• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ علیہ اسلام کو ہبہ کر دیا تھا۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
رہے ابن معین تو (مزید تلاش کرنے سے پتہ چلا ہے کہ ) ان سے دونوں طرح کے اقوال مروی ہیں
ابن معین کی تضعیف کا حوالہ :

(234) قال رجل ليحيى: فالعوفي؟ قال: «كان ضعيفاً في القضاء ضعيفاً في الحديث» . (سؤالات ابن الجنید لابن معین ص 331 ، ط مکتبۃ الدار)

حدثنا علي بن أحمد بن سليمان، حدثنا ابن أبي مريم سألت يحيى بن معين عن عطية العوفي فقال ضعيف إلا أنه يكتب حديثه.(الکامل لابن عدی ج 7 ص 84 ط العلمیۃ ، بیروت)
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آپ لوگ بھی کہاں اسماء رجال کی بحث لیکر بیٹھ گئے مسئلہ ہے باغ فدک کا اور صحیح بخاری کے مطابق فدک کو جب حضرت ابوبکر نے خاتون جنت حضرت فاطمہ کے حوالے نہ کیا تو اس بات پر خاتون جنت حضرت فاطمہ ابوبکر سے ناراض ہوگیئں اور ایسی ناراض ہوئی کہ اپنے وصال تک ابوبکر سے ناراض ہی رہیں جبکہ صحیح بخاری میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ
فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے فاطمہ کی ناراضگی میری ناراضگی ہے

اور بات بھی ثابت شدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے

اب جنت کی عورتوں کی سردار اور اہل جنت کے جوانوں کے سرداروں کی والدہ ہی اس مسئلے میں حق پر ہیں کیونکہ کسی ناحق بات پر خاتوں جنت کسی سے ناراض نہیں ہوسکتی۔
والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
آپ لوگ بھی کہاں اسماء رجال کی بحث لیکر بیٹھ گئے مسئلہ ہے باغ فدک کا اور صحیح بخاری کے مطابق فدک کو جب حضرت ابوبکر نے خاتون جنت حضرت فاطمہ کے حوالے نہ کیا تو اس بات پر خاتون جنت حضرت فاطمہ ابوبکر سے ناراض ہوگیئں اور ایسی ناراض ہوئی کہ اپنے وصال تک ابوبکر سے ناراض ہی رہیں جبکہ صحیح بخاری میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ
فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے فاطمہ کی ناراضگی میری ناراضگی ہے

اور بات بھی ثابت شدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے

اب جنت کی عورتوں کی سردار اور اہل جنت کے جوانوں کے سرداروں کی والدہ ہی اس مسئلے میں حق پر ہیں کیونکہ کسی ناحق بات پر خاتوں جنت کسی سے ناراض نہیں ہوسکتی۔
والسلام
یہاں حدیث کے متعلق ہی بات رہنے دیں ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضی کا مسئلہ اس فورم پر تفصیل سے زیر بحث لایا جا چکا ہے یہاں دیکھیں :
http://forum.mohaddis.com/threads/رسول-اللہ-ﷺ-کے-ترکہ-میں-وراثت-کا-مسئلہ.5540/
بلکہ مذکورہ دہاگے میں آپ ناراضی سے بحث کو موڑ کر کسی اور طرف بھاگتے بھی نظر آتے ہیں ۔
