• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرائض کی ادائیگی خوشگوار آزواجی زندگی !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فرائض کی ادائیگی خوشگوار آزواجی زندگی !!!

آج بڑے زور و شور سے یہ آوازہ بلند ہے کہ ’ انسانی سماج میں ‘عورتیں ‘ایک مظلوم ترین ہستی ہیں۔ دنیائے مظالم کے بڑے بڑے پہاڑ ان پر توڑے جاتے ہیں اور انھیں اس طرح تشددکا نشانہ بنایا جاتا ہے جیسے وہ کوئی بے حس مخلوق ہوں۔’اخبارات و رسائل کے جرائم نامے اس طرح کی وارداتوں سے سیاہ ہوتے ہیں۔ جنھیں پڑھ کر ایک اضطراب سا پھیل جاتا ہے اور کچھ کمزور لوگ سینہ پکڑ لیتے ہیں ‘ہائے اللہ ! یہ بھی ہوگیا۔ شوہر نے بیوی کو مارا۔ ساس نے بہو پر ظلم کیا۔ بھائی نے بہن کو رنج پہنچایا وغیرہ۔

حالانکہ یہ آوازہ اور خبریں حقیقت سے کہیں زیادہ افواہوں،غلط فہمیوں اور غیر یقینی باتوں پرمشتمل ہوتی ہیں،ان کا اصلیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ رائی کا پہاڑ یہاں بناکر پیش کیا جاتا ہے اور افسانوں کو حقیقت کا روپ دیا جاتا ہے۔ تاہم کلی طور پرتو اس کے عدم سے انکار نہیں اس لیے کہ نئے عہد میں ایسی انسانیت سوز باتوں کا جواز ہی نہیں ہے لیکن اگر کہیں ایسا ہوتا بھی ہے تو ہمیں بزرگوں کی کہاوت کہ’ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے’ کو یاد رکھنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ تالی پہلے کس نے بجائی ،بجی ہی کیوں اور اگر بجی بھی ہے تو زیادہ زور سے کس نے بجائی ہے؟قصورضرور ہوگا ۔کسی جانب سے تالی بجتی ہے ،آواز باہر تک آتی ہے اور پھر اس کا افسانہ بنتا ہے ۔خیر یہ ہنگامہ آرائی یوں ہی نہیں ہوتی اس کے کچھ اسبا بھی ہوتے ہیں اور اسباب کے حل بھی ہوتے ہیں۔

اسباب: بالعموم عورتوں پر جہاں تشدد یا مظالم ہوتے ہیں وہ اں جو اسباب کار فرماں ہوتے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں :

(1)عورت شوہر کے احکامات کو ظلم تصور کر تی ہے۔

(2)اس کے خاندان کے اصولوں اور ضابطوں کو توڑنے کی تگ و دو میں رہتی ہے۔

(3)گھر کے چھوٹے بڑوں کا کام کر نا وہ ناانصافی اور غیر مناسب سمجھتی ہے۔

(4)اگر کوئی اس سے اس کی اس روش کا سبب پوچھے تو اول فول بکنے لگتی ہے۔

(5)بزرگوں کی خدمت کو سعادت نہیں بلکہ ظلم جانتی ہے۔

(6)اپنے ازدواجی فرائض کی ادائے گی میں غفلت کرتی ہے۔

(7)شوہرکی محنت سے زیادہ اپنی محنتوں کو بڑا بتاتی ہے۔

(8)اپنے شوہر کی خون پسینے کی کمائی کو بے دریغ اڑاتی ہیں اور اس کے احسانوں پر پانی پھیر دیتی ہیں۔

(9)شوہرسے دو بدو ہو کر سخت تیوروں میں بات کر تی ہے اور ادنی و اعلا کے فرق کی دھجیاں اڑادیتی ہے۔

(10) گھر کے اصولوں کے بر خلاف کام کر تی ہے اور اس دروازے کو توڑتی ہے جو عزتوں کا محافظ ہوتا ہے۔

یہ وہ اسباب ہیں جو ہرایسے گھر کی شکایت ہوتے ہیں جہاں پر خلفشار برپا ہوتا ہے اور جن کی بنا پر عورت کو مستحق سزا مانا جاتا ہے۔ کہیں کہیں اس سزا میں شدت آجاتی ہے جو ظلم بن جاتی ہے اور’ فتنہ پر ور ہمدرد’ گھروں کی باتوں کو دنیا میں پھیلا دیتے ہیں۔اس طرح دنیا میں ایک زہر سا پھیل جاتا ہے۔ جب اس طرح کی تنائو پیدا کر نے والی، غیر معاشرتی، غیرتہذیبی، بدنامی کا سبب بننے والی اور غارت امن حرکات ظہور میں آتی ہیں تو ایسی عورتوں کو سبق سکھانے کے لیے مختلف طریقے آزمائے جاتے ہیں۔ آواز بلند ہوتی ہے تو تماشا دیکھنے والے آجاتے ہیں اور کچھ نادیدہ ہمدرد عورت کو اہل خانہ و شوہر کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر نے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔

کچھ عورتیں ان کی باتوں میں آجاتی ہیں اور خانہ خراب کر لیتی ہیں۔ آواز گھر سے نکل جاتی ہے، پھر کہاں کہاں جاتی ہے خدا معلوم مگر اس کی دھمک تمام معاشرو ں میں سنائی دیتی ہے۔ حالانکہ اس کا یہ حل نہیں ہے۔ حل تو وہ ہے جو مقدس کتابوں اور خداکے بندو ںنے بتائے ہیں۔

حل:

ایک بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ مذاہب اور معاشروں نے عورت اور مرد کو زندگی کے کچھ اصول بتائے ہیں، کچھ فرائض دونوں پر عائد کیے ہیں اور ضابطوں کی شکل میں کچھ نازک بندھن ان کے گرد لپیٹے ہیں ۔جو اس وقت تک ان کی عزت، وقار، لحاظ، ادب، سلامی اور بھرم باقی رکھتے ہیں جب تک وہ دونوں انھیں نبھاتے رہتے ہیں اور ان کا ہر گام پر خیال رکھتے ہیں۔ پھر جہاں ان سے روگردانی کی اور من مانی کی قینچیوں ان کے دائروں کو کاٹ دیا گیا وہاں بربادیاں اور تباہیاں بر پا ہو جاتی ہیں۔

٭ معاشروں میں ایسی عورتیں بھی ہیں جن کی عظمت کو وہ لوگ بھی تسلیم کر تے ہیں جن سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ ان کی تعریف کر تے ہیں،ان کی سلیقہ مندی اور گھر گرہستی میں خوشگوار ماحول پیدا کرنے پر ان کی مداح ہوتے ہیں۔ انھیں’ محترمہ اور خاتون ‘ جیسے محترم لفظوں سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ عورتیں اپنے گھروں کو جنت بنا کر رکھتی ہیں اور گھر سے باہر نکل کر انسانیت کی خدمت کرتی ہیں۔ان سے کوئی کچھ نہیں کہتا اور نہ ہی ان پرظلم ہوتا ہے بلکہ اکثر یہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بدمعاش سے بدمعاش انسان بھی اسے سلام کرتا ہے۔ایسی عورتوں کے کرداروں اور ان کی زندگیوں کی خوشبوئوں سے گندے ماحولوں کو معطر کرنا چاہیے۔

٭ایک عورت اگر اپنے ازدواجی فرائض ادا کرتی رہے اور اس سے پہلے کہ گھر کا کوئی فردحکم یا ہدایت دے، اس کی آرزو پوری ہوجائے،اس طرح کی ادائیں خوشگوار زندگی کی ضامن ہیں اور پر امن معاشروں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

٭ جس طرح گہنے، ہار،ایرنگ، پازیب وغیرہ عورتوں کے زیور ہیں اسی طرح گھر کے بڑوں کا ادب اورچھوٹوں پر شفقت، گھر کے اصولوں اور ضابطوں کی حفاظت بھی زیورات ہیں جن کی سجاوٹ سے سارا گھر جگمگاتا ہے۔

٭کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ’جہان نسواں’ میں یہ دو زوائیے کیوں ہیں ؟کیوں ایک طرف عورتیں فخر انسانیت، منظور الہٰی اور دیوی بن کرپوجی جاتی ہیں اور ایک طرف ایسی ہی عورتوں پر ظلم ہوتا ہے۔ انھیں ننگ انسانیت، خانہ خراب، باعث عار اور سماج کی دشمن کہا جاتا ہے۔ عورتیں ایسی بھی کیوں ہیں جو اپنے فرائض سے غافل ہوکر غیر مناسب اور شرمناک کارنامے انجام دیتی ہیں اور ایسی بھی ہیںجو باعث فخر اور انسانیت کے وقار کی بلندی کا سبب بنتی ہیں۔ جب آپ غور کریں گے توایک لامثال اور قابل عمل حل نکل کر سامنے آئے گا۔

