• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرقہ پرستی سے کیسے بچیں - اس جماعت کی شروط کیا ہیں جس کی شرعی طور پر اتباع مسلمان پر واجب ہے ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فرقہ پرستی سے کیسے بچیں - اس جماعت کی شروط کیا ہیں جس کی شرعی طور پر اتباع مسلمان پر واجب ہے ؟

1477789_594095500645867_1265788820_n.jpg
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فرقہ پرستی سے کیسے بچیں - اس جماعت کی شروط کیا ہیں جس کی شرعی طور پر اتباع مسلمان پر واجب ہے ؟
الحمد للہ:​
مسلمان پر یہ واجب اور ضروری ہے کہ وہ طائفہ منصورہ اھل سنت والجماعت میں شامل ہوکر سلف صالحین کی اتباع کرتے ہوۓ حق پر چلے اور عمل کرے ، ان سے محبت کرے چاہے وہ اس کے ملک میں ہو ں یا کہ کسی اور جگہ اور ان سے نیکی اور بھلائ اور تقوں میں تعاون کرتا رہے اور ان کے ساتھ مل کر اللہ تعالی کے دین کی مدد و نصرت کرے ۔
ذیل میں ہم اس کامیاب اور طائفہ منصورہ کی صفات ذکر کرتے ہیں :

ان صفات کے متعلق بہت سی احادیث صحیحہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں جن میں چند ایک یہ ہیں :

امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا :

( میری امت میں سے ایک گروہ ایسا ہو گا جو کہ اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرتا رہے گا جو بھی انہیں ذلیل کرنے یا انکی مخالفت کرے گا وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ اللہ تعالی کا حکم ( قیامت ) آ جاۓ کا اور وہ لوگ اس پر قائم ہوں گے )
اور عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( ہمیشہ ہی میری امت میں سے ایک گروہ حق پر قائم رہے گا حتی کہ قیامت قائم ہو جاۓ گی )
اور مغیرۃ بن شعبہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا :
( میری امت میں ایک قوم لوگوں پر غالب رہیں گے حتی کہ قیامت قائم ہو جاۓ گی )
اور عمران بن حصین رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتےہیں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( میری امت میں سے ایک گروہ حق پر لڑتا رہے گا ، جو اپنے دشمن پر غالب رہے گا ، حتی ان میں سے آخری شخص مسیح الدجال سے لڑائ کرگا )
ان مندرجہ بالا احادیث سے چند ایک امور اخذ کیۓ جا سکتے ہیں :

پہلا :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ( میری امت میں سے ہمیشہ ہی ) میں اس بات کی دلیل ہے کہ امت میں سے ایک گروہ ہے نہ کہ ساری کی ساری امت ، اور اس میں اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ اس کے علاوہ بھی گروہ اور فرقے ہوں گے ۔

دوسرا :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ( جو ان کی مخالفت کرے گا وہ انہیں کوئ نقصان نہیں دے سکے گا ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طائفہ منصورہ کے علاوہ اور بھی فرقے ہوں گے جو کہ دینی معاملات میں اس کی مخالفت کريں گے ۔

اور اسی طرح یہ اس حدیث افتراق کے مدلول کے موافق ہے کہ بہترفرقے فرقہ ناجیہ کے حق پر ہونے کے باوجود اس کی مخالفت کریں گے ۔

تیسرا :

دونوں حدییثوں میں اھل حق کے لۓ خوشخبری ہے ، طائفہ منصورہ والی حديث انہیں دنیا میں مدد اور کامیابی کی خو‎شخبری دیتی ہے ۔

چوتھا :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ( حتی کہ اللہ تعالی کا امر آجاۓ ) سے مراد یہ ہے کہ وہ ہوا آجاۓ جو کہ ہر مومن مرد وعورت کی روح کو قبض کر لے ، تو اس سے اس حدیث ( میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ ہی حق پر قائم رہے گا حتی کا قیامت آجاۓ ) کی نفی نہی ہوتی کیونکہ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہی حق پر قائم رہیں گے حتی کہ یہ ہوا قرب قیامت اور قیامت کی نشانیوں کے ظہور کے وقت ان کی روحیں قبض کرلے گی ۔

طائفہ منصورہ کی صفات :

اوپر بیان کی گئ احادیث اور دوسری روایات سے طائفہ منصورہ کی مندرجہ ذیل صفات اخذ کی جاسکتی ہیں :

1– کہ یہ گروہ حق پر ہے ۔تو حديث میں یہ وارد ہے کہ وہ حق پر ہیں ۔
اور یہ گروہ اللہ تعالی کے امر پر ہے ۔
اور یہ گروہ اس امر پر ہے ۔
اور یہ گروہ اس دین پر ہے ۔
تو یہ سب الفاظ اس بات اور دلالت پر مجتمع ہیں کہ یہی لوگ دین صحیح اوراستقامت پر ہیں جس دین کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رسول بنا کر بھیجے گۓ ہیں ۔

2 – یہ گروہ اللہ تعالی کے امر کو قائم کۓ ہوۓ ہے ۔
اور ان کا اللہ تعالی کے امر کو قائم کرنے کا معنی یہ ہے کہ :

ا – وہ دعوت الی اللہ کے حامل ہونے کی بنا پر سب لوگوں میں متمیز ہیں ۔
ب – اور یہ کہ وہ اس اہم کام ( امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ) کو قائم رکھے ہوۓ ہیں ۔

3 - کہ یہ گروہ قیامت تک ظاہر رہیں گے :

