• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرض نماز کے بعد تکبیر (اللہ اکبر) کہنے کا ثبوت

ابوطلحہ بابر

مشہور رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 03، 2013
پیغامات
674
ری ایکشن اسکور
843
پوائنٹ
195
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک بھائی نے سوال کیا ہے نماز کے بعد تکبیر (اللہ اکبر) کہنے کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ تکبیر کی جو حدیث ثابت ہے ابومعبد کی روایت سے تو صحیح مسلم میں ہی انہوں نے اس کا انکار کیا ہے۔
علماء کرام سے گزارش ہے کہ درج میں دئیے گئے جوابات کی وضاحت فرما دیں۔ جزاک اللہ خیرا
ان بھائی کی پوسٹ یہ ہے۔
===================================
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته
گروپ میں سوال کیا گیا کہ نماز سے سلام پھیر نے کے بعد اللہ اکبر کہنا کسی حدیث سے ثابت ہے؟

جس کا جواب شیخ زین عرفان صاحب نے دیا ہے
مگر میرے علم کے مطابق کچھ یوں ہے کہ
نماز کے بعد کسی بھی حدیث سے لفظ
(اللہ اکبر) ثابت نہیں بلکہ کسی بھی صحابی طابعی یا طبع طابعی بلکہ کسی محدث سے بھی ثابت نہیں
البتہ لفظ التکبیر سے ہی مراد لیا گیا ہے جو کہ مندرجہ ذیل حدیث میں آیا ہے جو کہ بخاری اور مسلم میں ہے
جبکہ اس لفظ التکبیر کے بارہ میں صرف ایک ہی راوی سے حدیث آتی ہے وہ ہیں ابو معبد جو کہ غلام ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ان کے علاوہ اس لفظ کے اور کوئی راوی نہیں وہ حدیث یہ ہے جو کہ زین بھائی نے نقل بھی کی ہے:

صحيح مسلم121 - (583) ﺣﺪﺛﻨﺎ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﻤﺮ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻔﻴﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻴﻴﻨﺔ، ﻋﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺩﻳﻨﺎﺭ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﻌﺒﺪ، ﻣﻮﻟﻰ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺃﻧﻪ ﺳﻤﻌﻪ ﻳﺨﺒﺮ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ، ﻗﺎﻝ: «ﻣﺎ ﻛﻨﺎ ﻧﻌﺮﻑ اﻧﻘﻀﺎء ﺻﻼﺓ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺇﻻ ﺑﺎﻟﺘﻜﺒﻴﺮ»

ابو معبد کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا وہ بتا رہے تھے کہ نبی صلی اللہ وسلم کی نماز کے ختم ہونے کو ہم نہیں جانتے تھے مگر تکبیر سے۔

اس کے بارہ میں چند باتیں قابل غور ہیں

1-مسلم شریف ہی کی ایک روایت میں ابو معبد نے اس حدیث کا انکار کیا ہے جو یہ ہے:

باب الذكر بعد الصلاة
مسلم 583 حدثنا زهير بن حرب حدثنا سفيان بن عيينة عن عمرو قال أخبرني بذا أبو معبدثم أنكره بعد عن ابن عباس قال كنا نعرف انقضاء صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالتكبير

راوی عمرو کہتے ہیں کہ ابو معبد نے یہ حدیث مجھے بتائی تھی مگر پھر اس نے انگار کر دیا تھا اس بات کا کہ ابن عباس سے رویت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ وسلم کی نماز کے احتتام کو تکبیر سے پہچانتے تھے

اس سے ثابت ہوا کہ ابو معبد نے اس لفظ کا انکار کیا ہے

2- اس بارہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی سے ایک حدیث ہے جس میں واضح ہے کہ نبی صلی اللہ وسلم کے زمانہ میں لوگ فرض نماز کے بعد اپنی آوز کے ساتھ ذکر کو بلند کرتے تھے
اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اس (ذکر) کو سن کر سمجھ جاتا کہ نماز ختم ہو گئی ہے۔