اسی طرح یہی مسئلہ فورم پر ایک اور جگہ بھی پیش کیا گیا ہے :
http://forum.mohaddis.com/threads/وراثت-کے-مسئلہ-پر-فاطمہ-رضی-اللہ-عنہا-کا-حضرت-ابوبکر-رضی-اللہ-عنہ-سے-قظع-کلامی-کا-صحیح-مفہوم.12188/
بلکہ یہاں دیکھیں :
http://forum.mohaddis.com/threads/مسئلہ-باغ-فدک-انبیاء-کی-میراث-نہیں-ہوتی.17685/
آپ تو اپنی کتابوں سے ہی اس مسئلہ کو زیر بحث لانے سے گریز کر رہے ہیں ۔
 

سید رضوی

مبتدی
شمولیت
دسمبر 24، 2014
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
2
محترم مدلس کا دعویٰ آپکی طرف سے ہے آپ صحیح سند سےثابت کریں کہ عطیہ مدلس تھا،باقی یہ ذمہ ہمارے اوپر نہ ڈالیں،ہم نے تو عطیہ پر یہ اس جرح کا رد کر دیا ہے ۔اگر مدلس ہونا ثابت کرسکتے ہیں تو بسم اللہ ورنہ بتائیں پھر میں اس پر شیعہ ہونے کا جواب دوں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
محترم مدلس کا دعویٰ آپکی طرف سے ہے آپ صحیح سند سےثابت کریں کہ عطیہ مدلس تھا،باقی یہ ذمہ ہمارے اوپر نہ ڈالیں،ہم نے تو عطیہ پر یہ اس جرح کا رد کر دیا ہے ۔اگر مدلس ہونا ثابت کرسکتے ہیں تو بسم اللہ ورنہ بتائیں پھر میں اس پر شیعہ ہونے کا جواب دوں ۔
تدلیس والا اعتراض ایک طرف رہنے دیں ۔ آخری پوسٹ میں میں نے تدلیس والی بات کی بھی نہیں تھی ۔
خیر اگر آپ جواب دینا چاہتے ہیں تو ان درج ذیل تین باتوں کا جواب دے دیں :
1۔ مذکورہ روایت میں عطیہ کے شیخ ابو سعید سے کون مراد ہے ۔؟
2۔ جمہور علماء نے بلکہ سوائے ایک دو کے سب علماء نے اس کی تضعیف کی ہے ، اس کا کیا جواب ہے آپ کے پاس ۔؟
3۔ یہ شیعہ راوی ہے ، اور مبتدع کی وہ روایت جس میں اسے کی بدعت کو تقویت ملتی ہو وہ نا قابل قبول ہے ۔ اور اس روایت میں صراحت کے ساتھ شیعی موقف کو تقویت دینے کی سعی کی گئی ہے ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
تدلیس والا اعتراض ایک طرف رہنے دیں ۔ آخری پوسٹ میں میں نے تدلیس والی بات کی بھی نہیں تھی ۔
خیر اگر آپ جواب دینا چاہتے ہیں تو ان درج ذیل تین باتوں کا جواب دے دیں :
1۔ مذکورہ روایت میں عطیہ کے شیخ ابو سعید سے کون مراد ہے ۔؟
2۔ جمہور علماء نے بلکہ سوائے ایک دو کے سب علماء نے اس کی تضعیف کی ہے ، اس کا کیا جواب ہے آپ کے پاس ۔؟
3۔ یہ شیعہ راوی ہے ، اور مبتدع کی وہ روایت جس میں اسے کی بدعت کو تقویت ملتی ہو وہ نا قابل قبول ہے ۔ اور اس روایت میں صراحت کے ساتھ شیعی موقف کو تقویت دینے کی سعی کی گئی ہے ۔
میرے بھی دو سوالات ہیں
بغیر دلیل کسی محدیث کا کسی راوی کے بارے میں حکم لگادینا کس بناء پر قبول کیا جاتا ہے ؟
جبکہ اس ساری بحث میں جس راوی کو ضیف جس روایت کی بناء پر کہا جارہا ہے وہ روایت خود ضیف ہے کہ نہیں ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
