• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ علیہ اسلام کو ہبہ کر دیا تھا۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
[QUOTE="علی بہرام, post: 214646, member: 3577"
یعنی اصح کتاب بعد کتاب اللہ کے مطابق حضرت علی نے دوسری شادی کا ارادہ ترک فرما کر حضرت فاطمہ کو راضی کرلیا لیکن اصح کتاب بعد کتاب اللہ کے مطابق ہی حضرت فاطمہ ابوبکر سے اپنے وصال تک ناراض رہیں
چلیں جی یہاں مانا کہ کہ ہماری اصح کتاب بعد کتاب اللہ کے مطابق سیدنا علی رض نے اپنی دوسری شادی کا ارادہ ترک کرکے سیدہ فاطمہ رض کو منا لیا تھا۔ لیکن دوسرے مقامات پر سیدہ فاطمہ رض کی ناراضگی پر آپ کیا کہیں گے پھر؟؟ ایک دفعہ پھر آپکی ہی کتابیں سے چند حوالا جات پیش خدمت ہیں۔ ذرا لنک ملاحظہ ہو
شیعوں کا کہنا ہے کہ سیدہ فاطمہ جس سے ناراض ہو جائیں وہ امت مسلمہ کا خلیفہ بننے کا مستحق نہیں ہے۔[/QUOTE]
جواب تو ایسی روایت میں ہے اگر غور سے اس روایت کو پڑھ لیا جائے تو

اور ویسے بھی میاں بیوی کی آپس کی خفگی کا وہ مطلب نہیں نکلتا جو وہابی بیان کرتے ہیں لیجئے میاں بیوی کی آپس کی خفگی کے بارے آپ کی اصح کتاب سے ایک روایت پیش خدمت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ هَذَا فُلَانٌ لِأَمِيرِ الْمَدِينَةِ يَدْعُو عَلِيًّا عِنْدَ الْمِنْبَرِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ مَاذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ يَقُولُ لَهُ أَبُو تُرَابٍ فَضَحِكَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "وَاللَّهِ مَا سَمَّاهُ إِلَّا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا كَانَ لَهُ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْهُ"، فَاسْتَطْعَمْتُ الْحَدِيثَ سَهْلًا،‏‏‏‏ وَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا أَبَا عَبَّاسٍ كَيْفَ ذَلِكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلَ عَلِيٌّ عَلَى فَاطِمَةَ ثُمَّ خَرَجَ فَاضْطَجَعَ فِي الْمَسْجِدِ،‏‏‏‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ ؟،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ فِي الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ إِلَيْهِ فَوَجَدَ رِدَاءَهُ قَدْ سَقَطَ عَنْ ظَهْرِهِ وَخَلَصَ التُّرَابُ إِلَى ظَهْرِهِ فَجَعَلَ يَمْسَحُ التُّرَابَ عَنْ ظَهْرِهِ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ "اجْلِسْ يَا أَبَا تُرَابٍ مَرَّتَيْنِ".

ترجمہ داؤد راز

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے کہ ایک شخص سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے یہاں آیا اور کہا کہ یہ فلاں شخص اس کا اشارہ امیر مدینہ (مروان بن حکم) کی طرف تھا، برسر منبر علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا ہے، ابوحازم نے بیان کیا کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا کہتا ہے؟ اس نے بتایا کہ انہیں ”ابوتراب“ کہتا ہے، اس پر سہل ہنسنے لگے اور فرمایا کہ اللہ کی قسم! یہ نام تو ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا اور خود علی رضی اللہ عنہ کو اس نام سے زیادہ اپنے لیے اور کوئی نام پسند نہیں تھا۔ یہ سن کر میں نے اس حدیث کے جاننے کے لیے سہل رضی اللہ عنہ سے خواہش ظاہر کی اور عرض کیا: اے ابوعباس! یہ واقعہ کس طرح سے ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ علی رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں آئے اور پھر باہر آ کر مسجد میں لیٹ رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) دریافت فرمایا، تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ مسجد میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے، دیکھا تو ان کی چادر پیٹھ سے نیچے گر گئی ہے اور ان کی کمر پر اچھی طرح سے خاک لگ چکی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی ان کی کمر سے صاف فرمانے لگے اور بولے، اٹھو اے ابوتراب اٹھو! (دو مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)۔

یعنی مطلب یہ ہوا کہ جب میاں بیوی آپس میں کسی بات پر خفا ہوجائیں تو اس کا وہ مطلب نہیں لیا جاسکتا جو کہ وہابی بیان کرتے ہیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
@بہرام صاحب، کیا آپ یہ بات جانتے ہیں۔
باغ فدک سے متعلق جتنی بھی روایات ہیں، ان سب کو اگر اکٹھا کر لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراضی کا ذکر صرف انہی روایات میں ملتا ہے جن کی سند میں زہری موجود ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ناراضی والی بات زہری کا ادراج (اضافہ) ہے۔ چھ ماہ تک ناراض رہنے والی بات صرف زہری ہی نے بیان کی ہے جو کہ اس واقعہ کے پچاس سال بعد پیدا ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ زہری اس واقعے کے عینی شاہد تو نہیں تھے۔ انہوں نے یہ بات کس سے سنی اور جس سے سنی، وہ کس درجے میں قابل اعتماد تھا؟ ان کے علاوہ کسی اور نے تو یہ بات بیان نہیں کی ہے۔ مشہور محدثین جیسے بیہقی اور ابن حجر عسقلانی نے بھی زہری کی اس بات کو منقطع قرار دے کر اسے مسترد کیا ہے۔( ابن حجر عسقلانی۔ فتح الباری شرح بخاری۔ 7/495۔ زیر حدیث 4240۔ ریاض: مکتبہ سلفیہ۔)
کیا کریں کے یہ لکھا ہوا اصح کتاب بعد کتاب اللہ میں ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو

ایسی زہری سے روایت کردہ 1186 روایات صحیح بخاری میں اور صحیح مسلم میں 688 ابوداؤد میں 445 جامع ترمذی میں 279 ہیں

اس اس لسٹ پر نظر ڈالی جائے تو صح ستہ میں زہری کی روایات سب سے زیادہ صحیح بخاری میں ہے یعنی اصح کتاب بعد کتاب اللہ کا زیادہ تر حصہ زہری کی روایات کا ہے یعنی ایک طرف یہ بھی ماننا کہ زہری ادراج کیا کرتا تھا اور ایسی زہری سے روایات کردہ روایات جس کتاب میں سب سے زیادہ ہے وہ کتاب اصح کتاب بعد کتاب اللہ بات کچھ سمجھ نہیں آئی

[SIZE=5][FONT=Jameel Noori Nastaleeq][COLOR=rgb(0, 0, 0)]دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ناراضی والی بات درایت کے نقطہ نظر سے بالکل غلط معلوم ہوتی ہے۔ اس میں تو کوئی اشکال نہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کے حصول کا خیال گزرا تو انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان سے بات کی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ، حضرت صدیق اکبر کو جائز حکمران تسلیم کرتی تھیں، تبھی ان کے پاس مقدمہ لے کر گئیں۔ حضرت ابوبکر نے وضاحت فرما دی کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام مال کو صدقہ قرار دیا تھا اور باغ فدک تو ایک سرکاری جائیداد تھی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت نہ تھی بلکہ حکومت کی ملکیت تھی۔ اس کی صرف آمدنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت پر بطور تنخواہ خرچ ہوتی تھی کیونکہ آپ بطور سربراہ حکومت فل ٹائم کام کرتے تھے اور آپ کی آمدنی کا کوئی اور ذریعہ نہ تھا۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اس کی آمدنی بدستور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت پر خرچ ہو گی۔[/COLOR][/FONT][/SIZE]

کیا یہ حضرت ابوبکر کا قول جیسے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب منسوب کیا خاتون جنت نے قبول کرلیا تھا ؟ صحیح بخاری کے مطابق خاتون جنت نے حضرت ابوبکر کے اس قول کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے طور پر قبول نہیں کیا اور دیگر روایات کے مطابق خاتون جنت نے قرآن کی آیات تلاوت کی جن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کا وارث حضرت سلیمان علیہ السلام کو کہا اور ایک اور نبی کی اپنے لئے وارث کی دعا کو اللہ نے قبول کیا
[QUOTE="HUMAIR YOUSUF, post: 214697, member: 3895"][USER=473]
[RIGHT][SIZE=5][FONT=Jameel Noori Nastaleeq][COLOR=rgb(0, 0, 0)]حضرت ابوبکر نے دلیل سے بات کی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو بطور دلیل پیش کیا تھا۔ اگرسیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس سے اختلاف ہوتا تو وہ بھی جوابی دلیل پیش کرتیں لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ آپ کی بات کو سمجھ گئی تھیں۔ سیدہ کے زہد و تقوی ، اعلی کردار اور دنیا سے بے رغبتی کو مدنظر رکھا جائے تو آپ سے ہرگز یہ توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ آپ اس بات پر ناراض ہو جائیں گی کہ آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پیش کیا جائے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو زہری کی روایت میں کسی اور نے یہ ناراضی والا جملہ شامل کر دیا ہے یا پھر یہ جملہ خود انہوں نے کسی غلط فہمی کے سبب کہہ دیا ہے۔[/COLOR][/FONT][/SIZE][/RIGHT]
[/QUOTE]
جواب ہوچکا ایک اضافہ اور کردوں کہ باغ فدک کے معاملے میں حضرت علی اور حضرت عباس بھی حضرت ابو بکر کو خطا کار سمجھتے تھے اور یہ قول کسی اور کا نہیں بلکہ حضرت عمر کا ہے اور ہے بھی اصح کتاب بعد کتاب میں درج کیا اب بھی کوئی شک رہ جاتا کہ حضرت خاتون جنت نے ابوبکر کے قول کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان تسلیم نہیں کیا تھا ۔اور ابوبکر سے ناراض ہی اس دنیا سے رخصت ہوگیئں ۔
[/user]
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
ویسے @بہرام صاحب آپکے جواب سے مجھے اس محاورے کا یقین ہوگیا ہے، کہ سوال گندم اور جواب چنا۔ بات میاں بیوی کی آپس کی ناراضگی کی ہورہی ہے اور آپ بات کو سسر داماد تک لے گئے
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے کہ ایک شخص سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے یہاں آیا اور کہا کہ یہ فلاں شخص اس کا اشارہ امیر مدینہ (مروان بن حکم) کی طرف تھا، برسر منبر علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا ہے، ابوحازم نے بیان کیا کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا کہتا ہے؟ اس نے بتایا کہ انہیں ”ابوتراب“ کہتا ہے، اس پر سہل ہنسنے لگے اور فرمایا کہ اللہ کی قسم! یہ نام تو ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا اور خود علی رضی اللہ عنہ کو اس نام سے زیادہ اپنے لیے اور کوئی نام پسند نہیں تھا۔ یہ سن کر میں نے اس حدیث کے جاننے کے لیے سہل رضی اللہ عنہ سے خواہش ظاہر کی اور عرض کیا: اے ابوعباس! یہ واقعہ کس طرح سے ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ علی رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں آئے اور پھر باہر آ کر مسجد میں لیٹ رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) دریافت فرمایا، تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ مسجد میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے، دیکھا تو ان کی چادر پیٹھ سے نیچے گر گئی ہے اور ان کی کمر پر اچھی طرح سے خاک لگ چکی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی ان کی کمر سے صاف فرمانے لگے اور بولے، اٹھو اے ابوتراب اٹھو! (دو مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)۔

یعنی مطلب یہ ہوا کہ جب میاں بیوی آپس میں کسی بات پر خفا ہوجائیں تو اس کا وہ مطلب نہیں لیا جاسکتا جو کہ وہابی بیان کرتے ہیں
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
@بہرام صاحب
کیا کریں کے یہ لکھا ہوا اصح کتاب بعد کتاب اللہ میں ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو

ایسی زہری سے روایت کردہ 1186 روایات صحیح بخاری میں اور صحیح مسلم میں 688 ابوداؤد میں 445 جامع ترمذی میں 279 ہیں

اس اس لسٹ پر نظر ڈالی جائے تو صح ستہ میں زہری کی روایات سب سے زیادہ صحیح بخاری میں ہے یعنی اصح کتاب بعد کتاب اللہ کا زیادہ تر حصہ زہری کی روایات کا ہے یعنی ایک طرف یہ بھی ماننا کہ زہری ادراج کیا کرتا تھا اور ایسی زہری سے روایات کردہ روایات جس کتاب میں سب سے زیادہ ہے وہ کتاب اصح کتاب بعد کتاب اللہ بات کچھ سمجھ نہیں آئی
اب ایسے تماشے تو آپ کے ہاں بھی بہت دیکھنے کو ملتے ہیں، ایسے پتہ نہیں کتنے آپ کے ہاں راوی پائے جاتے ہیں جو "ادراج" جیسی بیماری میں مبتلا ہیں، مثلا آپ کے آئمہ کے ایک بہت ہی ہاٹ فیوریٹ راوی ہیں، جناب زرارہ بن العین، انکے متعلق کیا فرمان ہے آپکے امام صاحب کا ملاحظہ کیجئے گا

اخبار معرفۃ الرجال الکشی روایت نمبر 210:
حدثني جعفر بن محمد بن معروف، قال حدثني محمد بن الحسين بن أبي الخطاب، عنجعفر بن بشير، عن أبان بن تغلب، عن أبي بصير، قال قلت لأبي عبد الله (ع) إن أباك حدثني أنالزبير و المقداد و سلمان الفارسي حلقوا رءوسهم ليقاتلوا أبا بكر، فقال لي لو لا زرارة لظننت أنأحاديث أبي (ع) ستذهب
.جعفر صادق نے کہا : اگر زرارہ نہ ھوتا تو میری والد کی بہت ساری احادیث ضائع ھوجاتیں۔