احادیث میں اس گروہ کو اس وصف سے نوازا گیا ہے کہ ( وہ ہمیشہ ہی ظاہررہیں گے حتی کہ قیامت قائم ہو جاۓ گی اور وہ ظا ہر ہوں گے )
اور (ان کا حق پر ظاہر ہونا )
یا ( قیامت تک ظاہر ہوں گے )
یا ( جو ان سے دشمنی کرے گا اس پر ظاہر ہوں گۓ )
یہ ظہور اس پر مشتمل ہے کہ :
وضوح اور بیان کے معنی میں ہے تووہ جانے پہچانے اور ظاہر ہیں ۔
اس معنی میں کہ وہ حق پر ثابت اور دین میں استقامت اور اللہ تعالی کے امرکو قا‏ئم کيۓ ہو ۓ اور اللہ تعالی کے دشمنوں سے جھاد جاری رکھے ہوۓ ہيں۔
اور ظہور غلبہ کے معنی میں ہے ۔

3 - یہ گروہ صبر و تحمل کا مالک اور اس میں سب پر غالب ہے ۔

ابو ثعلبہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( تمہار پیچھے صبر والے ایام آرہے ہیں ، اس میں ایسا صبر ہو جس طرح کہ انگارہ پکڑ کر صبر کیا جاۓ )

طائفہ منصورہ والے کون لوگ ہیں ؟

امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ : وہ اہل علم ہیں ۔

اور بہت سارے علماء نے یہ ذکر کیا ہے کہ طا‏ئفہ منصورہ سے مراد اھل حدیث ہیں ۔
اور امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ یہ گروہ مومن لوگوں کی انواع میں پیھلا ہوا ہے : ان میں سے کچھ تو بہادری کے ساتھ لڑنے والے ہیں ، اور ان میں سے فقھاء بھی ہیں ، اور اسی طرح ان میں محدثین بھی ہیں ، اور ان میں عابدوزاھد لوگ بھی ہیں ، اور ان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے بھی ہیں ، اور اسی طرح ان میں اور بھی انواع ہیں ۔

اور ان کا یہ بھی قول ہے کہ : یہ جائز ہے کہ یہ طا‏ئفہ اور گروہ مومنوں کی متعدد انواع میں ہو ، ان میں قتال وحرب کے ماہر اور فقیہ اور محدث اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرنے والے ، اور زاھد اور عابد شامل ہيں۔

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ : ( انہوں نے اس مسئلہ میں تفصیل بیان کرتے ہوۓ کہا ہے ) یہ لازم نہیں کہ وہ کسی ایک ملک میں ہی جمع ہوں بلکہ یہ جائز ہے کہ وہ دنیا کے کسی ایک خطہ میں جمع ہوں جائيں ، اور دنیا کے مختلف خطوں میں بھی ہو سکتے ہیں ، اور یہ بھی ہے کہ وہ کسی ایک ملک میں بھی جمع ہوجائيں ، اور یا پھر مختلف ممالک میں ، اور یہ بھی ہے کہ ساری زمیں ہی ان سے خالی ہوجاۓ اور صرف ایک ہی گروہ ایک ہی ملک میں رہ جاۓ تو جب یہ بھی ختم ہوجاۓ تو اللہ تعالی کا حکم آجاۓ گا ۔

تو علماء کرام کی کلا م کا ماحاصل یہ ہے کہ یہ کسی ایک گروپ کے ساتھ معین نہیں اور نہ ہی کسی ایک ملک کے ساتھ محدد ہے ، اگرچہ ان کی آخری جگہ شام ہوگی جہاں پر دجال سے لڑيں گے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے ۔

اور اس میں کوئ شک و شبہ نہیں جو لوگ علم شریعت کے میں عقیدہ اور فقہ اور حدیث و تفسیر کی تعلیم و تعلم اور اس پر عمل کرنے اوراس کی دعوت دینے ميں مشغول ہیں یہ لوگ بدرجہ اولی طائفہ منصورہ کی صفات کے مستحق ہیں اور یہ ہی دعوت و جھاد اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور اہل بدعات کے رد میں اولی اور آگے ہیں ، تو ان سب میں یہ ضروری ہے کہ وہ علم صحیح جو کہ وحی سے ماخوذ ہے لیا جاۓ ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گوہیں کہ وہ ہمیں بھی ان میں سے کرے ، اور اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں نازل فرماۓ آمین ۔

واللہ تعالی اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جب مجھے میرے مذھب کا پوچھا جاۓ توکیا کہوں

بعض آنے والے بھائ مجھے سے بہت ہی زیادہ میرے مذھب کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ آیا میں حنبلی ہوں یا کہ شافعی وغیر ہ ۔۔ اور میں حقیقت میں اس معاملہ سے بالکل غافل ہوں ، مجھے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ میں مسلمان ہوں ، اوراگر مجھے دینی معاملہ میں مشکل پیش آتی ہے تو میں علماء سے پوچھ لیتا ہوں ، تو اس بارہ میں آپ کی نصیحت ہے ؟

الحمد للہ :

آپ کے لۓ اتنا ہی کافی ہے کہ آپ مسلمان اور شریعت کی اتباع کرنے والے ہیں ، اور رہا کہ مسلک حنبلی اور شافعی تو یہ کوئ ضروری نہیں کہ ان مذاھب میں مقید ہوا جاۓ ، لیکن امت مسلمہ کے ہاں یہ علماء اصحاب فضل و مرتبہ ہیں ، ان کے اقوال کا جمع کیا گيا اور ان کے پیروکار اس پر عمل کرنے لگے تو یہ مذاھب معترف بن گۓ ، باوجود اس کے کہ یہ سب توحید اور اعتقاد میں متفق ہیں ، اور اسی طرح فروعات میں بھی ایک دوسرے کے قریب ہیں ۔لیکن ہوسکتا ہے کہ کسی ایک پر دلیل مخفی رہے اور یا پھر وجہ الدلالہ کا علم نہ ہو سکے اور اس سے وہ پوشیدہ ہو تو وہ اپنے اجتھاد سے فتوی صادر کردے ، اور اس کا یہ قول دوسرے کے ذمہ لازم نہیں کہ وہ بھی یہی کہے اور اس پر عمل کرے ، لیکن ان کے اکثر پیروکار متعصب ہوچکے ہیں اور ان علماء کے اقوال پرہی عمل کرتے ہیں اگرچہ وہ قول صریح اور صحیح دلیل کے مخالف ہی کیوں نہ ہو ۔

