• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرض نماز کے وقت سنت پڑھنا

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
اسلام میں فرض کا درجہ سنت سے اوپر کا ہے جس کا واضح مطلب یہ نکلتا ہے کہ فرض نماز کے وقت سنت نہیں پڑھی جائے گی ۔ یہی آپ ﷺ کا واضح فرمان بھی ہے ۔

چند دلائل دیکھیں :

(1) عن أبی ھریرة قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم:إذا أُقيمتِ الصلاةُ فلا صلاةَ إلا المكتوبةُ(صحيح مسلم:710)
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جماعت کھڑی ہو جائے (یعنی اقامت ہو جائے) پھر کوئی نماز نہیں سوائے نماز فرض کے یعنی وہی نماز جس کی تکبیر کہی جائے۔
یہ حدیث اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے بالکل واضح ،صاف اور عام ہے لہذا اس کا معنی بدلنا یا اس میں معنوی تحریف کرنایا اسے کسی وقت سے خاص کرنا کسی کے لئے جائز نہیں ہے ۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ نے "اذا اقیمت الصلاۃ" کا معنی لکھا ہے کہ نفل کے ذریعہ فرض نماز سے غافل نہ ہوجائے چاہے ایک رکعت ملنے کا خوف ہو یا نہ ہو۔یہی بات حضرت ابو هريرة ،حضرت ابن عمر , عروة , ابن سيرين , سعيد بن جبير , امام شافعي , اسحاق اور ابو ثوررحمہم اللہ نے کہی ہے ۔(المغني:1/272)
ابن قدامہ نے ایک رکعت والی بات کا اشارہ امام ابوحنیفہ ؒ وغیرہم کی طرف کیا ہے ۔
امام صاحب کا کہنا ہے کہ جو شخص مسجد میں داخل ہو اور فجر کی نماز جاری ہو اگر اسے یہ امید ہو کہ وہ امام کے ساتھ صرف ایک رکعت پا لے گا اور دوسری رہ بھی جائے تو وہ فجر کی دو سنتیں ضرور پڑھ لے اور اس کے بعد وہ امام کے ساتھ مل جائے۔ (المحلی بالآثار:2/147)

(2) إذا أقيمتِ الصلاةُ فلا صلاةَ إلا المكتوبةَ ، قيل يا رسولَ اللهِ : ولا ركعتي الفجرِ ؟ قال : ولا ركعتي الفجرِ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز جماعت کھڑی ہو جائے تو پھر کوئی نماز نہیں مگر وہی فرض نماز (جس کے لیے تکبیر کہی گئی) صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے کسی نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا نہ پڑھیں دو رکعت سنت فجر کی بھی، آپ نے فرمایا نہ پڑھو دو رکعت سنت فجر کی بھی ۔
٭ حافظ ابن حجرؒ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ۔(فتح الباري لابن حجر:2/174)
یہ حدیث اپنے معنی ومفہوم کے اعتبار سے اور بھی واضح ہے ۔

(3) أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ مرَّ برجُلٍ يصلِّي . وقد أُقيمت صلاةُ الصبحِ . فكلَّمه بشيءٍ ، لا ندري ما هو . فلما انصرفْنا أَحطْنا نقول : ماذا قال لك رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ؟ قال : قال لي " يوشِكُ أن يُصلِّيَ أحدُكم الصبحَ أربعًا " (صحيح مسلم:711)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے آدمی کے پاس سے گذرے جونمازپڑھ رہاتھا جبکہ فجرکی نمازکی اقامت ہوچکی تھی پس آپ نے کچھ کہا مگر پتہ نہیں کیا کہا۔ جب ہم لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو سارے اس شخص کے ارد گرد جمع ہو گئے اور پوچھ رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےتمہیں کیا کہا؟توانہوں نے کہاکہ نبی ﷺ نے فرمایا: کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئیں؟

یہ حدیث بتلاتی ہے کہ اقامت کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھناچاہئے سوائے فرض کے کیونکہ نبی ﷺ نے اس صحابی کو منع کیا جو اقامت کے بعد بھی نماز پڑھ رہاتھا۔

