• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرض نماز کے وقت سنت پڑھنا

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
جناب میں یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ صحابہ کے افعال باہم متعارض ھوں اور ایک جماعت کا فعل حدیث کے موافق جبکہ دوسرے کا مخالف ھو تو ایسی صورت میں کیا کیا جاۓ گا؟؟؟
اگر فعل نادر ہے تو یہ سمجھا جائے گا کہ ان تک حدیث نہیں پہنچی ہوگی۔ اور اگر فعل غیر نادر ہے تو غور کیا جائے گا کہ ان کا یہ عمل ایسا کیوں تھا؟ اس کا واضح مطلب ہوگا کہ ان کے نزدیک حدیث کا وہ معنی نہیں تھا جو ہم سمجھ رہے ہیں۔ اس صورت میں حدیث کی ایسی تشریح کی جائے گی جو فریقین میں سے ہر ایک کے مطابق ہو تاکہ کوئی ایک بھی مخالف حدیث نہ ٹھہرے۔ واللہ اعلم
محتر اشماریہ صاحب آپ مے بالکل ٹھیک کہا کہ حدیث کا مفہوم سمجھنے میں غلطی کا قوی امکان ہوتا ہے۔ اس کی بہت ساری مثالیں احدیث میں ملتی ہیں جیسے ایک حدیث میں صحابہ کرام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے براہِ راست حکم دیا کہ عصر کی نماز فلاں جگہ (نام یاد نہیں) جا کر پڑھنا مگر دیر ہو جانے کے سبب صحابہ کے دو گروہ ہوگئے۔ ایک نے وقت کے اندر نماز پڑھی مگر مطلوبہ جگہ پر نہیں۔ دوسرے نے قضا کی اور مطلوبہ جگہ پر عصر پڑھی۔
اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منر پر بیٹھے ہوئے کہا پوچھو جو پوچھنا ہے۔لوگ باتیں پوچھتے رہے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب رسول اسللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر نظر ڈالی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید غصہ میں پایا۔ وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا غلط مطلب لے کر سوالات شروع کردیئے۔ واللہ اعلم بالصواب
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جامع ترمذی کی حدیث کی تخریج یہاں اس لنک میں موجود ہے - یہ حدیث صحیح ہے-
http://mohaddis.com/View/Tarimdhi/422

اگر ضعیف ہے تو ان محدثین کے نام بتائیں جنہوں نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے؟؟-

پہلے تو آپ یہ بتائیے کہ "یہ حدیث صحیح ہے" کا حکم کس نے لگایا ہے؟ اور اس کے راوی سعد بن سعید کے ہوتے ہوئے یہ حکم کیسے لگا دیا؟؟ امام ترمذی نے واضح فرمایا ہے:
اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔ محمد بن ابراہیم تیمی نے قیس سے نہیں سناہے
(ترجمہ آپ کے دیے ہوئے لنک سے نقل کیا ہے۔) پھر بھی یہ حدیث صحیح ہے؟ آخر کیسے؟

اگر ضعیف ہے تو ان محدثین کے نام بتائیں جنہوں نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے؟؟
اول تو جب رواۃ ضعیف ہیں اور اس کے ابھی تک شواہد وغیرہ بھی نہیں ملے تو میں سند پر خود ہی ضعیف کا حکم لگا سکتا ہوں جس طرح کہ بہت سے اہل حدیث علماء کرام لگاتے ہیں۔
دوم یہ کہ امام ترمذی کی تضعیف نقل کر دی ہے اور امام طحاوی نے شرح مشکل الآثار میں اس کے راوی سعد کو ضعیف قرار دیا ہے۔

ترمذی کی روایت سے متعلق مزید تفصیل محترم [SIZE=6]@اسحاق سلفی[/SIZE] صاحب نے اپنے مراسلے نمبر 40 میں بیان کردی ہے - لنک یہاں موجود ہے - آپ دیکھ سکتے ہیں-

http://forum.mohaddis.com/threads/سنت-فجر-کی-قضا-نماز-فجر-کے-بعد.13452/page-4
جی میں نے بھی اس لنک پر عرض کر دی ہے۔ آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں:
http://forum.mohaddis.com/threads/فرض-نماز-کے-وقت-سنت-پڑھنا.31985/page-6#post-254448

فجر کے فرض اورسنتوں کی اہمیت میں تھوڑا فرق ہے - نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی جب فجر کی نماز قضاء ہوئی تو آپ نے فرض کے ساتھ سنتیں بھی ادا کیں - لہذا طلوع آفتاب کے وقت ممانعت اگر فجر کی سنتوں کی ہے تو فرض کی بھی ہونی چاہیے -
جناب عالی مقام۔ آپ نے خود فرمایا ہے کہ "تھوڑا فرق ہے" اور بعد میں فرمایا: "
طلوع آفتاب کے وقت ممانعت اگر فجر کی سنتوں کی ہے تو فرض کی بھی ہونی چاہیے"
جب آپ کے بقول تھوڑا فرق ہے تو ممانعت کے وقت آپ نے دونوں کو برابر کیوں کر دیا؟ فرق کیجیے۔

