- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
فرشتے خیالی مخلوق یا حقیقی؟
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ ﴿١٩﴾ يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ ﴿٢٠﴾
الانبیاء
اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ فرشتے ابراہیم علیہ السلام کے پاس انسانی صورت میں آئے اور فرشتہ مریم علیہما السلام کے سامنے کامل الخلقت بشر کی صورت میں سامنے ہوا اور جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دحیہ کلبی کی صورت میں اور اعرابی کی صورت میں ظاہر ہوا کرتے تھے۔ لوگوں کو بھی ایسا ہی دکھائی دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کی یہ صفت بیان کی ہے کہ:''آسمانوں اور زمینوں میں جو کوئی ہے سب اُسی کے (مملوک) ہیں اور جو فرشتے اس کے پاس ہیں، اس کی عبادت سے نہ تو ازراہِ تکبر منہ موڑتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں، دن رات تسبیحیں کہتے رہتے ہیں اور ذرا سست نہیں پڑتے۔''
ذِيْ قُوَّۃ ٍعِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٍ ۙ مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ
التکویر
وَلَقَدْ رَاٰہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِيْنِوہ صاحب قوت ہے اور ربِ عرش کے ہاں بڑے مرتبہ والا ہے، فرشتوں کا افسر ہے اور بڑا امانتدار ہے۔
التکویر
نیز اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ وہ:اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آسمانوں کے مطلع صاف میں دیکھا ہے۔
شَدِيدُ الْقُوَىٰ ﴿٥﴾ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ ﴿٦﴾ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ ﴿٧﴾ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ﴿٨﴾ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ﴿٩﴾ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ﴿١٠﴾ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ ﴿١١﴾ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ ﴿١٢﴾ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ﴿١٣﴾ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ ﴿١٤﴾ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ﴿١٥﴾ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ ﴿١٦﴾ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ ﴿١٧﴾ لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ ﴿١٨﴾
النجم
صحیحین میں ہے کہ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ''زبردست قوت والا زور آور ہے پس پورا نظر آیا اور وہ آسمان کی ایک اچھی اونچی جگہ میں تھا۔ پھر وہ قریب ہوا اور اس قدر جھکا کہ دو کمان کی قدر فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم، اس وقت اللہ نے اپنے بندے کی طرف جو وحی کرنی تھی سو کی، پیغمبر نے جو کچھ دیکھا تھا۔ دل نے اس میں کچھ جھوٹ نہیں ملایا۔ کیا تم اس کے ساتھ اس چیز کے بارے میں جھگڑتے ہو جو اس نے دیکھی اور بےشک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل کو ایک بار اور بھی دیکھا سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جس کے نزدیک ہی جنت الماویٰ ہے۔ جب کہ سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا۔ اس وقت بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ نہ بہکی اور نہ حد سے بڑھی۔ بے شک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔''
(بخاری کتاب التفسیر، تفسیر سورہ نجم حدیث۴۸۵۵، مسلم کتاب الایمان، باب قولہ تعالیٰ ولقدراہ نزلۃ اخری حدیث۱۷۷)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں صرف دو مرتبہ دیکھا ہے، یعنی ایک اُفقِ اعلیٰ میں اور دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔
ایک اور مقام پر جبریل علیہ السلام کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ روحِ امین ہے اور وہی روحِ اقدس ہے، یہ اور اس طرح کی دوسری صفات بتا رہی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین ذی حیات اور ذی عقل مخلوقات میں سے ہے۔ وہ جو ہر قائم بنفسہ ہے نہ کہ نبی کے نفس میں ایک خیال، جیسا کہ ان بے دین فلاسفہ کا، ولایت کے مدعیوں کا، اور نبی سے زیادہ عالم ہونے کا دعویٰ رکھنے والوں کا عقیدہ ہے۔ ان لوگوں کی تحقیق کی غایت اصولِ ایمان کا انکار ہے اس لئے کہ اصول ایمان تو یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روزِقیامت پر ایمان لاتے۔ ان لوگوں کا عقیدہ فی الحقیقت خالق کا انکار ہےکیونکہ انہوں نے مخلوق کے وجود ہی کو خالق کا وجود قرار دے دیا ہے اور کہتے ہیں کہ وجود ایک ہی ہے۔ واحد بالعین اور واحد بالنوع میں امتیاز نہیں کرتے کیونکہ موجودات وجود کے مسمی میں اس طرح شریک ہیں، جس طرح تمام لوگ (اناسی) انسان کے مسمیٰ ہیں اور حیوانات حیوان کے مسمیٰ میں شریک ہیں لیکن یہ مشترک کلی صرف ذہن میں مشترک کلی ہے جو حیوانیت انسان کے ساتھ قائم ہے، وہ اس حیوانیت کی عین نہیں ہے جو کہ گھوڑے کے ساتھ قائم ہے اور آسمانوں کا وجود بعینہ انسان کا وجود نہیں ہے۔ پس خالق جل جلالہ کا وجود ہرگز اپنی مخلوقات کے وجود کی طرح نہیں ہے۔
اور حقیقت میں ان بے دینوں کا عقیدہ وہی ہے جو فرعون کا عقیدہ تھا، جس نے صانع کو معطل قرار دیا۔ وہ اس موجود و مشہود کا منکر نہیں تھا لیکن اس کا دعویٰ تھا کہ وہ موجود بنفسہ ہے، اس کا کوئی بنانے والا نہیں ہے۔ اور ان لوگوں نے اس امر میں اس کی موافقت کی لیکن اس پر یہ دعویٰ مستزاد ہوا کہ وہی اللہ ہے چنانچہ وہ اس (فرعون) سے بھی زیادہ گمراہ ٹھہرے۔ اگرچہ اس کا یہ قول بہ ظاہر ان کے قول سے زیادہ فاسد ہے اسی لئے ان لوگوں نے قرار دیا کہ بتوں کو پوجنے والے بھی حقیقت میں اللہ ہی کو پوجتے ہیں نیز کہتے ہیں کہ جب فرعون حکومت کے منصب پر متمکن اور صاحب سیف تھا، اگرچہ وہ قانون کی اصطلاح میں ظالم تھا۔ تو اس نے کہا:
یعنی اگرچہ تمام لوگ کسی نہ کسی نسبت سے رب ہیں تاہم میں تم سب سے بلند تر ہوں۔ کیونکہ ظاہر میں مجھے تم پر حکومت دی گئی ہے (لیکن ان بے دین متکلموں نے فرعون کے ان الفاظ سے بھی اپنے عقائدِ فاسدہ کا الو سیدھا کرنے کی کوشش کر ہی دی) اور کہا کہ جب جادوگروں کو اپنے دعویٰ میں فرعون کی صداقت کا علم ہو گیا تو انہوں نے اس مسئلہ میں اس کے قول کو مان لیا۔ اور کہا:میں تمہارا پروردگارِ اعلیٰ ہوں۔
فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ اِنَّمَا تَقْضِيْ ہٰذِہِ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا
طٰہ
(ان لوگوں نے اس واقعہ سے یہ دلیل اخذ کی) کہ فرعون کا یہ قول صحیح ثابت ہوا کہ:''تو جو چاہتاہے کرگزر کہ تواس زندگی میں چلاسکتاہے۔''
اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی۔
النازعات
''میں تمہارا پروردگارِ اعلیٰ ہوں۔''
''الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان''