقع في كلّ عصر من الكذابين كثير ، ووقع ذلك لكثير من جهلة المتدينة المتصوفة) .
الدليل الرابع : ومما يضعف المذهب الأول أنهم يرون أنه لا يجوز العمل بالحديث الضعيف في الحلال والحرام لكن في فضائل الأعمال فقط ، وهذا لا ضابط فيه عندهم بدليل أنهم عملوا بالحديث الضعيف في الأحكام ، فهذا الإمام النووي وهو يتكلم على السترة وعلى الخط قال –رحمه الله تعالى- ( المجموع (3/226) ) : (فان لم يجد شيئا شاخصا فهل يستحب أن يخط بين يديه نص الشافعي في القديم وسنن حرملة أنه يستحب وفى البويطى لا يستحب … والمختار استحباب الخط لأنه وإن لم يثبت الحديث ففيه تحصيل تحريم للمصلي ، وقد قدمنا اتفاق العلماء على العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال دون الحلال والحرام ، وهذا من نحو فضائل الأعمال) .
وهل استحباب الخط من فضائل الأعمال ؟! بل هو حكم شرعي يتقرب به إلى الله تعالى وأنه إذا فعله فكأنما وضع سترة أمامه ، ولم يأت دليل صحيح باستحبابه؟! وقد وقع له من ذلك ولغيره من القائلين بالعمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال الشيء الكثير وذلك بسبب القول بجواز العمل بالحديث الضعيف ، فوجب والحالة هذه أنه لا يجوز العمل بالحديث الضعيف ، حتى لا ينسب إلى الشرع ما ليس منه ، لأنه إذا كان بعض العلماء كأمثال النووي وغيره من الجهابذة وقعوا في العمل بالحديث الضعيف في الأحكام بسبب جواز العمل بالحديث الضعيف في الفضائل فغيرهم من باب أولى .
الدليل الخامس : أن فضائل الأعمال لا تخرج عن الأحكام التكليفية الخمسة ، فالعمل بالحديث الضعيف في فضل عمل ما يعني استحبابه بعينه لورود هذا الفضل في هذا الحديث الضعيف ، ولا شك أن الاستحباب حكم شرعي لا يجوز إثباته إلا بنص صحيح .
الدليل السادس : قاعدة سد الذريعة : يحرم العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال وخاصة في هذا الزمان . لأنك ترى –حفظك الله تعالى- أن العلماء الذين قالوا بهذا المذهب ذكروا شروطا وذلك لحفظ وصيانة الشريعة من أن يدخل فيها ما ليس منها ، فهل من يروي الأحاديث الضعيفة أو يعمل بها في فضائل الأعمال أعمل هذه الشروط ؟ لا شك أنه لا يفعل ذلك ، لأنه كيف له أن يميز بين الحديث الضعيف وشديد الضعف ، والضعيف والموضوع ، وأن يكون لهذا الحديث الضعيف أصل من أصول الشرع وهكذا بقية الشروط . فهذه القيود والشروط التي ذكرها العلماء لا يفهمها إلا من له بالحديث عناية ، يميز شديد الضعف من خفيفه ، أما أن يسترسل في ذلك ممن ليس الحديث مهنته ، فهذا يخشى عليه الوقوع في جملة القائلين على رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لم يقل ، فلا شك أن هذا يدعوا لترك العمل بالحديث الضعيف مطلقاً ، وفي الصحيح ما يغني عنها .
الدليل السابع : قال الشوكاني( وبل الغمام (1/54)) : ( وقد سوغ بعض أهل العلم العمل بالضعيف في ذلك مطلقا ، وبعضهم منع من العمل بما لم تقم به الحجة مطلقاً ، وهو الحق ، لأن الأحكام الشرعية متساوية الأقدام ، فلا يحل أن ينسب إلى الشرع ما لم يثبت كونه شرعاً ، لأن ذلك من التقول على الله بما لم يقل ، وما كان في فضائل الأعمال ، إذ جعل العمل منسوبا إليه نسبة المدلول إلى الدليل ، فلا ريب أن العامل به ، وإن كان لم يفعل إلا الخير ، من صلاة أو صيام أو ذكر ، لكنه مبتدعٌ في ذلك الفعل من حيث اعتقاده مشروعيته بما ليس شرع ، وأجر ذلك العمل لا يوازي وِزْرَ الابتداع ، فلم يكن فعل ما لم يثبت مصلحة خالصة ، بل معه عرضة بمفسدة هي إثم البدعة ، ودفع المفاسد أهم من جلب المصالح … وقيل : إن كان ذلك العمل الفاضل الذي دلّ عليه الحديث الضعيف داخلاً تحت عموم صحيح يدل على فضله ساغ العمل بالحديث الضعيف في ذلك ، وإلا فلا ، مثلاً : لو ورد حديث ضعيف يدل على فضيلة صلاة ركعتين في غير وقت كراهة فلا بأس بصلاة تلك الركعتين لأنه قد دل الدليل العام على فضلية الصلاة مطلقا إلا ما خص . يقال : إن كان العمل بذلك العام الصحيح فلا ثمرة للاعتداد بالخاص الذي لم يثبت إلا مجرد الوقوع في البدعة ، وإن كان العمل بالخاص عاد الكلام الأول ؛ وإن كان العمل بمجموعهما كان فعل الطاعة مشوبا ببدعة ، من حيث إثبات عبادة شرعية بدون شرع ) .
ينظر : تدريب الراوي ص (196) ، والقول البديع للسخاوي ص (258) ، وعلوم الحديث لابن الصلاح ص (93) ، وتبيين العجب لما ورد في فضل رجب لابن حجر ص (3-4) ، والدر المختار (1/128) ، ودرر الأحكام (1/37) ، وتحفة المحتاج (3/42) ، ومغني المحتاج (1/289) ، نهاية المحتاج (2/112) ، وحواشي الشرواني (1/240) ، والموسوعة الفقهية (32/160) .

أقوال العلماء في منع العمل بالحديث الضعف مطلقا

قال الإمام مسلم بن الحجاج ”وإنما ألزموا أنفسهم الكشف عن معايب رواة الحديث ، وناقلي الأخبار ، وأفتوا بذالك لما فيه من عظيم الخطر ، إذ الأخبار في أمر الدين إنما تأتي بتحليل أو تحريم أو أمر أو نهي أو ترغيب أو ترهيب“ [مُقدمة صحيح مسلم (1/28)] .
وقال الحافظ إبن رجب الحنبلي ”وظاهر ما ذكره مسلم في مقدمته (يعني الصحيح) يقتضي أنه لا تُروى أحاديث الترغيب والترهيب إلا ممن تُروى عنه الأحكام“ [شرح علل الترمذي (2/112)] .
وقال الإمام إبن العربي ”لا يجوز العمل بالحديث الضعيف مُطلقاً لا في فضائل الأعمال ولا في غيرها“ [تدريب الراوي (1/252)] .
وقال الإمام إبن الجوزي ”إن قوماً منهم القصاص كانوا يضعون أحاديث الترغيب والترهيب ، ولبَسَ عليهم إبليس بأننا نقصد حث الناس على الخير وكفهم عن الشر ، وهذا إفتأت منهم على الشريعة ؛ لأنها عندهم على هذا الفعل ناقصة تحتاج إلى تتمة ، ثم نسوا قوله r (مَن كذب عليَّ مُتعمداً فليتبوأ مقعدَه من النار)“ [تلبيس إبليس (ص124)] .
وقال شيخ الإسلام إبن تيمية ”ولا يجوز أن يُعتمد في الشريعة على الأحاديث الضعيفة التي ليست صحيحة ولا حسنة“ [القاعد الجليلة في التوسل والوسيلة (ص82)] .
وقال أيضاً ”ولم يقل أحد الأئمة أنه يجوز أن يجعل الشيء واجباً أو مُستحباً بحديث ضعيف ، ومن قال هذا فقد خالف الإجماع“ [مجموع الفتاوى (1/250)] .
وقال العلامة اللكنوي ”ويُحرم التساهل في (الحديث الضعيف) سواءً كان في الأحكام أو القصص أو الترغيب أو الترهيب أو غير ذالك“ [الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة (ص21)] .
وقال العلامة جمال الدين القاسمي ”إعلم أنَّ هناك جماعة من الأئمة لا يرونَ العمل بالحديث الضعيف مُطلقاً كابن معين والبخاري ومسلم وأبي بكر بن العربي وإبن حزم“ [قواعد التحديث (ص113)] .
وقال العلامة حبيب الرحمن الأعظمي ”ولكن الحديث قدرَ ما كان بعيداً عن وسمة الضعف ، ونقياً من شائبة الوهم ، كان أشدُ وقعاً في القلوب وتأثيراً في النفوس لزيادة الثقة به ، واطمئنان النفس إليه“ [مُقدمة مختصر الترغيب والترهيب (ص06)] .
وقال المُحدث أحمد شاكر ”والذي أراه أنَّ بيان الضعف في الحديث واجب على كل حال ، ولا فرق بين الأحكام وبين فضائل الأعمال ونحوها في عدم الأخذ بالرواية الضعيفة ، بل لا حُجة لأحد إلا بما صح عن رسول الله من حديث صحيح أو حسن“ [الباعث الحثيث (ص101)] .
وهذا القول إختاره المحدث محمد ناصر الدين الألباني [أنظر صحيح الترغيب والترهيب (1/47)] .
وقال رحمه الله ”العمل بالضعيف فيه خلاف عند العلماء ، والذي أُدينُ الله به ، وأدعوا الناس إليه ، أنَّ الحديث الضعيف لا يُعمل به مُطلقاً لا في الفضائل ولا المُستحبات ولا غيرها“ [صحيح الجامع الصغير وزيادته (1/49)] .
وقال أيضاً ”وخُلاصة القول أنَّ العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال لا يجوز القول به على التفسير المرجوح هو لا أصل له ، ولا دليل عليه“[تمام المنة (ص38)] .
وقال أيضاً ”فلا يجوز العمل بالحديث الضعيف لأنه تشريع ، ولا يجوز بالحديث الضعيف لأنه لا يُفيد إلا الظن المرجوح إتفاقاً ؛ فكيف يجوز العمل بعلته“ [سلسلة الأحاديث الضعيفة (2/52)] .
وقال المحدث مُقبل بن هادي الوادعي ”والعلماء الذين فصلوا بين الحديث الضعيف في فضائل الأعمال وبينه في الأحكام والعقائد ، يقول الإمام الشوكاني رحمه الله في كتابه (الفوائد المجموعة) : ((إنه شرع ، ومن أدعى التفصيل فعليه بالبرهان)) ، والأمر كما يقول الشوكاني رحمه الله ، والنبي r يقول ((من حدَّثَ عني بحديث يرى أنه كذِّب فهو أحد الكذابين))“ [المقترح في أجوبة أسئلة المصطلح (السؤال 213)(ص108)] .