اور اسی طرح انہوں نے صریح نصوص کو رد کردیا ہے تاک وہ ان علماء کے اقوال پر عمل کریں ، تو اس بنا پر ہم عامۃ الناس کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اسلام کی طرف نسبت کریں اور جس چیز میں انہیں کوئ مشکل پیش آۓ‎ وہ معتبر علماء کی طرف رجوع کریں جو کہ تعصب کا شکار نہیں اور ان مؤ‎لفات کی طرف رجوع کریں جن کے مؤلفین اہل علم اور اسلام اور مسلمانوں کے لۓ نصیحت کرنے میں معروف ہیں ۔

واللہ تعالی اعلم .
دیکھیں کتاب : الؤلؤ المکین من فتاوی ابن جبرین ص ( 30 )
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مذاھب اربعہ میں سے زیادہ صحیح کون سا ہے


آئمہ اربعہ میں سے کون سے امام صحیح راستے پر اور جماعت المسلمین میں ہے ؟

الحمد للہ:

اللہ تعالی نے ہمیں اپنی کتاب عزیز قرآن کریم اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلنے اور اس کی اطاعت کا حکم دیا ہے ، اور حق بات تو یہ ہے کہ ہم نصوص شرعیہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور ان پیروکاروں میں سے مجتھدین علماء کی فھم سے سمجھیں اور ان علماء میں جن کی صدق وعدالت اور دین میں امامت اور علم وفضل اور صلاح وخیر مسلمہ ہے وہ آئمہ اربعہ ہیں ( امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد ) رحمہم اللہ جمیعا ہيں ۔اور یہ چاروں شرعی نصوص پر چلنے والے ہیں ، ان کا مقصد وحرص اور تعلیم و تعلم اور اسے نشر کرنا صحیح علم شرعی کی ترویج تھی ، اور وہ چاروں صحیح راستے پر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع اور اس پر حریص تھے ، رہا مسئلہ غلطی کا تو یہ ہر ایک سے ہو سکتی ہے حتی کہ صحابہ کرام سے بھی اس کا وقوع ہوا ، تو شرعی مسئلہ میں اتباع اسی کی ہو گی اور وہ ہی مانا جاۓ گا جس پر دلیل ہو ۔

اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علماء میں سے کسی پر وہ دلیل مخفی رہے اور یہ بھی ہو سکتا ہےکہ اسے وہ دلیل پہنچے ہی نہ لیکن دوسرے عالم کو یہ دلیل مل جاۓ ، تو یہ دلیل کا حاصل نہ ہونا ان کے علم و فضل میں جرج و قدح نہیں اور نہ ہی اس سے ان کی عدالت میں کوئ فرق آتا ہے ، تو ہر ایک حق کا طالب اور اسے نشرکرتا ہے ۔

اوراگر سا‏ئل ان میں سے کسی ایک یا خاص امام کے مسلک پر چلنا چاہتا ہے تو اسے جس مسئلہ پر صریح اور صحیح دلیل مل جاۓ اس میں اس کی بات مانے کیونکہ یہی چیز ہے جس کا مطالبہ ہے ، اور اگر دلیل نہیں ملتی تو ان میں کسی ایک کے ساتھ تعصب نہ کرے بلکہ حق کی اتباع کرے ، اوریہ جائز نہیں کہ ہر ایک قول میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کی اتباع کا اعتقاد رکھا جاۓ ۔
تو علماء کی کلام میں جو دلیل کے موافق ہو اسے مانا جاۓ گا ، اور کسی ثقہ عالم کے فتوی پر عمل کرنا چاہۓ ۔

واللہ تعالی اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا کسی مذھب کو حدیث پر مقدم کیا جا سکتا ہے

میرا سوال احادیث اور سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مذاھب کے متعلق ہے ، میرے ملک کے لوگ شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ، تو بعض اوقات مذھب کو حدیث اور سنت پر مقدم کر لیا جاتا ہے تو اس حالت میں کیا میں سنت پر چلوں یا کہ شافعی مذھب اختیار کروں ؟

مثلا شافعی مذھب میں اگر مرد عورت کو عمدا یا غلطی سے چھو لے تو اس کا وضوء ٹوٹ جاتا ہے چاہے وہ عورت محرم ہی کیوں نہ ہو ، اور میں نے حدیث میں یہ پایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجرکے دوران عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ٹانگ ھلایا کرتے تھے ۔

ہمارے ہاں مسلمانوں کو یہ بتایا جاتا ہےکہ اثناۓ حج وضوء کی نیت مذھب شافعی سے حنبلی مذھب کی طرف تحویل ہوجاتی ہے ، تو وہاں وہ اس طرح وضوء کرتے ہیں جس طرح کہ حنبلی ، اور اس کا سبب وہی ہے جواوپر والی مثال میں بیان ہوا ہے ، توکیا یہ صحیح ہے کہ اثناۓ حج کسی ایک مذھب سے دوسرے مذھب کی طرف ہوا جاۓ ؟

اور یہ کہ شافعی مذھب میں نماز فجرمیں دعاء قنوت سنت مؤکدہ ہے تو کیانبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے ، اور جو قنوت نہیں کرتا اس کا حکم کیا ہے ؟

الحمد للہ:

1 - انسان پر واجب یہ ہے کہ وہ اس کی اتباع کرے جس پر قرآن وسنت سے کو‎‏ئ دلیل دلالت کرتی ہو چاہے وہ مذھب اور کسی مسلک کے مخالف ہی کیوں نہ ہو ، لیکن کتاب وسنت کی فہم وہی ہو جوکہ اسلاف کی ہے نہ کہ ہماری اور سلف سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ تعالی ہیں ۔اور جو مثال آپ نے ذکر کی ہے اس میں صحیح قول یہ ہے کہ : عورت کو چھونے سے مطلق طورپر وضوء نہیں ٹوٹتا چاہے وہ شہوت کے ساتھ یا شہوت کے بغیر ہو ۔

اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ کو چھوا اور بغیر وضوء کۓ نماز کےلۓ چلے گۓ ۔

لیکن اگر شہوت کے سبب سے کوئ چیز نکل آئ تو وہ اس کی بنا پر وضوء کرے گا لیکن چھونے کی وجہ سے نہيں ۔

اوراللہ تعالی کا یہ فرمان : { یاتم عورتوں کو چھو‎ؤ تو } صحیح قول کے مطابق اس سے مراد جماع ہے ۔

2 – اس بات کی کوئ ضرورت نہیں کہ حج کا فریضہ ادا کرنے میں ایک مذھب سے دوسرے مذھب کی طرف جایا جاۓ ، بلکہ آپ اس طرح حج کریں جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ( اپنے مناسک کا طریقہ مجھ سے لے لو ) ۔

3 - صرف مصائب کے وقت نماز فجر میں قنوت کرنا صحیح ہے ، یعنی جب مسلمانوں پر کوئ مصیبت نازل ہو تو یہ سنت اور مستحب ہے کہ نماز میں قنوت کی جاۓ تاکہ مسلمانوں سے یہ مصیبت ختم ہو ، لیکن دلائل سے ثابت اورصحیح یہ ہے کہ عام حالا ت میں یہ ثابت نہيں ۔

تو جو نماز فجرمیں قنوت نہیں کرتا اس کی نماز صحیح ہے حتی کہ شافعیہ رحمہم اللہ تعالی کے ہاں بھی اس کی نماز صحیح ہے ۔

واللہ تعالی اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
تقليد اور دليل كى اتباع، اور كيا ابن حزم حنبلى تھے ؟


يہ كيسے ممكن ہے كہ آئمہ اربعہ ميں سے كسى ايك كى اتباع كرتے ہوئے مقلد نہ ہو ؟

ميں يہ سوال اس ليے كر رہا ہوں ميں نے ابن حزم كى سيرت پڑھى كہ وہ امام احمد كے مذہب كى اتباع كرتے تھے ليكن مقلد نہيں تھے، برائے مہربانى اس كى وضاحت فرمائيں ؟

الحمد للہ:

اول:

مذاہب كى اتباع كرنے والے ايك ہى درجہ پر برابر نہيں بلكہ ان ميں مجتھد بھى ہيں، اور مقلد بھى جو مذہب ميں كوئى مخالفت نہيں كرتا.

چنانچہ بويطى، اور مزنى اور نووى اور ابن حجر رحمہم اللہ يہ سب امام شافعى كى متبعين ميں سے ہيں ليكن يہ مجتھد ہيں اور جب ان كے پاس دليل ہو تو يہ اپنے امام كى مخالفت كرتے ہيں، اور اسى طرح ابن عبد البر مالكيہ ميں سے ہيں ليكن اگر صحيح چيز امام مالك كے علاوہ كسى اور كے پاس ہو تو وہ امام مالك رحمہ اللہ كى مخالفت كرتے ہيں.

احناف كے كبار آئمہ كے بارہ ميں بھى يہى ہے مثلا ابو يوسف اور امام محمد الشيبانى، اور اسى طرح حنابلہ كے آئمہ بھى مثلا ابن قدامہ اور ابن مفلح وغيرہ.

طالب علم كا كسى مسلك اور مذہب پر زانوے تلمذ طے كرنے كا مطلب يہ نہيں كہ وہ اس مسلك سے نكل ہى نہيں سكتا، بلكہ جب اس كے ليے دليل واضح ہو جائے تو وہ اس دليل پر عمل كرے، دليل كو ديكھ كر بھى مسلك اور مذہب سے باہر وہى شخص نہيں جاتا جس كے دين كى حالت پتلى ہو، اور اس كى عقل ميں كمى ہو، اور وہ متعصبين ميں سے ہو.

كبار آئمہ كرام كى وصيت ہے كہ طالب علم كو بھى وہيں سے لينا اور اخذ كرنا چاہيے جہاں سے انہوں نے خود اخذ كيا اور ليا ہے، اور جب ان كا قول نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كے خلاف ہو تو اسے ديوار پر پٹخ ديں.

ابو حنيفہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ ميرى رائے ہے، اور جو كوئى بھى ميرى رائے سے اچھى اور بہتر رائے لائے ہم اسے قبول كرينگے "

اور امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ميں تو ايك بشر ہوں غلطى بھى كرتا ہوں اور صحيح بھى اس ليے ميرا قول كتاب و سنت پر پيش كرو "

اور امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب حديث صحيح ہو تو ميرا قول ديوار پر پٹخ دو، اور دليل راہ ميں پڑى ہوئى ديكھو تو ميرا قول وہى ہے "

اور امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نہ تو ميرى تقليد كرو، اور نہ مالك كى تقليد كرو، اور نہ شافعى اور ثورى كى، اور اس طرح تعليم حاصل كرو جس طرح ہم نے تعليم حاصل كى ہے "

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

" اپنے دين ميں تم آدميوں كى تقليد مت كرو، كيونكہ ان سے غلطى ہو سكتى ہے "
اس ليے كسى كے ليے بھى كسى معين امام كى تقليد كرنا صحيح نہيں جو اپنے اقوال سے باہر نہ جاتا ہو، بلكہ اس پر واجب ہے كہ اسے لے جو حق كے موافق ہو چاہے وہ اس كے امام سے ہو يا كسى اور سے ملے "

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" لوگوں ميں سے كسى شخص پر كسى ايك شخص كى بعينہ تقليد كرنا صحيح نہيں كہ جو وہ حكم دے اور جس سے منع كرے اور جسے مستحب كہے اس كى مانى جائے، يہ حق صرف رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ہے، اب تك مسلمان علماء كرام سے دريافت كرتے رہتے ہيں، كبھى اس كى اور كبھى اس كى بات مان ليتے اور تقليد كرتے ہيں.