وہ حدیث یہ ہے:
روى البخاري (841) ومسلم (583) عن ابْن عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: ( أَنَّ رَفْعَ الصَّوْتِ بِالذِّكْرِ حِينَ يَنْصَرِفُ النَّاسُ مِنَ المَكْتُوبَةِ كَانَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ) وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " كُنْتُ أَعْلَمُ إِذَا انْصَرَفُوا بِذَلِكَ إِذَا سَمِعْتُهُ " .
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذکر کے ساتھ اپنی آواز کو بلند کرتے

3- نبی صلی اللہ وسلم کا وہ ذکر کیاتھا جو وہ نماز کے بعد کرتے تھے تو اس کے بارہ میں مندرجہ ذیل حدیث ہے:
مسلم (591) عن ثوبان رضي الله عنه ، قال: " كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِهِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا "، وَقَالَ: ( اللهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ) .
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ وسلم جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو کہتے تین بار استغفر اللہ اور اس کے بعد کہتے اللهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نماز كے فورا بعد استغفر اللہ تین بار کہتے تھے نہ کہ اللہ اکبر

4- نبی صلی اللہ وسلم نے جو بھی نماز کے بعد پڑھا ہے وہ با مسمی کے ساتھ ساتھ با الفاظ بھی آیا ہے جیسا کہ 33بار تسبیح 33بار تحلیل اور اسی طرح تکبیر تو باقاعدہ سبحان اللہ الحمدللہ اور اللہ اکبر کے الفاظ بھی مروی ہیں مگر سلام کے بعد اللہ اکبر کے الفاظ کہیں مروی نہیں

5- اگر اس حدیث میں التکبیر سے اللہ اکبر ثابت ہوتا ہے تو پھر کسی بھی سلف علیھم الرحم سے نماز کے بعد اللہ اکبر کے الفاظ کیوں نہیں ثابت۔

اس کے علاوہ کچھ فتاوی عرب علماء کی بھی پیش خدمت ہیں

السؤال:
رأيت أن الناس في السعودية لا يقولون " الله أكبر " عقب الصلاة ، وإنما يشرعون في الاستغفار ثلاثاً ، مع أن التكبير مذكور في صحيح البخاري . فما الأصح في هذه المسألة؟ وهل التكبير سنة مؤكدة ينبغي الإتيان بها بصوت مرتفع بعد الصلاة؟

تم النشر بتاريخ: 2014-09-09

الجواب:
الحمد لله

أولا:

روى البخاري (841) ومسلم (583) عن ابْن عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: ( أَنَّ رَفْعَ الصَّوْتِ بِالذِّكْرِ حِينَ يَنْصَرِفُ النَّاسُ مِنَ المَكْتُوبَةِ كَانَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ) وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " كُنْتُ أَعْلَمُ إِذَا انْصَرَفُوا بِذَلِكَ إِذَا سَمِعْتُهُ " .

وعند البخاري (842): ( كُنْتُ أَعْرِفُ انْقِضَاءَ صَلاَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالتَّكْبِيرِ ).

وقد اختلف أهل العلم في الجهر بالذكر والتكبير بعد الصلاة:

" فرأى جُمْهُورُ الْفُقَهَاءِ عَدَمَ اسْتِحْبَابِ رَفْعِ الصَّوْتِ بِالتَّكْبِيرِ وَالذِّكْرِ بَعْدَ الْفَرَاغِ مِنَ الصَّلاَةِ ، وحَمَل الشَّافِعِيُّ الأْحَادِيثَ الَّتِي تُفِيدُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالذِّكْرِ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَهَرَ لِيَعْلَمَ الصَّحَابَةُ صِفَةَ الذِّكْرِ ، لاَ أَنَّهُ كَانَ دَائِمًا ". انتهى من "الموسوعة الفقهية" (13/ 213).
وذهبت طائفة إلى استحباب رفع الصوت بالذكر بعد الصلاة ، منهم: الطبري وابن حزم وشيخ الإسلام ابن تيمية وغيرهم .

