• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرض نماز کے وقت سنت پڑھنا

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
آپکے فہم کا کیا کہنا ۔ فورم کا ہر قاری آپکی فہم اعظمی کا قائل ہو چکا ہے ۔ خود کہ لئے اصول بنا لیں اور عمل بهی کریں
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، ثنا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، ثنا أَسَدُ بْنُ مُوسَى ، ثنا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّهُ جَاءَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاةَ الْفَجْرِ فَصَلَّى مَعَهُ ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ ، فَقَالَ: لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَا هَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ ؟ " فَقَالَ: لَمْ أَكُنْ صَلَّيْتُهُمَا قَبْلَ الْفَجْرِ ، فَسَكَتَ وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا " " قَيْسُ بْنُ فَهْدٍ الْأَنْصَارِيُّ صَحَابِيٌّ ، وَالطَّرِيقُ إِلَيْهِ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِهِمَا " وَقَدْ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ فَهْدٍ [المستدرك على الصحيحين للحاكم 1/ 399 رقم 1019]۔
محترم جناب @اشماریہ صاحب.
اس حدیث کے سلسلے میں بھی وضاحت کر دیں.
اسکی تحقیق میں نے جہاں سے اقتباس لیا ھے وھاں سے دیکھی جا سکتی ھے.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
اس کے آگے معلمیؒ یہ تفصیل بیان کرتے ہیں: وذلك أنه لما صنف احتاج إلى الرواية عن الضعفاء فجاءت في ذلك مناكير، فحمل ابن حزم على أسد، ورأى ابن يونس أن أحاديثه عن الثقات معروفة، وحقق البخاري فقال «حديثه مشهور» يريد والله أعلم مشهور عمن روى عنهم فما كان فيه من إنكار فمن قبله
أسد بن موسى بن إبراهيم المرواني الأموي، يقال له: أسد السنة. في (تاريخ بغداد) (13 / 383) من طريق ((الربيع بن سليمان يقول: سمعت أسد بن موسى، قال....)) قال الأستاذ ص 65 ((منكر الحديث عند ابن حزم)) أقول قد قال البخاري: ((مشهور الحديث)) وهذا بحسب الظاهر يبطل قول ابن حزم، لكن يجمع بينهما قول ابن يونس ((حدث بأحاديث منكرة وأحسب الآفة من غيره)) وقول النسائي ((ثقة ولو لم يصنف كان خيراً له)) وذلك أنه لما صنف احتاج إلى الرواية عن الضعفاء فجاءت في ذلك مناكير، فحمل ابن حزم على أسد، ورأى ابن يونس أن أحاديثه عن الثقات معروفة، وحقق البخاري فقال ((حديثه مشهور)) يريد والله أعلم مشهور عمن روى عنهم فما كان فيه من إنكار فمن قبله، وقد قال ابن يونس أيضاً والبزار وابن قانع حافظ الحنفية: ثقة، وقال العجلي: ثقة صاحب سنة. وفي (الميزان): ((استشهد به البخاري، واحتج به النسائي وأبو داود وما علمت به باياً)).
وقد أساء الأستاذ إلى نفسه جداً إذ يقتصر على كلمة ابن حزم في صدد الطعن، مع علمه بحقيقة الحال ولكن !
(
التنكيل
بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل
الجزء الأول
تأليف
العلامة الشيخ عبد الرحمن بن يحيى المعلمي العتمي اليماني
رحمه الله تعالى
1313 – 1386): قام على طبعه وتحقيقه والتعليق عليه
محمد ناصر الألباني
طبع
على نفقة الشيخ محمد نصيف وشركاه)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
1460519255911833756823.jpg
اس میں راوی ہیں اسد بن موسی جن کی تحقیق کا آپ نے لنک بھی دیا ہے۔ یہ بلاشبہ ثقہ ہیں۔ لیکن ان میں ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے کہ یہ منکر احادیث بھی روایت کرتے ہیں۔
اسد بن موسی کے بارے میں مزید آپ تقریب التهذيب لابن حجر میں دراسۃ میں دیکھیں جو کہ شاید محمد عوامة کی ھے. واللہ اعلم. صفحہ نمبر 36 میں دیکھیں.
اسکرین شاٹ منسلک کر رھا ھوں.
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم جناب @اشماریہ صاحب.
اس حدیث کے سلسلے میں بھی وضاحت کر دیں.
اسکی تحقیق میں نے جہاں سے اقتباس لیا ھے وھاں سے دیکھی جا سکتی ھے.
جزاک اللہ عمر بھائی۔
شاید میری پوسٹ واضح نہیں تھی۔
میں نے جن راوی اسد بن موسی کا عرض کیا ہے وہ اس طریق میں بھی ہیں۔
اور اس طریق کو حاکمؒ نے جو صحیح کہا ہے اس کے بارے میں میں نے عرض کیا تھا کہ حاکم متساہل ہیں۔ کیوں کہ اس طریق میں سعید کا ایک تو بقول حافظ ابن عبد البر اپنے والد سے سماع نہیں ہے (اور جب اپنے والد سے نہیں ہے تو نبی کریم ﷺ کی صحبت کیا ہوگی جبکہ ان کے والد کی وفات بہت بعد کی ہے)۔ ابن عبد البر نے یہ قول نقل کیا ہے۔ دوسرے ان سعید کا حال معلوم نہیں ہے۔
ابن حبان نے انہیں ثقات میں ذکر کر کے "ولہ صحبۃ" کہا ہے جسے دیے گئے ربط میں بھی نقل کیا گیا ہے۔ لیکن کسی اور نے اس معاملے میں ابن حبان کی موافقت نہیں کی۔ یا کم از کم مجھے نہیں ملی۔ یہ میری اس وقت کی بات کا مفہوم تھا۔
ابھی میں نے ابن حبان کی ثقات کی مراجعت کی تو معلوم ہوا کہ ابن حبان نے دراصل "ولہ صحبۃ" ان کے لیے نہیں فرمایا بلکہ ان کے والد کے لیے فرمایا ہے۔ ابن حبان کے الفاظ ہیں:
سعيد بن قيس بن قهد الأنصاري والد يحيى بن سعيد يروي عن أبيه وله صحبة روى عنه ابنه يحيى بن سعيد
الثقات لابن حبان 4۔281، ط: دائرۃ المعارف
اسی طرح کے الفاظ ان کے بیٹے عبد ربہ کے لیے ہیں:
عبد ربه بن سعيد بن قيس بن عمرو النجاري المدني يروى عن جده وله صحبة روى عنه عطاء بن أبي رباح وسعد بن سعيد الأنصاري
الثقات 5۔131
حالانکہ عبد ربہ کا صحابی ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پچھلے قول میں اور اس قول میں "ولہ صحبۃ" سعید کے 'اب' اور عبد ربہ کے 'جد' کے لیے کہا گیا ہے۔ واللہ اعلم