جب مقلد كسى مسئلہ ميں تقليد كر رہا ہے اور وہ اسے اپنے دين ميں زيادہ صحيح ديكھتا، يا قول كو زيادہ راجح سمجھتا ہے تو يہ جمہور علماء كے اتفاق سے جائز ہے، اسے كسى نے بھى حرام نہيں كہا، نہ تو امام ابو حنيفہ، اور نہ ہى مالك اور شافعى اور احمد رحمہم اللہ نے"
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 23 / 382 ).

اور شيخ علامہ سليمان بن عبد اللہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بلكہ مومن پر حتماً فرض ہے كہ جب اسے كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم پہنچے اور اس كے معنى كا علم ہو جائے چاہے وہ كسى بھى چيز ميں ہو اس پر عمل كرے، چاہے وہ كسى كے بھى مخالف ہو، ہمارے پروردگا تبارك و تعالى اور ہمارے نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں يہى حكم ديا ہے، اور سب علاقوں كے علماء اس پر متفق ہيں، صرف وہ جاہل قسم كے مقلدين اور خشك لوگ، اور اس طرح كے لوگ اہل علم ميں شامل نہيں ہوتے "

جيسا كہ اس پر ابو عمر بن عبد البر وغيرہ نے اجماع نقل كيا ہے كہ يہ اہل علم ميں سے نہيں "
ديكھيں: تيسير العزيز الحميد ( 546 ).

اس بنا پر كوئى حرج نہيں كہ مسلمان شخص كسى معين مذہب اور مسلك كا تابع ہو، ليكن جب اس كے ليے اس كے مذہب كے خلاف حق واضح ہو جائے تو اس كے ليے حق كى اتباع كرنا واجب ہو گى.

دوم:

رہا ابن حزم رحمہ اللہ كا مسئلہ تو وہ امام اور مجتھد تھے اور وہ تقليد كو حرام قرار ديتے ہيںن اور وہ كسى ايك امام كے بھى تابع اور پيروكار نہ تھے، نہ تو امام احمد كے اور نہ ہى كسى دوسرے امام كے، بلكہ وہ اپنے دور اور اب تك كے اہل ظاہر كے امام تھے، ہو سكتا ہے ان كو امام احمد كى طرف منسوب كرنا ( اگر يہ صحيح ہو ) عقيدہ اور توحيد كے مسائل ميں ہے، اس پر كہ اس كے ہاں اسماء و
صفات ميں بہت سارى مخالفات پائى جاتى ہيں.

ابن حزم كى سيرت كا مطالعہ كرنے كے ليے سير اعلام النبلاء ( 18 / 184 - 212 ) كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
فرقہ پرستی سے کیسے بچیں - اس جماعت کی شروط کیا ہیں جس کی شرعی طور پر اتباع مسلمان پر واجب ہے ؟

3702 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اس کے ساتھ ساتھ سلف کا فہم بھی ضروری ہے کیوں وہ کہ قرآن و احادیث کے چشم دید گواہ ہیں انکے متفقہ مسائل بھی قابل غور ہیں اور یہ اصول بھی فہم سلف کے حجت ہونے کی دلیل ہے : الراوی ادری بروایتہ من غیرہ
یعنی ہم سلف سے بڑھ کر قرآن و حدیث کونہیں سمجھ سکتے اس لیے صحابہ کی توضیح بھی حجت ہے واللہ اعلم!!!
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
كيا تقليد كا فتوى دينا جائز ہے ؟

كيا تقليد كرنے كا فتوى دينا جائز ہے ؟

الحمد للہ:

اس ميں كئى اقوال ہيں:
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

پہلا:

تقليد كرنے كا فتوى دينا جائز نہيں؛ كيونكہ يہ علم كے ساتھ نہيں، اور بغير علم كے فتوى دينا حرام ہے، لوگوں كے اس ميں كوئى اختلاف نہيں پايا جاتا كہ تقليد علم نہيں، اور يہ كہ مقلد پر عالم كے نام كا اطلاق نہيں ہوتا، اكثر اصحاب اور جمہور شافعيہ كا قول يہى ہے.

دوسرا:

اس كى اپنى ذات كے ليے يہ جائز ہے، اس كے ليے كسى دوسرے علماء كى تقليد كرنا جائز ہے، جب يہ فتوى اس كے اپنے ليے ہو، جو فتوى كسى دوسرے كے ليے دے اس ميں اسے عالم كى تقليد كرنى جائز نہيں، ہمارے اصحاب ميں سے ابن بطہ وغيرہ كا قول يہى ہے.

اور قاضى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

بن بطہ نے برمكى كى جانب لكھے ہوئے مكتوبات ميں ذكر كيا ہے:
مفتى سے جو سنا ہے اس كا فتوى دينا اس كے ليے جائز نہيں، بلكہ اس كے خود اس كى تقليد كرنا جائز ہے، ليكن وہ كسى دوسرے كو تقليد كا فتوى دے تو يہ جائز نہيں.

تيسرا قول:

ضرورت اور كسى مجتھد عالم دين كى عدم موجودگى كے وقت جائز ہے، يہ صحيح ترين قول ہے، اور عمل بھى اسى پر ہے، قاضى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ابو حفص نے اپنى تعليقات ميں ذكركيا ہے كہ:

" ميں نے ابو على حسن بن عبد اللہ النجاد كو كہتے ہوئے سنا:

ميں نے ابو الحسين بن بشران سے سنا وہ كہہ رہے تھے: ميں اس شخص پر عيب جوئى نہيں كرتا جو امام احمد سے پانچ مسائل ياد كرے اور مسجد كے كسى ستون كے پاس بيٹھ كر فتوى دے " .