والأمر في هذا واسع ، إن شاء الله ، والخلاف فيه سائغ ، وينبغي لمن يختار رفع الصوت بالذكر بعد الصلاة أن يكون رفعه متوسطا ، من غير إزعاج ولا تشويش .

انظر جواب السؤال رقم: (87768).
=============================
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک بھائی نے سوال کیا ہے نماز کے بعد تکبیر (اللہ اکبر) کہنے کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ تکبیر کی جو حدیث ثابت ہے ابومعبد کی روایت سے تو صحیح مسلم میں ہی انہوں نے اس کا انکار کیا ہے۔
علماء کرام سے گزارش ہے کہ درج میں دئیے گئے جوابات کی وضاحت فرما دیں۔ جزاک اللہ خیرا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ؛
ایک اشکال اور اس کا جواب:
صحیح مسلم کی روایت میں ہے:
حدثنا زهير بن حرب، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو، قال: أخبرني بذا أبو معبد، ثم أنكره بعد عن ابن عباس، قال: «كنا نعرف انقضاء صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالتكبير»
’ترجمہ :
زہیر بن حرب نے کہا :ہمیں سفیان بن عیینہ نے عمرو (بن دینار )سے حدیث سنائی ‘انھوں نے کہا :مجھے ابو معبد نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے اس بات کی خبر دی ‘بعد میں( بھول جانے کی وجہ سے )اس سے انکار کر دیا ‘انھوں (ابن عباس رضی اللہ عنہ)نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ کی نماز ختم ہونے کا پتہ تکبیر سے چلتا ہے ۔
(صحیح مسلم )
لہٰذا یہ ’’من حدّث و نسی‘‘ (یعنی کسی محدث نے کوئی حدیث بیان کی ،لیکن بعد میں بھول گیا )کا معاملہ بنتا ہے۔ علماء اصول الحدیث کے نزدیک ایسی صورت میں جب کوئی محدث اپنی بیان کردہ حدیث کا انکار کرے تو اس حدیث کو قبول کرنے اور نہ کرنے کے بارے میں اختلاف ہے مگر اس میں راجح یہ ہے کہ اگر کسی ثقہ سے حدیث بیان کرنے کے بعد شیخ حدیث کا انکار کرتاہے، شک یا بھول جانے کی وجہ سے، تو ایسی صورت میں اس ثقہ پر اعتماد کرتے ہوئے اس حدیث کو قبول کیا جائے گا، ہاں، اگر محدث قطعی طور پر اس کا انکار کر رہا ہے اور روایت کرنے والے کو جھوٹا بتلا رہا ہے تو ایسی صورت میں اس حدیث کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
جہاں تک اس حدیث کی بات ہے تو عمر وبن دینار ثقہ، ثبت راوی ہیں لہٰذا ان کی بات کا اعتبار ہوگا۔ بخاری و مسلم جیسے جلیل القدر محدثین نے اس حدیث کی تخریج کی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ابومعبد کو بڑھاپے کی وجہ سے بھول واقع ہوگئی اور یہ نہ جان سکے کہ انھوں نے یہ حدیث بیان کی ہے۔ (’’من حدیث و نسی‘‘ کی تفصیلی بحث کے لیے دیکھیں: تدریب الراوی۔)

امام ابن حزم رحمہ اللہ (علي بن احمد القرطبی (المتوفى: 456 ھ) فرماتے ہیں:​
قال علي: فإن قيل: قد نسي أبو معبد هذا الحديث وأنكره؟ قلنا: فكان ماذا؟ عمرو أوثق الثقات، والنسيان لا يعرى منه آدمي. والحجة قد قامت برواية الثقة
’اگر کوئی کہے کہ ابومعبد یہ حدیث بھول گئے اور اس کا انکار کیا تو ہم کہیں گے: کیا ہوا؟ عمرو بن دینار أوثق الثقات (حد درجہ ثقہ) ہیں اور بھول چوک سے کوئی بھی آدمی پاک نہیں۔ ثقہ کی روایت سے حجت قائم ہوجاتی ہے۔ (المحلی ۴؍۲۶۰)
بہرحال روایت کی صحت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔

اسی لئے امام المحدثین امام بخاریؒ نےیہ حدیث بالاسناد بغیرکسی جرح نقل اور درج فرمائی ہے :
فرماتے ہیں :​
حدثنا علي بن عبد الله، قال: حدثنا سفيان، حدثنا عمرو، قال: أخبرني أبو معبد، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: «كنت أعرف انقضاء صلاة النبي صلى الله عليه وسلم بالتكبير» قال علي: حدثنا سفيان، عن عمرو، قال: كان أبو معبد أصدق موالي ابن عباس، قال علي: واسمه نافذ
ترجمہ : ہم سے علیؒ بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیانؒ بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عمروؒ بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابو معبدؒ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے خبر دی کہ آپ نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہونے کو تکبیر کی وجہ سے سمجھ جاتا تھا۔
امام علیؒ بن مدینی نے کہا کہ ہم سے سفیانؒ نے عمرو کے حوالے سے بیان کیا کہ ابومعبدؒ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے غلاموں میں سب سے زیادہ قابل اعتماد تھے۔ علیؒ بن مدینی نے بتایا کہ ان کانام نافذ تھا۔"

خلاصۂ کلام:
نماز کے بعد بلند آواز سے اللہ أکبر پڑھنے کے سلسلے میں راجح بات یہی ہے کہ بلند آواز سے پڑھنا مستحب ہے اس کے بعد دوسرے اذکار مثلاً تین مرتبہ أستغفراللہ اور ایک مرتبہ أللہم أنت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذا الجلال و الإکرام وغیرہ پڑھے جائیں۔ (۲)
امام نووی رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکورہ بالا حدیث ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
’’یہ حدیث دلیل ہے بعض سلف کے لیے جو کہتے ہیں کہ فرض نماز کے بعد تکبیر اور ذکر بلند آواز سے کرنا مستحب ہے۔‘‘
صاحب مرعاۃ المفاتیح شیخ عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ اس مسئلہ میں اپنا فیصلہ ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ما ذہب إلیہ بعض السلف و ابن حزم من المتأخرین من استحباب رفع الصوت بالتکبیر و الذکر أثر کل صلاۃ مکتوبۃ ہو القول الراجح عندی و إن لم یقل بہ الأئمۃ الأربعۃ و مقلدوہم، لأن حدیث ابن عباس باللفظین نص فی ذلک، ویدل علی ذلک ایضاً حدیث عبد اللہ بن الزبیر الاٰتی، والحق یدور مع الدلیل لامع الإدعاء أو الرجال۔ (مرعاۃ ۳؍۳۱۵)
’’اسلاف کرام میں سے بعض اور متأخرین میں سے ابن حزم رحمہم اللہ کا مسلک ہے کہ ہر فرض نماز کے بعد تکبیر اور ذکر (دعا) بلند آواز سے کرنا مستحب ہے، یہی قول ہمارے نزدیک راجح ہے، اگرچہ ائمہ اربعہ اور ان کے مقلدوں میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔ اس لیے کہ عبداللہ بن عباس کی دونوں الفاظ کے ساتھ وارد حدیث اس معاملہ میں نص ہے۔ عبداللہ بن زبیر کی آنے والی حدیث بھی یہی واضح کرتی ہے۔ (۳) حق دلیل کے تابع ہوتاہے محض دعووں اور شخصیتوں کے گرد نہیں گھومتا۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں حق بات کہنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین
ــــــــــــــــــــــــــــ

:
 
Last edited:
Top