حدیث صفوان بن معطل رضی الله عنہ کا عربی متن یہاں موجود ہے -

[2459-
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: جَائَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ زَوْجِي صَفْوَانَ بْنَ الْمُعَطَّلِ يَضْرِبُنِي إِذَا صَلَّيْتُ وَيُفَطِّرُنِي إِذَا صُمْتُ، وَلا يُصَلِّي صَلاةَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، قَالَ: وَصَفْوَانُ عِنْدَهُ، قَالَ: فَسَأَلَهُ عَمَّا قَالَتْ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَمَّا قَوْلُهَا يَضْرِبُنِي إِذَا صَلَّيْتُ فَإِنَّهَا تَقْرَأُ بِسُورَتَيْنِ وَقَدْ نَهَيْتُهَا، قَالَ: فَقَالَ: < لَوْ كَانَتْ سُورَةً وَاحِدَةً لَكَفَتِ النَّاسَ >، وَأَمَّا قَوْلُهَا يُفَطِّرُنِي فَإِنَّهَا تَنْطَلِقُ فَتَصُومُ وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌّ فَلا أَصْبِرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَئِذٍ: < لا تَصُومُ امْرَأَةٌ إِلا بِإِذْنِ زَوْجِهَا >، وَأَمَّا قَوْلُهَا إِنِّي لا أُصَلِّي حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَإِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ قَدْ عُرِفَ لَنَا ذَاكَ، لا نَكَادُ نَسْتَيْقِظُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، قَالَ: < فَإِذَا اسْتَيْقَظْتَ فَصَلِّ >.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ حَمَّادٌ -يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ- عَنْ حُمَيْدٍ أَوْ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ۔


تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۰۱۲)، وقد أخرجہ: ق/الصیام ۵۳ (۱۷۶۲)، حم (۳/۸۰، ۸۴)، دي/الصوم ۲۰ (۱۷۶۰) (صحیح)

ترجمہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی ، ہم آپ کے پاس تھے، کہنے لگی: اللہ کے رسول! میرے شوہر صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ جب صلاۃ پڑھتی ہوں تو مجھے مارتے ہیں، اور صیام رکھتی ہوں تو صیام توڑوا دیتے ہیں، اور فجر سورج نکلنے سے پہلے نہیں پڑھتے۔
صفوان اس وقت آپ ﷺ کے پاس موجود تھے، تو آپ ﷺ نے ان سے ان باتوں کے متعلق پوچھا جو ان کی بیوی نے بیان کیا تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اس کا یہ الزام کہ صلاۃ پڑھنے پر میں اسے مارتا ہوں تو بات یہ ہے کہ یہ دو دو سورتیں پڑھتی ہے جب کہ میں نے اسے (دو دو سورتیں پڑھنے سے) منع کر رکھا ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا:'' لوگ اگر ایک ہی سورت پڑھ لیں تب بھی کافی ہے'' ۔
صفوان نے پھر کہا کہ اور اس کا یہ کہنا کہ میں اس سے صیام افطار کرا دیتا ہوں تو یہ صیام رکھتی چلی جاتی ہے ، میں جوان آدمی ہوں صبر نہیں کر پاتا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس دن فرمایا: '' کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر ( نفل صیام) نہ رکھے''۔
رہی اس کی یہ بات کہ میں سورج نکلنے سے پہلے صلاۃ نہیں پڑھتا تو ہم اس گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ سورج نکلنے سے پہلے ہم اٹھ ہی نہیں پاتے، آپ ﷺ نے فرمایا:'' جب بھی جاگو صلاۃ پڑھ لیا کرو''

اس حدیث میں صفوان بن معطل رضی الله عنہ کا دیر سے اٹھنا ان کی خاندانی عادت بیان کیا گیا ہے - یہ صحیح نہیں کہ " ان کا سقی کا کام تھا اور رات بھر کام کی وجہ سے جب سوتے تھے تو اٹھ نہیں سکتے تھے"- بہر حال نبی کریم صل اللہ علیہ و آ له وسلم کا یہ فرمان کہ : "جب بھی جاگو صلاۃ پڑھ لیا کرو" یعنی فجر کی فرض اور سنتیں دونوں- اس حدیث میں وقت کی قید نہیں لگائی گئی - تو پھر قضاء سنتوں کے لئے بعد طلوع شمس کی قید کیوں؟؟
ایسا ہے کہ میں تو جو کچھ درسگاہ میں استاد محترم کا درس سنا تھا اور اس کا کچھ حصہ یاد تھا اس کی بنیاد پر عرض کر رہا تھا کہ ان کا سقی کا کام تھا۔ لیکن ابھی دیکھا تو ابن قیمؒ نے بھی یہی فرمایا ہے:
(قد عرف لنا ذلك) أي عادتنا ذلك وهي أنهم كانوا يسقون الماء في طول الليالي (لا نكاد نستيقظ) أي إذا رقدنا آخر الليل
عون المعبود شرح سنن أبي داود، ومعه حاشية ابن القيم: تهذيب سنن أبي داود وإيضاح علله ومشكلاته، 7۔94، دار الکتب العلمیۃ

بہرحال اس کا موجودہ بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

نبیﷺ کے اس فرمان "جب بھی جاگو صلاۃ پڑھ لیا کرو" میں یہ کہاں ہے کہ فجر کے وقت میں پہلے فجر کے فرض اور پھر اس کی سنتیں طلوع شمس سے قبل پڑھ لیا کرو؟ اس سے تو صاف ظاہر ہے جو نماز کی ترتیب ہے یعنی پہلے سنت اور پھر فرض اس ترتیب سے صلاۃ پڑھ لیا کرو کیوں کہ جب کوئی قول مطلقا کہا جاتا ہے تو اسے معروف معنی پر ہی محمول کیا جاتا ہے جب کہ کوئی اور دلیل خصوص موجود نہ ہو۔
اور فجر کی سنتیں پہلے اور فرض بعد میں پڑھنے میں کوئی اختلاف کم از کم میرے علم میں تو نہیں ہے۔
 
Top