محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۱۸۳ۙ
مومنو! تم پرروزہ فرض ہوا ہے۔ جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض ہوا تھا۔ شاید تم پرہیز گار ہوجاؤ۔۱؎(۱۸۳)
فرضیت صیام کا واقعہ ہجرت سے تقریبا ًدو سال بعد کا ہے اس لیے کہ اس میں ایک طرح کی روحانی ریاضت ہے اور جب تک نفوس میں اس اہم قربانی کے لیے ایک استعداد پیدا نہ ہوجاتی، اس کی تلقین بے موقع تھی۔ان آیات میں اعلان فرضیت ہے اور یہ بتایا ہے کہ روزہ قدیم روایات ودستور کی ایک مکمل صورت ہے۔ کوئی بالکل نئی چیز نہیں، تاکہ مسلمانوں کے دل میں اس کی اہمیت پیدا ہوجائے ۔
خالص روحانی واصلاحی تدبر سے کھانے پینے کی بے اعتدالیوں اور بے ضابطگیوں پر ایک ناقدانہ نظر اور ان کا مکمل مداوا۔ روزہ دار اور غیر روزہ دار میں ایک محسوس اور بین فرق ہوتا ہے ۔ حدیث میں آیا ہے ۔'' روزہ دار وہ ہے جو گالی گلوج سے پرہیز کرے اور اگر اسے کوئی مجبور کرے تو کہہ دے کہ میں صائم ہوں۔'' روزہ خالص اللہ کے لیے ہے،اس لیے اللہ فرماتا ہے ۔ الصوم لی وانا اجزی بہ یعنی روزہ دار بھوک پیاس کی تلخیوں کو صرف میرے لیے برداشت کرتا ہے ، اس لیے میں اسے مخصوص اجر سے نوازوں گا۔ یعنی مسلمان گرمیوں کے موسم میں جن کے ہونٹ سوکھ رہے ہوں، پیاس کی شدت بے چین کررہی ہو اور اس طاقت ووسعت میں ہو کہ برفاب کے کوزے منہ سے لگالے مگرخدا سے ڈرتا ہے اور پیاس ہی کو آب سرد سمجھ کرپی جاتا ہے اور کامل ایک ماہ تک اس ریاضت کو جاری رکھتا ہے تاکہ خدا کے لیے بھوک اور پیاس کی سختیوں کو برداشت کیاجاسکے۔ روزہ امیر اورغریب کو ایک ماہ کے لیے ایک سطح پر لے آتا ہے ۔ سب خدا کی راہ میں بھوک اور پیاس کو برداشت کرتے ہیں۔ سحری سے افطاری تک سب بھوکے اور پیاسے رہتے ہیں۔ گویا روزہ مساوات انسانی کا ایک عظیم مظاہرہ ہے اور خالص تربیت ہے جس سے مقصود سال بھر کی تیاری ہے کہ روزہ دار غریبوں کی بھوک اور پیاس کا خیال رکھے۔
مومنو! تم پرروزہ فرض ہوا ہے۔ جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض ہوا تھا۔ شاید تم پرہیز گار ہوجاؤ۔۱؎(۱۸۳)
۱؎ صیام کے لفظی معنی رکنے اور باز رہنے کے ہیں۔ اصطلاحِ قرآن میں مراد ہے روزہ رکھنا ۔ یعنی ضبط نفس کی بہترین شکل۔ اسلام سے پہلے روزہ رکھنے کا رواج کم وبیش تمام قوموں میں موجود تھا اور سب اس کی تقدیس کے قائل تھے۔ روما والے بھی روزہ رکھتے تھے اور اہل کتاب بھی۔ ہنود کی کتابوں میں بھی برت کا ثبوت ملتا ہے لیکن جس تکمیل کے ساتھ اسلام نے روزہ کا مفہوم پیش کیا ہے وہ پہلی قوموں میں نہیں ملتا۔ پہلے روزہ اور فاقہ میں کوئی فارق شے نہ تھی۔ اسلام نے بتایا کہ روزہ سے مقصود فاقہ نہیں، تزکیہ ٔ نفس ہے ۔فرضیت صیام
فرضیت صیام کا واقعہ ہجرت سے تقریبا ًدو سال بعد کا ہے اس لیے کہ اس میں ایک طرح کی روحانی ریاضت ہے اور جب تک نفوس میں اس اہم قربانی کے لیے ایک استعداد پیدا نہ ہوجاتی، اس کی تلقین بے موقع تھی۔ان آیات میں اعلان فرضیت ہے اور یہ بتایا ہے کہ روزہ قدیم روایات ودستور کی ایک مکمل صورت ہے۔ کوئی بالکل نئی چیز نہیں، تاکہ مسلمانوں کے دل میں اس کی اہمیت پیدا ہوجائے ۔
یہ بتایا ہے کہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ یعنی روزہ تم میں تقویٰ واصلاح کی محض قوتوں کو پیدا کرنے کے لیے فرض کیا گیا ہے ۔ اسلامی علم الاخلاق میں تقویٰ اور روزہ کی حیثیت ایک ہے ۔ تقویٰ کے معنی تمام ممکن محاسن کا حصول اور تمام برائیوں سے احتراز۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ روزہ اخلاق وروح کی آخری معراج ہے ۔ دیکھیے تو کامل ایک ماہ تک ضبط خواہش کتنا مشکل کام ہے لیکن مسلمان صرف اللہ کی رضا جوئی کے لیے تیار ہوجاتا ہے ۔روزہ کا فلسفہ
خالص روحانی واصلاحی تدبر سے کھانے پینے کی بے اعتدالیوں اور بے ضابطگیوں پر ایک ناقدانہ نظر اور ان کا مکمل مداوا۔ روزہ دار اور غیر روزہ دار میں ایک محسوس اور بین فرق ہوتا ہے ۔ حدیث میں آیا ہے ۔'' روزہ دار وہ ہے جو گالی گلوج سے پرہیز کرے اور اگر اسے کوئی مجبور کرے تو کہہ دے کہ میں صائم ہوں۔'' روزہ خالص اللہ کے لیے ہے،اس لیے اللہ فرماتا ہے ۔ الصوم لی وانا اجزی بہ یعنی روزہ دار بھوک پیاس کی تلخیوں کو صرف میرے لیے برداشت کرتا ہے ، اس لیے میں اسے مخصوص اجر سے نوازوں گا۔ یعنی مسلمان گرمیوں کے موسم میں جن کے ہونٹ سوکھ رہے ہوں، پیاس کی شدت بے چین کررہی ہو اور اس طاقت ووسعت میں ہو کہ برفاب کے کوزے منہ سے لگالے مگرخدا سے ڈرتا ہے اور پیاس ہی کو آب سرد سمجھ کرپی جاتا ہے اور کامل ایک ماہ تک اس ریاضت کو جاری رکھتا ہے تاکہ خدا کے لیے بھوک اور پیاس کی سختیوں کو برداشت کیاجاسکے۔ روزہ امیر اورغریب کو ایک ماہ کے لیے ایک سطح پر لے آتا ہے ۔ سب خدا کی راہ میں بھوک اور پیاس کو برداشت کرتے ہیں۔ سحری سے افطاری تک سب بھوکے اور پیاسے رہتے ہیں۔ گویا روزہ مساوات انسانی کا ایک عظیم مظاہرہ ہے اور خالص تربیت ہے جس سے مقصود سال بھر کی تیاری ہے کہ روزہ دار غریبوں کی بھوک اور پیاس کا خیال رکھے۔