میرے بھی دو سوالات ہیں
بغیر دلیل کسی محدیث کا کسی راوی کے بارے میں حکم لگادینا کس بناء پر قبول کیا جاتا ہے ؟
مختلف حالات میں اس کا جواب بھی مختلف ہے ، کوئی مثال پیش کریں ، یعنی کوئی بلا دلیل قول پیش کریں ۔
جبکہ اس ساری بحث میں جس راوی کو ضیف جس روایت کی بناء پر کہا جارہا ہے وہ روایت خود ضیف ہے کہ نہیں ؟
اس بات کی کیا دلیل ہے کہ صدیوں سے ایک راوی کو ضعیف کہنے والے علماء کے ہاں ’’ وجہ تضعیف ‘‘ کی بنیاد صرف ایسی روایت ہے ، جو خود ان کے ہاں ضعیف ہے ۔؟

 
شمولیت
جولائی 17، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
53
مجھے اعتراف ہےکہ میرا علم بہت ہی کم ہے مگر میری تحقیق میں فدک کے سلسلہ میں حسب ذیل کچھ عرض ہے:
فدک
قال ابو یوسف الکلبی محمد بن السائب حدثنی عن أبی صالح عن ابن عباس ان الخمس کان عہد رسول اﷲ ﷺ علٰی خمسۃ سھم ﷲ والرسول سھم و لذی القربی سھم والیتامی و للمساکین وابن سبیل ثلثۃ سھم ثم قسمہ ابوبکر الصدیق و عمر الفاروق و عثمان ذوا؛نورین علی ثلثۃ سھم و سقط سھم الرسول و سھم ذوالقربی وقسم علی الثلٰثۃ الباقین۔ ازلالۃ الخفاء ج ۳ ص ۴۶۹شرح الوقایۃ کتاب الجھاد
کہا ابو یوسف نے کہ محمد بن السائب الکلبی نے مجھ سے حدیث بیان کی ابو صالح کی روایت ہے کہ وہ ابن عباس ؓ سے کہ رسول اﷲﷺ وآلہٖ کے زمانے میں خمس کے پانچ(۵) حصے کئے جاتے تھے، اﷲ اور رسول ؐ کا ایک حصہ اور ذوالقربیٰ کا ایک حصہ اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے ایک ایک حصہ۔ پھر خمس کو ابوبکر اور عمر اور عثمان نے صرف تین حصے میں تقسیم کیا اور رسول ؐ اﷲ کا حصہ اور ذوی القربیٰ کا حصہ ساقط کردیا گیا۔ازالۃ الخفاء شاہ ولی اﷲ اردو جلد سوم ص ۴۶۹۔شرح الوقایہ کتاب الجھاد۔
أخبرنا عن جعفر بن محمد عن ابیہ ان حسنا و حسینا و ابن عباس و عبداﷲ ابن جعفرسالوا علیا نصیبھم من الخمس ، فقال ہو لکم حق ولکنی محارب معاویۃ فان شئتم ترکتم حقکم فیہ:السنن الکبری البیھقی ج۶ ص ۳۷۳؛ کتاب الأم امام شافعی ج۴ ص ۱۵۵۔
اس سلسلے میں یہ دو احادیث قابل غور ہیں:
۱۔ حدثنا عبد اللہ حدثني أبي ثنا يحيی بن آدم ويحيی بن أبي بکير مولی البراء وأثنی عليہ خيرا قالا ثنا زہير عن مطرف قال بن أبي بکير ثنا مطرف يعنی الحارثي عن أبي الجہم قال بن أبي بکير عن خالد بن وہبان أو وہبان عن أبي ذر قال قال صلی اللہ عليہ وسلم کيف أنت وأئمۃ من بعدي يستأثرون بہذا الفيء قال قلت إذا والذي بعثک بالحق أضع سيفی علی عاتقي ثم أضرب بہ حتی ألقاک أو ألحق بک قال أولا أدلک علی ما ہو خير من ذلک تصبر حتی تلقاني
۲۔ حدثنا عبد اللہ حدثني أبي ثنا أبو جعفر أحمد بن محمد بن أيوب ثنا أبو بکر يعنی بن عياش عن مطرف عن أبي الجہم عن خالد بن وہبان عن أبي ذر أن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم قال يا أبا ذر کيف أنت عند ولاۃ يستأثرون عليک بہذا الفيء قال والذي بعثک بالحق أضع سيفی علی عاتقي فاضرب بہ حتی ألحقک قال أفلا أدلک علی خير لک من ذلک تصبر حتی تلقاني ۔مسند امام احمد بن حنبل جلد۵ ؛۲۱۵۹۹ سلسلہ ابی داؤود ج۲ ص۴۲۷ سلسلہ ۴۷۵۹؛ مشکاۃ مصبح جلد ۲ ص ۷۸، اردو جلد ۲ ص ۱۹۲۔
حضرتِ ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہا رسول اﷲ ﷺ وآلہٖ نے فرمایا : میرے بعد تم ایسے اماموں سے(یعنی سربراہ سے) کیا سلوک کروگے جو مال فئی کو اپنا اختیار کرلیں گے۔ ابوذر ؓ نے کہا اُس ذات کی قسم جس نے آپ ؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں تلوار کندھے پر رکھ لوں گا پھر اُن کو قتل کروں گا یہاں تک کہ آپ ؐ سے آملوں ۔ آپ ؐ نے فرمایا میں تجھ کو اس سے بہتر بات بتلاتا ہوں وہ یہ کی تو صبر کر یہاں تک مجھ سے آملے۔( یاد رہے حضرت ابوذر ؓ نے بعد رسول اﷲ ﷺ وآلہٖ صرف تین خلفاء کا دور دیکھا اور خلافت سوم کے دوران ربذہ میں جلاوطنی کے حالت میں فوت پائے۔ اور فئی کی تعریف یہ ہے کہ یہ حق رسول ؐ تھا یعنی وہ مال غنیمت جو بغیر جنگ کے حاصل ہوا ہو ۔مرادؔ)
حضرت علی ؑ سے امام حسن اور امام حسین ؑ ، ابن عباس ؓ اور عبد اﷲ ابن جعفر ؓ نے خمس میں سے اپنے حصوں کا سوال کیا۔ حضرت علی ؑ نے جواب دیا: وہ تمہارا حق ہے لیکن اس وقت معاویہ سے لڑ رہا ہوں تم اگر چاہو تو اس ضرورت کے وقت میں اپنے حق سے دست بردار ہوسکتے ہو۔ ازالۃ الخفاء جلد سوم ص ۴۷۲۔
حضرت علی نے خمس کے حق سے انکار نہیں کیا بلکہ اس وقت جو عذر تھا وہ بتلایا اور اُن سے خواہش بھی کی کہ اگر تم چاہو تو معاف کردو:
کتاب الاذکیاء میں جو دوسری روایت ابن جوزی نے ذکر کیا ہے اس میں ابوبکر کا فدک چھین لینا لکھا ہے اس کا ترجمہ اخبار منصف میں موجود ہے۔
وروی ثعلب عن ابن الأعرابي قال أول خطبۃ خطبہا السفاح في قريۃ يقال لہا العباسيۃ فلما صار إلی موضع الشہادۃ من الخطبۃ قال رجل من آل أبي طالب في عنقہ مصحف فقال أذکرک اللہ الذي ذکرتہ إلا أنصفتني من خصمي وحکمت بيني وبينہ بما في ہذا المصحف فقال لہ ومن ظلمک قال أبو بکر الذي منع فاطمۃ فدکا قال وہل کان بعدہ أحد قال نعم من قال عمر قال علی ظلمکم قال نعم قال وہل کان بعدہ أحد قال نعم قال من قال عثمان قال وأقام علی ظلمکم قال نعم قال وہل کان بعدہ أحد قال نعم قال علي قال وأقام علی ظلمکم قال فاسکت الرجل وجعل يلتفت إلی ورائہ يطلب مخلصاً فقال لہ واللہ الذي لا إلہ إلا ہو لولا أنہ أول مقام قمتہ ثم لم أکن تقدمت إليک في ہذا قبل لأخذت الذي فيہ عيناک أقعد وأقبل علی الخطبۃ! .