اور تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ ہو

نمبر 237::::::::::::::
حدثني حمدويه، قال حدثني محمد بن عيسى، عن يونس، عن مسمع كردين أبي سيار،قال سمعت أبا عبد الله (ع) يقول لعن الله بريدا و لعن الله زرارة

اللہ کی لعنت ھو زرارۃ پر اللہ کی لعنت ھو زرارۃ پر


نمبر 241::::::::::::
[ARB]بهذا الإسناد عن يونس، عن إبراهيم المؤمن، عن عمران الزعفراني، قال سمعت أبا عبدالله (ع) يقول لأبي بصير يا أبا بصير و كنى اثني عشر رجلا ما أحدث أحد في الإسلام ما أحدثزرارة من البدع، عليه لعنة الله، هذا قول أبي عبد الله.[/ARB]
اسلام میں جس طرح بدعت کو زرارۃ نے پھیلایا اس طرح کسی نےبدعات نہیں پھیلائیں اس پر اللہ کی لعنت ھو یہ جناب جعفر صادق کا قول ھے گویا زرارہ بدعتی بھی تھا۔ شاید یہ جرح اسی تحفظ کے لیے ھے


اب اس بدعتی اور ملعون شخص، بقول آپکے آئمہ کرام کے، آپ کی احادیث میں کتنا "گند" گھولا ہوگا، عقل حیران ہے۔ امام ذہری رحمہ اللہ کے اوپر تو صرف "ادراج" کا الزام صرف فدک کے متعلق روایات میں آیا ہے، اسکے علاوہ وہ ایک ثقہ امام ہی مانے جاتے ہیں۔ لیکن آپکا یہ بندہ، اسکے اوپر تو آپکے آئمہ کرام ہی کی پھٹکار موجود ہے۔ اب اس سے آگے میں کیا کہوں۔ ویسے مزید آپ چاہیں تو ان صاحب کے مزید کارنامہ بھی بیان کیے جاسکتے ہیں
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
:حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت ابوبکرؓ کی صلح ہو گئی تھی جیسا کہ بہیقی نے نقل کیا ہے۔
«روى البيهقي من طريق الشعبي أن أبا بكر عاد فاطمة فقال لها علي هذا أبو بكر يستأذن عليك قالت أتحب أن آذن له قال نعم فأذنت له فدخل عليها فترضاها حتى رضيت»(حاشیہ بخاری شریف ص532ص1)

’’حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت فاطمہؓ کو راضی کر لیا اور وہ راضی ہو گئیں۔‘‘
علاوہ ازیں حضرت ابوبکر ؓ نے بقول شیعہ مصنف کے فدک بھی حضرت فاطمہ ؓ کو دے دیا۔( ملاحظہ ہو: اصول کافی ص 355 ) اور شیخ ابن مطہر جلی نے بھی منہاج الکرامہ میں اعتراف کیا ہے:

لما وعظت فاطمة ابابكر فى فدك – كتب لها كتابا وروها عليها اور حجاج السالکین میں ہے:
فقالت : والله تفعلن فقال والله لأفعلن فقالت اللهم اشهد فرضيت بذالك وأخذت العهد عليه . (تحفه اثنا عشريه فارسى ص279)

زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہ کنعاں کا

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حجرت فاطمہؓ کو فدک کی تحریر لکھ دی تھی۔(جلاء العيون اردو ص 151)



آخر میں جو یہ لکھا ہے کہ ’’ حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ شیخین کو کاذب،آثم، خائن اور غادر سمجھتے تھےاور حضرت عمرؓ نے اس کا اعتراف بھی کر لیا تھا۔‘‘
اس کے جواب میں گزارش ہے کہ یہ بھی کم علمی کی دلیل ہے۔ حضرت عمرؓ نے اعتراف نہیں کیا بلکہ حضرت علی ؓ اور حضرت عباسؓ کو بطور تنبیہ ایسا فرما رہے ہیں کہ جو فیصلہ حضرت ابوبکرؓ نے آنحضرت ﷺ کے حکم کی تعمیل ماتركنا صدقة صادر فرمایا اور میں نے اسی کو بحال رکھا، کیا تم لوگ مجھے اور حضرت ابوبکرؓ کو تعمیل ارشاد نبوی ﷺمیں کاذب، آثم ، غادر اور خائن سمجھتے ہو حالانکہ خدا جانتا ہے کہ میں اپنے موقف میں صادق ، بار، راشد اور متبع حق ہوں اصل الفاظ یہ ہیں۔ والله يعلم انى الصادق بار راشدتابع للحق ( صحيح مسلم ص91ج2)۔ یہ تو روزمرہ کا محاورہ ہے کہ جب کسی شریف آدمی کو ناکردہ گناہ میں دھر لیا جاتا ہے تو وہ بطور استفہام اور استعجاب کے ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے۔جیسے کسی کو چوری کا الزام دیا جائے تو وہ کہے گا کہ کیا تم مجھے چور سمجھتے ہو؟ اس کے کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ اعتراف جرم کر رھا ہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب تم جانتے ہو کہ میں ایسا ہرگز نہیں ہوں تو میرے متعلق تمہیں اسکا شبہ کیوں گزرتا ہے؟فاعهم ولا تكن من المعائدين ، جناب والا اسی مسلم شریف میں ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علیؓ کو ٹھوس جواب دے کر مطمئن کر دیا تو حضرت علی ؓ نے تمام رنجش اور خلش بھلا کر بیعت کر لی تھی اصل الفاظ یہ ہیں۔
«ثم قام على فعظم من حق ابى بكر وذكر فضيلته وسابقته ثم مضى الى ابى بكر فبايعه »(صحيح مسلم ص92ج2)

’’کیا حضرت علیؓ نے کاذب ،آثم اور غادر خائن کی بیعت کی تھی؟ جب وہ مل بیٹھے تھےتو آپ لوگوں کو کیوں اعتراض ہے؟ علاوہ ازیں ۔ مسلم شریف ج2 ص90 پر یہی الفاظ حضرت عباسؓ سے بھی مذکور ہیں جن کا حدف حضرت علی ؓ ہیں، حضرت عمر فاروقؓ کی عدالت میں حضرت عباسؓ و علیؓ دونوں پیش ہوتے ہیں۔ حضرت عباس ؓ ان القابات کے ساتھ حضرت علیؓ کے خلاف دعویٰ دائر کرتے ہیں
«فقال عباس ياامير المومنين !اقض بينى وبين هذا الكاذب الاثم الغادر الخائن »(مسلم ص90ج2بروايت مالك بن انس )

اب حضرت علیؓ کی طرف سے جو جواب ہو گا ہماری طرف سے حضرت فاروقؓ کے حض میں بھی قبول فرما لیا جائے۔

 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ویسے @بہرام صاحب آپکے جواب سے مجھے اس محاورے کا یقین ہوگیا ہے، کہ سوال گندم اور جواب چنا۔ بات میاں بیوی کی آپس کی ناراضگی کی ہورہی ہے اور آپ بات کو سسر داماد تک لے گئے
میاں بیوی کی آپس کی خفگی کی بات کو سسر کی جانب لے گیا کیا ہی کہنے آپ کے یہ آپ کے سسر نہیں یہ علی کے سسر ہیں جو اللہ کے سچے رسول ہیں جن کے اقوال کی وجہ سے آپ اپنے آپ کو اہل حدیث گمان کرتے ہو
میں نے تو یہ حدیث اس لئے پیش کی تھی کہ آپ یہ گمان کرتے ہو کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو فورا مان لیتے ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث آپ کے لئے حجت ہے لیکن یہاں آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صرف حضرت علی کا سسر ہی مانا ہے جبکہ میں نے یہ حدیث خاتون جنت اور حضرت علی یعنی میاں بیوی کی آپس کی خفگی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ردعمل کیا تھا اس بات کو صاف کرنے کے لئے یہ حدیث پیش کی تھی کہ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات پر حضرت علی کو ابو تراب کا خطاب عطاء فرمایا
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
:حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت ابوبکرؓ کی صلح ہو گئی تھی جیسا کہ بہیقی نے نقل کیا ہے۔
«روى البيهقي من طريق الشعبي أن أبا بكر عاد فاطمة فقال لها علي هذا أبو بكر يستأذن عليك قالت أتحب أن آذن له قال نعم فأذنت له فدخل عليها فترضاها حتى رضيت»(حاشیہ بخاری شریف ص532ص1)

’’حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت فاطمہؓ کو راضی کر لیا اور وہ راضی ہو گئیں۔‘‘
یعنی صحیح بخاری میں جو لکھا وہ نہیں ماننا اور ایک مرسل روایت کو جو کہ بخاری کی شرح کے حاشیہ میں لکھی ہے اس کو فورا مان لینا تعجب ہوتا ہے صحابہ پرستوں کی عقل پر !!!!
علاوہ ازیں حضرت ابوبکر ؓ نے بقول شیعہ مصنف کے فدک بھی حضرت فاطمہ ؓ کو دے دیا۔( ملاحظہ ہو: اصول کافی ص 355 ) اور شیخ ابن مطہر جلی نے بھی منہاج الکرامہ میں اعتراف کیا ہے:
لما وعظت فاطمة ابابكر فى فدك – كتب لها كتابا وروها عليها اور حجاج السالکین میں ہے:
فقالت : والله تفعلن فقال والله لأفعلن فقالت اللهم اشهد فرضيت بذالك وأخذت العهد عليه . (تحفه اثنا عشريه فارسى ص279)

زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہ کنعاں کا

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حجرت فاطمہؓ کو فدک کی تحریر لکھ دی تھی۔(جلاء العيون اردو ص 151)
حوالہ دینا ابن مطہر حلی کی کتاب کا اور عبارت درج کرنی تحفہ اثنا عشریہ سے بہتر ہوتا کہ آپ ابن مطہر حلی کی مہناج الکرامہ کا مطالعہ فرما کر پھر پوری عبارت درج کرتے کہ ابوبکر نے تو باغ فدک کا پروانہ خاتون جنت کو لکھ کردے دیا تھا لیکن کسی نے یہ پھاڑ بھی دیا اور ابوبکر کے اس فیصلے کو نہیں مانا جبکہ آپ کے عقائد کے اعتبار سے حضرت ابو بکر اس وقت خلیفہ تھے
کیونکہ اگر باغ فدک حضرت فاطمہ کے پاس ہی تھا تو صحیح بخاری کی اس روایت کا کیا جائے جس میں ہے کہ حضرت علی اور حضرت عباس نےحضرت عمر کے پاس آکر پھر سے باغ فدک کا مطالبہ کیا ؟؟؟؟
آخر میں جو یہ لکھا ہے کہ ’’ حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ شیخین کو کاذب،آثم، خائن اور غادر سمجھتے تھےاور حضرت عمرؓ نے اس کا اعتراف بھی کر لیا تھا۔‘‘
اس کے جواب میں گزارش ہے کہ یہ بھی کم علمی کی دلیل ہے۔ حضرت عمرؓ نے اعتراف نہیں کیا بلکہ حضرت علی ؓ اور حضرت عباسؓ کو بطور تنبیہ ایسا فرما رہے ہیں کہ جو فیصلہ حضرت ابوبکرؓ نے آنحضرت ﷺ کے حکم کی تعمیل ماتركنا صدقة صادر فرمایا اور میں نے اسی کو بحال رکھا، کیا تم لوگ مجھے اور حضرت ابوبکرؓ کو تعمیل ارشاد نبوی ﷺمیں کاذب، آثم ، غادر اور خائن سمجھتے ہو حالانکہ خدا جانتا ہے کہ میں اپنے موقف میں صادق ، بار، راشد اور متبع حق ہوں اصل الفاظ یہ ہیں۔ والله يعلم انى الصادق بار راشدتابع للحق ( صحيح مسلم ص91ج2)۔ یہ تو روزمرہ کا محاورہ ہے کہ جب کسی شریف آدمی کو ناکردہ گناہ میں دھر لیا جاتا ہے تو وہ بطور استفہام اور استعجاب کے ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے۔جیسے کسی کو چوری کا الزام دیا جائے تو وہ کہے گا کہ کیا تم مجھے چور سمجھتے ہو؟ اس کے کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ اعتراف جرم کر رھا ہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب تم جانتے ہو کہ میں ایسا ہرگز نہیں ہوں تو میرے متعلق تمہیں اسکا شبہ کیوں گزرتا ہے؟فاعهم ولا تكن من المعائدين ،
لیجئے میں پوری روایت ہی لگا دیتا ہوں پھر آپ خود ہی فیصلہ فرمالیں کہ حقیت حال کیا ہے
ترجمہ داؤد راز
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں مالک بن اوس نضری نے خبر دی کہ محمد بن جبیر بن مطعم نے مجھ سے اس سلسلہ میں ذکر کیا تھا، پھر میں مالک کے پاس گیا اور ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں روانہ ہوا اور عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اتنے میں ان کے دربان یرفاء آئے اور کہا کہ عثمان، عبدالرحمٰن، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں، کیا انہیں اجازت دی جائے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ سب لوگ اندر آ گئے اور سلام کیا اور بیٹھ گئے، پھر یرفاء نے آ کر پوچھا کہ کیا علی اور عباس کو اجازت دی جائے؟ ان حضرات کو بھی اندر بلایا۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیرالمؤمنین! میرے اور ظالم کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے۔ آپس میں دونوں نے سخت کلامی کی۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی جماعت نے کہا کہ امیرالمؤمنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے تاکہ دونوں کو آرام حاصل ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ صبر کرو میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کی اجازت سے آسمان و زمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہماری میراث تقسیم نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خود اپنی ذات مراد لی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ پھر آپ علی اور عباس رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد کہا کہ پھر میں آپ لوگوں سے اس بارے میں گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا اس مال میں سے ایک حصہ مخصوص کیا تھا جو اس نے آپ کے سوا کسی کو نہیں دیا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم‏» الآیہ۔ تو یہ مال خاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا، پھر واللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے لوگوں کو نظر انداز کر کے اپنے لیے جمع نہیں کیا اور نہ اسے اپنی ذاتی جائیداد بنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آپ لوگوں کو بھی دیا اور سب میں تقسیم کیا، یہاں تک اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنے گھر والوں کا سالانہ خرچ دیتے تھے، پھر باقی اپنے قبضے میں لے لیتے تھے اور اسے بیت المال میں رکھ کر عام مسلمانوں کے ضروریات میں خرچ کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر اس کے مطابق عمل کیا۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ کو اس کا علم ہے؟ صحابہ نے کہا کہ ہاں پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے کہا، میں آپ دونوں حضرات کو بھی اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ لوگوں کو اس کا علم ہے؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ولی ہونے کی حیثیت سے اس پر قبضہ کیا اور اس میں اسی طرح عمل کیا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ آپ دونوں حضرات بھی یہیں موجود تھے۔ آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہو کر یہ بات کہی اور آپ لوگوں کا خیال تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس معاملے میں خطاکار ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچے اور نیک اور سب سے زیادہ حق کی پیروی کرنے والے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو وفات دی اور میں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صلی اللہ علیہ وسلم کا ولی ہوں اس طرح میں نے بھی اس جائیداد کو اپنے قبضے میں دو سال تک رکھا اور اس میں اسی کے مطابق عمل کرتا رہا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا تھا، پھر آپ دونوں حضرات میرے پاس آئے اور آپ لوگوں کا معاملہ ایک ہی تھا، کوئی اختلاف نہیں تھا۔ آپ (عباس رضی اللہ عنہ!)آئے اپنے بھائی کے لڑکے کی طرف سے اپنی میراث لینے اور یہ (علی رضی اللہ عنہ)اپنی بیوی کی طرف سے ان کے والد کی میراث کا مطالبہ کرنے آئے۔ میں نے تم سے کہا کہ یہ جائیداد تقسیم تو نہیں ہو سکتی لیکن تم لوگ چاہو تو میں اہتمام کے طور پر آپ کو یہ جائیداد دے دوں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ لوگوں پر اللہ کا عہد اور اس کی میثاق ہے کہ اس کو اسی طرح خرچ کرو گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور جس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور جس طرح میں نے اپنے زمانہ ولایت میں کیا اگر یہ منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس معاملہ میں بات نہ کریں۔ آپ دونوں حضرات نے کہا کہ اس شرط کے ساتھ ہمارے حوالہ جائیداد کر دیں۔ چنانچہ میں نے اس شرط کے ساتھ آپ کے حوالہ جائیداد کر دی تھی۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے ان لوگوں کو اس شرط کے ساتھ جائیداد دی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہاں، پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے جائیداد آپ لوگوں کو اس شرط کے ساتھ حوالہ کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپ نے کہا، کیا آپ لوگ مجھ سے اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں۔ پس اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، اس میں، اس کے سوا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔ اگر آپ لوگ اس کا انتظام نہیں کر سکتے تو پھر میرے حوالہ کر دو میں اس کا بھی انتظام کر لوں گا۔
جناب والا اسی مسلم شریف میں ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علیؓ کو ٹھوس جواب دے کر مطمئن کر دیا تو حضرت علی ؓ نے تمام رنجش اور خلش بھلا کر بیعت کر لی تھی اصل الفاظ یہ ہیں۔
«ثم قام على فعظم من حق ابى بكر وذكر فضيلته وسابقته ثم مضى الى ابى بكر فبايعه »(صحيح مسلم ص92ج2)

