• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرض حج میں تاخیر نہ کریں !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
حج میں استطاعت سے مراد کیا ہے!!!

حج میں استطاعت کیا ہے ؟

الحمد للہ :

حج کی بنسبت استطاعت یہ ہےکہ : حج کرنےوالا صحیح البدن ہو ، اوربیت اللہ تک جانے کے لیے مواصلات کا مالک ہویعنی ہوائي جہازیا گاڑي یا جانور وغیرہ یااس کا کرایہ ادا کرسکتا ہویہ اس کےحالات پرمنحصر ہے ، اورآنے جانے کے لیے زاد راہ کا بھی مالک ہوجواس کےگھریلواخراجات یعنی جن افراد کا نفقہ اس کے ذمہ ہے اس سے زائد ہونا چاہیے ، اورعورت کے ساتھ سفر حج یاعمرہ میں اس کا خاوندیا کوئي اورمحرم ہونا لازم ہے .



فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء
دیکھیں : کتاب الحج والعمرۃ والزیارۃ صفحہ نمبر ( 17 ) ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میری ماہانہ آمدنی میرے خرچہ کے برابر ہے ، کیا مجھ پرحج فرض ہے ؟
  • میں بیوی اوردوبچوں کا سربراہ ہوں ، اورمیری تنخواہ ضروریات زندگی ہی پوری کرنے کے قابل ہے ، اس کے علاوہ میری اورکوئي کمائي نہيں ، میں نے ایک خلیجی ملک میں چاربرس تک کام کیا ، اورمیرے پاس کچھ مال متوفرہوا تومیں نےایک اسلامی بنک میں یہ رقم رکھی تا کہ مجھے کچھ فائدہ حاصل ہوسکے اورمیری ضروریات زندگی پوری کرنے میں معاون ہو۔

  • میری تنخواہ اوریہ آمدنی مجھے اورافراد خانہ کے لیے میانہ روی کے ساتھ کافی ہوتے ہیں ، توکیا مجھے اس مبلغ سے حج کا خرچہ نکالنا چاہیے ، اورکیاان حالات میں میں حج کی ادائيگي کا مکلف ہوں ؟

  • آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ اگر میں نے اس مبلغ سے حج کےلیے رقم نکالی تویہ میری ماہانہ امدنی پراثرانداز ہوگي ، اورمجھے مالی طور پرکمزور کردے گی ،لھذافضیلۃ الشخ سے گزارش ہے کہ آپ اس میں کیا مشورہ دیتے ہیں ؟
الحمدللہ

اگرتوآپ کے حالات ایسے ہی ہیں جوآپ نے بیان کیےہیں تواس حالت میں شرعی استطاعت نہ رکھنے کی بنا پرآپ حج کی ادائيگي کے مکلف نہيں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اللہ تعالی نے ان لوگوں پرجواس کی طرف راہ پاسکتے ہوں اس گھر کا حج کرنا فرض کردیا ہے } آل عمران ( 97 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پراللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ پس جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے اس کا تقوی اختیار کرتےرہو } التغابن ( 16 ) ۔
اورایک مقام پراللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :

{ اورتم پر( اللہ تعالی نے ) دین کے بارہ میں کوئي تنگی نہيں ڈالی } الحج ( 78 ) ۔
اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔ .

دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ الافتاء ( 11 / 35 ) ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیااسے حج کرنا چاہیے یا تعلیم کی تکمیل!!!
  • میں نےجب سے سورۃ آل عمران میں یہ پڑھا ہے کہ اللہ تعالی نے مردوں پر حج فرض کیا ہے ، اورامریکا میں میری تعلیم کا یہ آخری سمیسٹر ہے اورمیرے پاس تقریبا دوہزار امریکی ڈالر بھی ہيں اس کےباوجود مجھے خدشہ ہےکہ اگر میں نے یہ رقم حج میں صرف کردی تومیری والدہ ناراض ہوگی کیونکہ میری والدہ اسلام کاالتزام کرنا پسند نہيں کرتی ۔
  • اورفی نفس الوقت مجھے یہ علم نہيں کہ مجھے حج پرجانے کی پھر کوئي فرصت ملے یا نہ ملے ، میری تعلیم کا خرچہ حکومت دیتی ہے اورعنقریب میں پانچ سال حکومت کی ملازمت کرونگا ، مجھے علم نہيں کہ دوسری بار میرے پاس حج کےلیے کافی رقم بن سکے گي کہ نہیں ۔
  • اوردوسری طرف یہ بھی ہے کہ اگرمیرے پاس مال آبھی جاتا ہے تومیں گاڑی خریدوں گا تا کہ میری والدہ مالدار ہوسکے کیونکہ والد کے فوت ہوتے وقت میری عمر تین برس تھی تواس وقت سے انہوں نے میری تربیت کی کیونکہ میرے رشتہ داروں میں کوئي بھی اچھا نہيں تھا ؟

الحمد للہ :


حج دین اسلام کے فرا‏ئض اورارکان میں سے ایک فرض اوررکن ہے ، اوردین کے ستونوں میں سے ایک ستون ہے ، فریضہ حج کی ادائيگي کی استطاعت رکھنےوالے کےلیے حج میں تاخیر کرنی جائز نہيں اورنہ ہی اس کی ادائيگي میں تردد کرنا جائز ہے ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی کی معصیت ونافرمانی میں کسی کی بھی اطاعت وفرمانبرداری نہیں ہوسکتی ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اوراللہ تعالی نے ان لوگوں پرجواس کی طرف راہ پاسکتے ہوں اس گھرکا حج فرض کردیا ہے ، اورجوکوئي کفرکرے تواللہ تعالی تمام دنیا سے بے پرواہ ہے } آل عمران ( 97 )
۔
اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اسلام کی بیناد پانچ چيزوں پر ہے ، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئي معبود برحق نہيں ، اوریقینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں ، اورنماز قائم کرنا ، زکاۃ ادا کرنا ، ، اوررمضان المبارک کے روزے رکھنا ، اورحج کی ادائيگي کرنا ) ،
لھذا آپ کے لیے جائزنہيں کہ اللہ تعالی کی معصیت میں اپنی والدہ کوراضی کریں ، آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کریں لیکن یہ بھی اللہ تعالی کی معصیت کےعلاوہ ہونا چاہیے ، کیونکہ جواللہ تعالی کوناراض کرکے لوگوں کوراضي کرتا ہے اللہ تعالی اس پرناراض ہوتا ہے اورلوگوں کوبھی اس سے ناراض کردیتا ہے ۔

واللہ اعلم .
الشیخ عبدالکریم الخضیر
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مقروض ہوتے ہوئے حج کرنا چاہتا ہے
  • میں ایک بینک کا مقروض ہوں ، اورعمرہ کرنا چاہتاہوں ، مجھے علم ہے کہ حج یا عمرہ سے قبل مجھ پرقرض کی ادائيگي واجب ہے ، توکیا آپ مجھے اس کے بارہ میں کوئي صحیح اسلامی طریقہ کی راہنمائي کرسکتے ہیں ؟
الحمدللہ

اول :

اگرتویہ قرض سودی ہے تویہ حرام اورکبیرہ گناہوں میں سے ایک کبیرہ گناہ اورسات ہلاک کرنے والی اشیاء میں سے ایک ہے ، اسے توساری امتوں نے حرام قراردیا ہے حتی کہ اغریق جوبتوں کے پجاری ہیں بھی اسے حرام قراردیتے ہيں ان میں سے ایک جس کانام صولون ہے کہتا ہے :

مال توبانجھ مرغی کی طرح ہے لھذا درھم درھم کوجنم نہيں دیتا ۔

اورعیسائیوں کے عقیدہ میں ہے کہ : جب سود خور فوت ہوجائے تواسے کفن نہيں دیا جائے گا ۔

حتی کہ یھودی بھی سود کوحرام قراردیتے ہيں ، اوراسلام نے تواسے اس طرح حرام کیا ہے کہ کسی ایک کے لیے بھی اس کے حرام ہونے میں شک کی کوئي مجال نہيں چھوڑی ۔

اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کی حرمت کے بارہ میں فرمايا :
{ حالانکہ اللہ تعالی نے تجارت کوحلال اورسود حرام کیا ہے ، جوشخص اپنے پاس آئي ہوئي اللہ تعالی کی نصیحت سن کررک گیا اس کے لیے وہ ہے جوگزرا اوراس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ، اورجوپھر دوبارہ ( حرام کی طرف ) لوٹا وہ جہنمی ہے ، ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے } البقرۃ ( 275 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پراللہ تعالی نےفرمایا :
{ اے ایمان والو ! اللہ تعالی سے ڈرو اورجوسود باقی رہ گيا ہے اسے چھوڑ دو ، اگرتم سچ مچ ایمان والے ہو } البقرۃ ( 278 ) ۔
ابوجحیفہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
خون اورکتے کی قیمت اورلونڈکی کمائي سے منع فرمایا اورگودنے اورگدوانے والی اورسودکھانے اورکھلانے والے اورمصور پرلعنت فرمائي ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2123 ) ۔
اورعبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے اورکھلانے والے پرلعنت فرمائي ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1597 ) ۔

اورابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( سات ہلاک کرنے والی اشیاء سے اجتناب کریں ، صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کونسی اشیاء ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا ، اوراس نفس کوناحق قتل کرنا جسے اللہ تعالی نے حرام کیا ہے ، سود کھانا ، اوریتیم کا مال کھانا ، میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کربھاگنا ، پاکدامن غافل مومن عورتوں پرتہمت لگانا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2615 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 89 ) ۔

سمرہ بن جندب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا :
میں نے آج رات دوآدمی دیکھے وہ میرے پاس آئے اوروہ مجھے ارض مقدس کی طرف لے گئے ، ہم چلے اورایک خون کی نہر کے پاس آئے اس میں ایک شخص تھا اورکنارے پرایک شخص کھڑا تھا اس کے آگے پتھر رکھے تھے ، وہ شخص جونہرمیں تھا آیا اورباہرنکلنے کی کوشش کی تواس شخص نے اس کے منہ میں پتھر دے مارا اوراسے وہیں واپس کردیا جہاں وہ تھا ، توجب بھی وہ شخص باہر نکلنے کی کوشش کرتا وہ اس کے منہ میں پتھردے مارتا اوروہ اپنی جگہ واپس چلا جاتا ، تومیں نے کہا یہ کیا ہے ، وہ کہنے لگا وہ جے آپ نہرميں دیکھ رہے ہیں وہ سودخور ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1979 ) ۔

لھذا آپ پراس عمل سے توبہ کرنی واجب ہے ، لیکن اگریہ قرض قرضہ حسنہ ہے اوراس میں سود داخل نہيں توپھر اس میں کوئي حرج نہيں ہے ۔

دوم :

اورحج کے متعلق یہ ہے کہ: جوشخص ہاتھ کی تنگي کی بنا پراپنے آپ پرخرچ کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اس پرحج واجب نہيں ہوتا ، لیکن ان دونوں میں سے اولی اوبہتر فریضہ حج کی ادائيگي ہے یا قرض کی ادائيگي ؟

اس میں راجح یہ ہے کہ قرضہ کی ادائيگي اولی اوربہتر ہے اس لیے کہ مقروض کے لیے حج کرنا لازم نہیں کیونکہ حج کی شرائط میں استطاعت شامل ہے ۔

لھذا اگرآپ کا حج قرض کے ساتھ متعارض ہوتا ہے توآپ قرضہ کی ادائيگی مقدم کریں ، لیکن اگراس میں تعارض نہيں آتا مثلا ادائيگي کے وقت میں ابھی تاخیر ہے یا قرض خواہ اپنے قرض پرصبر کررہا ہے تواس حالت میں حج اورعمرہ کرنے میں کوئي حرج نہيں ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
تنگ دست مقروض کواگرکوئي دوسرا شخص حج کروائے تواس کے لیے حج کرنا جائز ہے ، اوراس میں قرضہ کےحق کا ضياع نہيں ہوگا ، یاتواس وجہ سے کہ وہ کمائي سے ہی عاجز ہے ، اوریا قرض خواہ کے غائب ہونے کی بنا پرکمائي سے اسے ادائيگي کرنی ممکن نہيں ۔
دیکھیں : مجموع الفتاوی الکبری ( 26 / 16 ) ۔

اوریہ سب کچھ اس وقت ہے جب مکمل استطاعت ہو اوراگرآپ ایک سے زائد لوگوں کے مقروض ہوں توقرض کی ادائيگي کا وقت آنے اورقرض خواہ کے مطالبہ پرقرض کی ادائيگي کرنے کے ساتھ زاد راہ اورسواری اورسفر کی ضروریات بھی میسر ہوں اوراپنے اہل وعیال یا پھرجن کا آپ پرخرچہ واجب ہے اس کے انتظام کرنے کےبعد ہوگا ۔

وہ اس طرح کہ آپ اہل وعیال کےلیے ضروریات زندگي مہیا کرکے جائيں ، اوراگرآپ ایسانہيں کرینگے توآپ گنہگار ہيں اوراللہ تعالی نے آپ کے ذمہ جن کی دیکھ بھال لگائي ہے آپ نے اسے ضائع کردیا ہے ۔

خیثمۃ رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمرو رضي اللہ تعالی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس ان کا وکیل اورخازن آیا تووہ کہنے لگے : کیا تونے غلاموں کوان کی غذا مہیا کردی ہے ؟ اس نے جواب دیا نہيں ،
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بندے کے لیے اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ جن کا خرچہ اس کے ذمہ ہے اس کا خرچہ بند کردے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 996 ) ۔
اورابن عمررضي اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( مسلمان کے کے لیےاتنا ہی گناہ کافی ہے کہ وہ جسے خرچہ دیتا تھا اسے ضائع کردے ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1692 ) ۔
واللہ اعلم.
الاسلام سوال وجواب
 
Top