ديكھيں: اعلام الموقعين ( 1 / 37 - 38 ).
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
فرقہ پرستی سے کیسے بچیں - اس جماعت کی شروط کیا ہیں جس کی شرعی طور پر اتباع مسلمان پر واجب ہے ؟
الحمد للہ:​
مسلمان پر یہ واجب اور ضروری ہے کہ وہ طائفہ منصورہ اھل سنت والجماعت میں شامل ہوکر سلف صالحین کی اتباع کرتے ہوۓ حق پر چلے اور عمل کرے ،د
کیا سلف کی بھی اتباع ہو سکتی ہے بھائیوں سے گزارش ہے کہ اس پر بھی روشنی ڈالیں تا کہ بات واضح ہو جاے جزاکم اللہ خیرا​
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
صحيح حديث كو رد كرنے والے كا حكم

كيا صحيح حديث رد كرنے والے كو كافر قرار ديا جائيگا ؟

ايك بھائى صحيح بخارى اور مسلم ميں وارد شدہ بعض احاديث كو اس حجت سے رد كرتے ہيں كہ يہ احاديث قرآن كے ساتھ متصادم اور معارض ہيں، صحيح حديث كو رد كرنے والے كا حكم كيا ہو گا، آيا اسے كافر كہا جائے ؟

الحمد للہ:

اول:

سنت نبويہ تشريع ميں دوسرا مصدر ہے، جس طرح قرآن مجيد جبريل امين نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر لاتے تھے اسى طرح سنت بھى لاتے تھے-

اس كا مصداق اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ہے:

{ اور وہ ( نبى ) اپنى خواہش سے كوئى بات نہيں كہتے وہ تو صرف وحى ہے جو اتارى جاتى ہے }النجم ( 3 - 4 ).
اللہ سبحانہ و تعالى نے مومنوں پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام اور ان كى حديث اور حكم كو مكمل تسليم كرنے كا حكم ديا ہے، حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى قسم اٹھا كر كہا ہے كہ جس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام سنى اور پھر اسے قبول نہ كيا بلكہ رد كر ديا تو اس ميں ايمان كى رتى بھى نہيں ہے.

اللہ تعالى كا ارشاد ہے:

{ تيرے رب كى قسم يہ اس وقت تك مومن ہى نہيں ہو سكتے جب تك كہ وہ آپس كے تمام اختلافات ميں آپ كو حاكم تسليم نہ كر ليں، پھر آپ جو ان ميں فيصلہ كر ديں اس كے متعلق اپنے دل ميں كسى طرح كى تنگى اور ناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ قبول كر ليں }النساء ( 65 ).
اسى ليے اہل علم كے مابين اس پر اتفاق ہے كہ جس نے بھى عمومى شكل ميں حجيت حديث كا انكار كيا، يا پھر اسے علم ہو كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ہے اسے جھٹلا ديا تو وہ شخص كافر ہے، اس ميں ادنى سے درجہ كا اسلام اور اللہ اور اس كے رسول كے اطاعت نہيں.

امام اسحاق بن راھويہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس شخص كے پاس بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث پہنچے جو صحيح ہو اور پھر وہ اسے بغير تقيہ كے رد كر دے تو وہ كافر ہے " انتہى
اور سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اللہ آپ پر رحم كرے آپ كو يہ علم ميں ركھيں كہ جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قولى يا فعلى حديث كا انكار كيا بشرطيكہ وہ اصول ميں معروف ہيں وہ كافر ہے، اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اور وہ يہود و نصارى كے ساتھ يا كافروں كے دوسرے فرقوں ميں جس كے ساتھ چاہے اٹھايا جائيگا " انتہى
ديكھيں: مفتاح الجنۃ فى الاحتجاج بالسنۃ ( 14 ).
اور علامہ ابن وزير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كا علم ہوتے ہوئے حديث كا انكار كرنا صريحا كفر ہے " انتہى
ديكھيں: العواصم والقواصم ( 2 / 274 ).
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" جو شخص سنت پر عمل سے انكار كرتا ہے وہ كافر ہے؛ كيونكہ وہ اللہ اور اس كے رسول اور مسلمانوں كے اجماع كو جھٹلانے والا ہے " انتہى
ديكھيں: المجموعۃ الثانيۃ ( 3 / 194 ).

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" جو شخص سنت پر عمل سے انكار كرتا ہے وہ كافر ہے؛ كيونكہ وہ اللہ اور اس كے رسول اور مسلمانوں كے اجماع كو جھٹلانے والا ہے " انتہى
ديكھيں: المجموعۃ الثانيۃ ( 3 / 194 ).

دوم:

ليكن جو شخص حديث نبوى كو اس اعتبار سے نہيں مانتا اور رد كرتا ہے كہ يہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث نہيں ہو سكتى تو يہ پہلى قسم كى طرح نہيں، ہم ديكھتے ہيں كہ " تنويرى " قسم كے نئے لوگ وہ ہيں جنہوں نے اپنى آراء اور توجھات كے ساتھ حديث پر حكم لگايا ہے، اور يہ بات كوئى نئى نہيں، بلكہ اپنے سے قبل بدعتيوں كا ہى ٹولہ ہے، جن كے متعلق اہل علم نے ان كے شبہات بيان كيے ہيں.