تو اس روایت میں بھی بعینہ وہی مسئلہ ہے جو ابن خزیمہ کی روایت میں ہے۔

أسد بن موسى بن إبراهيم المرواني الأموي، يقال له: أسد السنة. في (تاريخ بغداد) (13 / 383) من طريق ((الربيع بن سليمان يقول: سمعت أسد بن موسى، قال....)) قال الأستاذ ص 65 ((منكر الحديث عند ابن حزم)) أقول قد قال البخاري: ((مشهور الحديث)) وهذا بحسب الظاهر يبطل قول ابن حزم، لكن يجمع بينهما قول ابن يونس ((حدث بأحاديث منكرة وأحسب الآفة من غيره)) وقول النسائي ((ثقة ولو لم يصنف كان خيراً له)) وذلك أنه لما صنف احتاج إلى الرواية عن الضعفاء فجاءت في ذلك مناكير، فحمل ابن حزم على أسد، ورأى ابن يونس أن أحاديثه عن الثقات معروفة، وحقق البخاري فقال ((حديثه مشهور)) يريد والله أعلم مشهور عمن روى عنهم فما كان فيه من إنكار فمن قبله، وقد قال ابن يونس أيضاً والبزار وابن قانع حافظ الحنفية: ثقة، وقال العجلي: ثقة صاحب سنة. وفي (الميزان): ((استشهد به البخاري، واحتج به النسائي وأبو داود وما علمت به باياً)).
وقد أساء الأستاذ إلى نفسه جداً إذ يقتصر على كلمة ابن حزم في صدد الطعن، مع علمه بحقيقة الحال ولكن !
(
التنكيل
بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل
الجزء الأول
تأليف
العلامة الشيخ عبد الرحمن بن يحيى المعلمي العتمي اليماني
رحمه الله تعالى
1313 – 1386): قام على طبعه وتحقيقه والتعليق عليه
محمد ناصر الألباني
طبع
على نفقة الشيخ محمد نصيف وشركاه)
قابل صد احترام عمر بھائی
میرا استدلال اس جملے سے تھا:
وحقق البخاري فقال ((حديثه مشهور)) يريد والله أعلم مشهور عمن روى عنهم فما كان فيه من إنكار فمن قبله
کہ جع اس میں نکارۃ ہے وہ ان کی جانب سے ہے۔
اسے اس کے سیاق و سباق کے ساتھ ذکر کر دیا تھا۔ اور ساتھ میں یہ وضاحت بھی کر دی تھی کہ یہ ثقہ ہیں۔ ثقہ ہوتے ہوئے یہ مناکیر کیوں روایت کرتے ہیں تو اس کی تفصیل معلمیؒ کے کلام میں نقل کر دی تھی۔ اس کے علاوہ اپنی رائے بھی یہ عرض کی تھی: ظاہر ہے ان میں اگر ہم نکارۃ مان بھی لیں تب بھی اتنی کم ہوگی کہ کوئی حدیث ثقات کے مخالف ثابت ہو جائے تب ہی اسے منکر کہیں گے (ھذا رایی فقط)