بخاری کے الفاظ یہ ہیں اور کافی غور طلب ہیں کہ لوگ بنو ہاشم کو پتہ نہیں کیا سمجھتے تھے

فالتمس مصالحةَ أبي بكرٍ ومبايعتِهِ، ولم يكنْ يبايعُ تلك الأشهرِ، فأرسل إلى أبي بكرٍ : أنِ ائْتِنا ولا يأتِنا أحدٌ معكَ، كراهيةً لمحضرِ عمرَ، فقال عمرُ : لا واللهِ لا تدخلُ عليهم وحدَكَ، فقال أبو بكرٍ : وما عسيتُهم أن يفعلوا بي، والله لآتيهم، فدخل عليهم أبو بكرٍ، فتشهَّد عليٌّ،

ترجمہ داؤد راز
اس وقت انہوں (یعنی حضرت علی )نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا چاہا۔ اس سے پہلے چھ ماہ تک انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں کی تھی پھر انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا اور کہلا بھیجا کہ آپ صرف تنہا آئیں اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لائیں ان کو یہ منظور نہ تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ آئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! آپ تنہا ان کے پاس نہ جائیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کیوں وہ میرے ساتھ کیا کریں گے میں تو اللہ کی قسم! ضرور ان کی پاس جاؤں گا۔ آخر آپ علی رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے۔