ان اور اس طرح كے لوگوں كو ہم كہينگے:

حديث رد كرنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث ہونے سے انكار كرنے سے قبل علمى منہج تقاضا كرتا ہے كہ اس پر غور كيا جائے ذيل ميں ہم اس كى شروط پيش كرتے ہيں:

پہلى شرط:

حديث ميں جو بيان ہوا ہے اور جو قرآن ميں وارد ہے اس ميں مكمل تناقض ہو اور يہ تناقض كسى واضح دلالت سے ثابت ہو جو منسوخ نہ ہو، يہاں ہم پھر " مكمل تناقض " كى قيد كى تاكيد كرتے ہيں، يہ تناقض صرف ظاہرى نہيں ہونا چاہے جو بادى النظر ميں جلدى سے ذہن ميں آئے.

اميد ہے جو لوگ انكار حديث كا سوچتے ہيں وہ بھى ہمارے ساتھ اس قيد ميں متفق ہونگے؛ كيونكہ اكثر لوگوں كے ذہن ميں آنے والے ظاہرى تعارض كى كوئى حقيقت نہيں، بلكہ يہ تو اعتراض كرنے والے كے ذہن ميں قائم ہوا ہے، اس كا جواب تامل اور غور كرنے اور لغت كى وجوہات تلاش كرنے اور اس كا اصول شريعت اور اس كے مقاصد كى موافقت كے ساتھ جواب ديا جا سكتا ہے.

جو كوئى بھى علامہ ابن قتيبہ الدينورى كى كتاب " مختلف الحديث " پر غور اور تامل كرے وہ اس بے تكى كى قدر معلوم كر سكتا ہے جو ان منكرين حديث نے بےتكى مارى ہيں كہ يہ قرآن كے موافق نہيں، يا پھر عقل اس كى تصديق نہيں كرتى.

پھر جب ابن قتبيہ اس كتاب ميں ان احاديث كى علماء كرام سے صحيح شرح بيان كرتے ہيں تو واضح ہوتا ہے كہ اس كى صحيح وجہ بھى ہے جو شريعت كے موافق ہے، اور قرآن كے تعارض والا تو صرف ايك فاسد قسم كا وہم ہى ہے.

ہم ان اور ان جيسے سنت كو رد كرنے كى جرات كرنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث پر طعن كرنے والوں سے بغير كسى علمى منہج، يا مقبول تنقيدى اصول، اور بغير كسى علمى اصول كے فيصلے جس كى يہ بات اور بحث كرتے ہيں سے سوال كرتے ہيں:

كيا آپ يہ خيال كر سكتے ہيں كہ ناقد كو يقين ہو كہ يہ حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ميں سے نہيں اور يہ ممكن ہو كہ وہ مكمل طور پر قرآن كے ساتھ تعارض و تناقض ركھے، اس كے باوجود ہم ديكھيں كہ صحابہ كرام كے دور سے ليكر آج تك علماء اسلام اس حديث كو قبول اور اس كى شرح اور تفسير اور اس سے استدلال اور اس پر عمل كرنے پر متفق ہوں ؟!

كيا عقل سليم ـ جس كو يہ حاكم تسليم كرتے ہيں ـ يہى فيصلہ نہيں كرتى كہ اہل تخصص كے كسى امر پر فيصلے كا احترام كيا جائے جو اپنے فن اور تخصص ميں ماہر ہوں ؟!

كيا كوئى شخص مثلا كے طور فيزيا يا كيماء يا رياضى يا علوم تربيہ يا اقتصادى علوم كے ماہرين كو غلط كہنے كى جرات كرتا ہے جب وہ كسى ايك معاملہ پر سب متفق ہوں، خاص كر جب اس علم كے متخصصين ميں سے كوئى شخص بھى ان پر اعتراض كرنے والا نہ پايا جائے، بلكہ انتہائى طور پر يہى ہو گا كہ بعض نے اس كے متعلق كچھ كالم يا كوئى كتاب پڑھ لى جو علم كو بيان كرتى ہو يا پھر سب لوگوں كے علم كے ليے، كيا كوئى ايسى جرات كر سكتا ہے ؟!

دوسرى شرط:

اسناد ميں ضعف كا پايا جانا جو متن ميں وارد خطا كى متحمل ہو:

اور ہمارا خيال بھى ـ يہى ـ ہے كہ يہ شرط منہجى اور صحيح ہے، علمى نقد كے اصول كو تھوڑا سا بھى سمجھنے والے شخص كو اس كى مخالفت نہيں كرنى چاہيے، اور وہ يہ كہ متن كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ہونے سے انكار كرنا يہ معنى ركھتا ہے كہ سند ميں ضعف كا پايا جانا ہى ہميں يہ وہم دلاتا ہے كہ يہ حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ميں سے ہے، حالانكہ يہ ـ بالفعل ـ ايسا نہيں.

امام شافعى رحمہ اللہ كون امام شافعى جو كہ علم و ايمان ميں ايك اونچا مرتبہ ركھتے ہيں، جنہوں نے علم اصول فقہ ميں پہلى كتاب تصنيف كى ان كا كہنا ہے:

" جب حديث كو ثقات راوى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے روايت كريں تو يہ اس كا ثبوت ہے "
ديكھيں: كتاب الام كے ضمن ميں اختلاف الحديث ( 10 / 107 ).

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

" صدق اور كذب حديث كا استدلال مخبر يعنى خبر دينے والے كے صدق پر ہوتا ہے، مگر قليل سى خاص حديث ميں "
ديكھيں: الرسالۃ فقرۃ ( 1099 ).