قال الشيخ الدكتور عبدالكريم الخضير سدده الله في كتابه (الحديث الضعيف وحكم الاحتجاج به) بعد ذكر الخلاف في هذه المسألة ”ومن خلال ما تقدم يترجح عدم الأخذ بالحديث الضعيف مُطلقاً لا في الأحكام ولا في غيرها لما يلي :
أولاً : لإتفاق علماء الحديث على تسمية الضعيف بالمردود .
ثانياً : لأن الضعيف لا يُفيد إلا الظن المرجوح ، والظن لا يُغني من الحق شيأً .
ثالثاً : لِما ترتب على تجويز الاحتجاج به من تركٍ للبحث عن الأحاديث الصحيحة والاكتفاء بالضعيفة
رابعاً : لِما ترتب عليه نشؤ البدع والخُرفات والبعد عن المنهج الصحيح“
وقال العلامة الشيخ إبن عثيمين في شرح البيقونية”والحمدُّ لله فإن في القرآن الكريم والسنة المُطهرة الصحيحة ما يُغني عن هذه الأحاديث“
وقال المحدث مقبل بن هادي الوادعي ”فالحديث الضعيف لا يُحتاج إليه وفي الصحيح من سنة رسول الله
ما يُغني عن الضعيف“ [المقترح في أجوبة أسئلة المصطلح (السؤال 213)]
وقال أيضاً ”ثم إن هؤلاء اللذين يقولون يُعمل به خصوصاً من المُعاصرين تجِدُه لا يعرف الحديث الضعيف ، ولا يدْري لماذا ضُعف“ [المقترح في أجوبة أسئلة المصطلح (السؤال 213)] .
وقال الشيخ الدكتور سعيد بن وهف القحطاني سدده الله ”الراجح من أقوال أهل العلم بطلان العمل بالحديث الضعيف لا في فضائل الأعمال ولا في غيرها“ [مقدمة حصن المسلم (ص06)] .


http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=134000
 
Last edited:
Top