(4) رأى النَّبيُّ صلَّى الله عليْهِ وسلَّمَ رجلاً يصلِّي بعدَ صلاةِ الصُّبحِ رَكعتينِ فقالَ النَّبيُّ صلَّى الله عليْهِ وسلَّمَ أصلاةَ الصُّبحِ مرَّتينِ فقالَ لَهُ الرَّجلُ إنِّي لم أَكن صلَّيتُ الرَّكعتينِ اللَّتينِ قبلَها فصلَّيتُهما , قالَ فسَكتَ النَّبيُّ صلَّى الله عليْهِ وسلَّم(صحيح ابن ماجه: 954)
ترجمہ :نبی ﷺ نے ایک آدمی کو فجر کی نماز کے بعد دو رکعت پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا فجرکی نماز دو مرتبہ ہے ؟ تو اس آدمی نے کہا کہ فجرکی نماز سے پہلی والی دو رکعت سنت نہیں پڑھ سکا تھا جسے ادا کیا ہوں۔تو آپ ﷺ خاموش ہوگئے ۔
یہ حدیث بتلائی ہے کہ جب کوئی مسجد میں اس وقت آئے جب فجر کی اقامت ہوگئی ہو یا فجر کی جماعت ہورہی ہو تو وہ جماعت میں شریک ہوجائے اور فرض پڑھنے کے بعد دو رکعت سنت ادا کرلے ۔

(5) مَن لم يصلِّ رَكْعتيِ الفجرِ فليُصلِّهما بعدَ ما تطلعُ الشَّمسُ(صحيح الترمذي: 423)
ترجمہ : نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ جس نے فجر کی دو سنت نہ پڑھی ہو وہ سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھ لے ۔
یہ صحیح حدیث بھی بتلاتی ہے کہ سنت چھوٹ جانے پہ طلوع شمس کے بعد اسے کرلے ،اس کا دوسرا مطلب یہ ہواکہ فرض چھوڑکے سنت نہ پڑھے ۔
فجر کی چھوٹی سنت کی ادائیگی فرض کے بعد ہی کرلے تو بہترہے تاکہ سستی سےیہ سنت رہ نہ جائے اور اگر سستی کا امکان نہ ہو تو طلوع شمس کے بعد بھی ادا کرسکتا ہے ۔

ان حادیث کے برخلاف بعض لوگوں کے یہاں اقامت ہونے کے بعد بھی یعنی فجر کی جماعت ہوتے وقت بھی فجر کی سنت پڑھنا جائزہے ۔

ان کے دلائل کا جائزہ ۔
پہلی دلیل :
لا تدَعوهُما وإن طردَتكُمُ الخيلُ ( يعني ركعتي سُنَّةَ الفجرِ )(ابوداؤد)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فجر کی دو رکعت (سنت) نہ چھوڑو اگرچہ گھوڑوں سے تم کو روندیا جائے۔
اس حدیث سے یہ استدلال کیا جاتاہے کہ فجر کی سنت کی اتنی اہمیت ہے کہ اسے کسی بھی حال میں نہیں چھوڑی جائے گی چہ جائیکہ فجرکی جماعت قائم ہوگئی ہوجبکہ یہ روایت قابل استدلال نہیں ہے ۔ اسے شیخ البانی نے ضعیف قرار دیاہے ۔ (ضعيف أبي داود: 1258)

دوسری دلیل : إذا أُقيمَت الصَّلاةُ فلا صلاةَ إلَّا المكتوبةَ إلَّا ركعتَي الفجرِ(بیہقی)
ترجمہ:نبی ﷺنے فرمایا: جب نماز جماعت کھڑی ہو جائے تو سوائے نماز فرض کے اور کوئی نماز نہیں مگر دو رکعت سنت فجر۔
٭ اس روایت کے متعلق امام بیہقی خود ہی فرماتے ہیں کہ اس میں زیادتی کی کوئی اصل نہیں ہے ۔ (فوائد مجموعہ:24)

تیسری دلیل : من أدرك ركعة من الصلاة مع الإمام ، فقد أدرك الصلاة(صحيح مسلم:607)
ترجمہ: جس نے امام کے ساتھ ایک رکعت پالی تو اس نے نماز پالی ۔
اس حدیث سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ سنت فجر پڑھنے سے ایک رکعت بھی چھوٹ جائے تو کوئی حرج نہیں ۔
اولا نبی ﷺ کا حکم ہی اولی ہے اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ جب اقامت ہوجائے تو کوئی نماز نہیں سوائے فرض نماز کے ۔
ثانیا: فرض نماز کا فوت ہونا مصلی کے لئے بہت خسارے کا باعث ہے گوکہ ایک رکعت ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
إن أحدكم ليصلي الصلاة وما فاته من وقتها أشد عليه من أهله وماله۔
ترجمہ : تم میں سے جس کسی کی نماز کا وقت فوت ہوجاتا ہے وہ اس کے اہل وعیال اور اس کی مال ودولت سے بھی سخت (خسارہ) ہے ۔
٭ اس حدیث کو ابن عبدالبر نے قوی السند بتلایا ہے ۔ (فتح البر4 / 167)۔