صرف ایک سوال ہے کہ اگر فدک حضرت فاطمہ ؑ کا حق تھا تو اپنی دور خلافت میں حضرت علی ؑ نے حضرت فاطمہ ؑ کی اولاد کے حوالے کیوں نہ کیا۔پہلی وجہ یہ ہے کہ
حضرت علی ؑ کی خلافت کے روز اول سے ہی آپ ؑ کو سب سے عظیم مصیبت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ہے طلحہ اور زبیر کا بیعت توڑنا ،جنگ جمل میں مصروف اور اس کے بعد صفین اور اس کے بعد نہروان۔ یہ تمام کے جنگیں مدینہ سے دور کئی سو میل کے فاصلے پر ہورہیں تھیں اور ان تمام کے تمام جنگوں بنی ہاشم کا ہر فرد مصروف تھا۔ اس لئے یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت علی ؑ نے فدک واپس نہیں لوٹایا۔ دوسری اور اہم ترین وجہ یہ ہے حضرت عثمان نے اپنی دور خلافت میں اپنے داماد مروان ابن حکم کو عطا فرمایا تھا۔واپس لینے کے لئے حضرت علی ؑ کے لئے جنگ۔ مورخین لکھتے اپنے اور اپنے خاندان کی خاطر یہ جنگ ہوئی۔ جو حضرت علی ؑ کی شان و عظمت کے خلاف ہوتا۔
مروان کے قبضہ میں فدک تھا اس کے ثبوت کے لئے ’’معتبر ‘‘ کتابوں سے ذیل میں روایتیں مذکور ہیں:-
إنما اقطع مروان فدکا في أيام عثمان ۔السنن الکبری البيہقی ج۶ صفحہ ۳۰۱
أقطعہا مروان يعني في أيام عثمان قال الخطابي إنما أقطع عثمان فدک لمروان؛ - فتح الباري ج۶ ص ۱۴۱ ابن حجر؛
قالہ القاري ( ثم أقطعہا مروان ) أي في زمن عثمان رضي اللہ عنہ ۔عون المعبود ج۸ ص ۱۳۷ العظيم آبادي
سنن أبي داود ج۲ ص ۲۴ ابن الأشعث السجستاني؛ثم أقطعہا مروان ثم صارت لعمر بن عبد العزيز - تاريخ مدينۃ دمشق ج۴۵ ص۱۷۹ ابن عساکر؛تہذيب الکمال ج۲۱ ص ۴۴۳ المزي؛ سير أعلام النبلاء ج۵ ص ۱۲۸ الذہبي؛تاريخ اليعقوبي ج۲ ص۳۰۵ اليعقوبي
فأقطعہ عثمان الحرث بن الحکم أخامر وان أقطع مروان فدک .
نيل الأطار في أحاديث سيد الأ خبار الشوکاني متوفي 1255 ہ طبع دارالجليل بيروت لبنان- ج6 ص30
المعارف أبي محمد عبداللہ بن مسلم بن قتيبۃ الدينوري المتوفی 276ہ دار الکتب العلميۃ بيروت لبنان
مروان کون تھا تاریخ کا ہر جاننے والا واقف ہے جس کو رسول اﷲ ﷺ وآلہٖ کے حدود سے باہر جلا وطن کردیا تھا اور باوجود حضرت عثمان کی کوششوں کے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے بھی مروان کو مدینہ کی سرحدوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی۔
اور یہ بھی تاریخ میںہے کہ جب عمر ابن عبد العزیز بنی امیہ میں خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے فدک بنی ہاشم کو’’ واپس‘‘ کیا۔ملاحظہ فرمائے کہ ہر حدیث میں لفظ ’’رد‘‘ یعنی واپس کیا۔ واپس وہی شئی ہوسکتی ہے جو پہلے سے اُس کی ملکیت ہو۔
أول من رد فدکا عمر بن عبد العزيز- کتاب الأوائل
برد مأمون ہاشم فدکا---معجم البلادان
عمر ابن عبد العزيز الخلافۃ کتب إلی عاملہ بالمدينۃ يأمرہ برد فدک إلی ولد فاطمۃ معجم البلادان باب الفاء والدال ۔لأمر فدک وأنہ قدردہا إلی ما کانت- تاريخ الکامل معاويۃ مروان يقبض منہ ولم تزل فدک في يد مروان وبنيہ إلی تولی عمر ابن عبدالعزيز ورد فدک علی ولد فاطمہ بنت رسول- عقد الفريد جلد 4
ابو یوسف حدثنی عطاء بن السائب ان عمر ابن عبد العزیز بعث بسھم الرسول و سھم ذوی القربی الٰ بنی ہاشم
بو یوسف مجھ سے بیان کرتے ہیں کہ عطا بن السائب نے بیان کیا کہ عمر ابن عبدالعزیز نے رسول ؐ اﷲ کا حصہ اور ذوالقربیٰ کا حصہ بنی ہاشم کو بھیجا۔ازالۃ الخفاء شاہ ولی اﷲ اردو جلد سوم ص ۴۷۱۔
سفاح کو وہ دلیل دینا چاہئے تھا کہ جو ابوبکر نے حضرت فاطمہ ؑ کو دی تھی یعنی وہ گھڑی ہوئی حدیث کہ فرمایا رسول اﷲﷺ وآلہٖ نے (معاذ اﷲ): نحن معاشر الانیباء لا نرث ولا نورث ۔ہم انبیاء نہیں بنتے وارث اور نہ وارث بناتے ہیں۔
جس کے راوی سوائے ابوبکر کوئی اور نہیں:واختلفوا میراثہ فما وجدوا عند احد من ذلک علما۔۔جامع ترمذی اردو جلد دوم ص ۵۸۲؛طبقات ابن سعد حصہ دوم ص ۳۴۷؛ کنزالعمال جلد ۱۲ ص ۴۸۸؛ تاریخ مدینہ دمشق ابن عساکر جلد ۳۰ ص ۳۱۱۔ سیرۃ حلبیہ ج۵ ص۵۳۱
تیسری دلیل یہ ہے کہ اگر واقعی یہ حدیث صحیح تھی تو عمر ابن عبد العزیز اور دیگر خلفاؤںنے رسول ﷺ کی حدیث کے خلاف کیوں عمل کیا۔ صرف عمر ابن عبدالعزیز ہی نہیں بلکہ مامون خلیفہ بنی عباس، اور خلیفہ مھدی اور کئی اسکے بعد خلفاء بنی عباس فدک دیتے تھے اور پھر کسی ناراضگی کے بنا پرواپس لے لیتے تھے۔
چنانچہ سیوطی نے نقل کی ہے :
سیوطی لکھتے ہیں بزاز ، ابو یعلی ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابو سعید خدری سے نقل کیا کہ :
وہ کہتے ہیں حب یہ آیت{ وآت ذي القربى حقه سورہ اسراء آیت 26}نازل ہوئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہاکو کو طلب کیا اور انھیں فدک عطا کر دیا
متن
وأخرج البزار وأبو يعلى وابن أبي حاتم وابن مردويه ، عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : لما نزلت هذه الآية { وآت ذي القربى حقه } دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة فأعطاها فدك .
یہ ہی روایت ابن عباس سے بھی نقل ہوئی ہے
وأخرج ابن مردويه ، عن ابن عباس رضي الله عنهما قال : لما نزلت { وآت ذي القربى حقه }أقطع رسول الله - صلى الله عليه وسلم -فاطمة فدكا .
حوالہ
الدر المنثور /ج /6 ص 262
المؤلف : عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى : 911هـ)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top