دیکھا آپ نے کہ حضرت علی کو کراھیت ہوتی تھی حضرت عمر کی موجودگی سے اور حضرت عمر کے خیالات بھی حضرت علی کے بارے کچھ زیادہ ہی شکوک و شہبات والے تھے یہ اصح کتاب بعد کتاب اللہ میں بیان ہوا

’’کیا حضرت علیؓ نے کاذب ،آثم اور غادر خائن کی بیعت کی تھی؟ جب وہ مل بیٹھے تھےتو آپ لوگوں کو کیوں اعتراض ہے؟ علاوہ ازیں ۔ مسلم شریف ج2 ص90 پر یہی الفاظ حضرت عباسؓ سے بھی مذکور ہیں جن کا حدف حضرت علی ؓ ہیں، حضرت عمر فاروقؓ کی عدالت میں حضرت عباسؓ و علیؓ دونوں پیش ہوتے ہیں۔ حضرت عباس ؓ ان القابات کے ساتھ حضرت علیؓ کے خلاف دعویٰ دائر کرتے ہیں
«فقال عباس ياامير المومنين !اقض بينى وبين هذا الكاذب الاثم الغادر الخائن »(مسلم ص90ج2بروايت مالك بن انس )


اب حضرت علیؓ کی طرف سے جو جواب ہو گا ہماری طرف سے حضرت فاروقؓ کے حض میں بھی قبول فرما لیا جائے۔
اس کے لئے اگر آپ امام نوی شارح صحیح مسلم کی شرح ہی پیش فرمادیتے تو زیادہ مناسب ہوتا میری آپ سے گذارش ہے اس روایت کی شرح ضرور دیکھ لیجئے گا آپ کو اس سوال کا جواب مل جائے گا
والسلام
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
@بہرام صاحب

امام ذہری رحمہ اللہ کے اوپر تو صرف "ادراج" کا الزام صرف فدک کے متعلق روایات میں آیا ہے، اسکے علاوہ وہ ایک ثقہ امام ہی مانے جاتے ہیں۔
یعنی میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
أنَّ فاطمةَ عليها السلامُ ، ابنةُ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : سألتْ أبا بكرٍ الصديقُ بعد وفاةِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : أن يَقْسِمَ لها ميراثها ، ما ترك رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ مما أفاء اللهُ عليهِ ، فقال أبو بكرٍ : إنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ قال : ( لا نُورَثُ ، ما تركنا صدقةٌ ) . فغضبت فاطمةُ بنتُ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فهجرت أبا بكرٍ ، فلم تزل مُهاجرتَهُ حتى توفيتْ ، وعاشت بعد رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ستةَ أشهرٍ ، قالت : وكانت فاطمةُ تسألُ أبا بكرٍ نصيبها مما ترك رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ من خيبرَوَفَدَكٍ ، وصدقتَهُ بالمدينةِ ، فأَبَى أبو بكرٍ عليها ذلك وقال : لستُ تاركًا شيئًا كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يعملُ بهِ إلا عملتُ بهِ ، فإني أخشى إن تركتُ شيئًا من أمرهِ أن أزيغَ . فأما صدقتُهُ بالمدينةِ فدفعها عمرُ إلى عليٍّ وعباسٍ ، وأما خيبرُ وَفَدَكٌ فأمسكها عمرُ وقال : هما صدقةُ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ، كانتا لحقوقِهِ التي تعروهُ ونوائبُهُ ، وأمرهما إلى من وَلِيَ الأمرَ ، قال : فهما على ذلك إلى اليومِ .
الراوي: أبو بكر الصديق المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3092
خلاصة حكم المحدث:
[صحيح]
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بہرام صاحب اس سے پہلے دو تین دفعہ آپ اس موضوع سے بھاگ چکے ہیں ، اور اسی تھریڈ کے شروع میں ان کے لنک بھی دے چکا ہوں ۔ اگر آپ کے پاس کوئی نئے دلائل آگئے ہیں تو انہیں تھریڈز میں جاکر بحث کو آگے بڑھائیں ۔
اور یہاں جس موضوع پر بحث شروع ہوئی تھی ، اس پر بھی شاید آپ کا ’’ کاپی پیسٹ ‘‘ ختم ہوا تو زبان گنگ ، اور حدیث کی صحت کے ثبوت پر کہنے کو کچھ نہیں بچا ۔
اس تھریڈ میں زیر بحث حدیث کی تصحیح و تضعیف پر اگر آپ کے پاس کبھی کوئی مواد ہو تو آپ ذاتی پیغام کے ذریعے اس تھریڈ کے کھولنے کا کہہ سکتے ہیں ۔
تب تک کے لیے ۔۔۔۔ سلام
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top