چوتھی دلیل : نهى عن الصلاةِ بعدَ الفجرِ حتى تَطلُعَ الشمسُ، وبعدَ العصرِ حتى تغرُبَ الشمسُ(صحيح البخاري:584)
ترجمہ : رسول اللہﷺ نے دو وقتوں میں نمازوں سے منع فرمایا۔ فجر کی نمازکے بعد یہاں تک کہ سورج نکل آئے اور عصر کی نماز کے بعد یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے۔
فجر کی سنت فجر کی نماز کے بعد پڑھنا حدیث سے ثابت ہے ، اس لئے فجر کی سنت پڑھ سکتے ہیں۔


پانچویں دلیل : عن ابن مسعود ، أنه دخل المسجد وقد أقيمت الصلاة فصلى إلى أسطوانة في المسجد ركعتي الفجر ثم دخل في الصلاة(رواه ابن أبي شيبة 2 \ 251)، وعبد الرزاق في مصنفه 2 \ 444 رقم 4021، وابن المنذر في الأوسط (5 \ 231) .
ترجمہ : روایت کی جاتی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ مسجد میں داخل ہوئے اس حال میں کہ نماز کے لئے اقامت ہوچکی تھی تو آپ نے مسجد مین ایک ستون کے قریب فجر کی دو سنتیں ادا فرمائیں پھر نماز میں شامل ہوئے۔
اس کے علاوہ بھی صحابہ کے بعض آثار ملتے ہیں ۔ ان تمام اثر کے متعلق یہ کہاجائے گا کہ ان صحابیوں کو نبی ﷺ کے اقامت کے بعد نماز نہ پڑھنے کی خبر نہیں تھی اگرہوتی تو صحابہ نبی ﷺ کے عمل کے خلاف عمل نہ کرتے ۔
صحابہ سے تو یہ ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے اقامت کے بعد سنت پڑھنے والے کو ماراکرتے ۔
بیہقی شریف کی روایت ہے :
إنه کان إذا رأی رجلاً یُصلّی وھو یسمع الاقامة ضرب۔
’یعنی حضرت عمررضی اللہ عنہ جب کسی آدمی کو دیکھتے کہ نماز پڑھتا ہے حالانکہ تکبیر سن چکا ہے تو آپ اس کو مارتے۔
یہ سزا خلیفہ کی طرف سے تعزیرا تھی ۔
اسی طرح بیہقی کی روایت ہے :
عن ابن عمر أنه أبصر رجلا يصلي الركعتين والمؤذن يقيم ، فحصبه۔( السنن الکبری للبیہقی: 4551)
ترجمہ: عبداللہ بن عمرؓ نے دیکھا ایک شخص کو کہ وقت اقامت مؤذن کے سنت فجر کی پڑھنےلگا تو اس کو کنکر مارا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ فجر نماز کی اقامت ہوتے ہوئے، یا اقامت ہونے کے بعد یا فرض نماز کی جماعت ہوتے وقت نفل و سنت پڑھنا خلاف سنت ہے ۔
لہذا ان تمام لوگوں کا موقف غلط ہے جنہوں نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) اگر امام کے ساتھ فجر کی ایک رکعت پاسکتا ہو تو وہ سنت پڑھ لے ۔
(2) مسجد کے کسی کونے میں یا مسجد سے باہر فرض ہوتے وقت سنت ادا کرلے ۔
(3) فرض نماز کے وقت صرف فجر کی سنت پڑھنا جائز ہے بقیہ بقیہ سنت نہیں۔
(4) فرض کے وقت سنت پڑھنا صحابہ کا عمل ہے اس لئے یہ عمل سنت ہے ۔

میں تمام مسلمان بھائیوں سے گذارش کرتاہوں کہ ہمارے یہاں سنت رسول ﷺ کی صریخ خلاف ورزی ہورہی ہے لہذا اسے مضمون کو کثرت سے نشر کریں تاکہ عوام تک یہ بات پہنچے اور اقوال رجال کو چھوڑکرسنت کو گلے لگائے۔

 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
عن أبی ھریرة قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم:إذا أُقيمتِ الصلاةُ فلا صلاةَ إلا المكتوبةُ(صحيح مسلم:710)
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جماعت کھڑی ہو جائے (یعنی اقامت ہو جائے) پھر کوئی نماز نہیں سوائے نماز فرض کے یعنی وہی نماز جس کی تکبیر کہی جائے۔
محترم! علماء کہتے ہیں کہ یہ حدیث حقیقتاً مرفوع نہیں بلکہ ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر موقوف ہے أَنَّ ذَلِكَ الْحَدِيثَ الَّذِي احْتَجُّوا بِهِ ، أَصْلُهُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، لَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اشارہ کیا ہے ”قَالَ حَمَّادٌ ثُمَّ لَقِيتُ عَمْرًا فَحَدَّثَنِي بِهِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ“۔
دوسری بات یہ کہ اس سے جو مفہوم مستفاد ہے وہ یہ کہ صف سے متصلاً نہ پڑھے بلکہ مسجد کے کسی کونے میں یا مسجد کے دروازہ کے پاس جیسا کہ صحابہ کرام کے عمل سے واضح ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
مصنف ابن أبي شيبة: في الرجل يدخل المسجد في الفجر:
(1) حدثنا أبو بكر قال حدثنا هشيم قال انا حصين وابن عون عن الشعبي عن مسروق أنه دخل المسجد والقوم في صلاة الغداة ولم يكن صلى الركعتين فصلاهما في ناحية ثم دخل مع القوم في صلاتهم.
مسروق رحمۃ اللہ علیہ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگ صبح کی نماز با جماعت پڑھ رہے تھے اور انہوں نے فجر کی سنت نہیں پڑھی تھیں۔ پس انہوں نے ایک طرف ہوکر سنتیں پڑھیں پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شامل ہوئے۔
(2) حدثنا عباد بن العوام عن حصين عن القاسم بن أبي أيوب عن سعيد بن جبير أنه جاء إلى المسجد والامام في صلاة الفجر فصلى الركعتين قبل أن يلج المسجد عند باب المسجد
سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد کی طرف آئے امام فجر کی نماز پڑھا رہا تھا انہوں نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے دروازہ کے پاس دو رکعات پڑھیں (پھر جماعت کے ساتھ شامل ہوئے)۔
(3) حدثنا أبو أسامة عن عثمان بن غياث قال حدثني أبو عثمان قال رأيت الرجل يجئ وعمر بن الخطاب في صلاة الفجر فيصلي الركعتين في جناب المسجد ثم يدخل مع القوم في صلاتهم.
ابو عثمان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد آیا اور مسجد کی ایک جانب دو رکعتیں پڑھیں جبکہ عمر بن الخطاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نماز پڑھا رہے تھے پھر جماعت کے ساتھ شامل ہؤا۔
(4) حدثنا ابن إدريس عن مطرف عن أبي إسحاق عن حارثة بن مضرب أن ابن مسعود وأبا موسى خرجا من عند سعيد بن العاصي فأقيمت الصلاة فركع ابن مسعود ركعتين ثم دخل مع القوم في الصلاة وأما أبو موسى فدخل في الصف.
ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سعید بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں سے نکلے اور صبح کی جماعت کھڑی ہوچکی تھی۔ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ دو رکعت سنت پڑھ کر جماعت میں شامل ہوئے اور ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بغیر سنت ادا کیئے جماعت کے ساتھ شامل ہو گئے۔
(5) حدثنا معتمر عن داود بن إبراهيم قال قلت لطاوس أركع الركعتين والمقيم يقيم قال هل تستطيع ذلك.
طاؤس رحمۃ علیہ سے پوچھا گیا کہ (فجر کی) جماعت کے ہوتے فجر کی دو رکعت پڑھ لے؟ انہوں نے کہا کہ کیا اس پر کسی کو قدرت ہے (اتنی جلدی دو رکعت پڑھ لے کہ اس کی رکعت نہ نکلے)۔
(6) حدثنا عبد الله بن موسى عن عثمان بن الاسود عن مجاهد قال إذا دخلت المسجد والناس في صلاة الصبح ولم تركع ركعتي الفجر فاركعهما وإن ظننت أن الركعة الاولى تفوتك.
مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر تم مسجد آؤ اور جماعت کھڑی ہوچکی ہو اور کسی نے فجر کی دو سنت نہ پڑھی ہو تو وہ انہیں پڑھ لے اگرچہ اس کو ایک رکعت کے نکل جانے کا خوف کیوں نہ ہو۔
(7) حدثنا وكيع عن دلهم بن صالح عن وبرة قال رأيت ابن عمر يفعاه حدثني من راه فعله مرتين جاء مرة وهم في الصلاة فصلاهما في جانب المسجد ثم دخل مره أخرى فصلى معهم ولم يصلهما.
وبرہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دو دفعہ دیکھا کہ ایک دفعہ انہوں نے جمات کھڑی ہونے کے وقت مسجد کی ایک جانب دو رکعت سنت پڑھی پھر جماعت کے ساتھ شامل ہوئے اور ایک دفعہ بغیر فجر کی سنت ادا کیئے ہی جماعت کے ساتھ شامل ہوگئے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
محترم! علماء کہتے ہیں کہ یہ حدیث حقیقتاً مرفوع نہیں بلکہ ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر موقوف ہے أَنَّ ذَلِكَ الْحَدِيثَ الَّذِي احْتَجُّوا بِهِ ، أَصْلُهُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، لَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اشارہ کیا ہے ”قَالَ حَمَّادٌ ثُمَّ لَقِيتُ عَمْرًا فَحَدَّثَنِي بِهِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ“۔
دوسری بات یہ کہ اس سے جو مفہوم مستفاد ہے وہ یہ کہ صف سے متصلاً نہ پڑھے بلکہ مسجد کے کسی کونے میں یا مسجد کے دروازہ کے پاس جیسا کہ صحابہ کرام کے عمل سے واضح ہے۔
اہل علم سے اولا حدیث کی تحقیق کی درخواست ہے ، ثانیا اس حدیث سے جو فہم اخذ کیا گیا ہے اسکی بابت بتائیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
پہلی دلیل : لا تدَعوهُما وإن طردَتكُمُ الخيلُ ( يعني ركعتي سُنَّةَ الفجرِ )(ابوداؤد)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فجر کی دو رکعت (سنت) نہ چھوڑو اگرچہ گھوڑوں سے تم کو روندیا جائے۔
اس حدیث سے یہ استدلال کیا جاتاہے کہ فجر کی سنت کی اتنی اہمیت ہے کہ اسے کسی بھی حال میں نہیں چھوڑی جائے گی چہ جائیکہ فجرکی جماعت قائم ہوگئی ہوجبکہ یہ روایت قابل استدلال نہیں ہے ۔ اسے شیخ البانی نے ضعیف قرار دیاہے ۔ (ضعيف أبي داود: 1258)
حدثنا خلف بن الوليد، قال: حدثنا خالد، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن محمد بن زيد، عن ابن سيلان، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا تدعوا ركعتي الفجر، وإن طردتكم الخيل»
مسند احمد 15۔147 ط رسالہ