یہ میری صلاحیت کے مطابق شاید سب سے معتدل بات ہے جو توثیق اور نکارۃ دونوں کلاموں کا احاطہ کرکے نتیجہ نکالتی ہے۔ ممکن ہے آپ اس سے اچھی تشریح فرمائیں۔
اس کے بعد میں نے یہ بتایا تھا کہ ان کی یہ روایت واقعتا ثقات کے خلاف ہے سند کے اعتبار سے۔ میں اپنی بات کا اقتباس عرض کر دیتا ہوں:

اس میں راوی ہیں اسد بن موسی جن کی تحقیق کا آپ نے لنک بھی دیا ہے۔ یہ بلاشبہ ثقہ ہیں۔ لیکن ان میں ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے کہ یہ منکر احادیث بھی روایت کرتے ہیں۔
نسائیؒ کا قول ہے:

ثقة ولو لم يصنف كان خيراً له
"ثقہ ہیں۔ اور اگر یہ کتاب نہ لکھتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔"
اس کے آگے معلمیؒ یہ تفصیل بیان کرتے ہیں: وذلك أنه لما صنف احتاج إلى الرواية عن الضعفاء فجاءت في ذلك مناكير، فحمل ابن حزم على أسد، ورأى ابن يونس أن أحاديثه عن الثقات معروفة، وحقق البخاري فقال «حديثه مشهور» يريد والله أعلم مشهور عمن روى عنهم فما كان فيه من إنكار فمن قبله
"یہ اس وجہ سے ہے کہ جب انہوں نے تصنیف کی تو ضعفاء سے روایات کے محتاج ہو گئے تو اس میں مناکیر لے آئے۔ تو ابن حزم نے اسد پر حملہ کیا۔ اور ابن یونس کی رائے یہ ہے کہ ان کی احادیث ثقات سے معروف ہیں۔ اور بخاریؒ نے تحقیق کی تو کہا: ان کی حدیث مشہور ہے۔ ان کا ارادہ تھا (اللہ بہتر جانتا ہے) جن سے انہوں نے روایت کی ہیں ان سے مشہور ہیں اور جو اس میں انکار ہے وہ ان کی طرف سے ہے۔"
(التنکیل 1۔413، ط: المکتب الاسلامی)
ظاہر ہے ان میں اگر ہم نکارۃ مان بھی لیں تب بھی اتنی کم ہوگی کہ کوئی حدیث ثقات کے مخالف ثابت ہو جائے تب ہی اسے منکر کہیں گے (ھذا رایی فقط)
لیکن اب یہاں اس روایت کی طرف آئیے۔
اسے روایت کیا ہے سفیان بن عیینہ اور عبد اللہ بن نمیر نے۔ سفیان سے امام شافعی اور بیہقی نے اور ابن نمیر سے ابو داودؒ اور کئی نے۔
ان سب نے روایت کرتے ہوئے یحیی بن سعید کے بجائے سعد بن سعید کا ذکر کیا ہے جس کی سند گزر چکی ہے۔
سفیان کہتے ہیں عطاء بن ابی رباح نے اس حدیث کو سعد بن سعید سے سنا ہے۔
رہ گئے سعد کے دو بھائی تو ابو داودؒ فرماتے ہیں کہ عبد ربہ اور یحیی اس حدیث کو مرسلا روایت کرتے ہیں۔
لیکن جب اسد بن موسی روایت کرتے ہیں تو ایک تو یحیی بن سعید سے روایت کرتے ہیں اور وہ بھی متصل۔
اسی لیے ابن خزیمہ نے یہ روایت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: غریب غریب۔ اور لفظ غریب محدثین کے یہاں منکر کے لیے بکثرت استعمال ہوتا ہے۔
تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھ لیجیے۔ رہ گئی بات یہ کہ بقول مبارکپوریؒ حاکم نے اس کے طریق کو صحیح قرار دیا ہے تو حاکم کا تساہل معروف ہے۔

