• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرض نمازوں کے بعد سورہ اخلاص پڑھنا ثابت نہیں

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360) نے کہا:
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ الْعَلَاءِ بْنِ زِبْرِيقٍ الْحِمْصِيُّ، ثنا عَمِّي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ نا مُحَمَّدُ بْنُ حِمْيَرٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ الْأَلْهَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمْ: «مَنْ قَرَأَ آيَةَ الْكُرْسِيِّ و {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ لَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ دُخُولِ الْجَنَّةِ، إِلَّا الْمَوْتُ» [المعجم الكبير للطبراني 8/ 114]۔
صحابی رسول ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہرفرض نماز کے بعد سورۃ اخلاص اور آیت الکرسی پڑھی اسے جنت میں داخل ہونے سے موت کے علاوہ کوئی چیز نہیں روک سکتی ۔

یہ روایت باطل و موضوع اور من گھڑت ہے اس کی سند میں موجود محمد بن إبراهيم یہ محمد بن إبراهيم بن العلاء الدمشقي اور یہ کذاب ہے ۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
يضع الحديث
ٰیہ حدیث گھڑتا تھا [المجروحين - ابن حبان 2/ 301]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
كذاب
یہ بہت بڑا جھوٹا راوی ہے [سؤالات البرقاني للدارقطني: ص: 58]۔

امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507)نے کہا:
يضع الحديث
یہ حدیث گھڑتا تھا[تذكرة الحفاظ لابن القيسراني :ص: 271]۔

معلوم ہوا کہ یہ روایت جھوٹی و من گھڑت ہے علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے باطل ومن گھڑت قرار دیا ہے اور اسے صحیح کہنے والے کو جاہل قرار دیا ہے ، دیکھئے الضعیفہ رقم 6012 نیز الضعیفہ ج 13 ص 33 ] ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
تنبیہ:
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ حُنَيْنَ بْنَ أَبِي حَكِيمٍ، حَدَّثَهُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ اللَّخْمِيِّ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: «أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقْرَأَ بِالْمُعَوِّذَاتِ دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ»
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا کہ ہر نماز کے بعد معوذات پڑھا کروں[سنن ابي داؤد 2/ 199 رقم 1523]۔

بعض حضرات اس حدیث سے بھی استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سورۃ اخلاص پڑھ سکتے ہیں کیونکہ یہاں معوذات جمع ہے اور اس میں سورہ فلق اور سورہ ناس کے ساتھ سورہ اخلاص بھی شامل ہے۔
عرض ہے کہ اس حدیث میں معوذات سے مراد صرف سورہ فلق اور سورہ ناس ہی ہیں اس کی دو دلیلیں ہیں:

اول: یہ کہ سورہ اخلاص میں استعاذہ سرے سے ہے ہیں نہیں اس لئے معوذات میں اس کا شمار ہوہی نہیں سکتا ۔
دوم: اسی حدیث کے بعض طرق ''معوذتین'' (سورہ فلق اورسورہ ناس ) کی صراحت ہے ، چنانچہ:

امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
أَخْبَرَنَا هِبَةُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْوَاحِدِ وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ رِضْوَانَ وَأَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَحْمَدَ قَالُوا: أنا أَبُو مُحَمَّدٍ الْجَوْهَرِيُّ، قَالَ: أنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَمْدَانَ قَالَ: نا بِشْرُ بْنُ مُوسَى قَالَ: نا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ، قَالَ: نا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ الرُّعَيْنِيُّ، وَأَبُو مَرْحُومٍ عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيِّ، عَنْ عُلي بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّهُ قَالَ: (أَمَرَنِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقْرَأَ الْمُعَوِّذَتَيْنِ فِي دُبُرِ كُلِّ صلاةٍ)).
صحابی رسول عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں ہرنماز کے بعد معوذتین (سورہ فلق اور سورہ ناس ) پڑھوں[الأربعون الأبدال العوالي لابن عساكر ص: 83 واسنادہ صحیح ]۔

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: «أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقْرَأَ بِالمُعَوِّذَتَيْنِ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ»
صحابی رسول عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں ہرنماز کے بعد معوذتین (سورہ فلق اور سورہ ناس ) پڑھوں[سنن الترمذي ت شاكر 5/ 171رقم 2903 و فی اسنادہ ابن لھیعہ لکن لہ شواہد]۔

معلوم ہواکہ نسائی وغیرہ کی روایت میں ''معوذات'' سے مراد صرف دو ہی سورتیں سورہ فلق اور سورہ ناس ہیں ، اوررہی یہ بات کہ پھر نسائی کی رویات میں ''معوذات'' کے ساتھ مستعمل ہوا تو عرض ہے کہ عربی زبان میں ثتنیہ کے لئے بھی جمع کا صیغہ استعمال ہوتا جیساکہ قران وحدیث میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں ، مثلاقران کے الفاظ ہیں:

{ إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا }
(اے نبی کی دونوں بیویو!) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو (تو بہت بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں[التحريم: 4]۔

اس آیت میں دو دل کے لئے ''قلوب'' جمع مستعمل ہے۔
اسی طرح بخاری کی حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں:

وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا شَيْئًا»
مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں شیطان کوئی بدگمانی نہ ڈال دے۔[صحيح البخاري 3/ 49 رقم 2035]۔

اس حدیث میں بھی دو دل کے لئے ''قلوب جمع مستعمل ہے۔
معلوم ہواکہ تثنیہ (دو) کے لئے بھی جمع کا صیغہ عربی زبان میں استعمال ہوتاہے۔
مزید یہ ہے کہ سورۃ اخلاص میں استعاذہ سرے سے ہے ہی نہیں تو پھر معوذات میں یہ سورت کیونکر شامل ہوسکتی ہے ؟
نیز اس حدیث کے کسی ایک بھی طریق میں سورہ اخلاص کی صراحت نہیں ہے لہٰذا تغلیبا بھی سورہ اخلاص کی شمولیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722

ایک شبہہ کا ازالہ

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَانَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ نَفَثَ فِي يَدَيْهِ، وَقَرَأَ بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَمَسَحَ بِهِمَا جَسَدَهُ»
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹتے تو اپنے ہاتھوں پر پھونکتے اور معوذات پڑھتے اوردونوں ہاتھ اپنے جسم پر پھیر تے [صحيح البخاري 8/ 70 رقم 6319]۔

اسی حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری جگہ نقل کرتے ہوئے کہا:
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا المُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ كُلَّ لَيْلَةٍ جَمَعَ كَفَّيْهِ، ثُمَّ نَفَثَ فِيهِمَا فَقَرَأَ فِيهِمَا: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الفَلَقِ وَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ، ثُمَّ يَمْسَحُ بِهِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِهِ، يَبْدَأُ بِهِمَا عَلَى رَأْسِهِ وَوَجْهِهِ وَمَا أَقْبَلَ مِنْ جَسَدِهِ يَفْعَلُ ذَلِكَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ "
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات جب بستر پر آرام فرماتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ملا کر قل ھو اللہ احد، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس (تینوں سورتیں مکمل) پڑھ کر ان پرپھونکتے اور پھر دونوں ہتھیلیوں کو جہا ں تک ممکن ہوتا اپنے جسم پر پھیرتے تھے۔ پہلے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھیرتے اور سامنے کے بدن پر۔ یہ عمل آپ تین دفعہ کرتے تھے[صحيح البخاري 6/ 190 رقم 5017]۔

ان دونوں احادیث کو ایک ساتھ دیکھنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پہلی حدیث میں ''معوذات'' پڑھنے کا ذکر ہے اور دوسری حدیث میں ''معوذات'' کی تفصیل ذکرہے جس میں سورہ فلق وسورہ ناس کے ساتھ سورہ اخلاص بھی ہے ۔ اس سے معلوم ہواکہ کہ سورہ اخلاص بھی معوذات میں شامل ہے ۔
جوابا عرض ہے کہ یہاں سورہ اخلاص کو معوذات میں قطعا نہیں شمار کیا گیا ہے بلکہ ایک ساتھ تین سورتوں کا ذکر ہوا جن میں دو سورتیں استعاذہ والی تھیں تو تغلیبا(جیساکہ عربی زبان میں معروف ہے) تینوں کو معوذات کہہ دیا :

اس کی دو دلیل ہے:
اول: یہ کہ سورہ اخلاص میں استعاذہ سرے سے ہے ہیں نہیں اس لئے معوذات میں اس کا شمار تغلیبا ہی ہوسکتاہے۔
دوم: اسی حدیث کے بعض طرق میں سورہ فلق و سورہ ناس کو خاص معوذتین کے نام سے الگ ذکر کیا گیا ہے اور سورہ اخلاص کو علیحدہ ذکرکیا گیا ہے چنانچہ:

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأُوَيْسِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ، نَفَثَ فِي كَفَّيْهِ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَبِالْمُعَوِّذَتَيْنِ جَمِيعًا، ثُمَّ يَمْسَحُ بِهِمَا وَجْهَهُ، وَمَا بَلَغَتْ يَدَاهُ مِنْ جَسَدِهِ» قَالَتْ عَائِشَةُ: «فَلَمَّا اشْتَكَى كَانَ يَأْمُرُنِي أَنْ أَفْعَلَ ذَلِكَ بِهِ» قَالَ يُونُسُ: كُنْتُ أَرَى ابْنَ شِهَابٍ يَصْنَعُ ذَلِكَ إِذَا أَتَى إِلَى فِرَاشِهِ
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر آرام فرمانے کے لیے لیٹتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں پر "قل ھو اللہ احد" اور "قل اعوذ برب الناس اور الفلق" سب پڑھ کر دم کرتے پھر دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرہ پر اور جسم کے جس حصہ تک ہاتھ پہنچ پاتا پھیر تے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر جب آپ بیمار ہوتے تو آپ مجھے اسی طرح کرنے کا حکم دیتے تھے۔ یونس نے بیان کیا کہ میں نے ابن شہاب کو بھی دیکھا کہ وہ جب اپنے بستر پر لیٹتے اسی طرح ان کو پڑھ کر دم کیا کرتے تھے[صحيح البخاري 7/ 133 رقم 5748]

اس حدیث کی اس روایت میں میں صرف سورہ فلق اور سورہ ناس کو معوذتین کے نام سے ذکر کیا گیا ہے اور سورہ اخلاص کو علیحدہ ذکر کیا گیا ہے یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ سورہ اخلاص معوذتین سے الگ ہے اور جس روایت میں تینوں کو معوذات کہا گیا ہے وہ تغلیباہے۔
لہٰذا سورہ اخلاص کا فی نفسہ معوذات میں ہونا الگ بات ہے اور اور معوذتین کے ساتھ اسے ذکر کرکے تغلیبا معوذات کہنا الگ بات ہے۔
پس جہاں دلائل سے ثابت ہوجائے کہ معوذتین کے ساتھ کسی اور سورہ کو ذکر کے تغلیبا سب کو معوذات کہا گیا وہاں معوذات میں اس علیحدہ سورت کو بھی شامل مانیں گے۔
لیکن جہاں صرف معوذات کا لفظ ہو اور اس بات کی کوئی دلیل نہ ہو کہ یہاں کسی اور سورت کو بھی معوذات کے تحت تٍغلیبا شامل کیا گیا ہے وہاں ہم معوذات کو تغلیب پر نہیں بلکہ حقیقت پر ہی محمول کریں گے اور اس سے صرف انہیں سورتوں کو مراد لیں گے جن میں فی الحقیقت استعاذہ کی بات ہو۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے موقف کی وضاحت
صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سونے سے قبل سورہ اخلاص ، سورہ فلق اور سورہ ناس پڑھتے تھے ، اس حدیث کو رواۃ مختلف الفاظ میں روایت کیا ہے ، اور ایک روایت میں ان تینوں صورتوں کا نام نہ ذکر کرتے ہوئے صرف معوذات کہہ کر ان کا تذکرہ کیاگیا جیساکہ بخاری کی اس حدیث میں ہے:

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَانَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ نَفَثَ فِي يَدَيْهِ، وَقَرَأَ بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَمَسَحَ بِهِمَا جَسَدَهُ»
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹتے تو اپنے ہاتھوں پر پھونکتے اور معوذات پڑھتے اوردونوں ہاتھ اپنے جسم پر پھیر تے [صحيح البخاري 8/ 70 رقم 6319]۔

اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
وَالْمُرَادُ بِالْمُعَوِّذَاتِ سُورَةُ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ وَجَمَعَ إِمَّا بِاعْتِبَارِ أَنَّ أَقَلَّ الْجَمْعِ اثْنَانِ أَوْ بِاعْتِبَارِ أَنَّ الْمُرَادَ الْكَلِمَاتُ الَّتِي يَقَعُ التَّعَوُّذُ بِهَا مِنَ السُّورَتَيْنِ وَيُحْتَمَلُ أَنَّ الْمُرَادَ بِالْمُعَوِّذَاتِ هَاتَانِ السُّورَتَانِ مَعَ سُورَةِ الْإِخْلَاصِ وَأَطْلَقَ ذَلِكَ تَغْلِيبًا وَهَذَا هُوَ الْمُعْتَمَدُ
معوذات سے مراد سورہ فلق اورسورہ ناس ہے اوریہاں جمع کا استعمال اس اعتبار سے ہے کہ کم سے کم دو کے لئے بھی جمع کا صیغہ استعمال ہوتا ہے یا ان دونوں سورتوں کے تعوذ کے جو کلمات ہیں ان کے اعتبار سے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اوریہ بھی احتمال ہے کہ معوذات سے مراد ان دونوں سورتوں کے ساتھ سورہ اخلاص بھی ہے اور جمع کا صیغہ تغلیبا استعمال کیا گیاہو اوریہ بات قابل اعتمادہے[فتح الباري لابن حجر: 8/ 131 - 132]۔

اس تشریح میں حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے گرچہ مؤخرالذکر بات کو معتمد بتلایا ہے لیکن حتمی طور پر انہوں نے کوئی رائے قائم نہیں کی ہے کیونکہ یہ بات کہتے وقت ان کے سامنے صرف یہی روایت تھی ، حالانکہ اس حدیث میں ''معوذات'' میں سورہ اخلاص بھی شامل ہے اور سب کو معوذات تغلیبا کہا گیا ہے جیساکہ دوسری حدیث میں پوری صراحت کے ساتھ یہ بات موجود ہے ، اور حافظ ابن حجررحمہ اللہ کو جب دوسری صریح روایت ملی تو انہوں نے کہا:

قَدْ كُنْتُ جَوَّزْتُ فِي بَابِ الْوَفَاةِ النَّبَوِيَّةِ مِنْ كِتَابِ الْمَغَازِي أَنَّ الْجَمْعَ فِيهِ بِنَاءً عَلَى أَنَّ أَقَلَّ الْجَمْعِ اثْنَانِ ثُمَّ ظَهَرَ مِنْ حَدِيثِ هَذَا الْبَابِ أَنَّهُ عَلَى الظَّاهِر وَأَن المُرَاد بِأَنَّهُ كَانَ يقرأبالمعوذات أَيِ السُّوَرِ الثَّلَاثِ وَذَكَرَ سُورَةَ الْإِخْلَاصِ مَعَهُمَا تَغْلِيبًا لِمَا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ مِنْ صِفَةِ الرَّبِّ وَإِنْ لَمْ يُصَرِّحْ فِيهَا بِلَفْظِ التَّعْوِيذِ
میں کتاب المغازی میں وفات نبوی کے باب کے تحت اس بات کو جائز قرردیا تھا کہ معوذات سے مراد سورہ فلق و سورہ ناس ہی ہیں اور جمع کا صیغہ اس لئے مستعمل ہے کیونکہ کم سے کم دو پر بھی جمع کا اطلاق ہوتا ہے لیکن اس باب کی حدیث سے پتہ چلا کہ معوذات اپنے ظاہری معنی میں ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تینوں سورتیں پڑھتے تھے اور سورہ اخلاص کو بھی معوذات کے ساتھ تغلیبا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ اس میں رب کی صفات کا تذکرہ ہے گرچہ اس میں تعوذ کے الفاظ کی صراحت نہیں ہے[فتح الباري لابن حجر: 9/ 62]

اس قول میں حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اس بات کو حتمی شکل دے سے جسے گذشتہ قول میں احتمالا ذکیا تھا اور ایسا اس وجہ سے کی عین اسی حدیث کے دوسرے طریق صراحت مل گئی کہ یہاں ''معوذات'' میں تغلیبا سورہ اخلاص بھی شامل ہے ۔
عرض ہے کہ ہم حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اس بات سے کسی کو انکار نہیں ،ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ جہاں کہیں بھی اس بات کی دلیل مل جائے کہ معوذات میں تغلیبا کسی اور سورت کو بھی شامل کیا گیا ہے وہاں ہم یہ تسلیم کرلیں گے کہ ''معوذات'' میں تغلیبا فلاں سورت کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ لیکن جس حدیث میں صرف ''معوذات '' کا لفظ ہو اور اس کے کسی ایک طریق میں بھی سورہ فلق و سورہ ناس کے علاوہ کسی اور سورت کی شمولیت کی صراحت نہ ہوں تو وہاں ہم معوذات میں حقیقت پر ہی محمول کریں جیساکہ فرض نماز کے بعد معوذات پڑھنے والی حدیث ہے کیونکہ اس کے کسی ایک طریق میں بھی معوذات کی تفصیل بتاتے ہوئے سورہ اخلاص کی صراحت نہیں بلکہ بعض روایات میں تٍفصیل بتاتے ہوئے صرف معوذتین ہی کی صراحت ہے ، کمامضی۔ لہٰذا جب دیگرطرق میں یہ وضاحت اور تفصیل آگئی کہ معوذات سے مراد صرف اور صرف سورہ فلق اور سورہ ناس ہی ہیں تو تغلیبا کی بات نہیں کہی جائے گی۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے آگے کہا:
قد أخرج أصحاب السنن الثلاثة أحمد وابن خزيمة وابن حبان من حديث عقبة بن عامر قال : " قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم : قل هو الله أحد ، وقل أعوذ برب الفلق ، وقل أعوذ برب الناس ، تعوذ بهن ، فإنه لم يتعوذ بمثلهن

عرض ہے کہ یہاں بھی سورہ اخلاص کا ذکر صراحتاہے اس لئے یہاں تغلیبا سب کے لئے تعوذ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
خلاصہ کلام یہ کہ فرض نمازوں کے بعد سورہ اخلاص پڑھنے سے متعلق کوئی ایک بھی صحیح رویات موجود نہیں ہے اورجس روایت میں ''معوذات '' کالفظ ہے اس سے مراد صرف سورہ فلق اورسورہ ناس ہیں کیونکہ دوسری حدیث میں اس کی صراحت آگئی ہے،اورصرف دو پربھی جمع کااطلاق ہوتاہے۔
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
خلاصہ کلام یہ کہ فرض نمازوں کے بعد سورہ اخلاص پڑھنے سے متعلق کوئی ایک بھی صحیح رویات موجود نہیں ہے اورجس روایت میں ''معوذات '' کالفظ ہے اس سے مراد صرف سورہ فلق اورسورہ ناس ہیں کیونکہ دوسری حدیث میں اس کی صراحت آگئی ہے،اورصرف دو پربھی جمع کااطلاق ہوتاہے۔
جزاک اللہ شیخ محترم۔میں پچھلے دس بارہ سال سے اس حدیث پر عمل کررہا تھا۔یعنی فرض نماز کے بعد معوذتین کے ساتھ سورہ ا خلاص بھی پڑھ رہا تھا۔لہذا ضعیف حدیث سے بہتر ہے صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث پر عمل کرنا۔جس میں معوذ تین کا ذکر ہے۔جزاک اللہ خیرا
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
جزاک اللہ کل خیر فی الدارین شیخ کفایت اللہ ، و بارک فیما رزقک ۔
 
شمولیت
فروری 03، 2015
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
45
جزاکم اللہ خیرا -------- کافی عرصہ سے فرض نماز کے بعد سورۃ اخلاص پڑھنے کا معمول تھا -آج اس بات کا علم ہوا-- اللہ تعالی صحیح حدیث پر عمل کرنے کی توفیق دے ( آمین )
 
Top