مذکورہ بالا تمام حل معاشرتی اورانسانی نقطۂ نظر سے بیان ہوئے ہیں جن پر عمل کر نے سے کوئی بھی معاشرہ اور سماج بہتر بن سکتا ہے اور عورتوں پر ہونے والے مظالم کا تدارک بھی ایک بار عمل تو کر کے دیکھئے!۔ لنک
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
دنیا بھر میں مرد مظلوم ہے یا عورت؟ سییکولر میڈیا اس بارے میں سو فیصد غلط اور گمراہ کن اعداد و شمار یا تفصیلات پیش کرتا ہے۔ دنیا میں ہونے والے جرائم کا اگر صرف دستیاب ڈیٹا ہی سامنے رکھ لیا جائے تب بھی یہ صاف صاف نظر آتا ہے کہ
  1. دنیا میں سب سے زیادہ قتل مرد ہوتے ہیں نہ کہ عورتیں۔
  2. مارپیٹ کے واقعات میں زخمی اور شدید زخمی ہونے والوں مین مردوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، نہ کہ عورتوں کی۔
  3. لوٹ مار اور فراڈ کے واقعات میں جن لوگون سے ان کے مال و اسباب چھین لئے جاتے ہیں، ان میں مردوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے نہ کہ عورتوں کی۔
  4. حتیٰ کہ حادثات میں بھی مرنے اور زخمی ہونے والوں میں مرد اکثریت میں ہوتے ہیں، عورتیں نہیں۔
  5. کاروبار اور ملازمتوں میں بھی جن لوگوں کا استحصال کیا جاتا ہے، ان کی بھاری اکثریت مرد ہوتی ہے نہ کہ عورتیں۔
  6. سب سے زیادہ جنسی اور جسمانی ”بیگار“ بھی مردوں سے ہی لیا جاتا ہے۔
  7. ایک مرد بیک وقت کئی مردوں (ضعیف باپ، ضرورتمند بھائی یا دیگر رشتہ دار) اور کئی عورتوں (ماں، بہنوں، بیویوں وغیرہ) کی لازمی ”دیکھ بھال“ میں اپنا قیمتی وقت اور زر کثیر خرچ کرتا ہے۔ ایسا عورتیں نہیں کیا کرتیں (استثنٰی کے علاوہ)
قطع نظر اس کے کہ مرد پر ظلم کرنے والا کوئی دوسرا مرد ہے، کوئی عورت ہے، ظالم سماج ہے، جنگ ہے، حادثات ہیں، غیر منصفانہ نظام ہے، حقیقت یہی ہے کہ مظلوموں کی تعداد میں جنسی درجہ بندی کی جائےتو مظلوم مرد کی تعداد ہر حساب سے زیادہ نکلے گی۔
لہٰذا عورتوں کو اس ”غلط فہمی“ سے نکل آنا چاہئے کہ اس میل اورینٹیڈ دنیا میں عورتیں مظلوم ہیں۔ دنیا میں عورتوں کی مجموعی تعداد مردوں سے زیادہ ہونے کے باوجود یہاں ظلم سہنے والوں میں مرد ”بھاری اکثریت“ میں ہیں اور عورتوں کی صرف ایک ”قلیل تعداد“ ہی ظلم و ستم کا شکار ہوتی ہے۔ کیونکہ ہر عورت کے گرد (باپ، بھائی، شوہر، بیٹوں پر مشتمل) حفاظت کا ایک فطری ”مردانہ حصار“ موجود ہوا کرتا ہے جو عورت پر ظلم کے خلاف مزاہمت کرتا ہے۔ اور اگر اسی حصار میں موجود کوئی ایک رکن ظلم کرنے پر اتر آئے تو دیگر ارکان اس کے خلاف صف آرا ہوجاتے ہیں۔ بالغ مردوں کے گرد ایسا کوئی ”خصوصی حفاظتی حصار“ نہیں ہوتا، جو ہر وقت اور ہر جگہ اسے مظلوم بننے سے بچا سکے۔
یہ تو ایک ”غیر جانبدارانہ تجزیہ“ ہے، جس میں دین و مذہب کو کوئی ”دخل“ نہیں۔ اگر دین و مذہب کے آئینہ میں ظالم و مظلوم کا تجزیہ کیا جائے تو پھر اس میں جنس کی کوئی تمیز نہیں۔ ظالم مرد بھی ہوتا ہے جو دوسرے مردوں یا عورتوں پر ظلم کرتا ہے۔ اور عورتیں بھی ظالم ہوتی ہیں جو مردوں (جیسے شوہر)، اور عورتوں (جیسے بہو، بھابی، نند وغیرہ) پر ظلم کرتی ہیں۔ دنیا و آخرت دونوں عدالتوں میں صرف اور صرف ظالم کے ظلم کی بنیاد پر اسے سزا ملتی ہے نہ کہ ظالم کے جنس کی بنیاد پر۔ لہٰذا تمام مرد و زن کو چاہئے کہ وہ اپنے ہم جنس یا مخالف جنس پر ہی ظلم کرنے سے گریز نہ کریں، بلکہ جانوروں، نباتات، ماحولیات وغیرہ پر بھی کسی قسم کا کوئی ظلم نہ کریں کہ انہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اپنے ہر طرح کے ظلم کی سزا بھگتنی ہوگی۔ اگر ہم سب اپنے اپنے فرائض ادا کرنے کی طرف زیادہ توجہ دیں، بہ نسبت اپنے حقوق کے حصول کی طرف زیادہ توجہ دینے کے تو ظلم از کود کم سے کم ہوتا چلا جائے گا۔ ختم پھر بھی نہیں ہوگا کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ یہاں شیطان اور ہمارا نفس دونوں ہمیں برائی اور ظلم کی طرف اکساتا رہتا ہے۔ ویسے دینی نکتہ نظر سے ایک ”دلچسپ اور مزے“ کی بات یہ بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ اگر اس دنیا میں کوئی (کم یا زیادہ) ظلم سہے اور اسے انصاف بھی نہ ملے تو وہ آخرت میں بڑے ”فائدے“ میں رہے گا کہ وہاں اسے اس کا اتنا زیادہ اجر ملے گا کہ وہ دنیا میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو بہت حقیر سمجھے گا۔
واللہ اعلم
 
Top