• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فضائل اعمال اور ضعیف روایات

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
فضائل اعمال اور ضعیف روایات

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا ضعیف روایات، فضائل اعمال میں حجت ہیں اور اس سلسلے میں محدثین کی رائے کیا ہے؟ اس کا مدلل جواب تفصیل سے عنایت فرمائیں۔؟



الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتهالحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ ضعیف روایات کو فضائل اعمال میں قبول کیا جائے گا یا نہیں ۔ لیکن اس بارہ میں حق اور درست موقف یہی ہے کہ فضائل اعمال میں بھی ضعیف روایات کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ یہی مسلک امام بخاری , امام مسلم , یحیى بن معین , اور ابو بکر ابن العربی رحمہم اللہ کا ہے۔ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ عارضۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ امام مسلم نے جو دلائل صحیح مسلم کے مقدمہ میں دیے ہیں ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ضعیف روایات ترغیب و ترہیب میں بھی پیش نہیں کی جاسکتیں ۔ اسی طرح امام ابن حزم رحمہ اللہ الفصل فی الأھواء والملل والنحل میں فرماتے ہیں : بعض اہل اسلام غافل یا مجہول یا کاذب راوی کی روایت کو قبول کر لیتے ہیں حالانکہ ہمارے نزدیک ضعیف روایت کو قبول کرنا حلال نہیں ہے اور نہ اسکی تایید حلال ہے ۔

اس ضمن میں کچھ دلائل پیش خدمت ہیں :

۱۔ اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ احکام شرعیہ خمسہ یعنی وجوب , ندب , اباحت , کراہت , تحریم میں ضعیف روایات قابل اعتبار نہیں ہیں جب اس بات پر اتفاق ہے تو نتیجتًا یہ بات بھی متفق علیہ عند اہل العلم بن جاتی ہے کہ فضائل اعمال میں بھی ضعیف روایات قبول نہیں ہیں !!!!

کیونکہ

ندب و استحباب میں فضیلت ہی تو ہوتی ہے !!! , تو جب فضیلت ہی ثابت نہ ہوئی تو فضائل اعمال بھی ثابت نہ ہوئے ....!!! خوب سمجھ لیں ۔

۲۔ اعمال و احکام میں ضعیف روایات کے قبول نہ ہونے پر تمام تر اہل علم اتفاق رکھتے ہیں اور کتاب وسنت سے اس کے دلائل دیتے ہیں ۔ ان دلائل کے عموم میں فضائل اعمال بھی داخل اور شامل ہیں ۔ جب فضائل اعمال بھی ان دلائل کے عموم میں شامل ہیں تو انہیں مستثنى قرار دینے کے لیے مستقل دلیل کی ضرورت ہے ۔ جبکہ اس استثناء کے لیے کتاب وسنت سے آج تک کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکی ۔ جبکہ صحیح مسلم کے مقدمہ میں امام مسلم نے ان روایات کے مردود ہونے کے بہت سے دلائل دیے ہیں ۔

۳۔ ضعیف روایت کے پایہ ثبوت تک پہنچنے میں شبہ ہوتا ہے , یعنی یہ یقین نہیں ہوتا کہ یہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا قول یا عمل ہے , اور اللہ تعالى نے فرمایا ہے :

﴿وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً﴾ [الإسراء : 36]
جس چیز کا تمہیں علم نہیں اسکے پیچھے نہ پڑو , یقنا سماعت وبصارت و دل , سب کے بارہ میں سوال کیا جائے گا۔

اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

«إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ فَمَنْ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ» ( صحيح مسلم كتاب المساقاة باب أخذ الحلال وترك الشبهات حــ 1599 )
یقنا حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے مابین کچھ مشتبہ امور ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے تو جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت محفوظ کر لی اور جو شبہات میں داخل ہوگیا تو وہ حرام میں ہی داخل ہوگیا , اس شخص کی طرح جو اپنی بکریوں کو (غیر) کی چراگاہ کے ارد گرد چراتا ہے تو قریب ہے کہ (اسکی بکریاں اس دوسرے شخص کی ) اس چراگاہ میں چلی جائیں , خبر داد ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے ہے اور اللہ کی چراگاہ اسکے حرام کردہ امور ہیں ۔

چونکہ ضعیف روایت میں شبہ ہوتا ہے لہذا اس پر عمل کرنا اس حدیث کی رو سے حرام میں واقع ہونا ہے ۔!!!!!

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
محدث فتوی
فتوی کمیٹی
فتاویٰ جات: موضوع و منکر روایات
فتویٰ نمبر : 118
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حدیث ضعیف کی وقعت و حیثیت :
ضعیف حدیث پر کس حدتک اعتماد اورکس قسم کے معاملات میں عمل اور استدلال کیا جا سکتا ہے ، اس تعلق سے علماء کے چار مذاہب ہیں:
۱۔ ضعیف حدیث مطلقاً قابل قبول اور قابل عمل ہے بشر ط یہ کہ اس باب میں کوئی صحیح اور مقبول روایت موجود نہ ہو، کیوں کہ ضعیف حدیث قیاس اور رائے پر عمل کر نے سے اولیٰ و بہتر ہے۔ اس قول کی نسبت امام ابو داؤد اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کی طرف کی گئی ہے ۔
چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وقیل یعمل بہ مطلقاً و تقدم عزو ذالک الی ابی داؤد و احمد و انہما یریان ذالک أقوی من رای الرجال ‘‘۔ (۱۲)
یہی نظریہ امام نسائی، امام احمد بن صالح المصری اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ کا بھی ہے ۔ (مذاہب اربعہ فی الباب اور تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ضعیف احادیث کی معرفت :ص:۲۳۶،۲۳۷ ص:۲۵۰تا ۲۵۸، ص: ۲۶۴تا ۲۳۹، ص: ۳۲۱ تا ۳۴۸)۔

۲۔ علماء کا دوسرا طبقہ اس بات کا قائل ہے کہ احکام و عقائد میں ضعیف حدیث مطلقاً قابل قبول نہیں البتہ فضائل اعمال، منقبت رجال اور ترغیب و ترھیب میں ضعیف احادیث ماسوائے موضوع مطلقاً بلا کسی شرط کے مقبول اور لائق عمل ہوں گی۔
اس نظریہ کے حاملین میں سے سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، ابو زکریا عنبری، عبد الرحمٰن بن مہدی، حافظ ابن عبد البر، حافظ ابن الصلاح رحمہم اللہ وغیرہ محدثین و محققین بھی ہیں ۔

۳۔ تیسرا طبقہ ان علماء کا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ ضعیف احادیث سے صفات باری تعالیٰ اور احکام و مسائل اخذ کر نا کسی طرح جائز نہیں ،البتہ فضائل اعمال ، منقبت رجال اور ترغیب و ترھیب وغیرہ میں ضعیف احادیث مقبول ہو تی ہیں مگر چند شرائط اور اصول و ضوابط کے ساتھ ۔
اس بات کے قائلین میں سے حافظ ابن حجر عسقلانی شارح صحیح بخاری، علامہ ابو محمد بن عبد السلام، ابن دقیق العید، شیخ علاء الدین الحصفکی، صاحب در مختار الحنفی، ابن عابد ین الحنفی،صاحب رد المحتار، علامہ جلال الدین سیوطی صاحب تدریب ، علامہ محمد زاہد الکوثری الحنفی، علامہ ابن الہمام الحنفی، علامہ ابو الحسنات عبد الحئی لکھنوی الحنفی وغیرہ رحمہم اللہ ہیں بلکہ بقول علامہ لکھنوی یہی جمہور کا مذہب ہے۔
۴۔ چوتھا طبقہ ان علماء کا ہے جو ضعیف احادیث پر عمل کر نا احکام و مسائل میں جائز تصور کر تے ہیں اور نہ فضائل اعمال ، منقبت رجال اور ترغیب و ترہیب میں۔
اس طبقہ میں مشہور تابعی حضرت قتادہ، امام یحییٰ ابن معین،امام ابن حبان، امام بخاری امام مسلم ،امام ابن حزم، امام خطیب بغدادی، علامہ ابن تیمیہ، امام شوکانی رحمہم اللہ اور ماضی قریب یا دور حاضر کی شخصیات میں سے علامہ البانی ، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا شمس پیر زادہ، مولانا حبیب الرحمٰن کاندھلوی حنفی، ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبد الجبار فرایوائی ، مولانا محمد اسحاق بھٹی وغیرھم ہیں۔حقیقت اور واقعیت تو یہ ہے کہ علمائے کرام کے اسی آخر الذکر (چوتھے )طبقے نے جو نظریہ اختیار کیا ہے وہی سب سے زیادہ صحیح، محتاط اور لائق اعتبار ہے۔
اس لیے کہ کسی عمل کی فضیلت کوثابت ماننا درحقیقت اس فضیلت اور ثواب وغیرہ کی صاحب شریعت کی جانب نسبت کرنے کے مساوی ہے اور جب تک واقعی اور معتمد طور پر کوئی بات صاحب شریعت سے ثابت نہ ہوجائے تب تک صاحب شریعت کی جانب اسے منسوب کر نا یا نسبت کو درست ماننا قطعاً درست نہیں ہے ،خواہ وہ بات احکام سے متعلق ہو یا فضائل سے۔زیادہ اور اہم ہو یا ذرہ برابر اور حد درجہ معمولی، دونوں صورتوں میں نسبت لازم آتی ہے جو ازروئے حکم صاحب شریعت( من قال علیّ مالم اقل فلیتبو�أ مقعدہ من النار)۔ (۱۳)حرام و نا جائز اور موجب دخول جہنم ہے۔
اس کے مزید وجوہ و اسباب پر اپنی جانب سے کوئی تبصرہ یا تجزیہ کر نے کے بجائے سطور ذیل میں چند ماےۂ ناز شخصیات کے اقتباسات حوالۂ قرطاس کر نے پر اکتفا کروں گا جو حقیقت امر کی توضیح کے لیے کافی و شافی ہوں گے ۔ ان شاء اللہ الرحمٰن۔
*امام مسلم صاحب الصحیح رحمہ اللہ خطبۂ صحیح مسلم میں رقمطراز ہیں :
’’وبعد یرحمک اللہ فلو لا الذی رأینا من سوء صنیع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔من حدث عنی بحدیث یری انہ کذب فھو احد الکاذبین‘‘۔
یعنی اطراف و جوانب میں پھیلی ہوئی برائیوں کی وجہ لوگوں کا احادیث صحیحہ کو چھوڑ کر ضعیف اور منکر احادیث کو اپنا شعار بنا لینا ہے ۔جب تک کہ اس شخص پر جو صحیح اور ضعیف احادیث کی معرفت رکھتا ہو،لازم اور واجب امر ہے کہ وہ صرف صحیح احادیث ہی روایت کرے ،متہم و معاندین (کتاب و سنت) کی روایت سے بچے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان :
’’ یا ایھا الذین آمنوا ان جا ء کم فاسق بنباء فتبیّنوا‘‘۔ اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان :
’’ممن ترضون من الشہداء ‘‘ اور ’’ و اشہدوا ذوی عدل منکم‘‘ اسی کے متقاضی ہیں کہ فاسق کی خبر ساقط اور غیر مقبول ہو۔۔۔ اگر چہ خبر اور شہادت میں باعتبار وجوہ یکسانیت نہیں ہو تی؛ لیکن بیشتر اور بعض اہم اعتبارات سے دونوں میں اشتراک اور یکسانیت بھی پائی جا تی ہے اس لیے ( معتبر) اہل علم کے نزدیک جس طرح فاسق کی شہادت مردود اور غیر مقبول ہے، اسی طرح اس کی خبر بھی ساقط اور مردود ہے۔ (مفہوم، ملخص)
*شیخ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ ضعیف روایت کے اخذ نہ کرنے سے متعلق احکام اور فضائل اعمال وغیرہ کے درمیان کوئی فرق نہیں بلکہ کسی شخص کے لیے رسول اللہ ﷺ سے مروی صحیح اور حسن احادیث کے علاوہ کسی اور چیز کے ساتھ کوئی حجت نہیں ہے ‘‘۔ (۱۴)
*علامہ ناصر الدین الألبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ جب کسی حدیث کا ضعف ثابت ہو جائے تو اس پر عمل کر نے کا جواز باقی نہیں رہتا، فضائل اعمال میں اس پر عمل کرنے کا اصرار در اصل اس ضعیف حدیث کے اثبات اور اسے شریعت بنا دینے کے ہم معنی ہے جو انتہائی مذموم فعل بلکہ قواعد شریعت سے بعید تر ہے۔ (۱۵)
*’’شہد شاہد من اہلہ‘‘ کے طور پر مولانا حبیب الرحمٰن صدیقی حنفی کاندھلوی کا وہ اقتباس برادران احناف کے تسکین قلب کے لیے ذیل میں ذکر کر رہا ہوں جسے موصوف نے ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ کی مشہور کتاب ’’الموضوعات الکبیر‘‘ کے اردو ترجمہ میں ’’ فائدہ‘‘ کے تحت درج کیا ہے کہ ضعیف روایت کے بارے میں علمائے حدیث کا اختلاف ہے ، اس امر پر تو سب متفق ہیں کہ احکام اور عقائد میں نہ تو ضعیف روایت قبول کی جائے گی اور نہ اسے بیان کیا جائے گا اور نہ اس پر عمل کیا جا سکتا ہے ، اگر چہ فقہائے متاخرین نے اس اصول کو پس پشت ڈال دیا ہے ، لیکن فضائل اور ترغیب و ترہیب میں علماء کا اختلاف ہے ، مذکورہ جماعت حدیث ضعیف کی روایت کی اجازت دیتی ہے اور اکثر احناف کا بھی یہی مذہب ہے ،لیکن کبارمحدثین اسے جائز تصور نہیں کر تے ، خود ائمہ میں امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ روایت حدیث میں بہت شدید تھے ،ان کے علاوہ امام بخاری، امام مسلم ، امام ترمذی، امام نسائی رحمہم اللہ ضعیف روایت کو قبول نہیں کر تے ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ یہاں تک فرماتے ہیں : ’’لا یقبل احادیث الفضائل الا مارواہ البخاری و مسلم والترمذی‘‘ یعنی فضائل کی کوئی روایت قبول نہ کی جائے سوائے اس کے جو امام بخاری، امام مسلم ، امام ترمذی رحمہم اللہ نے روایت کی ہو۔ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :
’’ أحادیث الفضائل کلہا موضوعۃ أو ضعیفۃ الا مارواہ البخاری و مسلم والترمذی ‘‘۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم اور جامع ترمذی کے علاوہ تمام فضائل کی احادیث یاتو موضوع ہیں یا ضعیف اور علی الخصوص موجودہ دور میں اہل بدع انہی روایات کے ذریعہ منکر ین احادیث اور دہریہ قسم کے لوگ دین پر معترض ہو تے ہیں، ایسی صورت میں علماء کا فرض ہے کہ وہ ضعیف روایات بیان کر نے سے احتیاط کریں اور ضعیف بہر صورت ضعیف ہے، چاہے وہ احکام میں ہو یا فضائل میں ، عقائد میں یا ترغیب و ترھیب میں اور پھر اس پر مسائل کی بنیاد رکھنا گویا کہ بالفاظ دیگر اسے تسلیم کر نے کے مترادف ہے ،تو یہ کیوں کہ جائز ہو گا۔ (۱۶)۔
مذکورہ بالا بیانات سے حقیقت امر پورے طور پر ظاہر و باہر ہو چکی ہے مگر چوں کہ ہماری گفتگو کا رخ بلا واسطہ برادران احناف کے ہر دوطبقہ (دیوبندیہ و بریلویہ) کی طرف ہے ،جن کے بارے میں ہمیں قوی امید ہے ۔اللہ کرے، میری یہ امید سراسر غلط ثابت ہو۔۔ کہ وہ ’’انا وجدناعلیہ آبآء نا ‘‘ کہہ کر بیان کر دہ حقائق سے کنارہ کش ہو جائیں گے۔ ، اس لیے مناسب سمجھتا ہو ں کہ کم از کم ان کے اپنے اختیار کر دہ نظریہ کی توضیح و تبیین کر دوں، جو در اصل موضوعات و مناکیر، ضعاف و ابا طیل سے کنارہ کشی کا بہترین ذریعہ ہے بشرط یہ کہ اسے صحیح طور پر سمجھ کر واقعی طور پر عملی جامہ پہنا یا جا سکے ۔
احکام و مسائل اور اعتقاد کے باب میں ضعیف احادیث سے سراسر اجتناب البتہ فضائل و منقبت کے باب میں ضعیف احادیث کا سراسراخذ قبول اکثر احناف کا مسلک اور مذہب ہے مگر چند شرائط کے ساتھ ۔
چناں چہ مولانا عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ’’ الآثار المرفوعۃ‘‘ میں ’’حرمۃ رواےۃ الحدیث الضعیف‘‘ کے تحت فرماتے ہیں :’’موضوع روایت کے بر خلاف ضعیف حدیث اگر احکام سے متعلق نہ ہو تو اس میں تساھل کیا جا تا ہے اور شرائط کے ساتھ اس کو قبول کیا جاتا ہے‘‘۔موصوف علیہ الرحمہ ایک جگہ فرماتے ہیں : ’’فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل جمہور کا مذہب ہے، لیکن مشروط ہے ‘‘ ۔ (۱۷)
مولانا لکھنوی رحمہ اللہ اپنے مذکورہ نظریہ کے متعلق ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’یہ مسلک معتمدد ہے ‘‘۔ (۱۸)
علامہ شیخ محمد جمال الدین قاسمی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ یہ مذہب ائمہ کے نزدیک معتمد ہے‘‘ ۔( ۱۹)
مولانا لکھنوی رحمہ اللہ ایک موقع پرقدرے تفصیلی بحث کر تے ہوئے ’’ صلوٰۃ التسبیح‘‘ کی روایت کے ضمن میں رقمطراز ہیں: ’’لہٰذا اس روایت کو ضعیف بتا کر اس پر عمل کو نا جائز بتا نا صریح مغالطہ ہے، کیوں کہ ضعیف حدیث پر عمل مطلقاً نا جائز ہو نا قطعی باطل ہے ، ہاں ایسی ضعیف حدیث جس کی سند متروک،ساقط،کذاب اورمتہم رواۃ سے خالی نہ ہو وہ شدت ضعف کے باعث لائق عمل نہیں ہو تی جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ (۲۰)
فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’الدر المختار‘‘ کے مؤلف شیخ علاء الدین حصکفی رحمہ اللہ بھی مذکورہ شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’فائدہ: شروط العمل بالحدیث الضعیف : عدم شدۃ ضعفہ و أن یدخل تحت أصل عام و أن لا یعتقد سنےۃ ذالک الحدیث‘‘۔ ( الدر المختار کتاب الطہارۃ ص:۲۳)
شیخ نظام الدین کیرانوی حنفی مؤلف ’’ کشف الأستار شرح الدر المختار ‘‘ اور علامہ ابن عابدین مؤلف رد المحتار ‘‘ رحمہما اللہ نے شیخ علاء الدین حصکفی رحمہ اللہ کے بیان کر دہ شرائط کو نہ صرف بلا کسی جرح کے قبول کیا ہے بلکہ اس کی تعلیق و تشریح بھی فرمائی ہے ، چناں چہ ’’عدم شدۃ ضعفہکی تشریح میں لکھتے ہیں : ’’ شدۃ الضعف ھو الذی لا یخلوا طریق من طرقہ من کذاب أو متہم بالکذب قالہ ابن حجر‘‘۔ یعنی ضعف شدید ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس روایت کی سندوں میں سے کوئی سند کذاب یا متہم بالکذب راوی سے خالی نہ ہو ، یہی بات ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فرمائی ہے ۔ نیز ’’ وان لا یعتقد سنےۃ ذالک الحدیث ‘‘ کا مطلب سنےۃ العمل بہ کے ذریعہ بیان فرمایا ہے ،یعنی در مختار کی عبارت میں بیان شدہ شرط’’ اس حدیث کی سنیت کا عقیدہ نہ رکھا جائے ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ حدیث پر عمل کر تے وقت اس عمل کو سنت نہ سمجھا جائے ۔ (۲۱)۔
مولانا سعید احمد پالن پوری حنفی (استاذ دار العلوم دیوبند) ’’تحفۃ الدر‘‘ میں اس طرح رقمطراز ہیں :
حدیث ضعیف کا حکم : معتمد قول یہ ہے کہ اعمال ثابتہ کے فضائل میں ، پند ووعظ میں اور مناقب رجال میں حدیث ضعیف پر عمل جائز ہے بشرطیکہ ضعف شدید نہ ہو یا وہ کسی معمول بہ کے تحت آتی ہو‘‘۔ (۲۲)
مذکورہ بالا بیانات سے مجموعی طور پریہ بات ثابت اور واضح ہوئی کہ احناف کے نزدیک مطلق طور پر ضعیف احادیث فضائل اعمال میں بھی مقبول نہیں بلکہ اس کی قبولیت مشروط ہے ۔ اور وہ شروط بقول علامہ عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بیان فرمایا ہے۔
چناں چہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بیان کردہ شرائط اس طورپر تحریر فرماتے ہیں: (۱) حدیث کا ضعف شدید نہ ہو لہٰذا کذاب متہم بالکذب اور فحش غلطی کر نے والے راوی کی حدیث خارج ہو جائے گی جب کہ وہ روایت کر نے میں منفرد ہو۔
(۲) وہ حدیث ضعیف (باعتبار مضمون) کسی اصل عام کے تحت داخل ہو، لہٰذا ہر موضوع حدیث خارج ہو جائے گی کیوں کہ اس کے لیے کوئی اصل نہیں ہوتی۔
(۳) اس حدیث ضعیف پر عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کا اعتقاد نہیں رکھنا چاہئے، تاکہ نبی ﷺ کی جانب کسی ایسی بات کا انتساب نہ ہو ،جسے آپ نے ارشاد نہیں فرمایا ہے ۔ (۲۳)
حافظ ابن حجر اور علامہ ابن الحاج رحمہما اللہ نے شرائط مقررہ کی رعایت کر تے ہوئے عمل کر نے والے کے لیے ایک نہایت اہم اور قابل لحاظ بات یہ بھی بیان کی ہے کہ وہ شخص’’اس حدیث ضعیف کی تشہیر نہ کرتا پھرے تاکہ کوئی دوسرا انسان ضعیف حدیث پر عمل نہ کرے یا اس چیز کو شریعت سمجھ نہ بیٹھے جو فی الواقع شریعت نہیں ہے یا اس طرح اس کو عمل کرتا دیکھ کر بعض جاہل لوگ یہ نہ گمان کر لیں کہ وہ صحیح سنت ہے۔ (۲۴)
نوٹ: مذکورہ سبھی شرائط و اصول صرف ان اعمال کی فضیلت سے متعلق ہیں جن کا ثبوت صحیح طور پر مأخذ شرعیہ صحیحہ سے موجود ہو وگر نہ اگرکوئی عمل پہلے سے مسلّم الثبوت نہیں ہے تو اس کی فضیلت کے لیے ضعیف روایات کا مذکورہ شرائط کے ساتھ بھی سہارا لینا درست نہیں ہے جیسا کہ اس تفصیل کا اجمالی اشارہ مولانا سعید احمد پالن پوری حنفی استاذدار العلوم دیوبند کے مذکورہ عبارت کے وارد لفظ ’’اعمال ثابتہ‘‘ میں واضح طور پر موجود ہے۔
*****
حوالہ
(۱۲)۔تدریب الراوی ص:۱۵۲۔ (۱۳)۔صحیح ابن حبان، فصل ذکر ایجاب دخول النار لمن نسبہ الشئی الی المصطفیٰ ﷺ وھو عالم الصحۃ ج۱ ص:۲۷۔(۱۴)۔الباعث الحثیث ص:۸۶۔۸۷۔(۱۵)۔مشکوٰۃ المصابیح تحقیق الألبانی ۱؍۲۱۲۔ (۱۶)۔موضوعات کبیر ص:۵۱۔۵۳، بحوالہ ضعیف احادیث کی معرفت ص:۳۴۱۔۳۴۲۔(۱۷)۔الآثار المرفوعۃ ،بحوالہ سابق۔ (۱۸)۔الأ جوبۃ الفاضلۃ ص:۵۳ ،بحوالہ سابق ص:۲۶۴۔ (۱۹)۔قواعد التحدیث ص:۱۱۳ بحوالہ سابق۔ (۲۰)۔الآثار المرفوعۃ ص: ۱۴۱ بحوالہ سابق ص: ۲۲۹۔ (۲۱)۔رد المحتار کتاب الطہارۃ ص: ۲۵۳و کشف الأستار ،کتاب الطہارۃ ص:۲۳۔ (۲۲)۔تحفۃ الدرر شرح نخبۃ الفکر ص:۴۵۔ (۲۳)۔تدریب الراوی للسیوطی ص:۱۵۲۔ (۲۴)۔تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب لابن حجر ص: ۲۱، المدخل لابن الحاج ص:۱؍۲۹۱ بحوالہ ضعیف احادیث کی معرفت ص:۲۶۶۔۳۶۷

دیکھیئے :سہ ماہی ترجمان السنہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
علامہ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ، لکھتے ہیں کہ :
شیخ ناصر الدین البانی اعلان فرماتے ہیں کہ ہم دنیا کے مشرق و مغرب میں رہنے والے اپنے مسلمان بھائیوں کو نصیحت کر تے ہیں کہ ضعیف احادیث پر مطلقاً عمل چھوڑ دیں اور اپنی ہمتوں کا رخ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثابت شدہ احادیث کی طرف موڑیں کیونکہ اس میں ضعیف روایات سے بے نیازی ہے اور اس میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر جھوٹ میں واقع ہونے سے نجات ہے۔
(مقدمہ صحیح الجامع ١/٥٦ بحوالہ مقالات شیخ زبیر علی زئی حفظہ اﷲ ٢/٢٧٧)

ضعیف احادیث.gif
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
محدثین ضعیف روایات کیوں بیان کرتے تھے؟

شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 22 December 2014 10:34 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محدثین کرام نے کتب صحیحہ کے علاوہ دوسری کتابوں میں ضعیف اور مردود روایات کیوں لکھی ہیں؟ براہِ مہربانی اس کی وضاحت فرمائیں۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حافظ ابن حجر نے فرمایا: ’’بل اکثر المحدثین فی الاعصار الماضیة من سنة مائتین و هلم جرا اذا ساقوا الحدیث یاسنادہ اعتقدوا انهم برؤا من عهدته۔ والله اعلم‘‘

بلکہ سن دو سو ہجری سے لے کر بعد کے گزشتہ زمانوں میں محدثین جب سند کے ساتھ حدیث بیان کر دیتے تو یہ سمجھتے تھے کہ وہ اس کی مسئولیت سے بری ہوچکے ہیں۔ واللہ اعلم (لسان المیزان ج۳ ص۷۵ ترجمۃ سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی، دوسرا نسخہ ج۳ ص۳۵۳، اللالی المنصوعہ للسیوطی ج۱ ص۱۹، دوسرا نسخہ ص۲۵، تذکرۃ الموضوعات للفتنی ص۷)

حافظ ابن تیمیہ نے فرمایا: لیکن (ابو نعیم الاصبہانی نے) روایات بیان کیں جیسا کہ ان جیسے محدثین کسی خاص موضوع کے بارے میں تمام روایتیں بیان کر دیتے تھے تاکہ (لوگوں کو) علم ہو جائے۔ اگرچہ ان میں سے بعض کے ساتھ حجت نہیں پکڑی جاتی تھی۔ (منہاج السنہ ج۴ ص۱۵)

سخاوی نے کہا: اکثرمحدثین خصوصاً طبرانی، ابو نعیم اور ابن مندہ جب سند کے ساتھ حدیث بیان کرتے تو وہ یہ عقیدہ رکھتے یعنی سمجھتے تھے کہ وہ اس کی مسئولیت سے بری ہوچکے ہیں۔ (فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث ج۱ ص۲۵۴، الموضوع)

ان تحقیقات سے معلوم ہوا کہ صحیحین ک علاوہ کتب حدیث مثلاً الادب المفرد للبخاری اور مسند احمد وغیرہما میں ضعیف حدیثیں بھی ہیں، جنھیں سند کے ساتھ روایت کرکے محدثین کرام بری الذمہ ہوچکے ہیں۔ یہ روایات انھوں نے بطورِ حجت و استدلال نہیں بلکہ بطورِ معرفت و روایت بیان کر دی تھیں لہٰذا اصول حدیث اور اسماء الرجال کو مدنظر رکھنے کے بغیر صحیحین ک علاوہ دیگر کتب حدیث کی روایات سے استدلال یا حجت پکڑنا اور انھیں بطورِ جزم بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)
ج2ص298
فتاویٰ جات: علوم حدیث
فتویٰ نمبر : 13715۔۔۔

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
فتاویٰ جات
فتویٰ نمبر : 218

کیاضعیف اور موضوع احادیث رسول اللہ ﷺپر بہتان ہیں؟
شروع از بتاریخ : 06 December 2011 01:14 PM

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا ضعیف اور موضوع احادیث رسول اللہ ﷺپر بہتان ہیں؟۔ ازراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں جزاكم الله خيرا

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔ضعیف روایات کئی قسمیں ہیں ۔بعض نے سترہ اور بعض نے ۵۱ تک بھی بیان کی ہیں اور ہر ایک کے ضعف میں فرق ہوتا ہے۔ لہذا ضعیف روایات کے بارے یہ بات کہنا درست نہیں ہے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان ہیں بلکہ محدثین کے صحیح اور راجح قول کے مطابق ضعیف روایات میں صحت کا امکان موجود ہوتا ہے لیکن یہ پہلو مرجوح ہوتا ہے اور ضعف کا پہلو راجح ہونے کی وجہ سے ضعیف کا حکم لگایا جاتا ہے۔اس کو آپ سادہ سی مثال سے یوں سمجھیں کہ ہر خبر میں سچ اور جھوٹ دونوں امکانات موجود ہوتے ہیں اور ان میں سے سچ کا پہلو راجح ہو تو وہ خبر سچی اور جھوٹ کا پہلو راجح ہو تو خبر جھوٹی کہلاتی ہے۔

2۔موضوع روایات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان ہیں اور بعض محدثین نے انہیں حدیث کہنے سے منع فرمایا ہے-کیونکہ موضوع روایت میں یہ بات قطعی ثابت ہوتی ہے کہ اس روایت کی نسبت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی ہے، لہذا یہ بہتان ہے جب کہ ضعیف روایت میں اس کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ ہونے کی نسبت قطعی ثابت نہیں ہوتی ہے۔

وباللہ التوفیق
فتویٰ کمیٹی


محدث فتویٰ
 
Top