اس روایت پر دوسرا اشکال سعید بن قیس کے حوالے سے ہے۔ ان کے عدم سماع کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے لیکن حاکم کے تساہل کی وجہ سے وہ جواب کمزور معلوم ہوتا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے سعید بن قیس مستور الحال ہیں۔ صرف ابن حبان نے ان کے لیے صحابی ہونے کا قول کیا ہے لیکن انہیں شاید ان کے والد یا سعید بن قیس بن صخر رض سے غلطی لگ گئی ہے۔ اور کسی کے یہاں ان کی تعدیل یا جرح نہیں ملتی۔ (یہ مستور ہونے کا قول کسی اور کا ہے۔ اس پر تحقیق کر لی جائے۔ مجھے بھی ان کا ذکر اس حوالے سے کہیں نہیں ملا۔ بخاری اور ابو حاتم رحمہما اللہ نے بھی تعدیل یا جرح نہیں کی۔) و اللہ اعلم

اس کے علاوہ اگر اس روایت کو صحیح مان لیں تب بھی روایات بخاری سے اس کی تطبیق یا ترجیح کا کیا حل ہوگا؟ جبکہ وہ کثرت میں ہیں اور صریح ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ عام نوافل کی طرح نہیں ہے بلکہ اس میں کوئی اضافی خصوصیت ہے تو یہ بات خود محتاج دلیل ہوگی۔

ھذا ما ظہر لی۔ و اللہ اعلم۔ وہو الموفق الی الصواب۔


اسد بن موسی کے بارے میں مزید آپ تقریب التهذيب لابن حجر میں دراسۃ میں دیکھیں جو کہ شاید محمد عوامة کی ھے. واللہ اعلم. صفحہ نمبر 36 میں دیکھیں.
اسکرین شاٹ منسلک کر رھا ھوں.

ان شاء اللہ میں دیکھتا ہوں۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
میں نے جن راوی اسد بن موسی کا عرض کیا ہے وہ اس طریق میں بھی ہیں۔
اور اس طریق کو حاکمؒ نے جو صحیح کہا ہے اس کے بارے میں میں نے عرض کیا تھا کہ حاکم متساہل ہیں۔
أسد بن موسى بن إبراهيم القرشي،الأموي،المصري،البصري۔
آپ اسدالسنہ کے لقب سے ملقب اورثقہ امام ہیں ۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
أسد بن موسى الأموي المعروف بأسد السنة وثقوه [مقدمة فتح الباري: ص: 457]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الإِمَامُ، الحَافِظُ، الثِّقَةُ [سير أعلام النبلاء للذهبي: 10/ 162]۔
دو توثیق اور ھو گئ. (مجھے علم ھے کہ آپ خود توثیق کے قائل ھیں.)
اس کے بعد میں نے یہ بتایا تھا کہ ان کی یہ روایت واقعتا ثقات کے خلاف ہے سند کے اعتبار سے۔
آپکا اقتباس پڑھا. اگر مزید وضاحت ھو جاتی تو بہتر تھا. میرا مطلب ھے کہ عربی عبارت نقل کر کے آپ واضح کر دیں. (تکلیف دھی کے لۓ معذرت)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
ایسے مقامات پر فقہاء کرام کا طرز مختلف رہا ہے۔ احناف کا عام طرز یہ ہے کہ وہ تمام نصوص سے ایک قاعدہ کلیہ اخذ کرتے ہیں اور پھر اس قاعدہ سے ہٹی ہوئی تمام نصوص کی اس کے ساتھ تطبیق کرتے جاتے ہیں۔ فقہ حنفی میں فقہ ابن مسعود رض و فقہ علی رض کا طرز واضح طور پر غالب نظر آتا ہے۔
امام مالکؒ کا تو مشہور طرز ہے کہ وہ اہل مدینہ کے عمل کو دیکھتے ہیں اور اسی کے مطابق تطبیق کرتے ہیں۔
امام شافعیؒ نے کتاب الام میں عینہ کی بحث کے دوران صراحت سے کہا ہے کہ ہم اس قول کو لیں گے جس کی تائید قیاس کرے۔ چنانچہ وہ متعارض آثار میں اپنے قیاس یا اجتہاد کے مطابق اثر کو لیتے ہیں۔
یہی طرز امام طحاویؒ کا ہے کہ وہ احادیث کے ذکر کے بعد نظر ذکر کرتے ہیں جو کہ قیاس ہوتی ہے اور اسی کے ذریعے ایک جانب کو ترجیح دیتے ہیں۔
تو ایسے میں آپ جو طرز مناسب سمجھیں وہ ہمیشہ کے لیے اختیار کر لیں۔
جناب میں یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ صحابہ کے افعال باہم متعارض ھوں اور ایک جماعت کا فعل حدیث کے موافق جبکہ دوسرے کا مخالف ھو تو ایسی صورت میں کیا کیا جاۓ گا؟؟؟
 
Top