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

" مسلمان عدول ہيں: وہ اپنے آپ ميں عدول اور صحيح الامر ہيں.... اور ان كا اپنے متعلق خبر دينے اور ان كا نام صحيح سلامتى پر ہے، حتى كہ ہم ان كے فعل اس كا استدلال كريں جو اس كى مخالفت كرتا ہو، تو ہم اس خاص خيال كريں جس ميں ان كے فعل نے اس كى مخالفت كى ہے جو ان پر واجب ہوتا تھا "
ديكھيں: الرسالۃ فقرۃ ( 1029 - 1030 ) اور كتاب الام ( 8 / 518 - 519 ).
امام شافعى رحمہ اللہ اس موضوع كے متعلق كچھ علمى اصول بيان جو كہ ان كي مختلف كتب ميں بہت زيادہ بيان ہے كے بعد ہمارے ليے اپنا فيصلہ ذكر كرتے ہيں جس ميں كچھ ہم نے يہاں نقل كيا وہ فردى اجتھاد يا ان كا شخصى مذہب نہيں، بلكہ وہ ايسا اصول ہے جس پر اس سے قبل اہل علم بھى متفق اور جمع ہيں امام شافعى كہتے ہيں:

" ميں نے اپنى اس كتاب كے شروع ميں جو لكھا ہے اس كا عام معنى كتاب و سنت كا علم ركھنے والے، اور مختلف لوگوں اور قياس اور معقول كا علم ركھنے والے متقدم علماء ميں سے كئى ايك كے سامنے بيان كيا تو ان ميں سے كسى ايك نے بھى كسى ايك كى مخالفت نہ كى، اور ان كا كہنا تھا:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام، اور تابعين عظام اور تبع تابعين كا مذہب يہى ہے، اور ہمارا مذہب بھى يہى ہے؛ اس ليے جو بھى اس مذہب كو چھوڑے گا ہمارے نزديك وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام اور ان كے بعد آج تك كے اہل علم كى راہ چھوڑ رہا ہے، اور وہ جاہل لوگوں ميں شامل ہوتا ہے.

ان سب كا كہنا تھا: اس راہ كى مخالفت كرنے والے كو ہمارى رائے ميں سب اہل علم كے اجماع ميں جاہل قرار ديا گيا ہے الخ... "!!

ديكھيں: اختلاف الحديث ـ كتاب الام ـ ( 10 / 21 ) اور اسى طرح كى كلام آپ الرسالۃ فقرۃ ( 1236- 1239 ) ميں ديكھ سكتے ہيں.

اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف منسوب حديث كو رد كرنے والے شخص پر سب سے پہلے يہ واجب اور ضرورى ہے كہ وہ يہ تلاش كرے اور بيان كرے كہ اس كو بيان كرنے والے راويوں ميں سے كون ہے جس نے نقل كرنے ميں غلطى كى ہے، اور اگر رد كرنے والے كو سند ميں كوئى ايسا سبب نہ ملے جو اس حديث كے انكار ميں مقبول سبب بن سكتا ہو تو يہ اس كے منہج كى غلطى كى علامت ہے، اور پھر يہ اس كى بھى علامت ہے كہ اسے حديث اور قرآن كى فہم اور مقاصد شرعيۃ كى فہم كا مراجعہ كرنے كى ضرورت ہے.

اور پھر جب كوئى حديث زمين پر موجود سب سے صحيح ترين سند كے ساتھ موجود ہو، بلكہ وہ حديث بہت سارے طرق سے مروى ہوں ـ جيسا كہ اكثر وہ احاديث جنہيں تنويرى رد كرتے ہيں ـ اور صحابہ كرام كى ايك جماعت سے مروى ہوں انہيں رد كرنا كيسا ہو گا؟!

تيسرى شرط:

سارے معاملہ كو احتمال اجتھاد كى طرف منسوب كرنا، اور يقين و حسم اور مخالف پر مسلمانوں كى عقلوں ميں طعن و تہمت زنى ترك كرنا، يہ اس وقت ہے جب اس ميں كوئى ايسى وجہ ہو جو اس احتمال كو ركھتى ہو، اور اس سلسلہ ميں كلام كرنے والا اہليت بھى ركھتا ہو ـ ضرورى بحث كے لوازمات ـ تا كہ وہ اس كا ادراك كر سكے اور اس ميں بحث كرے، كسى معين علت كى بنا پر كسى ايك عالم كو حديث ضعيف لگتى ہے، ليكن جس نے حديث قبول كى وہ اس پر تہمت كى زبان استعمال نہ كرے.

لہذا جو شخص ان تين شروط كى مخالفت كرتا اور حديث كا انكار اور اس كى تكذيب كرنے پر اصرار كرتا ہے تو وہ خطرناك راہ پر ہے، كيونكہ كسى بھى مسلمان كے ليے بغير كسى شروط و ضوابط كے منہج ميں تاويل كرنا جائز نہيں، وگرنہ وہ گناہ اور حرج ميں پڑيگا.

امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كو رد كيا تو وہ ہلاكت كے كنارے پر ہے " انتہى
اور حسن بن على بربھارى كہتے ہيں:

" جب تم كسى شخص كو حديث و اثار ميں طعن كرتے سنو، يا پھر وہ آثار كو رد كرتا يا آثار يعنى احاديث كے علاوہ كچھ اور چاہتا ہو تو آپ اس كے اسلام ميں تہمت لگا سكتے ہيں، اور آپ اسے بلاشك و شبہ بدعتى اور صاحب ہوى و خواہشات سمجھ سكتے ہيں.
اور جب آپ سنيں كہ كسى شخص كے پاس حديث آتى ہے تو وہ حديث نہيں چاہتا بلكہ قرآن چاہتا ہے، تو آپ اس ميں شك نہ كريں كہ وہ زنديق ہے، آپ اس كے پاس سے اٹھ جائيں اور اسے چھوڑ ديں " انتہى
ديكھيں: شرح السنۃ ( 113 - 119 ) اختصار كے ساتھ.
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے رب سے جو بيان كيا ہے اس پر ايمان ركھنا واجب ہے، چاہے ہم اس كا معنى جانتے ہوں يا نہ جانيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم صادق المصدوق ہيں، اس ليے جو بھى كتاب و سنت ميں آيا ہے ہر مومن شخص كے ليے اس پر ايمان ركھنا واجب ہے، چاہے وہ اس كا معنى نہ بھى سمجھتا ہو " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 3 / 41 ).


واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 
Top