خلف بن الولید:
خلف بن الوليد، أبو الوليد البغدادي الجَوْهَري.
يروي عن أبي جعفر الرازي. روى عنه أبو زرعة، وأهل العراق.
وروى عن: شعبة، وأيوب بن عتبة، وشريك، ويحيى بن سلمة، وابن أبي زائدة. وروى عنه يحيى بن عبدك القزويني.
قال ابن معين : ثقة.
وقال أبو زرعة : ثنا خلف بن الوليد أبو الوليد، وكان ثقة.
وقال أبو حاتم : خلف بن الوليد العتكي ثقة.
الثقات ممن لم یقع فی الکتب الستہ 4۔157 ط مرکز النعمان

خالد
عبد الرحمن بن إسحاق
محمد بن زید
ابن سیلان

ابن سیلان کے بارے میں کافی بحث ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے انہیں عبد ربہ بن سیلان قرار دیا ہے۔ بعض نے جابر بن سیلان اور عبد ربہ بن سیلان ایک ہی کو قرار دیا ہے جیسا کہ اسلام ویب والوں کا بھی یہی نظریہ ہے۔
اگر یہ عبد ربہ الگ ہیں تو ان کی تفصیل مجھے نہیں ملی لیکن امام احمدؒ کا عبد الرحمان بن اسحاق کے بارے میں قول ہے:
وقال المروذي، عن أحمد: أما ما كتبنا من حديثه فصحيح. «تهذيب التهذيب»
موسوعۃ اقوال احمد
"ان کی جو حدیثیں ہم نے لکھی ہیں وہ صحیح ہیں۔"
یہ حدیث بھی عبد الرحمان بن اسحاق کی ہے جو کہ امام احمد نے روایت کی ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
محترم! علماء کہتے ہیں کہ یہ حدیث حقیقتاً مرفوع نہیں بلکہ ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر موقوف ہے أَنَّ ذَلِكَ الْحَدِيثَ الَّذِي احْتَجُّوا بِهِ ، أَصْلُهُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، لَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اشارہ کیا ہے ”قَالَ حَمَّادٌ ثُمَّ لَقِيتُ عَمْرًا فَحَدَّثَنِي بِهِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ“۔
دوسری بات یہ کہ اس سے جو مفہوم مستفاد ہے وہ یہ کہ صف سے متصلاً نہ پڑھے بلکہ مسجد کے کسی کونے میں یا مسجد کے دروازہ کے پاس جیسا کہ صحابہ کرام کے عمل سے واضح ہے۔
محترم کن علماء نے ایسا کہا ؟
 
Top